عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے(تيسری جلد)
 

دوسری فصل
عبدا لله بن سبا ، ملل اور فرق کی نشاندہی کرنے والی کتابوں ميں
عبدالله بن سبا اور ابن سودا ملل و فرق کی کتابوں ميں ۔
ملل و فرق کی کتابوں ميں سبائيوں کے گروہ۔
ا بن سبا، ابن سودا اور سبيہ کے بارے ميں بغدادی کا بيان۔
ا بن سبا و سبيئہ کے بارے ميں شہرستانی اور اسکے تابعين کا بيان ۔
عبدا لله بن سبا کے بارے ميں ادیان و عقاید کے علماء کا نظریہ ۔
عبدالله بن سبا کے بارے ميں ہمارا نظریہ۔
نسناس کا افسانہ۔
ن سناس کی پيدائش اور اس کے معنی کے بارے ميں نظریات ۔
مباحث کا خلاصہ و نظریہ ۔
ا س حصہ کے مآخذ۔

عبد الله بن سبا و ابن سودا ملل اور فرق کی نشاندہی کرنے والی کتابوں ميں
ی رسلون الکلام علی عواهنہ
ادیان کی بيوگرافی پر مشتمل کتابيں لکهنے والے سخن کی لگام قلم کے حوالے کرتے ہيں اور
کسی قيد و شرط کے پابند نہيں ہيں۔ مؤلف

ہم نے اس کتاب کی پہلی جلد کے حصہ ٴ “ پيدائش عبدا لله بن سبا ” ميں مؤرخين
کے نظر ميں عبدالله بن سبا کے افسانہ کا ایک خلاصہ پيش کيا گزشتہ حصہ ميں بهی ان اخبار
و روایتوں کو بيان کرکے بحث و تحقيق کی جن ميں عبدا لله بن سباکا نام آیا ہے ۔
ہم نے اس فصل ميں جو کچه ملل و فرق کی نشاندہی کرنے والی کتابوں ميں عبدا لله
بن سبا ، ابن سوداء اور سبيہ کے بارے ميں بيان کرنے کے بعد ان مطالب کو گزشتہ چودہ
صدیوں کے دوران اسلامی کتابوں اورمآخذ ميں نقل ہوئے ان کے مشابہ افسانوں سے تطبيق و
موازنہ کيا ہے اس کے بعد گزشتہ کئی صدیوں کے دوران ان تين الفاظ کے معنی و مفہوم ميں
ایجاد شدہ تغير و تبدیليوں کے بارے ميں بهی ایک بحث و تحقيق کرکے اس فصل کو اختتام تک
پہنچایا ہے۔

علمائے ادیان کا بيان
سعد بن عبد الله اشعری قمی ( وفات ٣٠١ هء) اپنی کتاب “ المقالات و الفرق ” ميں عبد
الله بن سبا کے بارے ميںکہتا ہے:
”وہ پہلا شخص ہے جس نے کهلم کهلا ابوبکر ، عمر ، عثمان ، اور اصحاب پيغمبر صلی
الله عليہ و آلہ وسلم پر تنقيد کی اور ان کے خلاف زبان کهولی اور ان سے بيزاری کا اظہار کيا
اس نے دعوی کيا کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام نے اسے یہ طریقہ کار اپنانے کا حکم دیا اور
کہا کہ اس راہ ميں کسی قسم کی سہل انگاری اور تقيہ سے کام نہ لے اور سستی نہ
دکهائے جب یہ خبر علی ابن ابيطالب عليہ السلام کو پہنچی تو انہوں نے حکم دیا کہ اسے پکڑ
کر ان کے پاس حاضر کيا جائے جب اسے ان کے پاس لایا گيا تو روداد کے بارے ميں اس سے
سوال کيا اور اس کے اپنائے گئے طریقہ کار اور دعوی کے بارے ميںا س سے وضاحت طلب کی
،جب ابن سبا نے اپنے کئے ہوئے اعمال کا اعتراف کيا تو امير المؤمنين عليہ السلام نے اس
کے قتل کا حکم دیا۔ اس وقت ہر طرف سے حضرت علی عليہ السلام پراعتراض کی صدائيں بلند
ہوئيں کہ اے امير المؤمنين! کيا اس شخص کو قتل کر رہے ہيں جو لوگوںکو آپ اور آپ کے خاندان
کے ساته محبت اور آپ کے دشمنوں کے ساته دشمنی اور مخالفت کی دعوت دیتا ہے ؟ جس
کی وجہ سے حضرت علی عليہ السلام نے اس کے قتل سے چشم پوشی کی اور اسے
مدائن ميں جلا وطن کر دیا“
اس کے بعد اشعری کہتا ہے:
” اور بعض مؤرخيں نے نقل کيا ہے کہ عبد الله بن سبا ایک یہودی تها اس کے بعد اس
نے اسلام قبول کيا اور علی عليہ السلام کے دوستداروںميں شامل ہو گيا وہ اپنے یہودی ہونے
کے دوران حضرت موسی کے وصی “ یوشع بن نون ” کے بارے ميں شدید اور سخت عقيدہ
رکهتا تها ١
ا شعری اپنی بات کو یوں جاری رکهتا ہے : “ جب علی عليہ السلام کی وفات کی خبر مدائن
ميں عبدالله بن سبا اور اس کے ساتهيوں نے سنی تو انہوں نے مخبر سے مخاطب ہوکر کہا؛ اے
دشمن خدا ! تم جهوٹ بولتے ہو کہ علی عليہ السلام وفات کر گئے۔ خدا کی قسم اگر ان کی
کهوپڑی کو ایک تهيلی ميں رکه کر ہمارے پاس لے آؤا ور ستر ( ٧٠ ) آدمی عادل ان کی موت کی
شہادت دیں تب بهی ہم تيری بات کی تصدیق نہيںکریں گے کيونکہ ہم جانتے ہيں کہ علی عليہ
السلام نہيں مریں گے نہ ہی مارے جائيں گے۔ جی ہاں! وہ اس وقت تک نہيں مریں گے جب تک
کہ تمام عرب اور پوری دنيا پر حکومت نہ کریں”۔
---------
١۔ اشعری سے وہی اشعری مقصود ہے کہ مؤرخين نے سيف بن عمر ( وفات ١٧٠ ه ) سے ليا ہے اور ہم نے اس
مطلب کو اسی کتاب کی جلد اول کے اوائل ميں تحقيق کی ہے ۔

