سیف کی فتوحات پر ایک نظر
سیف بن عمر نے بہت سی جنگوں کو مرتدین کی جنگوں کے نام سے جعل کیا ہے ، اور بعض غیر اسلامی جنگوں کو بھی دین اسلام کے کھاتے میں ڈال کر انھیں بھی مرتدین کی جنگوں میں شمار کیا ہے ۔ یہ جنگی روایتیں اور افسانے اسلام و مسلمانوں کو گوناگوں نقصانات پہنچانے کے علاوہ اسلام کے چہرہ کو مسخ کرکے شرمناک صورت میں پیش کرتی ہیں اور اسکے علاوہ اسلام کی دشمنی اور کینہ رکھنے والوں کیلئے مضبوط دستاویز فراہم کرتی ہیں ، کہتے ہیں :
” اسلام نے مسلمانوں کے دل میں جگہ نہیں پائی تھی ۔ جزیرة العرب کے مختلف قبائل جو اسلام قبول کرچکے تھے پیغمبر کی وفات کے بعد ہی گروہ گروہ اسلام سے منحرف ہوگئے اور دوسری بار تلوار اور نیزے کے بل بوتے پر پھر سے اسلام لائے “
اسی طرح اسلامی فتوحات کے بارے میں بھی سیف کی روایتیں جھوٹ سے بھری ہیں اور مرتدین کی افسانوی جنگوں کے انھیں مقاصد کی پیروی کرتی ہیں ان کے بارے میں کتاب کے دوسرے حصہ میں مرتدین کی جنگوں کے ساتھ ان پر بھی بحث ہوئی ہے ۔ ان میں ایسا دکھایا گیا ہے کہ اسلامی فوج نے جزیرة العرب کے قبائل اور ملتوں کے لوگوں میں سے لاکھوں افراد کو تہہ تیغ کیا ہے یہاں تک کہ وہ لوگ ترس ووحشت سے تسلیم ہوکر اسلام کے فرمانبردار بنے۔
جبکہ یہ سب مطالب بے بنیاد اور حقائق کے خلاف ہیں ، کیونکہ سیف نے جن لوگوں کو اپنی روایتوں میں ذکر کیا ہے نہ یہ کہ وہ مخالف اسلام نہ تھے بلکہ مسلسل مسلمانوں کے فائدہ میں کوشش اور سرگرمی دکھاتے رہے ہیں اور غیر اسلامی حکومتوں کا تختہ الٹنے کے بارے میں ان کا تعاون کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کی رومیوں سے جنگ میں حمص اور شام کے تمام شہروں کے باشندوں نے مسلمانوں کی نصرت کی کہ جس کومعروف مؤرخ بلاذری نے ان کی روداد کو مفصل طور پر درج کیا ہے اور یوں لکھتا ہے ۔
ہر قل نے شام کے لوگوں کو مسلمانوں سے جنگ کرنے کیلئے آراستہ کیا اور جنگ ” یرموک “ کے لئے آمادہ ہوئے جب اس روداد کی خبر مسلمانوں کو پہنچی تو انہوں نے حمص کے لوگوں سے وصول کیا گیا ٹیکس انھیں واپس کیا اور کہا ہم تمہاری مدد اور دفاع کرنے سے معذور ہیں او ر تمہارے امور کو تم پر ہی چھوڑتے ہیں ۔
حمص کے باشندوں نے کہا: آپ لوگوں کی عادلانہ اور منصفانہ حکومت ہمارے لئے ہرقل کی ظالمانہ حکومت سے بہتر ہے ہم حاضر ہیں تاکہ آپ کے کارندوں ، نمائندوں اور مسلمانوں کی مدد کریں اور ہرقل کے سپاہیوں کو شہر حمص سے نکال باہر کریں ۔ دوسری طرف حمص کے یہودی بھی اٹھے اور کہا کہ قسم ہے توریت موسی کی ہرقل کے سپاہی اس شہر میں داخل نہیں ہوسکتے ہیں مگر یہ کہ ہمارے افراد ختم ہوجائیں اور ہم ان کے مقابلے میںعاجز و ناتواں ہوجائیںا س وجہ سے انہوں نے ہرقل کے سپاہیوں کیلئے شہر حمص کے دروازے بند کئے اور شہر کے بچاؤ کی ذمہ داری خود سنبھال لی اس طرح دوسرے شہروں کے ان یہودیوں اور عیسائیوں نے بھی اسی طرز عمل کو اختیار کیا اور مسلمانوں کی مدد (جو صلح کے ذریعہ مغلوب ہوئے تھے )کی۔
