عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
دوسری جلد
 
فتح حیرہ کے بعد والے حوادث
فقتل یوم الفراض ماٴة الف
مسلمانوںنے جنگ فراض میں ایک لاکھ افراد کا قتل کیا ۔
سیف بن عمر

۱۔ جنگ حصید
سیف کہتا ہے : فتح حیرہ کے بعد ----جس کی داستان گزشتہ فصل میں بیان ہوئی ----ایرانیوں نے مسلمانوں کے خلاف دوبارہ بغاوت کی ۔ ” ربیعہ “ کے عرب بھی ان کی نصرت کیلئے اٹھے اور سب کے سب ”حصید “ نامی مقام پر جمع ہوکر مسلمانوں سے لڑنے کیلئے آمادہ ہوگئے ۔ مسلمانوں نے بھی قعقاع بن عمرو سے مدد کی درخواست کی ۔ قعقاع ان کی مدد کرنے کیلئے آمادہ ہوا اور ایرانیوں اور ربیعہ کے عربوں سے لڑنے کیلئے ” حصید “ کی طرف روانہ ہوا ۔ انکے ساتھ سخت جنگ کی ۔ اس جنگ میں قعقاع (مسلمانوں) کو فتح، نصیب ہوئی ۔
اس جنگ میں کافی تعداد میں ایرانی مارے گئے اور ایرانیوں کا سپہ سالار ” زمہر “ بھی اس جنگ میں قتل ہوا اور اس کا قاتل قعقاع تھا ۔ اس جنگ میں ” روزبہ “ بھی قتل ہوا اور اس کا قاتل ، قبیلہ ”حارث بن طریف ضبی “کا ” عصمت بن عبدربہ “ نامی ایک شخص تھا ، عصمت گروہ ” بررہ “ میں شمار ہوتا تھا اور ” بررہ “ ایک ایسے خاندان کو کہتے ہیں، جس کے تمام افراد مدینہ ہجرت کرچکے تھے ، اور آنحضرت کو درک کرچکے تھے ۔ ” خیرہ“ بھی ایک گروہ کا نام ہے جس کے قبیلہ کے تمام افراد مدینہ ہجرت کرگئے تھے ۔
بہر صورت اس جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ کافی مقدار میں جنگی غنائم آئے اور لشکرحصید کے بچے کھچے افراد ” خنافس “ کی طرف فرار کرگئے ۔ جب مسلمان ان کا پیچھا کرتے ہوئے ” خنافس“ میں داخل ہوئے تو ایرانیوں کا سپہ سالار ” مہبوذان “ اپنے لشکر کے ہمراہ ”خنافس“ سے ” مصیخ “ کی طرف بھاگ گیا

2-جنگ مصیخ
سیف کہتا ہے : ایرانی لشکر اور ان کے سپہ سالار ” بہبوذان “ کے مصیخ کی طرف فرار کرنے کی اطلاع خالد بن ولید کو ملی ۔ اس نے اپنے لشکر کے کمانڈر ، قعقاع ، اعبد بن فدکی اور دوسرے کمانڈروں کے نام ایک خط لکھا اور ان کیلئے ایک رات مقرر کی تا کہ اس رات کو وہ سب مصیخ میں اجتماع کریں ۔ مقررہ وقت پر فوجی مصیخ میں جمع ہوئے دشمن کے افراد جو بے خبری کے عالم میں گہری نیند سورہے تھے تین جانب سے مسلمانوں کے حملوں کا نشانہ بنے ۔ مسلمانوں نے دشمن کا ایسا قتل عام کیا کہ مصیخ کے بیابان میں کشتوں کے پشتے لگ گئے ۔ اس بیابان میں جس نقطہ پر نگاہ پڑتی تھی دشمنوں کے جنازے زمین پر بھیڑ بکریوں کی لاشوں کے مانند بکھرئے ہوئے نظر آرہے تھے

