افسانہ ٴ نسناس ١
هيهات لن یخطی القدر من القضاء این المفرّ ؟
تقدیر کا تير خطا کرکے کتنا دور چلا گيا قضا سے بچنے کی کوئی راہ فرار نہيں ہے .نسناس
جيسا کہ ہم نے گزشتہ فصل ميں اشارہ کيا کہ ملل و نحل اور ادیان و عقائد کی کتابيں
لکهنے والے مؤلفين کسی دليل ، سند اور ماخذکے ذکر کرنے کی ضرورت کا احساس کئے بغير
ہر جهوڻے مطلب اور افسانے کو اپنی کتابوں ميں نقل کرتے ہيں اور اگر بعضوں نے سند و ماخذکا
ذکرکيا بهی ہے تو وہ سند و مآخذ صحيح نہيںہيں کيونکہ افسانوں کيلئے سند جعل کرنا بذات
خود ایک دلچسپ کارنامہ ہے جو اس افسانہ کے صحيح یا غلط ہونے پر کسی طرح دلالت نہيں
کرتا ہے اگر گزشتہ روایتوں کا آپس ميں موجود تناقض اور ان کے مضمون و متون کا من گڑهت اور
ناقابل قبول ہونا ---جيسا کہ گزشتہ صفحات ميںا ن کی نشاندہی کی گئی ---ان کے جعلی اور
جهوٹ ہونے کو ثابت کرنے ميں کافی نہ ہوں اور انهيں بے اعتبار نہ کرسکيں تو ہم آنے والی فصل
ميں گزشتہ روایتوں کے مانند چند دوسری جهوڻی روایتوں کو نقل کریں گے
جو مسلسل اور متصل سندکے ساته صاحب خبر تک پہنچتی ہيں تا کہ اسی قسم کی
افسانوی روایتوں کی سندوں کی قدر و قيمت بيشتر واضح ہو سکے ، اور معلوم ہوجائے کہ ان
روایتوں کا ظاہر طور پر مستند ہونا ان کے صحيح اور حقيقی ہونے کی دليل نہيں ہوسکتی ہے ،
کيونکہ بہت سی جعلی اور افسانوی روایتےں مسلسل سند کے ساته اصلی ناقل تک پہنچتی
ہيں ليکن ہرگز صحيح اور واقعی نہيں ہوتيں ۔
افسانہٴ نسناس کی با سند روایتيں
اب ہم ان روایتوں کا ایک حصہ اس فصل ميں ذکر کرتے ہيں جو سند کے ساته نقل ہوئی
ہيں ليکن پهر بهی صحيح اور واقعی نہيں ہيں اس کے بعد والی فصلوں ميں ان پر بحث و تحقيق
کریں گے نتيجہ کے طور پر اس حقيقت تک پہنچ جائيں گے کہ صرف سند نقل کرنا روایت کے
صحيح اور اصلح ہونے کی دليل نہيں ہے۔
١۔ مسعودی ، عبد الله بن سعد بن کثير بن عفير مصری سے اور وہ اپنے باپ سے اور وہ
یعقوب بن حارث بن نجم سے اور وہ شبيب بن شيبہٴ تميمی سے نقل کرتا ہے کہ : ميں“ شحر
١ ميں اس علاقہ کے ”
---------
١۔شحر، بحرالہند کے ساحل پرےمن کی طرف اےک علاقہ ہے (معجم البلدان(
رئيس و سرپرست کا مہمان تها ، گفتگو کے ضمن ميں “ نسناس” کی بات چهڑگئی ميزبان نے
اپنے خدمت گذاروں کو حکم دیا کہ اس کيلئے ایک “ نسناس ” شکار کریں ۔ جب ميں دوبارہ اس
کے گهر لوٹ کرآیا تو ميں نے دیکها کہ خدمت گذار ایک نسناس کو پکڑلائے ہيں نسناس نے
ميری طرف مخاطب ہوکر کہا : تجهے خدا کی قسم دیتا ہوں ميرے حال پر رحم کرنا ميرے دل
ميں بهی اس کيلئے ہمدردی پيدا ہوئی ،ميں نے اپنے ميزبان کے نوکروں سے کہا کہ اس
نسناس کو آزاد کردوتا کہ چلا جائے انہوں نے مير ی درخواست پر نسناس کو آزاد کردےا ۔ جب
کهانے کيلئے دستر خوان بچها ، ميزبان نے سوال کيا کيا نسناس کو شکار نہيںکيا ہے ؟ انہوں
نے جواب ميںکہا: کيوں نہيں ؟
ليکن تيرے مہمان نے اسے آزاد کر دیا ، اس نے کہا: لہذا تيار رہنا کل نسناس کو شکار
کرنے کيلئے جائےں گے دوسرے دن صبح سویرے ہم شکار گاہ کی طرف روانہ ہوئے اچانک ایک
نسناس پيدا ہوا اور اچهل کود کر رہا تها ، اسکا چہرہ اور پير انسان کے چہرہ اور پير جيسا تها ،
اس کی ڻهڈی پر چند بال تهے اور سينہ پر پستان کے مانند کوئی چيز نمودار تهی دو کتے اس
کا پيچها کررہے تهے او وہ کتوں سے مخاطب ہوکر درج ذیل اشعار پڑه رہا تها :
ا فسوس ہے مجه پر ! روزگار نے مجه پر غم و اندوہ ڈال دیا ہے۔
ا ے کتوں ! ذرا ميرا پيچها کرنے سے رک جاؤ اور ميری بات کو سن کرےقےن کرو۔
ا گر مجه پر نيند طاری نہ ہوتی توتم مجهے ہر گز پکڑنہيں سکتے تهے ، یا مرجاتے یا مجه
سے دور ہوجاتے ۔
ميں کمزور اور ڈرپوک نہيںہوں اور ایسا نہيں ہوں جوخوف و ہراس کی وجہ سے دشمن
سے پيچهے ہڻتا ہے ۔
ليکن یہ تقدیر الٰہی ہے کہ طاقتور اور سلطان کو بهی ذليل و خوار کردیتا ہے ١
شبےب کہتا ہے کہ آخر کار ان دو کتوں نے نسناس کے پاس پہنچ کر اسے پکڑ
ليا ۔
٢۔ حموی معجم البلدان ميں اس داستان کو شبيب سے نقل کرکے بيشتر تفصيل سے
بيان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ شبيب نے کہا:
” ميں شحر ” ميں خاندان “ مہر” کے ایک شخص کے گهر ميں داخل ہوا یہ اس علاقہ کا
رئيس اور محترم شخص تها ميں کئی روز اس کا مہمان تها اور ہر موضوع پر بات کرتا تها اس اثناء
ميںميں نے اس سے نسناس اور اس کی کيفيت کے بارے ميںسوال کيا اور اس نے کہا: جی
ہاں نسناس اس علاقہ ميں ہے اور ہم اسکا شکار کرتے ہيںاور اس کا گوشت
---------
١ ․الویل لی مما بہ دهانی
دهری من الهموم و الاخزان
قفا قليلاً ایها الکلبان
استمعا قولی و صدقانی
