مرتدین کے جلانے کے بارے ميں روایتوں کی مزید تحقيق
کيف خفيت تلک الحوادث الخطيرة علی المؤرّخين
اتنی اہميت کے باوجود یہ حوادث مورخين سے کيسے پوشيدہ رہے ہيں . مؤلف
ضروری ہے کہ ان روایتوں کے بارے ميں کہ جوکہتی ہيں امير المؤمنين عليہ السلام نے
اپنے دین کے مطابق ارتداد کے جرم ميں چند افراد کو نذر آتش کيا تو ہميں اس سلسلے ميں
کچه توقف کے ساته ان کے مضمون ميں غور و فکرنيز ان کے مطالب کے جانچ پڑتال کریں اور
سوال کریں:
پانچویں روایت ميں جوکہتا ہے : ‘ ‘ حسين بن علی عليہ السلام بهی مختار کے جال
ميں پهنس گئے تهے ، اور مختار انهيں عملی طور پر جهڻلاتے تهے! “
حسين ابن علی عليہ السلام کس وقت مختار کے جال ميں گرفتار ہوئے تهے ؟ جبکہ
حضرت( عليہ السلام) مختار کے انقلاب سے پہلے شہيد ہوچکے تهے اس کے علاوہ کيا مختار
کا امام حسين عليہ السلام کے قاتلوں کو قتل کرنا اور ان کا انتقام لينا حضرت کيلئے ابتلاء و
مصيبت محسوب ہوسکتا ہے ؟ یا مختار کا امام حسين عليہ السلام کے قاتلوں کو کيفر کردار
تک پہچانا حضرت کو جهڻلانے کے مترادف ہوسکتا ہے ؟!
کيا اس حدیث کو جعل کرنے والوں کا مقصد امام حسين عليہ السلام کے قاتلوں کی
حمایت و مدد کرنا نہيں تها ؟!
اس کے علاوہ اسی روایت ميں آیا ہے کہ عبد الله بن سبا نے امير المؤمنين عليہ
السلام کو جهڻلانے کيلئے عملی طور پر کوشش کی ہے او وہ حضرت کو لوگوں کی نظروں سے
گرانا چاہتا ہے۔ عبد الله بن سبا کا کونسا عمل یا عقيدہ علی عليہ السلام کو جهڻلانے کے
مترادف ہوسکتاہے ؟ کيا کسی نے عبد الله بن سبا سے یہ روایت کی ہے کہ اس نے کہاہوگا: “
خود علی ابن ابيطالب عليہ السلام نے مجهے حکم دیا ہے ميں اس کی پوچا کروں ” تا کہ عبد
الله بن سبا کا عقيدہ اور طریقہ کار اميرالمؤمنين عليہ السلام کی نسبت افترا ہو اور انهيں سوء
ظن اور دوسروں کے جهڻلانے کا سبب قرار دے ۔
آ ڻهویں روایت ميں آیا ہے کہ امير المومنين عليہ السلام اپنی بيوی ام عمرو عنزویہ کے
پاس بيڻهے تهے ۔ امام عليہ السلام کی یہ بيوی جس کا نام “ ام عمرو عنزیہ ” ہے کون ہے ؟ اور
کيوں اس راوی کے بغير کسی اور نے علی ابن ابيطالب عليہ السلام کيلئے اس بيوی کا کہيں
ذکر تک نہيں کيا ہے ؟
اسکے علاوہ کيا امير المومنين عليہ السلام نے ان افراد کو دهویںکے ذریعہ قتل کيا ہے؟
چنانچہ ان روایتوں ميں سے بعض ميں آیا ہے کہ حضرت نے کئی کنویں کهدوائے اور
سوراخوں کے ذریعہ ان کو آپس ميں متصل کرایا اور ان تمام افراد کو ان کنوؤں ميںڈال دیا اور اوپر
سے ان کو مضبوطی سے بند کرا دیا صرف ایک کنویں کو کهلارکها جس ميں کوئی نہيں تها پهر
اس ميں آگ جلادی ، اس کنویں کا دهواں دوسرے کنوؤں ميں پہنچا اور وہ سب افراد اس دهویں
کی وجہ سے دم گهٹ کر نابو دہوئے ۔
یا یہ کہ دهویں سے انهيں قتل نہيں کيا ہے بلکہ پہلے ان کے سر قلم کئے ہيں اس کے
بعد ان کے اجساد کو نذر آتش کياہے ؟
یا زمين ميں گڑهے کهدوائے ہيں اور ان گڑهوں ميںلکڑی جمع کرکے اس ميں آگ لگادی
ہے اور جب لکڑی انگاروں ميں بدل گئی تو قنبر کو حکم دیا کہ ان افراد کو ایک ایک کرکے اڻها کر
اس آگ ميں ڈال دے اور اس طرح سب کو جلا دیا ہے ؟
کيا تنہا ابن سبا تها جس نے اميرالمؤمنين عليہ السلام کے بارے ميں غلو کيا تها اور ان
کی الوہيت کا معتقد ہوا تها اور حضرت عليہ السلام نے اسے جلادیا ہے ؟
ی ا یہ کہ یہ افراد دس تهے اور ان سب دس افراد کو جلادیا ہے ؟
ی ا یہ کہ وہ ستر افراد تهے اور حضرت نے ان سب سترافراد کو نذر آتش کيا؟
یا یہ کہ علی عليہ السلام نے اس عمل کو مکررانجام دیا ہے کہ ایک بار صرف ایک
شخص کہ وہی عبد الله بن سبا تها ، کو جلا دیا اوردوسری دفعہ دس افراد کو اسکے بعد ستر
افراد کو اور آخر کارچوتهی بار دو افرادکو جلادیا ہے؟!
کيا حضرت عليہ السلام نے صرف ان افراد کو نذر آتش کيا ہے جو اس کی الوہيت اور
خدائی کے معتقد تهے یا بت پرست ہوئے دوا فراد کو بهی جلا دیا ہے ؟ جن افرادکو اميرالمؤمنين
عليہ السلام نے جلایا تها کيا یہ واقعہ بصرہ ميں جنگ جمل کے بعد رونما ہوا یا جس طرح نویں
روایت ميں آیا ہے کہ اس کام کو کسرہ ميں اس وقت انجام دیا جب حضرت کو اپنی بيوی “ ام
عمرو عنزیہ ” کے گهر ميں اطلاع دی گئی جيسا کہ آڻهویں روایت ميں بهی آیا ہے ؟!
کيا یہ مطلب صحيح ہے کہ جب مرتدوں کو جلانے کی خبر ابن عباس کو پہنچی تو انهوں
نے کہا: اگر ان کا اختيار ميرے ہاته ميں ہوتا تو ميں انهيں نذر آتش نہيں کرتا بلکہ انهيں قتل کر
ڈالتا ، کيونکہ پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ وسلم نے فرمایا : کسی کو عذاب خدا کے ذریعہ سزا
نہ دینا اور اگر کوئی مسلمان اسلام سے منحرف ہو جائے تو اسے قتل کرنا”اور جب امام عليہ
السلام نے ابن عباس کے بيان کو سنا تو فرمایا؛ افسوس ہو ام الفضل کے بيڻے پر کہنکتہ
چينی کرنے ميں ماہر ہے“
کيا امام اس عمل کے نامناسب ہونے سے بے خبر تهے اور ابن عباس نے انهيں متوجہ
کيا ؟!
یا کہ ان روایتوں کو جعل
1 کيا گيا ہے تا کہ امير المومنين علی عليہ لسلام کی روش کو
خليفہ اول کی روش کے برابر دکهائيں اور اس طرح جن چيزوں کے بارے ميں خليفہ اول پر
اعتراض ہوا ہے ان ميں اسے تنہا نہ رہنے دیں اور لوگوں کو نذر آتش کرنے کے جرم ميں علی
عليہ السلام جيسے کو بهی ان کا شریک کا ر بنا
دیں اور اس طرح خليفہ اول کے عمل کو ایک جائز اور معمولی عمل دکهلائيں ، کيونکہ “ فجائيہ
سلمی ”ا اور ایک دوسرا گروہ خليفہ اول کے حکم سے جلائے گئے تهے اور وہ اس منفی
عمل اور سياست کی وجہ سے مورد تنقيد قرار پاتے تهے!
