عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے(تيسری جلد)
 

ابن سبا اور سبئيہ کے بارے ميں شہرستانی اور اس کے ماننے والوں کا بيان
و اما السبئية فهم یزعمون ان علياً لم یمت و انہ فی السحاب
سبائی معتقد ہيں کہ علی نہيں مرے ہيں اور وہ بادلوں ميں ہيں. صاحب البدء و التاریخ
شہرستانی ( وفات ۵۴٨ هء) اپنی “ ملل و نحل ” ميں ابن سبا اور سبائيوں کے بارے
ميں محدثين اور مؤرخين کے بيانات کو خلاصہ کے طور پر درج کرنے کے بعد یوںکہتا ہے :
”عبد الله بن سبا پہلا شخص ہے جس نے علی ابن ابيطالب عليہ السلام کی امامت کو
واجب جانا ، اور یہی غاليوں کے دیگر گروہوں کيلئے اس عقيدہ کا سرچشمہ بنا کہ علی نہيں
مریں گے اور وہ زندہ ہيں ۔ وہ کہتے ہيں : خداوند عالم کے ایک حصہ نے اس کے وجود ميں
حلول کيا ہے اور کوئی ان پر برتری حاصل نہيں کرسکتا وہ بادلوں ميں ہےں اور ایک دن زمين پر
آئےں گے۔
ی ہاں تک کہتا ہے:
”ابن سبا یہی عقيدہ خود علی کی زندگی ميںبهی رکهتا تها ، ليکن اس نے اس
وقت اظہار کيا جب علی کو قتل کر دیا گيا، اس وقت بعض افراد بهی اس کے گرد جمع ہوکر اس
کے ہم عقيدہ ہو گئے، یہ وہ پہلا گروہ ہے جو علی اور ان کی اولاد ميں امامت کے محدود و
منحصر ہونے کا قائل ہے اور غيبت اور رجعت کا معتقد ہوا ہے اس کے علاوہ اس بات کا بهی
معتقد ہوا کہ خداوند عالم کا ایک حصہ تناسخ کے ذریعہ علی کے بعد والے ائمہ ميں حلول
کرچکا ہے اصحاب اور یاران پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم بخوبی جانتے تهے اس لئے وہ ابن
سبا کے عقيدہ کے مخالف تهے ، ليکن وہ علی عليہ السلام کے بارے ميں اس مطلب کو اس
لئے کہتے تهے کہ جب علی عليہ السلام نے خانہٴ خدا کی بے حرمتی کرنے کے جرم ميں
حرم ميںایک شخص کی آنکه نکالی تهی یہ واقعہ جب خليفہ دوم عمر کے پاس نقل کيا گيا تو
عمر نے جواب ميں یہ جملہ کہا: “ ميں اس خدا کے ہاته کے بارے ميںکيا کہہ سکتا ہوں جس
نے حرم خدا ميں کسی کو اندها کيا ہو؟
دیکها آپ نے کہ عمر نے اپنے اس کلام ميں خدا کے ایک حصہ کے علی عليہ السلام
کے پيکر ميں حلول کرنے کا اعتراف کيا ہے اور ان کے بارے ميں خداکا نام ليا ہے ١
ی ہ تها ان افرا د کے نظریات و بيانات کا خلاصہ جنہوں نے “ ملل و نحل ” کے بارے ميں
کتابيں لکهی ہيں دوسری کتابوں کے مؤلفين بهی ان کے طریقہ کا رپر چل کر بيہودہ اور بے بنياد
مطالب کو گڑه کر اس باطل امور ميں ان کے قدم بقدم رہے ہيں ، مثلاً البدء و التاریخ کا مؤلف
کہتا ہے:
ل يکن “ سبئيہ ” جسے کبهی‘ ‘ طيارہ ” بهی کہتے ہيں خيال کرتے ہيں کہ ہرگز موت ان
کی طرف آنے والی نہيں ہے اور وہ نہيںمریں گے حقيقت ميں ان کی موت اندهيری رات کے
آخری حصہ ميں پرواز کرنا ہے اس کے علاوہ یہ لوگ معتقد ہيں کہ علی ابن ابيطالب نہيں مرے
ہيں بلکہ بادلوں ميں موجود ہيں لہذا جب رعد کی آواز سنتے ہيں تو کہتے ہيں علی غضبناک ہو
گئے ہيں”۔
اس کے علاوہ کہتا ہے:
” گروہ طيارہ کے بعض افراد معتقد ہيں کہ روح القدس جس طرح عيسیٰ ميں موجود تها
اسی طرح
پيغمبر اسلام ميںبهی موجود تها اور ان کے بعدعلی ابن ابيطالب عليہ السلام ميں منتقل
ہوگياعلی سے ان کے فرزند حسن اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے باقی اماموں ميں منتقل ہوتا
رہا سبيئہ کے مختلف گروہ ارواح کے تناسخ اور رجعت کے قائل ہيں اور سبيئہ کے ایک گروہ کے
افراد اعتقاد رکهتے ہيں کہ ائمہ عليہم السلام خدا سے منشعب شدہ نور ہيں اور وہ خدا کے
اجزاء ميں سے ایک جزو ہيں اس عقيدہ کے رکهنے والوں کو “حلاجيہ ” 2 کہتے ہيں ابو طالب
صوفی بهی یہی اعتقاد رکهتا تها اور اس نے انهيں باطل عقائد کے مطابق درج ذیل اشعار کہے
ہيں:
قریب ہے کہ وہ وگا
اگر کوئی ربوبيت نہ ہوتی تو وہ بهی نہ ہوتا
کيا نيک آنکهيں غيبت کيلئے فکرمند ہيں (چشم براہ ہيں )یہ آنکهيں پلک و مژگان والی
آنکهيں جيسی نہيں ہيں ۔
خدا سے متصل آنکهيں نور قدسی رکهتی ہيں ، جو خدا چاہے گا وہی ہوگا نہ ہی خيال
کی گنجائش ہے اور نہ چالاکی کا کوئی محل۔
وہ سایوں کے مانند ہيں جس دن مبعوث ہوں گے ليکن نہ سورج کے سایہ کے مانند اور
نہ گهر کے سایہ کے مانند
---------
١۔ اس نقل کی بنا پر عمراولين شخص ہے جس نے علی کے بارے ميں غلو کيا ہے اور اس عقيدہ کی بنياد ڈالی
ہے اسی طرح وہ پہلے شخص تهے جس نے عقيدہٴ رجعت کو اس وقت اظہار کيا جب رسول خدا نے رحلت
فرمائی تهی جب اس نے کہا: خدا کی قسم پيغمبر نہيں مرے ہيں اور واپس لوڻيں گے اسی کتاب کی جلد اول
حصہ سقيفہ ملاحظہ ہو ليکن حقيقت یہ ہے کہ شہرستانی بهی اپنی نقليات ميں تمام علمائے ادیان اور ملل و
نحل کے مولفين کے مانند بعض مطالب کو لوگوں سے سنتا ہے اورانهيں بنيادی مطالب اور سو فيصد واقعی صورت
ميں اپنی کتاب ميں درج کرتا ہے بغير اس کے کہ اپنی نقليات کی سند کے بارے ميں کسی قسم کی تحقيق و
بحث کرے ہم ان مطالب کے بارے ميں اگلے صفحات ميںبيشتر وضاحت پيش کریں گے ۔
2۔ حلاجيہ حسين بن منصور حلاج سے منسوب ہيں حسين بن حلاج ایک جادو گر اور شعبدہ باز تها شہروں ميں
پهرتا تها ہرشہر ميں ایک قسم کے عمل اور مسلک کو رائج کرتا تهاا ور خود کو اس کا طرفدار بتاتا تها ۔مثلاً معتزليوں
ميں معتزلی ، شيعوں ميں شيعہ اور اہل سنت ميں خود کو سنی بتاتا تها ۔

