ہمارا جواب جو جواب ہم نے دیا ، وہ حسب ذیل ہے :
آپ کا ۲۴/۱/ ۱۹۵۷ءء کو لکھا گیا خط ملا ، کتاب ” عبد اللہ بن سبا “ پر آپ کی تنقید و بحث میرے لئے خوشنودی و مسرت کا سبب بنی ، کیونکہ تنقید ایک ایسی چیز ہے جو مصنف کو اس امر کی طرف توجہ دلاتی ہے جس کے بارے میں اس نے غفلت کی ہو ، تا کہ اسے پورا کرکے اپنی بحث کو اختتام تک پہنچا کر فائدہ حاصل کرسکے آپ نے اس تنقید کے ذریعہ میری اس کوشش میں شرکت کی ہے اور ہماری اس جانچ پڑتال اور علمی تحقیق میں تعاون فرمایا ہے میں آپ جیسے دانشوروں کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اپنے بھائی کے بارے میں اپنا فریضہ انجام دیا ہے ۔
لیکن ، جوآپ نے چند سوالات کرکے عنایت کی ہے ، اس سلسلے میں عرض ہے:
اولاً: آپ نے سوال کیا ہے کہ کیا سیف کے بارے میں علم حدیث کے دانشوروں کا یہ کہنا کہ وہ ضعیف اور مردود ہے ، ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ اس کی تاریخی روایتوں کو چھوڑ کر اس پر عمل نہ کریں اور اہل حدیث ----مثلاً کسی ایسے شخص کو جو عقیدہٴ قدریہ سے مہتم ہو ---ضعیف جان کر اس کی روایتوں پر عمل نہیں کرتے ہیں ؟
ہم اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں : نہیں ، کیونکہ اہل حدیث کی تمام روایتوں کے راوی کو ضعیف ہونے کا الزام نہیں لگاتے ہیں اور انھیں یکبارگی رد نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے ضعیف ہونے کے بارے میں مطالعہ کرتے ہیں اور دقیق نظر ڈالتے ہیں کہ اگر کسی کو کسی سبب کے بغیر ضعیف کہا گیا ہو تو ان کے نظریہ کی تائید نہ کرتے ہوئے اس پر عمل نہیں کرتے ہیں ، لیکن اگر جرح و تضعیف کی علت بیان کی گئی ہو تو اس علت پر توجہ کرتے ہیں اور اگر ہم درک کر لیتے ہیں کہ مثلاً ان مطالب کو علت قراردیا ہے کہ ” فلاں مرجئہ “ ہے اس لئے اس کی حدیث متروک ہے ”فلاں شیعہ ہے اور اس پر رافضی ہونے کا الزام ہے “ فلاں ضعیف ہے ، کیونکہ خلق قرآن کا قائل ہے یا متروک ہے کیونکہ فلسفیوں کی باتوں کی ترویج کرتا ہے “ اس صورت میں ہم اس قسم کی تضعیفوںپر اعتنا نہیں کرتے ہیں۔
لیکن اگر ہم دیکھتے ہیں کہ جرح میں اس قسم کے الفاظ کہے گئے ہیں ” جعل کرنے والا ہے “ ایسے افراد سے روایت کرتا ہے جنہیں خود اس نے نہیںد یکھا ہے ، ” حدیث کو گڑھ لیتا ہے اور غیر معروف اشخاص سے ان کی نسبت دیتا ہے “ جبکہ یہ کہنے والا راوی کا ہم عصر یا اس کے عقیدہ کا مخالف نہ ہو اور اس کے بارے میں خود غرضی نہ رکھتا ہے اور مذہب کے سلسلے میں بھی اس سے اختلاف نہ رکھتا ہو ، جیسے اگر ایک اشعری ہو تو دوسرا معتزلی نہ ہو ، تو ایسی صورت میں دانشور کی بات کو رد نہیں کرسکتے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ جرح کی دوسری وجوہات کی وجہ سے اس کے ساتھ اختلاف رکھنے کی بناء پر اس خاص جرح کے سلسلے میں اعتناء نہ کریں ۔
اس بناء پر میں نے علمائے حدیث کے بیان کو سیف بن عمر کے بارے میں نقل کیا ہے اور میں نے اسے قبول کیا ہے کیونکہ انہوں نے اس کے بارے میں کہا ہے :
” وہ حدیث جعل کرتا تھا “ خود حدیث گڑھ لیتا تھا اور اپنی گڑھی ہوئی حدیثوں کو باوثوق راویوں کی زبانی نقل کرتا تھا “ جنہوں نے اس کے بارے میں یہ الفاظ کہے ہیں وہ علمائے حدیث میں سے گوناگون افراد اس کے بعد والی صدیوں کے دوران مختلف طبقات سے تعلق رکھتے تھے ، اسکے علاوہ میں نے صرف علمائے حدیث پر اکتفاء نہیں کیا ہے بلکہ اس کی روایتوں کو دوسروں کی روایتوں سے موازنہ بھی کیاہے اور اسی موازنہ اور تحقیق کانتیجہ یہ تھا کہ میں نے علمائے حدیث کی بات کی سیف کے بارے میں تائید کی ہے ۔
آپ نے اپنے دوسرے سوال میں یہ کہا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ سیف نے ان سب چیزوں کو خود گڑھ لیا ہوگا ؟
میں کہتا ہوں : اس میں کونسی مشکل ہے ، جبکہ آپ خود جرجی زیدان اور اس کی جعلی داستانوں ، حریری اور اس کے مقامات ، عنترہ ، الف لیلیٰ اور کلیلہ و دمنہ جیسے افسانوں کے لکھنے والوں اور ادبی و اخلاقی ہزار داستانوں پر اعتقاد رکھتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ انھیںبعض داستان نویسوں اور ادیبوں نے مختلف ملتوں سے جعل کرکے اپنے زور قلم سے خیالات پر مبنی شخصیتوں اور سورماؤں کو نہ صرف لباس وجود سے آراستہ کیا ہے بلکہ انہیں خلق کیا ہے تو کیا مشکل ہے ہم سیف کو بھی ان جیسا ایک افسانہ ساز جان لیں اور ا س میں کسی قسم کا تعجب ہی نہیں ہے تعجب تو ان تاریخ نویسوں کے بارے میں ہے جنہوں نے سیف کی داستانوں کو با اعتبار جان کر دوسروں کی صحیح اور سچی روایتوں کو نقل نہ کر کے انھیں چھوڑ دیا ہے جب ہم ان کے اس کام کے بارے میں متوجہ ہوئے تو خود اس کے کام کے بارے میں بھی کوئی تعجب اور حیرت باقی نہیں رہی ۱
-------------
۱۔ اس کا سبب ہم نے اس سے پہلے اسی کتاب کی آخر میں بیان کیا ہے ۔
تیسرے سوال میں بیان کئے گئے مطلب کے بارے میں خلاصہ حسب ذیل ہے :
سیف نے رودادوں کو مفصل طور پر بیان کیا ہے اور بلاذری نے اجمالی اور خلاصہ کے طورپر ، اس کی روایتوں میں تاریخ کو مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے جیسے ابن عبد الحکیم کی کتاب ” فتوح مصر “ کی روایتوں کے مقابلہ میں بلاذری کی ” فتوح البلدان “ اول الذکر کتاب تاریخ فتوح مصر سے مخصوص ہے اور مؤخر الذکر کتاب تمام تاریخ اور تمام فتوحات کا ذکر کیا ہے ، ایک خاص علاقے کی تاریخ کی بارے میں تالیف کی گئی کتاب میں ناموں کی تفصیل ذکر ہے اور دوسری کتاب میں یہ تفصیل لکھنا بھول گئے ہیں یا ذہن سے تفصیلات محو ہوگئی ہیں تو کوئی مشکل نہیں ہے اس لحاظ سے بلاذری کی ”فتوح “ کے کام کو ابن عبد الحکیم کے کام سے کیسے قیاس کریں گے !!
