عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
دوسری جلد
 
اسود عنسی کی داستان
لایحرف سیف ولا یختلق الا لتحقیق غایة
سیف اپنے ناپاک عزائم کے علاوہ کسی اور چیز کیلئے کسی حقیقت میں تحریف یا کسی داستان کو جعل نہیں کرتا ہے۔
مولف

سیف کے روایت کے مطابق اصل داستان
طبری نے ’ ’ اسود عنسی ----جس نے یمن میں پیغمبری کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا ----کے بارے میں سیف سے کئی روایتیں نقل کی ہیں ہم ان روایتوں کے خلاصہ کوذیل میں درج کرتے ہیں :
جب اسود عنسی پیغمبری کا دعویٰ کرکے یمن پر مسلط ہوا تو اس نے یمن کے ایرانی بادشاہ ” شہر بن باذان ‘ ‘کو قتل کیا اور اس کی بیوی کے ساتھ شادی کی یمن میں مقیم ایرانیوں کی سرپرستی کو کمانڈر ’ فیروز “ اور آزادبہ نامی دو ایرانی نسل اشخاص کے ذمہ رکھی اور اپنے تمام فوجیوں کے کمانڈر ان چیف کے طور پر ” قیس بن عبدیغوث “ کو منصوب کیا ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ سے ان تین افراد کے نام خط لکھا اور حکم دیا کہ اسود عنسی سے جنگ کریں اور اسے جنگ یا مکر و فریب کے ذریعہ نابود کریں اور ایرانیوں کو اس کے شر سے نجات دلائیں انہوں نے بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق آپس میں اتحاد کیا تھاکہ نیرنگ کے ذریعہ اسود کو نابود کریں لیکن اسود کو شیطان نے اسے اس روداد سے آگاہ کردیالہذا اسود نے قیس کو اپنے پاس بلا کر کہا:
قیس ! یہ میرا فرشتہ کیا کہتا ہے ؟
قیس نے کہا: کیا کہتا ہے ؟
اسود: میرا فرشتہ کہتا ہے تم نے اس قیس کا اتنااحترام کیا ہے اور اسے لشکر کے کمانڈر ی اور اعلی عہدہ تک ترقی دیدی ہے یہاں تک کہ احترام وشخصیت میں تمہارا ہم پلہ بن گیا اب اس نے تیرے دشمن کے ساتھ ہاتھ ملا کر فیصلہ کیا ہے کہ تیری سلطنت کو نابود کردے اور اس نے اپنے دل میں مکر و حیلہ چھپا رکھا ہے ۔
اس کے بعد اسود نے کہا: یہ فرشتہ مجھ سے کہتا ہے : اے اسود ! اے اسود ! اے بد بخت اے بدبخت ! قیس کے سر کو تن سے جدا کردو! ورنہ وہ تجھے قتل کر ڈالے گا اور تیرے سر کو قلم کردے گا ۔
قیس نے کہا: تیری جان کی قسم اے اسود! میرے دل میں تیرا مقام اور منزلت اس سے بالاتر ہے کہ تیرے بارے میں برا سوچوں اور تیری نسبت خیانت کروں
اسود: اے مرد تم کتنے ظالم ہو کہ میرے فرشتہ کو بھی جھٹلاتے ہو معلوم ہوتا ہے کہ اب اپنے عمل سے پشیمان ہوئے ہو اور جو کچھ مجھے میرے فرشتہ نے خبر دی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ میرے بارے میںبدنیتی سے منصرف ہوئے ہو ۔
سیف یہاں پر اسود کے اسی شیطان کو فرشتہ کے نام سے یاد کیا ہے اور روایت کرتا ہے کہ وہ تمام روداد کے بارے میں اسودکو خبر دیتاتھا ۔
سیف کہتا ہے قیس اسود کی مجلس سے اٹھ کے چلا گیا اور اس روداد کو اپنے د وستوں اور ان افراد کے سامنے تفصیلاً بیان کیا جن کے ساتھ اس نے اسود کو قتل کرنے کا منصوبہ مرتب کیا تھا ۔
اسود نے دوسری بار قیس کو اپنے پاس بلا کر کہا:
کیا میں نے تجھے تیرے کام کی حقیقت کے بارے میں آگاہ نہیں کیا؟ لیکن تم نے مجھ سے جھوٹ کہااب پھر فرشتہ مجھ سے کہتا ہے : اے بدبخت اے بد بخت اگر قیس کے ہاتھ کو نہ کاٹو گے تو وہ تیرے سر کو قلم کرکے رکھ دے گا !
قیس نے کہا: میں تجھے ہر گز قتل نہیں کروں گا ، تم خدا کے پیغمبر ہو لیکن تم میرے بارے میں جو مصلحت سمجھتے ہو اسے انجام دو کیونکہ ترس و اضطراب کی حالت میں سر قلم ہونا میرے لئے ناگوار ہے حکم دو تا کہ مجھے قتل کر ڈالیں کیونکہ میرے لئے ایک بار مرنا اس سے بہتر ہے کہ ہر روز خوف و ہراس سے مروں اور پھر زندہ ہوجاؤں نیز ذلت کی زندگی سے مرنا بہتر ہے ۔
سیف کہتا ہے : اسود کو قیس کی اس بات کا اثر ہوا اور اس کیلئے اس کے دل میں رحم پیدا ہوا اور اسے آزاد کردیا ۔
سیف اضافہ کرتا ہے کہ اسود نے حکم دیا اور ایک سو گائے اور اونٹ حاضر کئے گئے اس کے بعد اس کے سامنے زمین پر ایک سیدھا خط کھینچا اور خود اس خط کے مقابلہ میںکھڑا رہا اور اونٹوں کو اسی خط کے پیچھے رکھا اور اس کے بعد ان اونٹوں کے ہاتھ پاؤں باندھے بغیر انھیں نحر کردیا ۔ لیکن ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ نے بھی اس کے معین کردہ خط سے آگے قدم نہیں بڑھایا اور ان سب نے اسی خط کے پیچھے جان دیدی ۔
سیف کہتا ہے : اس دن سے وحشتناک دن نہیں دیکھا گیا کہ ان سب اونٹوں کو جو آزاد تھے ایک ساتھ نحرکر دیا گیا اور ان میںسے ایک نے بھی خط سے آگے قدم نہیں بڑھاےا بلکہ اس خط کے پیچھے تڑپتے ہوئے جان دیدی ۔
سیف دوبارہ اسود کے قتل کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے سلسلہ کوجاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :
آخر کار ان تین افراد جنھوں نے اسود کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا اس کی بیوی کو بھی اپناہم نوا بنا لیا اور فیصلہ کیا کہ اسکی مدد اور تعاون سے رات کے وقت اسود کو قتل کر ڈالیں گے جب وہ اسود کی خواب گاہ میں داخل ہوئے تو فیروز نے اسے قتل کرنے میں پیش قدمی کی اسود کو شیطان نے بیدار کیا اور دشمن کے داخل ہونے کے بارے میں اسے اطلاع دی چونکہ اسود اس وقت گہری نیند میں سویا ہوا تھا اس لئے آسانی کے ساتھ بیدار نہ ہوا ۔ لہذا شیطان خود فیروز کو وحشت میں ڈالنے کیلئے اسود کے روپ میں اس سے مخاطب ہوا اور کہا : فیروز تم مجھ سے کیاچاہتے ہو ؟ جب فیروز نے یہ جملہ سنا تو اس نے اسود کی گردن پر ضرب لگائی اور وہ دم توڑ بیٹھا ۔
سیف کہتا ہے: اس کے بعد فیروز کے دوسرے ساتھی داخل ہوئے تا کہ اسود کے سر کو تن سے جدا کریں ۔ لیکن اسود کا شیطان اس کے بے جان بدن میں داخل ہوا اور اسے حرکت دیتے ہوئے اس کے سر کو تن سے جدا کرنے میں رکاوٹ ڈالتا تھا ان میں سے دو افراد اسود کی پیٹھ پر سوار ہوئے اور اس کی بیوی نے اس کے سر کے بال مضبوطی سے پکڑ لئے تا کہ وہ حرکت نہ کرسکے شیطان اسکے اندر سے نامفہوم باتیں کررہاتھا ۔ آخر کار،چوتھے شخص نے اس کے سر کو تن سے جدا کردیا ۔ اس وقت اسود کے اندر سے ایک خوفناک آواز اور نعرہ بلند ہوا جو گائے کی آواز سے مشابہت رکھتا تھا اوراس دن تک ایسی وحشتناک آواز نہیں سنی گئی تھی ۔یہ آواز اس اسود کے شیطان کی تھی جو اس کے اندر سے پکار رہا تھا یہ آواز جب محافظوں کے کانوں تک پہنچی تو وہ کمرے کے دروازے تک آگئے اور شور وغل کا سبب پوچھا اسود کی بیوی نے کہا: کوئی خاص بات نہیں ہے، پیغمبر پر وحی نازل ہورہی تھی ،وہ ختم ہوگئی ۔
یہ تھا اسود عنسی کے افسانہ کا خلاصہ جسے طبری نے سیف کی گیارہ روایتوں کے ضمن میں بیان کیا ہے اور ذہبی نے بھی ان میں سے دو روایتوں کو ” تاریخ الاسلام “ نامی اپنی کتاب میں درج کیا ہے