کادوا یکونون
لو لا ربوبية لم تکن
فيالها اٴعينا بالغيب ناظرة
ليست کاعين ذات الماق و الجفن
انوار قدس لها بالله متصل
کما شاء بلا وهم و لا فظن
وهم الاظلة والاشباح ان بعثوا
لا ظل کالظل من فيئی و لا سکن
ا بن عساکر ( وفات ۵٧١ هء ) نے اپنی تاریخ ميںعبدا لله بن سبا کے حالات کی تشریح
ميں سيف کی نقل کی گئی روایت (اور ان روایتوں کے علاوہ کہ جن کے بعض مضامين ہم نے
اس کتاب کی پہلی جلد ١ اور بعض کو گزشتہ صفحات ميں درج کيا ہے)مزید چه روایتں حسب
ذیل نقل کی ہيں:

١۔ ابو طفيل سے نقل ہوا ہے:
’ ميں نے مسيب بن نجبہ کو دیکها کہ ابن سودا کے لباس کو پکڑ کر اسے گهسيڻتے
ہوئے علی ابن ابيطالب کے پاس --- جب وہ منبر پر تهے ---لے آیا ،علی نے پوچها : کيا بات ہے
؟ مسيب نے کہا: یہ شخص ابن سودا خدا او رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم پر جهوٹ
کی نسبت لگاتا ہے“

٢۔ ایک دوسری روایت ميں آیاہے کہ علی ان ابيطالب عليہ السلام نے فرمایا:
مجهے اس خبيت سياہ چہرہ سے کيا کام ہے ؟ آپ کی مراد ابن سبا تها جو
ابوبکر او عمر کے بارے ميں برا بهلا کہتا تها۔

٣۔ اور ایک روایت ميں آیا ہے:
مسيب نے کہا: ميں نے علی ابن ابيطالب کو منبر پر دیکها کہ ابن سودا کے بارے ميں
فرما رہے ہيں:
---------
١۔ ج / ١ فصل پيدائش افسانہ عبدا لله بن سبا

”کون ہے جو اس سياہ فام (جو خدا اور رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم پر جهوٹ
کی نسبت دیتا ہے)خدا اس کو مجه سے دور کرے۔ اگر مجهے یہ ڈرنہ ہوتا کہ بعض لوگ اس کی
خوانخواہی ميں شورش برپا کریں گے جس طرح نہروان کے لوگوں کی خونخواہی ميں بغاوت کی
گئی تهی تو ميں اس کے ڻکڑے ڻکڑے کرکے رکه دیتا“