میں کہتا ہوں :ان سب فاصلوں اور دوریوں کے باوجود سیف کی ” فتوح “ کو ابن عبدالحکیم کی ”فتوح “ سے موازنہ نہ کرناکیسے جائز ہے ؟!! کیونکہ اولاً ہم دیکھتے ہیں کہ علم حدیث کے دانشوروں نے ابن عبد الحکیم کی ان الفاظ میں تو صیف کی ہے : ” اس میں کسی قسم کی تشویش نہیں ہے ،” وہ سچ بولنے والا ، قابل اعتماد اور علم تاریخ کا دانشور ہے “ اور اس قسم کے دوسرے الفا ظ بیان کئے ہیں اور کوئی اس کے بارے میں اشکال نہیں رکھتا ہے نیز اسے ضعیف نہیں کہا گیا ہے لیکن سیف کا قضیہ اس کے برعکس ہے ، دانشوروں نے اس کی ملامت کی ہے اور اس کی روایتوں کو ضعیف جانا ہے ۔
اس کی ملامت کرنے والوں میں : ابن معین ، ابو حاتم ، ابو داؤد، دار قطنی ، ابن عدی ، ابن حیان برقانی ، ابن عبد البر ، ذہبی ، ابن حجر ، سیوطی ، فیروز آبادی اور زبیدی شامل ہیں ۔
ثانیاً : ان دو اشخاص کی تحریروںمیں واضح اور آشکار فرق ہے :
ابن عبد الحکیم ” فتوح مصر “ میں صرف قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے بارے میں لکھتا ہے مؤرخین اسلام نے جو کچھ قبل از اسلام کے بارے میں لکھا ہے اس پر اعتراض نہیں کرسکتے کیونکہ انہوں نے دوسروں سے نقل کیا ہے اور ان کے اکثر تاریخی منابع و مآخذ اسرائیلی تھے بلکہ ان کی تاریخ کے اس حصہ کے بارے میں تحقیق کی جانی چاہئے جو انہوں نے اسلام کے بارے میں لکھا ہے تاریخ کا یہ حصہ کئی گروہوں میں تقسیم ہوتا ہے :
ان میں سے بعض حقیقت گو، مؤرخین نے اپنی تحریروں میں واقعی رودادوں کو لکھا ہے اور ان میں سے بعض نے جذبات کے زیر اثر آکر الٹ پلٹ اور کم و بیش کردیا ہے، ایک گروہ نے ایسا نہیں کیا ہے لیکن اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق جو مورخ سے بھی ہو روایتوں کو دیکھ کر انھیں نقل کیا ہے یہ لوگ بعض اوقات اس مطلوبہ چیز کو ایسے افراد کے پاس پاتے تھے کہ وہ تاریخ نویسی میں امین نہیں تھے اور روایتوں میں کم و زیادتی کرتے تھے اس حالت کو جانے کے باوجود بھی اس گروہ سے نقل کرتے تھے
ایک اور گروہ کے افراد غفلت کی وجہ سے ان سے نقل کرتے تھے اور اگر ہم تاریخ ابن عبد الحکیم کی تحقیق کریں تو دیکھیں گے کہ حدیث کے علماء نے اس کے بارے میں حقیقی گواہی دی ہے کیونکہ وہ تاریخ لکھنے میں حقیقت کا متلاشی تھا اور فتوح مصر میں جو کچھ حقیقت میں گزرا تھا اسے لکھا ہے اگر ہم اس کی کتاب کو بلاذری کی کتاب کے ساتھ موازنہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ان میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ اجمال اور تفصیل کے درمیان ہے لیکن سیف بن عمر کے حالت ایسی نہیں ہے جس پر ہم نے اس کی نکتہ چینی کی ہے اور کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ میں اس پر اعتراض کیا ہے وہ دو قسم پر مشتمل ہے :
پہلی قسم : تحریف اور جابجا کر دیا ہے ، جیسے کہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھے تھے ، خبر دی گئی کہ ابو بکر لوگوں سے بیعت لینے کیلئے مسجد میں بیٹھے ہوئے ہیں تو بغیر عبا قبا کے حضرت صرف ایک کرتا پہن کر مسجد کی جانب روانہ ہو گئے تا کہ ابو بکر کی بیعت کرنے میں پیچھے نہ رہیں اس طرح آکر ان کی بیعت کی اس کے بعد بیٹھ گئے اور کسی کو بھیجا تا کہ ان کا لباس لے آئے پھر لباس پہن کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے ۔
جبکہ طبری اس داستان کو دوسری جگہ پر عائشہ سے یوں نقل کرتا ہے : کہ علی اور بنی ہاشم نے چھ مہینہ تک بیعت نہیں کی ، یہاں تک کہ فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیھا) دنیا سے رحلت کرگئیں ۱ہم اسی روایت کو صحیح بخاری ، مسلم اور حدیث کی دوسری کتابوں میں سیف کی روایت کے برعکس پاتے ہیں ۔ بالکل یہی قضیہ سعد بن عبادہ کی بیعت کے بارے میں بھی ہے اسی طرح خالد بن سعید اموی کی بیعت سے انکار کے بارے میں جو کچھ کہا ہے ۲
”حواب“ ۳کے کتوں کے بھونکنے کی داستان میں بجائے ام المؤمنین ام زمل کا نام لیتا ہے ۔ اس طرح جو کچھ اس نے مغیرہ بن شعبہ۴ کے زنا کے بارے میں کہاہے۔
-----------
۱۔ ملاحظہ ہو کتاب عبدا للہ بن سبا ( فارسی ) صفحہ۷۶ و ۱۱۲۔
۲۔ ملاحظہ ہو کتاب عبد اللہ بن سبا ( فارسی ) صفحہ ۷۶ پر سیف کی روایت اور ۲۵ ۱ پر روایت غیر سیف۔
۳۔ ملاحظہ ہو کتاب عبد اللہ بن سبا ( فارسی ) صفحہ ۳۰ بہ روایت سیف اور ۲۵ پر روایت غیر سیف۔
۴۔ ملاحظہ ہو کتاب عبد اللہ بن سبا ( فارسی ) صفحہ ۶۷ سیف کی روایت اور ۶۸ پر روایت غیر سیف۔
ان تمام مواقع پر جہاں طبری نے سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں کو نقل کیا ہے اسی جگہ سیف کی تحریف شدہ روایتوں کو بھی نقل کیا ہے ۔
دوسری قسم : من جملہ مواقع جن پر ہم سیف کی نکتہ چینی کرتے ہیں ، وہ داستانیں ہیں جنہیں سیف نے جھوٹ پر مبنی گڑھ لیا ہے اور انھیں تاریخ اسلام میں داخل کیا ہے، ان داستانوں کو اس سے پہلے کسی نے بھی نقل نہیں کیا ہے یا اگر اصل داستان سچی تھی تو اس نے اس پر بہت سے مطالب کا اضافہ کیا ہے ۔
من جملہ مطالب کے داستان علاء بن حضرمی ہے جس میںسیف نے ذکرکیا ہے کہ ” دھنا “ کے صحرا میں اس کیلئے پانی جاری ہوا ، اس کے لشکر نے گھوڑے ، اونٹ ، خچر ، گدھے ، سوار اور پیادہ سب کے ساتھ سمندر کو عبور کیا جبکہ اس کی مسافت کشتی کے ذریعہ ایک دن اورایک رات کے فاصلہ کے برابر تھی اور لکھتا ہے کہ خدا نے چار پاؤں کے سموں کے نیچے نرم ریت اُگا دی کہ صرف حیوانوں کے سم پانی کی نیچے جاتے تھے اور اس طرح انہوں نے اس سمندر کو عبور کیا ۔
اور اس افسانہ کے آخر میں بیان کرتا ہے کہ راہب ہجری مسلمان ہوا اور ابوبکر نے اس کے اسلام لانے کے بارے میںصحابہ کو بشارت دی تھی ۱ اور اباقر کے دن گائے کا سعد کے لشکریوںمیں سے عاصم بن عمر سے گفتگو کرنا ۲
-----------
۱۔ عبد اللہ بن سبا ،( فارسی ) ص ۱۶۱ ۔ ۱۶۳ )
۲۔ عبد اللہ بن سبا، ( فارسی ) ص ۱۶۱ ۔ ۱۶۳ )
اور روز جراثیم کا ایک اور افسانہ کہ سپاہیوں کا دجلہ سے عبور کرنا ، اگر کوئی گھوڑا تھک جاتا تھا تو اس کے سموں کے نیچے ریت کا ٹیلہ پیدا ہوجاتا تھا اور اس پر گھوڑا ایسے تھکاوٹ دور کرتا تھا جیسے کہ وہ زمین پر کھڑا ہو۔ ۱