سند کی تحقیق اور بررسی
طبری نے اسود عنسی کی داستان کو سیف کی گیارہ روایتوں کے ضمن میں نقل کیا ہے ان میں سے دو روایتوں کے راوی کے طور پر سہل بن یوسف کا نام ملتا ہے اور سہل نے بھی عبید بن صخر نامی ایک شخص سے روایت کی ہے ۔
ان روایتوں میں سے دو روایتوں کی سند میں ” مستنیربن یزید“ کا نام آیا ہے کہ اس نے بھی عروق بن غزیہ سے نقل کیا ہے ۔
اور ان روایتوں میں سے ایک میں خود”عروق بن غزیہ “ کا نام مستنیر کا نام لئے بغیر ذکر ہوا ہے ۔
جو کچھ ہم نے اسود کی داستان کے بارے میں بیان کیا وہ سیف کی روایتوں کا ایک خلاصہ تھا جن کی سند کو مذکورہ چند جعلی راوی تشکیل دے رہے ہیں کہ ہم ان کے حالات پر حسب ذیل روشنی ڈالتے ہیں ۔
۱۔ سہل : طبری نے جو روایتیں سیف سے نقل کی ہیں ان میں سے ۳۷ روایتوں میں اس کا نام ملتا ہے سیف نے اسے یوسف سلمی کا بیٹا بتایا ہے قبائل عرب میں سے کئی قبائل کو سلمی کہتے ہیں ہمارے خیال میں یہاں پر سلمی سے سیف کامقصود وہ شخص ہے جس کا نسب سلمة بن سعد خزرجی انصاری تک پہنچتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کوائف کا کوئی بھی راوی جس کا نام سہل ہو اس کے باپ کا نام یوسف اور وہ سلمة بن سعد خزرجی یا دیگر قبائل سلمی سے منتسب ہو وجود نہیں رکھتا ہے وہ سیف کا جعل کیا ہوا راوی ہے ہم نے جعلی راویوں کے بارے میں اپنی تالیف کی گئی کتاب ” راویان ساختگی “ میں اس حقیقت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔
۲۔ عبید بن صخر بن لوذان سلمی : یہ دوسرا شخص ہے جس کا اسود کی داستان کی سند میں مشاہدہ ہوتا ہے لیکن وہ بھی ان راویوں میں سے ہے جسے سیف نے اپنے خیال سے جعل کیا ہے اور اسے اصحاب پیغمبر کی فہرست میں قرار دیا ہے ہم نے اس کے حالات پر اپنی کتاب ” ایک سو پچاس جعلی اصحاب “میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔
۳۔ عروة بن غزیہ دثینی : عروہ وہ شخص ہے جسے سیف نے قبیلہٴ دثین سے متعلق بتایا ہے اس کا نام سیف کی چھ روایتوں میں ذکر ہوا ہے جنہیں طبری نے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ان چھ روایتوں میں سے چار کو ضحاک بن فیروز نے نقل کیا ہے ۔ لیکن ہم نے عروة کا نام رجال یا تراجم کی کتابوں میں سے سمعانی و حموی کے نقل کے علاوہ کسی اور میں نہیں پایا۔
سمعانی ” کتاب الانساب“ میں لفظ ” دثینہ “ کے ضمن میںکہتا ہے دثینی ، دثینہ سے منسوب ہے اور ہم گمان کرتے ہیں کہ دثینہ یمن کے گاؤں اور آبادیوں میں سے ہوگا اور عروة بن غزہ دثینی بھی ، جو ضحاک بن فیروز سے روایت نقل کرتا ہے اور فتوح سیف بن عمر میں اس کا نام آیا ہے اسی آبادی کے لوگوں میںشمار ہوتا ہے ۔
ابن اثیر نے بھی سمعانی کی اسی بات کو خلاصہ کے طور پر ” اللباب “ میں درج کیا ہے ۱ حموی دثینہ کی تشریح میں کہتا ہے : اور عروة بن دثینی ، جو ضحاک ابن فیروز سے روایت نقل کرتا ہے اسی دثینہ سے منسوب ہے ۔
البتہ سمعانی اور حموی کی روایتوں کے مآخذ وہی سیف کی روایتیں ہیں آخر کار سمعانی نے اس کے مآخذ کو صراحتاً بیان کیا ہے لیکن حموی نے اپنی روایت کے مآخذ کو معین نہیں کیا ہے ۔
۴۔ مستنیر بن یزید : سیف نے اسے قبیلہٴ نخع سے تصور اور خیال کیا ہے کہ اس کا نام طبری کی
-----------
۱۔ رجال اور تراجم ان کتابوں کو کہا جاتا ہے جن میں اشخاص کے حالات کی تشریح کی گئی ہو ۔

سیف سے نقل کی گئی اٹھارہ روایتوں میں مشاہدہ ہوتا ہے لیکن چونکہ ہم نے اسے سیف کی روایتوں کے علاوہ کہیں اور نہیں دیکھا ہے ، لہذا ہم اسے گزشتہ راویوں کی طرح سیف کے جعلی راویوں میں جانتے ہیں ۔

تحقیق اور موازنہ
داستان اسود عنسی کی سند کے تزلزل اور ضعف کے بارے میںیہ ایک خلاصہ تھا جسے سیف نے نقل کیا ہے ۔ لیکن اس داستان کا متن اور مفہوم کے لحاظ سے ضعیف ہونا اسی صورت میں واضح ہوتا ہے کہ ہم دوسرے تاریخ نویسوں کے نقطہٴ نظر پر بھی نگاہ ڈالیں اور اس کے بعد ان دو روایتوں کا آپس میں تطبیق اور موازنہ کریں ۔
اب ہم داستان اسود عنسی کے بارے میں مورخین کی روایتیں بیان کرتے ہیں :
بلاذری نے اپنی کتاب فتوح البلدان میں اسود عنسی کی داستان کو نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :
” اسود بن کعب بن عوف “ فال گوئی اور پیشین گوئی کرتا تھا نیز پیغمبری کا دعوی بھی کرتا تھا اس کے اپنا قبیلہ عنس تھا ، اس کے قبیلہ والے اس کی پیروی کرتے تھے اور دوسرے قبیلوں کے بعض گروہ بھی اس کی طرف رجحان پیدا کرچکے تھے ، اسود نے اپنا ”رحمان یمن “ نام رکھا تھا اور ایک تربیت یافتہ گدھا بھی رکھتا تھا کہ جب بھی اسے کہتا تھا : اپنے پروردگار کیلئے سجدہ کر ، وہ سجدہ میں جاتا تھا اور جب اس سے کہتا تھا: گھٹنے ٹیک ، وہ گھٹنے ٹیکتا تھا، بعض مورخین نے اسود کو ” ذو الحمار “ کہا ہے ۔ کیونکہ وہ ہمیشہ سر پر عمامہ رکھتا تھا۔ بعض مورخین نے کہا ہے کہ اس کا اصلی نام اسود ” عبہلہ “ تھا لیکن چونکہ سیاہ چہرہ تھا ، اس لئے ” اسود “کے نام سے معروف تھا۔
بلاذری کہتا ہے : اسود صنعا گیا اور اس جگہ پر قبضہ جمالیا اور وہاں کے حاکم (جو پیغمبر اسلام کی طرف سے حکومت کرتا تھا ) کو نکال باہر کیا اوریمن میں مقیم ایران نسل کے لوگوں (جو ابناء ا )کہے جاتے تھے کو سخت دباؤ اور جسمانی اذیت کے تحت قرار دیا اور وہاں کے پادشاہ ” باذان “ کی بیوی مرزبانہ “ کے ساتھ شادی کی ۔ جب یہ خبر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچی تو آنحضرت نے ” قیس بن ہبیرة بن مکشوح مرادی“ کو اسود سے جنگ کرنے پرماٴمور کیا اور اسے حکم دیا کہ یمن مین مقیم ایرانیوں کی ہمت افزائی اور انہیں اپنی طرف مائل کرے ۔
جب قيس يمن پہنچا اسود کے پاس يوں ظاہر کيا کہ اسکا پیرو ، ہم عقیدہ اور ہم فکر ہے اسود نے اس کی بات پر یقین کیا اور اس کے صنعا میں داخل ہونے سے مانع نہیں ہوا،قیس قبیلہٴ مذحج، ہمدان اور دوسرے قبائل کے ہمراہ صنعا میں داخل ہوا۔ ایرانیوں کے ایک مشہور شخص فیروز کی حوصلہ افزائی کی خاص کر ایرانیوں کے سرپرست داذویہ کی ہمت افزائی کی ۔ ایرانیوں نے بھی قیس کے توسط سے اسلام قبول کیا ۔ قیس اور ایرانی آپس میں ہم نوا ہوگئے اور اسود کو قتل کرنے میں اتحاد و اتفاق کر لیا۔ چونکہ اسود
-----------
۱۔ چونکہ ابناء، ابن کا جمع یعنی بیٹے ہے اس لئے اعراب یمن میںمقیم ایرانیوں کو ابناء یعنی ایرانیوں کے بیٹے یا ایرانی نسل کہتے تھے ۔