۴۔ ایک دوسری روایت ميں مسيب کہتا ہے:
ميںنے علی ابن ابيطالب سے سنا کہ “ عبد الله بن سبا” کی طرف مخاطب ہوکر کہہ
رہے تهے افسوس ہو تم پر! خداکی قسم پيغمبر خدا نے مجه سے کوئی ایسا مطلب نہيں بيان
کيا ہے جو ميں نے لوگوں سے مخفی رکها ہو“

۵۔ ایک دوسری روایت ميں مسيب کہتا ہے:
” علی ابن ابيطالب کو خبر ملی کہ ابن سودا ابوبکراور عمر کی بدگوئی کرتا ہے ۔ علی
عليہ السلام نے اسے اپنے پاس بلایا اور تلوار طلب کی تا کہ اسے قتل کر ڈالےں ۔ یا یہ کہ جب
یہ خبر انهيں پہنچی انهوں نے فيصلہ کيا کہ اسے قتل کر ڈالےں۔ ليکن اس کے بارے ميں کچه
گفتگو ہوئی اور یہ گفتگو حضرت کو اس فيصلہ سے منصرف ہونے کا سبب بنی ،ليکن فرمایا کہ
جس شہر ميں ، ميں رہتا ہوں اس ميں ابن سبا کو نہيں رہنا چاہئے اس لئے اسے مدائن
جلاوطن کر دیا ۔

۶۔ ابن عساکر کہتا ہے:
”ایک روایت ميںا مام صادق عليہ السلام نے اپنے آباء و اجداد سے اور انہوں نے جابر سے نقل
کيا ہے کہ : جب لوگوں نے علی عليہ السلام کی بيعت کی، حضرت نے ایک تقریر کی، اس وقت
عبدا لله بن سبا اڻها اور حضرت سے عرض کی : تم “ دابة الارض” ہو ۔ علی عليہ السلام نے
فرمایا ؛ خدا سے ڈرو! ابن سبانے کہا: تم پروردگا ہو اور لوگوں کو رزق دینے والے ہو، تم ہی نے
ان لوگوں کو خلق کيا ہے اور انهيں رزق دیتے ہو ۔ علی (عليہ السلام )نے حکم دیا کہ اسے قتل
کر دیا جائے ، ليکن رافضيوں نے اجتماع کيا اور کہا؛ یا علی! اسے قتل نہ کریں بلکہ اسے ساباط
مدائن جلاوطن کردیں کيونکہ اگر اسے مدینہ ميں قتل کر ڈاليں گے تو اس کے دوست اور پيرو
ہمارے خلاف بغاوت کریں گے یہی سبب بنا کہ علی عليہ السلام اس کو قتل کرنے سے منصرف
ہوگئے اور اسے ساباط جلاوطن کردیا، کہ وہاں پر “قرامطہ ” اور رافضيوں کے چندگروہ زندگی گذار
رہے تهے، جابر کہتا ہے: اس کے بعد گيارہ افراد پر مشتمل سبائيوں کا ایک گروہ اڻها اور علی
عليہ السلام کی الوہيت اور خدائی کے بارے ميںا بن سبا کی باتوں کو دهرایا، علی عليہ
السلام نے ان کے جواب ميں فرمایا :
اپنے عقيدہ سے دست بردار ہوجاؤ اور توبہ کرو کہ ميں پروردگا و خالق نہيں ہوں بلکہ ميں علی
ابن ابيطالب ہوں تم ميرے ماں باپ کو جانتے ہو اور ميں محمد کا چچيرا بهائی ہوں ۔ انہوں نے
کہا: ہم اس عقيدہ سے دست بردار نہيں ہوں گے تم جو چاہتے ہو ، ہمارے بارے ميںانجام دو اور
ہمارے حق ميں جو بهی فيصلہ کرنا چاہتے ہو کرو لہذا علی عليہ السلام نے ان لوگوں کو جلا دیا
اور ان کی گيارہ قبریں صحرا ميں مشہور و معروف ہيں۔
اس کے بعد جابر کہتا ہے : اس گروہ کے بعض دوسرے افراد نے اپنے عقائد کاہمارے
سامنے اظہار نہيں کيا تها ، اس روداد کے بعد انہوں نے کہا: کہ علی ہی خدا ہےں اور اپنے
عقيدہ اور گفتار پر ابن عباس کی باتوں سے استناد کرتے تهے کہ انهوں نے پيغمبر صلی الله
عليہ و آلہ وسلم سے نقل کياتها: خدا کے علاوہ کوئی آگ کے ذریعہ عذاب نہيں کرے گا۔
جابر کہتا ہے : جب ابن عباس نے ان کے اس استدلال کو سنا ، تو کہا: اس لحاظ سے
تمہيں ابوبکر کی بهی پرستش کرنا چاہئے اور ان کی الوہيت کے بهی قائل ہونا چاہئے ، کيونکہ
انهوں نے بهی چند افراد کو آگ کے ذریعہسزا دیہے ۔

عبدالله بن سبا کے بارے ميں ادیان و عقائد کے علماء کا نظریہ
عبدالله بن سبا من غلاة الزنادقة ضال و مضل
عبدا لله بن سبا انتہا پسند زندیقيوں ميں سے ہے اور وہ گمراہ کنندہ ہے . ذہبی