انکما حين تحاربانی
الفيتما حضرا عنانی
لو لا سباتی ما ملکتمانی
حتٰی تموتا او تفارقانی
لست بخوار و لا جبان
و لابنکس رعش الجنان
لکن قضاء الملک الرحمان
یذل ذا القوة و السلطان
کهاتے ہيں مزید کہا : نسناس ایک ایسا حيوان ہے جس کے ایک ہاته اور ایک پير ہےں اور اس
کے تمام اعضا یعنی کان ، آنکه ایک سے زیادہ نہيں ہيں اور اس کا نصف چہرہ ہوتا ہے ۔
شبيب کہتا ہے : خدا کی قسم دل چاہتا ہے کہ اس حيوان کو نزدیک سے دیکه لوں،
اس نے اپنے نوکروں کو حکم دیاکہ ایک نسناس کا شکار کریں ۔ ميں نے دوسرے دن
دیکها کہ اس کے نوکروں نے اس حيوان کو پکڑ لےا جس کا چہرہ انسان کے جيسا تها ، ليکن نہ
پورا چہرہ بلکہ نصف چہرہ اس کے ایک ہاته تها وہ بهی اس کے سينہ پر لڻکا ہوا تها اسی طرح
اس کا پير بهی ایک ہی تهاجب نسناس نے مجهے دیکها تو کہا؛ ميںخدا کی اور تيری پناہ چاہتا
ہوں ميں نے نوکروں سے کہا کہ اسے آزاد کردو انہوں نے ميرے جواب ميں کہا: اے مرد! یہ
نسناس تجهے فریب نہ دے کيونکہ یہ ہماری غذا ہے ليکن ميرے اصرار اور تاکيد کے نتيجہ ميں
انہوں نے اسے آزاد کردیا ۔ اور نسناس بهاگ گيا اور طوفان کی طرح چلا گيا اور ہماری آنکهوں
سے غائب ہوگيا جب دوپہر کے کهانے کا وقت آیا اور دسترخوان بچهایاگياتو ميزبان نے اپنے
نوکروں سے سوال کيا : کيا ميں نے کل تمہيں نہيں کہا تها کہ ایک نسناس کا شکار کرنا ؟
انہوں نے کہا: ہم نے ایک کو شکار کيا تها ليکن تيرے مہمان نے اسے آزاد کردیا ميزبان نے ہنس
کر کہا: لگتا ہے کہ نسناس نے تجهے فریب دیا ہے کہ تم نے اسے آزاد کيا ہے اس کے بعد
نوکروں کو حکم دیا کہ کل کيلئے ایک نسناس کا شکار کریں شبيب کہتا ہے : ميں نے کہا اجازت
دو گے کہ ميں بهی تيرے غلاموں کے ہمراہ شکار گاہ جاؤں اور نسناس کو شکار کرنے ميں ان
کی مدد کروں ؟ اس نے کہا : کوئی مشکل نہيں ہے ،ہم شکاری کتوں کے ہمراہ شکار گاہ کی
طرف روانہ ہوئے اور رات کے آخری حصہ ميں ایک بڑے جنگل ميں پہنچے ، اچانک ایک آواز سنی
جيسا کہ کوئی فریاد بلند کررہا تها: اے ابو مجمر ! صبح ہوچکی ہے ، رات نے اپنا دامن سميٹ
لےاہے ، شکاری سر پر پہونچ چکا ہے لہذا جلدی سے اپنے آپ کو کسی پنا گاہ ميں پہنچا دو
.١!
دوسرے نے جواب ميں کہا: کلی و لا تراعی “ کهاوٴ اور ناراض مت ہو“
راوی کہتا ہے : ميں نے دیکها کہ “ ابو مجمر ” کو دو کتوں نے محاصرہ کيا ہے اور وہ یہ
اشعار پڑه رہا ہے : الویل لی مما دهانی ․․ تا آخر اشعار ( کہ گزشتہ روایت ميںملاحظہ فرمایا(
شبيب کہتا ہے : آخر کار وہ دو کتے “ ابو مجمر ” کے نزدیک پہنچے اور اسے پکڑ ليا ۔
جب دوپہر کا وقت آیا نوکروں نے اسی ابو مجمر کا کباب بنا کر ميزبان کے دستر خوان پر رکها۔
٣۔ پهر یہی حموی ، حسام بن قدامہ اور وہ اپنے باپ سے اور وہ بهی اپنے باپ سے نقل
کرتا ہے : ميرا ایک بهائی تها ، اس کا سرمایہ ختم ہوا تو وہ تنگ دست ہوگےا۔ سرزمين ‘ ‘ شحر
”ميں ہمارے چند چچيرے بهائی تهے ۔ ميرا بهائی اس اميد سے کہ چچيرے بهائی اس کی
کوئی مالی مدد کریں گے “ شحر ” کی طرف روانہ ہوا ۔ چچيرے بهائيوں نے اس کی آمد کو
غنيمت سمجه کر اس کا استقبا ل کيا اور اس کی مہمان
---------
١۔ یا ابا مجمر! ان الصبح قد اسفر ، و الليل قد ادبر و القنيص قد حضر فعليک بالوزر ۔
نوازی اور خاطر تواضع کرنے ميںکوئی کسر باقی نہ رکهی ۔ ایک دن اسے کہا کہ اگر ہمارے
ساته شکار گاہ آجاؤ گے توتيرے لئے یہ سےر و سياحت نشاط و شادمانی کا سبب ہوگی ۔
مہمان نے کہا اگر مصلحت سمجهتے ہيں تو کوئی حرج نہيں ہے اور ان کے ساته شکار گاہ کی
طرف روانہ ہوا یہاں تک ایک بڑے جنگل ميں پہنچے اسے ایک جگہ پرڻهہرا کر خود شکار کرنے
کيلئے جنگل ميں داخل ہوئے ۔ وہ مہمان کہتا ہے : ميں ایک کنارے پر بيڻها تها کہ اچانک دیکها
کہ ایک عجيب الخلقہ مخلوق جنگل سے باہر آئی ظاہری طور پر یہ مخلوق انسان سے شباہت
رکهتی تهی اس کے ایک ہاته اور ایک پير تها اور ایک آنکه اور نصف ریش یہ جانور فریاد بلند کررہا
تها : الغوث ! الغوث! الطریق الطریق عافاک الله ( مدد ! مدد! راستہ چهوڑو ! راستہ چهوڑو ! خدا
تجهے سلامت رکهے(
داستان کا راوی کہتا ہے : ميں اسکے قيافہ اور ہيکل کو دیکه کر ڈر گيا اور بهاگ کهڑا ہوا
اور متوجہ نہيں ہوا کہ یہ عجيب مخلوق وہی شکار جس کے بارے ميں ميرے ميزبان نے گفتگو
کی تهی ، وہ جانور جب اچهلتے کودتے ہوئے ميرے نزدیک سے گزرا تها تو درج ذیل مضمون کے
اشعار پڑه رہا تها ۔
صياد کی صبح ہوئی شکاری کتوں کے ہمراہ شکار پر نکل پڑے ہےں آگاہ ہوجاؤ
تمہارےلئے نجات کا راستہ ہے۔
ليکن موت سے کہاں فرار کيا جاسکتا ہے ؟ مجهے خوف دلایا جاتا اگر اس خوف دلانے
ميںکوئی فائدہ ہوتا!