من جملہ ان کے وہ مطالب ہیں جنہیں سیف دو بھائی قعقاع اور عاصم کے بارے میں نقل کرتا ہے ۲یا وہ باتیں جو اس نے عثیم۳ نامی جنّی صحابی کی داستان میں کہی ہیں اس کے علاوہ بکیر کے اطلال نامی گھوڑے کی باتیں کرنا جب بکیر نے اپنے گھوڑے کو چابک کرکے چھلانگ لگانے کو کہا تو گھوڑے نے جواب میں کہا: ” سورہٴ بقرہ کی قسم میں نے چھلانگ لگائی “ اسی طرح اس کے دوسرے افسانے ۴
من جملہ مواقع جن میں سیف نے بے حد مبالغہ گوئی کی ہے اور کافی مقدار میں اصل قضیہ میں اضافہ کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ اس نے کہا ہے کہ اسلامی فوج نے لاکھوں کی تعداد میں اپنے دشمنوں کو قتل کر ڈالا ہے اس سلسلہ میں اس نے کہا ہے کہ خالد نے تین دن اورتین رات کے اندر اتنے دشمنوں کے سر قلم کئے کہ خون کی ندی جاری ہوگئی ۵یہ سیف کی ان مبالغہ آمیزیوں کے علاوہ ہے جو اس نے اپنے نفسانی خواہشات کے تحفظ میں انجام دئیے ہیں ۔
-----------
۱۔ عبد اللہ بن سبا ( فارسی ) ص ۲۰۱ ۔ ۲۰۲
۲۔ان دوافراد کی زندگی کے حالات کتاب ”خمسون و ماٴة صحابی مختلق “ ص ۶۷ ، ۱۲۸، ۱۳۱، ۱۵۸ پر ملاحظہ ہو ۔
۳۔ ”خمسون و ماٴة صحابی مختلق “ ص ۶۷ ، ۱۲۸، ۱۳۱، ۱۵۸ پر ملاحظہ ہو
۴۔”خمسون و ماٴة صحابی مختلق“ میں قعقاع کے حالات ملاحظہ ہوں
۵۔”خمسون و ماٴة صحابی مختلق“ (فارسی) اور اسی کتاب ج ۲ میں فصل ” انتشار اسلام بالسیف “ میںپر ملاحظہ ہو
اسی بنا پر ہم سیف کی ان دوگانہ تحریف میں سے کس کی تائید کریں گے ؟ کیا اس کی ان تحریفات کی تائید کریں جن میں اس نے بڑی شخصیتوں کے دفاع میں اصل تاریخی رودادوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے جبکہ خود طبری نے دوسرے راویوں سے ان واقعات کو دوسری طرح سے نقل کیا ہے یا اس کی داستانوں کی دوسری قسم کی تائید کریں جو توہمات اور خرافات پر مشتمل ہیں ، کیا اس قسم کی داستان سرائی کو روایات میں اجمال و تفصیل کہیں گے یا روایتوں میں الٹ پلٹ اور تحریف کا نام دیں گے؟
لیکن، جس دوسرے نکتہ کا آپ نے ذکر کیا ہے کہ ایک خاص علاقہ کی تاریخ لکھنے والا گمنام افراد کا نام لیتا ہے اور جو عام تاریخ لکھتا ہے وہ اس قسم کے مطالب میں مداخلت نہیں کرتا ہے ۔
ہم جواب میں کہتے ہیں : کیا آپ یہ تصور کرتے ہیں کہ عمرو کے دو بیٹے قعقاع اور عاصم جن کا سیف نے نام لیا ہے ، گمنام افراد تھے ؟ نہیں ، ہرگز ایسانہیں ہے سیف کہتا ہے کہ قعقاع رسول خدا کے اصحاب میںسے تھا اور اس نے حدیث نقل کی ہیں ،وہ سقیفہ میں حاضر تھا ، ابوبکر نے اسے خالد کی مدد کیلئے بھیجا ہے اور ا سکے بارے میں یوں کہا ہے : ”جس فوج میں قعقاع جیسے افراد موجود ہوں وہ فوج فرار نہیں کرے گی “ وہ عراق میں خالد کی جنگوں میں شریک تھا ، جب خالد، اسلام کے سپاہیوں کی مدد کیلئے شام کی طرف روانہ ہوا تو اسے اپنے ساتھ لے گیا ، دمشق کی فتح اور اس پر تسلط جمانے کا سبب قعقاع کا اپنے ساتھی کے ہمراہ قلعہ کی دیوار پر چڑھنا تھا اس کے بعد عمر نے اسے دوبار ہ جنگ قادسیہ میں سعد کی مدد کیلئے وہاں سے عراق کی طر ف لوٹا دیا اور اس نے سفید ہاتھی کی آنکھ کو نکال کر اسے اندھابنا دیا قادسیہ کی جنگ میں اس کی بہادریاں مسلمانوں کی فتح و کامرانی کا سبب بنیں ۔
سیف کے نام گزاری کئے گئے ایام : ” الاغواث“ ”عماس “ اور ” الامارث “ میں اس نے مدد کی ہے ۔
سعد نے اس جنگ میں اسکے بارے میں عمر کو یہ تعریفیں لکھیں کہ ”وہ شہسوار ترین سپاہی ہے “ اس جنگ کے بعد عمر نے اسے ایک بار پھر مسلمانوں کی نصرت کیلئے یرموک کی جنگ میں شام بھیجا ، وہاں پر مسلمانوں کی مدد کرنے کے بعد تیسری بار عراق کی طرف روانہ ہوا اور نہاوند کی جنگ میںشرکت کی ، وہاںپر وہ شہر کے اندرپناہ لئے ہوئے ایرانیوں کو باہر لا کر صحرا تک کھینچ لانے میں کامیاب ہوا ،ان کامیابیوں کے بعد عمر نے اسے عراق کی سرحدوں کے محافظوں کے سردار کے طور پر مقرر کرکے اسے سرحد کا نگہبان بنا دیا۔
اس بناء پر دونوں خلیفہ ابوبکر اور عمر قعقاع کو ہر نامناسب حادثہ روکنے کیلئے بھیجتے تھے ، لیکن عثمان نے اسے کوفہ کا سپہ سالار مقرر کیا اور وہ سبائیوں کی تحریک اور ان کی بغاوت تک اس عہدہ پر فائز رہا اور اس شورش کو کچلنے میں کوشش کی جب عثمان محاصرہ میں قرار پایا تو اس کی نصرت کیلئے ایک فوج کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوا ، لیکن اس سے پہلے کہ مدد کرنے والے پہنچ جاتے عثمان قتل ہوچکے تھے لہذا وہ واپس کوفہ کی طرف لوٹا ۔
علی کی خلافت میں اس نے کوفہ کے لوگوں کو جنگ جمل میںعلی سے ملحق ہونے پر آمادہ کیا اور علی و عائشہ اور اس کے حامیوں ( طلحہ و زبیر ) کے درمیان صلح کرانے میں کامیاب ہوا تھا ، اگر سبائی دھوکے میں جنگ کے شعلوں کو نہ بھڑکاتے جب جنگ چھڑ گئی تو وہی تھا جس نے عائشہ کے اونٹ کا تعاقب کرکے اس پر قابو پاکر جنگ کا خاتمہ کیا اور وہی تھا جس نے عائشہ کے لشکر کو امان دیدی۔
معاویہ کے زمانے میں وہ ان افراد میں سے تھا جنہیں معاویہ کے حکم سے فلسطین کی ” ایلیا “ نامی جگہ پر جلا وطن کیا گیا ، کیونکہ وہ حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے لئے مخصوص اصحاب میں سے تھا ۔
لیکن اس کا بھائی عاصم : اس کے بارے میں سیف یوں کہتا ہے کہ وہ ۱۲ ھئمیں خالد کے ساتھ یمامہ سے عراق کی طرف کوچ کیا، سیف نے اس کے بارے میںبہت سارے بہادری و شجاعت کے قصے جیسے جنگ قادسیہ میں ہاتھیوں کو اندھا بنانا وغیرہ نقل کی ہیں ۔ خلیفہ عمر نے اسے علاء کی مدد کیلئے فارس بھیجا ہے ، یہ وہی ہے جس کے ساتھ گائے نے گفتگو کی ، عمر نے سیستان کی جنگ کا پرچم اس کے ہاتھ میں دیا اس کے بعد اسے کرمان کی گورنری اور فرماں روائی سونپی اور اپنی وفات ۲۹ھء تک وہا ںکی گورنری کے عہدہ پر فائز تھا ۔
سیف نے ان دو جنگجو بھائیوں کے بارے میںا ن تمام اخلاقی خوبیوں کے علاوہ اشعار و مناقب بھی بیان کئے ہیں ۔
کیا بقول سیف جنگجو اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی دو بھائیوں کے بارے میں یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ گمنام افراد میں سے ہوں گے ؟ جبکہ سیف نے ان کیلئے اتنی خصوصیات بیان کی ہیں اور خلفاء کی طرف سے مختلف مراحل میں اتنی نوازشیں اور فرمان روائیاں عطا کی گئی ہیں اور ان سے اتنے اشعار نقل ہوئے ہیں کیا خالد بن ولید کیلئے اتنیشجاعت و بہادری کے قصے کتابوں میں بیان ہوئی ہیں جتنی سیف نے قعقاع کیلئے نقل کی ہیں ؟ اس کے باوجود کیا علت ہے کہ ان دو افراد کا نام صرف سیف کی روایتوں میں ذکر ہوا ہے ؟
