عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
دوسری جلد
 
خاتمہ:

گزشتہ مباحث پر ایک نظر
* -مرتدین کی جنگوں پر ایک نظر
* -مرتدین کی جنگوں کی جانچ پڑتال
* -کندہ کی جنگ
* -جنگ کندہ کی تحقیق
* -مالک بن نویرہ کی جنگ
* -ان جنگوں کا حقیقی محرک
* -سیف کی فتوحات پر ایک نظر

مرتدین کی جنگوں پر ایک نظر
یہاں تک ہم نے سیف کی روایتوں کے بارے میں بحث و تحقیق کی اور جو کچھ اس سلسلہ میں گزشتہ بحثوں کے ضمن میں بیان ہوا ، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
سیف نے مرتدین کی جنگوں اور بیہودہ اور بے بنیاد فتوحات کے بارے میں داستانیں جعل کرکے اسلام کو ” تلوار اور خون کادین “ معرفی کیا ہے اور دوست و دشمن کو یہ دکھایا ہے کہ اسلام صرف شمشیر و نیزہ سے پھیل کر ادیان عالم میں اپنے لئے ایک جگہ بناسکا ہے ۔
ہم نے کتاب کی پہلی بحث میں کہا کہ سیف نے اسلام کو ” تلوار اور خون کا دین “ کے عنوان سے پہچنوانے کیلئے اپنے خیال میں مسلمانوںکیلئے بہت سی جنگیں جعل کی ہیں اور انھیں مرتدوں کی جنگوں کا نام دیا ہے ۔
سیف نے مرتدوں کی جنگوں کے باے میں جعل کی گئی روایتوں کے ضمن میں خلاصہ کے طور پر کہا ہے :
قبیلہٴ قریش اور ثقیف کے علاوہ تمام عرب قبائل یکبارگی اسلام سے منحرف ہو کر کفر و ارتداد کی طر ف مائل ہوگئے اور اسلام سرزمینوں میں فتنہ کی آگ بھڑک اٹھی اسکے بعد سیف مرتد قبائل کے سرزمین ابرق ربذہ پر ان کے اجتماع کی روداد اور ابوبکر کے پاس ان کے چند نمائندے بھیجنے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : مرتد قبائل نے اپنے نمائندوں کے توسط سے ابوبکر سے درخواست کی کہ وہ نماز پڑھ لیں گے لیکن انھیں زکوٰة ادا کرنے سے مستثنی قرار دیا جائے ابوبکر نے ان کی تجویز کو مسترد کیا اور مدینہ کے لوگوں کو ان قبائل سے لڑنے کیلئے آمادہ کیا ۔ اس کے بعد ان قبائل نے مدینہ پر حملہ کیا ، خلیفہ کے سپاہیوں نے ان کا جواب دیا اور ان کے خیموں تک انھیں پیچھے ڈھکیل کیا ۔ اس طرح مرتدوں سے جنگوں کا آغاز ہوا ۔ ابوبکر نے ان کو کچلنے کیلئے تین بار لشکر کشی کی اور مدینہ سے ان کی طرف روانہ ہوا اسکے بعد سیف ان جنگوں کی کیفیت ، مرتدوں کے قتل ہونے ، خلیفہ کا ان کی زمینوں پر قبضہ جمانے ، سرزمین ابر ق کی چراگاہوں کے مسلمانوں کے گھوڑوں کیلئے وقف کرنے اور اس کے علاوہ ان افسانوی جنگوں میں رونما ہوئے حوادث کے جزئیات کی مفصل تشریح کرتا ہے لیکن لب لباب یہ ہے کہ اس پوری تشریح و تفصیل کے باوجود ان تما م رودادوں کو نقل کرنے میں سیف منفرد ہے نہ کسی دوسرے مؤرخ نے ان مطالب کو نقل کیا ہے اور نہ ان مطالب میں سے کوئی ایک صحیح و درست ہے ۔
سیف ابوبکر کیلئے چوتھی روانگی بھی نقل کرتا ہے کہ ابوبکر مدینہ سے ” ذی القصہ “ کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پر اپنی فوج کو آراستہ کیا اور انھیں گیارہ لشکروں میں تقسیم کیا اور ہر لشکر کیلئے ایک کمانڈر مقرر کیا اور ہر کمانڈر کے ہاتھ میں ایک پرچم دیا تا کہ مرتدوں کے گروہوں سے لڑیں اور وہیں پر ان کمانڈروں کیلئے جنگی منشور اور مرتد قبائل کیلئے خطوط لکھے
سیف نے جو یہ روانگی ابوبکر سے منسوب کی ہے اور اس سفر میں جو روداد اس کیلئے نقل کی ہیں وہ بھی صحیح نہیں ہیں اور اس سلسلہ میں جو بھی نقل کیاہے خالد کی روانگی کے علاوہ سب اس کے ذہنی جعلیات ہیں جنہیں اس نے مورخین کی خدمت میں پیش کیا ہے اور انہوں نے بھی انھیں مسلمانوں تک پہنچایا ہے ۔
سیف نے ”ام زمل “ نام کی ایک اور ارتداد کی داستان نقل کی ہے اور اس کے بعد اسی عنوان سے ایک جنگ بھی جعل کیاہے اس جنگ میں بھی عجیب و غریب اور وحشتناک قتل عام حوادث اور بے مثال تباہی دکھائی ہے جب کہ نہ کوئی ” ام زمل “ وجود حقیقی رکھتی تھی کہ مرتدہوتی اور اس قسم کی جنگ واقع ہوتی اور یہ سب قتل و غارت اور تباہیاں واقع ہوتیں ۔
سیف نے ارتداد ” اخابث“ کے نام سے سرزمین ” اعلاب “ میں ایک اور ارتداد کے بارے میں نقل کیا ہے اور کہتا ہے: طاہر نام کا ایک کمانڈر -- جو خدیجہ کا بیٹا اور پیغمبر کاربیب تھا --- مرتدوں سے لڑنے کیلے ” اخابث“ کی طرف روانہ ہوا ۔ وہاں پر ان کا اتنا قتل عام کیا کہ ان کے زمین پر پڑے لاشوں میں بدبو پھیلنے کی وجہ سے چلتے ہوئے قافلے رک گئے ۔
جبکہ نہ ” اعلاب “ کے نام پر کوئی سرزمین وجود رکھتی تھی اور نہ اخابث کے نام پر وہاں کے باشندے اور نہ ہی طاہر نامی کوئی صحابی تھا جسے پیغمبر اکرم نے پالا ہو ، جو اخابث کے افسانوی لشکر کا کمانڈر بنتا ۔
جی ہاں ، ان حوادث ، رودادوں اور دیگر بہت سے حوا دث کی کوئی حقیقت نہیں ہے جنہیں سیف نے مرتدوں کی جنگوںکے بارے میں نقل کیا ہے ۔ یہ سب داستانیں بے بنیاد اور جعلی ہیں اور جھوٹ اور افسانہ سے زیادہ کچھ نہیں ۔
لیکن اس کے باوجود سیف اپنی خاص مہارت او ر تخصص کی بنا پر حدیث اور تاریخ کو جعل کرکے پیغمبر کے بعد مسلمانوں کے مرتد ہونے کے بارے میں اپنے جھوٹ اور جعلیات کی اشاعت کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور ایسا ظاہر کیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد جزیرة العرب کے تمام مسلمان اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہوگئے اور انہوں نے طاقت اور تلوار کے ذریعہ دوبارہ اسلام قبول کیا بجا ہے اس بحث کے اختتام پر تاریخ اسلام کے اس حصہ کو بیشتر واضح ہونے کیلئے مرتدوں سے جنگ کے نام پر جعل کی گئی سیف کی جنگوں کے بارے میں ایک مختصر تحقیق کی جائے :
۱۔ ان جنگوں کا ایک حصہ کہ بیشتر مرتدوں کی جنگوں کے افسانوں اور داستانوں پر مشتمل ہے ایسی جنگیں ہیں جنہیں حقیقت میں سیف نے اپنی ذہنی طاقت سے جعل کیا ہے اور ان جنگوں کی سورماؤں ، کمانڈروں اور جنگجوؤں کو بھی خود سیف نے خلق کیا ہے اس کے علاوہ اس نے اماکن اور جنگیں واقع ہونے کے مقامات کو بھی جعل کرکے مور خین کے اختیار میں دیدیا ہے ، جبکہ نہ ان جنگوں کو کوئی بنیاد ہے اور نہ ان کے دیگر کوائف کی کوئی حقیقت ہے اور نہ ان جنگوں میں ذکر ہوئے اکثر سورما اور کمانڈروں کا کوئی وجود تھا ۔ حقیقت میں اس قسم کی جنگیں اسلام میں بالکل وجود میں ہی نہیں آئی ہیں۔
۲۔ سیف نے جن جنگوں کو مرتدین کی جنگوں کے نام سے بیان کیا ہے ان کا ایک حصہ وہ جنگیں ہیں جو مسلمان اور کفار کے درمیان خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں واقع ہوئی ہیں ، یہ جنگیں مرتدوں سے نہیں تھیں جیسے ” مسیلمہ “ اور ” طلیحہ “ سے مسلمانوں کی جنگ کہ ان دونوں نے خود پیغمبر کے زمانے میں جھوٹی پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا اور کچھ لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا تھا کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد مسلمانوں نے ان سے جنگ کی اور انھیں شکست دی ہے۔
اگر چہ یہ جنگیں واقعیت رکھتی ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم ان افراد کو مرتد کہیں اور ان کے ساتھ جنگ کو مرتدوں کی جنگ کہیں ، بلکہ مسلمانوںکی، اس گروہ کے ساتھ جنگ ، کفار کے ساتھ جنگ تھی ، نہ مرتدوں کے ساتھ۔
۳۔ ان جنگوں کی تیسری قسم جن کے بارے میں سیف نے مرتدوں کی جنگ کہا ہے وہ جنگیں ہیں جو خود مسلمانوں کے درمیان واقع ہوئی ہیں اور یہ داخلی جنگوں کا ایک سلسلہ تھا نہ مسلمانوں کی مرتدوں سے جنگ یہ جنگیں اس صورت میں تھیں کہ عرب مسلمانوں کے بعض قبائل نے ابوبکر کی بیعت کرنے اور اپنے مال کی زکوٰة دینے سے انکار کیا ان کے علاوہ ایک اور گروہ بھی ابوبکر کے مامور حکام اور گورنروں کی بدرفتاری اور بے جا سختی کی وجہ سے زکوٰة دینے سے انکار کر تا تھا ابو بکر بھی اس قسم کے ہر گروہ کی طرف ایک لشکر کو روانہ کرتے تھے اور انھیں حکومت کے احکام پر عمل کرنے کیلئے مجبورکرتے تھے یہ جنگیں ، ابوبکر کے فرمانرواؤن اور قبائل کندہ کے درمیان واقع ہوئی جنگ کے مانند تھی یہ جنگ ایک جوان اونٹ کے سلسلے میں واقع ہوئی ہے کہ اعثم کوفی ، بلاذری اور حموی نے اس کی روداد کو مفصل طور پر ذکر کیا ہے ۔

