عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
دوسری جلد
 
آٹھواں حصہ :

سیف کے ذریعہ اشخاص کے ناموں کی تخلیق اور تبدیلی
* -معروف ناموں کوغیر معروف ناموں میں تبدیل کرنا۔
* -اصحاب پیغمبر کے ناموں کا ناجائز فائدہ اٹھانا۔
* -سیف الٹ پلٹ کرتا ہے ۔
* -تیسرے حصہ کے مآخذ

معروف ناموں کا غیر معروف ناموں میں تبدیل کرنا
و صحف من اسماء اعلام الاسلام و المسلمین
سیف نے بہت سی معروف اسلامی شخصیتوں کے نام تبدیل کئے ہیں ۔
مؤلف

سیف نے بعض احادیث میں اپنے قبیلہ یا خاندان سے تعلق رکھنے والے اپنے محبوب افراد کی مذمت و ملامت کا اظہار کیاہے یا اسی طرح جن افراد کے بارے میں وہ دل میں بغض و عداوت رکھتا تھا ان کی ان احادیث میں مدح و فضیلت کا اظہار کیا ہے ، لہذا اس نے اس قسم کی احادیث میںا یسے معروف و نامور اشخاص کے نام کو ایک غیر معروف اور مجہول نام میں تبدیل کر دیا ہے تا کہ اس کے دوستوں کا عیب اوران کی برائی چھپ جائے یا معروف و نامور اشخاص کی فضیلت و منزلت پر دے میں رہ جائے۔
یہاں پر ہم ان تبدیلیوں کے کئی نمونے پیش کرتے ہیں :