۳۔ جنگ ثنی
پھر سیف کہتا ہے : جب مصیخ کے لوگوں نے اس طرح شکست کھائی اور مسلمانوں کے ہاتھوں خفت اٹھائی تو تغلب کے قبائل نے مسلمانوں کے خلاف بغاوت کی اور ان سے جنگ کی غرض سے ”ثنی “ اور ” زمیل “ میں جمع ہوگئے خالد بن ولید نے اپنے کمانڈروں کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ ” ثنی “ اور ” زمیل “ کے باشندوں کے ساتھ مصیخ کے لوگوں کا سا سلوک کریں گے لہذا خالد نے اپنے سپاہ کو آمادہ کیا اور رات کی تاریکی میں تین جانب سے ثنی پر دھاوابول دیا اور سب لوگوں کو تہہ تیغ کر ڈالا ، ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنایا ۔ ثنی میں دشمن کی جمع شدہ فوج میں سے ایک فرد بھی زندہ نہ بچ سکاتا کہ روداد کی خبر کوزمیل میں موجود اپنی دوسری سپاہ تک پہنچا سکے ۔

۴۔ جنگِ زمیل
اس کے بعد سیف نے روایت کی ہے :
خالد نے ”ثنی “ کے باشندوں کا کام تمام کرنے کے بعد ” زمیل “ کے بے خبر لوگوں کی طرف رخ کیا اور ان پر تین جانب سے شب خون مارا ۔ ان کے بہت سے افراد کو ایسے قتل کر ڈالا کہ گزشتہ جنگوں میں اس کی مثال نہیں ملتی ہے کیونکہ خالد نے قسم کھائی تھی ۱ کہ دشمن پرشب خون مار کر ان سب کو نابود کر ڈالے گا مسلمانوں کو اس جنگ میں کافی مقدار میں مال غنیمت ہاتھ آیا ۔ جنگ کے خاتمہ پر
-----------
۱۔ میں نہیں جانتا کہ خالد نے انسانوں کے قتل کی کتنی قسمیں کھائی تھیں؟!

خالد نے ان تمام غنائم کو اپنے سپاہیوں کے درمیان تقسیم کیا اور اس کے خمس کو ابوبکر کے پاس مدینہ بھیج دیا ۔

۵۔ جنگ ِ فراض
پھر سیف کہتا ہے : خالد ” زمیل “ سے ” فراض“ کی طرف روانہ ہوا تو دوسری طرف سے روم کی حکومت نے مسلمانوں کی خونریز روش سے سخت غضبناک ہوکر ان کی بیخ کنی کیلئے روم کی سرحد پر موجود ایرانی فوجی کیمپوں کی مدد کی اس کے علاوہ عربوں کے مختلف قبائل جیسے ’ تغلب “ ” ایاد “ اور”نمر“ کی بھی مدد کی ۔
ان سب نے روم کی حکومت سے وعدہ کیا کہ وہ اس کی حمایت اور مدد کریں گے اورمسلمانوں سے جنگ کرنے کی اپنی آمادگی کا اظہار کیا اور انہوں نے اپنے فوجیوں کو رومیوں کے اختیار میںد یدیا اس طرح ایک بہت بڑا لشکر جمع ہوا اور روم کے افواج کے ساتھ ملحق ہوا اس طرح ایک عظیم فوج تشکیل پائی ۔ اس کے بعد رومیوں اورمسلمانو ں کے د رمیان ایک گھمسان اور طولانی جنگ چھڑگئی ۔ یہ جنگ بھی رومیوں کی شکست پر ختم ہوئی خالد نے یہاں پر مسلمانوں کو حکم دیا کہ جہاں تک ممکن ہو سکے ان کے بارے میں سختی کریں اور کسی قسم کی نرمی نہ برتیں اس کے نتیجہ میں مسلمان دشمن کے فراری سپاہیوں کو پکڑ کر نیزوں اور برچھیوںکے سائے میں گروہ گروہ کی صورت میں لاکر ایک جگہ جمع کرتے تھے اور اس کے بعد سب کے سر قلم کرتے تھے ۔ مسلمانوں نے اس جنگ میںایک لاکھ افرادکو قتل کرکے انھیں خاک و خون میںغلطاں کیا ۔