انہوں نے ان روایتوں کو جعل کرکے روش امير المؤمنين عليہ السلام کو خالد بن وليد کی
جيسی روش معرفی کرکے یہ کہنا چاہا ہے کہ : اگر چہ خالد بن وليد نے چند مسلمانوں کو زکوٰة
ادا کرنے سے انکار کرنے کے جرم ميں جلادیا ہے ٢ ليکن یہ عمل صرف اس سے مخصوص نہيں
ہے تا کہ اس پر اعتراض
----------
1. زندیقيوں ميں ایسے افراد بهی تهے جو اپنے اساتذہ کو دهوکہ دے کر ان کی کتابوں ميں بعض مطالب کو حدیث
کی صورت ميں اضافہ کرتے تهے اور یہ استاد اس کی طرف توجہ کئے بغير اس خيال سے اس حدیث کو نقل کرتا
تها کہ وہ اس کی اپنی ہے ۔ ہم نے اس مطلب کی وضاحت ميں اپنی کتاب “ خمسون و ماٴة صحابی مختلق ” کے
مقدمہ کے فصل زنادقہ ميں ص ٣٧ طبع بغداد ميں توضيح دی ہے، آئندہ اس کی مزید وضاحت کی جائے گی ۔
١۔ “ فجائيہ سلمی ” وہی ایاس بن عبدا لله ابن عبد یا اليل سلمی ہے کہ اس نے ابوبکر سے
چند جنگجو افراد اور اسلحہ بطور مدد حاصل کيا تها تا کہ مرتدوں سے جنگ کرے ليکن مرتد وں
سے جنگ کے بجائے بے گنا ہ لوگوں کا قتل و غارت کيا اپنی راہ ميں ایک بے گناہ عورت کو
بهی قتل کيا اسے ابوبکر کے حکم سے پکڑا گيا اس کے بعد ابوبکر نے حکم دیا کہ آگ جلائی
جائے اور اس کے بعد فجائيہ کو زندہ آگ ميں ڈالا گيا ۔ یہی علت تهی کہ ابوبکر اپنی زندگی کے
آخری لمحات ميں کہتا تها : ميں اپنی زندگی ميں تين کام کے علاوہ کسی چيز کے بارے ميں
فکرمند نہيں ہوں کاش ان کاموں کو ميں نے انجام نہ دیا ہوتا یہاں تک کہتاتها ميں فجائيہ سلمی
کو نذر آتش کرنا نہيں چاہتا تها بلکہ اسے قتل کرنا چاہتا تها یا جلاوطن کرنا چاہتا تها اس سلسلہ
ميں اس کتاب کی جلد اول فصل تحصن در خانہ ملاحظہ ہو ۔
١١ ميں درج کيا ہے کہ قبيلہٴ بنی سليم کے کچه / ٢۔ محب الدین طبری نے الریاض النضرة: ١
لوگ اسلام سے منحرف ہوئے ابوبکر نے خالد بن وليد کو ان کی طرف روانہ کيا خالد نے ان ميں
سے بعض مردوں کو گوسفند خانے ميں جمع کرکے انهيں آگ لگادی عمر ابن خطاب نے اس
سلسلہ ميں ا بوبکر سے اعتراض کيااور کہا: تم نے ایک ایسے شخص کو ان لوگوں کی طرف
روانہ کيا ہے کہ لوگوں کو خدا سے مخصوص عذاب سے سزا دیتا ہے اہل سنت علماء نے ابوبکر
کے جلانے کے موضوع اور اس کے دفاع ميں بہت سے مطالب بيان کئے ہيں ۔ مثلاً فاضل
قوشجی شرح تجرید ميں کہتا ہے ابو بکر کا فجائيہ کو نذر آتش کرنا ان کی اجتہادی غلطی تهی
اور مجتہدوں کيلئے اجتہاد ميں غلطياں کثرت سے پيش آتی ہيں فاضل قوشجی ابوبکر کے دفاع
ميں اپنی بات کو یوں جاری رکهتا ہے یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہماری بحث سے مربوط احادیث
کے مطابق ہو یہ کہتے ہيں کہ علی ابن ابيطالب عليہ السلام نے بہت سے افراد کو نذر آتش
کيا ہے ایک جہت سے اس سے اہم تر ہيں جو ابوبکر کے بارے ميں نقل ہوئی ہيں ا ور دوسری
جہت سے ابوبکر کے دفاع اور عذر کی بہترین راہ ہے کيونکہ ان روایتوں کے مضمون کے مطابق
اميرالمؤمنين عليہ السلام نے بهی ان افراد کو نذر آتش کرنے ميں ا جتہاد کيا ہے اور اس اجتہاد
ميں غلطی ہو گئی ہے اور اس روش کی بهی عبدالله ابن عبا س اور دوسرے تمام افرا د کی
/ طرف سے انکار ہوا ہے ، ليکن خود علی اور خالد بن وليد کی نظر ميں صحيح تها فتح الباری ۶
۴٩١ ) کتاب الجہاد ( باب لایعذب بعذاب الله ) کی طرف رجوع کيا جائے ۔کيونکہ علی ابن ابيطالب
عليہ السلام نے بهی دوسری وجوہ کی بنا پر چند افراد کو جلا کر نابود کيا ہے۔
کيا با وجود اس کے کہ امام صراحتاً فرماتے ہيں کہ مرتد کی سزا قتل ہے ، عملاً اس حد
کو نافذ نہيںکرتے اور مرتدوں کے ایک گروہ کو واقعاًجلا دیتے ہيں؟!
ليکن جس شعر کو امام سے نسبت دی گئی ہے:
لما رایت الامر امراً منکراً
اوقدت ناری و دعوت قنبراً
کيا امير المؤمنين عليہ السلام نے اس شعر کو ان حوادث کی مناسبت سے جس صورت ميں
نقل ہوا ہے ، کہا ہے ، یا کہ ان اشعار کو جنگ صفين ميں ایک قصيدہ کے ضمن ميں یوں کہا ہے:
یا عجباً لقد سمعت منکراً
کذباً علی الله یشيب الشعراً
یہاں تک فرماتے ہيں:
انی اذا الموت دنا و حضرا
شمّرت ثوبی و دعوت قنبراً
لما راٴیت الموت موتاً احمراً
عبات همدان و عبوا حميراً
جب موت کا وقت نزدیک پہنچا تو اپنے لباس کو جمع کيا اور خود کو موت کيلئے آمادہ کر
ليا اور قنبر کو بلایا ۔ جی ہاں ، اب سرخ موت کو اپنے سا منے دیکهتا ہوں ۔ قبيلہ ہمدان کی صف
آرائی کرتا ہوں اور معاویہ بهی قبيلہٴ حمير کی“
ان تمام اشکالا ت اور اعتراضات ، جو احراق مرتدوں کی روایتوں ميں موجود ہيں کے
باوجود پهر بهی یہ سوال اپنی جگہ پر باقی ہے کہ کيا عبدا لله بن سبا علی عليہ السلام کے
بارے ميں غلو کرتا تها اور ان کی الوہيت کا قائل تها ، جيسا کہ گزشتہ روایتوں ميں آیا ہے ؟ ! یا
یہ کہ وہ خدا کے منزہ ہونے اور تقدس کے بارے ميں غلو کرتا تها ۔
) اگر اس سلسلہ ميں یہ تعبير صحيح ہو ) جيسا کہ چهڻی حدیث ميں آیا ہے کہ عبد
الله بن سبا دعا کے وقت آسمان کی طرف ہاته اڻهانے کی مخالفت کرتا تها اور اس عمل کو
پروردگار سے دعا کرتے وقت ایک نامناسب عمل جانتا تها ، حتی امام بهی جب اس سلسلہ
ميں ا س کی راہنمائی کرتے ہوئے وضاحت فرماتے ہيں ، تو پهر بهی وہ امام کی وضاحت کو
قبول نہيں کرتا ہے اور اظہار کرتا ہے کہ چونکہ خداوند عالم ہر جگہ موجود ہے اور کوئی خاص
مکان نہيں رکهتا ہے لہذا معنی نہيںرکهتا کہ ہم دعا کے وقت آسمان کی طرف اپنے ہاته بلند
کریں کيونکہ یہ عمل خدا کو ایک خاص جگہ اور طرف ميں جاننے اور اس کيلئے خاص مکان کے
قائل ہونے کے برابر ہے اور یہ عقيدہ توحيد سے مطابقت نہيں رکهتا ہے ۔
کيا اس عبدا لله بن سبا نے مسئلہ توحيد ميں غلو اور افراط کا راستہ اپنایا ہے یا علی
عليہ السلام کی الوہيت کا قائل ہوکر تفریط کی راہ پر چلا ہے ؟!
کيا امام نے عبد الله بن سبا کو عقيدہ ميں انحراف کی وجہ سے نذر آتش کيا ہے ؟ یا یہ
کہ اس نے عقيدہ ميں ا نحراف نہيںکيا تها بلکہ غيب کی خبر دیتا تها اور اسی سبب سے اسے
امام کے پاس لے آئے تهے اور امام نے اس کی پيشين گوئی اور کہانت کی تائيد کرکے اسے
آزاد کرنے کا حکم دیا ہے ؟!
ا ن تمام سوالات اور جوابات کے باوجود بهی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ کيا عبدا لله بن سبا
بنيادی طور پر ( زط) اور ہندی تها یا عرب نسل تها ؟
ا گر وہ ہندی نسل سے تها تو اس کا اور اس کے باپ کا نام کيسے چار عربی لفظ سے
تشکيل پایا ہے : (عبد) ، (الله) اور ابن ، (سبا) اگر وہ عرب نسل سے تها، تو کيا قدیم زمانے اور
جاہليت کے زمانہ سے امام عليہ السلام کے زمانہ تک کہيں یہ سننے ميں آیا ہے کہ کسی
عرب نے اپنے ہم عصر کسی انسان کو اپنا خدا جان کر اس کی الوہيت کا قائل ہوا ہو؟!!
