عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
دوسری جلد
 
مسلمانوں کے اللہ اکبر کی آواز حمص کے در و دیواروں کو گرادیتی ہے
کبر المسلمون فتھافتت دور کثیرة حیطان
حمص میں مسلمانوں کی صدائے تکبیر نے دیوار اور گھروں کو مسمار کر کے رکھ دیا۔
سیف

فتح حمص کی داستان سیف کی روایت میں :
طبری نے ۱۵ ھء کے حوادث کے ضمن میںفتح ”حمص “ ۱ کے بارے میں سیف سے تین روایتیں نقل کی ہیں :
پہلی روایت میں کہتا ہے : جب مسلمان ” حمص“ کو فتح کرنے کیلئے اس شہر میں داخل ہوئے تو ” ہرقل“ ۲نے ”حمص“ کے باشندوں کو حکم دیا کہ وہ بھی ایسے دنوں میں مسلمانوں سے لڑیں جب سخت سردی ہو اور شدید برف باری ہورہی ہو نیز ان سے کہاکہ اگر انہوں نے اس پر عمل کیا تو مسلمانوں میں ایک شخص بھی موسم گرما تک زندہ نہیں بچے گا حمص کے باشندے ہر قل کے حکم کے مطابق سردیوں کے
-----------
۱۔ حمص سوریہ کا ایک شہر ہے ۔
۲۔ ہرقل ان دنوں سوریہ کے شہروں کا حاکم تھا ۔

دنوں میں مسلمانوں سے لڑے تھے ۔
دوسری روایت میںا بوا لزہراء قشیری سے یوں نقل کیا ہے : حمص کے باشندوں نے آپس میں ایک دوسرے کو یوں سفارش کی کہ موسم سرما پہنچنے تک اپنے شہروں کا عربوں کے حملوں اور تجاوز کے مقابلہ میں تحفظ اور بچاؤ کریں اور جب موسم سرما پہنچ جائے تو وہ تمہارے خلاف کچھ نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ وہ پا برہنہ ہیں ، موسم سرما میں سردی کی وجہ سے ان کے پاؤں ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے اس کے علاوہ ان کے ہمراہ خوراک بھی مختصر ہے اس لئے وہ اپنی جسمانی طاقت کو بھی ہاتھ سے دیدیں گے لیکن رومیوں کے تصور کے خلاف جب وہ جنگ سے واپس لوٹے تو اسکے بر عکس اپنے ہی بعض افرادکے پاؤں کو دیکھا کہ ان کے جوتوں کے اندر زخمی ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوئے ہیں لیکن مسلمان باوجود اس کے کہ نعلین کے علاوہ کوئی اور چیز ان کے پیروںمیں نہ تھی ان میں سے کسی ایک کے پاؤں میں بھی معمولی سا زخم بھی نہیں لگا تھا جب موسم سرما ختم ہوا تو حمص کے باشندوں میں سے ایک بوڑھا اٹھ کھڑا ہوا اور انھیں مسلمانوں سے صلح کرنے کی دعوت دی لیکن لوگوں نے اس کی بات نہیں مانی ایک اور بوڑھے نے بھی حمص کے باشندوں کیلئے وہی تجویز پیش کی لیکن اس کی تجویز کا بھی لوگوں نے مثبت جواب نہیںدیا ۔
سیف نے تیسری روایت میں غسانی اور بلقینی کے بوڑھے مردوں کی ایک جماعت سے نقل کرکے یوں بیان کیا ہے مسلمانوں سے موسم سرما کے بعد شہر حمص کی طرف حملہ کیا اور اچانک ایسی تکبیر کی آواز بلند کی کہ شہر کے لوگوں میں چاروں طرف خوف و وحشت پھیل گئی اور ان کے بدن کانپنے لگے اور تکبیر کی آواز سے ایک دم شہر کی درو دیوار زمین بوس ہوگئی ۔ حمص کے لوگوں نے ان بوڑھوں کے یہاں پناہ لے لی ، جنہوں نے پہلے ہی انھیں مسلمانوں سے صلح کرنے کی تجویز پیش کی تھی ، لیکن اس دفعہ ان بوڑھوں نے اپنی طرف سے ان لوگوں کی نسبت بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا اور انھیں ذلیل وخوار کرکے رکھ دیا۔
سیف کہتا ہے مسلمانوں کی تکبیر کی آواز ایک بار پھر شہر حمص کی فضا میں گونج اٹھی اور اس دفعہ شہر کے بہت سے گھر اور دیوار گرگئے اور لوگوں نے دوبارہ ان بوڑھوں اور قوم کے بزرگوں کے پاس پناہ لے لی اور کہا: کیا تم لوگ نہیں دیکھتے ہو کہ عذاب خدا نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ؟
انہوں نے لوگوں کے جواب میں کہا: تمہارے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ مسلمانوں سے خود صلح کی درخواست کرو حمص کے لوگوں نے شہر کے مینار پر چڑھ کر فریاد بلند کی ” صلح ، صلح “ مسلمان چونکہ نہیں جانتے تھے کہ ان پر کیا گزری ہے اور ان پر کیسی ترس و وحشت طاری ہوئی ہے ؟ لہذا ان کی صلح کی تجویز کو قبول کیا دمشق کے باشندون کے ساتھ صلح کی جو شرائط رکھی تھیں ان ہی شرائط پر حمص کے باشندوں کے ساتھ بھی صلح کی ۔