کندہ کی جنگ
حموی معجم البلدان میں مادہٴ ” حضرموت “ میں کہتا ہے :
جب مدینہ کے باشندوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ابوبکر کی بیعت کی ابوبکر نے پیغمبر کے مامور ” کندہ “ و ”حضرموت“ کے حاکم ” زیادہ بن لبید بیاضی “ ۱کے نام خط لکھا اور اسے پیغمبر کی رحلت اور مدینہ کے لوگوں کی طرف سے پیغمبر کے بعد اس کی بیعت کرنے کی اطلاع دی اور اس کے ضمن میں اسے حکم دیا کہ حضر موت کے باشندوں سے اس کیلئے بیعت لے لے۔
یہ خط جب ” زیاد بن لبید “کو پہنچا تو وہ لوگوں کے درمیان کھڑا ہوا اور ایک تقریرکی اور انھیں پیغمبر کی وفات کے بارے میں آگاہ کیا اور ابوبکر کی بیعت کرنے کی دعوت دی ۔ اشعث بن قیس نے ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کیا ، اور قبیلہٴ کندہ کے بعض افراد نے اشعث کی پیروی میں ابوبکر کی بیعت کرنے سے اجتناب کیا ، لیکن اسی قبیلہ کندہ کے بہت سے افراد نے ابوبکر کے نمائندہ کی حیثیت سے ” زیا د بن لبید “ کی بیعت کی زیاد اپنے گھر چلا گیا عصر پیغمبر کے مانند صبح سویرے زکوٰة دریافت کرنے کیلئے آمادہ ہوگیا۔
ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ : ابوبکر نے زیاد بن لبید اور ابو امیہ مخزومی کے مہاجرین کو لکھا
-----------
۱۔ زیاد بن لبید کا لقب وکنیت ابو عبد اللہ بن لبید بن سنان تھا وہ قبیلہٴ خزرج کے گروہ انصار اور خاندان بیاضی سے ہے پیغمبر نے اپنی زندگی میں حضرموت کی حکومت اسے سونپی تھی ، پیغمبر کی رحلت کے بعد ابوبکر نے اسے خط لکھا اور اسے اپنے عہدہ پر برقرار رکھا وہ معاویہ کی خلافت کے دوران فوت ہوا اسد الغابہ : ۲/ ۲۱۷ ، جمہرہٴ ابن حزم : ۳۵۶

کہ دو شخص متفقہ طورپر لوگوں سے اس کیلئے بیعت لے لیں اور جو بھی ابوبکر کی بیعت کرنے یا زکوٰة دینے سے انکار کرے ، اس کے ساتھ جنگ کریں ۔
اعثم اپنی فتوح میں کہتا ہے : بعض لوگ رضا و رغبت کے ساتھ اور بعض جبر و اکراہ سے زیا دکو زکوٰة دیتے تھے زیاد بن لبید بھی زکوٰة وصول کرنے میں مصروف تھا اور لوگوں پر سختی کررہا تھا اتفاقاً ایک دن زید بن معاویہ قشیری سے زکات میں حاصل کئے گئے ایک اونٹ پر زکوٰة کی علامت لگا دی اور دیگر اونٹوں کے گلہ میں جنھیں ہنکا دیا ،ابوبکر کے پاس بھیجنا تھا ۔
یہ جوان قبیلہ کندہ کے حارثہ بن سراقہ نام کے ایک سردار کے پاس آیا اور کہا: چچیرے بھائی ، زیاد بن لبید نے میرا ایک اونٹ لے لیا اور اس پر علامت لگا کر زکوٰة میں لئے گئے اونٹوں میں چھوڑ دیا ہے۔اور میں زکوٰة دینے سے منکر ہوں لیکن اس اونٹ کو بہت پسند کرتا ہوں اگر مصلحت جانتے ہو تو اس بارے میںزیاد سے گفتگو کرو تا کہ اس اونٹ کو مجھے واپس دیدے اور میں اس کے بدلے میں دوسرا اونٹ دیدوں گا۔
اعثم کہتا ہے : حارثہ بن سراقہ زیاد کے پاس گیا اور کہا: اگر ممکن ہے تو اس جوان پر ایک احسان کرو اور اس کا اونٹ واپس کردو اور اس کے بدلے میں دوسرا اونٹ لے لینا ۔
زیاد نے حارثہ کے جواب میں کہا : یہ اونٹ خداکے حق میں قرار پایا ہے اور اس پر زکوٰة کی علامت لگی ہے اور میں پسند نہیں کرتا ہوں کہ اس کے بدلے میں دوسرا اونٹ قبول کروں ۔
بلاذری نے اس داستان کو اس طرح بیان کیا ہے : زیاد بن لبید ایک شدت پسند شخص تھا اس نے ایک کندی سے ایک اونٹ زکوٰة کے طور پر حاصل کیا اس نے کہا کہ اس اونٹ کو مجھے واپس دینا اور اس کی جگہ پر میں دوسرا اونٹ دیدوں گا ابوامیہ نے اس سلسلہ میں انکساری کی لیکن زیاد نے ممانعت اور سختی کی ۔
اعثم اس داستان کو یوں جاری رکھتا ہے ۱حارث نے جب اس جوان کی تجویز زیاد کے پاس پہنچائی تو اس نے نہ یہ کہ اس سے منفی جواب سنا بلکہ وہ اس کی تندی اور سخت رویہ کا مشاہدہ کرنے پر بھی مجبور ہوا حتیٰ کہ تنگ آکر غضبناک حالت میں بولا : ہم کہتے ہیں کہ اس اونٹ کو مہربانی و بزرگواری سے چھوڑ دو ،ورنہ ذلیل و خوار ہوکے تو ضرور چھوڑ دو گے زیاد بھی حارثہ کی بات سے غضبناک ہواا ور کہا : میں اس اونٹ کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا اور دیکھوں گا کون اسے میرے ہاتھ سے لینے کی جرات کرتا ہے۔
اعثم کہتا ہے : حارثہ نے اس کی یہ بات سن کر ایک مضحکہ خیز مسکراہٹ کے ساتھ اس مضمون کے چند اشعار پڑھے :
ایک بوڑھا تجھ سے اونٹ کا بچہ لینا چاہتا ہے کہ اس کی پیری کے آثار اس کے رخسار سے واضح ہیں ایک ایسا بوڑھا مرد جس کی داڑھی سفید کرتے کے مانند سفید ہوچکی ہے۲
-----------
۱۔ اعثم کی روایت کی گئی اس داستان کو تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ الکلاعی نے کتا ب الاکتفاء میں درج کیا ہے
۲۔ یمنھا شیخ بخدیہ الشیب
ملمح کما یلمح الثوب