عبدا لله بن سبا اور اس کے ماننے والے فوراً کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے اور اپنے مرکبوں کو علی
کے گهر کے باہر کهڑا کر دیا اس کے بعد حضرت کے گهر کے دروازے پر ایسے کهڑے رہے
جيسےان کے زندہ ہونے پر اطمينان رکهتے ہوںاور ان کے حضور حاضر ہونے والے ہوں اور اس کے
بعد داخل ہونے کی اجازت طلب کی ۔ علی عليہ السلام کے اصحاب اور اولاد ميںسے جو اس
گهر ميں موجود تهے ، نے ان افرادکے جواب ميں کہا؛ سبحان الله ! کيا تم لوگ نہيں جانتے ہو کہ
اميرالمؤمنين مارے گئے ہيں؟ انہوں نے کہا: نہيں بلکہ ہم یقين رکهتے ہيںکہ وہ مارے نہيں
جائےں گے اور طبيعی موت بهی نہيںمریں گے یہاں تک وہ اپنی منطق و دليل سے تمام
عربوں کو متاثر کر کے اپنی تلوار اور تازیانوں سے ان پر مسلط ہوں گے وہ اس وقت ہماری گفتگو
کو سن رہے ہيں اور ہمارے دلوں کے راز اور گهروں کے اسرار سے واقف ہيں اور تاریکی ميں
صيقل کی گئی تلوار کے مانند چمکتے ہيں“
اسکے بعد اشعری کہتا ہے : “ یہ ہے “ سبيئہ ” کا عقيدہ اور مذہب اور یہ ہے علی ابن
ابيطالب عليہ السلام کے بارے ميں “حرثيہ ” کا عقيدہ “ حرثيہ ” عبد الله بن حرث کندی کے پيرو
ہيں ۔ وہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے بارے ميںمعتقد تهے کہ وہ کائنات کے خدا ہيں اپنی
مخلوق سے ناراض ہو کر ان سے غائب ہو گئے ہيں اور مستقبل ميں ظہور کریں گے“
۴٢۵ ) ميں اشعری کی اسی بات کی طرف / ابن ابی الحدید بهی شرح نہج البلاغہ ( ١
اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :
”اصحاب مقالات نے نقل کيا ہے کہ“
اشعری نے اپنی کتاب ميں “ سبيئہ ” کے بارے ميںا س طرح داستان سرائی کی ہے ،
قبل اس کے کہ اپنی بات کے حق ميںکوئی دليل پيش کرے اور اپنے افسانہ کيلئے کسی منبع
و مآخذ کا ذکر کرے۔
نجاشی ، اشعری کے حالات کی تشریح ميں کہتا ہے:
”اس نے اہل سنت سے کثرت سے منقولات اور روایتيں اخذ کی ہيں اور روایات اور
احادیث کو حاصل کرنے کی غرص سے اس نے سفر کئے ہيں اور اہل سنت کے بزرگوں سے
ملاقاتيں کی ہيں“
بہر حال اشعری نے اپنی کتاب مقالات ميںا بن سبا کے بارے ميں جو کچه درج کيا ہے
اسکے بارے ميںکوئی مآخذ و دليل پيش نہيں کيا ہے۔
اسی طرح مختلف اقوام و ملل کے - ملل ونحل کے عقائد و ادیان کے بارے ميں کتاب
لکهنے والوں کی عادت و روش یہ رہی ہے کہ وہ اپنی گفتگو کی باگ ڈور کو آزاد چهوڑ کر قلم
کے حوالے کر دیتے ہيں اور اپنی بات کے سلسلہ ميں سند و مآخذ کے بارے ميں کسی قسم
کی ذمہ داری کا احساس نہيںکرتے ہيں مآخذ اور دليل کے لحاظ سے اپنے آپ کو کسی قيد و
شرط کا پابند نہيں سمجهتے ہيں اپنے آپ کو کسی بهی منطق و قواعد کا پابند نہيں جانتے
ہيں چنانچہ ملاحظہ فرمایا : اشعری نے ایک اور گروہ کو “ حربيہ ” یا “ حرثيہ ” کے نام سے عبدا
لله بن حرث کندی سے منسوب کرکے گروہ سبئيہ ميں اضافہ کيا ہے ۔
ابن حزم عبدالله بن حرث کے بارے ميں کہتا ہے:
حارثيہ جو رافضيوں کا ایک گروہ ہے اس کے افراد اس سے منسوب ہيں وہ ایک غالی و کافر
شخص تها اس نے اپنے ماننے والوں کے ليے دن را ت کے دوران پندرہ رکعت کی سترہ نمازیں
واجب قرار دی تهيں اس کے بعد توبہ کرکے اس نے خوارج کے عقيدہ “ صفریہ ” کو اختيار کيا ”۔
نوبختی ( وفات ٣١٠ هء) نے بهی اپنی کتاب “ فرق الشيعہ ” ميں اشعری کی اسی
بات کو درج کيا ہے کہ جسے ہم نے پہلے نقل کيا ۔ البتہ اشعری کے بيان کے آخری دو حصے
ذکر نہيں کئے ہيں جس ميں وہ کہتا ہے: امام کی رحلت کی خبر کی تحقيق کيلئے سبائی ان
کے گهر کے دروازے پر گئے ” اس کے علاوہ اپنی بات کا مآخذ جو کہ “ مقالات اشعری ” ہے ، کا
بهی ذکر نہيں کيا ہے ۔
علی ابن اسماعيل ( وفات ٣٣٠ هء) اپنی کتاب “ مقالات اسلاميين ” ميں کہتا ہے:
” سبائيوں کا گروہ ، عبدالله بن سبا کے ماننے والے ہيں کہ ان کے عقيدہ کے مطابق
علی ابن ابيطالب عليہ السلام فوت نہيں ہوئے ہيں ، اور وہ قيامت سے پہلے دوبارہ دنيا ميں
واپس آئيں گے اور ظلم و بے انصافی سے پُر، کرہ ارض کو اس طرح ، عدل و انصاف سے بهر دیں
گے جس طرح وہ ظلم و جور سے لبریز ہو گی اور نقل کيا گيا ہے کہ ابن سبا نے علی ابن
ابيطالب عليہ السلام سے کہا: تم وہی ہو (انت انت“(
علی بن اسماعيل اضافہ کرتا ہے کہ سبائيوں کا گروہ ، رجعت کا معتقد ہے اور “ سيد
حميری ” سے نقل ہوا ہے کہ اس نے اپنا معروف شعر اسی عقيدہ کے مطابق کہاہے ، جہاں پر
کہتا ہے:

الی یوم یؤوب الناس فيہ
الی دنياهم قبل الحساب

ميں اس دن کے انتظار ميں ہوں کہ لوگ اس دن پهر سے ان دنيا ميں واپس آئيں گے ،
اس سے قبل کہ حساب اور قيامت کا دن آئے
اس کے بعد کہتا ہے :
”یہ لوگ جب رعد و برق کی آواز سنتے ہيں تو کہتے ہيں :
”السلام عليک یا امير المؤمنين“!

ملل و نحل کی کتابوں ميں سبائيوں کے فرقے
وهولاء کلهم احزاب الکفر
سبائی، سب اہل کفر کے گروہوںميں سے ہيں ۔

علمائے ادیان
ا بو الحسن ملطی ( وفات ٣٧٧ هء) اپنی کتاب “ التنبہ و الرد ” کی فصل “ رافضی اور ان
کے عقاید ” ميں کہتا ہے:
” سبائيوں اور رافضيوں کا پہلا گروہ ، غلو کرنے والا اور انتہا پسند گروہ ہے ،بعض اوقات
انتہا پسند رافضی سبائيوں کے علاوہ بهی ہوتے ہيں انتہا پسند اور غلو کرنے والے سبائی ،
عبدا لله بن سباکے پيرو ہيں کہ انہوں نے علی عليہ السلام سے کہا: تم وہی ہو ! علی عليہ
السلام نے ان کے جواب ميں فرمایا: ميں کون ہوں ؟ انہوں نے کہا: وہی خدا اور پروردگار ! علی
عليہ السلام نے ان سے توبہ کا مطالبہ کيا ليکن انہوں نے توبہ قبول کرنے سے انکار کيا ۔ اس
کے بعد حضرت علی عليہ السلام نے ایک بڑی آگ آمادہ کی اور انهيں اس ميں ڈال کر جلا دیا ،
اور ان کو جلاتے ہوئے یہ رجز پڑهتے تهے :

لما رایت الامر امراً منکراً
اججت ناری و دعوت قنبراً

جب ميں کسی برے کام کا مشاہدہ کرتا تو آگ کو جلا کر قنبر کو بلاتا تها تا آخر ابيات
ابو الحسن ملطی اس کے بعدکہتا ہے :
اس گروہ کے آج تک کچه لوگ باقی بچے ہيں کہ یہ لوگ زیادہ تر قرآن مجيد کی اس آیت
کی تلاوت کرتے ہيں:
> اِنَّ علَينَا جَمعَْہُ وَ قُر نَْاٰہُ فَاِذَا قَرَاٴنَْاہُ فَاتَّبِع قُر نَْاٰہُ > ١
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے جمع کریں اور پڑهوائيں، پهر جب ہم پڑهادیں تو آپ اس کی
تلاوت کو دهرائيں ۔
اور یہ گروہ معتقد ہے کہ علی ان ابيطالب عليہ السلام نہيں مرے ہيں اور انهيں موت
نہيں آسکتی ہے اور وہ ہميشہ زندہ ہيں اور کہتے ہيں : جب علی عليہ السلام کی رحلت کی
خبر ان کو ملی تو انہوں نے کہا: علی عليہ السلام نہيں مریں گے، اگر اس کے مغز کو ستر
تهيلوں ميں بهی ہمارے پاس لاؤ گے ، تب بهی ہم ان کی موت کی تصدیق نہيں کریں گے ! جب
ان کی بات کو حسن ابن علی عليہ السلام کے پاس نقل کيا گيا تو انہوں نے کہا: اگر ہمارے والد
نہيںمرے ہيں تو ہم نے کيوں ان کی وراثت تقسيم کی اور ان کی بيویوں نے کيوںشادی کی ؟
---------
١۔ سورہ ٴ قيامت : آیت ١٧ و ١٨ ۔

