عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
دوسری جلد
 
جنگ کندہ کی جانچ پڑتال
یہ تھی وہ جنگیں جو قبائل کندہ اور ابوبکر کے سپاہیوں کے درمیان واقع ہوئیں تمام مؤرخین اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ یہ سب جنگیں صرف ایک اونٹ کے سبب واقع ہوئی ہیں اس اونٹ کا مالک اسے بہت چاہتا تھا ۔اور ابو بکر کے نمائندہ زیاد بن لبید سے درخواست کی کہ اس اونٹ کے بدلے میں اس سے دوسرا اونٹ قبو ل کرے ، لیکن زیاد نہیں مانا ۔ اس جوان نے اپنے قبیلہ کے ایک سردار کو واسطہ قرار دیا ، پھر بھی زیاد نے قبول نہیں کیا یہاں تک یہ معمولی روداد ایک بڑی ، خونین ،اور تباہ کن جنگ میںتبدیل ہوئی ۔
لیکن اکثر مورخین نے اس روداد کی تفصیلات اور جزئیات لکھنے سے اجتناب کیا ہے تا کہ یہ امر بزرگ اصحاب پر تنقید اور اعتراض کا سبب نہ بنے صرف اعثم کوفی نے کسی حد تک اس کے جزئیات کی طرف اشارہ کیاہے کہ ہم نے اس سے نقل کیا ۔
تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ مؤرخین نے ” زیاد بن لبید “ کی ظالمانہ روش (جو اس جنگ میں واضح ہے ) اور اس کے فضائل میں شمار کیا ہے اور اس کی تجلیل کی ہے کہ وہ ایک قوی اور پختہ ارادے کا مرد اور زکوٰة حاصل کرنے میں بہت سخت تھا جبکہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اس قسم کی سختی کرنے کی ممانعت فرمائی ہے اور اس سلسلے میں اپنے والی اور حکام کو نرمی سے پیش آنے کی سفارش فرماتے رہے ہیں ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب ” معاذ بن جبل “ کو یمن کیلئے مامور کیا تو اپنے فرمان کے ضمن میں یوں فرمایا:
” معاذ ! تم ان لوگوں کی طرف جارہے ہو جو اہل کتاب (یہود و نصاریٰ)ہیں خدا اور اس کے دین کا انکار نہیں کرتے ہیں تم مصمم اردہ سے خدا کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کے بارے میں دعوت دینا اگر انہوں نے تیری دعوت کو قبول کی تو ان سے کہنا کہ خداوند عالم نے تم لوگوں پر روزانہ پانچ وقت کی نماز فرض اور واجب کی ہے ۔ اگر انہوں نے نماز کو بھی قبول کیا تو اسکے بعد کہنا کہ خداوند عالم نے زکوٰة بھی تم لوگوں پر واجب کی ہے کہ جو دولتمندوں سے حاصل کی جاتی ہے اور فقراء و حاجتمندوں کو دی جاتی ہے اگر اس حکم کو بھی قبول کر لیں تو ان سے بہترین اموال لینے سے پرہیز کرنا ”فایاک و کرائم اموالھم“ اور مظلوموں کی نفرین سے ڈرنا کیونکہ خداوند عالم مظلوموں کی نفرین کو جلدی قبول کرتا ہے ”اتق دعوة المظلوم“
یہ حدیث صحیح بخاری ، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ، مالک اور ابن حنبل جیسے مآخذ میں درج ہے ۔