اعثم کہتا ہے : اس کے بعد حارثہ ان اونٹوں کے درمیان آگیا اور اس اونٹ کو ان میں سے جدا کر کے نکال لایا اور اس کی لگام اس کے مالک کے ہاتھ میںدیدی اور کہا: اپنے اونٹ کو لے چلو اگر اس اونٹ کے بارے میں کسی نے تجھ سے کچھ کہا تو تلوار سے اس کی ناک کاٹ کر رکھ دینا اور اس جملہ کا بھی اضافہ کیا :
”ہم نے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی کہ جب وہ زندہ تھے ، پیروی و اطاعت کی ہے ان کی رحلت کے بعد اگر ان کے خاندان کا کوئی فرد جانشین ہوتا تو پھر بھی ہم اس کی اطاعت کرتے لیکن پسر ابو قحافہ ! خدا کی قسم نہ اس کی اطاعت ہم پر واجب ہے اور نہ ہمارے اوپر کوئی بیعت ہے ۔
حارثہ نے یہاں پر بھی چند اشعار اس مضمون کے پڑھے :
جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے درمیان تھے ، ہم نے ان کی اطاعت کی لیکن تعجب ان لوگوں پر ہے کہ جو ابوبکر کی بیعت کرتے ہیں ۱
معجم البلدان کے قول کے مطابق اس بارے میں حارثہ کے اشعار اس مضمون کے تھے :
ہم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس وقت پیروی کی جب وہ ہمارے درمیان موجود تھے اے قوم !ہمیں ابوبکر سے کیا کام ؟!
کیا ابوبکر اپنے بعد خلافت کو اپنے بیٹے بکر کی وراثت میںچھوڑے گا ؟ خدا کی
-----------
۱۔اطعنا رسول اللہ اذکان بیننا
فیا عجبا ممن یطیع ابابکر

قسم ابوبکر کا یہ کام کمرشکن ہوگا ۱
اعثم کہتا ہے :
جب یہ اشعار زیاد بن لبید نے سنے تو وہ وحشت میں پڑا کہ ایسا نہ ہو کہ زکوٰة میں لئے گئے تمام اونٹ اس سے واپس لے لئے جائیں لہذا راتوں رات بعض دوستوں کے ہمراہ حضرموت سے مدینہ کی طرف روانہ ہو گیا اور تمام اونٹوں کو اپنے ساتھ لے گیا جب حضرموت سے دودن کے فاصلہ پر پہنچا تو وہاں سے حارثہ بن سراقہ کے نام ایک خط لکھا اس خط میں چند اشعار بھی تھے ان اشعار میں سے ایک کا مضمون یہ تھا :
ہم راہ خدا میں تمہارے ساتھ لڑیں گے یہاں تک کہ تم ابو بکر کی اطاعت کرو یقین کے ساتھ جان لو کہ خدا کامیاب ہوگا ۲
اعثم کہتا ہے : کندہ کے قبائل زیاد کے خط کے مضمون سے غضبناک ہوئے اور اشعث بن قیس کے پاس شکایت لے کر آئے اشعث نے کہا: اگر تم لوگ زیاد سے اختلاف نظر رکھتے ہو توکیوں اپنے مال کی زکات اسے دیتے ہو وہ اسے لے کر جاتا ہے ، اور اسکے بعد تمہیں قتل کی دھمکی دیتا ہے ؟
-----------
۱۔اطعنا رسول الله ما دام وسطنا
فیا قوم ما شاٴنی و شاٴن ابی بکر

ایورشھاً بکراً اذا کان بعدہ
فتلک لعمر الله قاصمة الظھر

۲۔ نقاتلھم فی الله و الله غالب
علی امرہ حتی تطیعوا بابکر


اس کے ایک چچیرے بھائی نے اس سے کہا: اشعث ! خدا کی قسم تم نے سچ کہا اور خداکی قسم ہم قریش کیلئے وہی زر خرید غلام بن گئے ہیں کہ بعض اوقات امیہ ۱ کو ہماری طرف بھیجتا ہے اور کبھی زیاد کو ہم پر مسلط کرتا ہے جو ہماری ثروت کو بھی ہم سےہڑپتا ہے اور ہمیں قتل کرنے کی دھمکی بھی دیتا ہے ۔
اشعث نے کہا: اے قبیلہٴ کندہ ! اگر میری بات قبول کرو تو تمہاری مصلحت اس میں ہے کہ متحد رہو تم لوگوں کی بات ایک ہونی چاہئے اپنے شہروں اور دیہاتوں میں بیٹھے رہو ، اپنی حیثیت اور وجود کا دفاع کرو اورا اپنے مال کی زکوٰة کسی کو نہ دو ۔کیونکہ میں جانتا ہوں کہ عرب اس حالت کے جاری رہنے پر راضی نہیں ہوں گے کہ وہ ” تیم بن مرہ “ قبیلہٴ ابوبکر ۲ کی اطاعت کریں اور بنی ہاشم کے سردار جو بطحا کے بزرگ ہیں کو چھوڑ دیں جی ،ہاں ، صرف بنی ہاشم ہیں جو ریاست کی شائستگی رکھتے ہیں ان کے علاوہ کوئی ہم پر حکومت کرنے کا حق نہیں رکھتا ۔
ہم اس مقام کےلئے دوسروں سے سزاوار تر اور مقدم ہیں کیونکہ جس زمانے میں ہم سلطنت اور سرداری کرتے تھے اس وقت روئے زمین پر نہ قریش کی کوئی خبر تھی اور نہ ابطحیوں کی ۳
-----------
۱۔ میری نظر میں اباامیہ ہے نہ امیہ
۲۔ بعض نسخوں میں تیم بن مرہ آیا ہے لیکن ہماری نظر میں وہی صحیح ہے کہ متن میں ملاحظہ ہوا شائد ’تیم بن مرہ ‘ قبیلہ ٴکندہ کا ایک خاندان ہوگا لیکن تیم بن مرہ وہی قبیلہٴ ابوبکر ہے چنانچہ شاعر جنگ جمل کی روداد میں کہتا ہے ہم نے شقاوت و بدبختی سے خاندان تیم کی پیروی کی جبکہ وہ چند کنیز و غلاموں کے علاوہ کچھ نہیں ہیں ، شاعر کا مقصود یہاں پر اس شعر سے خاندان تیم سے ابوبکر کی بیٹی ہے کہ تفصیلی روداد کو ہم نے کتاب ” عائشہ دوران علی میں “ بیان کیا ہے ۔ تیم بن مرہ ،جمہرہ : ۱۳۵ میں اس طرح ذکر ہوا ہے کہ ہم نے کہا۔
۳۔ اس کا مقصود سلاطین سبئیہ ہے کہ جو حمیر ، قریش اور دوسروں سے قدیم تر تھے ۔

اعثم کہتا ہے: زیاد بن لبید، جب زکوٰة کے اونٹوں کو حضرموت سے مدینہ لے کر بھاگ رہا تھا، راستے میںا بوبکر کے پاس جانے کے ارادے سے منصرف ہوا اور اونٹوں کو ایک مورد اعتماد شخص کے ذریعہ مدینہ بھیج دیا اور اسے حکم دیا کہ جو روداد واقع ہوئی ہے اس کے بارے میں ابوبکر کو کچھ نہ کہنا اس کے بعد قبائل کندہ کے ایک خاندان ” بنی ذہل بن معاویہ “ ا کے پاس آیا اور ان سے روداد بیان کی انھیں ابوبکر کی بیعت کرنے اور اس کی اطاعت و پیروی کرنے کی دعوت دی ۔
بنی ذہل کا ایک سردار قبیلہ ” حارث بن معاویہ “ ۲نے اس سے مخاطب ہوکر کہا: زیاد ! تم ہمیں ایک ایسے شخص کی اطاعت اور پیروی کرنے کی دعوت دیتے ہو کہ نہ ہم سے اس کے بارے میں کوئی عہد و پیمان لیا گیا ہے اور نہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں اس کی بیعت کرنے کا کوئی حکم دیاہے اور نہ تمہیں ،زیاد نے جواب میں کہا: اے مرد! صحیح کہا تم نے کہ اس کے بارے میں کوئی بیعت او رعہد وپیمان موجود نہیں تھا لیکن ہم نے اسے اس مقام کیلئے انتخاب کیا ہے ۔
حارث نے کہا: ذرا یہ بتاؤ، تم لوگوں نے اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس مقام سے کیوں محروم کیا ہے ؟ جبکہ وہ دوسروں سے سزاوار تر تھے کیونکہ خداوند عالم فرماتا ہے : رشتہ دار و اعزہ کتاب خدا میں ---یعنی خداکے حکم سے --- ایک دوسرے کی نسبت اولی اور نزدیک تر ہیں۔
زیاد نے کہا: گروہ مہاجر و انصار اپنے کام میں تم سے آگاہ تر ہیں ۔
-----------
۱۔ بنی ذہل ایک خاندان تھا جو حضر موت میں زندگی کرتا تھا : جزیرة العرب ھمدانی / ۸۵
۲۔ حارث بن معاویہ کا نام و نسب ابن حزم کی جمہرہ ۲/ ۴۷۷ میں آیا ہے کہ وہ معاویہ بن ثور کا بیٹا تھا ور قبیلہٴ کندہ سے تھا