دوسروں کی روایت کے مطابق فتح حمص کی داستان
فتح حمص کی داستان کو سیف نے مذکورہ تین روایتوں کے ضمن میں بیان کیا ہے جس کا آپ نے مطالعہ فرمایا ۔ لیکن دوسرے مؤرخین نے اس داستان کو دوسری حالت میں بیان کیا ہے ۔ مثلاً بلاذری کہتا ہے :
دمشق کو فتح کرنے کے بعد مسلمان حمص میں آگئے جب وہ شہر کے نزدیک پہنچے ، تو حمص کے باشندوں نے پہلے مسلمانوں سے جنگ کی، لیکن بعد میں اپنے شہر کے اندر داخل ہوکر قلعوں میں پناہ لے لی اورمسلمانوں سے صلح و امان کی درخواست کی ۔
بلاذری اضافہ کرتا ہے :
حمص کے حاکم ہر قل کا فرار کرنا ایک طرف سے اور مسلمانوں کی بے مثال قدرت اور پے در پے فتحیابیاں دوسری طرف سے حمص کے باشندوں کے کانوں میں پہنچ گئیں ان کے نتیجہ میں ان کے دل میں عجیب خوف و وحشت پیدا ہوگئی تھی۔

موازنہ اور تحقیق کا نتیجہ
جو کچھ ہمیں سیف کی روایتوں کی دوسرے مورخین کی روایتوں سے تطبیق کے نتیجہ میں حاصل ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسروں کی روایتوں کے مطابق حمص کے باشندوں کے صلح کرنے کا محرک ان کے حاکم کی فرار اور مسلمانوں کی طاقت کے بارے میں ان کا مطلع ہونا تھا ۔
لیکن سیف کے کہنے کے مطابق حمص کے باشندوں کے مسلمانوں سے صلح کرنے کا محرک یہ تھا کہ انہوں نے پورے موسم سرما میں مسلمانوں سے جنگ کی اورسردی کی وجہ سے ان کے پاؤں زخمی ہوہو کر کٹ گئے اور دوسری طرف سے مسلمانوں کی تکبیر کی آواز سے شہر کے درو دیوار اور گھر زمین بوس ہوگئے ان پر رعب اور وحشت طاری ہوگئی اس کے نتیجہ میں ہتھیار ڈال کر صلح کرنے پر مجبور ہوگئے یہ تھا متن کے لحاظ سے سیف کی روایت میں ضعف ، اب ہم سند کے لحاظ سے اس کی تحقیق کرتے ہیں :

سیف کی روایتوں کی سند کے لحاظ سے تحقیق
سیف کی روایتوں کی سند بھی چند زاویوں سے خدشہ دار اور متزلزل ہے کیونکہ
۱۔ سیف نے حمص کے باشندوں کے پاؤں کے کٹ جانے کی داستان ” ابو الزہراء قشیری “ سے نقل کی ہے ۔ قشیری کا نام تاریخ طبری میں سیف کی پانچ روایتوں میں ذکر ہوا ہے ۔اور ان ہی روایتوں پر تکیہ کرکے ابن عساکر نے ” تاریخ دمشق“ میں اور ابن حجر نے ”الاصابہ “ میں قشیری، کو پیغمبرخدا کے اصحاب میں سے ایک شمار کیا ہے ۔ لیکن ہم نے علم رجال کی کتابوں اور اصحاب رسول کے حالات پر مشتمل کتابوں میں گہرے مطالعہ و تحقیق کے بعد یہ حقیقت کشف کی کہ قشیری نام کا پیغمبر اسلام کا کوئی صحابی وجود نہیں رکھتا ہے اور اسے سیف نے خود جعل کیا ہے ۔
۲۔ سیف نے حمص کے گھروں اور دیواروں کے گرجانے کی خبر غسان اور بلقین کے بوڑھوں سے نقل کی ہے اب ہم کیسے ان بوڑھوں کو پہچان کر ان کے بارے میں بحث و تحقیق کریں جنہیں سیف نے غسان اور بلقین کے شیوخ سے جعل کیا ہے ؟