ابن حجر فتح الباری میں جملہٴ فایاک وکرائم اموالھم کی تشریح میں کہتا ہے کرائم ، کریمہ کی جمع ہے کریمہ ہر نفیس اور پسندیدہ چیز کو کہتے ہیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس حکم میںلوگوں سے ایسی چیزیں لینے سے منع فرمایا ہے جو مالک کی پسندیدہ اور قابل توجہ ہوں ۔ اس حکم کا راز یہ ہے زکوٰة غمخواری اور اقتصادی زخموں پر مرہم پٹی لگانے کیلئے ہے اور یہ کام مال داروں کے ساتھ ظلم وستم اور ناانصافی کرنے اور ان کے جذبات مجروح کرنے سے انجام نہیں پاسکتا ۔
اور جملہٴ ” اتق دعوة المظلوم “ کی تشریح میں کہتا ہے : پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس جملہ کے ذریعہ فرماتے ہیں : کسی پر ظلم و ستم کرنے سے ڈرنا ، ایسا نہ ہو کہ کوئی مظلوم تجھے نفرین کرے۔ اس کے بعد کہتا ہے : پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو یہ جملہ لوگوں سے گراں قیمت اور ان کے پسندید اموال لینے کے ضمن میں فرمایا ہے ، اس کا سبب یہ ہے کہ وہ فرمانا چاہتے ہیں: لوگوں سے ان کے پسندیدہ اموال لینا ان پر ظلم ہے اس لئے اس سے قطعاً پرہیز کرنا چاہئے ۔
یہ تھا زکوٰة کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حکم کہ اسے کس طرح حاصل کرناچاہئے ا ور کن کے درمیان تقسیم کرناچاہئے خلیفہ کے گماشتوں کا عمل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس حکم کے بالکل بر عکس تھا کیونکہ وہ ان قبائل کے مال کو زکوٰة کیلئے وصول کرتے تھے نہ اس لئے کہ اسے حاجتمندوں اور فقراء میں تقسیم کریں ، بلکہ اس لئے وصول کرتے تھے کہ اسے خلیفہ کے پاس بھیج دیں،انہوں نے اپنے اس عمل سے پیغمبر اسلام کے فرمائشات کی مخالفت کی ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کی ہے مظلوموں اور بے سہاروں کی نفرین کی پرو انہیںکی لوگوں کے من پسندی اموال کوا ن سے زبردستی لیتے تھے اونٹ کے ایک بچہ کیلئے ایک بڑی اور خونین جنگ لڑکر زمانہ جاہلیت کی جنگ ” بسوس “ کو بری الذمہ کردیا ہے ۔
لیکن ان سب چیزوں سے بالاتر ، خدا اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں پر کفر و ارتداد کا الزام لگایا کہ مورخین بھی آج تک اس بڑی اور ناقابل عفو افتراء پردازی کے جرم میں ان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ۔

مالک بن نویرہ کی جنگ
مالک بن نویرہ کی ایک اور جنگ ہے جس سے عرب قبائل کا ابوبکر کی حکومت کے ساتھ اختلاف کا سبب معلوم ہوتا ہے اور واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کا اعتراض اس وقت کے طرز حکو مت پر تھا نہ یہ کہ وہ اسلام سے منحرف ہوکر مرتد ہوئے تھے ۔
اعثم کوفی نے ” مالک بن نویرہ کی جنگ “ کی یوں تشریح کی ہے :