کی بیوی پہلے سے اسکے ساتھ عداوت و دشمنی رکھتی تھی اس لئے قیس اور اس کے ساتھیوں نے مخفی طور پر ایک شخص کو اسکے پاس بھیجا اور اسود کو قتل کرنے میں مدد طلب کی اس نے بھی ان کی نصرت کرنے کا وعدہ کر لیا اور انھیں اسود کے گھر میں منتہی ہونے والے ایک پانی کے راستہ کی راہنمائی کی بعض مورخین کہتے ہیں کہ اسود کے گھر کے دیوار کو سوراخ کیا گیا اور سحر کے وقت اسی جگہ سے اس کی خوابگاہ میں داخل ہوئے اور اسے اپنے بسترہ میں مست پایا پھر فیروز نے اسے اسی حالت میں قتل کر ڈالا اور قیس نے بھی تلوار سے اس کے سر کو تن سے جدا کر ڈالا صبح کا وقت تھا کہ شہرکے قلعہ کے اوپر چڑھ کر تکبیر کی آواز بلند کی اور یوں تکبیر کہی:
الله اکبر ، الله اکبر ، اشھد ان لا الہ الا الله اشھد ان محمداً رسول الله و ان اسود الکذاب عدو الله خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہوں ، شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدا کے رسول ہیںاور اسود جھوٹا اور دشمن خدا ہے ۔
اسود کے حامی اور پیرو جمع ہوئے قیس نے قلعہ کے اوپر سے اسود کے سر کو ان کی طرف پھینک دیا وہ سب ترس و وحشت سے متفرق ہوگئے ان میں سے صرف معدود چند افراد قلعہ کے ارد گرد موجود رہ گئے قیس نے اپنے دوستوں کی مدد سے ان میں سے ایک شخص کے علاوہ (جس نے اسلام قبول کیا تھا) باقی سب کو قتل کر ڈالا ۔
کتاب ” البدء و التاریخ “ کے مؤلف نے اسود کی داستان کو تقریباً اسی مضمون کے ساتھ اپنی کتاب (ج ۵ / ۱۵۴ ۔ ۱۵۵) میں درج کیا ہے۔
یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ میں اس روداد کو خلاصہ کے طور پر نقل کیا ہے ۱
کلاعی نے اپنی کتاب ” الاکتفاء “ میں داستان کو تقریباً مذکورہ صورت میں درج کیا ہے ۲

تحقیق کا نتیجہ
ہم نے یہاں تک داستان اسود کے بارے میں سیف اور دوسرں کی روایتوں کو بیان کیا اور ان دونوں بیانات کا آپس میں موازنہ و تطبیق کی ۔ اب ہم مذکورہ دونوں بیانات کے درمیان اختلاف کا خلاصہ اور نتیجہ پیش کرتے ہیں :
۱۔ سیف کی روایتوں میں یمن کے پادشاہ --- جس کی بیوی سے اسود نے شادی کی ---کا نام ”شہر بن باذان “ ذکر ہوا ہے جبکہ دوسرے مؤرخین نے اس کا نام ” باذان “ بتایا ہے ۔
۲۔ سیف نے قیس کے باپ کا نام عبدیغوث بتایاہے جبکہ دوسرے مورخین نے اس کا نام ” ھبیرہ بن مکشوح “ ۳ بتایا ہے ۔
-----------
۱۔ ج ۲/ ۱۸۰،
۲۔ ملاحظہ ہو کتاب الردة ،ص ۱۵۱ کہ جو کلاعی کی کتاب الاکتفاء سے اقتباس ہے۔
۳۔ جمہرہ ،ص ۳۸۲ پر ابن حزم کے کہنے کے مطابق قیس ، مکشوح کا بیٹا ہے اور مکشوح کا اصلی نام ھبیرہ بن یغوث ہے لہذا اس بناپر قیس بن مکشوح اور قیس بن ہبیرہ بن عبدیغوث ایک ہی شخص ہے لیکن سیف نے قیس کو عبدیغوث کا بیٹا کہا ہے اور درمیان سے ایک واسطہ کو حذف کیا ہے اور اس کا یہ کام اس کا سبب بنا ہے کہ شخصیات کے حالات کی تشریح لکھنے والے مغالطے کا شکار ہوجائیںا ور قیس کے نام پر دو شخص تصور کریں اور اس کیلئے دوبارہ تشریح لکھیں جیسے کتاب اسد الغابہ ، ۴/ ۲۶۲ و ۴/۲۲۷ اور الاصابہ، ۵/ ۷۳ )