حارث نے کہا: خداکی قسم ایسا نہیں ہے بلکہ تم لوگوں نے اس مقام کے حقداروں کو محروم کرکے
رکھ دیا ہے اور انکے بارے میں عداوت و حسد سے کام لیا ہے کیوںکہ میری عقل یہ قبول نہیں کرتی ہےکہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس دنیا سے چلے جائیں اور لوگوں کیلئے کسی کو معین نہ کریں جس کی یہ لوگ پیروی کریں اے لوگو! ہم سے دور ہوجاؤ کیونکہ ہمیں ایک ایسی راہ کی طرف دعوت دیتے ہو کہ خدا اس پر راضی نہیں ہے ۔
اس کے بعد حارث بن معاویہ نے مندرجہ ذیل مضمون کے چند اشعار پڑھے :
جس پیغمبر کی ہم اطاعت کرتے تھے وہ اس دنیا سے چلا گیا
خدا کا درود اس پر ہو اور اپنا کوئی جانشین و خلیفہ معین نہیں کیا ؟ ۱
اعثم کہتا ہے : یہاں پر ” عرفجة بن عبدا للہ “ اٹھا اور کہا : خدا کی قسم حا رث صحیح کہتا ہے اس شخص کو نکال باہر کرو ، اس کو بھیجنے والا مقام خلافت کیلئے کسی قسم کی لیاقت اور حق نہیں رکھتا ہے اور گروہ مہاجر و انصار دین و امت کے امور میں اظہار نظر کرنے کے معاملہ میں پیغمبر اور ان کے اہل بیت ﷼ سے شائستہ تر نہیں ہیں․
عاصم کہتا ہے : اس کے بعد قبیلہ کندہ کا ” عدی “ نامی ایک اور شخص اٹھا اور کہا:
لوگو ! ” عرفجہ “ کی بات پر توجہ نہ کرو اور اس کے حکم کی اطاعت نہ کرو کیونکہ وہ تمہیں کفر کی دعوت دیتا ہے اور حق کی پیروی کرنے سے روکتا ہے ، زیاد کی دعوت کو مثبت جانو اور اس کا جواب دو اور جس چیز پر
-----------
۱۔ کان الرسول ھو المطاع فقد مضی
صلی علیہ اللہ لم یستخلف

یہ شخص صحرا نشین عرب تھا اور پیغمبر کو مدینہ میں درک نہیںکیا تھالہذا وصی کے تعین کے بارے میں پیغمبر کی احادیث نہیں سنی تھیں ۔
مہاجر وانصار راضی ہوئے ہیں تم لوگ بھی اس پر راضی ہوجاؤ کیونکہ وہ اپنے کام میں تم لوگوں سے آگاہ تر ہیں ۔
اعثم کہتا ہے : اس شخص کے کئی چچیرے بھائی اپنی جگہ سے اٹھے اور اسے برا بھلا کہا اور گالیوں سے نوازا اور اس کی اتنی شدید پٹائی کی کہ اس کا بدن لہولہان ہوگیا اس کے بعد زیاد پر بھی حملہ بول دیا اور اسے قتل کرنا چاہتے تھے ․ لیکن اس سے منصرف ہوئے اورا سے اس جگہ سے نکال باہر کیا ۔
اعثم کہتا ہے :زیاد قبائل کندہ میں سے جس کسی کے پاس بھی جاتا ان کی طرف سے اسے مثبت جواب نہیں ملتا تھا اور اس کی درخواست کو مسترد کردیا جاتا تھا ۱
زیاد نے جب یہ حالت دیکھی تو وہ مدینہ کی طرف روانہ ہوا اور ابوبکر کے پاس جا کر تمام روداد سنادی اور ایسا ظاہر کیا کہ قبائل کندہ ارتداد کی طرف میلان رکھتے ہیںاور اسلام سے برگشتہ ہیں ۔
ابوبکر نے چار ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر آمادہ کیا اور زیاد کی کمانڈری میں حضرموت کی طرف روانہ کیا ۔ جب یہ خبر قبائل کندہ کو پہنچی ، تو گویا وہ اپنے کئے پر پشیمان ہوئے اور ”’ ابضعة بن مالک “ جو کندہ کے شاہزادوں میں سے ایک تھا ، ان کے درمیان کھڑا ہوا اور یوں بولا: اے گروہ کندہ ! ہم نے اپنے خلاف ایک ایسی آگ کے شعلے بلند کئے ہیں کہ گمان نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ شعلے جلد بجھ جائیں
گے مگر یہ کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور ہم میں سے بہت سے افراد
-----------
۱۔ اس بات سے یوں استفادہ ہوتا کہ : زیاد ان قبائل کو اسلام کی دعوت نہیں دیتا تھا کیونکہ وہ مسلمان تھے اور نماز و زکات کا اعتراف کرتے تھے صرف ابوبکر کی خلافت سے انکار کرتے تھے اور اسے زکات دینے سے اجتناب کرتے تھے ۔

کو لقمہ اجل بنادیں گے اگر میری بات پر کان دھرو اور میرے نظریہ کو قبول کروتو یہ بہتر ہے کہ ہمیں گزشتہ کی تلافی کرنا چاہئے اور جو چیز ہاتھ سے گنوا دی ہے اس کا تدارک کرناچاہئے اور یہ جو آگ ہمارے خلاف شعلہ ور ہوئی ہے اسے اس طرح بجھا ئیںکہ اور ابوبکر کے پاس ایک خط لکھیں کہ ہم اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اپنے مال کی زکوٰة اپنی مرضی سے اسے ادا کریں گے اور ہم ان کی پیشوائی اور امامت پر راضی ہیں ۱
” ابضعہ “ نے اپنی بات کے اختتام پر اس جملہ کا بھی اضافہ کیا : باوجود اس کے کہ میں یہ تجویز تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں نیز تمہاری رای اور نظر سے بھی کوئی اختلاف نہیںرکھتا ہوں لیکن تمہارے کام کا نتیجہ وہی دیکھتا ہوں جو میں نے کہا ہے اور اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آرہا ہے۔
اس کے بعد اعثم قبیلہٴ کندہ میںا ختلاف پیدا ہونے کی کیفیت اور ”اشعث“کی مخالفت اور اس کے عدم تعاون کی مکمل طور پر تشریح کرتے ہوئے کہتا ہے :
زیاد نے قبیلہٴ کندہ کے ” بنو ھند “ نامی ایک خاندان پر اچانک حملہ کرکے انھیں بری طرح شکست دی کہ وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں نے ان کی عورتوں ، بچوں اورمال و دولت پر تسلط جمایا
-----------
۱۔ ہم واضح طور پر مشاہد کرتے ہیں کہ تمام جنگیں ابوبکر کی خلافت اور حکومت کے سلسلہ میں تھیں نہ اسلام کیلئے لیکن چونکہ مؤرخین ابوبکر کی خلافت کو باقاعدہ قبول کرتے ہیں اس لئے ان اختلافات کو ارتداد سے منسلک کر کے اسلام سے اختلاف کے طور پر جانتے ہیں لہذا کہتے ہیں ” مسلمانوں نے عورتوں اور بچوں پر ․․․ تسلط جمایا“ اور لشکر ابوبکر کو مسلمان جانتے ہیں اس کے مقابلہ میں ابوبکر کے مخالفوں کو مرتد کہتے ہیں اور یہی نام گزاری آج تک باقی رہی ہے ورنہ نہ کوئی ارتداد تھا اور نہ دین سے خروج کا کہیں وجود تھا ۔