سند کی تحقیق
سیف کی نقل کردہ ان روایتوں میں محمد ، مہلب ، زید اورغصن بن قاسم نامی چند راوی ملتے ہیں کہ یہ سب سیف کے جعل کردہ راوی ہیں اور اس نام و نشان کے راوی دنیا میںکہیں موجود نہیں تھے جیساکہ ہم نے اس سے پہلے بھی ذکر کیا ہے ۔
اس کے علاوہ ان روایتوں کی سند میں ” ظفر بن دھی “ نامی ایک اور راوی نظر آتا ہے کہ وہ بھی سیف کا جعلی صحابی پیغمبر اور نقلی راوی ہے ۔
سیف نے ان روایتوں کی سند میں قبیلہ سعد کے ایک شخص اور قبیلہٴ کنانہ کے ایک شخص کو راویوں کے طور پر پیش کیا ہے لیکن ان کیلئے نام معین نہیںکئے ہیں تا کہ علم رجال کی کتابوں میں درج ہوکر ان کی سوانح لکھی جاتی ۔
ہم ان دو بے نام و نشان راویوں کے حالات پر روشنی ڈالنے سے معذور ہیں ۔

تحقیق کا نتیجہ
جو کچھ ہم نے ”حیرہ “ کے بعد خالد کی جنگوں کے بارے میںاس فصل میں بیان کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے :
تنہا سیف ہے جس نے ’ جنگ حصید“ کے نام پر ایک جنگ کا ذکر کیا گیا ہے ،جس میں بڑی تعداد میں ایرانیوں کاقتل عام کیا گیااور اسی طرح ” روزبہ “ اور ” رژمہر “ نامی دو ایرانی کمانڈروں کے قتل کے بارے میں نقل کیا ہے۔
یہ تنہا سیف ہے جس نے ” عصمت بن عبدربہ ضبی “ نامی ایک صحابی کا نام لیا ہے اور اسے قبیلہ ”بررہ “ میں شمار کیا ہے اور اس کے ضمن میںیہ وضاحت کی ہے کہ ” بررہ “‘ ہراس قبیلہ و خاندان کو کہتے ہیں کہ اس کے تمام افراد نے مدینہ ہجرت کی ہو اور ” خیرہ “ بھی کسی خاندان کے اس گروہ کو کہتے ہیں جنہوں نے اپنے قبیلہ سے مدینہ ہجرت کی ہو ۔
پھر تنہا یہی سیف ہے جس نے ” مصیخ “ نامی ایک جگہ کا نام لیا ہے اور کہا ہے کہ اس جگہ کے لوگ مسلمانوں سے جنگ میں اس قدر قتل ہوئے کہ مقتولین کے جنازے بھیڑ بکریوں کی لاشوں کے مانند بیابانوں میں بکھرے پڑے تھے ۔
پھر تنہا سیف ہے جس نے ’ ثنی “ اور وہاں کے تمام باشندوں کے قتل اور نابود ہونے کی بات کی ہے اور اس طرح ” زمیل “ نامی ایک اور جگہ پر بے مثال قتل عام کی تعریف کی ہے ۔
یہ تنہا سیف ہے جس نے ” جنگ فراض “ اور اس جنگ میں ایک لاکھ افراد کے قتل ہونے کی خبرہمارے لئے نقل کی ہے ۔
پھر تنہا سیف ہے جس نے نقاط ، اماکن ، شہروں اور بہت سی آبادیوں کا نام اپنی روایتوں اور داستانوں میں بیان کیا ہے کہ کسی کو ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے یاقوت حموی نے بھی ان اماکن اور جگہوں کے نام کوسیف سے نقل کرکے واقعی شہروں اور اماکن کی فہرست میں درج کیا ہے اور حموی سے بھی ’ ’ مراصد الاطلاع “ کے مؤلف نے انھیں نقل کرکے اپنی کتاب میںد رج کیا ہے ۔
بنیادی طور پر ان داستانوں اور حوادث کو طبری نے سیف سے نقل کیا ہے پھر ابن اثیر اور ابن کثیر نے بھی طبری سے نقل کرکے انھیںاپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔
پھر تنہا سیف ہے جو اپنی ان داستانوں میں پیغمبر کے خاص اصحاب جیسے : اعبدا بن فدکی اور عصمة ابن عبد اللہ ضبی کا نام لیا ہے کہ سیف کے علاوہ کوئی بھی شخص پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلئے ان نام ونشان کے اصحاب کے بارے میں کچھ نہیں جانتا لیکن طبری نے ان سب کو سیف کی داستانوں سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اس کے علاوہ ” الاصابہ “ کے مؤلف نے بھی انھیں طبری سے نقل کرکے ان ناموں کو پیغمبر کے واقعی اصحاب کی فہرست میں درج کیا ہے ۔