مقدر کے تير کا خطا ہونا بعيد ہے تقدیر سے بهاگنا ممکن نہيں ١
جب وہ مجه سے دور چلا گيا، تو فوراً ميرے رفقاء جنگل سے باہر آگئے اور مجه سے
کہا : ہمارا شکار کہاں گيا جسے ہم نے تيری طرف کوچ کيا تها ؟ ميں نے جواب ميںکہا: ميں نے
کوئی شکار نہيں دیکها ، ليکن ایک عجيب الخلقة اور حيرت انگيز انسان کو دیکها کہ جنگل سے
باہر آےا اور تيزی کے ساته بهاگ گيا ۔ ميں نے اس کے قيافہ کے بارے ميں تفصيلات بتاتی تو ا
---------
١۔غدا القنيص فابتکر
باکلب وقت السحر
لک النجا وقت الذکر
ووزر و لا وزر
این من الموت المفر ؟
حذّرت لو یغنی الحزر
هيهات لن یخطی القدر
من القضاء این المفر؟ !
نہوں نے ہنس کر کہا: ہمارے شکار کو تم نے کهودیا ہے ميں نے کہا؛ سبحان الله کيا تم لوگ آدم
خور ہو ؟ جس کو تم اپنا شکار بتاتے ہو وہ تو آدم زاد تها باتيں کرتا تها اور شعر پڑهتا تها ۔ انہوں
نے جواب ميں کہا: بهائی ! جس دن سے تم ہمارے گهر ميں داخل ہوئے ہو صرف اسی کا
گوشت کهاتے ہو ، کبهی کباب کی صورت ميںتو کبهی شوربے دار گوشت کی صورت ميں ۔ ميں
نے کہا: افسوس ہو تم پر ! کيا ان کا گوشت کهایا جاسکتاہے اور حلال ہے ؟ انہوں نے کہا؛ جی
ہاں چونکہ یہ پيٹ والے ہيں اور جگالی بهی کرتے ہيں لہذا ن کا گوشت حلال ہے ۔
۴۔ پهر سے حموی -- “ ذ غفل ” نسابہ ٢ سے اور وہ ایک عرب شخص سے نقل کرتا ہے
کہ ميں چند
لوگو کے ہمراہ “ عالج ” کے صحرا ميں چل رہے تهے کہ ا تفاق سے ہم راستہ بهول گئے یہاںتک
سمندر کے ایک ساحل پر واقع جنگل ميں پہنچ گئے اچانک دیکها کہ اس جنگل سے ایک بلند
قامت بوڑها باہر آیا ۔ اس کے سروصورت انسان کے مانند تهےليکن بوڑها تها ایک ہی آنکه رکهتا
تها اور تمام اعضاء ایک سے زیادہ نہ تهے جب اس نے ہميںدیکها تو بڑی تيزی سے تيز رفتار
گهوڑے سے بهی تيز تر رفتار ميں بهاگ گيا ، اسی حالت ميں اس مضمون چند اشعار بهی
پڑهتا جارہاتها:
خارجی مذہب والوں کے ظلم سے تيزی کے ساته فرار کررہا ہوں چونکہ بهاگنے کے
علاوہ کوئی اور چارہ نہيں ہے ۔
ميں جوانی ميں بڑا طاقت ور اور چالاک تها ليکن آج کمزور اور ضعيف ہوگےا ہوں ١
۵۔ پهر حموی کہتا ہے : یمن کے لوگوں کی روایتوں ميں آیا ہے کہ کچه لوگ نسناس
کے شکار کيلئے گئے لشکر گاہ ميں انہوں نے تين نسناسوں کودیکها ان ميں سے ایک کو
شکار کيا ۔ باقی دونسناس درختوں کی پيچهے چهپ گئے اور شکاری انهيںڈهونڈ نہسکے ۔
ایک شکار ---جس نے نسناس کا شکار کيا تها ---نے
---------
٢۔ ذغفل ، حنطلہ بن زید کا بيڻاہے ابن ندیم کہتا ہے؛ ذغفل کا اصل نام حجر ہے اورذغفل اس کا لقب ہے اس نے
عصر پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کو درک کيا ہے ليکن اس کا صحابی ہونا علماء تراجم کے یہاں اختلافی
مسئلہ ہے قول صحيح یہ ہے کہ اسے پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے صحابی ہونے کا افتخار ملا ہے معاویہ
کی خلافت کے دوران اس کے پاس گيا معاویہ نے اس سے ادبيات ، انساب عرب اورعلم نجوم کے بارے ميں
چندسوال کئے اس کی معلومات کی وسعت اسے بہت پسند آئی حکم دیا تا کہ اس کے بيڻے کو علم انساب ،
نجوم ، اورادبيات سکهائے ، دغفل جنگ ازارقہ ميں ۶٠ هء سے پہلے دولاب فارس ميں ڈوب گيا ۔ فہرست ابن ندیم
٢٣۶ رجوع کيا جائے ۔ / ۴۶۴ نمبر ٢٣٩٩ اور تقریب التہذیب ١ / ١٣٢ اصابہ ١ / ١٣١ ، و المحجر ۴٧٨ ، اسدا لغابہ ٢
١۔ فررت من جود الشراة شدا اذ لم اجد من القرار بدا
قد کنت دهراً فی شبابی جلدا فها انا اليوم ضعيف جدا
کہا: خداکی قسم جسے ہم نے شکار کيا ہے بہت ہی چاق اور سرخ خون والا ہے جب اسکی
آواز کو درختوںميں چهپے نسناسيوں نے سنی تو انميں سے ایک نے بلند آواز ميں کہا: چونکہ
اس نے “ صرو ” ١
کے دانے زیادہ کهائے تهے لہذا چاق ہوا ہے جب شکاریوں نے اس کی آواز سنی اس کی طرف
دوڑے اور اسے بهی پکڑ ليا ۔ ایک شکاری نے ۔ جس نے اس نسان کا سر کاڻا تها۔ کہا:
خاموشی اور سکوت کتنی اچهی چيز ہے ؟ اگر یہ نسناس زبان نہ کهولتا ہم اس کی
مخفی گاہ کو پيدا نہيں کرسکتے اور اسے پکڑ نہيں سکتے تهے اسی اثناء ميں درختوں کے بيچ
ميں تيسرے نسناس کی آواز بهی بلند ہوئی اور اس نے کہا: دیکهئے ميں خاموش بيڻها ہوں اور
زبان نہيں کهولتا ہوں ۔ جب اس کی آواز کو شکاریوں نے سنا تو اسے بهی پکڑ ليا اس طرح