بلاذری کہتا ہے : جب روم کی فوج نے شکست کھائی اور مسلمان خوش ہوئے تو اس شہر کے دروازوں کو مسلمانوں کیلئے کھولا گیا اور انہوں نے اپنے ” مقلسین “ ۱ کو اسلام کے سپاہیوں کے استقبال کیلئے بھیجا جو جشن و شادامانی کی وجہ سے ناچتے گاتے تھے اور ایک خاص احترام کے ساتھ مسلمانوں کا استقبال کیا کرتے تھے اور اپنی رضا ور غبت سے اپنے مال کا ٹیکس اسلامی حکومت کو ادا کیا۔
اس طرح عراق کے مختلف شہروں کے سرداروں اور گاؤں کے چوہدریوں نے بھی اسلامی فوج کا تعاون کیااور ان کی مدد کی ،چنانچہ حموی کہتا ہے :
مقامی سردار اور چوہدری مسلمانوں کیلئے خیر خواہی کرتے تھے اور ایرانیوں کے اسرار و رموز ان پر فاش کرتے تھے اور ایرانی سپاہیوں پر تسلط جمانے کے راز سے انھیں آگاہ کرتے تھے ، مسلمانوں کو تحفے و تحائف پیش کرتے تھے مسلمانوں کی آسائش کیلئے بازار تشکیل دیتے تھے ۲ یہاں تک کہتا ہے :
اسلام کے سپاہی ” سعد “ کی کمانڈری میںا یران کے پادشاہ یزجرد سے نبرد آزما ہونے کیلئے مدائن کی طرف جارہے تھے ایک ایسی جگہ پر پہنچے جہاں پانی کو عبورکرنے
کے راستہ سے آگاہ نہیں تھے ۔ لہذا وہ وہاں پر رک گئے مقامی لوگوں نے ان کی
-----------
۱۔ مقلسین فن کاروں کا ایک گروہ تھا جو دف بجانے ، عورتوں کے دائرے ، رقص کرتے ہوئے حکام اور فرمانرواؤں کے استقبال کیلئے جاتے تھے ۔
۲۔ پرانے زمانے میں یہ رسم تھی کہ ہر شہر کے لوگ جب کسی لشکر کے اس شہر میں داخل ہونے پرراضی ہوتے تھے تو لشکر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے بازار تشکیل دیتے تھے ۔
نصرت کی اور انھیں صیادین کے گاؤں کے نزدیک عبور کا راستہ دکھانے میں راہنمائی کی سعد کے سپاہیوں نے اپنے گھوڑوں کے ساتھ وہیں سے دریاکو عبور کیا اس کے بعد مدائن پر حملہ کیا ۔ یزجرد نے جب یہ حالا ت دیکھے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا اور مسلمانوں نے مقامی لوگوں کی حمایت اور راہنمائی کے نتیجہ میںایک عظیم فتح پائی ۔
ایک محقق ان روشن دلائل اور صحیح تاریخی نصوص سے واضح طور پر سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح امتوں اور ملتوں نے اپنے فرمانرواؤں او رحکام کے مقابلہ میں مسلمانوں کا استقبال کیا ہے اور ان کا تعاون کیا ہے ؟