سیف کی روایتوں کا دوسرے مورخین کی روایتوں سے موازنہ
ھکذا کانت طبیعة غزوات خالد فی العراق
عراق میں خالد کی جنگیں اس طرح تھیں (نہ اس طرح کہ سیف کہتاہے(
مؤلف

ہم نے گزشتہ فصل میں فتح حیرہ کے بعد خالد کی جنگوں کے بارے میں سیف کی روایتوں کے ایک خلاصہ کا مطالعہ کیا اور سند کے لحاظ سے ان کے ضعیف ہونے کا بھی مشاہدہ کیا ،اب ہم اس سلسلہ میں ان دو نکتوں کی طرف اشارہ کریں گے جو ان داستانوں کے ضعیف اور جعلی ہونے کو ثابت کرنے کے سلسلے میں ضروری نظر آتے ہیں :
۱۔ چنانچہ گزشتہ فصل میں ملاحظہ فرمایا کہ سیف جنگ حیرہ کے بعد چند جنگیں نقل کرتاہے اور ان جنگوں میں مقتولین کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچادیتا ہے اور کہتا ہے کہ صرف جنگ فراض میں مسلمانوں کی تلواروں سے ایک لاکھ افراد قتل کئے گئے ۔
جبکہ اولاً اس زمانہ میں وہ بھی ان دیہات اور قصبوں میں اتنے لوگوں کا اجتماع ناقابل قبول ہے اس کے علاوہ اس زمانے کے سرد اسلحہ اور جنگی وسائل سے اتنے لوگوں کا قتل عام کرنا سرسام آوراور ناقابل یقین ہے کیونکہ خود سیف کے کہنے کے مطابق یہ جنگیں عراق میں واقع ہوئی ہیں اور عراق کا علاقہ ان دنوں چھوٹے چھوٹے دیہات پر مشتمل تھا جو پراکندہ حالت میں ندیوں کے کناروں پر آباد تھے ان آبادیوں کے لوگ عرب نسل کے کسان اور بعض جگہوں پر ایرانی رہا کرتے تھے، ان دیہات میںسب سے بڑی آبادی حیر ہ تھی کہ عرب بادشاہ اس آبادی میں سکونت کرتے تھے ”بلاذری “ کی نقل کے مطابق جب خالد بن ولید نے عراق کے سب سے بڑے شہر حیرہ کی مردم شماری کی تو ان کی تعداد چھ ہزار تک پہنچ گئی ان پر لازم قرار دیا کہ سالانہ چودہ درہم فی کس ، اسلامی حکومت کوبعنوان جزیہ و ٹیکس ادا کریں ۔
جب ایک مرکزی شہر کی آبادی چھ ہزار ہو تو قریہ اور اس کے دوسرے دیہات کی آبادی کتنی ہونی چاہیے تا کہ مقتولین کی تعداد صرف ایک جنگ میں ایک لاکھ افراد تک پہنچ جائے ؟ اور اکیس خونین جنگیں بھی واقع ہوجائیں ۔
۲۔ ان جنگوں کی حقیقت سے آگاہ ہونے کے لئے (کہ جن سے ان دنوں عراق کے شہروں میںآٹے کی پن چکیاں چلنے لگیں) جب ہم معروف مؤرخ دینوری کے بیان پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی کتاب ” اخبار الطوال “ میں ایسے مطالب بیان کرتا ہے جن سے سیف کی جنگوں اور داستانوں کی بنیاد درہم برہم ہوکر ان کا جعلی اور افسانوی ہونا واضح ہوجاتا ہے ۔