طبری نے ۱۰ ھء سے ۲۹ ھء تک کی رودادوں کے بارے میں جو کچھ سیف سے نقل کیا ہے میں نے اسے اسی مدت کے بارے میںد وسروں کی روایتوں سے موازنہ اور تطبیق کیا اور اسی طرح جو کچھ ابن عساکر نے اپنی تاریخ دمشق کی ج ۱ و رج /۲ میں سیف اور غیر سیف سے روایت کی ہے ، دونوں کی تطبیق کی، لیکن ان دو جنگجوؤں کا کہیں نام ونشان نہیں پایا جاتا، اس کے علاوہ ابن شہاب ( وفات ۱۲۴ھء) ، موسی بن عقبہ (پیدائش ۱۴۱ ھء ) ، ابن اسحاق ( پیدائش ۱۵۲ ھء) ، ابو مخنف ( پیدائش ۱۵۷ھء) ، محمد بن سائب ( پیدائش ۱۴۶) ابن ہشام ( پیدائش ۲۰۶ ھء ) ، واقدی ( پیدائش ۲۰۷ھء) اور زبیر بن بکار ( پیدائش ۲۴۷ھء) کی روایتوں اور دوسرے راویوں کی روایتوں میں جس سے طبری اور ابن عساکر نے دسیوں روایتیں ان رودادوں کے بارے میں نقل کی ہیں کہ سیف نے ایسی ہی رودادوں میں ان دو بھائیوں کا نام ذکر کیا ہے لیکن ان دوبھائیوں کے بارے میںا نہوں نے کہیں نام تک نہیں لیا ۔
میں نے اس موازنہ میں صرف اس پر اکتفاء کیا ہے جسے طبری نے سیف اور دوسروں سے نقل کیا ہے اور ابن عساکر کو صرف ایک گواہ کی حیثیت سے پیش کیا ہے چونکہ میں نے دیکھا کہ آپ نے اپنی بات کے تیسرے مرحلہ میں اس مطلب کے بارے میںیاددہانی کی ہے کہ ہم موازنہ اور مقابلہ میں تاریخ طبری پر اکتفاء کریں ، ورنہ میں آپ کے اس نظریہ سے اتفاق نہیںر کھتا ہوں کہ صرف تاریخ طبری کو اہمیت دی جائے اور اسی پر اکتفاء کیا جائے ( اگر آپ اس قسم کا اعتقاد رکھتے ہیں ؟)
آپ کے کہنے کے مطابق یاددہانی اور آگاہی کیلئے قعقاع اور عاصم کے بارے میں کیوں طبقات ابن سعد کی طرف رجوع نہ کریں ؟ کیا ابن سعد نے کوفہ میں رہنے والے اصحاب ، تابعین اور دانشوروں ،کی زندگی کے حالات پر روشنی نہیں ڈالی ہے ؟ اور یہ دو بہادر جنگجو کو سیف کے کہنے کے مطابق کوفہ کی معروف شخصتیں اور جنگجو تھے ؟!
کیا وجہ ہے کہ ہم آشنائی حاصل کرنے کیلئے کتاب ” الاصابہ “ کی طرف رجوع نہ کریں جبکہ ابن حجر بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں صورتوں میں سیف سے روایتیں نقل کرتے ہیں؟
کیوں نہ ہم ” الاستعیاب “ ” اسد الغابہ “ اور ” التجرید “ کا مطالعہ کریں اور ان کے سیف سے نقل کئے گئے اصحاب کی زندگی کے حالات کو نہ پڑھیں ؟ کیا یہ کتابیں اصحاب کی زندگی کے حالات کی تشریح کرنے میں خصوصیت نہیں رکھتی ہیں ؟! ہم کیوں تاریخ ابن عساکر کی طرف رجوع نہ کریں اور اس کے ہر موضوع پر لکھے گئے مطالب کو نہ پڑھیں ،جو روایتوں کا ایک عظیم مجموعہ ہے اس نے حتی الامکان تمام روایتوں کو حتی سیف اور غیر سیف سے نقل کیا ہے ؟!
سیف کی فتوحات کی بحث میں ہم کتاب ” معجم البلدان “کا کیوں مطالعہ نہ کریں ؟ جبکہ اس کے مصنف کے پاس سیف کی کتا ب” فتوح “ کا تصحیح شدہ ابن خاضبہ کا لکھا ہوا قلمی نسخہ موجود تھا چنانچہ اس نے شہردں کی تاریخ لکھنے والے تمام مؤلفین کا ذکر کیا ہے کیوں نہ ہم ان کا مطالعہ کرکے موازنہ کریں؟ اور اس بحث سے مربوط دوسری کتابوں کاکیوں ہم مطالعہ نہ کریں ؟ اس کی کیا دلیل ہے کہ ہم اپنی تحقیق، مطالعہ ، اور موازنہ کو طبری کی روایتوں تک محدود کرکے رکھیں ؟
میں واضح الفاظ میں کہتا ہوں کہ سچی روایتیں نہ لکھنے میں طبری کا تعمد اور اس کی خود غرضی شامل تھی میں اسے اس موضوع کے بارے میں ملزم جانتا ہوں ، کیا یہ شخص وہی نہیں ہے جو ۳۰ ھء کی رودادوں کو لکھتے ہوئے ابو ذر کی زندگی کے حالات کے بارے میں یوں لکھتا ہے :
” اس سال یعنی ۳۰ھء میں معاویہ اور ابوذر کا واقعہ پیش آیا اور معاویہ نے اسے شام سے مدینہ بھیج دیا ، اس جلاوطنی اور مدینہ بھیجنے کے بارے میں بہت سی وجوہات بیان کی گئی ہیں کہ مجھے ان میں سے بہت سی چیزوں کا ذکر کرنا پسند ہے لیکن جو لوگ اس قضیہ میں معاویہ کو بے گناہ ثابت کرنا چاہتے ہیں انہوں نے اس سلسلہ میں ایک داستان نقل کی ہے کہ سیر نے اسے لکھا ہے کہ شعیب نے اسے بقول سیف اس کیلئے نقل کیا ہے “ ۱
تاریخ طبری کا اس کے بعد والے افراد کیلئے قابل اعتماد بننے اور ان کا اس پر بھروسہ کرنے کا یہی موضوع سبب بنا ہے اس مطلب کی تفصیلات اور وضاحت کیلئے تاریخ ابن اثیر کا مقدمہ ، جہاں پر ۳۰ھء میں ابوذر کی روداد بیان کی گئی ہے ،تاریخ ابن کثیر ،ج ۷ ص ۲۴۷ اور ابن خلدون جنگ جمل کی داستان کا آخری حصہ اور معاویہ کے ساتھ امام حسن کی صلح کا واقعہ مطالعہ کیا جائے ۲
----------
۱۔ طبری، ج ۴/ ص ۶۴
۲۔ اس کتاب کی ابتداء میں ” افسانہ کا سرچشمہ ”‘ نامی فصل ملاحظہ ہو․
یہ طبری کا حال ہے نیز ان لوگوں کا جنہوں نے طبری پر اعتماد کر کے اس سے نقل کیا ہے لہذا یہکیسےممکن ہے کہ ہم اپنی تحقیقات اور چھان بین کو تاریخ طبری تک ہی محدود کر دیں ؟
آپ نے اپنے خط کے چوتھے بند میں لکھا تھا: سیف کی ان جگہوں کے بارے میں کیا خیال ہے جہاں پر اس کی روایتیں دوسروں کی روایتوں کے ہم آہنگ اور بالکل ویسی ہی ہیں؟ کیا اس صورت میں بھی آپ اسے حدیث جعل کرنے والوں میں شمار کرتے ہیں ؟یہاں تک آپ نے لکھا کہ: ” میں امید کرتا ہوں آپ سیف کی روایتوں پر تحقیقات کرتے وقت معین کریں کہ کیا سیف کی ساری روایتوں کوکہ جو کچھ اس سے نقل ہوا ہے اس میں مکمل طور پر الگ کر دیا جائے یا کم از کم اس کی بعض روایتوں کو قبول کیا جائے ؟
اس کے جواب میں کہنا چاہتا ہوں : سیف کی تاریخی روایتوں کی میری نظر میں کوئی قدر و قیمت نہیں ہے میں اس کی وقعت ہارون رشید کے زمانے کی داستانوں پر مشتمل لکھی گئی کتاب ” الف لیلیٰ“ سے زیادہ نہیں سمجھتا جس طرح ہم کتاب ” الف لیلیٰ“ کو ہارون رشید کے زمانے کے بارے میں تاریخ کے ایک مآخذ اور نص کے طور پر مطالعہ نہیں کرتے بلکہ اسے ایک ادبی داستان کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور اسے تھکاوٹ دور کرنے اور ذہنی سکون حاصل کرنے کے ایک وسیلہ کے طور پر جانتے ہیں حقیقت میں بعض اوقات ان داستانوں میں داستان لکھنے والے کی شخصیت کو پہچانا جاسکتا ہے اور اس کے ہم عصر لوگوں کی فکری سطح پر تحقیق کی جاسکتی ہے اور اسی طرح اس زمانے میں ملک کی ثقافت و تمدن کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس کا خود داستان کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہوتا ۔