۱۔ خالد بن ملجم
سیف نے امیر المؤمنین علی بن ابیطالب (علیہ السلام) کے قاتل عبد الرحمان بن ملجم کا نام بدل کر خالد بن ملجم کر دیا ہے، جہاں پر خلیفہ دوم اپنے سپاہیوں کی پریڈ کا مشاہدہ کرنے کی روداد کا ذکر کرتے ہوئے یوں کہتا ہے :
”خلیفہ ایک لشکر کو ” قادسیہ “ روانہ کررہے تھے، لہذا ” صرار “[1]کے مقام پر اس لشکر کی پریڈ کا اس طرح مشاہدہ کیا کہ سپاہی اس کے سامنے سے گروہ گروہ اور پریڈ کرتے ہوئے گذرتے جارہے تھے، قبیلہٴ ” سکون “[2]کا چار سو افراد پر مشتمل گروہ بھی خلیفہ کے سامنے سے گزرا ، کہ اچانک خلیفہ کی نظر چند سیاہ فام اور لمبے بال والے جوانوں پر پڑی اور انھوں نے ان سے منہ موڑ لیا،جب وہ دوسری بار خلیفہ کے سامنے سے گزرے تو پھر انھوں نے ان سے منہ موڑ لیا اور یہ روداد تین بار تکرار ہوئی جب ان سے اس روگردانی اور اعراض کے بارے میں سوال کیا گیا ۔
انھوں نے جواب میں کہا: میںان افرادکے بارے میں بد ظن ہوں ، کیونکہ ان کا چہرہ میرے لئے غیر معروف اور پر اسرار لگ رہا ہے اور ان کے بارے میں میرے دل میں عجیب و غریب بغض و عداوت پیدا ہو رہی ہے اس کے بعد ان کے بارے میں مکرر ذکر کرتے اور کراہت و نفرت کا اظہار کرتے رہے اور لوگ بھی عمر کے اس قول اور فعل کے بارے میں حیرت اور استعجاب کا اظہار کرتے رہے یہاں تک کہ مستقبل میں اس مطلب کا راز لوگوں پر آشکار ہوا خالد بن ملجم جس نے بعد میں علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو قتل کیا اور اس کے علاوہ عثمان کے قتل کی حمایت کرنے والے بھی اس گروہ میں موجود تھے“ [3]
پھر سیف ۳۵ ھ ء کے حوادث کے ضمن میں کہتا ہے :
جب سبائیوں کے اکسانے پر مختلف اسلامی شہروں سے عثمان کے پاس شکایتیں پہنچیں تو، اس نے بھی مقامی تحقیقات کیلئے چند اشخاص کو ان شہروں کی طرف روانہ کیا تا کہ حالات کا نزدیک سے جائزہ لے کر خلیفہ کو ان کی اطلاع دیں۔ ان افراد میںعمار یاسر بھی تھے ، جنھیں عثمان نے مصر کیلئے مامور کیا تھا بھیجے گئے تمام افراد عمار سے پہلے خلیفہ کے پاس واپس آ کر بولے ہم نے ان شہروں میں کسی بری یا ناخوشگوا رچیز کا مشاہدہ نہیں کیا ، ان شہروں کے حالات اطمینان بخش ہیں ۔ کچھ غیر معروف و خاص لوگ ناراضگی اور شکایت کا اظہار کرتے ہیں نہ عام لوگ اور امراء ، ان کے فرمانروا بھی مکمل طور پر لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آتے ہیں لیکن عمار کے مدینہ واپس لوٹنے میں تاخیر ہوئی ۔ یہاں تک لوگ ان کے بارے میں فکر مند ہوئے اور انہوں نے گمان کیا کہ انھےں مصر میں قتل کر دیا گیا ہے اسی اثناء میں مصر کے گورنر کا ایک خط مدینہ پہنچا جس میں لکھا تھا ، مصر میں ایک پارٹی عمار کو فریب دے کر ان کے اردگرد جمع ہوگئی کہ جن میں عبد اللہ بن سوداء اور خالد بن ملجم[4] شامل تھا۔
۳۶ھ کے حوادث کے ضمن میں کہتا ہے : جنگ جمل کے واقع ہونے سے پہلے ، قعقاع بن عمرو ۲ نے امیر المومنین علی اور عائشہ ، طلحہ و زبیر کے درمیان صلح و صفائی کرانے کیلئے فرد ثالث کا فریضہ نبھانا طرفین نے صلح کرنے کا فیصلہ کیا ۔
۲۔ قعقاع سیف کا ایک افسانوی اور جعلی سورما ہے ، اس نے اسے اپنے خیال میں خلق کیا ہے اس کے بعد اسے پیغمبر خداکے ایک صحابی کے طور پر پہچنوایا ہے ہم نے اپنی کتاب ۱۵۰ جعلی اصحاب میں اس کے بارے میں ایک الگ فصل میں وضاحت کی ہے اور جنگ جمل کی روداد کو بھی کتاب ”عائشہ “ علی کے زمانے میں “ میں مکمل طور پر بیان کیا ہے
لیکن سبائیوں کا گروہ جیسے : ابن السوداء اور خالد بن ملجم ․․․ صلح وآشتی پر راضی نہیں تھے ۔ اس لئے انہوں نے ایک خفیہ میٹنگ بلائی اور ایکمنصوبہ بنایا تا کہ مسلمانوں کے درمیان صلح کے منصوبہ کو درہم برہم کر کے رکھ دیں اور ان کے درمیان جنگ کے شعلوں کو بھڑکادیں ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے اس منحوس منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والی صلح کو ایک زبردست خونین جنگ میں تبدیل کر دیا[5]
یہ وہ مطالب ہیں جنہیں سیف نے امیر المؤمنین کے قاتل کے بارے میں نقل کیا ہے اور اسے خالد بن ملجم نام رکھا ہے جب کہ اس کا نام ’ عبدا لرحمان بن ملجم مرادی “ ہے اور یہ وہی شخص ہے جو فتح مصر میں موجود تھا اور وہاں اپنا گھر بنا چکا تھا،خلیفہٴ دوم نے
------------
[1] . صرار مدینہ کے نزدیک عراق کے راستہ پرایک پانی ہے ۔
[2] .سکون خاندان کندہ کا ایک قبیلہ ہے کہ جو قحطان سے محسوب ہوتا ہے ان کا شجرہ نسب سباء بن یشجب تک پہچتا ہے اور سیف تاریخ اسلام کی تمام برائیاں اور شر و فساد ان کی گردن پر ڈالتا ہے ۔
[3] ۔ تاریخ طبری : ۱/ ۲۲۲۰ ۔ ۲۲۲۱۔
[4] .تاریخ طبری : ۱/ ۲۹۴۴ اور تاریخ ابن اثیر ۳/ ۱۹۲)
[5] . خلفاء کے زمانے میں رسم تھی کہ جو کوئی بھی خلافت پر پہچتا تھا مرکز کے لوگ اس کی بیعت کرتے تھے اس کے بعد روداد کی صوبوں اور آبادیوں تک اطلاع دی جاتی تھی اور بڑے شہروں کی بعض معروف شخصتیں وفد کی صورت میں نمائندہ کے طور پر آکر اپنی اور شہروں کے باشندوں کی طرف سے نئے خلیفہ کی بیعت کرتی تھیں

