ساتواں حصہ:
سیف کی خرافات پرمشتمل داستانیں
* -lسیف کے حدیث جعل کرنے کا ایک اور محرک
* -lمہلک زہر خالد پر اثر نہیںکرتا
* -lعمر کے بارے میں پیغمبروں کی بشارتیں
* -l مسلمانوں کے اللہ اکبر کی آواز حمص کے در و دیواروں کو گرادیتی ہے
* -l دجال ،لات مار کر شہرو شوش کو فتح کرے گا
* -lاسود عنسی کی توہمات بھری داستان
* -lجواہرات کے صندوق اور عمرکا اعجاز
* -lخلاصہ و نتیجہ
* -lاس حصہ سے مربوط مآخذ
سیف کے حدیث جعل کرنے کا ایک اور محرک
و انما یدس الخرافات فی عقائد المسلمین
سیف نے مسلمانوں کے صحیح عقائد میں خرافات کی ملاوٹ کرنا چاہا ہے ۔
مؤلف
گزشتہ صفحات میں ہم نے سیف کے ا ن مقاصد کی وضاحت کی جن کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اس نے افسانہ سازی اور دروغ گوئی سے کام لیا ہے اور ہم نے کہا کہ اس میں اس کے تین مقصد تھے :
۱۔ وہ قبیلہٴ عدنان سے منسوب صاحب اقتدار اور بانفوذ اصحاب کا دفاع کرنا چاہتا تھا یا یہ کہ ان کے فضائل و مناقب کی تشہیر کرے خاص کر خاندان عمرو و اسید ---جو خاندان تمیم اور عدنان کے قبیلے تھے ----کی تمجید و تعریف کرے ۔
۲۔ وہ نیک اور صالح اصحاب ---- جو اقتدار اور سیاسی اثر و رسوخ کے مالک نہ تھے اور اسی طرح قبائل قحطان کے مختلف خاندان جو عدنانیوں اور وقت کے صاحب اقتدار کی مخالفت کرتے تھے ----- کی تنقید و بد گوئی کرے اور انھیں فاسد اور تنگ نظر متعارف کرے ۔
۳۔ سیف ان خونین جنگی داستانوں کو گڑھ کر اسلام کو تلوار اور خون کا دین بتانا چاہتا تھا ۔
لیکن سیف کی بعض داستانوں میں مذکورہ مقاصد میں سے کوئی ایک مقصد نظر نہیں آتا ہے نہ کسی عدنانی ، تمیمی اور صاحب اقتدار صحابی کی مدح و ثناء ہے اور نہ ہی کسی نیک و صالح صحابی اور قحطانی کی مذمت و ملامت ہے اور نہ اسلام کو تلوار اور خون کا دین دکھانے کی بات ہے ،بلکہ اس نے یہاں پر یہ کوشش کی ہے کہ اپنی ان داستانوں اور افسانوں کے ذریعہ اسلام کے پاک و پاکیزہ اور صاف و شفاف دین میں خرافات اور توہمات کی ملاوٹ کرے اور اس طرح مسلمانوں کے اصلی عقائد کو خرافات اور باطل سے ممزوج کرکے ان کے دین کے خوبصورت قیافہ کو بدنما اور مشکوک دکھائے ۔
سیف اپنی انہی خرافات پر مشتمل داستانوں اور افسانوں کے ذریعہ اپنے خطرناک منصوبے کو عملی جامہ پہنا کر اپنے کفر و زندقہ کے محرکات کو مثبت جواب دینے میں کامیاب ہوا ہے ۔
سیف کے اس قسم کے افسانے دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں :
۱۔ ان افسانوں کا ایک حصہ خود سیف سے مخصوص ہے کہ اس نے خود انھیں جعل کیا ہے ۔
۲۔ ان افسانوں کے دوسرے حصہ کو سیف نے دیگر افراد کے تعاون سے خلق کیا ہے ،بہر صورت سیف نے اس مقصد کے پیش نظربہت سی داستانوں کو گڑھ لیا ہے کہ اگر ہم ان سب کو یہاں پر بیان کریں گے تو اس کتاب کا حجم حد سے زیادہ بڑھ جائے گا اس لئے ہم اس کتاب میں شاہد و نمونہ کے طور پر صرف چند داستانوں کو درج کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں ،کیونکہ یہی نمونے سیف کی دوسری داستانوں کی طرف راہنمائی کرنے میں مددگار ثابت ہوں گےنیزاس کی توہمات بھری روایتوں کو پہچاننے اور ان کی قدر و منزلت جاننے کے بارے میں محققین کیلئے ایک معیار ہوگا ۔
مہلک زہر خالد پر اثر نہیں کرتا !