اعثم کہتاہے : زیاد ” بنو ھند “ کو شکست دینے کے بعد کندہ کے ” بنو عاقل “ نامی قبیلہ، کی طرف روانہ ہوا اس نے ان پر بھی اچانک او ران کو اطلاع دیئے بغیرحملہ کیا ۔ ” زیاد بن لبید “ کے سپاہی جب بنی عاقل کے نزدیک پہنچے تو قبیلہ کی عورتوں کی فریاد بلند ہوئی تو لوگ زیاد کے لشکر سے لڑنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے قبیلہ کے لوگوں اور سپاہیوں کے درمیان نبرد آزمائی ہوئی اور تھوری مدت کے بعد یہ جنگ قبیلہ والوں کی شکست پر ختم ہوئی انہوں نے گھر بار اور بال بچوں کو چھوڑ کے فرار کیا اور وہ سب ” زیاد بن لبید “ کے سپاہیوں کے ہاتھ لگ گئے ۔
اسکے بعد وہ قبیلہٴ ” بنی حجر “ کی طرف روانہ ہوا اور ان پر شب خون مارا ۔ بنی حجر کے افراد ان دنوں زبردست اور نامور جنگجو مانے جاتے نیز قبائل کندہ کے بے مثال تیر اندازشمار ہوتے تھے چونکہ زیا دکے حملہ کے بارے میں پہلے سے مطلع نہیںتھے اور ان پر اچانک حملہ کیا گیاتھا اس لئے ایک مختصر جنگ اور مقابلہ کے بعد شکست سے روبرو ہوکر بھاگنے پر مجبور ہوئے زیادکے سپاہیوں نے ان کے دو سو افراد کو قتل کرڈالا اور پچاس افرادکو قیدی بنالیا اورقبیلہ کے باقی افراد بھاگ گئے ان کا جو بھی مال و منال تھا مسلمانوں کے ہاتھوں یا بہ عبارت واضح ابوبکر کے سپاہیوں کے ہاتھ لگ گیا زیاد بن لبید ”بنی حجر “ سے جنگ کے بعد قبیلہ ” بنی حمیر “ کی طرف روانہ ہوا ۔ اس قبیلہ اور مسلمانوں کے درمیان ایک جنگ چھڑ گئی کہ اس میں مسلمانوںکے بیس افراد قتل کئے گئے اور قبیلہ کے بھی بیس افراد مارے گئے آخرکار قبیلہٴ ” بنی حمیر“نے بھی دوسرے قبیلوں کی طرح شکست کھائی اور بھاگ گئے مسلمانوں نے ان کی عورتوں اور بچوں پر تسلط جمایا۔
زیاد بن لبید کی کمانڈری میں انجام پانے والی ان جنگوں اور خونریزیوں کی خبر اشعث بن قیس کو پہنچی تو انتہائی غضبناک ہوا اور کہا:” کیا لبید کا بیٹا میرے رشتہ داروں اور میرے چچیرے بھائیوں کو قتل کرے ،عورتوں اور بچوں کو اسیر بنائے اور ان کی ثروت کو لوٹ لے اور میں آرام سے بیٹھا رہوں ؟!
اس کے بعد اپنے چچا زاد بھائیوں کو بلایا اور زیاد کی طرف روانہ ہواورشہر ” تریم “ ۱کے نزدیک زیاد کے فوجیوں سے نبرد آزما ہوا اور ان کے تین سو افرادکو قتل کر ڈالا ۔ زیاد نے شکست کھاکر شہر ” تریم“ میں پناہ لے لی ، لہذا اشعث نے وہ تمام مال اور بچے پھر سے اپنے قبضہ میں لے لئے جنہیں زیاد لوٹ چکا تھا اس کے بعدا نہیں ان کے مالکوں کو واپس پہنچادیا ۔ اس روداد کے کندہ کے بعد مختلف قبیلے کے بہت سے افراد اشعث کے گرد جمع ہوگئے اور زیاد اور اسکے طرفداروں کا ” تریم “ میں محاصرہ کیا ۔ زیاد نے اس روداد کو ایک خط کے ذریعہ ابوبکر تک پہنچا دیا ابوبکر اس روداد سے غمگین اور پریشان ہوئے اور اسکے علاوہ کوئی چارہ نہ پایا کہ اشعث کے نام ایک خط لکھ کر اسے راضی کرےں ۔ مجبور ہوکر مندرجہ ذیل خط اس کے نام لکھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم،بندہٴ خدا عبد اللہ بن عثمان جانشین رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے اشعث بن قیس اور قبیلہٴ کندہ کے تمام ان افراد کے نام جو اس کے ساتھ ہیں ، اما بعد، خداوند عالم اپنے پیغمبر پر نازل کی گئی کتاب میں فرماتا ہے :
-----------
۱۔” تریم “ حضرموت کے شہروں میں سے ایک کا نام ہے اور ایک دوسرے شہر کا نا م شبام ہے او ردونوں شہر دو قبیلوں کے نام سے منصوب ہیں جو وہاں پر بستے تھے․

”ایمان والو! اللہ سے اس طرح ڈرو جو ڈرنے کا حق ہے اور خبردار اس وقت تک موت کو دعوت مت دو جب تک مسلمان نہ ہوجاؤ “ ۱ میں تمہیں تقویٰ اور پرہیزگاری کا حکم دیتا ہوں اور ارتداد و خدا سے پیمان شکنی سے روکتا ہوں کہ نفسانی خواہشات کی پیروی نہ کرنا تا کہ یہ چیز تمہیں راہ خدا سے گمراہ کرکے ہلاکت و بدبختی کی طرف نہ کھینچ لے ۔ اگر اسلام سے منحرف ۲ ا ور زکوٰة دینے سے انکار کرنے میں تمہار امحرک میرے نمائندہ زیاد بن لبید کی نامناسب اقدام اور بدسلوکی ہے ۳ تو میں اس کو آپ لوگوں کی سرپرستی سے معزول کرتا ہوں اور جسے تم بھی پسند کرتے ہو میں اسے تمہارے لئے سرپرست قرار دیتا ہوں اور حامل رقعہ کو میں نے حکم دیا ہے کہ اگر تم لوگوں نے اس حق کو قبول کیا تو وہ بھی زیاد کو حکم دے گا کہ وہ تمہارے شہر ووطن کو چھوڑ کر واپس آجائے اور تم لوگ بھی اپنے کئے پر نادم ہو کر جتنا جلد ممکن ہو توبہ کر لوخداوند عالم ہمیں اور تمہیں اسی راہ پر کامیاب کرے جو اس کی رضا اور خوشنودی کی راہ ہے والسلام ۴
-----------
۱۔<یا ایھا الذین آمنوا اتقو اللہ حق تقاتہ و لاتموتن الا و انتم مسلمون >( آل عمران / ۱۰۲ )
۲۔ میں نہیں جانتا ابوبکر انہیں کس ارتدادکا الزام لگاتے ہیں کہ جبکہ وہ خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اسلام کی نبوت کی شہادت دیتے اور مسلمانوں کے قبلہ کی طرف رخ کرے نما زپڑھتے تھے ؟!
۳۔ ابوبکر نے یہاں پر اپنے گورنر کی جارحیت اور ظلم کا اعتراف کیا ہے اور اختلاف کے اسرار کو فاش کیا ہے کہ قبائل عر ب کے اختلافات اور بغاوت کا سبب گورنروں کی جارحیت تھی نہ کہ ان کا ارتداد اور اسلام سے انحراف۔
۴۔ فتوح اعثم کی ج ۱/ ص ۶۸ پر اسی صورت میں آیا ہے اور جو کچھ حسان نے ابوبکر کے نامہ کے ذیل میں لکھا ہے اسے منعکس نہیں کیا ہے شائد اس سلسلہ میں چند اشعار بھی تھے فتوح کے مؤلف کے نقل کرنے سے رہ گئے ہیں ۔

جب ابوبکر کا خط اشعث کو ملا اور اس نے اس کو پڑھ لیا تو، اس نے قاصد سے کہا؛ تیرا رئیس ابوبکر ہماری مخالفت کے سبب ہم پر کفر و ارتداد کا الزام لگاتا ہے ، لیکن اپنے نمائندے کو کافر نہیں جانتا ہے جس نے ہمارے مسلمان رشتہ داروں اور چچیرے بھائیوں کو قتل کیا ہے ؟
قاصد نے کہا: جی ہاں ، اشعث ، تیرا کفر ثابت ہے کیونکہ تم نے مسلمانوں کے گروہ سے اختلاف کیا ہے۱
قاصد نے جب یہ جملہ کہا تو اشعث کے چچیرے بھائیوں میں ایک جوان نے اٹھ کر اس پر حملہ کیا اور اسکے فرق سر پر تلوار لگا کر اسے وہیں پر قتل کر ڈالا ۔
اشعث نے اس جوان سے کہا: احسنت ! آفرین ہو تم پر ، ایک جھگڑالو کو خاموش کردیا اور ایک دخل در معقولات کرنے والے کو فوری جواب دیا ۔
ابو قرہٴ کندی اس روداد سے غضبناک ہوا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر بولا: اشعث ! نہیں ، خدا کی قسم تم نے جو کام انجام دیا ہے، ہم میں سے کوئی ایک شخص بھی ترے ساتھ اس بات پر موافق نہیں ہے اور تعاون نہیں کرے گا کیونکہ تم نے ایک ایسے قاصد کو قتل کیا ہے جو کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہوا تھاجب کہ تم اس پر جارحیت کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے تھے ابو قرہ نے کہا اور اپنے قبیلہ کے افراد کے ساتھ اشعث کے گروہ سے اٹھ کر اپنے قبیلہ کے مرکز کی طرف چلا گیا ۔
-----------
۱۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر کے مامور اشعث اور اس کے افراد کے ساتھ اتحاد و یکجہتی ہمدردی ایجاد کرنے کے بجائے اشعث اور اس کے افراد کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے ۔