ابو الحسن ملطی مزید کہتا ہے:
” سبائيوں کا دوسرا گروہ یہ عقيدہ رکهتا ہے کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام نہيں
مرے ہيں بلکہ وہ بادلوں کے ایک ڻکڑے ميں قرار پائے ہيں لہذا جب وہ بادلوں کے ایک صاف و
سفيد اور نورانی ڻکڑے کو رعد و برق ١ کی حالت ميں دیکهتے ہيں، تو اپنی جگہ سے اڻه کر
اس ابر کے ڻکڑے کے مقابلہ ميں کهڑے ہو کردعا و تضرع ميں مشغول ہوتے ہيں اورکہتے ہيں :
اس وقت علی ابن ابيطالب عليہ السلام بادلوں ميں ہمارے سامنے سے گزرے“!
ابو الحسن ملطی اضافہ کرتا ہے:
” سبائيوں کا تيسرا گروہ وہ لوگ ہيں جو کہتے ہيں : علی عليہ السلام مر گئے ہيں
ليکن قيامت کے دن سے پہلے مبعوث اور زندہ ہوں گے ، اور تمام اہل قبور ان کے ساته زندہ ہوں
گے تا کہ وہ دجال کے ساته جنگ کریں گے اس کے بعد شہر و گاؤں ميں لوگوں کے درميان
عدل و انصاف بر پا کریں گے اور اس گروہ کے لوگ عقيدہ رکهتے ہيں کہ علی عليہ السلام خدا
ہےں اور رجعت پر بهی عقيدہ رکهتے ہيں“
ا بو الحسن ملطی اپنی بات کو جاری رکهتے ہوئے کہتا ہے:
” سبائيوں کے چوتهے گروہ کے لوگ محمد بن علی ( محمد حنفيہ ) کی امامت کے
معتقد ہيں اور کہتے ہيں : وہ رضوی نامی پہاڑ ميں ایک غار ميں زندگی گذار رہے ہيں ایک اژدها
اور ایک شير ان کی حفاظت کررہا ہے ، وہ وہی “ صاحب الزمان” ہےں جو ایک دن ظہور کرےں
گے اور دجال کو قتل موت کے گهاٹ اتاریں گے ! اور لوگوں کو ضلالت اور گمراہی سے ہدایت کی
طرف لے جائےں گے اور روئے زمين کو مفاسد سے پاک کریں گے“
ابو الحسن ملطی اپنی بات کے اس حصہ کے اختتام پر کہتا ہے:
” سبائيوں کے یہ چاروں گروہ “بداء ” کے معتقد ہيں ! اور کہتے ہيں : خدا کيلئے کاموں
ميں بداء حاصل ہوتا ہے یہ گروہ توحيد اور خدا شناسی کے بارے ميں اور بهی باطل بيانات اور
عقائد رکهتے ہيں کہ ميں اپنے آپ کو یہ اجازت نہيں دے سکتا ہوںکہ خدا کے بارے ميں ان کے
ان ناشائستہ عقائد کو اس کتاب ميں وضاحت کروں اور نہ یہ طاقت رکهتا ہوں کہ خدا کے بارے
ميںا یسی باتوں کو زبان پر لاؤں مختصر یہ کہ یہ سب گروہ اور پارڻياں کفر کے فرقے ہيں“
ا بو الحسن ملطی اسی کتاب کے باب “ ذکر الروافض و اجناسهم و مذاهبہم ” ميں
سبائيوں کے بارے ميں دوبارہ بحث و گفتگو کرتا ہے اور اس دفعہ “ ابو عاصم ” سے یوں نقل
کرتا ہے کہ:
---------
١۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بنيادی طور پر سفيد ، صاف اور روشن بادل رعد و برق ایجاد نہيں کرتے ہيں بلکہ یہ سياہ
بادل ہے جو رعد و برق پيدا کرتا ہے

” عقيدہ کے لحاظ سے رافضی پندرہ گروہوں ميں تقسيم ہوتے ہيں اور یہ پندرہ گروہ
خداکی طرف سے اختلاف اور پراگندگی کے عذاب ميں مبتلا ہو کر اور مزید بہت سے گروہوں اور
پارڻيوں ميں تقسيم ہوگئے ہيں:

اول) ان ميں سے ایک گروہ خدا کے مقابلے ميں علی ابن ابيطالب کی الوہيت اور خدا
ئی کے قائل ہے ”۔ یہاں تک کہتا ہے “ ان ہی ميں سے عبد الله بن سبا تها جو یمن کے شہر
صنعا کا رہنے والا تها اور علی عليہ السلام نے اسے ساباط جلا وطن کيا“․