داستان کے راویوں کا سلسلہ
اولاً: سیف نے داستان حمص کی روایتوں کو :
۱۔ غسان اور بلقین کے بوڑھوں اور
۲۔ ابو الزہراء قشیری
سے نقل کیا ہے چونکہ سیف نے غسان اور بلقین کے بوڑھوں کا نام معین نہیں کیا ہے ، لہذا ہمارے لئے مجہول اور نامعلوم ہیں اور ان کی بات ناقابل قبول ہے اور دوسری طرف سے ہم نے کہا کہ قشیری بھی جو ان روایتوں کی سند میں آیا ہے ، سیف کا جعلی راوی ہے ۔
ثانیاً: سیف سے بھی :
۱۔ طبری نے بھی سیف کی سند سے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ، اور طبری سے:
۲۔ ابن اثیر اور
۳۔ ابن کثیر نے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

دجال شہر شوش کو فتح کرے گا!
فاٴتی صاف باب السوس و دقہ برجلہ ․․․
دجال نے آگے بڑھ کر شہر شوش کے دروازہ پر لات ماری اور اسے مسلمانوں کےلئے کھول دیا
سیف

فتحِ شوش کی داستان ، سیف کی روایت میں
طبری ۱۷ھء کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتا ہے کہ مسلمانوں کا کمانڈر ” ابوسبرہ “ ۱ اپنے لشکر کے ساتھ شہر شوش آیا اور اسے محاصرہ کیامسلمانوں نے شوش کے باشندوں کے ساتھ کئی بار جنگ کی اور ہر بار اہل شوش نے مسلمانوں پر کاری ضرب لگائی راہب اور پادری شہر کے مینار پر چڑھ کر بلند آواز سے بولے :
اے گروہ عرب! جو کچھ ہمیں دانشوروں سے شہرشوش کے بارے میںمعلوم ہوا ہے ، وہ یہ ہے
-----------

۱۔ ابو سبرہ بن ابررہم عامری قبیلہٴ قریش کے ان افراد میں سے ہے جس نے اوائل بعثت میں اسلام قبول کیا ہے اور آنحضرت کی تمام جنگوں میں شرکت کی ہے ۔ آنحضرت کی وفات کے بعد واپس مکہ چلا گیا اور خلافتِ عثمان کے زمانے میںو ہیں پر وفات پائی ۔
ابوسبرہ کی زندگی کے حالات استیعاب میں الاصابہ کے حاشیہ میں ۴/ ۸۲ ، اسد الغابہ ۵/ ۲۰۷ الاصابہ : ۴/ ۸۴ اور طبقات ج۳/ ۱۹۳ میں خلاصہ کے طور پر اور باب مقیمان مکہ ج ۵/ ۳۲۲ میں مفصل طور پر آیا ہے ۔