اس کے بعد ابو سمرکندی اٹھا اور بولا: اشعث! تم ایک بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے ہو ، کیونکہ تم نے ایک بے گناہ شخص کو قتل کر ڈالا ہے ہم ان سے لڑتے ہیں جو ہم سے جنگ کرتے ہیں لیکن قاصد اور حامل خط کو قتل کرناصحیح اور مناسب نہیں تھا ۔
اشعث نے کہا؛ تم لوگ اپنے فیصلہ میں جلد بازی نہ کرو، اولاً اس قاصد نے ہم سب لوگوں پر کفر و ارتدادکا الزام لگا یا ۔
ثانیاً اگرچہ میں اس کے قتل سے ناراض نہ ہوا لیکن بہرحال میں نے اس کے قتل کا حکم بھی تو نہیں دیا تھا!
اس کے بعد ایک اور شخض اٹھا اور بولا : اشعث ! ہم سمجھتے تھے کہ تم اس نامناسب کام کے سلسلہ میں ہمارے لئے کوئی قابل قبول و اطمینان بخش عذر پیش کر کے ہمیں لاجواب کرو گے ، لیکن تم نے ہمارے جواب میںا یک ایسی بات کہی جو ہم میں سے بیشتر افراد کی تم سے نفرت و بیزاری کاسبب بنا ، خدا کی قسم اگر تم دانا اور عقلمند ہوتے تو اس نامناسب کا م کو انجام پانے سے روکتے اور اس بے گناہ قاصد کی نسبت جارحیت اور ظلم کے مرتکب نہیں ہوتے اور اسے قتل نہیں کرواتے ۔
ایک اور شخص نے کہا: لوگو ! اس ظالم سے دوری اختیار کرو تا کہ خدا جان لے کہ تم اس کے ظلم و جارحیت سے راضی نہ تھے ۔
اس روداد کے بعد اشعث کے دوست و احباب اس کے گرد سے متفرق ہوگئے اور دو ہزار افراد کے علاوہ اس کے پاس کوئی نہ رہا ۔
زیاد نے ابوبکر کو ایک خط لکھا اور اس کے قاصدکے قتل ہونے کی خبر سے اسے مطلع کیا اور اس کے ضمن میں لکھا : میں اپنے احباب کے ساتھ فی الحال شہر ” تریم “ میں سخت محاصرہ اور برے حالات میں بسرکررہا ہوں ۔
ابوبکر نے قبیلہٴ کندہ کے بارے میں مشورہ کیا ۔ ابو ایوب انصاری ، نے کہا: فی الحال ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اور اپنی پادشاہی اور ریاست میں مغرور ہیں اگر بیشتر سپاہ جمع کرنے کا فیصلہ کریں تو وہ یہ کام کر سکتے ہیں ۔ بہتر یہ ہے کہ اس سال تم اپنی فوج کو وہاں سے واپس بلا لو اور ان کے اموال کی زکوٰة سے صرف نظر کرو ۔ اس صورت میں مجھے امید ہے کہ وہ اپنی مرضی سے حق کی طر ف پلٹ آئیں گے اور اگلے سال سے اپنی مرضی اور خوشی سے زکوٰة ادا کریں گے ۔
ابوبکر نے کہا: ابو ایوب !خدا کی قسم جو کچھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان پر متعین فرمایا ہے ، اگر اس میں سے اونٹ کے پاؤں کا ایک حلقہ بھی کم دینے میں انکار کریں گے تو میںا ن کے ساتھ جنگ کروں گا ۱ یہاں تک کہ بغاوت اور نافرمانی سے ہاتھ کھینچ لیں گے اور ذلیل و خوار ہوکر حق کو تسلیم کریں گے ۔
-----------
۱۔ اس جملہ میں ابوبکر کا اشعث کے افراد سے اختلاف کا راز واضح ہوتا ہے کہ ابوبکر چاہتا تھا وہ اسی طرح زکوٰة دیتے رہیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں دیتے تھے ورنہ بات ہرگز اسلام اور زکوٰة کے فریضہ کو قبول کرنے کے بارے میں نہیں تھی ۔

اس کے بعد ابوبکر نے عکرمة بن ابی جہل۱ کو ایک خط میں لکھا کہ وہ اہل مکہ کے ایک گروہ اور اس کے ہمنواؤں کے ساتھ زیاد بن لبید کی طرف روانہ ہوجائے اور راستے میں عرب قبائل میں سے جو
بھی قبیلہ ملے انہیں اشعث کے خلاف لڑنے پر مشتعل کرے ۔
ابوبکر کے حکم سے عکرمہ قریش اور ان کے ہم پیمانوں کے دو ہزار سواروں کے ہمراہ زیاد کی طرف روانہ ہوا یہاں تک کہ نجران میں داخل ہوا اس وقت ” جریر بن عبد اللہ بجلی “ اپنے چچیرے بھائیوں کے ساتھ نجران میں سکونت پذیر تھا اور خاندان بجلی کی سرداری اس کے ہاتھ میں تھی عکرمہ نے جریر کو اشعث سے جنگ کی دعوت دی لیکن جریر نے ان کا تعاون کرنے سے انکار کیا عکرمہ وہاں سے ” ماٴرب“ کی طرف روانہ ہوا جب ”دبا“ کے باشندوں کو عکرمہ کے ’ ’مارب “پہچنے کی خبر ملی تو وہ عکرمہ کی روانگی سے غضبناک ہوئے اورکہا: ہم عکرمہ کو اس کے لئے نہیں چھوڑیںگے کہ قبیلہ کندہ اور غیر کندہ کے ہمارے چچیرے بھائیوں پر حملہ کرے اور انھیں قتل کر ڈالے ” دبا“ کے باشندوں نے اسی غرص سے ابوبکر کی طرف سے ان پر ماٴمور نمائندہ ” حذیفہ بن محصن “ کو اپنے شہر سے نکال باہر کیا ، حذیفہ نے عکرمہ کے یہاں پناہ لے لی اور ”دبا“ کے باشندوں کی بغاوت کے بارے میں ابوبکر کو اطلاع دی ۔ ابوبکر اس واقعہ سے غضبناک ہوئے اور عکرمہ کے نام مندرجہ ذیل خط لکھا :
-----------
۱۔ عکرمہ ، جس کا لقب ابوعثمان بن ابو جہل بن ہشام تھا وہ قبیلہ قریش کے خاندان مخزوم سے تھا اس کی والدہ مجالا نامی قبیلہ ہلال کی ایک عورت تھی ، عکرمہ کے باپ ابوجہل کا اصلی نام عمرو تھا عکرمہ بھی اپنے باپ ابوجہل کی طرح ایام جاہلیت میںرسول اللہ کے جانی دشمنوں میں شمار ہوتا تھا اور فتح مکہ کے کچھ دنوں بعد اسلام قبول کیا اور جنگ جمل میں ماراگیا اسد الغابہ ،۴/ ۲۔۷۔

اما بعد ، میں نے پہلے خط میں حکم دیا تھا کہ حضرموت کی طرف روانہ ہونالیکن
جب میرا یہ خط تجھے ملے تو اپنا راستہ بدل کر’ ’دبا“ کی طرف روانہ ہوجاوٴاور وہاں کے لوگوں سے ایسا برتاؤ کروجس کے وہ شائستہ ہوں اور اس فرمان کو عملی جامہ پہنانے میں کسی قسم کی تاخیر اور کوتاہی نہ کرنا ور جب ” دبا“ کی ماٴموریت سے فارغ ہوجاؤ تو وہاں کے باشندوں کو گرفتار کرکے میرے پاس بھیجدواس کے بعد زیاد بن لبید کی طرف روانہ ہوجاوٴ امید رکھتا ہوں خداوند عالم سرزمین حضرموت کی فتح تیرے ہاتھوں نصیب کرے و لا حول و لا قوة الا بالله العلی العظیم
عکرمہ اسی حکم کے مطابق ”دبا“ کی طرف روانہ ہوا اور وہاں کے باشندوں سے جنگ کی ، اور انہیں اپنے محاصرہ میں لے لیا چونکہ دبا کے باشندے اس محاصرہ میں مشکلات سے دوچار ہوئے تو اپنے گزشتہ حاکم حذیفہ کو پیغام بھیجا اور اس سے صلح کی درخواست کی اور کہا کہ وہ زکوٰةکو ادا کریں گے اور حذیفہ سے بھی محبت کرکے اس کے احکام کی اطاعت کریں گے حذیفہ نے دبا کے باشندوں کے نمائندہ کو اس پیغام کے ساتھ واپس بھیجا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان صلح کا معاہدہ منعقد نہیں ہوگا مگر مندرجہ ذیل شرائط پر:
۱۔ اقرار و اعتراف کرو کہ تم باطل پر ہو اور ہم حق پر ہیں ۔
۲۔ اعتراف کرو کہ تمہارے مقتولین جہنم میںہیں اور ہمارے مقتولین بہشت میں ۱
-----------
۱ ۔کیا خداوند عالم قیامت کے دن جو کچھ ابوبکرکے گماشتے کہیں گے اسی پر عملی جامہ پہنائے گا؟ہم یہاں پر ایک بار پھر ابوبکر کے مامورین کی سختی اور تندی کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔

۳۔ تمہارے ہتھیار ڈالنے کے بعد ہم اپنی مرضی کے مطابق تمہارے ساتھ برتاؤ کریں گے نہ تمہاری رائے اور مرضی کے مطابق۔
”دبا“ کے باشندوں نے مجبور ہوکر یہ شرائط مان لئے ۔ حذیفہ نے بیشتر اطمینان کیلئے پیغام بھیجا کہ اگر تم لوگوں نے واقعاً ہماری تجویز کو مان لیا ہے تو اسلحہ کے بغیر شہر سے باہر آنا ۔ انہوں نے بھی حاکم شہر کے اطمینان کیلئے اس کے حکم پر عمل کیا اور غیر مسلح صورت میں شہر سے باہر آگئے تا کہ صلح کا معاہدہ منعقد ہوجائے ۔
لیکن عکرمہ نے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر کے قلعہ پر قبضہ جمایا اور وہاں کے اشراف اور بزرگوں کے کھلے عام سر قلم کئے ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیا اور ان کی ثروت کو غنیمت کے طور پر لوٹ لیا اور باقی لوگوں کو اسیر بناکر ابوبکر کے پاس بھیج دیا ۔
ابوبکر نے فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کردےاجائے اور انکے بچوں کو سپاہیوں کے درمیان غلاموں کی حیثیت سے تقسیم کردےاجائے ۔ عمر ابوبکر کے اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ بنے اور کہا: اے پیغمبر کے جانشین ! یہ لوگ دین اسلام پر باقی ہیں کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ دل سے قسم کھاتے ہیں کہ اسلام سے منحرف نہیں ہوئے ہیں ۔
ابوبکر عمر کے کہنے پر ان کو قتل کرنے سے منصرف ہوگئے اور انھیں مدینہ کےجیل میں ڈال دیا یہاں تک وہ دنیا سے گزر گئے اور جب ابوبکر کے بعد حکومت کی باگ ڈور عمر کے ہاتھ آئی تو اپ نے انھیں جیل سے آزاد کر دیا۔
عکرمہ ” دبا“ کو فتح کرنے کے بعد ” زیاد “ کی مدد کیلئے حضرموت کی طرف روانہ ہو گیا ۔ جب یہ خبر اشعث کو پہنچی تو اس نے ” نجیر “ کے قلعہ میں پناہ لے لی ۔ اپنے دوست و احباب کی عورتیں اور بچے بھی وہیں پر جمع کر لئے اسکے بعد عکرمہ اور اس کے درمیان کئی جنگیں واقع ہوئیں جب اس روداد کی خبر قبیلہٴ کندہ اور ان افراد کو ملی جو ابوبکر کے قاصد کو قتل کرنے پر اشعث سے اختلاف کرکے اس سے جدا ہوئے تھے ، انہوں نے آپس میں کہا کہ اب جب کہ ہمارے بھائی قلعہ ” نجیر “ میں محاصرے میں پھنسے ہیں تو یہ ہمارے لئے ایک بڑی ننگ اور شرم کی بات ہے کہ انھیں دشمن کے حوالے کر کے خود نعمت و آسائش میں بسر کریں ، آئیے ہم ان کی طرف دوڑتے ہیں اور انہیں نجات دینے کی کوشش کرتے ہیں اس طرح قبیلہٴ کندہ کے جنگ سے پیچھے بھاگنے والے لوگ دوبارہ زیاد کی فوج سے لڑنے کیلئے روانہ ہوئے زیاد کو جب انکی روانگی کی خبر ملی تو اس نے بے بسی اور پریشانی کا اظہار کیا عکرمہ نے اس سے کہا کہ مصلحت اس میں ہے کہ تم اسی جگہ پر رہنا اور محاصرہ میں پھنسے لوگوں کو محاصرہ توڑنے کی اجازت نہ دیناا ور میں چند لوگوں کے ساتھ ان لوگوں کی طرف چلا جاؤں گا جو ہماری طرف آرہے ہیں اور انھیں آگے بڑھنے سے روک لوں گا ۔
زیاد نے کہا: اچھی رائے ہے ، لیکن اگر خدا نے تجھے کامیابی عطا کی تو تلوار کو نیام میں نہیں رکھنا یہاں تک انکے آخری فرد کونہ قتل کر دو ۱
-----------
۱۔ خلیفہ کے گماشتے ایک دوسرے کو اسی طرح کی سفارش کرتے تھے کہ مسلمانوں کے مخالفین میں سے کسی کو زندہ نہ رکھنا ۔