دوم ) ان ميں سے دوسرا گروہ جسے “ سبيئہ ” کہتے ہيں ان کا کہنا ہے کہ : علی
عليہ السلام نبوت ميں پيغمبر کے شریک و سہيم ہےں ، پيغمبر اپنی زندگی ميں مقدم تهے اور
جب وہ دنيا سے رحلت کر گئے تو علی ان کی نبوت کے وارث بن گئے اور ان پر وحی نازل
ہوتی تهی جبرئيل ان کيلئے پيغام لے کر آتے تهے۔ اس کے بعد کہتا ہے : یہ دشمن خدا ہيں اور
جهوٹ بولتے ہيں ، کيونکہ محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم خاتم الانبياء تهے اور ان کے بعد
نبوت رسالت وجود نہيں رکهتی ہے ۔

سوم ) ان کے ایک دوسرے گروہ کو “منصوریہ ” کہتے ہيں وہ اس بات کے معتقد ہيں کہ علی نہيں مرے ہيں بلکہ بادلوں ميںزندگی گذار رہے ہيں“
اس طرح رافضيوں کے پندرہ گروہوں کو اپنے خيال و زعم ميں معين کرکے ان کے عقائد
کی وضاحت کرتا ہے ۔

ابن سبا ، ابن سودا اور سبائيوں کے بارے ميں عبدا لقاہر بغدادی کا بيان
و هذہ الطائفة تزعم ان المهدی المنتظر هو علیّ
گروہ سبئيہ کا یہ عقيدہ ہے کہ مہدی منتظر وہی علی ہے ۔ بغدادی
عبدا لقاہر بغدادی ( وفات ۴٢٩ هء ) اپنی کتاب “ الفرق بين الفرق ” کے فصل “ عقيدہ
سبئيہ اور ا س گروہ کے خارج از اسلام ہونے کی شرح کے باب ” ميں کہتا ہے:
” گروہ سبيئہ اسی عبدا لله بن سبا کے پيرو ہيں کہ جنہوں نے علی ابن ابيطالب عليہ کے بارے
ميں غلو کيا ہے اور اعتقاد رکهتے ہيں کہ وہ پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم ہے ۔ اس کے بعد
اس کی الوہيت و خدائی کے معتقد ہوئے اور کوفہ کے بعض لوگوں کو اپنے عقيدہ کی طرف
دعوت دی ۔ جب اس گروہ کی خبر علی عليہ السلام کو پہنچی ، تو انکے حکم سے ان ميں
سے بعض لوگوں کو دو گڑهوں ميں ڈال کر جلادیا گيا ، حتی بعض شعراء نے اس رودادکے بارے
ميںدرج ذیل اشعار بهی کہے ہيں:

لترم بی الحوادث حيت شاءَ ت
اذا لم ترم بی فی الحفرتين

”حوادث اور واقعات ہميں جہاںبهی چاہيں ڈال دیں صرف ان دو گڑهوں ميں نہ ڈاليں“
چونکہ علی عليہ السلام اس گروہ کے باقی افراد کو جلانے کے سلسلے ميںاپنے
ماننے والوں کی مخالفت اور بغاوت سے ڈر گئے ، اس لئے ابن سبا کو مدائن کے ساباط ميں
جلا وطن کيا ۔ جب علی عليہ السلام مارے گئے تو ابن سبا نے یوں اپنے عقيدہ کا اظہار کيا :
جو مارا گيا ہے وہ علی عليہ السلام نہيں بلکہ شيطان تها جو علی کے روپ ميں ظاہر ہوا تها
اور خود کو لوگوں کے سامنے مقتول جيسا ظاہر کيا ، اس لئے کہ علی عليہ السلام حضرت
عيسی کی طرح آسمان کی طرف بلا لئے گئے ہيں۔
اس کے بعد عبد القاہر کہتا ہے:
اس گرو کا عقيدہ ، جس طرح یہود و نصاریٰ قتل حضرت عيسیٰ کے موضوع کے بارے
ميں ایک جهوڻااور خلاف واقع دعوی کرتے ہيں ، ناصبی اور خوارج نے بهی علی عليہ السلام کے
قتل کے موضوع پر ایک جهوڻے اور بے بنياد دعوی کا اظہار کيا ہے ۔ جس طرح یہود و نصاریٰ نے
ایک مصلوب شخص کو دیکها اور اسے غلطی سے عيسیٰ تصورکرگئے اسی طرح علی کے
طرفداروں نے بهی ایک مقتول کو علی کی صورت ميں دیکها اور خيال کيا کہ وہ خود علی ابن
ابيطالب عليہ السلام ہيں ، جب کہ علی آسمان پر بلا لئے گئے ہيں اور مستقبل ميں پهر
سے زمين پر اتریں گے اور اپنے دشمنوں سے انتقام ليں گے“
عبدا لقاہر کہتا ہے:
” گروہ سبئيہ ميں سے بعض لوگ خيال کرتے ہيںکہ علی بادلوں ميںہيں ۔رعد کی
آواز وہی علی کی آواز ہے ۔ آسمانی بجلی کا کڑکنا ان کا نورانی تازیانہ ہے جب کبهی بهی
یہ لوگ رعد کی آواز سنتے ہيں توکہتے ہيں : عليک السلام یا امير المؤمنين!
عامر بن شراحيل شعبی ١سے نقل کيا گيا ہے کہ ابن سبا سے کہا گيا:
علی عليہ السلام مارے گئے ، اس نے جواب ميں کہا :
---------
١۔ عامر بن شراحيل کی کنيت ابو عمر تهی و وہ قبيلہٴ ہمدان سے تعلق رکهتا ہے اور شعبی کے نام سے معروف
ہے ( اور حميری و کوفی ) وہ عمر کی خلافت کے دوسرے حصہ کے وسط ميں پيدا ہوا ہے اور دوسری صدی ہجری
کے اوائل ميں فوت ہو چکا ہے اس نے بعض اصحاب رسول صلی الله عليہ و آلہ وسلم ، جيسے امير المؤمنين عليہ
السلام سے احادیث نقل کی ہيں ، جبکہ علمائے رجال واضح طورپر کہتے ہيں کہ اس نے جن اصحاب سے احادیث
( ۶۵ ۔ ۶٩ / نقل کی ہيں ، انهيں بچپن ميں دیکها ہے اور ان سے کوئی حدیث ہی نہيں سنی ہے ( تہذیب التہذیب ۵
علمائے رجال کی یہ بات شعبی کے احادیث کے ضعيف ہونے کی ایک محکم اور واضح دليل ہے خاص طور پر
شعبی کے احادیث کے ضعيف ہونے کے بارے ميں دوسرے قرائن یہ ہيں کہ وہ ١٠٩ هء ميں فوت ہوا ہے اور بغدادی
۴٢٩ هء ميں فوت ہوا ہے اس طرح ان دو افراد کے درميان آپس ميںتيں سو سال کا فاصلہ ہے زمانے کے اتنے فاصلہ
کے باوجود بغدادی کس طرح شعبی سے روایت نقل کرتا ہے اگر اس کی نقل بالواسطہ تهی تو یہ واسطے کون
ہيں ؟ کيوں ان کا نام نہيں ليا گيا ہے ؟(