اس زمانے میں مصر کے گورنر عمرعاص کو اس کے بارے میں یوں لکھا تھا :
” عبدا لرحمان بن ملجم کے گھر کو مسجد کے نزدیک قرار دینا تا کہ وہ لوگوں کو قرآن اور دینی مسائل کی تعلیم دے “
پھر جب امیرالمؤمنین علی خلافت پر پہنچے ، مدینہ کے لوگوں کی بیعت کے بعد، قصبوں کے باشندوں کو بیعت کی دعوت دی ۲
۲۔ خلفاء کے زمانے میں رسم تھی کہ جو کوئی بھی خلافت پر پہچتا تھا مرکز کے لوگ اس کی بیعت کرتے تھے اس کے بعد روداد کی صوبوں اور آبادیوں تک اطلاع دی جاتی تھی اور بڑے شہروں کی بعض معروف شخصتیں وفد کی صورت میں نمائندہ کے طور پر آکر اپنی اور شہروں کے باشندوں کی طرف سے نئے خلیفہ کی بیعت کرتی تھیں۔s
عبد الرحمان بن ملجم نے بھی اسی وقت ان کے پاس آکر ان کی طرف دستِ بیعت پھیلا یا ، لیکن امیر المؤمنین نے اس کی بیعت کو قبول نہیں کیا ، وہ دوسری بار آیا تاکہ ان کی بیعت کرے پھر امیر المومنین نے اس کی بیعت قبول نہیں کی یہاں تک تیسری بار اس کی بیعت کو قبول کیا اور کہا:
” کس چیز نے شقی ترین لوگوں کو روکا ہے “ اس کے بعد اپنی داڑھی کو ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا:
” قسم اس خدا کی جس کے ہاتھ میں علی کی جان ہے میری یہ داڑھی میرے سر کے خون سے رنگین ہوگی“۔
” و الذی نفسی بیدہ لتخضبن ھذہ من ھذہ “ ۱
امیر المؤمنین کی نگاہ جب ابن ملجم پر پڑی تھی تو یہ شعر پڑھ کر گنگنانے لگے:
ارید حیا تہ و یرید قتلی عذیرک من خلیلک من مراد ۲

سیف کی روایت کی تحقیق اور بررسی
یہی عبدا لرحمان بن ملجم مرادی ہے کہ سیف نے گزشتہ چند روایتوں میں اس کے نام کو تبدیل کرکے خالد بنادیاہے ۔ اور اس تبدیلی اور تحریف کو اس نے جنگجو اصحاب کے فضائل کی تشہیر کے ضخیم
-----------
۱۔ انساب سمعانی : ورقہ ۴۰۱ ، اور لسانی المیزان : ۳/ ۴۳۹۔
۲۔ الاغانی : ۱۴ /۳۳، تاریخ ابن اثیر ۳/ ۳۲۶اور وہ مورخین ،جنہوں نے حضرت علی علیہ السلام کے قاتل کا نام عبد الرحمان بن ملجم لکھا ہے نہ خالد بن ملجم وہ درج ذیل ہیں :الف) یعقوبی اپنی تاریخ کی ج ۲/۲۱۲ اور ۲۱۴ پر ۔ب) ابن سعد، طبقات، ج ۶، ص ۶۱۔ج) ابن حزم، جمہرة انساب العرب، ص ۲۰۰