متقدمين کانظریہ :
ہ م نے عبد الله بن سبا ، سبئيہ اور ابن سودا کے بارے ميں ادیان اور عقائد کی کتابوں
کے بعض متقدم مؤلفين کے بيانات اور نظریات کو گزشتہ فصول ميں ذکر کيا اب ہم ان ميںسے
بعض دوسروں کے نظریات اس فصل ميں ذکر کریں گے اس کے بعد اس سلسلہ ميں متاخرین
کے نظریات بيان کریں گے ۔
ذہبی (وفات ٧۴٨ هء) اپنی کتاب “ ميزان الاعتدال ” ميں عبدالله بن سبا کی زندگی کے
حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہے:
” وہ زندیقی اور ملحد غاليوں ميںسے تها ۔ وہ ایک گمراہ اور گمراہ کنندہ شخص تها ۔
ميرے خيال ميں علی عليہ السلام نے اسے جلا دیا ہے ” اس کے بعد کہتا ہے: جو
زجانی نے عبد الله کے بارے ميںکہا ہے کہ وہ خيال کرتا تها موجودہ قرآن اصلی قرآن کا نواں
حصہ ہے اور پورے قرآن کو صرف علی عليہ السلام جانتے ہيں اور انهيں کے پاس ہے عبد الله بن
سبا اس طرح علی ابن ابيطالب کی نسبت اظہار دلچسپی کرتا تهاليکن علی عليہ السلام
اسے اپنے سے دور کرتے تهے ” ١
---------
١۔ جوزجانی وہی ابراہيم بن یعقوب بن اسحق سعدی ہے اس کی کنيت ابو اسحاق تهی نواحی بلخ ميںجوزجان
ميں پيدا ہوا ہے بہت سے شہروں اور ممالک کا سفر کيا ہے دمشق ميں رہائش پذیر تها حدیث نقل کرتا تها“ الجرح
و التعدیل ” ، “الضعفاء ” اور“ المترجم ” اس کی تاليفات ہيں۔
ذہبی اپنی کتاب ‘ ‘ تذکرة الحفاظ” ميں اس کے حالات کی تشریح ميں کہتا ہے : جوزجانی علی ابن
ابيطالب عليہ السلام کے بارے ميں انحرافی عقيدہ رکهتا تها مزید کہتا ہے : وہ علی عليہ السلام کے خلاف بد
گوئی کرتا تها ۔