تينوں نسناسوں کو پکڑ کر ذبح کيا اور ان کا گوشت کها ليا۔
یہ تها ان روایتوں کا ایک حصہ جنہيں سند کے ساته نسناس کے بارے ميں نقل کيا گيا
ہے اگلی فصل ميں اور بهی کئی روایتيں نسناس کے وجود کے بارے ميں نقل کرکے ان پر بحث
و تحقيق کریں گے۔
نسناس کے پائے جانے اور اسکے معنی کے بارے ميں نظریات
انّ حيّاً من قوم عاد عصوا رسولهم فمسخهم الله ن سناساً
قوم عاد کے ایک گروہ نے اپنے پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم کی نافرمانی کی تو خدا نے
انهيں نسناس کی صورت مےں مسخ کردےا ۔ ( بعض لغات کی کتابيں(
ہم نے گزشتہ فصل ميں نسناس کے بارے ميں کئی روایتيں نقل کيں ۔ اب ہم اس فصل ميں
نسناس کے وجود اورتعارف کے بارے ميں کئی دوسری روایتيں نقل کریں گے اور اس کے بعد ان
روایتوں پر بحث و تحقيق کریں گے ۔
١۔ حموی نے احمد بن محمد ہمدانی ١ کی کتاب سے نسناس کے وجود کے بارے
ميںيوں نقل کيا ہے:
” آدم ” کی بيڻی “ وبار ” ہر سال صنعا ميں “شحر ” اور ‘ تخوم ” کے درميان واقع ایک وسيع
اورسرسبز
---------
١۔ احمد بن محمد بن اسحاق ، معروف بہ ابن الفقيہ ہمدانی صاحب ایک کتاب ہے جو ملکوں اور شہروں کی
شناسائی پر ہے اوریہ کتاب دو ہزار صفحات پر مشتمل ہے اس کی وفات ٣۴٠ ه ء ميں واقع ہوئی ہے فہرست ابن
ندیم ٢١٩ اور هدیة العارفين ۔
شاداب محل ميں کچه مدت گزاری تهی چونکہ یہ علاقہ روئے زمين پر پر برکت ترین ،سر سبز و
شاداب ترین علاقہ تها اور دنيا کے دوسرےحصوں کی نسبت یہاں پر بيشتر درخت ، باغات ، ميوہ
اور پانی جيسی نعمتيں تهيں ، اس لئے تمام علاقوں سے مختلف قبائل وہاں جاکر جمع ہوتے
تهے بہت سی زمينيں آباد کی گئيں تهی اور ان کی ثروت دن بہ دن بڑهتی جا رہی تهی ، اس
لئے ان لوگوں نے تدریجاً عياشی اور خوش گزارانی کے لئے اپنا ڻهکانابناليا تها اور کفر و الحاد
کی طرف مائل ہوگئے تهے اور طغيانی و بغاوت پر اتر آئے تهے خداوند عالم نے بهی ان کی اس
نافرمانی اور بغاوت کے نتيجہ ميں ان کی تخلےق و قيافہ کو مسخ کرکے انهيں نسناس کی
صورت ميں تبدیل کردیاتا کہ ان کے زن و مرد نصف سر و صورت اور ایک آنکه ایک ہاته اور ایک ڻانگ
والے ہوجائےں ، وہ اس قيافہ و ہيکل کی حالت ميں سمندر کے کنارے نيزاروں(جهاڑیوں) ميں
پهرتے تهے اومویشيوں کی طرح چرا کرتے تهے ۔
٢۔ طبری نسناس کے نسب کو ابن اسحاق سے یوں نقل کرتا ہے:
’ اميم بن لاوذ بن سام بن نوح کی اولاد صحرائے “ عالج ” ميں “ وبار” کے مقام پر رہائش پذیر
تهے ۔ نسل کی افزائش کی وجہ سے ان کی آبادی کافی حد تک بڑه گئی اور وہ ثروت مند
ہوگئے اس کے بعد ایک گناہ کبيرہ کے مرتکب ہونے کی وجہ سے خدا کی طرف سے ان پر بلا
نازل ہوئی کہ اس بلا کے نتيجے ميں وہ سب ہلاک ہوگئے صرف ان ميںسے معدود چندافراد
باقی بچے ليکن وہ دوسری صورت ميںمسخ ہوئے کہ اس وقت نسناس کے نام سے مشہور
ہيں ۔
٣۔ پهر سے طبری ابن کلبی ١سے نقل کرتا ہے : “ابرهة بن رائش بن قيس صفی بن
سبا بن یشجب کے بيڻے یمن کے پادشاہ نے ملک مغرب کی انتہا پر ایک جنگ لڑی اور اس
جنگ ميںاس نے فتح پائی ایک بڑی ثروت کو غنيمت کے طورپر حاصل کيا ان غنائم کو نسناسوں
کے ساته لے آیا ۔ وہ وحشتناک قيافہ رکهتے تهے لوگوں نے وحشت ميںپڑ کر پادشاہ کو “ ذو
الاذاعر”’ نام رکها یعنی رعب ووحشت والے
۴۔ کراع ٢کہتا ہے: نسنا س نون پر زبر یا زیر سے --- نقل ہوا ہے کہ ---- وحشی
حيوانوں ميں سے ایک حيوان ہے کہ اسے شکار کرتے ہيں اور اس کا گوشت کهاتے ہيں ۔ ان کا
قيافہ انسانوں کا سا ہے اور انسانوں کی طرح گفتگو کرتے ہيں البتہ ایک آنکه ، ایک ہاته اور ایک
ڻانگ رکهتے ہيں ۔ ۵۔ ازهری ٣ نسناس کی یوں نشان دہيکرتا ہے:
---------
١۔ ابن کلبی : ہشام بن محمد کلبی نسابہ کے نام سے معروف ہے ٢٠۴ هف یا ٢٠۶ ه ميں وفات پائی ہے ۔
٢۔ کراع النمل : وہی ابو الحسن علی بن حسن ہنائی عضدی مصری ہے کہ چهوڻے قد کی وجہ سے “ کراع النمل
”سے معروف تها ۔ لغت عرب ميں وسيع معلومات رکهتا تها اور صاحب تاليفات بهی تها اس نے ٣٠٩ ئه کے بعد
/ ١١٢ ) اور انباء الرواہ القفطی ( ٢ وفات پائی ہے اس کی زندگی کے حالات کے بارے ميںا رشاد الاریب حموی ( ۵
٢۴٠ کی طرف رجوع کيا جائے ۔
٣۔ ازہری : ابو منصور محمد بن احمد بن ازہر علمائے لغت ميں سے ہے کہتے ہيں لغت عربی کو جمع کرنے کيلئے