پردے کے پیچھے مخفی اور پوشیدہ رکھا ہے تا کہ اپنے جھوٹ کو رواج دینے اور اشاعت کرنے میں بیشتر وسائل و امکانات مہیا کرسکے،اسی مقصود سے سیف :
پہلی روایت میں کہتا ہے :عمر ابن خطاب نے ” صرار “ کے مقام پر اپنے سپاہیوں کی پریڈ کا مشاہدہ کرتے ہوئے خالد بن ملجم سے نفرت و کراہت اور سپاہ میں اس کی موجودگی پر پریشانی کا اظہار کیا ،خلیفہ کے اس کام سے لوگ تعجب و حیرت میں پڑے یہاں تک کہ امیر المؤمنین کے قتل کے بعد ان کے بارے میں خلیفہ کی حیرانی اور پریشانی کی علت سمجھ گئے کہ عمر کو ان کے ہاتھوں مستقبل میں انجام پانے والی خیانت کے بارے میں علم تھا۔
دوسری روایت میں کہتا ہے ؛ تیسرے خلیفہ عثمان نے لوگوں سے عادلانہ برتاؤ اور خوش اخلاقی کے پیش نظر ، بعض اشخاص کو ماٴموریت دیدی تاکہ قصبوں میں جاکر ان شکایتوں کی تحقیقات کریں جو انھیں پہنچی تھیں ۔ واپسی پر ان انسکپٹروں نے خلیفہ کے گورنروں کے بارے میں لوگوں کی رضا مندی اور کسی قسم کی شکایت نہ رکھنے کی رپورٹ کے علاوہ کچھ اور نہیں لاےا ۔ ان انسپکٹروں میں صرف عمار تھے جو مصر میں ماٴموریت کے دوران ” ابن السوداء “ اور خالد بن ملجم اور تمام سبائیوں سے مل کر ان کا ہمنوا بنے اور یہی سبائی تھے جولوگوں کو شکایتیں لکھنے پر اکساتے تھے ۔
تیسری روایت میں کہتا ہے : جنگ جمل میں طرفین ---جس میںد ونوں طرف اصحاب رسول تھے --اور کمانڈروں کے درمیان صلح کا معاہدہ طے پایا تھا اور جنگ کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اسکے بعد سبائیوں کی سازش کی وجہ سے ، جن میں خالد بن ملجم بھی تھا ۔ جنگ کے شعلے دوبارہ بھڑک اٹھے ۔
ظاہر ہے کہ ان تین روایتوں میں سیف نے بہت سارے حقائق میں تبدیلی پیدا کر کے کثرت سے جھوٹ کی ملاوٹ کر دی ہے اور بے شمار جھوٹ گڑھ لیا ہے، کیونکہ نہ خلیفہ دوم اپنی فوج کا پریڈ دیکھنے کیلئے ” صرار“ گئے تھے اور نہ ہی انھوں نے اپنی فراست اور ذہانت سے ابن ملجم سے اظہار تنفر کیا ہے بلکہ اس کے بر عکس سیف کے کہنے کے مطابق خلیفہ نے مصر کے گورنر کو سفارش و تاکید کی تھی کہ ابن ملجم کی تجلیل اور احترام کرکے اسکے گھر کو مسجد کے قریب قرار دے تا کہ وہ احکام و قرآن کی تعلیم دینے کی ذمہ داری سنبھالے ۔
جی ہاں ، یہ امیر المومنین علی علیہ السلام تھے کہ جنھوں نے ابن ملجم کے بارے میںکراہت و نفرت کا اظہار کیا اور اس کی بیعت کوکئی بار مسترد کیا نیز ہمیشہ اس شعر کو پڑھتے رہے:” ارید حیاتہ“
اس کے علاوہ نہ خلیفہ سوم عثمان نے کسی کو لوگوں کی شکایتوں کی تحقیقات کیلئے کہیں بھیجا تھا اور نہ جعلی پارٹی سبائیوں کی سازش کا نتیجہ میں لوگوں نے بنی امیہ کے گورنروں کے خلاف کوئی شکایت خلیفہ کو بھیجی تھی اور نہ تحقیق کی غرض سے عمار یاسر کو مصر بھیجنے کی داستان صحیح ہے اور نہ مذکورہ جعلی پارٹی کے ذریعہ اسکے فریب کھانے میں کوئی حقیقت ہے ۔
اسکے علاوہ نہ جنگ جمل میں صلح کا کوئی موضوع تھا اور نہ سبائیوں کی سازش کے نتیجہ میں یہ صلح جنگ میں تبدیل ہوئی ہے اور نہ سبائیوں کے نام پر دنیا میں کوئی گروہ وجود میں تھا اور نہ کوئی صحابی رسول بنام قعقاع وجود رکھتا تھا جو جنگ جمل میںسفیر صلح ہوتا۔
اور نہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا قاتل خالد تھا ، بلکہ یہ سب سیف کے جعل کردہ افسانے ہیں جو اس نے کفر و الحاد کے زیر اثر یہ سب تغیرات اور تحریفات کو جنم دے کر مسلمانوں بالخصوص مورخین کے حوالے کر دیا ہے تا کہ اس طرح اسلام کی صحیح تاریخ کو درہم برہم کر دے اور تاریخی حقائق کو مخفی ، مبہم اور پیچیدہ بنا کر رکھ دے اور ان تمام جعلی ، تبدیلیوں اور تحریفات میں اول سے آخر تک، صاحب اقتدار اصحاب کی فضیلت تراشی اور مدح گوئی سے پورا پورا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور انھیں اپنے لئے آلہٴ کار قرار دیا ہے اور اس طرح اپنے ناپاک عزائم، کو اصحابِ پیغمبر کے دفاع اور ان کے فضائل کی تشہیر کی آڑ میں مسلمانوں تک پہنچا دیا ہے ․․․