خالد بن ولید نے عرب قبائل کو کچلنے کیلئے ایک بڑے لشکر کو جمع کیا اور سرزمین بنی تمیم کی طرف آگے بڑھا اور وہاں پر اپنا کیمپ لگادیا ۔ وہیں پر اپنی فوج کو کئی حصوں میںتقسیم کیا اور ہر حصہ کو ایک طرف روانہ کر دیا ان میں سے ایک گروہ کو مالک بن نویرہ کی طرف روانہ کیا اس وقت مالک بن نویرہ اپنی بیوی اور چند رشتہ داروں کے ہمراہ ایک باغ میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ انھوں نے اچانک خود کو اور اپنے افراد کو کچھ سواروں کے درمیان پایا کہ انہوںنے ہر طرف سے انہیں گھیر لیا تھا ۔ اس طرح خالد کے سپاہیوں نے مالک کے ساتھیوں کا محاصرہ کیا اور اسے اس کی خوبصورت بیوی کے ساتھ قیدی بنالیا نیز ان کے علاوہ ان کے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں کو بھی اسیر بنایا ، اسکے بعد انھیں خالد کے پاس لے آئے اور ان سب کو اس کے سامنے کھڑا کردیا ۔
ٍخالد نے بغیر کسی سوال و پوچھ تاچھ ، تحقیق اور جواب گوئی کے حکم دیا کہ مالک کے تمام اعزہ واقارب کو قتل کردیا جائے انہوں نے فریاد بلند کی کہ ہم مسلمان ہیں ،کیوں ہمارے قتل کا حکم جاری کرتے ہو اور کس کی اجازت سے ہمیں قتل کرتے ہو؟
خالد نے کہا: خدا کی قسم میں تم سب کو قتل کرڈالوں گا ۔
ان میں سے ایک بوڑھے نے کہا: کیا ابوبکر نے تمہیں رو بہ قبلہ نماز پڑھنے والوں کو قتل کرنے سے منع نہیں کیا ہے ؟
خالد نے کہا؛ جی ہاں ابوبکر نے ہمیں ا یسے افراد کو قتل کرنے سے منع کیا ہے لیکن تم لوگوں نے کبھی نماز نہیں پڑھی ہے ۔
اعثم کہتا ہے : اسی اثناء میں ابو قتادہ اپنی جگہ سے اٹھا اور خالد سے مخاطب ہوکر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تمہیں ان لوگوں پر تجاوز کرنے کا حق نہیں ہے ۔
خالد نے کہا: کیوں ؟
ابوقتادہ نے کہا؛ کیونکہ میں نے خود اس واقعہ کامشاہدہ کیا ہے کہ جب ہمارے سپاہیوں نے ان پر حملہ کیا اور ان کی نظر ہمارے فوجیوں پر پڑی انہوں نے سوال کیا کہ تم کون ہو؟ ہم نے جواب میں کہا کہ ہم مسلمان ہیں ، اس کے بعد انہوں نے کہا: ہم بھی مسلمان ہیں اس کے بعد ہم نے اذان کہی اور نماز پڑھی انہوں نے بھی ہماری صف میں کھڑے ہوکر ہمارے ساتھ نماز پڑھی ۔
خالد نے کہا؛ ابوقتادہ! صحیح کہتے ہو ، اگر چہ انہوں نے تم لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی ہے لیکن زکوٰة دینے سے انکار کیا ہے لہذا نھیں قتل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔
اعثم کہتا ہے : ایک بوڑھا ان میں سے اٹھا اس نے کچھ باتیں کہیں ، لیکن خالد نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور ان سب کا ایک ایک کرکے سر قلم کر ڈالا۔
اعثم کہتا ہے : ابوقتادہ نے اس دن قسم کھائی کہ اس کے بعد وہ کبھی بھی ایسی جنگ میں شرکت نہیں کرے گا جس کا کمانڈر خالد ہوگا۔
اعثم اپنی بات کو یہاں جاری رکھتا ہے کہ : خالد نے مالک بن نویرہ کے افراد کو قتل کرنے کے بعد اسے اپنے پاس بلایا اور اس کے قتل کا بھی حکم جاری کیا ۔ مالک نے کہا؛ کیا مجھے قتل کرو گے جبکہ میں ایک مسلمان ہوں اور رو بہ قبلہ نماز پڑھتا ہوں ؟
خالد نے کہا: اگر تم مسلمان ہوتے تو زکوٰة دینے سے انکار نہیں کرتے ، اور اپنے رشتہ داروں اور قبیلہ کے لوگوں کو بھی زکوٰة نہ دینے پر مجبور کرتے خدا کی قسم تم پھر سے اپنے قبیلہ میں جانے کا حق نہیں رکھتے ہو اپنے وطن کا پانی نہیں پیو گے اور میں تمہیں قتل کرڈالوں گا ۔