٣٨ / اس نے تمام عرب نشين علاقوں کا سفر کيا ہے ۔ ٣٧٠ ميں وفات پائی ہے اس کی زندگی کے حالات اللباب ١
ميں آئے ہيں ۔
” نسناس ایک مخلوق ہے جو قيافہ اور ہيکل کے لحاظ سے انسان جيسے ہيں ليکن جنس بشر
سے نہيں ہيں بعض خصوصيات ميں انسان سے مشابہ ہيں اور بعض دوسرے خصوصيات ميں
انسان سے مشابہ نہيں ہيں ۔
۶۔ جوہری ١ صحاح اللغة ميں یوں کہتا ہے : نسناس ایک قسم کی مخلوق ہے جو ایک
ڻانگ پر چلتے اور اچهل کود کرتے ہيں۔
٧۔ زبيدی نے ‘ ‘ ابی الدقيش ” ٢ سے “ التاریخ ” ميں یوں نقل کيا ہے کہ نسناس سام
بن سام کی اولاد تهے جو قوم عاد و ثمود تهے ليکن نسناس عقل نہيں رکهتے ہيں اور ساحل
هند کے نيزاروں (جهاڑیوں)ميں زندگی گذارتے ہيں عرب اور صحرا نشين انهيں شکار کرتے ہيںا
ور ان کے ساته گفتگو کرتے ہيں نسناس عربی زبان ميں بات کرتے ہيں نسل کی نسل بڑهاتے
ہيں اور شعر بهی کہتے ہيں ، اپنے بچوں کے نام عربی ميں رکهتے ہيں ۔
٨۔ مسعودی کہتا ہے : نسناس ایک سے زیادہ آنکه نہيں رکهتے۔ کبهی پانی سے باہر
آتے ہيں اور گفتگو کرتے ہيں اور اگر کسی انسان کو پاتے ہيں تو اسے قتل کر ڈالتے ہيں ۔
٩۔ نہایة اللغة ” ، ‘ ‘ لسان الميزان ” ، “ قاموس ” اور ‘ التاج” نامی لغت کی معتبر و قابل
اعتماد چار کتابوں کے مؤلفيں نے لغت “نسناس” کے ضمن ميں اس روایت کو نقل کيا ہے کہ
:قوم عاد کے ایک قبيلہ نے اپنے پيغمبر کی نافرمانی کی تو خداوند عالم نے انهيں مسخ کرکے
نسناس کی صورت ميں تبدیل کر دیاکہ وہ ایک ہاته اور ایک ڻانگ رکهتے ہيں اوروہ ا نسان کا
نصف بدن رکهتے ہيں راستہ چلتے وقت پرندوں کی طرح اچهل کود کرتے ہيں اور کهانا کهاتے
وقت بهی حيوانوں کی طرح چرتے ہيں ۔
١٠ ۔ قاموس اور شرح قاموس التاج ميں آیا ہے : کبهی کہتے ہيں کہ نسناس کی وہ نسل
نابود ہوچکی ہے جو قوم عاد سے مسخ ہوئی تهی ۔
کيونکہ دانشوروں نے تحقيق کی ہے کہ مسخ شدہ انسان تين دن سے زیادہ زندہ نہيں
رہ سکتا ہے ليکن اس قسم کے نسناس --- جنہيں بعض جگہوں پر عجيب قيافہ اور خلق ميں
دیکها گيا ہے --- کوئی اور مخلوق ہے اور شاےد نسناس تين مختلف نسل ہيں : ناس ،
نسناسی ، اور نسانس نوع آخر کی مؤنث اور جنس مادہ ہے!
١١ ۔پهر سے “ التاریخ ” ميں “ عباب ” سے نقل کرتا ہے کہ نسل نسناس نسل نسناس
سے عزیز تر و شریف تر ہے پهر ابو ہریرہ سے نسناس کے بارے ميں ایک حدیث نقل کی ہے کہ
---------
١۔ جوہری : ابو نصر اسماعيل بن حماد ہے ان کی نسب بلا د ترک کے فاراب سے ہے اس نے عراق اور حجاز کے سفر کئے ہيں
تمام علاقوں کا دورہ کيا ہے اس کے بعد نيشابور آیا ہے اور اسی شہر ميں سکونت کی ہے لکڑی سے دو تختوں کو پروں کے
مانند بنا کر انهيں آپس ميں ایک رسی سے باندها اور چهت پر جاکر آواز بلند کی لوگو! ميں نے ایک ایس چيز بنائی ہے جو بے
مثال ہے ابهی ميں ان دو پروں کے ذریعہ پر وار کروں گا نيشابور کے لوگ تماشا دیکهنے کيلئے جمع ہوئے اس نے اپنے دونوں
پروں کو ہلا کر فضا ميں چهلانگ لگادی ليکن ان مصنوعی دو پروں نے اس کی کوئی یاری نہيں کی بلکہ وہ چهت سے زمين پر
١٠ ) کی طرف رجوع فرمائيں ۔( / ٢۶٩ ) لسان الميزان ۴٠٠ /٢ گر کر مرگيا ۔ یہ روئداد ٣۴٣ هء ميں واقع ہوئی ۔ معجم الادباء ٠
٧ ميں آیا ہے ۔ ٢۔ ابو الدقيش : قناتی غنوی ہے کہ اس کے حالا ت کی شرح ميں فہرست ابن ندیم طبع مصر ص ٠
اس عجيب نسل سے گروہ “ ناس ” نابود ہوگئے ہيں ليکن گروہ “ نسناس ” باقی ہےں اور اس
وقت بهی موجود ہيں
١٢ ۔ سيوطی سے نقل ہوا ہے کہ اس نے نسناس کے بارے ميں یوں نظریہ پيش کيا ہے
” لےکن وہ معروف حيوان جسے لوگ نسناس کہتے ہيں ان ميں سے ایک نوع بندر کی
نسل ہے اور وہ پانی ميں زندگی نہيں کرسکتے یہ حرام گوشت ہيں ليکن ان حيوانوں کی
دوسری نوع جو دریائی ہيں اور پانی ميں زندگی بسر کرتے ہيں ، ان کا گوشت حلال ہونے ميں
دو احتمال ہے “ رویانی ” ١ اور بعض دوسرے دانشور کہتے ہيں : ان کاگوشت حلال اور خوردنی
ہے ۔
١٣ ۔ شيخ ابو حامد غزالی ٢ سے نقل ہوا ہے کہ نسناس کا گوشت حلال نہيں ہے
کيونکہ وہ خلقت انسان کی ایک مخلوق ہے ۔
١۴ ۔ مسعودی ‘ مروج الذہب ” ميں نقل کرتا ہے:
” متوکل نے اپنی خلافت کے آغاز ميں حنين بن اسحاق ٣سے کہا کہ چند افرادکو“