ابن حجر ( وفات ٨۵٢ هء) بهی اپنی کتاب “ لسان الميزان ”ميں عبد الله بن سبا کے بارے ميں
ذہبی کے اسی بيان اور ابن عساکر کے پہلے والے بعض نقليات کو نقل کرنے کے بعدکہتا ہے:
”اما م نے ابن سبا کو کہا: خدا کی قسم پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے مجهے کوئی
ایسا مطلب نہيں بتایا ہے کہ ميں نے” معجم البلدان” ميں لفط جوزجان ميں آیا ہے کہ جوزجانی
نے کسی سے چاہا کہ اس کےلئے ایک مرغ ذبح کرے اس شخص نے نہيں مانا
جوزجانی نے کہا: ميںتعجب کرتا ہوں کہ لوگ ایک مرغ کو ذبح کرنے کيلئے آمادہ نہيں
ہوتے ہيں جبکہ علی ابن ابيطالب نے تنہا ایک جنگ ميںستر ہزار افرد کو قتل کيا جوزجانی ٢۵٩
٣١ / هء ميں فوت ہوا ہے )( تذکرة الحفاظ ترجمہٴ ۵۶٩ ، تاریخ ابن عساکر و تاریخ ابن کثير ١١
ملاحظہ ہو(
اسے لوگوں سے مخفی رکها ہو ميں نے رسول خدا صلی الله عليہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ
وہ فرماتے تهے : قيامت سے پہلے، تيس افرا دکذاب اور جهوڻے پيدا ہوں گے اس کے بعد فرمایا:
ابن سبا تم ان تيس افراد ميں سے ایک ہوگے۔
ابن حجر مزید کہتا ہے:
” سوید بن غفلہ ، علی ابن ابيطالب عليہ السلام کی خلافت کے دوران ، ان کی خدمت
ميں حاضر ہوا ور عرض کی : ميںنے بعض لوگوں کو دیکها جن ميں عبد الله بن سبا بهی موجود
تها ، وہ ابوبکر اور عمر پر سخت تنقيد کرتے تهے اور انهيں برا بهلا کہتے تهے اور وہ اعتقاد
رکهتے ہيں کہ آپ بهی ان دو خليفہ کے بارے ميںباطن ميں بدگمان ہيں“
ابن حجر اضافہ کرتا ہے :
”عبد الله بن سبا پہلا شخص تهاجس نے خليفہ اول و دوم کے خلاف تنقيد اور بدگوئی کا آغاز
کيا اور اظہار کرتا تها کہ علی بن ابی طالب ان دو خليفہ کے بارے ميںبدگمان تهے اور اپنے دل
ميںان کے بارے ميںعداوت رکهتا ہے ۔ جب علی نے اس سلسلہ ميں عبدا لله بن سبا کے
اظہارات کو سنا ، کہا: مجهے اس خبيث سياہ چہرے سے کيا کام ہے ؟ ميں خدا سے پناہ
مانگتا ہوں اگر ان دو افرادکے بارے ميں ميرے دل ميں کسی قسم کی عداوت ہو، اس کے بعد
ابن سبا کو اپنے پاس بلایا اور اسے مدائن جلا وطن کردیا اور فرمایا: اسے قطعاً ميرے ساته ایک
شہر ميںز ندگی نہيں کرنی چاہئے اس کے بعدلوگوں کے حضور ميں منبر پر گئے اورابن سباکی
روداد اور خليفہ اول و دوم کی ثنا بيان کی ۔ اپنے بيانات کے اختتام پر فرمایا: اگر ميں نے کسی
سے سنا کہ وہ مجهے ان دو خليفہ پر ترجيح دیتا ہے اور ان سے مجهے برتر جانتا ہے تو ميںا
س پر افترا گوئی کی حد جاری کروں گا اس کے بعد کہتا ہے:
” عبد الله بن سبا کے بارے ميںر وایتيں اور روداد تاریخ کی کتابوںميں مشہور ہيں ليکن
خدا کا شکر ہے کہ اس سے کوئی روایت نقل نہيں ہوئی ہے اس کے ماننے والے “سبائيوں ”
کے نام سے مشہور تهے جو علی ابن ابيطالب عليہ السلام کی الوہيت کے معتقد تهے علی
عليہ السلام نے انهيں آگ ميں ڈال کر جلا دیا اور انهيں نابود کردیا ۔ ١
---------
١۔ مؤلف کہتا ہے : اس داستان کو جعل کرنے والا ، شاید امام کے ان خطبوں کو فراموش کرگيا
ہے جو امام نے ان دو افراد کے اعتراض اور شکایت کے موقع پر جاری کيا تها۔ جيسے حضرت کا
خطبہٴ شقشقيہ جو نہج البلاغہ کا تيسرا خطبہ ہے۔
”خدا کی قسم فرزند ابو قحافہ نے پيراہن خلافت پہن ليا حالانکہ وہ ميرے بارے ميںا
چهی طرح جانتا تهاکہ مير اخلافت ميں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کيل کا ہوتا ہے
ميں وہ کوہ بلند ہوںجس پر سے سيلاب کا پانی گزر کر نيچے گرتا ہے اور مجه تک پرندہ پر نہيں
مارسکتا ميں نے خلافت کے آگے پردہ لڻکادیا اور اس سے پہلو تہی کر لی اور سوچنا شروع کيا
کہ اپنے کڻے ہوئے ہاتهوں سے حملہ کروں یا اس سے بهيانک تيرگی پر صبر کرلوں کہ جس
ميںسن رسيدہ بالکل ضعيف اور بچہ بوڑها ہوجاتاہے اور مومن اس ميں جد و جہد کرتا ہوا اپنے
پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے مجهے اسی اندهيرے پر صبر ہی قرین عقل نظر آیا لہذا ميں نے
صبر کيا حالانکہ ميری آنکهوں ميںخس و خاشاک اور گلے ميں ہڈی پهنسی ہوئی تهی۔ ميں
اپنی ميراث کو لڻتے دیکه رہا تها یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابن
خطاب کودے گيا تعجب ہے کہ و ہ زندگی ميںتو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتاتها ليکن اپنے
مرنے کے بعد اس کی بنياد دوسرے کيلئے استوا رکرتا گيا بے شک ان دونوں نے سختی کے
ساته خلافت کے تهنوںکو آپس ميں بانٹ ليا اس نے خلافت کو ایک سخت اور ناہموار جگہ پر رکه
دیا اس کی جراحتيںکاری تهيں اور اس کا چهونا خشن تها جہاں بات بات ميں ڻهوکر کهانا اورپهر
عذر کرنا تها جس کااس سے سابقہ پڑے وہ ایساہے۔

مقریزی ( وفات ٨۴٨ هء ) اپنی کتاب “ خطط” کی فصل “ذکر الحال فی عقائد اهل الاسلام
” ميںعبدا لله بن سباکے بارے ميںکہتا ہے: “ اس نے علی ابن ابيطالب کے زمانے ميں بغاوت
کی اور یہ عقيدہ ایجاد کيا کہ پيغمبر اسلام صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے علی عليہ السلام کو
مسلمانوں کی امامت اور پيشوائی کيلئے معين فرمایا اورپيغمبر کے واضح فرمان کے مطابق آپ
کے بعد علی آپ کے وصی، جانشين اور امت کے پيشوا ہيں اس کے علاوہ یہ قيد بهی ایجاد
کيا کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام ور رسول خدا اپنی وفات کے بعد رجعت فرمائيں گے یعنی
دوبارہ دنيا ميں تشریف لائيں گے ان کے عقيدہ کے مطابق علی ابن ابيطالب نہيں مرے ہيں بلکہ
وہ زندہ اور بادلوں ميں ہيں اور خداوند عالم کا ایک جز ان ميںحلول کرچکا ہے ١
مقریزی اپنی بات کو جاری رکهتے ہوئے یہاں تک کہتا ہے:
”اس ابن سبا سے غاليوں اور رافصيوں کے کئی گروہ وجود ميں آئے ہيں کہ وہ سب
---------
جيسے کہ کوئی سرکش اونٹ پر سوار کہ مہار کهينچتا ہے تو اس کی ناک کا درميانی حصہ شگافتہ ہوجاتا ہے
جس کے بعد مہار دینا ہی ناممکن ہوجائے گا اور اگر باگ کو ڈهيلا چهوڑدیتا ہے تو وہ اس کے ساته ہلاکتوں ميں پڑ
جائے گا۔ خدا کی قسم ! لوگ کجروی، سرکشی، متلون مزاجی اور بے راہ روی ميںمبتلا ہوگئے، ميںنے اس طویل
مدت اورشدید مصيبت پر صبر کي