میں سیف کی داستانوں کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور داستان کے اسلوب سے ایسا محسوس کررہا ہوں کہ ہمارا یہ طاقتور داستان نویس اپنی داستانوں کیلئے مآخذ اور اسناد جعل کرنے کیلئے مجبور تھا تا کہ ان داستانوں کا سلسلہ اس زمانے تک پہنچ جائے جس کے بارے میں اس نے داستانیں لکھی ہیں کیونکہ اس کا زمانہ ” جرجی زیدان “ کا زمانہ تھا کہ اپنے تاریخی افسانوں کیلئے سند جعل کرنے کی ضرورت نہ رکھتا ہو ۔
میرے نزدیک سیف کی روایتوں کی حیثیت ایسی ہے کہ میں ان میں سے کسی ایک پر اعتماد نہیں کرسکتا ہوں کیونکہ جس نے اتنا جھوٹ بولا ہو اس پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے کہ اس نے دوسرے مواقع پر بھی جھوٹ نہ کہا ہوگا لہذا عقل حکم دیتی ہے کہ سیف کی کسی بھی روایت پر اعتماد نہ کیا جائے میں اگر سیف سے روایت کی گئی کسی داستان کو کسی دوسرے معتبر طریقے سے حاصل کروں تو اسے قبول کروں گا لیکن اس حالت میں ترجیح دوں گا کہ سیف کی روایت کو کالعدم قرار دوں ۔
اپنے خط کے پانچویں حصہ میں آپ نے ذکر کیا ہے: میں نے سیف کے توسط سے حوادث اور روئداد وں کے سالوں میں سیف پر تحریفات کی تہمت لگائی ہے اور لفظ تحریف سے روئیدادوں کے سال تعیین کرنے میں عمداً یہ کام انجام دینے کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے ، جبکہ یہ صرف سیف نہیں تھا جس نے حوادث کے سالوں کے تعیین میں اختلاف کیا ہے ۔
میں اس کے جواب میں کہتا ہوں : اگر چہ سیف کے علاوہ دوسرے راوی بھی رودادوں کے بارے میں سال اور تاریخ معین کرنے میں آپس میں اختلافات رکھتے ہیں ، لیکن یہ کام ان کے یہاں اتنا عام اور مشہور نہیں ہے جتنا سیف کے یہاں پایا جاتا ہے یا اس نے اس کی عادت ڈال لی ہے اس کے علاوہ جس قدر ہم نے سیف کے یہاں تاریخی داستانوں میں تحریفات ، مداخلت اور الٹ پھیر دیکھی ہے اس قدر دوسروں کے یہاں مشاہدہ نہیں ہوتا ، اس کے علاوہ ہم نے اکثر اس کی ان تحریفات کو مد نظر رکھا ہے کہ صرف اس نے عمداً یہ کام انجام دیا ہے اور دونوں راویوں میں سے کسی ایک نے بھی اس کی تائید نہیں کی ہے یعنی اس نے دوسرے تمام راویوں کے بر عکس عمل کیا ہے ۔
لیکن آپ کا یہ کہنا کہ زمانے کے بعض اختلافات جو بذات خود ایسے اسباب ہیں کہ ان کا بد نیتی اور خود غرضی سے کوئی ربط نہیں ہے۔
جواب میں کہتا ہوں کہ : خوش فکر انسان جتنی بھی کوشش کرے زیادہ سے زیادہ سیف کی تحریفات کے چند خاص مواقع کی توجیہ کرسکتا ہے لیکن اس کی تحریفات کے اندر ایسے نمونے بھی ملتے ہیں کہ جس قدر بھی ہم حسن ظن رکھتے ہوں اور اس کے سوا چارہ ہی نظر نہیں آتا ہے کہ اس سے بد نیتی اور خود غرضی کی تعبیر کی جائے ،نمونہ کے طور پر اس امر کی طرف توجہ فرمائیے کہ : طبری نے ۱۲ ھء کی رودادوں کو نقل کرتے ہوئے ” ابلہ “ کی فتح و تسخیر کے بارے میںاپنی تاریخ کی ج ۴ ص ۵۔۶میںلکھا ہے : ابوبکر نے خالد کو عراق بھیجا اور اسے حکم دیا کہ پہلے بندر سندھ اور ہند کو فتح کرے وہ جگہ ان دنوں ” ابلہ “ کے نام سے مشہور تھی خلاصہ یہ ہے کہ : اس نے مشرکین کو اس حالت میں دیکھا کہ انہوں نے فرار نہ کرنے کیلئے اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھا تھا اور ان کے پاس پانی موجود تھا ، خالد نے ان کے مقابل میں ایک ایسی جگہ پر پڑاؤ ڈالا جہاں پر پانی موجو نہ تھا اور ان کے درمیان جنگ چھڑ گئی خداوند عالم نے بادل کے ایک ٹکڑے کو بھیجدیا اور مسلمانوں کی فوج کے پیچھے موجود تمام گڑھے پانی سے بھر گئے اور اس طرح خداوند عالم نے اسلام کے سپاہیوں کو طاقت بخشی ، سورج چڑھنے سے پہلے اس صحرا میں اس لشکر کا ایک فرد بھی زندہ نہ بچا ، جنہوں نے اپنے کو زنجیروں سے باندھا تھا ، خالد نے ان سب کا قتل عام کیا اسی لئے اس جنگ کو جنگِ ” ذات السلاسل “ کہا گیا ہے ، یعنی زنجیر والوں کی جنگ، خالد نے اس فتح و نصرت کی خبر جنگ غنائم اور ایک ہاتھی سمیت ابوبکر کو بھیجا، ہاتھی کو شہر مدینہ میں گھمایا گیا تا کہ لوگ اس کا تماشا دیکھیں ، مدینہ کی کم عقل عورتیں اسے دیکھ کر آپس میں کہتی تھیں کیا یہ خدا کی مخلوق ہے جسے ہم دیکھتے ہیں ؟ اور خیال کرتی تھیں کہ اسے انسان نے خلق کیا ہے ۔ ابو بکر نے اس ہاتھی کو ” زر“ نامی ایک شخص کے ذریعہ واپس بھیج دیا ۔
اس داستان کے بعد طبری کہتا ہے : ” ابلہ “ اور اس کی فتح کے بارے میں یہ داستان جو سیف نے نقل کی ہے ، اس چیز کے بر عکس ہے جو سیرت لکھنے والوں نے نقل کیا ہے اور اس کے بر خلاف ہے جو صحیح مآخذ اور آثار میں ذکر ہوا ہے بلکہ ” ابلہ “ خلافت عمر کے زمانے میں عقبہ بن غزوان کے ہاتھوں ۱۴ھء میں فتح ہوا ہے اس کے بعد طبری نے ۱۴ ھء کی روئیداد کے ضمن میں اپنی کتاب کی جلد ۴ ص ۱۴۸ سے ۱۵۲تک سیف کے علاوہ دوسرے راویوں سے نقل کرکے کچھ مطالب لکھے ہیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
” عمر نے عقبہ سے کہا: ” میں نے تجھے سرزمین ہند کی بندرگاہ کی ماٴموریت دیدی ہے اور اسے بندر ہند کی گورنری سونپی ، عتبہ روانہ ہوا اور سرزمین ” اجانہ “ کے نزدیک پہنچا ، تقریباً ایک مہینہ تک وہاں پر ٹھہرا ، شہر ” ابلہ “ کے باشندے اس کے پاس آگئے ، عتبہ نے ان سے جنگ کی ، وہ بھاگ گئے اور شہر کوترک کیا ، مسلمان اس شہر میں داخل ہو گئے عتبہ نے اس فتحیابی کی نوید جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کے ساتھ عمر ۻ کو بھیج دی
خدا آپ کی حفاظت کرے ! ذرا غور سے دیکھئے اور غائرانہ نظر ڈالیے کہ سیف نے کس طرح عمر کے زمانے میں عتبہ نامی سردار کے ہاتھوں واقع ہوئی ایک روداد کو تحریف کرکے اسے ابوبکر کے زمانے سے مربوط کرکے خالد بن ولید کے ہاتھوں رونما ہوتے دیکھا یاہے ، اختلاف صرف سال اور تاریخ ثبت کرنے میں نہیں تھا کہ صرف ۱۴ھ ئکو ۱۲ھء کہا ہوگا تا کہ اس کی تحریف کیلئے کوئی توجیہ تلاش کرتے !