ان ہی دلائل اور تاریخ کے معتبر نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور دوسری ملتوں کے درمیان قطعاً کوئی جنگ واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ مسلمانوں کی جنگیں اےسے حکام اور فرمانرواؤں کے خلاف واقع ہوئی ہیں جو ملتوں اور لوگوں پر مسلط تھے اور زبردستی ان پر حکو مت کرتے تھے مسلمان جب اس قسم کی مطلق العنان اور جابر حکومتوں کے خلاف جنگ کرتے تھے تو لوگ مسلمانوں کی مدد کرتے تھے اور ان کی فتحیابی پر استقبال کرتے اور مسلمانوں کی حکومت کو ان جابر اور ظالم حکمرانوں کی حکومت پر ترجیح دیتے تھے ۔
یہ تھا مسلمانوں کی جنگوں کا قیافہ جو تاریخ کے صحیح نصوص اور روایتوں کی تحقیق کے بعد حاصل ہوتا ہے لیکن افسوس ہے کہ سیف کے بعد اکثر تاریخی منابع و مآخذ نے ان حقائق کو پس پشت ڈال کر سیف کی روایتوں کی طرف رجوع کیا ہے اور سیف کی جھوٹی روایتوں سے استناد کرنے کے نتیجہ میںاسلام کی جنگوںکو خونین اور وحشت ناک دکھایا ہے اور ان پر افسانوی وحشتناک جنگوں کا بھی اضافہ کیا ہے کیونکہ پڑھنے والا سیف کی روایتوں میں یوں پڑھتا ہے کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد مسلمانوںنے بہت سی خونین اور خطر ناک جنگیں لڑی ہیں اور بہت سے انسانو ںکا قتل عام کیا ہے متعدد شہروں کو ویران اور مسمار کیا ہے لیکن یہ سب باتیں ان حقائق کے خلاف ہیں جو تاریخ کے صحیح اور معتبر نصوص سے حاصل ہوتی ہیں ۔
سیف فتح عراق کے بارے میں کہتا ہے : ” جنگ ذات السلاسل “ میں مسلمانوں نے ایرانی سپاہیوں کا قتل عام کیا اور انہیں بالکل ہی نابودکرکے رکھدیا جیسے کہ کوئی جنگ ہی واقع نہ ہوئی ہو۔
سیف نے ” ثنی “ ، ” مذار “ ، ” ولجہ “ ، ” الیس “ اور ” امغیشیا “ نام کی دوسری جنگیں بھی نقل کی ہیں کہ ان میںسے کوئی ایک واقع نہیں ہوئی ہے اصلاً ” امغیشیا “ نام کا کوئی شہر ہی روئے زمین پر وجود نہیں رکھتا تھا جس کے بارے میںسیف نے کہا ہے کہ اسلام کے سپاہیوں کے ہاتھوں ویران ہوا ہے۔ اس طرح سیف کی روایتوں میں ” مقر “ اور ” فم فرات بادقلی “ نام کی جنگوں کا بھی ذکر آیا ہے کہ اصلاً واقع نہیں ہوئی ہیں اس کے علاوہ سیف کی دوسری جنگیں جو اس کی کتاب فتوح میں ایرانیوں کے ساتھ جنگوں کے عنوان سے درج کی گئی ہیں کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ سب سیف نے خود جعل کی ہیں اس سلسلہ میں جو کچھ اس نے کہا ہے جھوٹ اور جعلی تھا ، خاص کر جو اس نے ان جنگوں میں لاکھوں غیر عرب کے قتل عام ہونے کے بارے میںلکھا ہے وہ اس کے جھوٹ اور افتراء کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
ان روایتوں کا نتیجہ
بہر حال سیف کی روایتوں کی اشاعت کا نتیجہ یہ ہو کہ لوگوں میں خاص کر اسلام کے دشمنوں میں یہ مشہور ہوجائے کہ اسلام خونریزی ، نیزہ اور تلوار کے زور پر پھیلا ہے اور یہی سیف کی روایتیں سبب بنی ہیں کہ مستشرقین اور مغربی اسلام شناس اسلام کو تلوار اور زورو زبردستی کا دین بتاتے ہیں، مثال کے طور پر