دوسری مشکل یہ ہے کہ انسان کی پرستش کی عادت و روش اور ایک شخص معاصر
کے الوہيت کا اعتقاد ، قدیم تہذیب و تمدن والی قوموں ،جيسے : روم ،ایران اور اسی طرح جاپان
اور چين ميں پایا جاسکتا ہے ، ليکن اسی زمانہ کے جزیرہ نما عرب کا غير متمدن ایک صحرا
نشين عرب ، جو دوسرے انسان کے سامنے تواضع اور انکساری دکهانے کيلئے آمادہ نہ تها ،
اس کا کسی انسان کی پرستش کيلئے آمادہ ہونا دور کی بات تهی ، جی ہاں صحرا نشين بتوں
کی پرستش کرتے ہيں اور جن و ملائکہ کی الوہيت کے معتقد ہوتے ہيں ليکن کبهی آمادہ نہيں
ہوتے کہ اپنے ہم جنس بشر کے سامنے احترام بجا لائيں اور سجدہ کریں اور اپنے جيسے
کسی شخص کے سامنے سر تسليم خم کریں۔
ان تمام اعتراضات سے قطع نظر پهر بهی یہ مشکل باقی ہے کہ : جو انسان کسی
دوسرے انسان کی بندگی اور عبودیت کو قبول کرتا ہے ، اور کسی شخص کے سامنے اپنے آپ
کو حقير بناتا ہے اس عبودیت و بندگی اور اس خصو ع و خشوع ميں ا س کا مقصد یا مادی و
دنيوی ہے کہ اس صورت ميں ا پنے اس عقيدہ و بيان ميں اس قدر ہٹ دهرمی اور اصرار نہيں
کرسکتا ہے کہ اپنی جان سے بهی ہاته دهوبيڻهے کيونکہ مرنے کے بعد مادی اور دنيوی مقاصد
کو پانا معنی نہيں رکهتا ہے ان حالات کے پيش نظر کيسے تصور کيا جاسکتا ہے کہ اس قسم
کا شخص کسی بهی قيمت پر اپنی بات سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہيں ہوتا یہاں تک کہ
اسے زندہ آگ ميں جلادیا جائے اور وہ تمام مادی جہتوں کو ہاته سے گنوا دے ؟
یا یہ کہ حقيقت ميں وہ واقعی طور پر اس عبودیت و بندگی کا قائل ہے اس صورت ميں
یہ کيسے یقين کيا جاسکتا ہے کہ انسان اپنے معبود سے کہے کہ تو ميرا پرور دگار ہے ،تونے
مجهے خلق کيا ہے، اور تومجهے رزق دیتا ہے اور اس کے مقابلہ ميں ا س کا معبود اس کی
تمام باتوں کو جهڻلادے اور ا س کے عقيدہ کے بارے ميں اظہار بيزاری و تنفر کرے ليکن پهر بهی
یہ شخص اس کے بارے ميں ا پنے ایمان و عقيدہ سے دست بردار نہ ہو؟ !!
کيا ایک عقلمند انسان ایسے مطالب کی تصدیق کرسکتا ہے ؟ کيا اس قسم کے مطالب
کی صدائے بازگشت یہ نہيں ہوسکتی کہ ایساشخص اپنے معبود سے کہتا ہے: اے ميرے
پروردگار ! اے ميرے معبود ! تم اپنی الوہيت کا انکار کرکے غلطی کے مرتکب ہورہے ہو ، اپنی
خدائی کا انکار کرکے اشتباہ کررہے ہو صحيح راستہ سے منحرف ہورہے ہو !! تم خدا ہو ، ليکن
تم خود نہيں جانتے ہو! اور آخرکار تم خدا ہو اگر چہ خود اس مقام کو قبول بهی نہ کرو گے!!
کون عاقل اس قسم کے مطلب کی تصدیق کرسکتا ہے ؟ اور کيا تاریخ بشریت ميں اس
قسم کی مثال پائی جاتی ہے ؟!
جی ہاں ، ممکن ہے کچه لوگ کسی شخص کی الوہيت کے معتقد ہوجائيں ا ور وہ
شخص اس نسبت سے راضی نہ ہواا ور وہ خود اس مقام کا منکر ہو ليکن ایک شخص کے بارے
ميں ا س قسم کا عقيدہ کہ اس زندگی کے خاتمہ او رمرنے کے بعد ممکن ہے نہ اس کی
زندگی ميں جيسے کہ عيسی بن مریم اور خود علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے بارے ميں ا
ن کی حيات کے بعد ایسا واقعہ پيش آیا ہے ۔
ليکن کسی شخص کی الوہيت کے بارے ميں اس کی زندگی ميں عقيدہ رکهنا جبکہ وہ
شخص اس عقيدہ اور بات سے راضی نہ ہو اور اسے جهڻلاتا ہو ، اپنے ماننے والوں کی ملامت و
مذمت کرتا ہو ، اس قسم کی روداد نہ آج تک واقع ہوئی ہے اور نہ آئندہ واقع ہوگی ۔
آخری اعتراض
اس سلسلہ ميں آخری اعتراض یہ ہے کہ اگر یہ اہم حوادث، حقيقت اور بنيادی طور پر
صحيح ہوتے تو معروف مورخين سے کيوں مخفی رہتے ؟ مشہور ترین اور مثالی مورخين ميں
سے چند ایک کے نام ہم ذیل ميں درج کرتے ہيں انہوں نے اپنی کتابوں ميں ان حوادث کے بارے
ميں کسی قسم کا اشارہ نہيں کيا ہے اور ان افراد کے جلائے جانے کے بارے ميں معمولی سا
ذکر تک نہيں کيا ہے ، جيسے :
١۔ ابن خياط وفات ٢۴٠ هء
٢۔ یعقوبی وفات ٢٨۴ هء
٣۔ طبری ، وفات ٣١٠ هء
۴۔ ،مسعودی ، وفات ٣٣۶ هء
۵۔ ابن اثير ، وفات ۶٣٠ هء
۶۔ ابن کثير ، وفات ٧۴۴ هء
٧۔ ابن خلدون ، وفات ٨٠٨ هء
حقيقت ميں ا س مقدمہ اور جواب طلبی کے سلسلے ميں مرتدین کو جلانے سے
مربوط روایتوں کو نقل کرنے والوں اور ان کے حاميوں سے وضاحت طلب کی جاتی ہے کہ : اتنی
اہميت کے باوجود یہ حوادث کيوں ان مؤرخين سے مخفی رہے ہيں اور انہوں نے اپنی تاریخ کی
کتابوں ميں انکے بارے ميں اس کی قسم کا اشارہ کيوںنہيں کيا ؟! جب کہ ان تمام مؤرخين نے
“ فجائيہ سلمی ” کو نذر آتش کرنے کی روداد کو کسی قسم کے اختلاف کے بغير اپنی
کتابوںميں تشریح اور تفصيل کے ساته درج کيا ہے ۔
گزشتہ فصل ميں جو کچه بيان ہوا اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ : عبد الله بن سبا
سے مربوط روایتيں اور احراق مرتدین کے بارے ميں روایتيں جو مختلف عناوین سے نقل ہوئی
ہيں اور ہم نے بهی ان کے ایک حصہ کو گزشتہ فصل ميں درج کيا مضبوط اور صحيح بنياد کی
حامل نہيں ہيں اور یہ سب روایتيں خودغرضوں کے افکار کی جعل کی ہوئی ہيں ليکن یہاں پر یہ
سوال باقی رہتا ہے کہ یہ جعلی روایتيں کيسے شيعہ کتابوںميں آ گئيں ؟ ہم اگلی فصل ميں
اس کا جواب دینے کی کوشش کریں گے ۔
شيعوں کی کتابوں ميں احراقِ مرتدین کی روایتوں کی پيدائش
و کان لاصحاب الائمة آلاف من الکتب فی مختلف العلوم و غيرا نها قد فقدت
ہمارے ائمہ کے شاگردوں نے مختلف علوم ميں ہزاروں کتابيں لکهی تهيں ، افسوس کہ ہماری
دسترس ميں نہيں ہيں۔
مؤلف
گزشتہ فصل ميں بحث یہاں تک پہنچی کہ عبدا لله بن سبا اور احراق مرتدین کے بارے
ميں روایتيں علم و تحقيق کے لحاظ سے جعلی ہيں اور مضبوط اور صحيح بنياد کی حامل نہيں
ہيں ۔ اس بحث کے سلسلہ ميں ہم مجبور ہيں کہ اس حقيقت کی تحقيق کریں کہ یہ جعلی
روایتيں کس طرح شيعوں کی کتابوں ميں داخل ہوکر معتبر روایتوں کی فہرست ميں قرار پائی
ہيں ۔
نابود شدہ کتابيں اور اصول:
مکتب اہل بيت عليہم السلام کے شاگردوں نے مختلف علوم ميں متعدد اور متنوع
کتابيں تدوین و تاليف کی تهيں ان تاليفات کے ایک حصہ کو “ اصول ” کہا جاتا تها ، کہتے ہيں ان
“ اصلوں ” کی تعداد چار سو تک پہنچی تهی ۔
یہ اصول دست بہ دست چوتهی ہجری ميں شيعہ علماء او ردانشوروں تک پہنچی تهيں
اور مرحوم کلينی نے اپنی عظيم روائی کتاب یعنی “ کافی ” ميں ان اصلوں سے بہت زیادہ
احادیث نقل کی ہيں۔
اس کے علاوہ مرحوم ‘ ‘ صدوق ” نے اپنی کتاب “ من لا یحضرہ الفيقہ ” کو ان ہی اصلوں
کی فقہی احادیث سے تدوین اور تاليف کی ہے ۔
اسی طرح مرحوم شيخ طوسی نے اپنی دو اہم و معروف کتابوں “ استبصار ”اور “
التہذیب ” کو ان ہی “ اصلوں ” سے تاليف کيا ہے اس کے علاوہ اس زمانے کے دیگر علماء نے
بهی اپنی کتابوں کو مذکورہ “اصلوں ” کی بنياد پر تدوین کيا ہے اور احادیث کا چہار گانہ مجموعہ
، یعنی : کافی ، من لا یحضرہ الفقيہ ، استبصار ، اور تہذیب اس زمانے سے آج تک فقہائے
شيعہ کےلئے فقہی احکام کے لحاظ سے مرجع و مآخذ قرار پایا ہے ۔
رجال ميں بهی چار کتابيں اسی زمانے کے علماء کی آج تک باقی بچی ہيں کہ بعد کے
علماء کی تاليفات کيلئے مرجع و ماٴخذ قرار پاتی ہيں یہ چار کتابيں عبارت ہيں : “ اختيار رجال
کشی ” ، “ رجال ’ اور “فہرست ” کہ یہ تين کتابيں مرحوم شيخ طوسی کی تاليف ہيں اور
چوتهی کتاب ‘ ‘ فہرست نجاشی ” ہے ۔
اصحاب ائمہ نے مذکورہ اصول چہارگانہ کے علاوہ مختلف علوم ميں ہزاروں جلد متنوع
کتابيں تاليف کی تهی ، جيسے “ اخبار اوائل ” کی تاليفات ، اخبار فرزندان آدم و اصحاب کہف و
قوم عاد و
اس کے علاوہ “ اخبار جاہليت ” کے بارے ميں چند تاليفات مانند کتاب “ الخيل ” “
السيوف ” ، “ الاصنام ” ، ایام العرب ، انساب العرب، نواقل القبائل ” ١ اور “ منافرات القبائل ” ٢
تهيں ۔
اس کے علاوہ اصحاب ائمہ، شہروں ، زمينوں ، پہاڑوں ، اور دریاؤں کے اخبار کے بارے
ميں کئی کتابيں تاليف کرچکے تهے علاوہ بر این طلوع اسلام کے نزدیک صدیوں کے عربوں ميں
رونما ہوئے حوادث کے بارے ميں اخبار پر مشتمل کتابيں تاليف کی گئی ہيں جيسے: عہد ناموں
کی خبریں، ایام جاہليت ميں عربوں ميں واقع ہوئی گوناگوں ازدواج کی رودادیں یہاں تک عصر
اسلام ميں رونما ہوئے حوادث و اخبار جيسے : روداد سقيفہ ، مرتدین ، جنگ جمل ، صفيں ،
حادثہ کربلا ،خروج مختار ، توابين اور ان سے پہلے اور ان کے بعد رونما ہونے والے واقعات ۔
----------
١۔ نواقل ان افراد اور گروہوں کو کہتے تهے کہ جو اپنا نسب ایک قبيلہ سے دوسرے قبيلہ ميں منتقل و ملتمس
کرتے تهے اور اس تاریخ کے بعد دوسرے قبيلہ سے منسوب ہوتے تهے علمائے انساب نے اس سلسلے ميں کئی
کتابيں لکهی ہيں ا ور ان قبائل کی تعداد کو ان کتابوں ميں درج کيا ہے ان کتابوں کو “ نواقل ” کہتے ہيں۔
٢۔ منافرات ، ایک دوسرے سے دوری اختيار کرنے کے معنی ميں ہے کہ بعض قبائل ایک دوسرے سے دورری اختيار
کرتے تهے اور ایک دوسرے کی تنقيد ميں بيانات یا اشعار کہتے تهے یا ایک خاص قسم کی کاروائياں کرتے تهے ان
بيانات و کاروائيوں کو “ منافرات ’ کہتے ہيں۔
اصحاب ائمہ نے ان وقائع و حوادث اور ان کے مانند واقعات او ر مختلف و متنوع علوم کے بارے
ميں ہزاروں جلد کتابيں تاليف و تدوین کی ہيں ليکن افسوس کہ زمانہ کے گزرنے اور مختلف علل،
عوامل اور محرکات کی وجہ سے یہ کتابيں نابود ہو گئی ہيں اور آج ان کتابوں اور ان کے مؤلفين
کے نام کے علاوہ جنہيں بعض فہرستوں جيسے نجاشی ، شيخ طوسی اور الذریعہ ميں درج
کيا گيا ہے ان کے بارے ميں کچه باقی نہيں بچا ہے ۔
شيعوں کے ابتدائی متون اور اصلوں کے نابود ہونے کے اسباب
مکتب اہل بيت عليہم السلام کے ماننے والوں کی مختلف علوم ميں تاليف کی گئی
کتابوں کے نابود ہونے کے دو اسباب اور محرکات تهے:
١۔ پہلا سبب : وہ خوف و ڈر تها جو مکتب اہل بيت عليہم السلام کے پيرو اور شيعہ
علما پوری تاریخ ميں وقت کے حاکمو ں سے رکهتے تهے ۔ ان حکام کی طرف سے اہل بيت
عليہم السلام کے پيرو اور شيعہ علماء ہر وقت خوف و ہراس ميں ہوا کرتے تهے ، حتی انهيں
قتل کيا جاتا تها ،اور ان کے کتب خانوں کو ہزاروں کتابوں سميت نذر آتش کيا جاتا تها ۔ چنانچہ
بغداد کے اہم اور عظيم کتاب خانہ “ بين السورین ” کے بارے ميں یہ نفرت انگيز عمل انجام دیا
گيا ۔
اس کتاب خانہ کے بارے ميں حموی کہتا ہے : کتابخانہ “ بين السورین ” کی کتابيں تمام
دنيا کے کتب خانوں کی کتابوں ميں بہترین کتابيں تهيں ، کيونکہ یہ کتابيں مورد اعتماد مؤلفين
،مذہب کے پيشواؤں اور بزرگوں کے ہاته کی لکهی ہوئی تهيں اس کتاب خانہ کا اہم حصہ “
اصلوں ” اور ان کی تحریرات پر مشتمل تها ۴۴٧ هء ميں خاندان سلجوقی کے طغرل بيگ پادشاہ
کے بغداد ميں داخل ہونے پر “ محلہٴ کرخ ” کو آگ لگا دی گئی اور یہ تمام کتابيں بهی اس آتش
سوزی ميں لقمہ حریق ہوئيں ۔
جی ہاں ، اس قسم کے حوادث اور فتنوں کے تنيجہ ميں شيعوں کے اس قدر آثار و
کتابيں نابود ہوئی ہيں کہ ان کی تعداد کے بارے ميں خدا کے علاوہ کوئی علم نہيں رکهتا ۔
٢۔ ان بنيادی آثار اور کتابوں کے نابود ہونے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ شيعہ علما ء اور
دانشوروں نے اپنی پوری توجہ کو صرف ان علوم کی تعليم و تربيت کے مختلف ابعاد پر متمرکز
کيا تها جو فقہ اسلامی کے احکام شرعی کو حاصل کرنے کے بارے ميں استنباط کے مقدمہ
کی حيثيت رکهتے ہيں اور اس طرح انہوں نے دیگر روایات اور متون کا اہتمام نہيں کيا تها، چنانچہ
ہم دیکهتے ہيں کہ شيعہ علماء نے گزشتہ زمانے سے آج تک آیاتِ احکام اور فقہی روایتوں کی
بحث و تحقيق ميں خاص توجہ مبذول کی ہے اور اس قسم کی آیات اور احادیث کے مختلف
ابعاد پر ایسی دقيق بحث و تحقيق کی ہے کہ تهوڑی سی توجہ کرنے سے ہر محقق اطمينان