۳۔ سیف کہتا ہے : اسود نے اپنے لشکر کی کمانڈری ، یمن میں موجود قیس کو سونپی اور رسول خدا نے قیس جو یمن میں تھا اور یمن میں مقیم ایرانیوں کو ایک خط کے ذریعہ حکم دیا کہ اسود کو قتل کر ڈالیں ۔ لیکن دوسرے مورخین نے کہا ہے : رسول خد ا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیس کو براہ راست اپنی طرف سے اسود سے جنگ کرنے کیلئے بھیجا اور اسے حکم دیا کہ وہاں پر مقیم ایرانیوں کے ساتھ پیار محبت سے پیش آئے اور ان کی ہمت افزائی کرے ۔ جب قیس صنعا میں داخل ہونا چاہتا تھا تو اس نے اسود کا پیرو اور حامی ہونے کا اظہار کیا ، اسود نے بھی اس پر یقین کر لیا اور قیس کو صنعا میں داخل ہونے کی اجازت دیدی۔
یہ ان تحریفات و تغییرات کا خلاصہ تھا جسے سیف نے اسود کی داستان میں انجام دیا ہے ، لیکن وہ چیزیں جو سیف نے اس داستان میں خود اضافہ کی ہیں اور جھوٹ اور افسانے کے طور پر اس داستان میں ضمیمہ کی ہیں وہ حسب ذیل ہیں کہ کہتا ہے :
۱۔ اسود کا ایک شیطان تھا جو اسے وحی کرتا تھا اور اسے غیب کی اطلاع دیتا تھا اسود اسے اپنا ”فرشتہ “ کہتا تھا ۔ اس شیطان نے اسود کو چند بار خبر دی کہ ” یہ قیس ، جسے تم نے عزت و احترام میں اپنے برابر پہنچا دیا ہے، عنقریب تمہیں قتل کر ڈالے گا۔
سیف کہتا ہے: اسود نے زمین پر ایک لکیر کھینچی اور اس لکیر کے پیچھے سو اونٹ اورگائے جمع کیں ، پھر ان کے سامنے کھڑا ہوا ا س کے بعد بغیر اس کے کہ ان حیوانوں کے ہاتھ پاؤں باندھے انھیں نحر کردیا ، جبکہ ان میں سے ایک نے بھی لکیر سے باہر قدم نہیں رکھا ۔ اسی حالت میں رکھا تا کہ لکیر کے اس طرف تڑپتے ہوئے جان دیدیں ۔
سیف اسود کے اس معجزہ کو روداد کے شاہد کے طورپر اپنے راوی کے ایک دوسرے جملہ سے مستحکم اور مضبوط بناتا ہے کہ: وہ کہتا ہے کہ ”میں نے اس سے خطرناک اور وحشتناک ترین دن کبھی نہیں دیکھاتھا “
۳۔ سیف کہتا ہے :جب اسود کے قاتل اس کی خوابگاہ میں داخل ہوئے اور وہ اپنے بستر پر گہری نیند سورہا تھا تواس کا شیطان --- جسے فرشتہ کہتے تھے --- اسودکے قاتلوں کو ڈرانے دھمکانے کیلئے اسود کے روپ میں اس کے لہجہ و زبان سے بات کرتا تھا۔
سیف کہتا ہے: وہی شیطان اسود کے قتل ہونے کے بعد اس کے بدن میں داخل ہوا اور اس کے جسم کو ہلا رہا تھا تا کہ اس کے قاتل اس پر کنٹرول کرکے اس کا سر تن سے جدا نہ کرسکیں یہاں پر قاتلوں میں سے دو افراد اس کی پیٹھ پر سوار ہوگئے اور اس کی بیوی نے اس کے سر کے بال پکڑلئے اور ایک شخص نے اس کے سر کو تن سے جدا کیا۔ اس دوران شیطان مبہم اور غیر مفہوم باتیں کرتے ہوئے فریاد بلند کررہا تھا ۔ جی ہاں ! سیف ان معجزوں اور غیر معمولی واقعات کو اس جھوٹے پیغمبر اسود کیلئے بیان کرتا اور اس طرح اس کی تعریف و توصیف کرتا ہے۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ ایک جھوٹے پیغمبر کیلئے یہ معجزہ گڑھنے میں سیف کا محرک اور مقصد کیا تھا ؟
کیا سیف نے کسی مقصد کے بغیر اس افواہ بازی کو انجام دیا ہے ؟ جبکہ ہم جانتے ہیں وہ مقصد کے بغیر کسی بھی حقیقت کو تحریر نہیں کرتا ہے اور مقصد کے بغیر کسی جھوٹ کو نہیں گڑھتا ہے ؟
کیا اس معجزہ سازی سے اس کا مقصود یہ تھا کہ اس طرح اسود کیلئے چند فضائل و مناقب جعل کرے ؟ جبکہ اسود عنسی قبیلہٴ قحطان سے تعلق رکھتا ہے اور سیف ہمیشہ قبیلہ قحطان کے عیوب ثابت کرتا ہے نہ مناقب۔ اس کے علاوہ سیف نے اپنی روایت کو اسود کی فضیلت کے طور پر بیان نہیں کیا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ اسود شیطان کے زیر اثر تھااور شیطان اس کے ساتھ گفتگو کرتا تھا لیکن خود اسود اسے فرشتہ کہتا تھا ۔
بہر حال یہ شیطان وہی تھا جس نے قیس کی روداد کے بارے میں اسود کوخبر دی ، وہی تھا جب اسود اپنے بسترہ پر گہری نیند سورہا تھا ، اسود کی زبانی باتیں کرتاتھا ، اور وہی شیطان تھا جو اسود کے جسم کو ہلا رہا تھا تا کہ اس کے قاتل اس کا سر تن سے جدا نہ کرسکیں یہا تک چار آدمی آپس میں تعاون کرتے ہیں تا کہ اس کے بدن کی حرکت کو روک لیں پھر اس کا سر تن سے جدا کر سکے ہیں۔
سیف کے ان مجموعی بیانات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اس جھوٹے پیغمبر کو شیطان عالم غیب کی خبر دیتا تھا اور غیر معمولی و قانون فطرت کے مخالف کام کو اس کی زبان اور سائر اعضاء سے جاری کرتا تھا وہ حقیقت میں شیطان تھا لیکن اسود اسے فرشتہ کہتا تھا اور بہت سے لوگ اس کے ان غیر معمولی کارناموں کی وجہ سے اس پر ایمان لے آئے تھے۔
یہ وہ مطالب ہیں جنہیں سیف نے خود جعل کرکے اسود کی داستان میں اضافہ کیا ہے، لیکن کس محرک نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا ؟ اس کو خدا بہتر جانتا ہے ہمیں کیا معلوم؟
شاید سیف کے ان جھوٹ اور اکاذیب جعل کرنے میں اس کا مقصد یہ تھا کہ وحی ، ملائکہ ، غیب کی خبریں ، معجزات کی کیفیت اوردر نتیجہ پیغمبروں کے غیر معمولی کار نامے کا مضحکہ کرنا تھا جیسا کہ اس نے اس افسانہ میں انجام دیا ہے اور انھیں شیطانیحرکت یا کہا نت یا جنات اور شیاطین سے ارتباط کے طو پر معرفی کرتا ہے اور اس داستان کو تمام پیغمبروں کے غیبی ارتباط اور فعالیت کے ایک نمونہ کے طور پر پیش کرتا ہے اس طرح ان تحریفات میں اس کا محرک پیغمبروں کے کام کا مذاق اڑانا ہے اس میں اس کا وہی زندقہ و بے دین ہونا کارفرما تھا ۔
شاید وہ اس طرح مسلمانوں کو ان کے عقیدہ میںسست او رمتزلزل کرنا چاہتا تھا تا کہ انھیں اس طرح تلقین کر ے کہ کیا معلوم اسود کے غیبی کارنامے نیرنگ اور شیطنت پر متکی ہوں اور دوسرے پیغمبروں کے کارنامے فرشتہ و حقیقت پر متکی ہوں؟ شائد دوسرے پیغمبربھی اسود کے مانند ہوں اور ان کے فرشتے بھی اسود کے فرشتہ کے مانند تھے !
بہر حال ، سیف کا مقصد جو بھی ہو ، وہ اس کام میں کامیاب ہوا ہے کہ خرافات کو مسلمانوں کے عقائد میں ملاوٹ کرکے اپنے جھوٹ اور جعلیات کو ان کے ذہن میں ڈال دے ۔
یہاں تک کہ طبری جیسے مورخین اور نامور مؤلفین نے بھی اس کے جھوٹ اور جعلیات کو مسلمانوں کے درمیان شائع کیا ہے اور صدیاں گزرنے کے بعد بھی کسی نے ان پر توجہ نہیں کی ہے ۔

اسود عنسی کی داستان کے راویوں کا سلسلہ
اولا ً: سیف نے جس داستان کو اسود عنسی کی داستان کے نام سے جعل کیا ہے ، وہ دو حصوں پر مشتمل ہے:
۱لف ) اس کے ایک حصہ میں اصلی داستان میں بعض مطالب تحریف کئے گئے ہیں اس کو سیف نے تحریف اور رنگ آمیزی کرکے ایک نئی صورت دیدی ہے ۔
دوسرے حصہ میں ایسے افسانے ہیں کہ سیف نے خود انہیں جعل کیا ہے اور اصل داستان میں ان کا اضافہ کیاہے ۔
اس کے بعد ان سب کو روایتوں اور احادیث کی صورت میں پیش کیا ہے اور ان روایتوں کیلئے اپنے جعلی راویوں کے ذریعہ ایک سند بھی جعل کی ہے اور اسے مکمل اور مضبوط کرنے کے بعد علمائے تاریخ کی خدمت میں پیش کیا ہے ۔
سیف نے ان روایتوں کو مندرجہ ذیل راویوں سے نقل کیا ہے :
۱۔ سہل بن یوسف سلمی
۲۔ عبد بن صخر بن لوذان سلمی انصاری
۳۔ عروة بن غزیہ دثینی
۴۔ مستنیر بن یزید نخعی
ہم نے حدیث اور رجال اور تاریخ کی کتابوں میںتحقیق کرنے کے بعد جان لیا کہ یہ سب افراد سیف کے جعلی راوی ہیں اور حقیقت میں ان کا کہیں وجود ہی نہیں تھا ۔
ثانیاً : اسود عنسی کی داستان کی جن روایتوں کو سیف نے اپنے جھوٹے روایوں سے نقل کیاہے ، مندرجہ ذیل مؤرخین نے انھیں ان سے لے کر اپنی کتابوں میں درج کر دیا ہے :
۱۔ طبری نے سند کے ذکر کے ساتھ۔
۲۔ ذہبی نے ” تاریخ اسلام “ میں سیف تک سندکے ذکر کے ساتھ ۔
۳۔ ابن اثیر نے ” الکامل “ میں ۔
۴۔ ابن کثیر نے البدایہ و النہایة میں ۔
موخر الذکر دو مورخین نے اسود عنسی کی داستان کے بارے میں سیف کی روایتوں کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔
۵۔ سمعانی نے ” انساب“ میں ان روایتوں کے ایک حصہ کو درج کیا ہے ۔
۶۔ ابن اثیر نے ان روایتوں کو ” لباب“ میں درج کیا ہے لیکن یہاں پر سمعانی سے نقل کرتا اور اس کی سند کو سیف تک پہنچاتا ہے۔
۷۔ حموی نے ” معجم البلدان “ میں ان روایتوں کے ایک حصہ کو سند کے بغیر درج کر دیا ہے۔