۱۔ گلدزیہر ۱ صراحت اور قطعی طور پر کہتا ہے :
” ہم اپنے سامنے اسلامی حکومت کے قلمرو میں وسیع نقاط کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ عرب سرزمینوں سے آگے بڑھے ہیں اور یہ سب تلوار اور نیزہ کے زور پر حاصل کئے گئے ہیں “
نیز فرمانرواؤں کے بارے میں کہتا ہے :
” یہ دنیا پرست فرمانروا اپنی پوری ہمت اور توجہ ایسے قوانین کو مستحکم و نافذ کرنے پر متمرکز کرتے تھے کہ حکومت کے اختیارا ت کو تقویت بخشیں اور ان کی
------------
۱۔ گلدزیہر اسرائیلی ہے ۱۸۵۰ ءء میں ” ھنگاریا “ میں پیدا ہواا س نے یورپ کے مشرق شناسی کے معرو ف ترین مدرسوں میں تعلیم حاصل کی ہے اس کے بعد ایک سیاسی ماٴموریت پر شام اور وہاں سے فلسطین اور پھر مصر گیا اور الازہر یونیورسٹی کے اساتذہ سے عربی زبان سیکھی اس کے بعد ان سے پوری آمادگی کے ساتھ مشرق شناسی کی ماٴموریت سنبھال لی اور ۱۹۴۷ ءء میں فوت ہوا اس کے خاندان نے اس کے مرنے کے بعد شہر قدس میں اس کی لائبریری ” کتابخانہ عمومی صہیونی “ کو بیچ ڈالا ۔
کتاب المستشرقون تالیف نجیب طبع دوم طبع دائرة المعارف ۱۹۴۷ ء ھ ص ۱۹۶ پر بھی کہتا ہے ” گلدزیہر اسلام کےساتھ ایک شدید عداوت رکھتا تھا اس کی تالیفات اسلام اور مسلمانوں کےلئے خطرناک و نقصان دہ ہیں ( الفکر الاسلامی ) طبع پنجم ، طبع بیروت ، چاپخانہ دار الفکر ،ص/ ۵۳
حکومت کو جومختلف سرزمینوں میں تلوار اور عرب نسل پرستی کی بنیا دپر برقرار کرچکے تھے کو مضبوط اور پائیدار بنادیں “
۲۔” بلدیدور ورگیل“ نامی ایک اور اسلام شناس اس سلسلہ میں کہتا ہے:
” اسلام تلوار کے زور اور عورتوں کی شرکت سے پھیلا ہے “
۳۔ یہ مطلب یورپیوں میں رواج پیدا کرگیا ہے حتیٰ ان کی ادبیات میںبھی شامل ہوگیا ہے چنانچہ ” جربویل “ ” مصطفی “ نامی ڈرامہ میںا یک مسلمان وزیر کی زبانی جواپنے پادشاہ سے کہتا ہے : ”ہمارے شجاع بہاد رپیغمبر کی مدد ، تلوار اور نیزہ سے کی گئی ہے “
۴۔ ”جون دراید “ اپنے ” دون سباستیان “ نامی ڈرامہ میں یوں کہتا ہے : ” سپاہ اسلام کے ایک کمانڈر نے محمد کی خوشنودی اور تقرب حاصل کرنے کیلئے حکم دیا کہ عیسائیوں کابھیڑ بکریوں کی طرح سر تن سے جدا کرکے ان کے پیغمبر کے پاس ہدیہ کے طور پر بھیج دیں “
”حصا رودس “ نامی ایک اور ڈرامہ میںا یک مسلمان کی زبانی لکھتا ہے :
کیا خوب انجام دیا ہمارے بہادر پیغمبر نے کہ : سستی، تساہلی اور ہزیمت کوحرام اور منع قرار دیا ۔
اور ہمیں حکم دیا کہ تلوار اور نیزے کے ذریعہ اپنی حکومت کو تمام دنیا میں پھیلا دیں ۔
۵۔ فلیپ حِتی ۱اپنی کتاب ” تاریخ العرب “ میںکہتا ہے :
-----------