اس کے علاوہ سیف نے اس روداد کو لکھتے ہوئے ایک اور چیز کا بھی اضافہ کیا ہے کہ خالد اور اس کے سپاہی ایک ایسی جگہ پر اترے جہاں پر پانی موجود نہ تھا اور خداوند عالم نے ان کے محاذ کے پیچھے ایسا پانی برسایا جس سے وہاں پر موجود تمام گڑھے پانی سے بھر گئے اور اس طرح خدا نے مسلمانوں کو طاقت بخشی سیف اس طرح چاہتا تھا کہ جو برتری اور فضیلت خداوند عالم نے غزوہٴ بدر میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عنایت کی تھی اسے خالد اور اس کے لشکر کیلئے ثابت کرے جہاں پر خداوند عالم فرماتا ہے :
< و یُنَّزِلُ عَلَیْکُمْ مِنَّ السَّماءِ مَاءً لِیُطَھِّرَکُمْ بِہِ وَ یُذْھِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَلِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوبِکُمْ وَیُثَّبِتَ بِہِ الاَقْدَامَ >
اور آسمان سے پانی نازل کررہا تھاتاکہ تمہیں پاکیزہ بنا دے اور تم سے شیطان کی کثافت کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو مطمئن بنادے اورتمہارے قدموں کو ثبات عطاکردے ۔ ( سورہ انفال /۱۱)
اس طرح سیف نے ایک اور مطلب کا اضافہ کیا ہے کہ خالد نے دشمن فوج سے غنیمت کے طور پر ہاتھ آئے ایک ہاتھی کو جنگی غنائم کے ساتھ مدینہ بھیجا تا کہ مدینہ کے لوگ اس کا تماشا دیکھیں ، ہاتھی کو شہر مدینہ میں گھما یا گیا اور مدینہ کی کم عقل عورتیں اسے دیکھ کر کہتی تھی : کیا یہ خدا کی مخلوق ہے یا انسان کے ہاتھ کی بنی ہوئی کوئی چیز ہے ؟ کیا حقیقت میں ہاتھی پوری اس جعلی داستان کے ہم آہنگ نظر آتا ہے ؟ جسے سیف بن عمر نے خلق کیا ہے ، لیکن افسوس، کہ مناسب طریقے پر اسے جعل نہیں کیا ہے میں نہیں جانتا کہ سیف یہ بات کیوں بھول گیا ہے کہ حجاز کے عربوں نے سپاہ ابرھہ کی روداد میں ہاتھی کو دیکھا تھا کاروانوں نے اس خبر کو ہر بیابان تک پہنچا دیا تھا اور داستانیں لکھنے والوں نے اپنے افسانوں میں کافی حد تک اس کا ذکر کیا تھا مسلمان عورتوں نے قرآن مجید میں ان آیات کی کافی تلاوت بھی کی تھی
< اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیل اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَھُمْ فِی تَضْلِیلٍ ․․․ >
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے کیا ان کے مکر کو بیکار نہیں کردیا ہے ۔ (سورہ فیل )
میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ سیف نے کس مقصد سے ان مسائل اور ایسے مطالب کا اس داستان میں اضافہ کیا ہے ؟ کیا وہ یہ چاہتا تھا کہ جو چیز خداوند عالم نے غزوہٴ بدر میں اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے عطا کی تھی اسے خالد کیلئے ثابت کرے ؟ یا چاہتاتھا کہ خالد کے مرتبہ و مقام کو بلند کرکے اس کیلئے فتوحات اور کرامتیں بیان کرے تا کہ عراق کی سپہ سالاری سے اس کی معزولی اور سلب اعتماد کے بعد اسے عراق سے شام بھیج کر ایران کی فتوحات میں شرکت سے محروم کئے جانے کی بے چینی کی تلافی کرے یا ان باتوںکے علاوہ کوئی اور چیز اس کے مد نظر تھی ؟
لیکن آپ کے چھٹے مطلب کے بارے میں کہ جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ سیف نے اپنی روایتوں میں جس سلسلہ سندکا ذکر کیا ہے اس کی تحقیق اور چھان بین کی جائے ۔
جواب میں عرض ہے کہ : اگر سیف کی روایتوں کے بارے میں ہماری تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیف نے جو نقل کیا ہے اس میں وہ منفرد ہے اور اس کے بعد ہمیں معلوم ہوجائے کہ سیف نے اس روایت کو روایوں میں سے کسی ایک سے نقل کیا ہے تو کیا ہم اس روایت کے گناہ کو اس شخص کی گردن پر ڈال سکتے ہیں جس سے سیف نے روایت نقل کی ہے ؟
مجھے امید ہے کہ اس سلسلہ میں اپنے نقطہٴ نظر سے آگاہ فرمائیں گے شاید ہم اس کتاب کی اگلی بحثوں میں آپ کے نظریہ سے استفادہ کریں ۱
والسلام علیکم ور حمة اللہ و برکاتہ
کاظمین ، عراق
سید مرتضی عسکری
-----------
۱۔ سیف کی روایتوں کی چھان بین کے دوران معلوم ہوا کہ ان میں سے بعض روایتوں کو سیف نے خود جعل کیا ہے اور دیگر راویوں سے نقل کیا ہے ہم نے ان تحقیقات کے نتائج کو کتاب عبدا للہ بن سبا کے بعد والے طبع میں داخل کیا ہے اور ” رواة مختلقون“ نام کی کتاب زیر تالیف ہے
مطالعات کے نتائج
روایت جعل کرنے میں سیف کا مقصد
ہم نے سیف کی روایتوں کے بارے میں کافی حد تک مطالعہ و تحقیقات کا کام انجام د یا ہے مطالعات کی ابتداء میں ہم یہ تصور کرتے تھے کہ روایت جعل کرنے اور داستانیں گڑھنے میں اس کا صرف یہ مقصد تھا کہ طاقتور اور صاحب اقتدار اصحاب جن کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور تھی اور نفوذ رکھتے تھے، کا دفاع کرے اور ان کے مخالفین کو ذلیل و حقیر کرے اور ان کی عظمت کو گھٹا کر پیش کرے ، ہر چند وہ بلند ایمان اور بافضیلت ہی کیوں نہ ہوں ، اس لئے اس نے تاریخ کے واقعات کو الٹ پلٹ کر کے رکھدیا ہے بہت سے افسانوں اور داستانوں کر گڑھ کر انھیں تاریخ اسلام میں شامل کیا ہے اس طرح نیک اور مخلص اصحاب کو ظالم اور تنگ نظر کی حیثیت سے معرفی کیا ہے اور ظالموں اور آلودہ دامن والوں کو پاک ، دانا اور پرہیزگار کے طور پر پیش کیا ہے اور جعل و تحریف کی اس تلاش میں اسلام کے حقیقی چہرہ کو مسخ کرکے بد صورت دکھایا ہے اس منحوس اور خطرناک منصوبہ اور نقشہ میں اس کی کامیابی کا راز اس میں تھا کہ اس نے اپنے برے اور تخریب کارانہ مقصد کو تمام اصحاب کی تجلیل اور تعریف کے ساتھ ممزوج کرکے رسول خدا کے تمام اصحاب کی حمایت و دفاع کے پردے میں چھپایا ہے ، اس کی یہ چالاکی اور مکر و فریب مسلسل ایک طولانی مدت تک دانشوروں کیلئے پوشیدہ رہا اور انہوں نے خیال کیا ہے کہ سیف حسن ظن اورللہیت اور مقدس مقصد رکھتا ہے اور حدیث و افسانے گڑھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام اصحاب کا دفاع کرنا چاہتا ہے اور ان کے فضائل کی تشہیر کرنا چاہتا ہے اسی غلط تصور کے تحت تاریخ اور حدیث کے علماء نے ----اس کے باوجود کہ اسے جھوٹا ا اس کی روایتوں کو جعلی اور خود اس کو افواہ باز و زندیق کہتے تھے --- اس کی روایتوں کو تمام راویوں پر ترجیح دے کر انھیں مقدم قرار دیا ہے ۔