دینوری یوں کہتا ہے:
جب سلطنت ،کسری کی بیٹی پوران کو ملی تو یہ افواہ پھیل گئی کہ ایران ایک شائستہ پادشاہ اور ایک دانا رہبر سے محروم ہے اور وہاں کے لوگ بیچارگی کی وجہ سے ایک عورت کے گھر میں پنا گزین ہوئے ہیں یہی وجہ تھی کہ اس زمانے کے ڈاکوؤں اور لٹیروں نے اس فرصت سے استفادہ کیا اور قبیلہٴ بکر بن وائل کے دو افراد نے ایرانی آبادی والے دیہات کے لوگوں کے مال و ثروت پر ڈاکہ مارا اور جہاں تک ممکن ہوسکا لوٹ کھسوٹ مچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔
جب لوگ ان کا پیچھا کرتے تھے تو وہ بیابانوں میں چھپ جاتے تھے اور لوگ انھیں پکڑنے سے عاجز تھے ، ان دو افراد میں سے ایک ” مثنی“ تھا جو حیرہ کے اطراف میں ڈاکہ زنی کرتا تھا اوردوسرا ” سوید“ تھا جو ” ابلہ “ کے اطراف میں لوٹ کھسوٹ مچارہا تھا یہ روداد ابوبکر کی خلافت کے دوران رونما ہوئی ،یہاں تک مثنی نے ابوبکر کے نام ایک خط لکھا اور اس خط میں ایرانیوں کی نسبت اپنی طاقت اور ایرانیوں کی کمزوری کے بارے میں انھیں مطلع کیا اور اس سے مدد اور لشکر بھیجنے کی درخواست کی تاکہ ایرانیوں پر حملہ کرسکے اور اس وسیع سرزمین کو مسلمانوں کیلئے فتح کرے ۔
ابوبکر نے یہ موضوع خالد بن ولید کو لکھا ، جو ان دنوں مرتدوں کی جنگ سے فارغ ہوچکا تھا ، اور اسے حکم دیا کہ حیرہ کی طرف روانہ ہوجائے اور مثنی کو اپنے لشکر کے ساتھ ملحق کرے ،خالد بھی ابوبکر کے فرمان کے مطابق حیرہ میں داخل ہوا لیکن مثنی نے خالد کے حیرہ میںداخل ہونے پر تنفر کا اظہار کیا،
پھر جب ہم بلاذری کی فتوح کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہاں پر مشاہدہ کرتے ہیں اس نے اپنی کتاب میںخالد کی جنگ خاص کر حیرہ کی جنگوں کے بارے میںا س طرح تفصیلات ذکر کئے ہیں کہ ہمارے لئے ان جنگوںکی حقیقت واضح ہوسکتی ہے ہم نے گزشتہ صفحات میں حیرہ کی جنگوں کے بارے میں بلاذری سے نقل کرکے کچھ گوشے بیان کئے ہیں اب ہم اس فصل میں اس کا ایک خلاصہ بیان کریں گے جو اس نے حیرہ کے بعد والی جنگوں کے بارے میں نقل کیا ہے :

بلاذری کہتا ہے :
خالد نے بشیر بن سعد انصاری کو ” بانقیا“ روانہ کیا فرخبنداذ کی کمانڈری میں سپاہ عجم کے ایک گروہ نے اس کا راستہ روک کر اس پر تیر اندازی کی ،بشیر کے فوجیوں نے بھی اس پر حملہ کیا اور انھیں بری طرح شکست دیکر فرار کرنے پر مجبور یا حتی خود ” فرخبنداذ“ کو بھی قتل کر ڈالا لیکن بشیر اس جنگ میںبری طرح زخمی ہوا اس لئے مجروح حالت میں میدان جنگ سے پیچھے ہٹا اور ’ ’عین التمر “ کے مقام پر زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا
بعض نے کہا ہے کہ ” فرخبنداذ“ کو خود خالد نے قتل کیا اور ” جریر بن عبدربہ بجلی “ کو ان کی طرف بھیجا، ”صلوبا “ کا بیٹا ”بصبہری “ اس کے پاس آیا اور صلح کی تجویز پیش کی ،جریر نے بھی ان کی تجویز قبول کی اور دو ہزار درہم اور ” طلیسان ‘ کو ان سے لے کر صلح کی ۱
بعض مورخین نے کہا ہے کہ صلوبا کا بیٹا خود خالد کے پاس آیا اور اس کے سامنے صلح کی تجویز
-----------
۱۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ دو ہزار درہم اور ” طلیسان “ سالانہ ٹیکس اور جزیہ کے طور پر لیا جاتا تھا