جواہرات کی ٹوکری اورحضرت عمر کا معجزہ
لست ادری ما ذا قصد واضع ھذا الخبر
میں نہیں جانتاکہ اس جھوٹی داستان کو جعل کرنے والے کا مقصود کیا ہے ؟
مولف

ہم نے گزشتہ فصلوں میں کہا کہ سیف کی خرافات پر مشتمل داستانیں دو قسم کی ہیں : ان میں سے ایک حصہ کو سیف نے خود جعل کیا ہے اور اس کا دوسرا حصہ ان جعلی داستانوں پر مشتمل ہے کہ جس میں دوسروں نے بھی اس کا ہاتھ بٹایا ہے ۔ ہم نے سیف کی ان داستانوںکے نمونے گزشتہ پانچ فصلوں میں پیش کئے ، جنہیں سیف نے خود جعل کیا ہے ۔ اب اس فصل میں خرافات پر مشتمل اس کی ان داستانوں کے سلسلہ کو پیش کریں گے جن کے جعل کرنے میں دوسروں نے بھی سیف کا ہاتھ بٹایا ہے پھر یہ داستانیں تاریخ اسلام اور مسلمانوں کے عقائد میں داخل ہوئی ہیں ، جیسے مندرجہ ذیل داستان:
سیف کہتا ہے :
خلیفہٴ دوم عمر بن خطاب نے ” ساریہ بن زنیم دئلی “ کو ” فسا“ اور ” داراب“ کے شہروں کی طرف روانہ کیا، ساریہ کے سپاہیوں نے ان دو شہروں کے باشندوں کو اپنے محاصرہ میں لے لیا ۔ ایرانیوں نے اطراف و اکناف میںخبر دی اور دیہات و قصبوں کے لوگوں سے مدد طلب کی ،لوگ ہر طرف سے ان کی طر ف مدد کوآ گئے اور اس طرح ایک عظیم فوج جمع ہوگئی اور ساریہ کے سپاہیوں کو اپنے بیچ میں قرار دیا ۔ خلیفہٴ دوم عمر مدینہ میں نما ز جمعہ کے خطبے پڑھنے میں مشغول تھے ، وہاں سے جب انھوں نے فسا میںساریہ کے سپاہیوں کے حالات کا مشاہدہ کیا۔ تو وہیں سے ان کی طرف خطاب کیا : ” یا ساریة بن زنیم الجبل ، الجبل “ اے ساریہ ! پہاڑ کی طر ف پناہ لے لو ۔ پہاڑ کی طرف ، فسا میں مسلمانوں نے مدینہ سے عمر کی آواز سنی ۔ وہ ایک پہاڑ کے کنارے پر پناہ گزیں تھے کہ اگر اس پہاڑ میں پناہ لیتے تو دشمن صرف ایک طرف سے ان پر حملہ کرسکتا تھا ۔ مسلمان سپاہیوں نے بھی عمر کی آواز سن کر اسی پہاڑ میں پناہ لے لی اور وہاں سے ایرانیوں پر حملہ کیا اور انھیں شکست دیدی ساریہ نے اس جنگ میں کافی مقدار میں مال غنیمت پر قبضہ کیاکہ ا ن میں گراں قیمت جواہرات سے بھری ایک ٹوکری بھی تھی۔ ساریہ نے سپاہیوں سے درخواست کی کہ جواہرات بھری یہ ٹوکری خلیفہ کو بخش دیں ۔ سپاہیوں نے اس کی موافقت کی ساریہ نے اس ٹوکری کو فتح کی نوید اور خبر کے ساتھ اپنے ایک سپاہی کے ذریعہ عمر کے یہاں بھیج دیا ۔وہ شخض خلیفہ کی مجلس میں اس وقت پہنچا جب دستر خوان بچا ہوا تھا اور ایک گروہ کو کھانا کھلا یا جارہا تھا ۔ ساریہ کا قاصد بھی خلیفہ کے حکم سے ان سے جاملا ، جب انہوں نے کھانا کھا لیا تو خلیفہ اٹھ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے ، ساریہ کا قاصد بھی اس کے پیچھے پیچھے چلا ، عمر جب گھر پہنچے تو اس کیلئے دوپہر کا کھانا لایا گیا جو خشک روٹی ، روغن زیتون اور نمک پر مشتمل تھا ، عمر نے اپنی بیوی ام کلثوم سے کہا:
کیا کھانا کھانے کیلئے ہمارے پاس نہیں آؤگی ؟
ام کلثوم نے کہا: میں آپ کے پاس ایک اجنبی مرد کی آواز سن رہی ہوں ۔
عمر نے کہا: جی ہاں ، ایک اجنبی مرد میرے پاس بیٹھا ہوا ہے ۔
ام کلثوم نے کہا: اگرآپ چاہتے ہیں کہ میں مردوں کے پاس آجاؤں ، تو میرے لئے بہتر اور مناسب لباس فراہم کریں۔
عمر نے کہا؛ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ لوگ یہ کہیں کہ ام کلثوم علی کی بیٹی اور عمر کی بیوی ہے ؟ ام کلثوم نے کہا: یہ کوئی ایسا فخر نہیں ہے جو مجھے خوشنود یا سیر کرے عمر نے ساریہ کے قاصد سے کہا؛ سامنے آجاؤ اور کھانا کھاؤ ، اگر وہ مجھ سے راضی ہوتی تو یہ کھانا اس سے بہتر ہوتا ۔
سیف کہتا ہے : دونوں کھانا کھانے میں مشغول ہوئے ، جب کھانے سے فارغ ہوئے تو اس شخص نے کہا: میں آپ کے لشکر کے کمانڈر ساریہ کا قاصد ہوں ۔
عمر نے اسے خوش آمدید کہا اور اپنے بہت نزدیک بٹھایا اس کے بعد لشکر کے بارے میں اس سے حالات پوچھے ساریہ کے قاصد نے مسلمانوں کی فتح وکامیابی کی خبرخلیفہ کو سنادی اور جواہرات کی ٹوکری کی روداد سے بھی انھیں آگاہ کیا ۔ عمر نے اسے قبول نہیں کیا اور اس کے ساتھ تند کلامی کرتے ہوئے بولے: ان جواہرات کو واپس لے جاؤ اور سپاہیوں کے درمیان تقسیم کردو
سیف نے ایران کے شہر ” فسا“ اور ” داراب“ کی فتح کی داستان کو دو مختلف سندوں سے نقل کیا ہے ان میں جواہرات کی ٹوکری کی روداد کو ساریہ سے منسوب کیا ہے ۔
سیف نے جواہرات کی داستان کو سلمة بن قیس شجعی ۱ کی کردوں کے ساتھ جنگ میں بھی ذکر کیا ہے لیکن اس روایت میں جواہرات بھیجنے کی داستان کوسلمة سے منسوب کیا ہے اور کہا ہے کہ سلمة بن قیس نے ان جواہرات کو کردوں سے غنائم کی صورت میں حاصل کرکے عمر کو تحفہ کے طور پر بھیجا ہے۔
دوسری روایت کو طبری نے سیف سے نقل کیا ہے اور طبری سے بھی ابن کثیر نے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے فیروز آبادی نے بھی ” قاموس“ میں اور زبیدی نے ”تاج العروس “ میںاسے لغت ” سری “ کی تشریح میں سند کے ذکر کے بغیر درج کیا ہے ۔