اگر ان کے مغز کو ایک تهيلی ميں ہمارے لئے لاؤ گے پهر بهی ہم تمہاری بات کی تصدیق نہيں
کریں گے کيونکہ وہ نہيں مریں گے یہاں تک آسمان سے اتر کر پوی روئے زمين پر سلطنت کریں
گے“
عبدا لقاہر کہتا ہے :
”یہ گروہ تصور کرتا ہے کہ “مهدی منتظر ” وہی علی ابن ابيطالب ہيں کوئی دوسرا شخص نہيں
ہے اسحاق بن سوید عدوی ١ نے اس گروہ کے عقائد کے بارے ميں درج ذیل اشعار کہے ہيں:
ميں گروہ خواج سے بيزاری چاہتا ہوں اور ان ميںسے نہيں ہوں ، نہ گروہ غزال سے ہوں
اور نہ ابن باب کے طرفداروں ميں سے، اور نہ ہی اس گروہ سے تعلق رکهتا ہوں کہ جب وہ علی
کو یاد کرتے ہيں تو سلام کا جواب بادل کو دیتے ہيں ليکن ميں دل و جان سے برحق پيغمبر
اور ابوبکر کو دوست رکهتا ہوں اور جانتا ہوں کہ یہی راستہ درست اور حق ہے۔
اس الفت و دوستی کی بنا پر قيامت کے دن بہترین اجر و ثواب کی اميد رکهتا ہوں ٢ ۔
من الغزال منهم و ابن باب
ومن قوم اذا ذکروا عليا
یردون السلام علی السحاب
و لکنی احب بکل قلبی
واعلم ان ذاک من الصواب
رسول الله و الصدیق حقا
بہ ارجو غداً حسن الثواب
ی ہاں پر عبدا للہبن سبا اور گروہ سبئيہ کے بارے ميں بغدادی کی گفتگو اختتام کو
پہنچی ، اب وہ عبد الله بن سودا کے بارے ميںا پنی گفتگو کا آغاز کرتا ہے اور اس کے بارے ميں
یوں کہتا ہے:
عبدا لله بن سودا نے سبئيہ گروہ کی ان کے عقيدہ ميں مدد کی ہے اور ان کا ہم خيال
رہا۔ وہ بنيادی طور پر حير ہ کے یہودیوں ميں سے تها ليکن کوفہ کے لوگوں ميں مقام و ریاست
حاصل کرنے کيلئے ظاہراً اسلام لایا تها اور کہتا تها : ميں نے توریت ميں پڑها ہے کہ ہر پيغمبر کا
ایک خليفہ اور وصی ہے اور محمد صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے وصی علی عليہ السلام
ہيں“
---------
١۔ اسحاق بن سوید عدوی تميمی بصری کی موت ١٣١ ئه ميں طاعون کی بيماری کی وجہ سے ہوئی ہے ۔وہ
حضرت علی عليہ السلام کی مذمت کرتا تها اور کہتا تها کہ ميں ان سے الفت نہيں رکهتا ہوں۔
٢۔ برئت من الخوارج لست منهم
بغدادی کہتا ہے:
جب علی عليہ السلام کے شيعوں نے ابن سودا کی یہ بات سنی تو انہوں نے علی
سے کہا کہ وہ آپ کے دوستداروں اور محبت کرنے والوں ميںہے لہذا علی کے پاس ابن سوداد
کا مقام بڑه گيا اور وہ ہميشہ اسے اپنے منبر کے نيچے اور صدر مجلس ميں جگہ دیتے تهے،
ليکن جب علی نے بعد ميں اس کے غلو آميز مطالب سنے تو اس کے قتل کا فيصلہ کيا ،
ليکن ابن عباس نے علی کے اس فيصلہ سے اختلاف کيا اور انهيں آگاہ کيا کہ کيا شام کے
لوگوں سے جنگ کرنا چاہتے ہيں آپ کو اس نازک موقع پر لوگوں کی حمایت کی ضرورت ہے اور
مزید سپاہ و افراددر کار ہيں اگر ایسے سخت موقع پر ابن سودا کو قتل کر ڈاليںگے ، تو آپ کے
اصحاب و طرفدار مخالفت کریں گے اور آپ ان کی حمایت سے محروم ہوجائيں گے علی نے ا بن
عباس کی یہ تجویز قبول کی اور اپنے دوستداروں کی مخالفت کے ڈر سے ابن سوداء کے قتل
سے صرف نظر کيا،اور اسے مدائن ميں جلا وطن کر دیا ليکن علی کے قتل کئے جانے کے
بعد بعض لوگ ابن سودا کی باتوں کے فریب ميںآگئے کيونکہ وہ لوگوں کو اس قسم کے مطالب
سے منحرف کرتااور کہتا تها خداکی قسم مسجد کوفہ کے وسط ميں علی کيلئے دو چشمے