معاویہ بن رافع اور عمرو بن رفاعہ
اللھمَّ ارکسھما فی الفتنة رکساً
خدایا ! معاویہ و عمراور عاص کو فتنہ و فساد میں غرق فرما!
رسول خدا

معروف افرادکے نام تبدیل کرکے دوسرے غیر معروف نام رکھنے کے دو اور نمونے یہ ہیں کہ سیف معاویة بن ابی سفیان اور عمرو عاص کی حمایت کیلئے ۔” ابو برزہٴ اسلمی “ ۱ کی روایت میں ان کے نام بدل کر معاویہ بن رافع اور عمرو بن رفاعہ رکھا ہے روداد کی تفصیل حسب ذیل ہے :
ابوبرزہ اسلمی کہتا ہے : ہم ایک سفر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تھے ۔ دو افراد کی نغمہ خوانی اور غنا کی آواز آنحضرت کے کانوں تک پہنچی کہ وہ ترانہ گا رہے تھے اور شعر پڑھ رہے
-----------
۱۔ ابو برزہ کا نام غضة بن عبید ہے ، وہ اوائل اسلام میں مسلمان ہوا جنگ خیبر ، حنین اور فتح مکہ میں آنحضرت کے حضور میں شرکت کی اور جنگ نہروان و صفین میں حضرت علی کی رکاب میں شرکت کی اس نے بصرہ میں سکونت اختیار کی اس کے بعد جنگ خراسان میں شرکت کی اور ساٹھ (۶۰) یا ستر (۷۰) سال کی عمر میں وہیں پر فوت ہوا ، اور جس دن سر مبارک امام حسین یزید کے سامنے لایا گیا ابو برزہ اس مجلس میں حاضر تھا اور یزید جب ایک چھڑی سے امام حسین کے خوبصورت دانتوں کی طرف اشارہ کررہا تھا ، ابو برزہ نے کھل کر اعتراض کیا اور کہا: یزید : اپنی چھڑی کو ان دانتوں سے اٹھالے ، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان دانتوں کو چوم رہے تھے یزید ! قیامت کے دن تیرا شفیع ابن زیاد ہوگا اور ان کا شفیع رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے یہ کہکر ابوبرزہ مجلس سے اٹھ کر چلا گیا ۔ طبقات : ۷ /۲/ ۱۰۰، اصابہ : ۳/ ۵۲۶ تشریح نمبر ۸۷۱۸ ، تہذیب، ۱۰/ ۴۴۶ تشریہ نمبر ۸۱۵۔