اور یقين پيدا کرسکتا ہے ۔ گزشتہ کئی صدیوں کے دوران شيعہ علماء کی طرف سے فقہی
روایتوں کو دی گئی ان ہی غير معمولی اہميت اور گہری بحث و تحقيق کے نتيجہ ميں تمام
احکام اسلام سالم اور صحيح صورت ميں آج ہم تک پہنچے ہيں ۔
ل يکن افسوس کہ جب ہم گزشتہ صدیوں کے دوران احکام کی روایتوں اور ان کے منابع
کے بارے ميں دی گئی خاص توجہ اور اہميت کا سيرت ، تاریخ ، تفسير ، آداب اسلامی اور تمام
علوم اسلامی کے بارے ميں انجام دئے گئے ان علماء کے عمل کے ساته موازنہ کرتے ہيں تو
معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ ميں ا یک خطرناک کوتاہی بهی برتی گئی ہے ۔
معارف اسلام کی کتابوں ميں جهوٹ کی اشاعت کا سبب
شيعہ علماء کی طرف سے احکام کے علاوہ روایتوں کو کم اہميت دینے کے نتيجہ ميں
دو نقصانات ہوئے ہيں:
اولاً: معارف اسلامی کے بارے ميں مختلف موضوعات پر تاليف کئے گئے پيروان اہل بيت
عليہم السلام کے اصلی متون ، ترک کئے جانے کے نتيجہ ميںمفقود ہوچکے ہيں ۔
ثانياً : احکام کے علاوہ دوسرے مآخذ کی طرف رجوع کرنے ميں کوتاہی برتنے کی وجہ
سے ان کتابوںميں حيرت انگيز جعليات اور افسانے درج کئے گئے ہيں ۔
ن يتجہ کے طور پر جب بعض مواقع پر شيعہ علماء تاریخ ،سيرت ، تفسير ، شہروں کی
آشنائی اور دوسرے فنون کے سلسلہ ميں روایتوں کی طرف رجوع کرتے تهے ، تو اسی کوتاہی
کی وجہ سے نہ صرف ایسے مسائل ميں بحث و تحقيق نہيں کرتے تهے بلکہ بعض اوقات تاریخ
طبری ١ کعب الاحبا راور وہب بن منبہ ٢ جيسے افرادکی روایتيں نقل کرنے ميں اعتماد کرکے
ملل و نحل کے مؤلفوں کے بيانات کی پيروی کی ہے جنہوںنے اپنی کتابوں کو عام اور بازاری
منقولات اور بيانات کی بنياد پر تاليف کيا ہے ۔ اس طرح زندیقيوں ، جهوڻے اور بے دین افرادکی
روایتوں کے ایک حصہ جو تاریخ طبری جيسی کتابوں ميں اشاعت پاچکی ہيں نے شيعوں کی
تاليفات اور تاریخ کی کتابوں ميں بهی راہ پيدا کی ہے 3
اسرائيليات کا ایک حصہ بهی جو کعب الاحبار جيسوں سے نقل ہوا ہے بعض سنی
تفاسير سے شيعوں کی تفاسير ميں داخل ہوگيا ہے اور نتيجہ کے طو پر شيعوں کی غير فقہی
موضوعات پر تاليف کی گئی کتابوں ميں خرافات پر مشتمل افسانے اور بے بنياد داستانيں بهی
درج کی گئی ہيں ۔
غير فقہی روایتوں ميں جو یہ غفلت اور بے توجہی برتی گئی ہے اسکا نتيجہ یہ نکلا ہے کہ
تشریحات کی بعض کتابوں جيسے رجال کشی اور “مقالات اشعری ” ميں بعض غلط اور بے بنياد
روایتيں منتشر ہوکر بعد کی صدیوں کے دانشوروں کی روایتوں ميں آ گئی ہيں۔
----------
١۔ ہم نے اس کتاب کے گزشتہ حصوں ميں طبری کے منقولات کی قدر و منزلت کو واضح کردیا ہے ۔
٢۔ اس بحث کی تفصيل و تشریح مؤلف کی دوسری تاليف “ عن تاریخ الحدیث‘” ميں آئی ہے اميد ہے کہ کتاب جلد
ہی طبع ہوکر منظر عام پر آئے گی ۔
3۔ مثلا شيخ مفيدۺ اپنی کتاب “ الجمل ” ميں کتاب ابو مخنف سے نقل کرتے ہيں کہ سيف بن عمر کہتا ہے :
عثمان کے قتل ہونے کے بعد مدینہ پانچ دن تک امير وسلطان سے محروم رہا اور مدینہ کے لوگ کسی کے پيچهے
دوڑتے تهے کہ ان کا مثبت جواب دے اور امور کی با گ ڈور اپنے ہاته ميں لے لے ۔ طبری نے اسی روایت کو اس
١) لایا ہے ۔( / متن اور سند کے ساته اپنی تاریخ ميں ( ج ٣٠٧٣
مثال کے طور پر مغيرة بن سعيد کی تشریح ميں کشی ، یونس سے نقل کرتا ہے کہ
ہشام بن حکم کہتا تها :
ميں نے امام صادق عليہ السلام سے سنا کہ وہ فرماتے تهے : مغيرہ بن سعيد عملی طور پر
بعض جهوڻے مطالب کو ميرے والد سے نسبت دیتا تها اور انهيں انکے اصحاب کی روایتوں
ميں قرار دیتا تها تا کہ ان کے مضمون کو شيعوں ميں منتشر کریں ۔
یونس کہتا ہے : ميں عراق ميں داخل ہوا اور وہاں پر امام باقر عليہ السلام کے بہت سے
اصحاب کو دیکها ۔ اور ان سے کئی احادیث سنی اور ميں نے ان کی کتابوں کی نسخہ براداری
کی ۔ اس کے بعد اپنے نسخوں کو حضرت امام رضا عليہ السلام کی خدمت ميں پيش کيا امام
عليہ السلام نے اصحاب امام صادق عليہ السلام کی کتابوں سے نسخہ برداری کی گئی بہت
سے روایتوںکو اعتبار سے گرادیا .
نتيجہ:
اس قسم کی روایتيں صحيح ہوں یا غلط ، البتہ یہ حقيقت واضح طور پر ثابت ہوجاتی ہے
کہ غلط اورجعلی روایتيں متون کی کتابوں ميں جيسے رجال کشی وغيرہ ميں داخل ہوئی ہيں
کيونکہ اگر یہ روایتيں صحيح ہوں تو ایسی کتابوںميں غلط روایتوں کی موجودگی کی خبر دیتی
ہيں اور اگر غلط ہوں تو ، وہ خود جعلی اور غلط روایتيں ہيں جو“ رجال کشی ’ ميں داخل ہوئی
ہيں اور کشی نے غلطی سے صحيح ہونے کے گمان کے باوجود اپنی کتاب ميں نقل کيا ہے پس
دونوں صورتوں ميں ان روایتوں کی موجودگی ،جنہيں ہم نے یہاں پر رجال کشی سے نقل کيا
ہے ان کتابوں کے مطالب کے درميان پائی جاتی ہيں بے بنياد اور بے اساس ہيں اور اس پر
قطعی دليل بهی موجود ہے۔
خلاصہ:
اس پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ: عبدا لله بن سبا اور مرتدوں کے احراق سے مربوط
روایتيں ، جو ہماری بحث و گفتگو کا موضوع ہيں ، اسی قسم کی ہيں ،کہ شيعوں کے صحيح اور
ابتدائی متون کے نابود ہونے کی وجہ سے گزشتہ صفحات ميں وضاحت کی گئی راہوں سے
شيعوں کی کتابوں اور مآخذ ميں پہنچ گئی ہيں اور شيعہ علماء کی غيرفقہی روایتوںکے بارے
ميں غفلت کی وجہ سے یہ کام انجام پایا ہے اور چونکہ ان مطالب کے بارے ميں بحث و تحقيق
نہيں ہوئی ہے اس لئے صحيح روایتوں کو جعليات اور جهوٹ سے جدا نہيں کيا گيا ہے ، نتيجہ
کے طور پر یہ جعلی اور جهوڻی روایتيں شيعہ کتابوں اور مآخذ ميں موجود ہيں اور صدیاں گزرنے
کے بعد دوسری کتابوں ميں بهی منتقل ہوئی ہے۔
احراق مرتد کی داستان کے حقيقی پہلو
من الجائز ان یحرق الامام جثة مرتد خشية ان یتخذ قبرہ وثناً
امام کے لئے جائز ہے کہ مرتدکی لاش کو جلادیں تاکہ اس کے پيرو اس کی قبر کا احترام نہ
کریں .