جاری ہوں گے ان ميں سے ایک سے شہد اور دوسرے سے تيل جاری ہوگا اور شيعيان علی
اس سے استفادہ کریں گے
اس کے بعد بغدادی کہتا ہے:
”اہل سنت کے دانشور اور محققين معتقد ہيں کہ اگر چہ ابن سودا ظاہراً اسلام قبول
کرچکا تها ليکن علی عليہ السلام اور ان کی اولاد کے بارے ميںا پنی تاٴویل و تفسيروں سے
مسلمانوں کے عقيدہ کو فاش کرکے ان ميںا ختلاف پيدا کرتا تها اور چاہتا تها کہ مسلمان علی
عليہ السلام کے بارے ميں اسی اعتقاد کے قائل ہوجائيں جس کے عيسائی حضرت عيسیٰ
کے بارے ميں قائل تهے ١
اس کے بعد بغدادی کہتا ہے:
---------
١۔ یہ مطالب سيف کی عبد الله بن سبا کے بارے ميں روایت کا مفہوم ہے کہ بغدادی نے انهيں مشوش اور درہم
برہم صورت ميں نقل کيا ہے اور خيال کيا ہے کہ ابن سودا علاوہ بر ابن سبا کوئی دوسرا شخص ہے اور یہ دو شخص
جدا ہيں اور ابن سودا حيرہ کے یہودیوںميںسے تها جبکہ سيف نے ابن سبا کو یمن کے صنعا علاقہ کا دکهایا ہے
اور اسے ابن سوداء کے طور پر نشاندہی کی ہے۔کتاب مختصر الفرق کے ناشر فليب حتی عيسائی نے بغدادی کی
اس بات کا مذاق اڑادیا ہے اور اسے اس کے فاسد مقصد کے نزدیک دیکهتا ہے اس کتاب کے حاشيہ ميں لکهتا ہے
: یہ روداد اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ گوناگون اسلامی فرقے وجود ميں لانے ميں یہودی مؤثر تهے اس کے بعد
کہتا ہے :بغدادی کی سبئيہ کے بارے ميں کی گئی بحث مکمل ترین و دقيق ترین بحث ہے جو اس بارے ميں عربی
کتابوں ميں آئی ہے ۔
مرموز ابن سودا نے مسلمانوں ميں بغاوت ، اختلاف وفساد اور ان کے عقائد و افکار ميں انحراف
پيدا کرنے کيلئے مختلف اسلامی ممالک کا سفر کيا جب اس نے دیگر گروہوں کی نسبت
رافضيوں کو کفر و گمراہی اور نفسانی خواہشات کی پيروی کرنے ميں زیادہ مائل پایا تو انهيں
عقيدہٴ سبئيہ کی تعليم و تربيت دی اس طریقے سے اس عقيدہ کی ترویج کی اور اسے
مسلمانوں ميں پهيلایا“
مختار کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے بغدادی کہتا ہے:
” سبيئہ جو غاليوں اور رافضيوں کا ایک گروہ ہے اس نے مختار کو فریب دیا اور ان سے کہا تم
زمانے کی حجت ہو ،اس فریبکارانہ بات سے اسے مجبور کيا تا کہ نبوت کا دعوی کرےں ا نهوں
نے بهی اپنے خاص اصحاب کے درميان خود کو پيغمبر متعارف کيا“
بغدادی لفظ “ ناووسيہ ” کی تشریح ميں کہتا ہے:
” اور سبيئہ کا ایک گروہ “ ناووسيہ ” سے ملحق ہوا وہ سب یہ اعتقاد رکهتے تهے کہ جعفر (ان
کا مقصود امام صادق عليہ السلام ہيں) جميع دینی علوم و فنون اعم از شرعيات و عقليات کے
عالم ہيں“․
ی ہ تهے بغدادی کے گروہ “ سبيئہ ” کے بارے ميںا پنی کتاب ‘ ‘ الفرق ” ميں درج کئے
گئے تار پود اس گروہ کے عقائد و افکار کے بارے ميں دیکهے گئے اس کے خواب اور اس کيلئے
جعل کئے گئے اس کے عقائد اس کے بعد اس خيالی اور جعلی گروہ کی گردن پر یہ باطل اور
بے بنياد عقائد و افکار ڈالنے کيلئے اس نے داد سخن دیا ہے اور ان خرافات پر مشتمل عقائد کو
مسترد کرنے کيلئے ایک افسانہ پيش کرکے اس کی مفصل تشریح کی ہے ۔
حقيقت ميں اس سلسلہ ميںبغدادی کی حالت اس شخص کی سی ہے جو تاریکی
ميں ایک سایہ کا تخيل اپنے ذہن ميںا یجاد کرنےکے بعد تلوار کهينچ کر اس کے ڻکڑے ڻکڑے کرنا
چاہتا ہے ۔