۱۔ فلیپ حتی عیسائی اور اصل میں لبنانی ہے ،بعد میں امریکاکی نیشنلٹی اختیار کی وہ برنسٹن یونیورسٹی امریکہ میں شرق شناسی تدریس کرتا تھا اور امریکہ کی وزارت خارجہ میں مشرق وسطی کے امور کا غیر رسمی مشاور تھا وہ اسلام و مسلمانوں کا ایک سخت دشمن شمار ہوتا تھا الفکر الاسلامی ص ۵۵۴۔ ۵۵۵
” جہاد جو اسلام کے منصوبوں میں سے ایک ہے وہی کمزور شکست خوردہ ملتوں کی لوٹ مار ، غارت گری اور انھیں بے چارہ اور نابود کرنا ہے کہ ایک قوم اور طاقتور ملت کا ضعیف اور کمزور ملتوں پر تسلط جما کر انھیں مختلف طبقات میں تقسیم کرےںاور ان میں سے ایک گروہ مثل غیر عرب مسلمانوں کو نو آبادیوں میں تبدیل کرکے نچلے طبقہ میں قرار دے کر انھیں اپنا نوکر بنا لیں “ ۱
-----------
۱۔ رسالة الاسلام ۔
سیف کے خرافات پر مشتمل افسانوں پر ایک نظر
سیف کی جعلیات اور الٹ پلٹ کا صرف اسی پر خلاصہ نہیں ہوتا ہے کہ جن کو ہم نے یہاں تک بیان کیا ہے ، بلکہ جس طرح ہم نے کتاب کے دوسرے حصہ میں پڑھا ، سیف نے اپنی روایتوں میں بہت سے افسانوں کی بھی اشاعت کی ہے اور انھیں افسانوں کے ذریعہ خرافات اور جھوٹ جعل کئے ہیں ، جیسے :
- خالد کا زہر کھانے اور اس پر اس کا اثر نہ ہونے کا افسانہ ۔
-مسلمانوں کی تکبیر کی آواز سے حمص کے گھروں کا گرجانے کا افسانہ
- دجال کا شہر کے دروازہ پر لات ماکر شوش کی فتح کا افسانہ
-اسود عنسی کے شیطان اور اس کے معجزات اور غیب گوئی کاافسانہ کہ وہ اسے فرشتہ کہتا تھا
-جواہرات کی ٹوکری اور خلیفہ کے زہد و تقویٰ کا افسانہ
-عمر کی اپنی بیوی سے ایک نامحرم کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کے سلسلہ میں گفتگو کا افسانہ۔
-عمر کا مدینہ سے شہر” فسا “میں موجود اپنے سپاہیوں کو آواز دینے کا افسانہ
-”بکیر“ نامی گھوڑے کی گفتگو کا افسانہ
-عاصم بن عمرو کے ساتھ گائے کی گفتگو کا افسانہ و․․․․
سیف کے تغیرات پر ایک نظر
ہم نے کتاب کے تیسرے حصہ میں بتایا کہ سیف نے تاریخ اسلام کو الٹ پلٹ کرنے اور تاریخی حقائق کو مجہول اور غیر معروف بنانے کی غرض سے بعض حوادث کے پہلوانوں کے ناموں میں گوناگون صورت میں تغیرات ایجاد کئے ہیں معروف اشخاص کے ناموں کو غیر معروف افراد کے ناموں میں تبدیل کیا ہے ، جیسے :
عبد المسیح بن عمرو کے نام کو عمروبن عبدا لمسیح میں ،
معاویہ بن ابی سفیان کے نام کو معاویہ بن رافع میں ،
عمرو بن عاص کے نام کوعمروبن رفاعہ میں اور عبدا لرحمان بن ملجم کے نام کو خالد بن ملجم میں تبدیل کیا ہے ۔
سیف نے بعض اوقات اسی مقصد کے پیش نظر دنیا میں وجود نہ رکھنے والے بعض افراد کو اپنے زور خیال سے خلق کرکے اپنے ان افسانوں میں معروف و مشہور افرادکے ناموں پر نام گزاری کی ہے ، جیسے :
