گزشتہ مباحث کا خلاصہ اور نتیجہ
ھدف سیف من وضع ھذا التاریخ الاسائة الی الاسلام
اس داستان سازی سے سیف کا مقصد اسلام کو نقصان پہچانا تھا ۔
مؤلف
گزشتہ فصلوں میں ہم نے ملاحظہ کیا کہ سیف کی روایتوں کے مطابق خالد بن ولید جنگ ِ ذات السلاسل میں ایرانی فوجیوں کو جنہوں نے اپنے آپ کو زنجیروں اور سلاسل میں جکڑا تھا ،سب افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا ہے ۔
” ثنی “ کی جنگ میں ایسا قتل عام کرتا ہے کہ میدان کارزار میں مقتولین کی تعداد تیس ہزار تک پہنچتی ہے اس کے علاوہ ان کی ایک تعداد پانی میں غرق ہوجاتی ہے ۔
اس کے علاوہ خالد بن سید ” الیس “ کی جنگ میں قسم کھاتا ہے کہ دشمن کے خون سے ایک نہر جاری کرے اور اس مقصد کیلئے مسلسل تین دن تک سرزمین ” الیس “ کے باشندوں کو پکڑ پکڑ کر لاتا ہے اور ندی کے کنارے ان کا سر قلم کرتا ہے ، یہاں تک اس جنگ میںمقتولین کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ جاتی ہے ۔
اس کے بعد ’ ’ امغیشیا “ کو ویران کرتا ہے ۔
جنگ حیرہ میں ” آزادبہ “ کے لشکر کو نابود کرتا ہے ۔
جنگ ”حصید“ میں قعقاع بن عمرو ایک بڑے اور وحشتناک قتل عام کو انجام دیتا ہے اور ”حصید“ کے باشندے نیند اور بے خبری کے عالم میں تین جانب سے مسلمانوں کے حملہ و ہجوم کا نشانہ بن جاتے ہیں اور اتنے لوگ مارے جاتے ہیں کہ پورا علاقہ مقتولین کے جنازوں سے بھر جاتا ہے جیسے کہ بھیڑ بکریوں کی لاشین زمین پر پڑی ہوں ۔
سیف کے کہنے کے مطابق وہ پھر ” ثنی “ واپس آتا ہے اور وہاں کے باشندوں پر تین جانب سے حملہ کرتا اور تمام لوگوں کو تہہ تیغ کرتا ہے یہاں تک کہ ان میں سے ایک آدمی بھی موت اور مسلمانوں کی تلوار سے نجات نہیں پاتا تا کہ اپنے قبائل کو اس روداد کی خبر دیتا ۔
سیف کے کہنے کے مطابق مسلمانو ن نے تین طرف سے ” زمیل “ کے باشندوں پر ایک سخت حملہ کرکے ایک ایسے قتل عام کا بازار گرم کیا کہ گزشتہ جنگوں میں اس کی مثال نہیں ملتی ،کیونکہ خالد بن ولید نے اس جنگ میں بھی قسم کھائی تھی کہ ان پر شب خون مار کر ان سب کو نابود کردے گا۔
پھر خالد حکم دیتا ہے کہ ” فراض“ کے باشندوں پر شکست کے بعد سختی کریں، لہذا مسلمان سوار انھیں گروہ گروہ کی صورت میں پکڑ کر لاتے اور ایک جگہ کرکے سب کے سر قلم کرتے تھے اس جنگ میں مقتولین کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچی ۔
یہ ہیں سیف کی وہ فتوحات او رجنگیں جن کے گیت وہ اسلام و مسلمانوں کیلئے گاتا ہے ان المناک واقعات کو سننے کے بعد کس انسان کے رونگٹے کھڑے نہیں ہوں گے ؟ کیا مغل ، تاتار اور تاریخ کے دیگر لٹیروں اور غارتگروں کے ظلم اور خونریزی کی داستاںاس سے زیاد تھیں کہ ان افسانوی فتوحات میںذکر ہوئی ہیں او ر اس سلسلہ کی تاریخی روایتوں میں منعکس ہوئی ہیں ؟
کیا اسلام کے دشمنوں کو یہ فرصت نہیں ملی ہے کہ ان ہی جعلی تاریخی واقعات کو تاریخی وقائع کے روپ میں شائع کرکے انھیں اسلام کے خلاف ایک حربہ کی صورت میں استعمال کریں اور یہ کہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے ؟ کیا ان جعلی حوادث کے مطالعہ کے بعد کوئی شک کرسکتا ہے کہ سیف اسلام کے بارے میں بد نیتی رکھتا تھا ؟
کیا سیف کے ان جعلی داستانوں اور جھوٹ گڑھنے میں دانشوروں کے بقول اسکے ،کافر و زندیق ہونے کے علاوہ کوئی اور محرک ہوسکتا ہے ؟
تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کیا سیف کے یہ سب جھوٹ اور بہتان امام المؤرخین طبری اور اس کے علامہ ابن اثیر اور اس کے ترجمان ابن کثیر اور مؤرخین کے فلاسفر ابن خلدون اور دسیوں دوسرے تاریخ دان حضرات جیسے : ابن عبد البر ، ابن عساکر ، ذہبی اور ابن حجر کےلئے واضح نہیں تھے ؟ کہ انہوں نے کسی تحقیق اور جانچ پڑتال کے بغیر انھیں اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ؟
قطعی اور یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب حضرات سیف کوبخوبی جانتے تھے اور اس کے کفر و زندقہ اور فاسد و ناپاک عزائم کے بارے میں پوری اطلاع رکھتے تھے ، کیونکہ یہی مورخین ہیں جنہوں نے اسے جھوٹ بولنے والا اورافواہ بازمعرفی کیا ہے اور اس پر کافر وزندقہ ہونے کا الزام لگایا ہے لیکن اس کے باوجود کیوں انھوں نے اس کی روایتوں کو نقل کرکے شیر و شکر کے مانند انھیں آپس میں ملایا ہے؟ یہ واقعی طور پر تعجب و حیر کا مقام ہے اور اس سلسلہ میں دقت و تفکر انتہائی سر سام آور اور پریشان کن ہے ۔
ہم نے جنگ ” ذات السلاسل“ میں طبری ، ابن اثیر اور ابن خلدون کے بیان کا ذکر کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ اس جنگ کے بارے میںسیف کی روایت اس حقیقت کے خلاف ہے کہ اہل تاریخ و سیرت نے اس سلسلہ میں بیان کیا ہے لہذا یہ سب مؤرخین سیف کے جھوٹے اور زندقہ ہونے کے بارے میں اطلاع رکھتے تھے اور اطلاع و آگاہی کے باوجود اس کی روایتوں پر اعتماد کرکے اس کے جھوٹ نقل کئے ہیں اور وہ اس جھوٹ پر اعتماد کرنے کیلئے بھی محرک رکھتے تھے اور ان کے اسی محرک نے اس عمل کو محکم بنادیا ہے اس نے اپنے جھوٹ کو ان کے فضائل و مناقب کی تشہیر سے مزین کیا ہے یہی وجہ ہے کہ علماء اور مؤرخین نے ان روداد اور حوادث کے بہتان ہونے کے باوجود ان کی اشاعت میں کوشش کی ہے اور ان کی ترویج میں سعی و کوشش کی ہے ۔
مثلاً سیف نے فتوح عراق میں اپنے جھوٹ کو خالد بن ولید کے مناقب کی اشاعت کو پردہ میں چھپا دیا ہے الیس کی جنگ میں شہر امغیشیا کی تخریب کے سلسلے میں اس کے بارے میں یوں ذکر کیا ہے :
” ابوبکر نے کہا:اے گروہ قریش ! تمہارے شیر نے کسی دوسرے شیر پر حملہ کیا ہے اور اس کے ہاتھ سے لقمہ کو چھین لیا ہے دنیا کی عورتین خالد جیسے کو جنم دینے سے بے بس اور بانجھ ہیں “
اس کے علاوہ مرتدین کی جنگوں کو بھی ابوبکر کے مناقب سے مزین کیاہے اور فتوحات شام و ایران میں بھی (کہ اس کے کہنے کے مطابق عمر کے زمانے میں واقع ہوئی ہیں) اسی روش پر عمل کیا ہے ۔
دوبارہ عثمان کے زمانے کے حوادث اورجنگ جمل میں بھی اسیطرح کی پردہ پوشی سے استفادہ کیاہے تمام داستانیں جو حوادث کے بارے میں جعل کی ہیں انھیں صاحب اقتدار ، زور آور اور جنگجو اصحاب کے مناقب و فضائل سے مزین کیا ہے یہی وجہ ہے کہ سیف کی روایتوں نے رواج پیدا کیا اور تشہیر ہوئی لیکن اس کے مقابلہ میںتاریخ کی صحیح اورحقائق پرمبنیروایتیں فراموشی کی نذر ہوئی ہیں۔