یزال حواری تلوح عظامہ
زوی الحرب عنہ ان یجن و یقبرا

ترجمہ: میرے اس خیر خواہ دوست کی ہڈیاں نمایاںو ظاہر ہیں کیونکہ جنگ اس کے کفن و دفن میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ذرا دیکھئے یہ غنا کی آواز کہاںسے آرہی ہے اور کس کی ہے ؟ کہا گیا : یا رسول اللہ ! یہ معاویہ اور عمرو عاص ہیں کہ اس طرح گانا گاتے ہیں ؛ رسول خدا نے دعا کی : خدایا ! انھیں فتنہ میںغرق فرما اور انھیں آگ کی طرف کھینچ لے !
اللھم ارکسھما فی الفتنة رکسا و دعھما الی النار دعاً ۱
سیف نے دیکھا کہ یہ روایتیں معاویہ اور عمرو عاص کی آبروریزی کرتی ہیں اور ان کے اصلی چہرے کو دکھاتی ہیںلہذا اس نے ان میں تحریف کرکے معاویہ و عمروعاص کے نام بدل کر ان کی جگہ پر معاویہ بن رافع اور عمرو بن رفاعہ لکھ دیا ہے تا کہ اس طرح معاویہ اور عمرو عاص کے چہروں پر ایک نقاب کھینچ سکے اور ان کے نفرین شدہ چہروں کو چھپادے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ان کے بارے میں کی گئی نفرت و بیزاری کو دوسروں کی گردن پر ڈال سکے اسی لئے اس نے مذکورہ روایت کو
-----------
۱۔ معاویہ اور عمرو عاص کے بارے میں پیغمبر خدا کی نفرین کی حدیث ابوبرزہ کی روایت میں جن الفاظ کے ساتھ آئی ہے ، انہیں الفاظ میں :

۱لف۔ احمد بن حنبل اپنی مسند ، ۴/ ۴۲۱ میں درج کیا ہے ۔ اس تفاوت کے ساتھ کہ اس نے ان دو کے نام کی جگہ پر فلاں فلاں کا استعمال کیاہے اور ان کے نام فاش نہیں کئے ہیں ، لیکن :
ب۔ نصر بن مزاحم کی کتاب صفین کے ۱۲۹ پر یہ روایت مکمل طور پر نقل کی گئی ہے اور
ج۔ سیوطی نے اللئالی المصنوعہ میں اور ابولیلی نے اپنی مسند میں نفرین کی روایت کو مکمل طور پر درج کیا ہے ۔
اس طرح نقل کیا ہے کہ راوی کہتا ہے :
میں ایک سفر کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تھا ۔ آنحضرت کے کانوں تک ایک آواز پہنچی میں اس طرف چلا گیا جہاں سے آواز آرہی تھی ، میں نے دیکھا کہ معاویہ بن رافع اور عمرو بن رفاعہ ہیں ، جو ترانہ لایزال حواری ․․․․ گا رہے تھے میں نے روداد آنحضرت کی خدمت میں بیان کی ۔ پیغمبر نے ان کے بارے میں نفرین کی اور فرمایا: اللھم ارکسھما فی الفتنة رکساً پیغمبر کی یہی نفرین سبب بنی کہ آنحضرت کے سفر سے واپس ہونے سے پہلے عمرو بن رفاعہ اس دنیا سے چلا گیا ۱
ابن قانع اس روایت کو سیف سے نقل کرنے کے بعد کہتا ہے : اس روایت نے مشکل حل کردی ہے اور واضح ہوا کہ پہلی حدیث میں غلطی ہوئی ہے یعنی اصلی حدیث کہ اس حدیث میں ” ابن رفاعہ “ نامی ایک منافق کی جگہ پر ” ابن عاص “ اور ایک دوسرے منافق ” معاویہ بن رافع ‘ کی جگہ پر ”معاویہ بن ابی سفیان “ درج ہوکر مشتبہ ہوا ہے اس کے بعد کہتا ہے : خدا بہتر جانتا ہے ۔