مؤلف
ہم نے گزشتہ فصلوں ميں احراق مرتد سے مربوط روایتوں کو بيان کيا اور ان پر بحث و
تحقيق کی ۔ ان کے ضعيف اور بے بنياد ہونے کے ابعاد کو واضح کيا اور کہا کہ ان روایتوں کی
بنياد مضبوط نہيں ہوسکتی ہے اور یہ صحيح اور حقيقی نہيں ہوسکتی ہيں بلکہ یہ ایک افسانہ
ہے جو مختلف اغراض ومقاصد کی وجہ سے جعل کيا گيا ہے ۔
اگر کوئی صدر اسلام ميں جزیرة العرب کے اجتماعی حالات کا مطالعہ و تحقيق کرے ،
تو وہ واضح طورپر اس حقيقت کو محسوس کر لے گا کہ ، اسلام نے اس علاقہ ميں توحيد اور
یکتاپرستی کيلئے جو خاص نفوذ اور طاقت پيدا کی تهی ، بت پرستی نيز ،کلی طورپر ہر نوع
مخلوق کی پرستش اور غير خالق کے سامنے تسليم ہونے کے خلاف جو مسلسل کوشش
کی تهی کہ جس کے نتيجہ ميں یہگنجائش و فرصت باقی نہ رہ گئی تهی کہ ایک انسان پهر
سے بت پرست ہو جائے یا کسی بشر کی الوہيت کا معقتد بن جائے اجتماع نقيضين ، محال اور
ناممکن جيسے ان خاص شرائط ميں اس روداد ( پرستش مخلوق ) کی کوئی فرد عاقل تائيد
نہيں کرسکتا ہے ۔
ل يکن یہ ممکن تها کہ کوئی زندیق اور منکر خدا ہو اور اسے بصرہ سے اسلامی مملکت
کےحدودميںلایا جائے ۔ کيوںکہ زندیق اور پروردگار کے منکر ، قبل از اسلام وجود ميں آئے تهے ،
اس قسم کے افراد بصرہ کے پڑوس کے علاقوں ميں جو بعد ميں مسلمانوں کے ذریعہ فتح ہوا
موجود تهے ۔ اس بنا پر بعيد نہيں ہے کہ اميرالمومنين عليہ السلام کے زمانے ميں ان ميں سے
کچه لوگ بصرہ ميں داخل ہوکر مسلمانوں سے ان کے روابط کے نتيجہ ميں ان کے کفر و الحادکا
پتہ چلا ہواور انهيں حضرت کی خدمت ميں لایا گيا ہوگا۔ اور حضرت علی عليہ السلام نے بهی ان
کے خلاف اسلام کا حکم نافذ کرکے انهيں قتل کياہوگا ۔
پهر بهی جيسا کہ بعض زیر بحث روایتوں ميں آیا ہے ممکن ہے ایک شخص عيسائی
اسلام کو قبول کرے اس کے بعد دوبارہ عيسائيت کی طرف پلٹ جائے اور اسلام سے خارج
ہوجائے اور اسے علی عليہ السلام کے حضور لایا جائے اور حضرت عليہ السلام اس کے خلاف
اسلام کا حکم نافذ فرمائيں۔
جی ہاں، جو کچه اوپر بيان ہوا وہ سب صحيح ہوسکتا ہے ليکن حضرت علی عليہ
السلام کے توسط سے انهيں نذر آتش کرنا اور جلانا صحيح اور واقعی نہيں ہوسکتا ہے یہ ایک
روشن ضمير اور آگاہ محقق کيلئے قابل قبول نہيں ہوسکتا ہے کيونکہ قضيہ کے مذہبی پہلو سے
قطع نظر ہرگز اميرالمؤمنين عليہ السلام جيسے نامدار کے لئے ان شرائط و حالات ميں ا یک
انسان کو زندہ جلانا مطابقت نہيں رکهتا ہے خاص کر جبکہ اس سے پہلے ابوبکر نے “ فجائيہ
سلمی ” کو نذر آتش کرکے مسلمانوں کی مخالفت مول لی تهی اور خود خليفہ نے بهی اس
عمل پر اظہار ندامت اور پشيمانی کی تهی ۔ ان حالات کے پيش نظر معنی نہيں رکهتا ہے کہ
اميرالمؤمنين ایک انسان یا کئی انسانوں کو نذر آتش کرکے عام مسلمانوں کی مخالفت مول
ليں(جيسا کہ گزشتہ بعض روایتوں ميں آیا ہے) اس سلسلہ ميں اس حد تک قبول اور یقين کيا
جاسکتا ہے کہ حضرت عليہ السلام ایک مرتد پر حد نافذ کرنے کے بعد ، اس احتمال اور ڈر سے
کہ کہيں اس کے پيرو بت کے مانند اس کی قبر کی پوجا نہ کریں اور آنے والی نسلوں کيلئے
فساد کا سبب نہ بنے، لہذا حضرت نے اسے جلا کر خاکستر کر دیاہو۔ یہ تها ، زیر بحث داستان
کے واقعی پہلوؤں کے بارے ميں ہمارے نظریہ و عقيدہ کا خلاصہ اور وہ تهے اس داستان کے
افسانوی اور جهوڻے پہلو جو گزشتہ فصلوں ميں بيان ہوئے اگر کوئی ہماری بيان کردہ بات پر
مطمئن نہ ہو سکے اور اس داستان کے صحيح ہونے ميں اسی حد تک اکتفا کرے اور ان روایتوں
کے مضمون کو ہمارے بيان کے علاوہ قبول کرے تو اسے چاہئے ہمارے دوش بہ دوش آئے اور
کتاب کے اگلے حصہ ميںبهی ہمارے ساته سفر کرے اور ملل و نحل کی کتابوں ميں عبدالله بن
سبا اور سبئيہ کے بارے ميںدانشوروں کا نظریہ سنے ۔ اس کے بعد اس موضوع کے بارے ميں
بيشتر آگاہی کے ساته فيصلہ کرے اور ہم بهی آگے بڑهنے کيلئے اپنے پروردگا سے مدد چاہتے
ہيں ۔
مباحث کا خلاصہ اور نتيجہ
ان الزنادقة کانت تدس فی کتب الشيوخ
زندیقی، اساتذہ کی کتابوں ميں اپنی طرف سے حدیث اور روایتيں وارد کرتے تهے ۔ مؤلف
علی نے کن لوگوں کو جلایا ؟
گزشتہ فصلوں ميں ہم نے عبدا لله ابن سبا اور مرتدافراد کے احراق کے بارے ميں روایتوں
کی مکمل طور پر تحقيق اور جانچ پڑتال کی ان کے جعلی ہونے ، یہ روایتيں کيسے شيعوں کی
کتابوں ميں داخل ہوئيں اور آج تک اپنے وجود کو حفظ کرسکيں اور یہ روایتيں کس حد تک صحيح
ہوسکتی ہيں ، ایسے مسائل تهے جن پر ہم نے گزشتہ فصلوں ميں تحقيق کی اب ہم اس فصل
ميں بهی گزشتہ مطالب کے خاتمہ اور نتيجہ گيری کے عنوان سے کہتے ہيں :
روایاتِ احراق اس امر کی حکایت کرتی ہيں کہ علی عليہ السلام نے ان کے بارے ميں
غلو کرنے والوں اور ان کی الوہيت کے قائل افراد کو نذر آتش کيا ہے ليکن ان روایتوں کے مقابلے
ميں ایک دوسری روایت بهی موجود ہے جو کہتی ہے:
امير المؤمنين عليہ السلام نے ان لوگوں کو جلایا جو ملحد و زندیق تهے نہ غالی چنانچہ امام
صادق عليہ السلام سے نقل کيا گيا ہے : کچه زنادقہ اور ملحدوں کو بصرہ سے حضرت علی
عليہ السلام کی خدمت ميں لایا گيا علی عليہ السلام نے انهيں اسلام کی دعوت دی ، ليکن
انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کي
صحيح بخاری ميں آیا ہے کہ چند کافروں کو اميرالمؤمنين عليہ السلام کی خدمت ميں
لایا گيا اور حضرت نے انهيں جلادیا۔ ابن حجر فتح الباری ميں نقل کرتا ہے کہ اميرالمؤمنين عليہ
السلام نے زندیقيوں کو نذر آتش کر دیا یعنی مرتدوں کو
احمد بن حنبل سے نقل کيا گيا ہے : بعض زندیقيوں کو امير المؤمنين عليہ السلام کے
پاس لایا گيا کہ ان کے ہمراہ کچه کتابيں بهی تهيں امير المؤمنين عليہ السلام کے حکم سے
آگ تيار کی گئی اس کے بعد انهيں ان کی کتابوں کے ہمراہ جلا دیا گيا ۔
اس عمل کا محرک کيا تها ؟
اس قسم کی ضد و نقيض روایتيں سے یہ حقيقت معلوم ہوتی ہے کہ جلانے کی روداد
ميں ایک حقيقت موجود تهی کہ حسبِ ذیل جيسی بعض روایتيں اس کی وضاحت کرتی ہيں ۔