لیکن ، اس نکتہ پر بھی توجہ کرنی چاہئے کہ اگر چہ سیف نے اپنی روایتوں کو صحابہ کے فضائل کے ذریعہ پردہ پوشی کی ہے لیکن حقیقت میںیہ ہے کہ یہ داستانیں نہ صرف اصحاب کیلئے کسی قسم کی فضیلت نہیں بنتی ہیں بلکہ حقیقت میں ان کیلئے ملامت اورمذمت کا باعث ہیں ۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ان مؤرخین نے کیوں اس نکتہ کی طرف توجہ نہیں کی کہ خالد کے لاکھوں انسانوں کو قتل کرنے اور خون کی ندی بہانے کیلئے ندی کے کنارے ان کا سر قلم کرنے میں خالد کےلئے کونسی فضیلت ہے ؟ اس کے علاوہ ویرانیاں نیز شہروں اور آبادیوں کو مسمار کرنے میں خالد کی کوئی تعریف و فضیلت نہیں ہوسکتی ، مگر بے عقیدہ افراد اور زندیقیوں کے نظریہ کے مطابق کہ زندگی و حیات کو نور کےلئے ایک زندان تصور کرتے ہیں اورکہتے ہیں زندگی کے اس زندان کو منہدم کرنے کیلئے بیشتر تلاش و کوشش کرنی چاہئے تا کہ وہ نور نجات پائے ۱
بہر حال سیف کے بے مصرف متاع نے تاریخ کے بازار میں اس طرح شہرت پائی ہے کہ ایک طرف سے خود سیف نے زورآور اصحاب کے مناقب سے اسے رنگ آمیزی کی ہے کہ ہر مطلب
و داستان جو بظاہر ایسے اصحاب کیلئے ایک فضیلت شمار ہوتی ہے اگر چہ حقیقت میں یہ فضیلت نہیں ہے
------------------------------------------------------------
۱۔ملاحظہ ہو موضوع بحث الزندقہ و الزنادقہ کتاب ”خمسون وماٴة صحابی مختلق “
پھر بھی اسے لوگوں میں تشہیر کرکے اسے رواج دیاگیا ہے ۔
اس سے بدتر یہ ہے کہ سیف نے صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیاکہ بعض روایتوں اور داستانوں کو جعل کرکے جو بظاہر اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلئے فضیلت شمار ہوں اور انہیفضائلکےپس پردہ اپنیچاہت کے مطابق اسلام کو ضربہ پہچانے کیلئے ان کی اشاعت کی، بلکہ سیف نے پیغمبر کےلئے ایسے اصحاب بھی خلق کئے ہیں کہ خداوند عالم نے انھیں پیدا نہیں کیا ہے اس کے بعد اپنی مرضی کے مطابق ان کیلئے شرف ، کرامت ، فتوحات ، اشعار اور فضائل و مناقب قلم بند کئے ہیں اس کے، اس کام کا محرک یہ تھا کہ وہ بخوبی جانتا تھا کہ بعض مسلمان جو کچھ بھی اصحاب کی مدح و ثناء اور منقبت وفضیلت میں ہو، اس کا دل کھول کر استقبال کرتے ہیں اور اسے آنکھیں بند کرکے قبول کرنے کیلئے تیار ہیں اس نے بھی اسی عقیدہ پر اعتماد و تکیہ کرکے اسلام کو تخریب اور منہدم کرنے کیلئے جو کچھ مناسب سمجھا اسے جعل کرکے مضحکہ خیز مسکراہٹ کے ساتھ مسلمانوں کے حوالہ کیا ہے ،اور یہ سادہ لوح تاریخ دان سیف کی خواہش اور مقصد کی پیروی کرکے گزشتہ تیرہ صدیوں سے اس کے جھوٹ اور بہتانوں کو رواج دینے کی اشاعت کررہے ہیں الحمد اللہ ہم ان کے منحوس منصوبوں کو ناکام بنا کر تاریخ کے حقیقی چہرے سے توہمات اور باطل کے ضخیم پردوںکو اٹھانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔
ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں کیونکہ جو نمونے ہم نے پیش کئے وہ سیف کی تمام روایتوں کی قدر و منزلت جاننے کیلئے کافی ہیں ، جو اس نے مسلمانوں کی فتوحات اور مرتددوں سے جنگوں کے بارے میں نقل کی ہیں تا کہ یہ ثابت کرے کہ اسلام تلوار کے زور پرپھیلا ہے “
اگر ہم صحابہ کے زمانے میں اسلامی فتوحات کے بارے میں سیف کے نقل کئے گئے جعلیات اور بہتانوں میں سے ہر ایک پر الگ الگ تحقیق و جانچ پڑتال کرنا چاہیں تو بحث و تحقیق کا دامن مزید وسیع اور طولانی ہوگا اور موضوع تھکن اور خستگی کا سبب بن جائے گا اسلئے سیف کے برے عزائم کو دکھانے کیلئے کہ جو اسلام کو خون و تلوار کا دین معرفی کرتا ہے ، اسی قدر سیف کی جھوٹی جنگوں اور فتوحات پر اکتفاء کرتے ہیں اور اسکے علاوہ محققین کے ذمہ چھوڑ دیتے ہیں ہم اس کتا ب کے اگلے حصہ میں سیف کی توہمات پر مشتمل روایتوں پر بحث کریں گے ۔
|