داستان کے متن کی جانچ پڑتال
یہ تھا سیف کی روایت کے مطالب جنگ ساریہ اور صندوق جواہرا ت کی داستان کا خلاصہ اس داستان کو دوسرے مؤرخین نے بھی دیگر اسناد کے ساتھ درج کیا ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ کیا اصل داستا ن کو سیف نے جعل کیا ہے اور دوسروں نے اس سے اقتباس کرکے سیف کی اسناد کے علاوہ دوسری اسناد اس میں اضافہ کی گئی ہیں یا یہ کہ اصل داستان کو دوسروں نے جعل کیا ہے اور سیف نے ان سے اقتباس کرکے ان پر بعض اسناد کا اضافہ کیا ہے؟
بہر حال ہم اس داستان کی سند اور اس کے وجود میں آنے کی کیفیت پر تحقیق کرنا نہیں چاہتے اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ اس کی تاریخ پیدائش اور اشاعت پر بحث کریں کیونکہ ان دو موضوعات پر بحث و تحقیق انتہائی طولانی اور تھکادینے والی ہوگی ۔
بلکہ ہم اس داستان کو متن کے لحاظ سے تحقیق کرنا چاہتے ہیں جو نکات اس داستا ن میں بیان ہوئے ہیں ان پر بحث و تحقیق کرنا چاہتے ہیں کیوںکہ اس داستان کا متن اس کے جھوٹے ہونے کا ایک رسوا کنندہ اور مستحکم شاہد ہے پھر ایسی مضبوط دلیل اور واضح گواہ ہوتے ہوئے دوسرے دلائل کی ضرورت ہی نہیں ہے

ملاحظہ ہو متن داستان :
۱۔ اس داستان میں آیا ہے : جب عمر مدینہ میں نماز جمعہ کا خطبہ پڑھ رہے تھے۔ اچانک ان پر حقیقت کشف ہوئی اور شہر مدینہ سے شہر فسا میں اپنے سپاہیوں کی خطرناک حالت کو مشاہدہ کیا اور ان کی اتنی دور ی سے ان کی رہنمائی کی اور پہاڑوں میں پناہ لینے کی ہدایت کی۔عمر کی آواز سپاہیوں کے کانوں تک پہنچ گئی انہوں نے اس کے حکم کے مطابق پہاڑوں میں پناہ لے لی اور مورچے سنبھالے اور قطعی و حتمی شکست سے بچ گئے اور ایک بڑی فتح و کامیابی حاصل کی ۔
ہم کہتے ہیں کہ اگر پر وردگار کی اپنے نیک بندوںسے رسم وروش ایسی تھی تو اس خلیفہ کو ”پل ابو عبید “کی روداد میں کیوںآ گاہ نہیں نہ کیا تاکہ وہ اپنے لشکر کو اس پل سے گزرنے نہ دیتا اور اتنی بڑی شکست سے دوچار ہونے سے بچا لیتا۔
کیوں جنگ احد میں خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو آگاہ نہیں کیا کہ جن تیر اندازوں کو محا فظت کے لئے مقر ر کیا تھاا نھیں اپنی ماموریت کی جگہ پہاڑ کے درہ کوخالی کرنے نہ دیتے تاکہ مشر کین کے سپاہی مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ نہ کر سکتے جس کی وجہ سے مسلمانوںکو وہ نا قابل تلا فی شکست و ہزیمت اٹھانا پڑی اور مسلمانوں کے بہت سے افراد کو تہہ تیغ کیا گیا؟
۲۔ مزید ہم کہتے ہیں کہ جو شخص قاصد کی حیثیت سے عمر کی طرف روانہ ہوا تھا اس نے کس طرح اس فتح وکا مرانی کی خبر کو اتنی مدت تک تاخیر میں ڈال دیا اور یہ نوید خلیفہ کو نہ پہنچا ئی تاکہ کھانا کھانے کی روداد تمام ہوئی اور اس کے بعد پورے راستے میں خلیفہ کے ہمراہ ان کے گھر تک اس سلسلہ میں کچھ کہا اور خلیفہ کے گھر میں بھی لب کشائی نہیں کی یہاں تک دوسری بار کھانا کھانے سے فارغ ہوا اس کے بعد اپنے آپ کوپہچنوای
جی ہاں، کیسے اور کیوں اس قاصد نے اتنی اہم خبر کو اس طولانی مدت تک تاخیر دیتا رہا؟اور اس مدت کے دوران اس کا اونٹ کہاں پر تھا ، جس پر جواہرات کی ٹوکری لادی ہوئی تھی؟
۳۔ ہم پوچھتے ہیں : سیف کے کہنے کے مطابق جواہرات کو تحفہ کے طور پر عمر کو بھیجنے والا کمانڈر کون تھا؟
۴۔ پھر ہم پوچھتے ہیں کہ جنگ کن کے ساتھ تھی، ایرانیوں سے یاد کُردوں سے ؟ اگر کُردوں سے تھی تو کس جگہ پر اور کس علاقہ میںتھی ؟
۵۔پھر ہم پوچھتے ہیں کہ کس طرح خلیفہ نے اپنی بیوی ام کلثوم سے مطالبہ کیا کہ آکر ایک نا محرم کے ساتھ بیٹھے اور اس کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھائے ؟
کیا ام کلثوم نے خلیفہ کی درخواست اس لئے منظور نہیں کی کہ اس کے لباس نئے اور مردوں کی بزم کے مناسب نہیں تھے ؟ جبکہ خداوند عالم فرماتا ہے : ” عورتیں یہ حق نہیں رکھتی ہیں کہ اپنی زینت مردوں کو دکھائیں مگر یہ کہ اپنے شوہر یا ماں باپ اور اولاد کو“ کیا مدینہ پیغمبر ان دنوں مردو زن کے اختلاط کے لحاظ سے آج کل کے ہمارے شہروں کے مانند تھا اور خلیفہ بھی آج کے زمانے کے مردوںکی طرح تھے کہ اپنی بیوی کو نامحرموں کی محفلوں میں شرکت کی اجازت دیتے اور ان کی بیوی بھی مردوں کی محفلوں میں خودنمائی اور خودآرائی کرتی ؟ کیا اس زمانے میں مدینہ منورہ میں کوئی مرد اپنی بیوی سے متعلق اس قسم کا کام نجام دیتا تھا؟
ہم نہیں جانتے اس داستان کو جعل کرنے والے کا مقصد کیا تھا ؟ البتہ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ اس قسم کی خرافات او ر جھوٹ پر مشتمل داستانیں جعل کرکے انھیں مسلمانوں کے اعتقادات میں داخل کرنا چاہتا تھا تا کہ اس طرح مسلمانوں کو ان کے عقائد میںسست او رمتزلزل کر سکے منتہی اس نے تاریخ نویسی ، سیرت اور اصحاب پیغمبر کے حالات بیان کرکے اپنے اس مقصد کی طرف قدم بڑھا یا ہے، کیونکہ اس قسم کی تاریخ اور سیرت جیسے خلیفہ کے زہد و تقوی کی داستان ، قدرتمندوں اور صاحبان اقتدار کے فضائل و معجزے سننا اکثر لوگوں کیلئے خوش آئند اور لذت بخش ہے، اور اس طرح اسے قبول کرنا ان کیلئے آسان ہوتا ہے ۔