امام صادق عليہ السلام نے اپنے والد امام باقر عليہ السلام اور انہوں نے امام سجاد
عليہ السلام سے نقل کيا ہے : ایک شخض امير المومنين عليہ السلام کے پاس لایا گيا جو
پہلے عيسائی تها بعد ميں مسلمان ہوا اس کے بعد دوبارہ عيسائيت کی طر ف چلا گيا۔
اميرالمؤمنين عليہ السلام نے حکم دیا کہ اعرضوا عليہ الهوان ثلاثة ایام- ( اسے تين دن مہلت دو
اور اسے ذلت کی حالت ميں رکهو) اور ان تين دنوں کی مدت تک حضرت عليہ السلام اسے اپنے
پاس سے کهانا بهيجتے تهے ، چوتهے دن زندان سے اپنے پاس بلایا اور اسے اسلام کی دعوت
دی ، ليکن وہ اسلام قبول کرنے پر حاضر نہيں ہوا امام نے اسے ( مسجد کے صحن ميں قتل کر
دیا۔ عيسائی جمع ہوئے اور حضرت سے درخواست کی کہ ایک لاکه درہم کے ساته مقتول کی
لاش کو ان کے حوالہ کر دیں ۔ امير المؤمنين عليہ السلام نے قبول نہيں کيا اور حکم دیا کہ اس
کے جسد کو نذر آتش کردیا جائے اس کے بعد فرمایا : ميں ہرگز ان کا اس امر ميں تعاون نہيں
کروں گا کہ شيطان جنهيں حکم دیتا ہو ۔
ایک دوسری روایت ميں آیا ہے کہ حضرت عليہ السلام نے اس جملہ کا بهی اضافہ کيا :
ميں ان ميں سے نہيں ہوں جو کافر کو جسد بيچ ڈالتے ہيں۔ بعض روایتوں ميں آیا ہے کہ امام
عليہ السلام نے مرتدوں کو قتل کرنے کے بعد ان کے اجساد کو نذر آتش کر دیا۔
بہر حال جو روایتيں ہم نے اوپر نقل کی ہيں ان سے امير المؤمنين عليہ السلام کے
طریقہٴ کار کا راز ان افرادکے بے روح اجساد کو جلانے کی علت واضح ہوجاتی ہے اوریہ معلوم
ہوتا ہے:
ا ولاً: جو لوگ علی عليہ السلام کے حکم سے جلائے گئے ہيں ، ملحد یا مرتد تهے ، نہ
غلو کرنے والے افراد۔
ثانياً: ان کو قتل کرنے کے بعد انکے بے جان بدن جلائے گئے ہيں نہ قتل کرنے سے
پہلے انهيں ارتدادکی حد کے طور پر جلایا گيا ہے ۔
ثالثا : علی عليہ السلام کے اس عمل کا محرک اس امر کو روکنا تها کہ ایسا نہ ہو کہ
ملحد و مرتد افرادکی قبریں ان کے حاميوں اور طرفداروں کی طرف سے مورد احترام قرار پائيں
اور بصورت بت ان کی پوجا کی جائے ۔ پهر بهی ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جهوٹ پهيلانے
والوں نے ان روایتوں ميں تحریف کرکے انهيں افسانوں کی صورت ميں پيش کيا ہے کہ عقل
جسے قبول کرنے سے انکار کرتی ہے ۔
دو متضاد قيافے
عبد الله بن سباکے بارے ميں شيعہ کتابوں ميں نقل ہوئی روایتيں دو حصوں ميں تقسيم
ہوتی ہيں عبدا لله بن سبا ان دو قسم کی روایتوں ميں دو مختلف قيافوں کی صورت ميں ظاہر
ہوتا ہے : ایک جگہ پر ایک ایسے قيافہ ميں رونما ہوتا ہے کہ علی عليہ السلام کے بارے ميں غلو
کر کے ان کی الوہيت اور خدائی کا قائل ہوا ہے اور دوسر ی جگہ پر ایک ایسے شخص کے قيافہ
ميں ظاہر ہوا ہے جس نے پروردگار کے منزہ اور مقدس ہونے کے بارے ميںغلو کيا ہے ۔
اور خوارج کے مانند جو خود اس کے گمان ميں حریم قدس ربوبيت کے بارے ميں سزاوار
نہيں ہے اس سے انکار کرتا ہے ۔
یہ دو قسم کی روایتيں ایک دوسرے کی متناقض اور مخالف ہيں اور ان کی ایک قسم
دوسری قسم کو جهڻلاتی ہے ان روایتوں کی پہلی قسم صرف رجال کشی اور اس سے نقل
کی گئی کتابوں ميں ملتی ہيں ہم نے گزشتہ صفحات ميں رجال کشی اور اس کتاب کی حيثيت
کے بارے ميں علماء کی رائے اور ان کا عقيدہ نقل کيا ہے اب ہم عبد لله بن سبا کے بارے ميں
اس کے ان دو متضاد قيافوں کے ساته اپنا نظریہ پيش کرتے ہيں:
عبد الله بن سبا کے بارے ميں ہمارا آخری نظریہ:
عبدا لله بن سبا قيافہ اول ميں : اس سلسلہ ميں ہمارے نظریے اور عقيدے کا خلاصہ یہ
ہے کہ اس قسم کا شخص یا قيافہ کبهی وجود نہيں رکهتا تها ان روایتوں کے حصہ ميں ذکر
ہوئے قيد و شرط و خصوصيات کے ساته عبد الله بن سبا نامی کسی شخص کی کوئی حقيقت
نہيں ہے بلکہ مسموم افکار نے اس قسم کی شخصيت کو خلق کيا ہے اور مرموز و ظالم ہاتهوں
نے اس افسانہ کو تاریخ اسلام ميں جعل کيا ہے اور بعدميں لوگوں نے نقل کرکے اسے پرورش و
وسعت بخشی ہے یہاں تک اس نے ایک تاریخی حقيقت کی صورت اختيار کرلی ہے اور نا قابل
انکار حقيقت کے روپ ميں منتشر ہوا ہے جس مؤلف نے بهی اس افسانہ کو اپنی کتاب ميں درج
کيا ہے اس نے انهيں دو مآخذ یعنی افکار مسمو م اور عوام کے افواہ سے نقل کيا ہے۔
عبدلله ابن سبا قيافہ دوم ميں :انشاء الله اگلی فصل ميں اس سلسلہ ميں حقيقت کے رخ سے
پردہ اڻها کر بيشتر وضاحت کریں گے
غاليوں کی احادیث کی تحقيق کا خلاصہ :
جو کچه ہم نے کہا وہ ان احادیث ور روایتوں کے بارے ميں تها جن ميںعبد الله بن سبا کا
نام آیا ہے ليکن، وہ احادیث جو غاليوں کے بارے ميںہيں اور ان ميں عبدا لله بن سبا کا نام نہيں
ایا ہے ان ميں سے ایک رجال کشی ميں ہے اور وہ وہی آڻهویں حدیث ہے کہ کہتا ہے : امام
اپنی بيوی ( ام عمرو عنزیہ ) کے گهر ميں تهے کہ کئی غاليوں کو انکی خدمت ميں لایا گيا۔
اس روایت کے ضعف و جعلی ہونے ميں ا تنا ہی کافی ہے کہ اس سے پہلے بهی ہم
نے کہاکہ کسی رجال شناس ، حالات کی شرح لکهنے والے ، کسی مؤرخ و حدیث شناس نے
اميرالمؤمنين کيلئے قبيلہٴ “عنزیہ ” کی “ ام عمرو” نامی بيوی نہيں ذکر کيا ہے تا کہ غاليوں کو
اس وقت لایا جاتا جب حضرت اپنی اس بيوی کے پاس تهے !!
ان روایتوں ميں سے ایک اورر وایت ایک مرد سے نقل کی گئی ہے کہ ا س مرد کا نام
ذکر نہيں ہوا ہے اور در حقيقت اس روایت کا راوی اور ناقل معلوم نہيں ہے تا کہ اس کے اعتبار یا
عدم اعتبار اور صحيح یا غلط ہونے کے سلسلے ميں گفتگو کی جاسکے ۔ اس کے علاوہ خود یہ
روایتيں بهی ایک دوسرے سے مختلف ہيں اور ایک کا مضمون دوسرے کے مضمون کو ایسے
جهڻلاتا ہے کہ تهوڑی سی توجہ اور دقت کرنے سے ان کے مضمون کا بے بنياد اور باطل ہونا
واضح ہوجاتا ہے ۔
ان کے علاوہ ان روایتوں کا مجموعی مضمون ان روایتوں سے تناقض و اختلاف رکهتا ہے
جو مرتد کی سز اوار حد قتل کو معين کرتی ہيں نہ ان کے جلانے اور نذر آتش کرنے کو ۔
اس سے بالاتر یہ ہے کہ اگر یہ روایتيں اور یہ تاریخی حوادث اس اہميت کے ساته
حقيقت ہوتے تو مشہور و معروف مورخين سے کيسے مخفی رہ گئے ہيں اور انہوں نے ان کے