سیف کی روایتوں کی چھان بین:
اس حدیث اور پیغمبر خدا کی سیرت کے اس حصہ ( جو سیف کی روایت میں ذکر ہو اہے ) کی دقیق تحقیق اور جانچ پڑتال سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے دو اشخاص کے نام میں تحریف کی ہے
-----------
۱۔ اس روایت کو سیوطی نے اللئالی المصنوعہ : ۱/ ۴۲۷ میں ابن قانع کی ” ُمعجم الصحابہ “ سے نقل کیا ہے ۔

اور دو روایتوں کو بدل دیا ہے اور انھیں آپس میں ملا کر ایک تیسری روایت جعل کی ہے اس کے بعد اس جعلی روایت کیلئے خود ایک سند بھی جعل کی ہے اور ہماری سابق الذکر روایت کے مانند اسے درست کیا ہے ۔
سیف کی تحریف کی گئی دو روایتوں میں سے ایک کو ہم نے اس فصل کی ابتداء میںا بو برزہ اسلمی سے نقل کیا ہے ۔
لیکن دوسری روایت جس میں سیف نے تبدیلی کر دی ہے ، ” رفاعہ بن زید “ کی موت کی روداد ہے کہ اسے ابن ہشام نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے جگہ” بنی المصطلق “ سے واپسی کی روداد کے ضمن میں یوں ذکر کیا ہے :
رسول اکرم لوگوں کے ساتھ روانہ ہوئے اور حجاز کے بیابانوں سے گزرے یہاں تک حجاز کی آبادیوں میں سے بقیع سے اوپر بقعا نامی ایک آبادی میں پہنچ گئے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب وہاںسے روانہ ہونا چاہتے تھے ، ایک تیز ہوا چلی ، لوگ ترس و وحشت میں پڑے ۔ رسول خدا نے فرمایا: اس طوفان سے نہ ڈرنا کیونکہ یہ ہوا کفار کے ایک بزرگ شخص کی موت کیلئے چلی ہے ۔
جب آنحضرت مدینہ میں داخل ہوئے تو معلوم ہو اکہ اسی دن رفاعہ بن زید بن تابوت فوت ہوا ہے ۱
-----------
۱۔ سیرة ا بن ہشام : ۳/ ۳۳۶ ، اور سیرہ ابن ہشام میں اس بارے میںد وسری احادیث بھی ذکر ہوئی ہیں : ۳/ ۱۳۷ و ۱۵۰ و ۱۸۸ و ۱۹۸

جو قبیلہٴ قینقاع سے تعلق رکھتا تھا اور یہودیوں کا سردار اور منافقین کی پنا گاہ تھا ۔
سیف پہلی روایت میں ” معاویہ“ کے نام کو ’ ’ معاویہ بن رافع “ اور ” عمرو عاص “ کے نام کو ”عمرو بن رفاعہ بن تابوت “ میں تبدیل کرتا ہے جس طرح جملہ ” سمع رجلین یتغنّیان “ کو ”سمع صوتا“ میں تحریف کیاہے اوررفاعہ کی موت کی روداد کو دو صحابیوں کے گاناگانے کی روداد سے ممزوج کیا ہے اور ان دو روایتوں کو آپس میں ملا کر اور تغیر و تبدیلی اور فریب کارانہ دخل و تصرف سے ایک اور روایت جعل کی ہے اور اس طرح ” معاویہ بن ابوسفیان “ اور ” عمرو عاص “ کو نغمہ خوانی اور پیغمبر کی نفرین سے بری کرکے دوسروں پر یہ تہمت لگانے میںکامیاب ہوا ہے کیونکہ اگر ان دو اشخاص کی اصلیت کے بارے میں مسلمان آگاہ ہوتے تو بعض مسلمان آج تک ان کی پیروی نہ کرتے لیکن جو بھی تھا ، سیف کی روایت ” ابن قانع “ کےلئے مورد پسند و خوشائند قرار پائی ہے اور اس نے اس کے شبہہ کو دور کیا ہے کیونکہ اس روایت نے اس کی چاہت کی ضمانت مہیا کی ہے اور اس کے اپنے قول کے مطابق مشکل حل ہوئی ہے اور یہ مشکل حدیثِ اول اور معاویہ اور ابن عاص کے بارے میں اعتراض تھا ۔