نسناس ”اور اس کے بعد مسعودی کہتا ہے:
” ہم نے اس روداد کی تفصيل اور تشریح اپنی کتاب “ اخبار الزمان ” ميں درج کی ہے ،
اور وہاں پر اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ان لوگوں کو “ عربد” لانے کيلئے “ یمامہ اور نسناس
” لا نے کيلئے “ شحر ” بهيجا گيا تها ۔
یہ تهيں افسانہٴ نسناس اور اس کے پائے جانے کے بارے ميں روایتيں جو نام نہاد معتبر
اسلامی کتابوں ميں درج کی گئی ہيں اور یہ روایتيں سند اور راویوں کے سلسلہ کے ساته
---------
١۔ رویانی رویان سے منسوب ہے اور رویان طبرستان کے پہاڑوں کے درميان ایک بڑا شہر ہے حموی نے رویان کی
تشریح ميں کہا ہے رویان ایک شہر ہے علماء اور دانشوروں کا ایک گروہ اسی شہر سے منسوب ہے جيسے : ابو
لمحاسن عبدالواحد بن اسماعيل بن محمد رویانی طبری جو قاضی اور مذہب شافعی کے پيشواؤں ميںسے ایک
ہے اور اس شخص نے بہت سی کتابيں لکهی ہيں علم فقہ ميں بهی ایک بڑی کتا ب“ البحر ” تصنےف کی ہے
سخت تعصب کی وجہ سے ۵٠٠ هء یا ۵٠١ هء ميں مسجد جامع آمل ميں اسے قتل کيا گيا ۔
٢۔ ابو حامد : محمد بن محمد بن محمدغزالی ہے ایک گاؤں سے منسوب ہے جس کا نام غزالہ ہے یا یہ کہ منسوب
بہ غزل ہے وہ ایک فلاسفر اور صوفی مسلک شخص ہے اس نے حجة الاسلام کا لقب پایا ہے دو سو سے زیادہ
کتابيں لکهی ہيں اور مختلف شہروں جيسے : نيشابور ، بغداد ، حجاز ، شام اور مصر کے سفر کئے ہيں اور وہاں
سے اپنے شہر طابران واپس آیا ہے اور وہيں پر ۵٠۵ ئه ميں وفات پائی ہے ۔
٣۔ حنين بن اسحاق کا باب اہل حيرہ عراق تها بغداد کے علماء کا رئيس تها اس کی کنيت ابو زید اور لقب عبادی
تها ٢۶٠ هء ميں اس نے وفات پائی (وفيات الاعيان) ۔
”عربد” ١ لانے کيلئے یتار کرے ۔ کئی لوگ گئے ، ليکن انہوںنے جتنی بهی کوشش اور کاروائی کی صرف دونسناس
کو متوکل کی حکومت کے مرکز “ سرمن رای” تک صحيح و سالم پہنچا سکے ۔
اصلی ناقل تک پہنچی ہيں ليکن اس کے باوجود یہ تمام روایتيں جهوٹ اور افسانہ کے علاوہ
کچه نہيں ہيں ۔ ان کی اسناد اور راویوں کا سلسلہ بهی جهوٹ کو مضبوط اور مستحکم کرنے
کيلئے جعل کيا گيا ہے اگلی فصل ميں یہ حقيقت اور بهی واضح ہوگی ۔
بحث کا خلاصہ اور نتيجہ
افسانہ نسناس کے اسناد
ہم نے گزشتہ دو فصلوں ميں نسناس کے وجود اور پيدائش کے بارے ميں نقل کی گئی
روایتوں کو انکے اسناد اور راویوںکے سلسلہ کے ساته ذکر کيا ہے اور دیکها کہ یہ روایتيں ایسے
افراد سے نقل کی گئی ہيں کہ انہوں نے اپنی آنکهوں سے نسناس کو دیکها ہے اور اپنے کانوں
سے ان کی گفتگو و اشعار اور ان کا قسم کهانا سنا ہے اسے دیکها ہے کہ ایک ہاته اور ایک
ڻانگ اورایک آنکه اور نصف صورت کے باوجود بظاہر شبيہ انسان طوفان کے مانند تيز رفتار گهوڑے
سے بهی تيز تر دوڑتے تهے ۔
ا ن دو روایتوں کو ایسے افراد سے نقل کيا ہے کہ انہوں نے نسناس کا شکار کرنے اور
اس کا گوشت کباب اور شوربہ دار گوشت کی صورت ميں کهانے ميں شرکت کی ہے ۔
ایسے افرادسے بهی روایت کی ہے کہ اس کے گوشت کے حلال ہونے ميں اشکال کيا
ہے اور کہا ہے کہ چونکہ نسناس انسان کی ایک قسم ہے اور گفتگو و شعر کہتا ہے اس لئے
حرام ہے اس کے مقابلہ ميں بعض دوسرے افراد نے کہا ہے کہ نسناس کا گوشت حلال ہے
کيونکہ وہ پيٹ رکهتا ہے اور حيوانوں کے مانند جگالی کرتا ہے ۔
ان روایتوں کو ایسے افراد نے نقل کيا ہے کہ خود انہوں نے خليفہ عباسی متوکل کو
دیکها ہے کہ اس نے اپنے زمانے کے بعض حکماء کو بهيجا کہ اس کيلئے “ عربد” اور “ نسناس
” شکار کرکے لائيں اور ان کے توسط سے دو عدد نسناس سامراء پہنچے ہيں ۔
ایسے افراد سے ان روایتوں کو نقل کيا گيا ہے کہ وہ خود نسناس شناس ہيںا ور انہوں
نے نسناس کے شجرہ نسب کے بارے ميںتحقيق کی ہے اور اپنا نظریہ پيش کيا ے اور ان کا
شجرہٴ نسب بهی مرتب کيا ہے اور اس طرح نسناس کی نسل حضرت نوح تک پہنچتی ہے وہ
اميم بن لاوذبن سام بن نوح کی اولاد ہيں جب بغاوت کرکے معصيت و گناہ ميں حد سے زیادہ
مبتلا ہوئے تو خداوند عالم نے انهيں مسخ کيا ہے ۔
ان تمام مسلسل اور باسند روایتوں کو علم تاریخ کے بزرگوں ،علم رجال کے دانشوروں
اور علم انسان کے اساتذہ نے نقل کيا ہے ، جيسے:
١۔ عظيم ترین اور قدیمی ترین عرب نسب شناس ابن اسحاق ( وفات ۶٨ هء(