و دس فی خبر الصلح اسطورة تناول خالد سم ساعة
سیف نے صلح حیرہ کی داستان میں مہلک زہر کا افسانہ خود گڑھ کر اضافہ کیا ہے ۔
مؤلف
اصل داستان
سیف کی سب سے پہلی خرافات پر مشتمل داستان (جس کا مسلمانوں کے عقاید کے ساتھ براہ راست ربط ہے ) خالد پر زہر کا اثر نہ کرنا ہے ، کہ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے :
طبری ۱۲ ھء کے حوادث کے ضمن میں فتح حیرہ کی روایت کو سیف سے نقل کرتا ہے کہ خالد بن ولید نے حیرہ کے بعض قلعوں کا محاصرہ کیا ،عمرو بن عبد المسیح خالد سے گفتگو کرنے کیلئے قلعہ سے باہر آیا ایک تھیلی اس کی کمر میں لٹکی ہوئی تھی جب وہ خالد کے نزدیک پہنچا تو خالد نے اس تھیلی کو اس سے لے لیا جو کچھ اس تھیلی میں تھا اسے اپنی تھیلی میں ڈالا اس کے بعد عمرو سے پوچھا کہ : یہ کیا ہے ؟
عمرو نے کہا: مہلک اور خطرناک زہر ہے جو انسان کو اسی وقت ہلاک کرسکتا ہے ۔
خالد نے پوچھا : اس زہر کو کس لئے ساتھ لائے ہو؟
عمر و نے کہا: مجھے ڈر تھا کہ تم ہماری صلح کی تجویز کو قبول نہ کرو گے لہذا میں زہر کو کھا کر خود کشی کر لوں گا، کیونکہ میرے لئے موت اس سے بہتر ہے کہ اپنے قبیلہ والوں کو جنگ کی ناگوار خبر سناؤں۔
خالد بن ولید نے کہا: اگر کسی کی اجل نہ پہنچی ہو تو یہ زہر اسے ہلاک نہیں کرسکتا ہے اس کے بعد خالد نے یہ عبارت پڑھی : ” بسم اللہ خیر الاسماء رب الارض و رب السماء الذی لیس یضر مع اسمہ داء الرحمن الرحیم“ اس کے بعد اپنی ہتھیلی پر موجود زہر کو اپنے ہونٹوں کی طرف لے گیا اس کے اطرافیوں نے اسے زہر کھانے سے روکنا چاہا لیکن اس نے اس سے پہلے ہی زہر کو اپنے منہ میں ڈال کر اسے نگل لیا ۔
عمرو نے یہ منظر دیکھ کر کہا: اے بزرگ مرد ! اوراے گروہ عرب خدا کی قسم آپ ایسے شریف اور آزاد مرد کے ہوتے ہوئے جو چاہو گے ، اسے حاصل کرو گے !