پیش کی ، اور بعض نے کہا ہے کہ جنگ حیرہ کے بعد خالد ” فلالج “ میںآیا ۔ وہاں پر کچھ عجمی جمع ہوئے تھے اور وہ خالد کو دیکھ کر پراکندہ ہوئے اس لئے خالد کے لشکر کی وہاں پر کسی سے مڈ بھیڑ نہیں ہوئی اور وہ کسی کو قتل کئے بغیرحیرہ کی طرف واپس لوٹا۔ حیرہ میں خالد کو اطلاع ملی کہ شہر شوشتر میں ”جابان “ نے کچھ لوگوںکو اپنے گرد جمع کیا ہے اور مسلمانوں سے جنگ کرنے کی تیاری کررہاہے اسی لئے مثنی اور حنظلہ بن ربیع کو جابان کی طرف روانہ کیا جب یہ افراد شوشتر پہنچے تو جابان نے ”انبار“ کی طرف فرار کیا اور شوشتر کے لوگوں نے قلعوں میں پنا لے لی خالد نے جب روداد کو اس صور ت میں پایا تو مثنی کو چند سپاہیوں کے ہمراہ بغداد کے قدیمی بازار کی طرف بھیج دیا کہ اسے لوٹ لیں مثنی کے سپاہیوں نے بغداد کے بازار پر حملہ کیا اور سونا ، چاندی ، اور ہلکی مگر قیمتی اشیاء ان سے غنیمت کے طور پر لے لیں، اس کے بعد ” انبار ‘ کی طرف رخ کیا ، جہاں پر خالد بھی موجود تھا ،خالد کے حکم سے انبار کو اپنے محاصرہ میں لے لیا اور اس کے اطراف میں آگ لگادی انبار کے باشندوں نے جزیہ اور مختصر حقِ صلہ ادا کرکے خالد سے صلح کرلی۔
بعض مؤرخین نے کہا ہے کہ ” انبار “ کے لوگوں کی صلح عمر کے زمانے میں جریر سے ہوئی ہے ،
خلاصہ یہ کہ مؤرخین کے کہنے کے مطابق عراق میں خالد کی جنگیں اس صورت میں تھیں کہ وہ بعض اوقات چند سوار فوجیوں کو ایک گاؤں میں بھیجتا تھا اور اس گاؤں کے لوگ صلح کی تجویز کے ساتھ جزیہ اور ٹیکس ادا کرکے ان کا استقبال کرتے تھے یا مختصر مقابلہ اور تیر اندازی کے بعد دشمن کو شکست دیتے تھے یا بازار میں دشمن کے اجتماع پر حملہ کرکے انھیںمتفرق کر دیتے تھے اور ان کے اموال کو بازار سے غنیمت کے طور پر لوٹ لیتے تھے اور بعض اوقات ایک شہر یا گاؤں پر حملہ کرتے تھے اور وہاں کے غنڈوں اور طاغوتیوں سے لڑتے تھے یا ان پر حملہ کرتے تھے جو مسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹھائے ہوئے تھے اور ان میںسے بعض بعض کو قتل کرتے تھے اور ضمناً ان واقعات کے دوران بعض افراد کو اسیر بناتے تھے اور غنائم جنگی پر بھی قبضہ کرلیتے تھے ۔
البتہ اس قسم کی پراکندہ اور چھوٹی جنگیں خالد کے لشکر کی تعداد سے مطابقت رکھتی ہیں کہ بلاذری خالد کے فوجیوں کی تعداد کے بارے میںکہتا ہے :
خالد بن ولید ۱۳ھء ربیع الاول کے مہینہ میں شام کی طرف روانہ ہوا تا کہ وہاں پر مسلمان فوجیوں کی مدد کرے شام جاتے ہوئے راستے میں عراق میں یہ چھوٹے حملے بھی انجام دئے ۔
بعض نے کہا ہے کہ اس کا لشکر سات سو افراد پر مشتمل تھا ،اور بعض راویوں نے کہا ہے کہ اس کے چھ سو سپاہی تھے اور بعض دوسروں نے اس کے سپاہی کی تعداد پانچ سو افراد نقل کی ہے ۔
واضح ہے کہ آٹھ سو یا پانچ سو افراد پر مشتمل ایک فوج یہ طاقت نہیں رکھتی کہ لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار سکے جیسا کہ سیف کی روایتوں میں بتایاگیا ہے ۔