کہ شہر ،دجال کے بغیر یاا ن لوگوں کے علاوہ فتح نہیں ہوگا جن میں دجال موجودنہ ہو ۔ اس بنا پر اگر دجال تمہارے درمیان ہے تو جلدی ہی اس شہر کو فتح کر لوگے اور اگر تمہارے درمیان دجال نہیں ہے تو اپنے آپ کو تکلیف میں مت ڈالو کیونکہ یہ کوشش بے نتیجہ ہوگی مسلمانوں نے ان پیشین گوئی کرنے والوں کی باتوں پر کان نہیں د ھرا اور ایک بار پھر شوش کے باشندوں سے جنگ و تیر اندازی کی ۔ راہبوں اور دانشوروں نے ایک بار پھر قلعہ کے مینار پر چڑھ کر مسلمانوں سے مخاطب ہوکر اپنی پہلی باتوں کی تکرار کی اور مسلمانوں پر فریاد بلندکرکے انھیں غضبناک کیا ۔
صاف بن صیاد “ ۱ جو ان کے درمیان تھا ، شہر کے دروازے کے پاس آگیا اور اپنے دروازہ پر ایک لات مارکر کہا: اے بظار ۲ کھل جا ۔ اچانک دروازے کی زنجیریں اور قفل ٹوٹ گر گئے ، دروازہ کھل گیا اور مسلمان شہر شوش میں داخل ہوگئے ! مشرکین نے جب یہ حالت دیکھی تو ڈرکے مارے اپنا اسلحہ زمین پر رکھ دیا اور ” صلح صلح“ کی فریاد بلند کر نے لگے اور مسلمان مکمل طور پر شہر شوش میں داخل ہو گئے اور ان کی درخواست کا مثبت جواب دیا اور ان سے صلح کی ۔
-----------
۱۔ اہل سنت کے مآخذ میں ذکر ہوئی روایتوں کے ایک حصہ میں یوں آیا ہے : صاف بن صیاد، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں مدینہ میں پیدا ہوا اور مدینہ کے لوگ اسے دجال جانتے تھے اور متن میں جو داستان ہم نے بیان کی ہے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دجال کی داستان اور اس کا صاف بن صیاد سے معروف ہونا سیف کے دوران مشہور تھا اور اس نے اس معروف داستان سے استفادہ کرکے اسے ایک د وسری داستان سے ممزوج کیا ہے اور ان د و داستانوں سے ایک تیسری داستان جعل کی ہے جیسے کہ کتاب کے متن میں ملاحظہ فرمایا : صاف بن صیاد کے بارے میں صحیح بخاری ۳/ ۱۶۳ و ۲/ ۱۷۹ کی طرف رجوع کیا جائے۔
۲۔ ” بظارہ “ مادہ حیوانات کی شرم گاہ کو کہتے ہیں کہ سیف کے کہنے کے مطابق صاف بن صیاد نے شہر شوش کے دروازہ کو اس قبیح اور گندے لفظ سے یاد کیا اور ” بظارہ “ کہا ۔

یہ تھا اس افسانہ کا خلاصہ جسے سیف نے فتح شوش کے بارے میں بیان کیاہے طبری نے بھی اس افسانہ کو سیف سے نقل کیا ہے ابن اثیر اور ابن کثیر نے اسے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

فتح شوش کی داستان دوسروں کی روایت میں :
یہ تھی فتح شوش کی داستان سیف کی روایت کے مطابق لیکن ، فتح شوش کے بارے میں دوسرے مؤرخین کی روایتیں یوں ہیں :
خود طبری جو سیف کی روایت نقل کرنے والا ہے ، مشہور مورخ، مدائنی سے نقل کرتا ہے : جب ابو موسیٰ اشعری نے شہر شوش کا محاصرہ کیا تو مسلمانوں کے ہاتھوں فتح جلولا اور پادشاہ جلولا اور یزد جرد کے فرار کرنے کی خبر شوش کے باشندوں تک پہنچی اور وہ اس روداد کے بارے میں سن کر مرعوب ہوئے اور ابو موسیٰ سے امان و صلح کی درخواست کی اس نے بھی ان کی درخواست منظور کرلی اس طرح مسلمانوں اور شوش کے باشندوں کے درمیان صلح کا پیمان منعقد ہوا ۔
بلاذری ، فتوح البلدان میں کہتا ہے : ابو موسیٰ اشعری نے شوش کے باشندوں سے جنگ کی ان کا محاصرہ کر لیا یہاں تک ان کے پاس موجود پانی اور خوراک ختم ہوگئی اور ہتھیار ڈال کر صلح کر نے پر مجبور ہوئے ابو موسیٰ نے ان جنگجوؤں کو قتل یا اسیر کردیا کہ جن کے نام صلحنامہ میں ذکر نہیں ہوئے تھے اور ان کا مال غنیمت کے طور پرلوٹ لیا ۔
بلاذری کی باتوں کو ” دینوری “ نے بھی ” اخبار الطوال “ میں خلاصہ کے طور پر ذکر کیا ہے ۔
ابن خیاط نے بھی اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ فتح شوش ۱۸ ھء میں ابو موسی ٰ اشعری کے ذریعہ صلح کے طریقے سے انجام پایا ۔

روایت سیف کی سند کے اعتبار سے تحقیق
جس طرح سیف کی روایت کے متن سے اس کا ضعیف اور باطل ہونا ظاہر ہے اور دوسرے مؤرخین کے متن سے سازگار نہیں ہے سند کے لحاظ سے بھی اس کا کمزور اور باطل ہونا بہت واضح ہے کیونکہ:
سیف کی روایت کی سند میں شوش کی فتح کی داستان بیان کرنے والا ” محمد“ ذکر ہوا ہے ہم نے مکرر کہا ہے کہ یہ ”محمد “ سیف کے جعلی راویوں میں سے ایک ہے ۔ اس کے علاوہ اس روایت کی سند میں چند دوسرے مجہول اور نامعلوم افراد جیسے : ” طلحہ “ اور ” عمر “ بھی راوی کے طور پر ذکر ہوئے ہیں کہ علم رجال اور تشریح کی کتابوں میں ان کا نام و نشان نہیں ملا ۔ بحث کے طولانی ہونے کے پیش نظر ہم ان افراد کی تحقیق و جانچ پڑتال سے صرف نظر کرتے ہیں۔