اس داستان کے بارے میں دانشوروں کا طریقہ کار:
گذشتہ دانشوروں کی کتابوں کے مطالب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض علماء اس داستان کے جعلی اور جھوٹی ہونے کے بارے میںمتوجہ ہوئے ہیں اور اس سلسلہ میںا پنے نظریات کو واضح طور پر بیان کرچکے ہیں اب ہم ان میں سے بعض نمونے حسب ذیل بیان کرتے ہیں :
۱۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میںا س داستان کو نقل کیا ہے لیکن خلیفہ کی اپنی بیوی سے ایک اجنبی مرد کے ساتھ دسترخوان پر کھاناکھانے کی گفتگو کی روداد جو ساریہ اور مسلمہ کی خبر میں آئی ہے کو حذف کیا ہے جبکہ داستان کا یہ حصہ اس افسانہ کا شاہکار ہے جو اس داستان کو جعل کرنے والے کا بنیادی مقصد تھا۔
۲۔ ابن حزم ” جمہرة الانساب “ میں جب بنی الدیل کے شجرہ نسب پر پہنچتا ہے تو کہتا ہے :
” ساریہ بن زنیم “ اور یہ وہی ساریہ ہے جس کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ عمر نے اسے مدینہ سے پکارا اور اس نے ایران کے ”فسا “ میں عمرکی آواز سنی، لیکن یہ مطلب بہت بعید ہے میری نظر میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اور صحت سے کوسوں دور ہے۔
۳۔ سیف اس داستان میں کہتا ہے: ” جنگ د ارا بجرد “ میں مسلمانوں کے ہاتھ جواہرات کی ایک ٹوکری ہاتھ آئی ، اسے تحفہ کے طور پر خلیفہ کی خدمت میں بھیجا گیا ، لیکن دوسرے مؤرخین کے بیان میں یہ داستان دوسری صورت میں ذکر ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر :
بلاذری ” فتوح البلدان “ میں کہتا ہے : خلیفہ دوم نے ، جنگ نہاوند میں جنگی غنائم کی سرپرستی ”سائب بن اقرع ‘ کو سونپی ، اس نے بھی غنائم کو جمع کیا اور انھیں جنگ میں شرکت کرنے والے مسلمانوں میں تقسیم کیا ۔ سائب نے نہاوند میں غنائم تقسیم کرنے کے بعد ایک خزانہ پایا ۔ اس خزانہ میں جواہرات سے بھری دو ٹوکریاں تھیں ان دونوں ٹوکریوں کو غنائم جنگی کے خمس کے ساتھ خلیفہ عمر کے پاس لے گیا ، ان کے پیدا ہونے کی تفصیلات خلیفہ کو بتائی ، خلیفہ نے کہا: انھیں بازار میں بیچ کر اس کے پیسے محاذ جنگ میں شرکت کرنے والے مسلمانوں میں تقسیم کردو۔ سائب ان جواہرات کو بازار کوفہ میں لے گیا اور عمرو بن حریث کو فروخت کیا اور اس کے پیسے محاذ جنگ میں شرکت کرنے والے سپاہیوں میں تقسیم کیا ۱
اسی روداد کے مانند دینوری نے ” اخبار الطوال “ میںا ور اعثم نے اپنی ”’ فتوح “ میں نقل کیا ہے ۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ سائب نے جنگ نہاوند میں پائے جانے والے جواہرات کی ان دو ٹوکریوں کو ان اموال میں محسوب کیا ہے کہ جو حملہ اور جنگ کے بغیر انہیں حاصل کیا گیا ہو اور یہ غنائم کا جزء نہیں ہے کہ انھیں غنائم کے خمس کے ہمراہ خلیفہٴ عمر کو بھیجا ہوگا ۔ لیکن عمر نے اسے غنائم جنگی محسوب کرکے محاذ جنگ میں شرکت کرنے والے سپاہیوں کیلئے واپس بھیج دیا ۔ لیکن، سیف کہتا ہے کہ یہ جواہرات جنگ فسا میں ، جنگ و غلبہ کے دوران مسلمانوں کے ہاتھ آئے ، اور مسلمانوں نے انھیں اپنے کمانڈر کے حکم سے تحفہ کے طورپر خلیفہ کی خدمت میں بھیج دیا نہ اس صور ت میں کہ یہ خلیفہ وقت سے مخصوص تھے ۔
یہ تھا ، مؤرخین کی روایتوں کے مطابق جواہرات کے ایک صندوق یا دو صندوقوں کی داستان کا خلاصہ جو سیف کی روایتوں سے کسی قسم کی مطابقت نہیں رکھتا ہے ۔
۴۔ سیف کہتا ہے کہ ایک اہم جنگ چھڑ گئی او رمسلمان اس جنگ میںفاتح ہوئے اس وقت مسلمانوں کے لشکر کا کمانڈر ساریة بن زینم تھا ۔
لیکن بلاذری ” فتوح البلدان “ میں کہتا ہے کہ اولا ً: ”دارابجرد “ میں کوئی جنگ ہی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ جگہ وہاں کے لوگوں کے ہتھیار ڈالنے اور صلح کے ذریعہ فتح ہوئی ہے اور اس کا فاتح بھی عثمان بن ابی ا لعاص ثقفی تھا نہ ساریة بن زنیم اور مسلمانوں کے لشکر کا سپہ سالار بھی ابو موسیٰ اشعری تھا نہ ابن زنیم ۔

چھان بین اور موازنہ کا نتیجہ
۱۔ ” فسا“ اور ” دارابجرد “ ساریہ کے ہاتھوں فتح نہیں ہوئے ہیں ، بلکہ ان دو شہروں کا فاتح عثمان بن ابی العاص تھا ۔ اور اس جنگ میںسپہ سالار اعظم ابو موسی ٰ اشعری تھا ۔
۲۔ جواہرات کے صندوق کو ساریہ یا سلمہٴ اشجعی نے خلیفہ کے یہاں نہیں بھیجا ہے ، بلکہ اسے جنگ نہاوندمیں مسلمانوں کے کمانڈر سائب بن اقرع خلیفہ کے پاس لے گیاہے۔
------------
۱۔ سائب قبیلہ ثقیف سے ہے وہ ایک نوجوان تھا اپنی والدہ ملیکہ کے ساتھ مدینہ میں پیغمبر خدا کے حضور پہنچا ، پیغمبر نے اس کے سر پر دست شفقت پھیرا اور اس کے حق میں ایک دعا کی ، سائب پیغمبر کے بعد اصفہان کا گورنر بنا اور آخر تک وہیں تھا یہاں تک کہ وفات پائی ( اسد الغابہ : ،ج ۲/۲۴۹ و الاصابہ، :۲/ ۸)

۳۔ جوہرات کے اس صندوق کیلئے سپاہیوں میںسے کسی نے خلیفہ کیلئے درخواست نہیں کی ہے بلکہ یہ ایک خزانہ تھا جو نہاوند میں ہاتھ آیا تھا جسے غنائم جنگ پر مامور سائب نے غنائم کے خمس کے طور پر مدینہ میں خلیفہ کے پاس لے گیا ۔ اس لحاظ سے نہ سلمہ نے کسی قاصد کو جواہرات کے ساتھ مدینہ بھیجا ہے اور نہ فتح فسا اور دارابجرد میں ساریہ موجود تھا تا کہ کسی قاصد کو مدینہ بھیجتا اور خلیفہ بھی آرزو کرتا کہ اس کی بیوی ام کلثوم سلمة یا ساریہ کے قاصد کے ساتھ دستر خوان پر کھانا کھائے ۔
اور اسی طرح اس داستان کے باقی حصہ میںبھی مذکورہ حصہ کی طرح ضعف و جھوٹ کی کمی نہیں ہے اسی لئے بعض مورخین اس داستان کے افسانوی اور جھوٹی ہونے کے بارے میں متوجہ ہوئے ہیں اور ان میںسے ایک نے اس داستان کے ایک حصہ کو حذف کیا ہے اور ایک دوسرے مؤرخ نے اس کے ایک حصہ کو بعید جان کر اسے نادرست بتایا ہے ۔
لیکن جو بھی ہو یہ افسانہ تاریخ ، حدیث اور لغت کی کتابوں میں اپنی جڑ مضبوط کرکے آج تک وسیع پیمانے پر پھیل کر شہرت حاصل کرچکا ہے اور اس قسم کے افسانوں کی شہرت اور اشاعت کا محرک یہ تھا کہ اسکو جعل کرنے والے نے داستان سرائی میں عجیب چالاکی اور مہارت سے کام لیا ہے اور جو کچھ جعل کیا ہے اسے خلیفہ کے زہد و فضیلت کو تشہیر کرنے کے لفافے میںبند کرکے اصحاب کی مدح و تعریف کا لباس پہنا کر تاریخ کے بازار میں پیش کیا ہے تاکہ بیہودہ اور متعصب افراد کے لئے پسندیدہ اور خوش آئند ہو اور اسی افراط اور حد سے زیادہ محبت کی وجہ سے ان کی سند کا ضعف اورمتن کی کمزوری ، حتی قرآن مجید کی صریح آیات کی مخالفت ہونے سے بھی چشم پوشی کرکے د ل کھول کر ان کے استقبال کیلئے آگے بڑھیں اور انھیں اپنی کتابوں میں درج کرکے تاریخ اسلام کے حقیقی حوادث کے طور پر شائع کریں ۔