دوسری جگہ بهی ان فرمائشات کے مانند بيان فرمایا ہے ۔
١۔ تعجب کا مقام ہے کہ مقریزی اپنی بات ميں تناقض کا شکار ہوا ہے اپنے گذشتہ بيان پر توجہ
کئے بغير مقریزی کہتا ہے: ابن سبا کے عقيدہ کے مطابق علی عليہ السلام اپنی وفات کے بعد
رجعت کریں گے اس کے بعد بلافاصلہ کہتا ہے ابن سبا معتقد ہے کہ علی - نہيں مرے ہيں اور
ابهی زندہ ہيں۔
امر امامت ميں“ توقف ” کے قائل ہيں کہتے ہيں : مقام امامت معين افراد کيلئے مخصوص اور
منحصر ہے اور ان کے علاوہ کوئی اور اس مقام پر فائز نہيں ہوسکتا ہے ۔
رافضيوں نے رجعت کے عقيدہ کو اسی ابن سبا سے حاصل کيا ہے اور کہا ہے: امام
مرنے کے بعد رجعت یعنی دوبارہ دنيا ميں آئيں گے یہ عقيدہ وہی عقيدہ ہے کہ اماميہ ابهی
بهی “ صاحب سرداب” کے بارے ميں یہی عقيدہ رکهتے ہيں کہ حقيقت ميں یہ تناسخ ارواح کے
علاوہ کوئی اور عقيدہ نہيں ہے ۔
اس کے علاوہ رافضيوں نے حلول کا عقيدہ بهی اسی عبدا لله بن سبا سے حاصل کيا
ہے اور کہا ہے: خدا کا ایک جزو علی عليہ السلام کے بعد آنے والے ائمہ ميں حلول کر گيا ہے
اور یہ لوگ اسی وجہ سے مقام امامت کے حقدار ہيں، جس طرح حضرت آدم ملائکہ کے
سجدہ کے حقدار تهے۔
مصر ميں خلفائے فاطميين کے بيانات اور دعوی بهی اسی اعتقاد کی بنياد پر تهے جس
کا خاکہ اسی عبدا لله بن سبا نے کهينچا تها ۔
مقریزی اپنی بات کو یوں جاری رکهتاہے: “ابن سبا یہودی ہے جس نے عثمان کے
تاریخی فتنہ وبغاوت کو برپا کرکے عثمان کے قتل کا سبب بنا“
مقریزی ابن سبا اور اس کے عالم اسلام اور مسلمانوں کے عقائد ميں ایجاد کردہ مفاسد
کی نشاندہی کے بعد گروہ “ سبيئہ ” کا تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے:
” پانچواں گروہ بهی “ سبئيہ”ہی سے ہے اور وہ عبدا لله بن سبا کے ماننے والے ہيں کہ
اس نے علی ا بن ابيطالب کے سامنے واضح اور کهلم کهلا کہا تها کہ “ تم خدا ہو“․

متاخرین کا نظریہ
ی ہاں تک ہم نے ابن سبا اور گروہ سبيئہ کے بارے ميںعقائد و ادیان کے دانشوروں ،
مؤرخين اورادیان کی کتابيں لکهنے والے مؤلفين کے نظریات بيان کئے اور ہم نے مشاہدہ کيا کہ
ان علماء کی یہ کوشش رہی ہے کہ ان اقوال اور نظریات کو دورہ اول کے راویوںسے متصل و
مربوط کریں اور ان سے نقل قول کریں اور من وعن انہيںمطالب کو بعد والے مؤلفين اور متاخرین
نے آ کر تکرار کی ہے اور بحث و تحقيق کے بغير اپنے پيشرؤں کی باتوں کو اپنی کتابوں ميں ثبت
کر دیا ہے ، جيسے:
١۔ ابن ابی الحدید ( وفات ۶۵۵ هء) شرح خطبہ ٢٧ از شرح نہج البلا غہ ۔
٢۔ ابن کثير ( وفا ٧٧۴ هء ) نے اپنی تاریخ ميں ۔
٣۔ بستانی ( وفات ١٣٠٠ هء) نے بهی جو کچه عبد الله بن سبا کے بارے ميں اسی لفظ
کے ضمن ميں اپنے دائرة المعارف ميں درج کيا ہے اسے مقریزی اور ابن کثير سے نقل کيا ہے ۔
۴۔ دوسروں ، جيسے ابن خلدون نے بهی اس روش پر عمل کيا ہے اور مطالب کو تحقيق
کئے بغير اپنے پيشواؤں سے نقل کيا ہے بہر حال اس قسم کے مولفين نے بعص اوقات سيف
کے بيانات کو بالواسطہ نقل کرکے اس کی پيروی کی ہے اور کبهی اس قسم کے مطالب نقل
کرنے والوں کی پيروی کی ہے اور ان مطالب کو ان سے نقل کرکے دوسروں تک پہنچایا ہے اس
قسم کے افراد بہت ہيں مانند مقریزی کہ وہ اپنے مطالب کو سيف کی روایتوں اور “ ملل ونحل”
کی کتابيں لکهنے والے مؤلفين سے نقل کرتا ہے اور بستانی “ ملل و نحل ” کے مؤلفين کے
بيانات کو اسی مقریزی اور سيف کی روایتوں کو ابن کثير سے نقل کرتا ہے اور تمام مؤلفين نے
بهی اس روش کی پيروی کی ہے ۔