اعثم کہتا ہے : اسی اثناء میں مالک بن نویرہ نے اپنی بیوی پر ایک نظر ڈالی اور کہا: خالد ! کیا اس عورت کیلئے مجھے قتل کرتے ہو؟
خالد نے کہا: میں تجھے خدا کے حکم سے قتل کرتا ہوں کیونکہ تم اسلام سے منحرف ہوئے ہو اور زکوٰة کے اونٹوں کو رم کر چکے ہو اور اپنے رشتہ داروں اور اعزہ کوزکوٰة دینے سے روکا ہے ۔
خالد نے یہ کہتے ہوئے مالک کے سر کو تن سے جدا کیا مورخین کہتے ہیں کہ خالد بن ولید نے مالک کو قتل کرنے کے بعد اس کی بیوی سے شادی کی اورا س کے ساتھ ہمبستری کی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے تمام علمائے تاریخ کا اتفاق ہے ۔

ان جنگوں کا اصل محرک
جو کچھ ہم نے بیان کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ابو بکر کے سپاہیوں نے بعض ایسے مسلما نوں سے جنگ کی ہے جنھوں نے نہ تلوار اٹھا ئی تھی اور نہ دوسرے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تھی، بلکہ بار ہااپنے اسلام کا اعلان کیا تھا اور مسلمانوں کے ساتھ ایک ہی صف میں نمازبھی پڑھی تھی ۔
جی ہاں ِ، ابو بکر کے سپاہیوں نے ایسے ہی افراد کے ساتھ جنگ کی ہے، انھیں اسیر بنایا ،زکوٰة اداکر نے کے الزام میں انکا سر قلم کیا ہے ، کم ازکم ان سے زکوٰة کا مطالبہ کرتے تا کہ دیکھتے کہ کیا وہ زکوٰة ادا کر نے سے منکر بھی ہیں یا نہیں ۔
حقیقت میں ان جنگوں کے واقع ہو نے میں کچھ اور ہی اسباب اور علل ہیں ا وردوسرے اغراض اور مقاصد ہیں نہ انکا ار تداد سے کو ئی ربط ہے اور نہزکوٰة ادانہ کر نے سے کوئی تعلق ہے ۔ چنانچہ مالک بن نویرہ خالد بن و لید کو صراحتا الزام لگاتے ہےں کہ وہ ان کی بیوی کے لئے اسے قتل کر رہا ہے اور خالدکا اس کے بعد والا طرز عمل بھی مالک کی بات کی تائید و تصد یق کرتا ہے۔
کیا اس قسم کی جنگوں کو اسلام کے کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے اور انھیںمرتدافراد اور اسلام کے دشمنوں سے جنگ کہا جاسکتا ہے ؟ کیا یہ جنگیں حقیقت میں مالک کی بیوی یا تیز رفتار اونٹ کیلئے نہیں تھیں ؟ ․․․ اور یا ان کے ابو بکر کی بیعت کرنے میں تاٴمل اور ان کی حکومت کو زکوٰة اداکرنے سے اجتناب کی وجہ سے واقع ہوئی ہیں ؟
جو بات یقینی اور مسلم ہے وہ یہ ہے کہ ان جنگوں میں اسلامی مقاصد نہیں تھے اور یہ اسلام کیلئے انجام نہیں پائی ہیں ہم یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ اس کے باوجود کیسے ان جنگوں کو مرتدلوگوں سے جنگوں کا نام دیا گیا ہے ! اور اصحاب کے زمانے سے آج تک اسی جعلی نام سے مشہور و معروف ہیں ۔ یہ سب غیر حقیقی بیانات ، بے بنیاد اور خطرناک نام گزار یاں اور اسی قسم کی دسیوں منحوس اور تاریک تحریفات سیف کے توسط سے تاریخ اسلام میں وجود میں آئی ہیں ۔