اسی وجہ سے سیف کی جھوٹی روایتیں رائج ہوکر منتشر ہوگئیں اور اسلامی تاریخ اور مآخذ میں شامل ہوگئیں اور اس کے مقابلہ میں صحیح روایتیں فراموشی کی نذر ہوکر اپنی جگہ، سیف کی جھوٹی روایتوں کو دے بیٹھی ہیں اسلام اور اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت کے بہانے اسلام کیلئے یہ سب سے بڑا نقصان اور پیکر اسلام پر کاری ضرب تھی جو پہلے سیف کی طرف سے اورپھر اس کے اس جرم میں شریک تاریخ نویسوں کے ایک گروہ کی طرف سے پڑی ہے ۔
چونکہ میں نے سیف کی کارکردگیوں کے اس سلسلہ کو اسلام و مسلمین کے بارے میں نقصان دہ اور انتہائی خطرناک پایا اس لئے میں نے تاریخ اسلام کا عمیق مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ پیغمبر اسلام کے نیک اور مخلص اصحاب کا دفاع کروں جن کا حق تاریخ اسلام میں ضائع اور پایمال ہوا ہے۔
اور ان کی ذات کو سیف کی تہمتوں سے پاک کروں اور تاریخ میں گزرے ہوئے ہر واقعہ کو اپنی جگہ پر قراردوں ، خاص کر اپنے مطالعہ کو سیف کی روایتوں کے بارے میں جاری رکھوں اور اس کی تحریفات اور اس کے شریک جرم حامیوں کے تعصبات کے ضخیم پردوں کے نیچے سے تاریخ کے فراموش شدہ حقائق کو نکال کر کما حقہ ،صورت میں پیش کروں ، میں نے اس تحقیقات اور مطالعات کے خلاصہ کو ایک کتاب کی صورت دیدی اور ۱۳۷۵ ھء میں اسے نجف اشرف میں ” عبد اللہ بن سبا “ کے نام پر شائع کردیا یہ تھے میرے مطالعات کے پہلے نتائج اور انکشافات ۔
اس کے بعد میں نے سیف اور اس کی روایتوں کے بارے میں مطالعہ اور تحقیقات کو جاری رکھا میں نے اس سلسلہ میں عمیق تحقیقات اور بیشتر دقت سے کام لیا سب سے پہلے میرے لئے یہ مطلب منکشف اور عیاں ہوگیا کہ ان سب جعل ، جھوٹ اور کذب بیانی کی تشہیر سے سیف کا صرف صاحب اقتدار اصحاب کا دفاع ہی مقصد نہ تھا بلکہ اس کے اور بھی مقاصد تھے جنہیں اس نے ظاہری طور پر تمام اصحاب کے دفاع کے پردے کے پیچھے چھپا رکھا ہے ۔
حقیقت میں سیف کے احادیث جعل کرنے اور افسانہ سازی میں بنیادی اور اصلی محرک کے طور پر درج ذیل دو عوامل تھے :
۱۔ خاندانی تعصب
سیف اپنے خاندان ” عدنان “ کے بارے میں انتہائی متعصب تھا اور ہمیشہ اپنے خاندان کے افراد کی خواہش کے مطابق تعریف و تمجید کرتا ہے اور اپنے قبیلہ کے افرادکیلئے فضائل و مناقب جعل کرکے ان کی تشہیر کرتا ہے اور تاریخ کی کتابوں میں انھیں شامل کرتا ہے چونکہ ابو بکر ، عمر ، عثمان اور بنی امیہ کے تمام خلفاء اور ان کے زمانے کے حکام و فرمانروا سب قبیلہٴ عدنان سے تعلق رکھتے تھے ، اس طرح مہاجر اصحاب ،قریش سے تھے اور قریش بھی قبیلہٴ عدنان کا ایک خاندان تھا ، سیف ان سب کا خاندانی تعصب کی بناء پر کہ وہ اس کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے دفاع کرتا تھا چونکہ بزرگ صحابی اور طاقتور لوگ اس کے قبیلہٴ کے افراد تھے اسلئے یہ شبہہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ بزرگ اصحاب کا دفاع کرتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ اپنے قبیلہ کے بزرگوں یعنی خاندان عدنان کے افراد کا دفاع کرتا تھا اس طرح ایسے خاندانی تعصب کی بناء پر قبیلہٴ قحطان کے افراد جو فخر و مباحات کے لحاظ سے قبیلہٴ عدنان کے ہم پلہ اور برابر تھے اس وقت کے حاکموں اور صاحبان اقتدار سے ---جو سب قبیلہٴ قریش اور عدناں سے تھے---- ----اچھے تعلقات نہیں رکھتے تھے ۱ شدید ملامت کرتا تھااور ان پر ناروا تہمتیں لگاتا تھا۔
چونکہ انصار قبیلہٴ قحطاں کا ایک خاندان تھا اس لئے سیف نے ان کی ملامت اور مذمت کرنے میں حد کر دی ہے اور انکی مذمت اور تنقید میں داستانیں گڑھ لی ہیں اور بہت سی روایتیں جعل کی ہیں۔
۲۔ کفر و زندقہ
سیف کا اسلام میں جعل وتحریف کرنے کا دوسرا عامل اس کا کفر اور زندقہ تھا سیف اسی کفر و زندقہ اور دل میں اسلام سے عداوت رکھنے کی وجہ سے چاہتا تھاکہ تاریخ اسلام کو الٹ پلٹ کر اسلام کے چہرہ کو بد نما اور نفرت انگیز صورت میں پیش کرے ۔
یہی مقصد اور محرک تھا جس کی وجہ سے اس نے ایک طرف سے حدیث کے راویوں اور پیغمبر
----------
۱۔خلفاء میں حضرت علی کی یہ خصوصیت تھی کہ ان کے مخالفین قریش و عدنان سے تھے اور ان کے دوست قحطانی تھے اس لئے سیف حضرت علی علیہ السلام کے فضائل بیان کرنے میں بخل کرتا تھا لیکن امام اور ان کے طرفدارو(جو قحطانی تھے) کے بارے میں جھوٹ اور تہمتیں پھیلانے میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا تھا ۔
کے اصحاب اور حوادث کے سورماؤں کے ناموں میں تبدیلی کی اور بہت سی روایتوں اور حوادث میں تحریف کرکے ان کے رونما ہونے کی تاریخ کو الٹ پلٹ کرکے رکھ دیا ہے اور دوسری طرف سے مفصل روایتیں اور داستانیں جعل کرکے تاریخ اسلام میں شامل کی ہیں اور توہمات پر مشتمل افسانے جعل کرکے مسلمانوں کے اعتقادات کو خرافات اور بیہودگیوں سے بھر دیا ہے۔
سیف نے اس فاسد اور مخرب مقصد تک پہنچنے کیلئے ہر قسم کے جھوٹ ،افواہ بازی اور تحریف سے فروگذاشت نہیں کیا ہے لیکن ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ اس نے زبردست کوشش کی ہے کہ جھوٹی جنگوں اور فتوحات کو نقل کرکے اسلام کو سنگ دل اور اسلام کے سپاہیوں کو خونخوار اور لٹیرے کی حیثیت سے متعارف کراے اور اس طرح ظاہر کرے کہ اسلامی جنگیں قتل و غارت لوٹ کھسوٹ ، ظلم و جور زبردستی اور بربریت پر مبنی تھیں اسی لئے کچھ لوگوں نے یہ تصور کیا ہے کہ اسلام تلوار اور خونریزی کے نتیجہ میں پھیلا ہے اور اس دین نے دنیا میں اس وجہ سے ایک جگہ بنائی ہے ۔
سیف کی جھوٹی داستانوں کی وجہ سے ہے کہ کہتے ہیں ” اسلام زور و زبردستی اور تلوار کا دین ہے“