عبدا لله بن سبا کے بارے ميں ہمار ا نظریہ
انهم تنافسوا فی تکثير عدد الفرق فی الاسلام
ادیان کی کتابيںلکهنے والے مؤلفين نے اسلامی فرقوں کی تعداد بڑهانے ميںمقابلہ کيا ہے ۔
انهم یدونون کل ما یدور علی السنة اهل عصرهم
ادیان کی کتابيںلکهنے والوں نے اپنے وقت کے کوچہ و بازار کے لوگوں کے عاميانہ مطالب کو
اپنی کتابوںميں درج کيا ہے. مؤلف
یہ تها عبدالله بن سبا، سبيئہ اور اس سے مربوط روایتوں کے بارے ميں قدیم و جدید
علمائے ادیان ، عقائد اور مؤرخين کا نظریہ جو گزشتہ پنجگانہ فصلوں ميںبيان کيا گيا ہے اور اس
سلسلہ ميںہمارا نظریہ یہ ہے کہ ان بيانات اور نظریات ميں سے کوئی ایک بهی مضبوط اور
پائيدار نہيں ہے کيونکہ ان کی بنياد بحث و تحقيق پر نہيں رکهی گئی ہے کيوںکہ اصل ميںعبدا
لله بن سباسے مربوط روایتيں سيف بن عمر سے نقل کی گئی ہيں ہم نے اس کتاب کی ابتداء
ميں اور کتاب “ اےک سو پچاس جعلی اصحاب ” ميں سيف کی روایتوں اور نقليات کی حيثيت کو
واضح کردیا ہے اور ثابت کيا ہے کہ وہ ایک خےالی اور جهوڻا افسانہ ساز شخص تها کہ اس کی
روایتيں اور نقليات افسانوی بنےادوں پر استوار ہيں ۔

ملل و مذہبی فرقوں سے متعلق کتابوں کے مؤلف
انہوں نے بهی مذاہب اور اسلامی فرقوں کی کثرت اور تعداد کو بڑهانے ميں ایک
دوسرے سے مقابلہ کيا ہے اور مختلف گروہوں کی تعداد زیادہ دکهانے ميں ایک دوسرے سے
سبقت لينے کی کوشش کی ہے اسلام ميں گوناگوں فرقے اور گروہ وجو دميں لائے ہيں اور ان
کی نامگذاری بهی کرتے ہيں تاکہ وہ اس راہ سے جدت کا مظاہر کریں اور جدید مذاہب کے
انکشاف ميں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کریں اس محرک کے سبب مجہول اور گمنام تو
کبهی خےالی ا فسانوی اور ایسے فرقے اپنی کتابوں ميں درج کردےاہے ہيں جس کا حقيقت
ميں کہيں وجو دہی نہيں ہے جيسے : ناووسيہ ، طيارہ ، ممطورہ ، سبئيہ ، غرابيہ ، معلوميہ و
مجہوليہ ١ وغيرہ۔
ا سکے بعد ان مؤلفين نے ان ناشناختہ یا جعلی فرقوں اور گروہوں کے نظریا ت اور عقائد
کے بارے ميں مفصل طور پر روشنی ڈالی ہے ہر مؤلف نے اس بارے ميں دوسرے مؤلف پر
سبقت لينے کی سرتوڑ کوشش کی ہے اور ہر ایک نے تلاش کی ہے کہ اس سلسلہ ميں جالب
تر مطالب اور عجےب و غرےب عقائد ان مصروف گروهوں سے منسوب کریں ۔
یہ مؤلفين اور مصنفين اس خود نمائی، فضل فروشی اور غيرو اقعی مطالب لکهنے اور
مسلمانوں کی طرف گوناگوں باطل عقائد کی تہمت لگانے ميں ---جن کی کوئی حقيقت نہيں
ہے --- ایک بڑے ظلم کے مرتکب ہوئے ہيں ۔
اگر یہ طے پاجائے کہ ہم کسی دن اسلام کے مختلف فرقوں کے بارے ميں کوئی کتا ب
لکهيں تو ہم مذکورہ گروہوں ميں ‘ موجدین ” کے نام سے ایک اور گروہ کا اضافہ کریں گے ۔ اس
کے بعد اس فرقہ کی یوں نشاندہی کریں گے “ موجدیہ ” اسلام ميں صاحبان ملل و نحل اور
عقائد و نظریات پر کتابيں لکهنے والے مؤلفين کا وہ گروہ ہے جن کاکام مسلمانوں ميں نئے نئے
فرقے ایجاد کرنا ہے ان کو “ موجدیہ ” اسلئے کہا جاتاہے کہ وہ اسلام ميں فرقے ایجاد کرنے کا
کمال رکهتے ہيں اور جن فرقوں کو وہ جعل کرتے ہيں ان کی عجيب و غریب نامگذاری بهی کرتے
ہيں ۔
اس کے بعد جعل کئے گئے فرقوں کے لئے افسانوں اور خرافات پرمشتمل عقائدبهی
جعل کرتے ہيں ۔
ہ مارے اس دعوی کی بہترین دليل اور گویا ترین شاہد وہی مطالب ہيں جو شہرستانی
کی “ ملل و نحل ” بغدادی کی الفرق بين الفرق ” اور ابن حزم کی “ الفصل ” کے مختلف ابواب
اور فصلوں ميں درج ہوئے ہيں اگر ہم ان کی اچهی طرح تحقيق کریں تو مجبوراً اس نتيجہ
پرپہنچيں گے کہ ان کتابوں کی بنياد علم ، تحقيق اور حقيقت گوئی پر نہيں رکهی گئی ہے اور
مختلف فرقوں اور گروہوں کو نقل کرنے اور ان کے عقائد و نظریات بيان کرنے ميں ان کتابوں کے
اکثر مطالب حقيقت نہيں رکهتے اور ان کے بيشتر نقليات بے بنياد اور خود ساختہ ہيں۔