٢۔ مغازی اور تاریخ کے دانشوروں کا پيشوا ابن اسحاق ( وفات ١۵١ هء(
٣۔ نسب شناسوں کا امام و پيشوا : ابن کلبی ( وفات ٢٠۴ هء(
۴۔ مؤرخيں کے امام و پيشوا: طبری ( وفات ٣١٠ ئه(
۴۔ جغرافيہ دانوں کے پيش قدم : ابن فقيہ همدانی ( وفات ٣۴٠ هء(
۶۔ تاریخ نویسوں کے علامہ : مسعودی ( وفات ٣۴۶ هء(
٧۔ علم بلدان کے عظيم دانشور : حموی ( وفات ۶٢۶ ئه(
٨۔ مختلف علم کے علامہ و استاد : ابن اثير ( وفات ۶٣٠ ئه(
جی ہاں ہم نے گزشتہ صفحات ميں جتنے بهی مطالب نسناس کے بارے ميں بيان کئے
ہيں ان کو مذکورہ ، تاریخ ،لغت ، اور دیگر علوم ميں مہارت اور تخصص رکهنے والے علماء نے
اپنی کتابوں اور تاليفات ميں نقل کيا ہے ۔
ت عجب کی حد یہ ہے کہ کبهی اس افسانہ کو حدیث کی صور ت ميں نقل کيا گيا ہے اور
اس کی سند کو معصوم تک پہنچادیا ہے : نسناس قوم عاد سے تهے اپنے پيغمبر کی نافرمانی
کی تو خدا نے انهيں مسخ کردےا کہ ان ميں سے ہر ایک کا ایک ہاته ، ایک ڻانگ اور نصف بدن
ہے اور پرندوں کی طرح اچهل کود کرتے ہيںا ور مویشيوں کی طرح چرتے ہيں ۔
پهر روایت کی ہے کہ نسناس قوم عاد سے ہيں ۔ بحر ہند کے ساحل پر نيزاروں ميں
زندگی کرتے ہيں اوران کی گفتگو عربی زبان ميں ہے ۔
اپنی نسل بهی بڑهاتے ہی شعر بهی کہتے ہيں اپنی اولاد کيلئے عربی ناموں سے
استفادہ کرتے ہيں۔
ا س کے بعد ان علماء نے نسناس کے گوشت کے حلال ہونے ميں اختلاف کيا ہے بعض
نے اس کے حلال ہونے کاحکم دیاہے ا ور بعض دوسروں نے اسے حرام قرار دیا ہے ليکن جلال
الدین سيوطی تفصيل کے قائل ہوئے ہيں اور صحرا کے نسناسوں کو حرام گوشت ليکن
سمندری نسناسوں کو حلال گوشت جانا ہے ۔
یہ عقائد و نظریات اور یہ روایتيں اور نقليات بزرگ علماء اور دانشوروں کی ہيں کہ ان
مےں سے بعض کے نام ہم نے یبان کئے ہيں اور بعض دوسروں کے نام ذیل ميں درج کئے جاتے
ہيں:
١۔ کراع ، “ التاج ” کی نقل کے مطابق : وفات ٣٠٩ هء
٢۔ ازہری : تهذےب کے مطابق : وفات ٣٧٠ هء
٣۔ جوہری : صحاح کے مطابق : وفات ٣٩٣ هء
۴۔ رویانی : “التاج” کے مطابق: وفات ۵٠٢ هء
۵۔ غزالی :“ التاج” کے مطابق: وفات ۵٠۵ ئه
۶۔ ابن اثير : نہایة اللغة کے مطابق : وفات ۶٠۶ هء
٧۔ ابن منظور : لسان العرب کے مطابق : وفات ٧١١ هء
٨۔ فيروز آبادی : قاموس کے مطابق : وفات ٨١٨ هء
٩۔سيوطی : التاج کے مطابق : وفات ٩١١ هء
١٠ ۔ زبيدی : تاج العروس کے مطابق: وفات ١٢٠۵ هء
١١ ۔ فرید وجدی دائرة المعار ف کے مطابق: وفات ١٣٧٣ ئه
افسانہٴ سبيئہ اور نسناس کا موازنہ
کيا مختلف علوم کے علماء ودانشوروں کے نسناس کے بارے ميں ان سب مسلسل اور
با سند روایتوں کا اپنی کتابوں اور تاليفات ميں درج کرنے اور محققين کی اس قدر دلچسپ
تحقيقات اور زےادہ سے زےادہ تاکےد کے بعد بهی کوئی شخص نسناس کی موجودگی حتی
ان کے نر ومادہ اور ان کی شکل و قيافہ کے بارے ميں کسی قسم کا شک و شبہہ کرسکتا ہے
!؟
کيا کوئی “ نسناس” ، “ عنقاء” ، “ سعلات البر ” اور “ دریائی انسان ” ١ جيسی
مخلوقات کے بارے ميں شک کرسکتا ہے جبکہ ان کے نام ان کی داستانيں اور ان کے واقعات
باسند اورمرسل طور پر علماء کی کتابوں ميں وافر تعداد ميں درج ہوچکی ہيں ؟
علماء اور دانشوروں کی طرف سے “ ناووسيہ ” ، “ غرابيہ ” ، “ ممطورہ ” “ طيارہ ” اور
سبئےہ ” کے بارے ميںا س قدر مطالب نقل کرنے کے بعد کيا کوئی شخص مسلمانوں ميں ان
---------
١۔ عنقاء : کہا گيا ہے کہ عنقاء مغرب مےں ایک پرندہ ہے جس کے ہر طرف چار پر ہيں اور اس کی صورت انسان
جيسی ہے اس کا ہرعضو کسی نہ کسی پرندہ کے مانند ہے اور اس کے علاوہ مختلف حيوانوں سے بهی شباہت
٢١٢ نے عنقاء کے بارے / ٨۵ ، مسعودی مروج الذہب ٢ / رکهتا ہے کبهی انسانوںکو شکار کرتا ہے ابن کثير ١٣
ميںمفصل و مشروح روایت کی سند کے سلسلہ کے ساته نقل کيا ہے ‘ سعلات” عرب دیو کی مادہ کو“سعلات
١۵ )صحرانشين عرب خيالی کرتے تهے کہ سعلات اور غول ( دیو ) دو زندہ مخلوق / ”کہتے ہيں (- تاج العروس ٨
ہيں کہ بيابانوں ميں زندگی گزارتے ہيںا ور ان دونوں کے بارے ميں بہت سے اشعار اور حکایتں بهی نقل کی گئی
١٣۴ ۔ ١٣٧ /باب ذکر اقاویل العرب فی الغيلان) یہيں پر مسعودی عمر ابن خطاب سے نقل کرتا / ہيں مروج الذہب ( ٢
ہے کہ اس نے شام کی طرف اپنے ایک سفر ميں ایک بيابان ميں ایک جن کو دیکها تواس نے چاہا اس طرح اس کو