طبری اس افسانہ کو نقل کرنے کے بعد خالد اور عمرو کے درمیان واقع ہوئی صلح کی کیفیت کو مفصل بیان کرتا ہے ۔
سیف نے اس داستان میں خالد سے گفتگو کا مطالبہ کرنے والے شخص کا نام ” عمروبن عبد المسیح“ بتایا ہے اور خالد کے زہر کھانے کے افسانہ کو اس میں اضافہ کیا ہے ۔
جبکہ بلاذری نے بھی صلح حیرہ کی روداد کو اپنی فتوح میں درج کیا ہے لیکن خالد سے گفتگو کرنے کا مطالبہ کرنے والے شخص کا نام ”عبد المسیح بن عمرو “ بتایا ہے نہ ” عمرو بن عبد المسیح ‘ اور خالد کے زہر کھانے کے افسانہ کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا ہے
دوسری جگہ پر طبری نے اس صلح کی روداد کو عظیم مؤرخ ابن کلبی سے نقل کیا ہے لیکن اس روایت میں خالد کے زہر کھانے کے افسانہ کا وجود نہیں ہے اور خالد سے بحث و گفتگو کرنے والا ’ ’ عبد المسیح بن عمرو“ ہے نہ ”عمروبن عبدا لمسیح ‘ جیسا کہ سیف کی روایت میں آیا ہے ۔
اس کے علاوہ ” انساب ابن الکلبی “ اور ” جمہرة انساب العرب “ میں بھی یہ شخص ” عبدالمسیح بن عمرو“ ہے او ر اس کے خاندانی کوائف بھی مفصل طور پر بیان ہوئے ہیں
جیسا کہ ملاحظہ فرمایا: سیف نے اس داستان کو گفتگو کرنے والے کے نام میں تحریف و تغیر کرکے نقل کیا ہے طبری نے بھی اس سے نقل کیا ہے اور اس کے بعد والے مؤرخین میں سے ہر ایک نے جیسے : ابن اثیر اور ابن کثیر نے بھی اس داستان کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے البتہ ابن کثیر نے خالد کے مہلک زہر کو کھانے کی داستان کو روایت سے حذف کیا ہے ۔
داستان کی سند کی چھان بین
سیف کی صلح حیرہ کے بارے میںنقل کی گئی داستان کی سند میں درج ذیل راوی ملتے ہیں :
۱۔ غصن بن قاسم : وہ بھی اس داستان کو قبیلہٴ کنانہ کے ایک ناشناس مرد سے نقل کرتا ہے طبری کی نقل کے مطابق غصن بن قسم کا نام سیف کی تیرہ روایتو ںکی سند میں آیا ہے چونکہ ہم نے اپنی تحقیق اور بررسی کے دوران اس راوی کا کہیں نام و نشان نہیں پایا ، لہذااسے سیف کے جعلی صحابیوں کی فہرست میں قرار دیا ہے اور جسے اس نے اپنے خیالات میں تخلیق کیا ہے ۔
۲۔ کنانہ سے ایک شخص : چونکہ سیف نے اپنے اس افسانوی راوی کا نام معین نہیں کیا ہے لہذا مؤرخین اور راویوں کے حالات پر روشنی ڈالنے والے اس نام کو اپنی کتابوں میں درج نہیں کرسکتے ہیں ۔
۳۔ محمد : سیف کی روایتوں کے اسناد میں محمد، محمد بن عبد اللہ بن سواد بن نویرہ ہے اور ہم نے معاویہ کے زیاد کو ابوسفیان سے ملانے کی بحث میں کہا ہے کہ اس نام کا کوئی راوی آج تک پہچانا نہیں گیا ہے ا س لئے یہ بھی ان راویوں میں سے ہے جنہیں سیف نے خو ہی جعل کیا ہے
نتیجہ
اس بحث و تحقیق سے یہ نتیجہ نکلا کہ :
اولاً: سیف نے خالد سے گفتگو کرنے والے شخص کا نام ” عبد المسیح بن عمرو “ سے بدل کر ”عمرو بن عبد المسیح “ ذکر کیا ہے اور اس تحریف شدہ نام کو طبری سے سیف کی سولہ روایتوں میں ذکر کیا ہے جبکہ اس کا نام بلاذری کی فتوح البلدان اور ابن حزم کی جمہرہ میں ابن کلبی سے نقل کرکے ----خود طبری نے بھی اسے نقل کیا ہے ----عبدا لمسیح بن عمرو ذکر ہو اہے ۔