ابن قانع سے جواب طلبی :
یہاں پر مناسب ہے کہ ہم ابن قانع سے سوال کریں اور کہیں:
مان لیا کہ سیف کی یہ روایت آپ کی نظر میں معاویہ اور عمرو عاص سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نفرین کو دور کرتی ہے اور ان کیلئے مشکلات میں سے ایک مشکل کو برطرف کرتی ہے کیا یہ روایت آپ کو دوسری بہت ساری مشکلات سے دوچار نہیں کرتی ہے ؟
کیا اس صورت میں آپ سے نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ دو منافق ” معاویہ بن رافع “ اور ” عمرو بن رفاعہ “ جو سیف کی روایت میں آئے ہیں --کون ہیں؟ اور کہاں تھے ؟ اور کیوں ان کا نام سیف کے علاوہ کسی اور کی روایت میں نہیں آیا ہے ؟
یا پھر آپ سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ خیالی منافق کیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھا ؟ اور پیغمبر نے اس کے گانے کی آواز سنی ؟ لیکن وہ پیغمبر کے سفر سے واپس آنے سے پہلے ہی مدینہ میں فوت ہو گیا؟
جی ہاں! سیف نے ایسی ہی تحریفیں اور تبدیلیاں وجود میں لائی ہیں اور صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کی تحریفات علماء اور دانشوروں میں رائج ہوئی ہیں ۔کیونکہ اس نے ان تمام تحریفات اور تبدیلیوں کو صاحب اقتدار اصحاب کے فضائل و مناقب کی تشہیر و اشاعت کے ڈھانچے میں ان کے دوستوں اور طرفداروں کے سامنے پیش کیا ہے اور ان کے یہی حامی اور طرفدار ان جھوٹ ، باطل اور تحریفات کی نشر و اشاعت کا سبب بنے ہیں ۔ جو کچھ ایسے مسائل میں ہمارے نقطہ نظر کے مطابق قابل اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ سیف جیسے مجرموں نے حدیث اور سیرت پیغمبر میںا س طرح تحریف کی ہے اور ” ابن قانع “ جیسے دانشوروں نے پوری طاقت سے ان تحریفات کو پیغمبر کی صحیح حدیث اور سیرت کے عنوان سے مسلمانوں میں ترویج کی ہے اور اس کے نیتجہ میں پیغمبر کی صحیح حدیث اور سیرت (جو مجموعاً پیغمبر خدا کی دو سنت ہیں ) مسلمانوں کی پہنچ سے اس حد تک دور رہی ہیں کہ بعض اوقات ان کو فراموش کیا گیا ہے ، اور اس کے بعد جو کوئی اس تحریف شدہ سنت سے تمسک پیدا کرتا ہے اس کی تجلیل کی جاتی ہے اور اسے اہل سنت کہتے ہیں یہاں پر اہل بحث و تحقیق دانشوروں پر لازم اور واجب ہے کہ اپنی پوری طاقت کو بروئے کار لاکر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آلودہ حدیث اور سیرت کو ان ناپاکیوں سے پاک و منزہ کریں تا کہ مسلمان پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی صحیح سنت سے تمسک پیدا کرسکیں ۔