عبد القاہر بغدادی کے بعد ، ابو المظفر اسفرائينی ( وفات ۴٧١ ئه) آیا اور جو کچه بغدادی
نے گروہ سبيئہ کے بارے ميں نقل کيا تها ، اس نے اسے خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب “ التبصير
” ميں نقل کيا ہے ۔
پ هر بغدادی کے اسی بيان کو سيد شریف جرجانی(وفات ٨١۶ هء)نے اپنی کتاب
“التعریفات” ميں خلاصہ کے طور پر نقل کيا ہے ۔
فرید وجدی ( وفات ١٣٧٣ ئه ) نے بهی اپنے “ دائرة المعارف” ميںلغت “ عبدا لله بن سبا”
کے سلسلے ميں بغدادی کی باتوںکو من و عن اورانهيں الفاظ ميں کسی قسم کی کمی
بيشی کے بغير نقل کيا ہے ۔
ا بن حزم (وفات ۴۵۴ ئه) اپنی کتاب “ الفصل فی الملل و الاهواء و النحل” ميں کہتا ہے:
” غاليوں کا پہلا فرقہ جو غير خد اکی الوہيت اور خدائی کا قائل ہوا ہے عبدا لله ابن سبا
حميری (خدا کی لعنت اس پر ہو--)کے ماننے والے ہيں اس گروہ کے افراد علی ابن ابيطالب کے
پاس آئے اور آپ کی خدمت ميں عرض کيا: تم وہی ہو ۔
ا نهوں نے پوچها : “ وہی ”سے تمہارا مقصود کون ہے ؟ انہوں نے کہا: تم خدا ہو-” یہ بات
علی کيلئے سخت گراں گزری اور حکم دیا کہ آگ روشن کی جائے اور ان سب کو اس ميں
جلادیا جائے اس گروہ کے افراد جب آگ ميںڈال دئے جاتے تهے تو وہ علی کے بارے ميں
کہتے تهے ، اب ہمارے لئے مسلم ہوگيا کہ وہ وہی خدا ہے کيونکہ خدا کے علاوہ کوئی لوگوں
کو آگ سے معذب نہيںکرتا ہے اسی وقت علی ابن ابيطالب نے یہ اشعار پڑهے:
لما رایت الامر امراً منکراً
اٴججت ناری ودعوت قنبراً
”جب ميں لوگوں ميںکسی برے کام کو دیکهتا ہوں تو ایک آگ روشن کرتا ہوں اور قنبر کو اپنی
مدد کيلئے بلاتا ہوں “
ابن حزم فرقہ ٴ کيسانيہ کے عقائد کے بارے ميں کہتا ہے:
”بعض اماميہ رافضی جو “ممطورہ ” کے نام سے معروف ہيں موسی بن جعفر کے بارے
ميں یہ عقيدہ رکهتے ہيں کہ وہ نہيں مرے بلکہ زندہ ہيں اور وہ نہيں مریں گے یہاں تک کہ ظلم
و ناانصافی سے پر دنيا کو عدل و انصاف سے بهر دیں گے۔
اس کے بعد کہتا ہے:
”گروہ ” ناووسيہ کے بعض افراد امام موسیٰ کاظم کے والد یعنی “جعفر ابن محمد ” کے بارے
ميں یہی عقيدہ رکهتے ہيں اور ان ميں سے بعض دوسرے افراد امام موسیٰ کاظم عليہ السلام
کے بهائی اسماعيل بن جعفر کے بارے ميں اسی عقيدہ کے قائل ہيں“
اس کے بعد کہتا ہے:
” سبيئہ جو عبدا لله بن سبا حميری یہودی کے پيرو ہيں علی ابن ابيطالب عليہ السلام
کے بارے ميں بهی اسی قسم کا عقيدہ رکهتے ہيں اس کے علاوہ کہتے ہيں کہ وہ بادلوں ميں
ہے ،یہاں تک کہتا ہے :
جب علی کے قتل ہونے کی خبر عبد الله بن سبا کو پہنچی تو اس نے کہا: اگر ان کے سر کے
مغز کو بهی ميرے سامنے لاؤ گے پهر بهی ان کی موت کے بارے ميں یقين نہيں کروں گ
ابو سعيد نشوان حميری ( وفات ۵٧۴ ئه ) اپنی کتاب “ الحور العين ” ميں کہتا ہے:
” سبيئہ وہی عبدا لله بن سبا اور اس کے عقائد کے پيرو ہيں “
اس کے بعد ان کے عقائد کو بيان کرنے کے ضمن ميںا مير المؤمنين کی موت سے انکار
کرنے کی روداد کو بيان کرتے ہوئے کہتا ہے:
” جب ابن سبا کا عقيدہ ابن عباس کے پاس بيان کيا گيا تو انہوں نے کہا: اگر علی نہيں
مرے ہوتے تو ہم ان کی بيویوں کی شادی نہ کرتے اوران کی ميراث کو وارثوںميں تقسيم نہيں
کرتے ” ١
---------
١۔ الحور العين : ص ١۵۶