بهی فریب دے جس طرح وہ لوگوں کو فریب دیتا ہے ليکن عمر نے اسے فرصت نہيں دی اور تلوار سے اسے قتل
کيا۔
انسانی دریائی : عربوں اور غير عربوں ميں انسان دریائی کے بارے ميں داستانيں اور افسانے نقل ہوئے
ہيں زبان زد عام وخاص ہيں ۔
گروہوں اور فرقوں کی موجودگی کے بارے ميں شک و شبہ کرسکتا ہے ؟ جی ہاں ، ہم دیکهتے
ہيں کہ گروہ سبيئہ اور نسناس کے بارے ميں جو افسانے نقل ہوئے ہيں با وجود اس کے کہ
علماء اوردانشوروںنے انهيں صدیوں تک سنااور سلسلہ راویوں کے ساته نقل کيا ہے آپس ميں
کافی حد تک شباہت رکهتے ہيں ہماری نظر ميں صرف مطالعہ اور ان دو افسانوںکے طرز و
طریقہ پر دقت کرنے سے ان کا باطل اور خرافات پر مشتمل ہونے کو ہر فرد عاقل اور روشن فکر
کيلئے ثابت کيا جاسکتا ہے اس فرق کے ساته کہ افسانہ سبيئہ ميں موجود اختلافات و تناقض
کوجو افسانہ نسناس ميں موجود نہيں ہيں اضافہ کيا جائے کہ خود یہ تناقص و اختلاف سبب
بنے گا کہ یہ روایتيں ایک دوسرے کے اعتبار کو گرادیں گی اور اس طرح ان روایتوں پر کسی
قسم کا اعتبار باقی نہيں رہے گااورا ن کی تحقيق و بحث کی نوبت ہی نہيں آئے گی ۔
اگرطے ہو کہ گروہ سئبيہ ، ابن سوداء اور ابن سبا کے بارے ميں بيشتر وضاحت پيش
کریں اور طول تاریخ ميں ان کے تحولات پر بحث و تحقيق کریں تو کتاب کی مستقل حصہ کی
ضرورت ہے ۔
یہاں پر اس کتاب کے اس حصہ کو اختتام تک پہنچاتے ہيں اور دوسرے ضروری مطالب
کو اگلے حصہ پر چهوڑ تے ہيں ہم اس دینی اور علمی فریضہ کو انجام دینے ميں خداوند عالم
سے مدد چاہتے ہيں۔
دوسرے حصے کے مآخذ
١۔ اشعری : سعد بن عبدالله کتاب “المقالات و الفرق ” ٢٠ ۔ ٢١ ميں
٢۔ نوبختی : کتاب “ فرق الشيعہ ” ٢٢ ۔ ٢٣ ميں
٨۵ / ٣۔ اشعری : علی ابن اسماعيل ، کتاب “ مقالات اسلاميين ” ١
۴۔ ملطی : کتاب “ التنبيہ وا لرد ” ٢۵ ۔ ٢۶ و ١۴٨
۵۔ بغدادی : کتاب “ الفرق ” ١۴٣
١٨ و ٣٩ اور کتاب “ اختصار الفرق ” تاليف ، ١٣٨ ، ۶۔ بغدادی : کتاب الفرق ١٢٣
۵٧ ، ٢۵ ، ٢٢ ، ١۴٢، عبدالرزاق ١٢٣
١٨۶ اور / ١۴٢ اور طبع التمدن ۴ / ٧۔ ابن حزم : کتاب “ الفصل ” طبع محمد علی صبيح ۴
١٣٨ /۴
١٢٩ ۔ ١٣٠ / ٨۔ البداء و التاریخ ۵
٩۔ ذہبی : کتاب “ ميزان الاعتدال ” شرح حال عبدالله بن سبا ، نمبر ۴٣۴٢
٢٨٩ شرح حال نمبر ١٢٢۵ ۔ / ١٠ ۔ ابن حجر کتاب “ لسان الميزان ” ٣
/ ١١ ۔ مقریزی : کتاب “ الخطط ” روافض کے نو گروہوں مےں سے پانچویں گروہ ميں ۴
١٨۵ ۔ / ١٨٢ و ۴
١٢ ۔ ابن خلدون : مقدمہ ميں ١٩٨ طبع بيروت ميں کہتا ہے : فرقہ اماميہ ميں بهی جو
گروہ وجود ميں آئے ہيں جو غالی اور انتہا پسندہيں انہوں نے ائمہ کے بارے ميں غلو کيا ہے اور
دین اور عقل کے حدود سے تجاوز کرگئے ہيں اور ان کی الوہيت اور ربوبيت کے قائل ہوئے ہيں
ليکن اس کے باوجود اس سلسلے ميں مبہم اور پيچيدہ بات کرتے ہيں جس سے معلوم نہيں
ہوتا ہے کہ اس گروہ کے عقيدہ کے مطابق ائمہ بشر ہيں اور خدا کی صفات کے حامل ہيں یایہ
کہ خداخود ہی ان کے وجود ميں حلول کرگيا ہے دوسرے احتمال کے بناء پر وہ حلول کے قائل
ہيں جس طرح عيسائی حضرت علی عليہ السلام کے بارے ميں قائل تهے جبگہ علی ابن
ابيطالب نے ان کے بارے ميںا س قسم کا اعتقاد رکهنے والوں کو جلادیا ہے ۔
٢٠٨ ۔ ٢١٠ / ١٣ ۔ مسعودی : ٢
١۴ ۔ معجم البلدان : لفظ “ شحر ” کی تشریح ميں ۔
٨٩٩ ۔ ٩٠٠ / ١۵ ۔ معجم البلدان : لفظ “ وبار” کی تشریح ميں : ١۴
١۶ ۔ معجم البلدان : لفظ “ وبار ” کی تشریح ميں
١٧ ۔ معجم البلدان : لفظ “ وبار ” کی تشریح ميں ، مسعودی نے بهی اسی مطلب کو
٢٠٨ ۔ ٢١٠ درج کيا ہے ۔ / مختصر تفاوت کے ساته ‘ مروج الذہب ” ٢
١٨ ۔ معجم البلدان : لفظ “ شحر ” کی تشریح ميں اس کا خلاصہ “ مختصر البلدان ” ابن
فقيہ ٣٨ ميں آیا ہ ے ۔
۵٨ / ٢١۴ ، ‘ ‘ ابن اثير ” ١ / ١٩ ۔ “ طبری ” ١
۴۴١ ۔ ۴۴٢ / ٢٠ ۔ طبری ١
٢١ ۔ لسان العرب ابن منظور و تاج العروس زبيدی لفط نسناس کی تشریح ميں ۔
٢٢ ۔ لسان لعرب ابن منظور و قاموس فيروز آباد ی، لفط نسناس کی تشریح مےں
٢٣ ۔ نہایة اللغة : ابن اثير
١/ ٢۴ ۔ مروج الذہب ، ٢٢٢
٢١١ اس نے اسی جگہ پر نسناس سے مربوط روایتوں کو نقل کيا / ٢۵ ۔ مروج الذہب ، ٢
ہے پهر اس مخلوق کے وجود کے بارے ميں شک و شبہہ کيا ہے ۔
|