یہ تھا میرے مطالعات کو جاری رکھنے کے نتائج اور ثمرات کا خلاصہ ، چونکہ بعد والے مطالعات میں عمیق تر نتائج تک پہنچا ہوں اور ان نکات کی طرف متوجہ ہوا ہوں ، اس لئے کتا ب” عبدا للہ بن سبا“ کے تیسرے ایڈیش میں --- جو بیروت میں انجام پایا ---اس کی طرف اشارہ کیا ہے اسی طرح دوسری بحثوں کے ضمن میں جو کتاب ” ایک سو پچاس جعلی اصحاب “ کے نام سے منتشر ہوئی ہے اس میں اس مطلب کی طرف اشارہ کرچکا ہوں بعد میں سیف کے بارے میں حاصل کئے گئے ان ہی مباحث اور تاریخی نکات کو ، جو تاریخ اسلام کے سیاہ زاویوں کو واضح اور روشن کرتے تھے ،ایک جگہ جمع کرکے موجودہ کتاب کی صورت میں آمادہ کیا اور اسے کتاب ” عبد اللہ بن سبا “ کی دوسری جلد قرار دیا، اس کے اختتام پر ” عبدا للہ بن سبا “ ، ” سبیئہ “ اور ” ابن السوداء “ کے بارے میں مفصل اور دقیق بحث ہوئی ہے کیونکہ یہ موضوع بھی ان مطالب میں سے ہے کہ سیف نے ان میں بہت زیادہ اور واضح تحریفات اور تغیرات انجام دی ہیں اور مؤرخین نے بھی سیف کی ان ہی کذب بیانیوں اور جعلیات کو نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور تاریخ کی کتابوں سے بھی یکے بعد دیگرے نقل ہوتے ہوئے یہ جعلیات تاریخ اسلام میں بنیادی اصول کی صورت میں پیش ہوئے ہیں ان نقل و انتقال اور فعل و انفعال کے ضمن میں دوسری تبدیلیاں بھی وجود میں آئی ہیں اوران پر کچھ اور مطالب کا اضافہ کیا گیا ہے اس کے بعد ” ملل ونحل “ کے علماء عقیدہ شناسوں اور دوسرے مؤلفین نے جو کچھ سالہا سال تک ان افسانوی سورماؤں کے بارے میں لوگوں کی زبانوں پر جاری تھا ، اسے نقل کرکے کسی تحقیق اورچھان بین کے بغیر اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور اس طرح یہ تحولات اور تبدیلیاں اور ان کی پیدائش کے طریقے اور ان روایتوں اور داستانوں کے حقائق محققین سے بھی پوشیدہ ہیں ۔
اس جانچ پڑتال کا مقصد
ان مباحث کے سلسلہ کو شروع کرنے میں ہمارا مقصد ان لوگوں کیلئے تحقیق کی راہ کھولنا ہے جو تاریخ اسلام کے بارے میں بحث و تحقیق کرکے تاریخی حقائق تک پہنچناچاہتے ہیں ۔
ہمارا مقصد ان تاریکیوں اور رکاوٹوں کو دور کرنا ہے جو احادیث جعل کرنے اور دروغ سازی کی وجہ سے تحقیق اور اسلام کے حقائق تک پہچنے کی راہ میں پیدا کی گئی ہیں تا کہ شاید ہمارا یہ اقدام اسلامی دانشوروں اور محققین کو اس قسم کے مباحث کی ضرورت کی طرف متوجہ کرکے اور انھیں سیرت اور تاریخ اسلام میں بحث وتحقیق کرنے کی ترغیب دے اور وہ اپنی عمیق تحقیقات کے نتیجہ میں حقائق اسلام کو پہچاننے کیلئے دقیق معیار اور تازہ قوانین پیدا کرسکیں اور انھیں عام لوگوں کے اختیار میں دیدیں اور اس کام میں مشعل راہ کی حیثیت اختیار کریں ۔
یہ ہمارا ان مباحث کے سلسلہ اور حدیث اور تاریخ کی تحقیق کا مقصد ہے ۔
خداوند عالم ہمارے مقصد سے باخبر اور ہمارے دلوں کے راز سے آگاہ ہے
یہ کتاب
جو کچھ ان مباحث کے سلسلے میں اور تاریخ اسلام کے دروس کے بارے میں کتاب ” عبد اللہ بن سبا “ کی اس جلد میں درج کیا گیا ہے وہ درج ذیل حصوں میں خلاصہ ہوتا ہے :
۱۔ سیف بن عمر کے جھوٹے افسانوں پر مشتمل حصہ ، جس میں اس نے اسلام کو تلوار اور خون کا دین دکھایا ہے ۔
۲۔ توہمات پر مشتمل افسانوں کا حصہ ، جس میں سیف نے اسلام کو ایک خرافی مذہب کے طور پر اور مسلمانوں کو توہمات پر اعتقاد رکھنے والوں کی حیثیت سے تعارف کرایا ہے ۔
۳۔ تبدیلیوں اور تغیرات کا حصہ ، جس میںسیف نے اسلام کے تاریخی واقعات کو پہچاننے میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے ان میں الٹ پلٹ کی ہے ۔
۴۔ ”عبد اللہ بن سبا“ کے بارے میںسیف کی جھوٹی روایتوں کا حصہ ،کہ اس نے اہل بیتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طرفدار قبیلہٴ قحطان کی مذمت اورملامت کیلئے روایتیں جعل کی ہیں ۔
سیف کی روایتوں میں بحث کرنے کا محرک
اختلاق فی اختلاق
سیف کی تمام روایتں جھوٹ کا پولندہ ہیں۔
مؤلف
اسلام کے مخالفوں اور دشمنوں میں یہ افواہ پھیلی ہے کہ اسلام تلوار اورخونریزی سے دنیا میں پھیلا ہے ، یہاں تک اس مطلب کو ایک نعرہ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے اور لوگوں کی زبان پر جاری کیا گیا ہے اور اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک حربہ کی حیثیت سے استعمال کرتے اور کہتے ہیں : ” اسلام تلوار اور خون کا دین ہے “ جب ہم تاریخ کی کتابوں کا دقت سے مطالعہ کرتے ہیں ، سیرت اور احادیث کی تحقیق کرتے ہیں تو ہم سیف کی روایتوں کے علاوہ کہیں بھی ان بے بنیاد باتوں کے بارے میں کوئی دلیل و مآخذ نہیں پاتے ، کیونکہ یہ صرف سیف ہے جس نے اسلامی جنگوں اور غزوات میں بے حد خون خرابہ، قتل عام ،انسان کشی ، شہروں کی بربادی اور ویرانیاں نقل کی ہیں کہ ان کی مثال مغل اورتاتاریوں کی بربریت بھری اور وحشتناک جنگوں کے علاوہ کہیں نہیں ملتی ، اور سیف کی یہی جھوٹی روایتیں اس غلط طرز تفکر کے لئے مآخذبن گئیں ۔
ہم نے ذیل میں پہلے اپنے دعویٰ کیلئے دو شاہد پیش کئے ہیں اس کے بعد سیف کی مذکورہ روایتوں کی بحث و تحقیق کی ہے:
۱۔ میں نے کتاب خانہ ” آثار بغداد “ میں تاریخ طبری کا ایک نسخہ دیکھا جو پہلے مسیحی پادری ”اب انسٹانس ماری کرملی “ کی ملکیت تھی اس نسخہ میں اسلامی فتوحات و جنگوں میں نقل شدہ قتل عام کی بڑی تعداد پر نشان لگے ہوئے تھے ، جب میں نے باریک بینی سے اس پر غور کیا تو یہ تمام موارد ایسی روایتوں میں ملے جنہیں سیف نے نقل کیا ہے ۔
۲۔ اسلام شناس مستشرق ” اجناس گلڈزیہر “ اپنی کتاب کے صفحہ ۴۲ پر لکھتا ہے :
” اپنے سامنے وسیع سرزمینوں کا مشاہد کررہا ہوں کہ عربی ممالک کے حدود سے و سیع تر ہیں ،یہ سب سرزمینیں تلوار کے ذریعہ مسلمانو ں کے ہاتھ میں آئی ہیں “
اس قسم کے فیصلے سیف کی روایتوں کے نتیجہ میں ہیںجو اسلام اور مسلمانوں کیلئے باقی رہا ہے، لیکن ہم سیف کے علاو دوسروں سے نقل شدہ روایتوں میں اس کے برعکس پاتے ہیں ، ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے کسی پر تلوار نہیں کھینچی ہے جب تک کہ ان پر کسی نے پہلے تلوار نہ کھینچی ہو ،یا انہوں نے ان حکام و فرمانرواؤں پر تلوار اٹھائی ہے جو تلوار اور خونریزی کے ذریعہ لوگوں پر مسلط ہوئے تھے اور اکثر اوقات خود لوگوں نے ایسے ظالم اور خود سر حکمرانوں کے تختہ الٹنے میں مسلمانوں کا تعاون کیا ہے ۔ چنانچہ :
یرموک کی جنگ میں مسلمان شام میں رومیوں سے لڑنے میں مصروف تھے کہ حمص کے باشندوں نے مسلمانوں کی مدد کی اس کی روداد ” فتوح البلدان “ میں درج ہے ۔
|