خزیمہ بن ثابت انصاری غیر ذو الشہادتین کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معروف صحابی ” خزیمة بن ثابت “ معروف بہ ذو الشہادتین کے مقابلہ میں خلق کیا ہے ۔
افسانوی، سماک بن خرشہ کو پیغمبر خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے معروف صحابی ”سماک بن خرشہ“ معروف بہ ” ابودجانہ “ کے مقابلہ میںخلق کیا ہے اور جعلی وبرة بن یحنس خزاعی “ کو پیغمبر کے معروف صحابی وبرة بن یحنس کلبی “ کے مقابلہ میں خلق کیا ہے ۔
اس کے علاوہ سیف نے اپنے خیال میں جعلی اسماء کی کثیر تعداد پیش کر دی ہے تا کہ ضرورت پڑنے پر اپنے جعلی افراد اور اماکن کو ان سے نام گزاری کر کے اپنے افسانوں میں انھیں استعمال کرے۔
سیف کے افسانوی افرادو اشخاص کے کئی گروہ ہیں :
۱۔ ان میں سے بعض کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے طور پر پہچنوایا گیا ہے ، جیسے :
اسود بن قطبہ ، اعبد بن فدکی ، حمیضة بن نعمان ، ثمامہ بن اوس بن لام طایی، شخریت طاہر بن ابی ہالہ ، عاصم بن عمرو اسیدی ، عثمان بن ربیعہ ثقفی ، عصمة بن عبد اللہ، قعقعاع بن عمرو بن مالک عمری ، نافع بن اسود تمیمی ، مہلہل بن زید بن لام طایی۔
۲۔ سیف کے بعض جعلی افراد ، صحابی ہونے کے علاوہ راوی بھی معروف ہیں ، جیسے : ظفر بن دہی ، عبید بن صخر بن لوذان انصاری سلمی ، ابوزہراء قشیری ۔
۳۔ سیف کے بعض افسانوی افراد کو صحابی ہونے کے علاوہ شاعر کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے، جیسے : زیاد بن حنظلہ تمیمی ، ضریس قیسی خطیل بن اوس۔
۴۔ سیف نے اپنے جعلی افراد میں سے ایک گروہ کو غیر صحابی راویوں کے طور پر پہچنوایا ہے ، جیسے : بحر فرات عجلی ، حبیب بن ربیعہ اسدی ، حنظلہ بن زیاد بن حنظلہ ، زیاد بن سرجس احمری ، سہل بن یوسف بن سہل بن انصار سلمی ، عبد الرحمان بن سیاہ احمری ، عبد اللہ بن سعید انصاری بن ثابت بن جزع انصاری ، عروة بن عرفجہ دثینی ، عمارة بن فلان اسدی ، غصن بن قاسم کنانی ، محمد بن نویرة بن عبدا للہ ، مستنیر بن یزید ، مقطع بن ھیثم بکایی ، مہلب بن عقبہ ، یزید بن اسید غسانی ۔
۵۔ سیف نے اپنے جعلی حوادث کے افسانوی اشخاص و سورماؤں کے مذکورہ چند گروہوں کے علاوہ ، اس قسم کے افسانوی حوادث کیلئے کئی جگہیں اور اماکن بھی جعل کئے ہیں اور ان کی جعلی نام گزاری کی ہے جبکہ ان ناموں کی جگہیں روئے زمین پر کہیں وجود ہی نہیں رکھتی تھیں اور نہ اس وقت ان کا کہیں وجود ہے ، جیسے:ابرق ربذہ ، اخابث ، اعلاب ، جبروت، حمقتین ، ریاضة الروضات ، ذات الخیم ، شہر طی میں سنح ،صبرات ، ظہور الشحر ، لبان ،مر ، نضدون و ینعب۔
۶۔ سیف نے ان سب کے علاوہ ایرانی فوج کے چندکمانڈر بھی جعل کئے ہیں جیسے:
اندرز غر ، انوشجان ، بہمن داذویہ ، قارن بن قریانس ، قباذ اور اس کے علاوہ بہت سے دوسرے افراد۔