ثانیاً : سیف نے اس صلح کے افسانہ پر خالد کے زہر کھانے کا افسانہ بھی ذکر کیا ہے اس افسانہ کو اس کے علاوہ کسی اور مؤرخ نے ذکر نہیں کیا ہے ۔
یہ دروغ سازی کیوں ؟
سیف بن عمر نے اس لحاظ سے اس روداد پر اس افسانہ کا اضافہ کیا ہے کہ وہ بخوبی جانتا تھا کہ لوگ اپنے گزشتہ گان کے بارے میں اس قسم کے فضائل سننے کے شوقین ہوتے ہیں لہذا سیف کیلئے یہ سنہرا موقع تھا کہ خرافات اور افسانوں کو مسلمانوں کے عقائد میں ممزوج کرکے مسلمانوں کو توہمات اور افسانہ پرست بنادے اور اسلام کو باطل اور خرافات کا دین بتائے ۔
اس کام اور اس قسم کے دوسرے کاموں میں اس کا محرک وہی اس کا کفر و زندقہ تھا جو اس کے دل میں پوشیدہ تھا اور علم رجال اور تاریخ کی کتابوں میں بھی اس کی زندقہ کی حیثیت سے توصیف و معرفی کی گئی ہے ۔
روایت کے راویوں کا سلسلہ
اولاً: سیف نے خالد کے زہر کھانے کی داستان کو :
۱۔ غصن بن قاسم
۲۔ محمد بن عبد اللہ بن سواد بن نویرہ
۳۔ ایک مرد کنانی سے نقل کیا ہے ۔
پہلے دوراوی سیف کے جعلی اور نقلی راویوں میں سے ہیں اور تیسرا راوی بھی مجہول غیر معروف ہے اور سیف نے اسے قبیلہ کنانہ کا ایک مرد جانا ہے اور سیف کے بغیر کوئی نہیں جانتا کہ یہ کنانی مرد کون تھا !
ثانیاً: سیف سے بھی مندرجہ ذیل بزرگوں نے اس داستان کو نقل کیا ہے :
۱۔ طبری نے سیف سے نقل کیا ہے اور طبری سے :
۲۔ ابن اثیر نے اور
۳۔ ابن کثیر نے نقل کیا ہے اور اسے اپنی تاریخ کی کتابوںمیںدرج کیا ہے کہ اس طرح ان تمام نقلوں کا سرچشمہ سیف ہے اور یہ وہی سیف جسے زندقہ کہا گیا ہے۔
حضرت عمر کے بارے میں پیغمبروں کی بشارتیں
البشری اورشلیم علیک الفاروق ینفیک مما فیک
مژدہ ہو تجھے اے اورشلیم کہ عمر تجھے کثافتوں سے پاک کرے گا
گزشتہ پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر
عمرو عاص کی جنگیں
طبری ۱۵ھء میں فتح فلسطین کی روداد کو سیف سے یوں نقل کرتا ہے :
عمر نے ایک خط کے ذریعہ عمرو عاص کو حکم دیا کہ روم کے سپہ سالار ”ارطبون “ سے فلسطین میںجنگ کرے ، اس کے بعد سیف کہتا ہے : یہ ارطبون “ حکومت روم کا چالاک ، مکار اور بڑے کام کا کمانڈر تھا اس نے فلسطین کے ایک قدیمی شہر ’ ’ رملہ “ میں ایک عظیم لشکر تیار کر رکھا تھا اور بیت المقدس میں بھی ایک دوسرا بڑا لشکر آمادہ رکھا تھا ۔
عمروعاص نے ” ارطبون“ کی آمادگی کے بارے میں عمر کو لکھا جب عمرو کا خط خلیفہ کے ہاتھ میں پہنچا تو اس نے کہا: ہم نے ارطبون ” عرب کو ” ارطبون “ روم سے جنگ کرنے کیلئے بھیجا ہے دیکھئے ان میں سے کون فتح پاتا ہے ، سیف اپنی بات کو یوں جاری رکھتا ہے کہ عمرو عاص اپنے لشکر کے ہمراہ روانہ ہوا اور ” اجنادین “ ۱ نامی ایک جگہ پر پڑاؤ ڈالا اور کچھ مدت وہاں پر ٹھہرا اس مدت کے دوران