عکرمہ نے کہا: جہاں تک ممکن ہوسکے اس راہ میں کوشش کروں گا اس کے بعد روانہ ہوا یہاں تک ان لوگوں میں پہنچا اور ان کے درمیان جنگ واقع ہوئی ۔ عکرمہ اور اس کے دوستوں نے اس جنگ میں شکست کھائی جب رات ہو گئی توجنگ کے شعلے بجھ گئے لیکن دوسرے دن کی صبح کو دونوں فوجیں دوبارہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے قرار پائیں اور اس روز عصر تک گھمسان کی جنگ جاری رہی ۔
دوسری طرف سے اشعث بن قیس جو محاصرے میں تھا ، ان روداد کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا ور چونکہ اس قلعہ کا محاصرہ جاری رہا بھوک اور پیاس نے اشعث اور اس کے ساتھیوں کو تنگ اور مجبور کر دیا اشعث نے زیا د کو پیغام بھیجا کہ خود اسے ، اس کے خاندان اور اس کے دوستوں میںسے دس افراد کو امان دیدے ۔ زیاد نے اس تجویز کی موافقت کی اور ان کے درمیان ایک عہد نامہ لکھا گیا ۔ محاصرہ میں پھنسے لوگوں نے خیال کیا کہ اشعث نے یہ امان نامہ سب لوگوں کیلئے حاصل کیا ہے اور تمام محاصرہ شدہ لوگ اس امان نامے میں شامل ہیں ، لہذا وہ خاموش رہے اور اس عہد نامہ کی مخالفت نہیں کی ۔ زیاد نے بھی ایک خط کے ذریعہ اس امان نامہ کی روداد عکرمہ کو بھیج دی ۔ عکرمہ نے ان لوگوں سے --جو اس سے لڑتے تھے ---کہا: لوگو ! ہم سے کس لئے جنگ کرتے ہیں ؟
عکرمہ نے کہا: یہ دیکھ لو ! تمہارے سردار نے امان کی درخواست کی ہے ۔ یہ کہا اور خط کو ان کی طرف پھینک دیا ۔ جب انہوں نے خط کو پڑھ لیا اور خط کے مضمون یعنی یہ کہ اشعث نے زیاد سے امان کی درخواست کی ہے سے مطلع ہوئے تو کہا : عکرمہ اب ہماری تیرے ساتھ کوئی جنگ ہی نہیں ہے ، تم سلامت چلے جاؤ اور وہ بھی اشعث کو گالیاں سناتے ہوئے عکرمہ کی جنگ سے واپس چلے گئے ۔
عکرمہ جب ان قبائل کی جنگ سے مطمئن ہوا تو اپنے دوستوں سے کہا: جتنا جلد ممکن ہوسکے زیاد کی طرف روانہ ہوجاؤ، کیونکہ اشعث نے امان کی درخواست کی ہے اور اگر زیاد اور اس کے ساتھی قلعہ کو فتح کریں اور وہاں کی ثروت کو غنیمت کے طور پر لے جائیں تو شائد تمہیں اس میں شریک قرار نہ دیں کیونکہ وہ قلع فتح کرنے میں تم لوگوں پر سبقت حاصل کریں گے ۔
عکرمہ اور اس کے دوست جب قلعہٴ ” نجیر “ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ابھی اشعث قلعہ سے باہر نہیں آیا ہے اور اپنے اور اپنے دوستوں کیلئے ایک مضبوط عہد نامہ کا مطالبہ کررہا ہے ۔ زیاد نے عکرمہ سے سوال کیا کہ : قبائل کندہ کے ساتھ تم نے کیا کیا ؟
عکرمہ نے کہا: تمہاری نظر میں مجھے ان کے ساتھ کیا کرناچاہئے تھا خدا کی قسم میں نے قبائل کندہ کے لوگوں کو ایسا مرد پایا جو طاقت ور ، جنگجو اور موت کا مقابلہ میں صابر و شاکر تھے۔ میں نے ان کے ساتھ جنگ کی لیکن آخرکار معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے طاقتور اور قوی تر ہیں ۔ اس کے علاوہ تیر اخط مجھے پہنچا اور میں نے دیکھا کہ اشعث نے امان کی درخواست کی ہے اور جنگ ختم ہوئی ہے اس لئے میں بھی اشعث کے امدادی فوجیوں سے جنگ ترک کرکے تیری طرف روانہ ہو گیا ہوں۔
زیاد نے کہا: عکرمہ! نہیں! خدا کی قسم جو کچھ تم نے کہا ، وہ ایک بہانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ تم ایک ڈرپوک شخص ہو اور تیرا بزدل ہونا ہی سبب بنا ہے کہ تم جنگ سے فرار کرگئے ہو اور ہماری طرف آگئے ہو، کیا میں نے تجھے حکم نہیں دیا تھا کہ قبائل کندہ پر ایسی تلوار چلانا کہ ان میں سے ایک فرد بھی زندہ نہ بچ سکے ؟ اب تم اپنے دوستوں کے ہمراہ اس خوف میں واپس آئے ہو کہ کہیں مال غنیمت ہاتھ سے نہ چلا جائے ۔اس پر خدا کی لعنت ہو جو آج کے بعد تجھے بہادر کہے ۔ عکرمہ ، زیاد کی باتوں سے غضبناک ہوا اور کہا: زیاد ! خداکی قسم اگر وہ تیرے ساتھ جنگ کرتے تو تم انھیں ایسے شیر پاتے جو اپنے تیز دانتوں اور اپنے مضبوط اور وحشی پنجوں کو تیز کرکے اپنے بچوں کے ہمراہ اٹھتے ہیں اور بہادرانہ طور پر بہادروں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں ، اس وقت تم آرزو کرتے کہ وہ تم سے دست بردار ہوکر دوسری طرف رخ کرتے ۔ اسکے علاوہ تم خود ایک خشک ، سخت ، بہت بڑے ظالم ، غاصب ، بزدل اور مال و ثروت کے بارے میں دوسروں سے حریص تر ہو ۔ یہ تم تھے جس نے یہ سب شورشیں برپا کیاہے ۔ یہ تم تھے جس نے ان لوگوں سے جنگ کی ہے اور وہ بھی ایک اونٹ کیلئے ، جی ہاں ، صرف ایک اونٹ کیلئے اپنے اور ان قبائل کے درمیان اتنی جنگیں اور خونریزیاں برپا کی ہیںا ور اگر میں اور میرے فوجی تیری نصرت کیلئے نہ آتے تو سمجھ لیتے تجھے کیسے یہ لوگ تہ تیغ کرکے طوق و زنجیر میں جکڑ تے ہیں ۔
اس کے بعد عکرمہ نے اپنے ساتھیوں کی طرف خطاب کیا اور انھیں حکم دیا کہ روانہ ہوجائیں لیکن زیاد نے عکرمہ سے معافی مانگی ۔ عکرمہ نے بھی اس کی معافی قبول کی اور اس کی نصرت اور مدد کرنے میں وفاردار رہا ۔ اس کے بعد اشعث اپنے خاندان ، بنی اعمام کے بزرگوں اور اپنے چچیرے بھائیوں اور ان کے خاندان اور مال و منال کے ساتھ قلعہ سے باہر آیا ۔ چونکہ اشعث نے صرف اپنے رشتہ داروں اور اعزہ کیلئے امان طلب کی تھی اور اس کا اپنا نام اس امان نامہ میں ذکر نہیں ہوا تھا، لہذا زیاد نے کہا: اشعث ! تم نے اپنے لئے امان نہیں چاہی ہے ۔ خدا کی قسم اب میں تجھے قتل کردوں گا ۔
اشعث نے کہا: میں نے اپنے رشتہ داروں کیلئے امان کی درخواست کی تھی مناسب نہیں تھا کہ اس میں اپنا نام بھی لکھدوں ، لیکن ، یہ جو تم نے کہا کہ : مجھے قتل کر ڈالو گے ، خد اکی قسم اگر مجھے قتل کر دو گے تو یمن کے تمام لوگ تیرے اور تیرے سردار ابوبکر کے خلاف شورش و بغاوت کریں گے اور وہ بغاوت ایک بے مثال بغاوت ہوگی ۔
زیاد ، اشعث کی باتوں پر توجہ کئے بغیر قلعہ میں داخل ہوا اور اشعث کے ایک ایک سپاہی کو پکڑ کر سر قلم کررہا تھا ، انہوں نے کہا: زیاد ! ہم نے اس لئے دروازہ تیرے لئے کھولا ہے کہ تم نے ہمیںا مان دی تھی، اب تم کس حیثیت سے ہمیں قتل کررہے ہو ؟ امان دینا کہاں اور یہ قتل کرنا کہاں؟
زیاد نے کہا: اشعث نے تم لوگوں سے جھوٹ کہا ہے ،کیونکہ عہد نامہ میںاس کے گھر انے کے افراد اور اس کے رشتہ داروں میں سے دس افرادکے علاوہ کسی کا نام نہیں آیا ہے ۔
اس کے بعد ان لوگوں نے کچھ نہیں کہا اور سمجھ گئے کہ یہ اشعث ہے جس نے انھیں موت کے حوالے کیا ہے ۔
جس وقت زیاد قلعہ کے لوگوں کے سر قلم کررہا تھا، اسی اثناء میں ابوبکر کی طرف سے اسے مندرجہ ذیل مضمون کا ایک خط ملا:
مجھے خبر ملی ہے کہ اشعث نے امان کی درخواست کی ہے اور میرے حکم کی اطاعت کی ہے تو اسے میرے پاس بھیج دو اور کندہ کے بزرگوں میں سے کسی کو قتل نہ کرنا۔
زیاد نے کہا: اگر یہ خط مجھ پہلے ملتا تو ان میں سے ایک کو بھی قتل نہیںکرتا اس کے بعد باقی افراد کو جمع کیاان کی تعداد اسی (۸۰)تھی انھیں زنجیروں میں جکڑ کر ابوبکر کے پاس بھیج دیا۔
قبیلہٴ کندہ کے افراد جب مدینہ میں داخل ہوئے اور ابوبکر کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے تو ابوبکر نے اشعث سے کہا:
شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں تم پرمسلط کیا ۔
اشعث نے کہا؛ جی ہاں ، میری جان کی قسم تم مجھ پر مسلط ہوگئے ہو جبکہ میں اسی چیز کا مرتکب ہوا ہوں جس کا گذشتہ دوسرے لوگ بھی مرتکب ہوئے تھے وہ یہ کہ تیرے حاکم زیاد بن لبید نے ہمارے اعزہ اور رشتہ داروں کو بے گناہ اور ظلم و ستم سے قتل کیا اور میرے خاندان اور رشتہ داروں کے ساتھ وہی کیا جسے تم خود جانتے ہو۔
عمر اپنی جگہ سے اٹھے اور کہا: اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین ! یہ اشعث مسلمان تھا، پیغمبر پر ایمان لایا تھا اور قرآن پڑھتا تھا ، بیت اللہ کی زیارت کی تھی اس کے بعد اپنے دین سے منحر ف ہو گےا اور اپنے طریقہ کو بدل ڈالا اور زکوٰة دینے سے انکار کیا۔ پیغمبر نے حکم دیا ہے جو بھی اپنے دین کو بدل دے اسے قتل کردو ۔ اب خدا نے بھی تجھے قدرت عطا کی ہے لہذا اس کو قتل کرنا کیونکہ اس کا خون حلال و مباح ہے ۔
اشعث اٹھا اور عمر کے جواب میںا بوبکر سے مخاطب ہوا : اے پیغمبر کے جانشین! میں نہ تو اپنے دین سے منحرف ہوا ہوں او رنہ ہی اپنے مالک کو زکوٰة دینے میں بخل سے کام لیا ہے ۔ لیکن تیرے نمائندہ زیاد بن لبید نے میرے رشتہ داروں اور اعزہ پر ظلم کیا اور ان میں سے بے گناہ افراد کو قتل کیا میں اس کے اس کام سے پریشان تھا اور اس کا انتقام لینے کیلئے اٹھا تھا اور اس سے جنگ و مقابلہ کیا ۔ یہ تھی وہ روداد جو گزری اب میں حاضر ہوں تا وان اور پیسے ادا کرکے اپنے آپ کو اور ان شاہزادوں اور یمن سے لائے گئے اسیروں کو نجات دلاؤں اور زندگی بھر تیرا حامی و مددگار رہوں اور تم اپنی بہن ام فروہ کو میرے عقد میں دے دو تا کہ میں تیرے لئے بہترین داماد بنوں ۔
ابوبکر نے کہا: میں نے تیری درخواست منظور کی، اس کے بعد اپنی بہن کو اشعث کے عقد میں دیدیا اور اسے بذل و بخشش سے بھی نوازا اس دن کے بعد اشعث ابوبکر کے دربار میں بہترین مقام و حیثیت کا مالک ہو گیا۔
یہاں پر جنگ کندہ کی روداد اختتام کو پہنچی ، اب ہم اس جنگ کے اسباب اور نتائج پر بحث کرتے ہیں ۔