تطبیق اور جانچ پڑتال کا نتیجہ
سیف کے کہنے کے مطابق شوش کی فتح کا سبب مسلمانوں کے لشکر میں دجال کی موجودگی تھی کہ جس کے بارے میں راہبوں اور پادریوں نے پہلے ہی پیشین گوئی کی تھی اور لوگوں کو اس کے بارے میں مطلع کیا تھا اور یہ پیشین گوئی بھی اس وقت واقع ہوئی جب مسلمان سپاہیوں میں سے دجال باہر آگیا اورشہرکے دروازہ پر لات مارتے ہوئے کہا: ” کھل جا اے دروازہ جو ” بظار“ کے مانند ہو “ دروازہ کی زنجریں اچانک ٹوٹ کی ڈھیر ہوگئیں قفل بھی ٹوٹ کرگرگئے اور دروازے کھل گئے ، مسلمان شہر میں داخل ہوئے شوش کے لوگوں نے جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا اور صلح کی فریادیں بلند ہوئیں اس جنگ کا سپہ سالار ” ابو سبرہٴ“ عدنانی تھا ۔
یہ تھا فتح شوش میں مسلمانوں کے سپہ سالار کے نام اور اس فتح کے سبب کے بارے میں سیف کی روایت کا خلاصہ لیکن دوسرے مورخین کہتے ہیں : شوش کی فتح کا سبب جلولا کی فتح اور وہاں کے بادشاہ کے فرار کے بارے میں اہل شوش تک خبر پہنچنا اور شوش کے لوگوں کا پانی اور غذا کاختم ہونا تھا کہ وہ ان عوامل کی وجہ سے صلح کرنے پر مجبور ہوئے اور امان کی درخواست کی مسلمانوں کے لشکر کا سپہ سالار ابوموسیٰ اشعری تھا جو قبیلہٴ قحطان سے تھا ، نہ ” ابو سبرہ “ عدنانی ۔
اس تطبیق اور جانچ پڑتال سے واضح ہوتا ہے کہ سیف نے اس داستان کو نقل کرنے میں خاندانی تعصب سے کام لیا ہے اور عدنانی قبیلہ کے تعصب کی ندا کا مثبت جواب دے کر فتح شوش کی فضیلت کو ابو موسیٰ قحطانی سے چھین کر ابوسبرہٴ عدنانی کے کھاتے میں درج کیا ہے لیکن سیف کو کس محرک نے مجبور کیا ہے مسلمانوں کی شوش کی فتح و پیروزی کی داستان کو ” دجال “ سے نسبت دیدے ؟ جبکہ اس انتساب میں نہ اصحاب پیغمبر کیلئے کسی قسم کی ثنا گوئی ہے اور نہ کسی قسم کا خاندانی تعصب ؟
اس امر میں نہ خود سیف کے قبیلہ کیلئے کوئی فخرکی بات ہے اور نہ قبیلہٴ عدنان کے بارے میں کوئی فضیلت ، کیونکہ معمولاً سیف اس سلسلہ میں تعصب سے کام لیتا ہے ؟
لہذا ، اس نسبت و اسناد میں ، حقائق میں تحریف اور خرافات گڑھنے میں کونسا محرک ہوسکتا ہے ؟ کیا اس سلسلہ میں ا س کے زندقہ و کفر --- جس کا ا س پر الزام ہے ----کے علاوہ کسی او رمحرک کا تصور کیا جاسکتا ہے ؟
جی ہاں ! اس نے اپنے کفر و زندقہ کے اقتضاء کے مطابق مسلمانوں کے عقائد کو خرافات سے ممزوج کرکے تاریخ اسلام کوتشویش اور درہم برہم کرنا چاہا ہے ۔

داستان شوش کی روایت کے راویوں کا سلسلہ
اولاً: فتح شوش کی روایتوں کو سیف نے ” محمد “ نامی ایک نقلی اور جعلی راوی اور دومجہول اور نامعلوم راویوں سے نقل کیا ہے ۔
ثانیاً: سیف سے بھی ان روایتوں کو
۱۔ طبری نے اور طبری سے
۲۔ ابن اثیر اور
۳۔ ابن کثیر نے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