-----------
۱۔ اجنادین فلسطین کے اطراف میں ایک جگہ ہے۔
”ارطبون “ کے کام میں اس کے کمزور نقاط سے اطلاع حاصل کرنے کیلئے کئی بار افراد کو ”ارطبون “ کے پاس بھیج دیا تا کہ اس کے معمولی ترین نقطہ ضعف سے مطلع رہے اور بوقتِ ضرورت اس سے استفادہ کرے مجبور ہوکر خود عمرو عاص بھی بعنوان نمائندہٴ عمرو عاص ارطبون کے پاس گیا اور نزدیک سے اس سے گفتگو کی اور اس گفتگو کے ضمن میں اپنی چالاکی اور خاص مہارت سے تمام قلعوں اور سپاہ ارطبون پر مسلط راستوں کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کی، لیکن ارطبون اپنی ذہانت سے سمجھ گیا کہ یہ جو عمرو عاص کے نمائندے کی حیثیت سے اس کے پاس آیا ہے ، خود عمرو عاص ہے اس لئے حکم دیا کہ کسی کو راستے میںمعین کرے تا کہ اسے قتل کردے ،عمرو عاص نے جب اپنی چالاکی اور فراست سے ارطبون کے منصوبہ کو سمجھ لیا تو ارطبون کے منصوبہ کو نقش بر آب کرنے کیلئے خود ایک تدبیر سوچی اور ارطبون سے کہا:
تم نے میری بات سنی اور میں نے بھی تیری بات سنی اور تیری بات نے مجھ پر ایک گہرا اثر ڈالا میں ان دس افراد میں سے ایک ہوں جنہیں خلیفہ نے عمرو عاص کے پاس بھیجا ہے تا کہ اس کی مدد اور تعاون کروں میں اس وقت جاؤں گا اور ان نو افراد کو بھی تیرے پاس لے آؤں گا اگر انہوں نے بھی تیری تجویز کو میری طرح قبول کیا تو یقینا سپہ سالار اور فوجی بھی اسی کی قبول کریں گے اور اگر ان نو افراد نے تیری تجویز کو قبول نہ کیا تو تجھے انھیں امان دینا ہوگا تا کہ وہ محفوظ جگہ پر واپس چلے جائیں ۔
ارطبون کو عمرو کی یہ بات پسند آئی اور اس کو قتل کرنے سے عارضی طور پر صرف نظر کیا اور قتل کے ماٴمور کو راستہ سے ہٹا لیا عمرو عاص اس تدبیر اور حکمت عملی سے ارطبون کی مجلس سے باہر آنے میں کامیاب ہوا، اس وقت ارطبون سمجھ گیا کہ عمرو عاص نے اسے دھوکہ دیا ہے اور تعجب کی حالت میں کہا:
عمرو ایک چالاک آدمی ہے!
اس کے بعد عمرو عاص نے چونکہ اپنے اس معائنہ کے دوران اس سرزمین کے تمام اصلی اور فرضی راستوں کو جان لیا تھا اور ارطبون تک جانے اور اس پر مسلط ہونے کے راستوں کو مکمل طور پر پہچان چکا تھا ، اس لئے وہ اپنے لشکر کے ساتھ اس کی طرف روانہ ہوا اور یہ دونوں لشکر ” اجنادین “ کی جگہ پر ایک دوسرے کے مقابلہ میں پہنچ گئے اور جنگ․ ” یرموک “ کے مانند ان میںا یک گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔
بہت سے افراد مارے گئے ارطبون کی فوج نے مسلمان کے ہاتھوں بری شکست کھائی انہوں نے بیت المقدس تک عقب نشینی کی اور عمرو نے فتحیابی کے ساتھ اجنادین پر قبضہ کیا ۔
جن مسلمانوںنے بیت المقدس کا محاصرہ کیا تھا ، ارطبون کو موقع دیا تا کہ بیت المقدس میں داخل ہوجائے، اس کے بعد مسلمان بیت المقدس کے اطراف سے متفرق ہوئے اور ” اجنادین “ میں عمرو عاص کے پاس چلے آئے ۔
|