بارے ميں کسی قسم کا اشارہ تک نہيں کيا ہے جبکہ ان سب نے ابوبکر کی طرف سے ‘ ‘
فجائيہ سلمی ” کو نذر آتش کرنے کے حکم کے بارے ميں نقل کيا ہے ۔
شيعوں کی کتابوں ميں ابن سبا اور غاليوں کی احادیث کی پيدائش کا خلاصہ
جو کچه ہم نے گزشتہ صفحات او ر سطروں ميںبيان کيا اس سے واضح اور قطعی طور
پر معلوم ہوتا ہے کہ عبد الله بن سبا اور غاليوں کے بارے ميں روایتيں جو ہمارے بحث و گفتگو
کاموضوع تهيں ، کلی طور پر جعلی اور جهوڻی روایتيں ہيںکہ جو ہماری کتابوں ميں داخل ہوئی
ہيں اور ہماری صحيح روایتوں سے ممزوج ہوچکی ہيں اور ان جهوڻی روایتوں کی پيدائش اور ان
کے شيعوں کی کتابوں ميں وارد ہونے کے بارے ميں ہم نے اس سے پہلے اشارہ کيا ہے کہ غير
متدین افراد نے اساتذہ اور شيخ کی کتابوں ميں جعلی رایتوں کو بعض اوقات مخلوط کيا ہے اور
انهيں قابل اعتماد کتابوں کے ذریعہ اپنے چهوڻے اور بے بنياد مطالب کو لوگوں کے درميان منتشر
کيا ہے اور دوسری جانب سے شيعہ علماء اور دانشوروں نے فقہ اور احکام کے علاوہ دیگر
موضوعات سے مربوط روایتوں کی طرف خاص توجہ نہيں دی ہے اور اس قسم کی روایتوں کی
بحث وتحقيق نہيں کی ہے اور دوسری طرف سے فتنوں اور بغاوتوںکی وجہ سے اور سيرت
تاریخ ، تشریح اور علوم و فنون اور علمی آثار ميں عدم توجہ کی وجہ سے ان کے نابود ہونے کے
نتيجہ ميں اصلی کتابوں کی جگہ ناقابل اعتماد مطالب آ گئے ہيں ۔
یہ تها، رجال و احادیث کی کتابوں ميں عبدا لله بن سبا کا قيافہ اور اس کے بارے ميں
روایتوں کا خلاصہ ، کتاب کے اگلے حصہ ميں ہم ادیان و عقائد (ملل و نحل) ميں اس کے قيافہ کا
مشاہدہ کریں گے ۔
حصہٴ اول کے مآخذ
١۔ اختيار رجال کشی : (ص ١٠۶ ۔ ١٠٨ ) عبد الله بن سبا کے بارے ميں کشی کی
پنجگانہ روایتيں۔
٢۔ مصفی المقال : ترجمہٴ رجال کشی : ص ٣٧۵ ۔
٢٨٨ / ٣۔ حاشيہٴ الذریعہ : ۴
٣٨۵/ ۴۔ الذریعہ : ٣
٢۴٩ ۔ ٢۵١ باب نفی الغلو فی النبی و الائمہ / ۵۔ بحار الانوار : طبع کمپانی ٧
۴۵۶ ۔ باب حکم الغلاة و القدریہ / ۶۔ وسائل : ٣
٢۶۴ باب الرد علی الغلاة و القدریہ / ٧۔ مناقب : ١
٨۔ رجال نجاشی : ص ٢٨٨
٩۔ مصفی المقال : شرح حال حائری
١٠ ۔ رجال نجاشی : ٢٧٠
٢١٣ ، خصال، / ١١ ۔ من لا یحضرہ الفقيہ : بطور مرسل از امير المؤمنين عليہ السلام ١۴
٣٢٢ حدیث ١٧١ ، وسائل نقل از من لا یحضرہ الفقيہ و تہذیب و / ص ۶٢٨ حدیث ۴٠٠ / تہذیب ٢
۵١١ / ١١٨ ، و حدائق ٨ / علل باب ٢٨ از ابواب تعقيب ۴٨١ وافی در باب فضل تعقيب ۵
۶٣۵ شيخ طوسی کی امالی کی نقل کے مطابق اور ابن / ١٢ ۔ بحار : طبع کمپانی ١٩
حجر نے بهی ‘ لسان الميزان ” ميں عبد الله بن سبا کے حالات کی تشریح ميں،ميسب کی بات
تک ( وہ کہتا ہے خدا و پيغمبر سے جهوٹ کی نسبت دیتا تها ) اور بقيہ مطلب کو نا قص چهوڑا
ہے ۔
١٣ ۔ غيبت نعمانی : ص ١۶٧ ۔ ١۶٨ باب ذکر جيش الغضب
١۴ ۔اختيار معرفة الرجال : ص ٣٠٧ ۔ ٣٠٨ حدیث ۵۵۶ اور ص ٧٢ پر حدیث ١٢٧ خلاصہ کے
طور پر ۔
٢۵٩ ۔ ٢۶٠ حدیث ٢٣ باب مرتد ، من لا یحضرہ / ١۵ ۔ اختيار معرفة الرجال : ١٠٩ و کافی ٧
٢۵٠ باب نفی الغلو و حکم قتال کے باب / ٧٠ باب حد مرتد ، بحار ٧ / ٩٠ ، ووافی : ٩ / الفقيہ ٣
ميں رجال کشی ميں آیا ہے۔
٢۵۴ / ١٣٨ و استبصار ۴ / ١ و تہذیب ١ ٢۵٧ اور حدیث ٨ / ١۶ ۔ کافی : باب حد المرتد ، ٧
٢۴٩ ، و مستدرک وسائل / ٢۶۵ ، و بحار طبع کمپانی : ٧ / ١٧ ۔ مناقب ابن شہر آشوب : ١
٢۴۴ ۔ /٣
١۴٠ حدیث ١٣ باب حد مرتد / ٩١ ، تہذیب ١٠ / ١٨ ۔ من لا یحضرہ الفقيہ : ٣
٢٠٢ / ١٩ ۔ تاریخ اسلام ، ذہبی : ٢
٢٢١ حدیث اول / ٢١٧ و ٢٨٢ حدیث ٢۵۵٢ و سنن ابی داؤد ٢ / ٢٠ ۔ مسند احمد حنبل : ١
از باب “حکم من ارتداد” کتاب حدود
٢٣٢ / ٢١ ۔ سيرة اعلام النبلاء ذہبی ، ابن عباس کی شرح ميں ٣
٢۴٣ باب حکم الغلاة و القدریہ اس نے کتاب عيون المعجزات سے / ٢٢ ۔ صحيح ترمذی : ۶
نقل کيا ہے ۔
٢۴۴ فضائل ابن شاذان سے نقل کيا ہے ۔ / ٢۴ ۔ مستدرک وسائل الشيعہ : ٣
١١۵ ، کتاب الجہاد باب لایعذب بعذاب الله / ٢٩۵ ، صحيح بخاری : ٢ / ٢۵ ۔ بدایة المجتہد : ٢
٨۴٨ حدیث ٢۵٣۵ باب / ١٣٠ از صحيح بخاری باب استتابة المرتد ین و سنن ابن ماجہ : ٢ / و ١۴
٢۴٢ ميں بهی آیا ہے ۔ / المرتد من دینہ از کتاب حدود و سنن ترمذی : ۶
١٣٨ ، حدیث ١٧ باب /١٠، ١٣٨ / ٢۵٨ حدیث ١٧ باب حد مرتد ، تہذیب ١٠ / ٢۶ ۔ کافی : ٧
٢۵۵ حدیث ۶ ۔ / حد مرتد و استبصار : ۴
۵ ۴٨ / ٢٧ ۔ من لا یحضرہ الفقيہ : ٣
١٣٧ حدیث ۴/ باب حد مرتد، / ٢۵۶ حدیث ٣/ باب حد مرتد ، تہذیب : ١٠ / ٢٨ ۔ کافی : ٧
١٩ ابواب حد مرتد۔ / ٢۵٣ حدیث ۴ باب حد مرتد ، وافی ٧٠ / استبصار ۴
٢۵۴ و / ١٣٩ ، حدیث ١٠ ․ استبصار : ۴ / ٢۵۶ باب حد المرتد ، تہذیب ١٠ / ٢٩ ۔ کافی ٧
٧٠ / وافی ٩
١٣٩ ، حدیث ١١ / ٩١ ، تہذیب ١٠ / ٣٠ ۔ من لا یحضرہ الفقيہ ٣
٧٠ / باب حد مرتد ، وافی ٩
٧٠ / ٢۵٨ ح ۵ باب حد مرتد و صفحہ ٢۵٧ ح ۶ خلاصہ کے طور پر ، وافی ٩ / ٣١ ۔ کافی : ٧
٣٢ صفين طبع مصر : ۴٣
١٢۶ سے نقل کرکے۔ / ٣٣ ۔ التعریف : تاليف وحيد بہبانی ( وفات ١٢۵٩ ) الذریعہ ٢
٣۴ ۔ معجم البلدان : تحت لغت “ بين السورین ” یہ کتاب شيخ طوسی کے ہاته ميں
تهی، انهوںنے فتنہ و حادثہ کے بعد نجف مہاجرت کی اور وہاں کے حوزہ علميہ کا ادارہ کيا جو
آج تک برقرار ہے ۔
٣۵ ۔ یہ دو روایتيں اختيار معرفة الرجال ص ٢٢۴ ۔ ٢٢۵ نمبر ۴٠١ و ۴٠٢ ميں آئی ہيں ۔
٢۴٣ نے دعائم الاسلام و جعفریات سے نقل کيا ہے ۔ / ٣۶ ۔ مستد ک وسائل الشيعہ : ٣
١٣٠ باب حکم المرتد ، کتاب استتابة المرتدین ۔ / ٣٧ ۔ صحيح بخاری : ۴
۴٩١ حدیث لا یعذب بعذاب الله کی شرح ميں۔ / ٣٨ ۔ فتح الباری : ۶
٣٢٢ پر درج / ٢٨٢ نمبر ٢۵۵١ مسند احمد ١ / ۴٩٢ ، مسند احمد ١ / ٣٩ ۔ فتح الباری : ۶
ہوا ہے ۔
٢۴٣ حدیث ٢ باب “ ان المرتد یستتاب بثلاثة ایام ” جعفریات سے / ۴٠ ۔ مستد رک وسائل : ٣
نقل کيا ہے ۔
٢۴٣ حدیث ۴/ باب “حکم الزندیق و الناصب ” دعائم الاسلام / ۴١ ۔ مستد رک وسائل : ٣
سے نقل کيا ہے ۔
۴٢ ۔ ہماری کتاب“ خمسون ماٴة صحابی مختلق ” فصل “ زندقہ ” ميں مقدماتی اور
ابتدائی بحث کی طرف رجوع کيا جائے ۔
|