۷۔ سیف نے بعض رومی کمانڈر بھی جعل کئے ہیں، جیسے : ارطبون ، روم کا مکار اور چالاک کمانڈر ۔
تاریخ اسلام میں سیف کے جعلیات اور تغیرات کے یہ چند نمونے تھے اس کے علاوہ تاریخ اسلام میں سیف کا ایک اور جعلی کام ، عبد اللہ بن سبا کا افسانہ خلق کرنا اور اس کی نام گزاری ہے کیونکہ تاریخ عرب میں قحطانیوں میں ایک قبیلہ کا نام ” سبائی “ تھا کہ حقیقت میں وہ یمن میں رہائش پذیر تھے ، ان میں سے ایک شخص کا نام عبدا للہ بن وہب سبائی تھاجو بعد میں خوارج کا سردار بنا اور نہروان کی جنگ میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے جنگ کی اور اسی جنگ میں مارا گیا ۔ سیف نے اس نام سے ایک بڑا افسانہ گڑھ کر اسلام میں ایک مذہبی فرقہ جعل کیا ہے اور ” سبائیین“ کا لفظ اس فرقہ کا نام رکھا ۔
اصل میں یہ ایک قحطانی قبیلہ کا نام تھا اس افسانوی فرقہ کیلئے سیف نے ایک رئیس بھی جعل کیا ہے اور عبدا للہ بن وہب سبائی رئیس خوارج کا نام بدل کر اس فرقہ کے جعلی رئیس کا نام عبداللہ بن سبا رکھا ہے ۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض نیک اور پاک اصحاب کو بھی اس فرقہ سے منسوب کیا ہے۔ سیف نے اپنے اس جعلی افسانہ کے ذریعہ تاریخ کے چہرہ اور راہ کو حقیقت میں بدل کر رکھ دیا ہے۔
چونکہ یہ بحث خود ایک مفصل داستان ہے اور ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے ، لہذا ہم اس موضع کو اس کتاب کی اگلی جلد کیلئے مخصوص رکھتے ہیں اور ا س سے دلچسپی رکھنے والوں سے گزارش ہے کہ اس موضوع کی طرف رجوع کریں ۔ اس کے ساتھ ہی ہم یہاں پر سیف کی جنگوں ، فتوحات ، خرافات اور تحریفات کے موضوع کو ختم کرتے ہیں ۔
مرتضی عسکری
شب سہ شنبہ ۲۱ جمادی الثانی ۱۳۸۴ ھ ق
داستان کندہ کے مآخذ
۱۔ فتوح اعثم : ۱/ ۵۶۔ ۸۷
۲۔ فتوح بلاذری : ۱۲۰۔ ۱۲۴، خاندان بنی ولیقہ اور اشعث کے ارتداد کی فصل میں ۔
۳۔ معجم البلدان : مادہٴ نجیر : / ۷۶۲ ۔ ۷۶۴ ، مادہٴ حضرموت میں : ۲/ ۲۸۴۔ ۲۸۷
گراں قیمت اموال لینے کی ممانعت کے بارے میں حدیث:
۱۔ صحیح بخاری : فصل صدقات میں : ۱/ ۱۸۱ ،
۲۔ صحیح بخاری : حکم اموال گراں قیمت : ۱/ ۱۷۶
۳۔ فتح الباری : ۴/ ۶۵ ۔۹۹
۴۔ مسند احمد : ۱/ ۲۳۳
۵۔ سنن پنجگانہ ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی اور موطاٴ مالک احکام زکوٰة میں ۔
۶۔ طبقات ابن سعد : ج ۴/ ق ۲/ ۷۶
۷۔ کنز العمال : حدیث ۱۱۹۴ احادیث زکوٰة سے ۔
۸۔ قصہٴ مالک بن نویرہ فتوح اعثم میں : ۱/ ۲۰/ ۲۳
۹۔ حمص کے لوگوں کا مسلمانوں کی مدد کرنا : فتح بلاذری : حدیث ۳۶۷ فصل فتح حمص / ۱۶۲
۱۰۔ عراق کے دیہاتیوں کا مسلمانوں کی مدد کرنا : معجم البلدان : ۴/ ۳۲۳ مادہ کوفہ
۱۱۔ گلدزیہر کا بیان: العقیدہ و الشریعہ : ۴۳ ۔۔۴۸
|