محرکا ت
ہ ماری نظر ميں ان مؤلفين کی اس تباہ کن اور علم و تحقيق کی مخالف روش انتخاب
کرنے ميں درج ذیل دو عامل مےں سے کوئی ایک ہوسکتا ہے :
ا ول :جيسا کہ ہم نےپہلے اشارہ کيا ہے ادیان و مذاہب کی کتابيں لکهنے والے مذکورہ
مؤلفين نے ان بے بنياد مطالب ، بيہودہ عقائد اور ان افسانوی اور نامعلوم فرقوں کو فضيلت اور
سبقت حاصل کرنے کيلئے اپنی کتابوں ميں درج کيا ہے تا کہ اس کے ذریعہ اپنی جدت پسندی
اور ندرت بےانی کرسکيں اور اس کے ساته ہی اپنے علم و فضيلت کے مقام کو دوسروں سے
برتر ، معلومات کو زیادہ وسيع تر اپنی تاليف کردہ کتابوں کو دوسرو ں کی کتابوں سے تازہ تر اور
ہماری اصطلاح ميںتحقيقی تر اور جدید تر اور عجيب تر مطالب والی کتابيں دکهائيں اور اس طرح
اسلامی گروہوں کے انکشاف ميں دوسروں سے سبقت حاصل کرليں ۔
دوم : اگر ہم ان مؤلفين کے بارے ميں حسن ظن رکهيں اورےہ نہ کہيں کہ وہ اپنی
تاليفات ميںبد نيتی ندرت جوئی ، برتری طلبی اور جدت پسندی رکهتے تهے کم از کم یہ کہنے
پر مجبور ہيں کہ ان مؤلفين نے اپنی کتابوںکے مطالب کو اپنے زمانے کے لوگوں کی افواہوں اور
گلی کوچوں کے عاميانہ مطالب سے لے کر تاليف کيا ہے ۔
اور خرافات پر مشتمل تمام وہ افسانے ان کے زمانے کے لوگوں کے درميان رائج اور
دست بہ دست نقل ہوئے تهے کو جمع کرکے اپنی تاليفات ميں بهر دیا ہے اس لحاظ سے ان
کتابوں کو ان مؤلفين کے زمانے کے عاميانہ افکار کی عکاسی کرنے والا آئينہ کہا جاسکتا ہے اور
ان کتابوں سے یہ معلوم کيا جاسکتا ہے کہ ان مؤلفين کے زمانے ميں عام لوگ مسلمانوں کے
مختلف فرقوں کے بارے ميں بے بنياد تصورات رکهتے تهے ، جيساکہ ہم اپنے زمانے ميں ان
چيزوں کا کثرت سے مشاہدہ کرتے ہيں ۔ مثلاً بعض شيعہ عوام سنی بهائيوں کے بارے ميں یہ
عقيدہ رکهتے ہيں کہ ان کے ایک دم ہوتی ہے اور وہ اس دم کو اپنے لباس کے نيچے چهپا کے
رکهتے ہيں اور اہل سنت کے عوام بهی شيعوں کے بارے ميں یہ عقيدہ رکهتے ہيں کہ وہ ایک
دم رکهتے ہيں ۔
اس لحاظ سے اگر کسی دن ہم بهی ملل و نحل ،عقائد اور نظریات پر کوئی کتاب لکهنا
چاہيں تو اسميں مذکورہ مؤلفين کے طریقہ کار کی پيروی کرناچاہيں تو ہميں ان مؤلفين کی
کتابوں ميںدرج کئے گئے گوناگون فرقوںميں ایک اور فرقے کا اضافہ کرنا چاہئيے ، اور کہنا چاہئے
کہ: ایک اور فرقہ جو مسلمانوں ميں موجود ہے اس کا نام فرقہ “ دُنبيہ ” ہے اور اس فرقہ کے
افراد بعض حيوانات کے مانند صاحب دم ہيں اور اس دم کو اپنے لباس کے نيچے مخفی رکهتے
ہيں!!