خلا صہ اور نتیجہ
ہم نے کتاب کے اس حصہ میں سیف کی جھو ٹی داستا نوں کے کئی نمو نوں کے بارے میں بحث و تحقیق کی اور انھیں متن اور سند کے لحاظ سے جانچ پڑتال کر کے دوسرے مور خین کی روایتوں کے ساتھ تطبیق اور موازنہ کیا۔ اس پو ری بحث و تحقیق کا نتیجہ حسب ذیل صورت میں حاصل ہوا کہ سیف کی روایتوں کے مطابق :
۱۔ خالد نے مہلک اور خطر ناک زہر کو ایک دفعہ نگل لیا، لیکن اس زہرنے خالد پرکسی قسم کا اثر نہیں کیا ۔
۲۔شہر حمص کے مکانات مسلمانوںکی تکبیر کی آواز سے منہدم ہو گئے اور در ودیوار گرکر زمین بوس ہوگئیں۔
۳۔ صاف نامی ایک صحابی ---جو وہی دجال معروف ہے --- نے شہر شوش کے قلعہ کے دروازے پر ایک لات ماری اور اس کی زنجیریں اورقفل ٹوٹ کرڈھیر ہوگئے اور شہر کا دروازہ مسلمانوں کے لئے کھل گیا۔
۴۔ جھو ٹے پیغمبر اسود عنسی کاایک شیطان تھا جوحقیقی پیغمبر وں کے فرشتہ کے مانند اسے وحی کرتاتھا اور اسے غیبی اسرار کے بارے میںآگاہ کرتاتھا اور وہ اس کی وجہ سے غیر معمولی کام انجام دیتاتھا۔
۵۔ عمر نے اپنے فوجی سپہ سالار کو جو ایران کے ”دارا بجرد “نامی مقام پر تھا مدینہ سے پکارا اور اس کی جنگی پالیسی کے لحاظ سے راہنمائی کی جو مسلمانوںکی فتحیا بی کا سبب بنا۔
۶۔ عمر اپنی بیوی کو حکم دیتے ہےں کہ ایک نامحرم اور اجنبی مرد کے ساتھ ہم دسترخوان ہو جائے تو وہ نئے لباس نہ ہو نے کی وجہ سے ایسا کر نے سے انکار کرتی ہے۔
لیکن یہ سب مطالب جھوٹ اور بے بنیاد ہیں اور افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہیں کہ افسانہ نویس سیف نے انھیں جعل کیا ہے اور اصحاب پیغمبر کی مدح و فضلیت کے عنوان سے مسلمانوں کے اختیار میں پیش کیا ہے اور سادہ لو ح و متعصب افراد جواس قسم کی جھوٹی داستانوںکو اپنے اسلاف اور ان داستانوں کے سور ماؤں کے لئے ایک فضیلت سمجھتے ہیںلہذا انھوں نے حرص و طمع اور انتہائی دلچسپی کے ساتھ سیف سے نقل کر کے ان کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی ہے جبکہ وہ زندیق اور کافر سیف کے خطر ناک مقاصد کے بارے میں متو جہ نہیں ہوئے ہیں کہ وہ ان افسانوں کو جعل کر کے خرافات اور جھوٹ کو اسلام کے اصلی عقا ئد میں شامل کر نا چاہتا ہے اور مسلمانوں کو تو ہم پر ست اور تنگ نظر دیکھانا چاہتا ہے تاکہ انھیں بیو قوف اور احمق ثابت کرے، پیغمبروں کی و حی اور ان کے معجزات کا مذا ق اڑائے، لو گوں کو اس قسم کے مسائل کے بارے میں بد ظن اور بے تعلق بنادے ،ورنہ وہ اس کے علاوہ کونسا محرک رکھتاتھا جس کے پیش نظر شہر شوش کے دروازہ کے قفل کو توڑ نے کے لئے دجال اوراس کے فر مان سے مستند بنائے؟اور جھو ٹے پیغمبری کا دعوی کر نے والے اسود عنسی سے نسبت دے کہ فرشتہ(شیطان)اسے وحی کرتا اور اسے غیبی اسرار سے آگاہ کرتا تھا،اور وہ اس کے ذریعہ غیر معمولی کام اور معجزے انجام دیتا تھا ،اس حالت میںا س جھوٹے پیغمبر جسے شیطان خبر دیتا تھا اور ایک حقیقی پیغمبر جسے فرشتہ خبر دیتا تھا کے درمیان کیا فرق ہے ؟ کیونکہ یہ دونوں خبر لانے والے کو فرشتہ کہتے ہیں اور اپنی اطلاعات کو اسی سے مستند کرتے ہیں ۔
اس نے کس مقصد کے پیش نظر عمر کو یہ نسبت دی ہے کہ وہ چاہتا تھا کہ اپنی بیوی کو ایک نامحرم اور اجنبی مرد کے سامنے لاکر اسے دکھائے اس میں اس کے علاوہ کوئی اور علت نہیں تھی کہ وہ مسلمانوں کے عقیدہ کو متزلزل اور مخدوش کرنا چاہتا تھا اور اس طرح دین مخالف مطالب کو ان کے دین و مذہب کے ساتھ ممزوج کرنا چاہتا تھا ۔
حیوانوں کے فصیح عربی زبان میں گفتگو کرنے میںا س کا مقصود کیا تھا؟ کہ وہ کہتا ہے : ” بکیر “ نے اپنے معروف گھوڑے ” اطلال “ سے کہا: چھلانگ لگاؤ ندی کے اُس پار اے میرے اطلال ! گھوڑے نے فصیح عربی زبان میں کہا؛ سورہ بقرہ کی قسم میں نے چھلانگ لگائی یا کہتا ہے کہ : عاصم نے چرواہے سے گائے کے بارے میں سوال کیا ، اس نے جواب دیا : میں نے یہاں پر کوئی گائے نہیں دیکھی کچھار میں موجود گائے نے بولتے ہوے فصیح عربی زبان میںکہا: خدا کی قسم اس دشمن خدا نے جھوٹ بولا ہے ہم یہاں پر موجود ہیں “
سیف کا ان افسانوں اور اس قسم کے دسیوں افسانوں کو جعل کرنے میں کیا مقصد تھا کہ اس نے انہیں روایتوں میں بیان کیا ہے اور اس طرح ان کو مسلمانوں کے عقائد میں شامل کیا ہے ؟
وہ اس افسانہ سازی سے اس کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں رکھتا تھا کہ مسلمانوں کے عقائد میں تشویش اور تخریب پیدا کرے اور انھیں توہم پرست اور تنگ نظر ثابت کرے ، ان کی عقل و دین پر ڈاکا مارے اور اس تمام راہ میں صرف محرک اس کا کفر و زندقہ ہونا تھا ۔
سیف نے جعل و تحریف کی اس مقدار پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس کے علاوہ تاریخ اسلام کے مختلف حوادث میں بہت سے ناموں میں تغیر و تحریفات کیں اور جعلیات بھر دئے ہیں اور ایک نام کو دوسرے نام میں بدل دیا ہے اس طرح تاریخ کے واضح حقائق کو تاریک اور نامعلوم بنا کے رکھ دیا ہے ان ہی تغیرات اور تبدیلیوں کی وجہ سے گزشتہ کئی صدیوں سے دانشمندوں اور محققین کیلئے یہ حوادث نامفہوم اور نامعلوم بن کر رہ گئے ہیں کہ اس کی صحیح تشخیص دینے میں مغالطہ سے دوچار ہوئے ہیں اور بہت سے اسلامی حقائق ان کیلئے غیر واضح رہے ہیں ہم اس قسم کے تحریفات اور تغییرات کے نمونے آنے والی فصل میں بیان کریں گے ۔