عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
دوسری جلد
علامہ سید مرتضیٰ عسکری
مترجم:سید قلبی حسین رضوی
دوسری جلد سے مربوط خطوط اورمقدمے
* -l جلد اول کے مطالعہ کے بعد دانشور مرحوم محمود ابوریہ کے لکھے گئے دو خطوط
* -l اس کتاب کی پہلی جلد کے بارے میںڈاکٹر احسان عباس کا خط
* -l دوپیش لفظ
* -l مطالعات کا نتیجہ
* -l سیف کی روایتوں کے بارے میں بحث کا محرک
دانشور مرحوم جناب ابور یہ کے دو خطوط
مصری دانشور مرحوم کی ایک یاد!
گزشتہ دس برسوں کے دوران مصر کے ایک دانشور اور عالم اسلام کے ایک مشہور عالم و محقق مرحوم شیخ ابور ریہ کے ساتھ میری ایک طویل خط و کتابت رہی ، انہوں نے میرے دو خطوط کا جواب اپنی کتاب ” اضواء علی السنة المحمدیہ “ میں شائع کیا ، میں بھی یادگار کے طور پر مرحوم کی پہلی برسی پر ان کے دو خطوط کو اس کتاب کی ابتداء میں شائع کررہا ہوں ، خدا مرحوم کو اپنی رحمت اور بہشت جاوداں سے نوازے۔
پہلا خط
دانشور استاد جناب سید مرتضیٰ عسکری
سلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ
ایک دن آزاد فکر اسلامی علماء و دانشوروں کی ایک میٹینگ میں مفکر دانشوروں اور ان کی سبق آموز اور فائدہ بخش کتابو ں کی بات چھڑگئی، ان میں سے ایک شخص نے آپ کا ذکر کیا اور کہا کہ استاد علامہ عسکری نے ” عبد اللہ بن سبا “ کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے ، جو انتہائی عمیق اور حقائق کو واضح کرنے والی کتاب ہے ، اس کتاب میں انہوں نے علم و تحقیق کے دلدادوں کیلئے چند نظریات پیش کئے ہیں کہ ان سے پہلے کوئی بھی دانشور حقائق تک نہیں پہنچا ہے ، انہوں نے ایسے حقائق واضح کئے ہیں کہ منجمد فکر کے حامل اور مقلّد علما اس قسم کے حقائق کے اظہار کرنے کی جراٴت نہیں رکھتے ۔
اس کی باتوں نے مجھے اس پر مجبور کیا کہ اس کتاب کو ڈھونڈ کر اس کے جدید علمی مباحث سے استفادہ کروں، خداوند عالم سے خیر و صلاح کا متمنی ہوں اور اب اس کتاب کے ایک نسخہ کی خود حضرت عالی سے درخواست کرتا ہوں، امید ہے میری درخواست کو منظور فرما کر اسے ارسال کرکے مجھ پر مہربانی فرمائیں گے ۔ میں آپ کی محبتوں کا شکرگزار ہوں ۔
آپ پر خداوند عالم کا درود اوراس کی رحمت ہو
مخلص
محمود ابوریہ ، مصر ، جیزہ۔
۱۷ محرم ۱۳۸۰ ئھ ۱۱ جنوری ۱۹۶۰ ئئ
مذکورہ خط مرحوم شیخ ابو ریہ کا پہلا خط تھا جو مجھے ملا ، جب میں نے مرحوم کی درخواست کے مطابق انھیں کتاب ” عبد اللہ بن سبا “ کی جلد اول تحفہ کے طور پر بھیج دی تو انہوں نے ایک اور خط مجھے لکھا جو حسب ذیل ہے :
دوسرا خط
سرورگرامی و دانشور عالیقدر ، حضرت استاد عسکری
سلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ
خداوند متعال آپ کو ہمیشہ خوشحالی ، صحت و سلامتی اور عافیت عطاکرے ، میں بے حد خوشحال ہوں کہ آج مجھے توفیق حاصل ہوئی کہ آپ کی گراں قدر کتاب ” عبداللہ بن سبا “ کو دقت کے ساتھ ایک بار مطالعہ کرنے کے بعد چند جملے آپ کو لکھوں لیکن اس مفید کتاب کا ایک بار پھر مطالعہ کروں گا ، فی الحال آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہو کہ جس بلند اور جدید روش سے آپ نے اس کتاب میں کام لیا ہے وہ ایک بے مثال ، علمی اور اکیڈمک روش ہے جسے آپ سے پہلے کسی نے اس صورت میں انجام نہیں دیا ۔ میں اپنے دل کی گہرائیوں سے آپ کی اس کامیابی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں کیونکہ اس کامیابی اور نعمت کو خداوند عالم نے صرف آپ کے نصیب کیا ہے اور آپ کو یہ توفیق عطا کی ہے کہ اس قسم کے اہم اور بنیادی موضوع کے بارے میں بحث و تحقیق کرکے یہ واضح اور قابل قدر تاریخی نتائج حاصل کریں ۔
آپ نے اس بحث و تحقیق کے ذریعہ تاریخ اسلام میں ایسی چیزیں کشف کی ہیں کہ گزشتہ چودہ صدیوں کے دوران کسی دانشمند کو یہ حقائق کشف کرنے میں توفیق حاصل نہیں ہوئی ہے اور آپ کی اس بحث کی ایک یورپی دانشور ( کہ شائد اس کانام ” ولز‘ ہے ) نے تائید کی ہے ، وہ کہتا ہے :
” تاریخ سراپا جھوٹ ہے “ افسوس ہے کہ ” ولز“ کا کہنا تاریخ اسلام کے بارے میں بھی صحیح ثابت ہوتاہے ، کیونکہ ہر زمانے میں نفسانی خواہشات اور اندھے تعصبات نے تاریخ اسلام کو الٹ پلٹ کر اپنی صحیح راہ سے ایسے منحرف کرکے رکھ دیا ہے کہ آج مسلمان اس بات کی ضرورت کا شدت کے ساتھ احساس کررہے ہیں کہ تاریخ اسلام اور ان کے دین کے بارے میں گہرائی سے تحقیق و بحث کی جائے ۔
حقیقت میں آپ کی کتاب ” عبد اللہ بن سبا “ کو اس قسم کی تحقیقات کے بارے میں ایک راھنما شمار کیا جاسکتا ، آپ کو خداوند عالم کا شکر بجالانا چاہئے کہ اس نے اس تحقیقی بحث کو آپ کیلئے محفوظ رکھا ہے اور اسی سے مدد طلب کرکے اپنے لئے منتخب کی گئی راہ و روش میں مستحکم اور مؤثر قدم بڑھائیں،ا وراس سلسلہ کو جاری رکھیں اور اپنی علمی تحقیقات سے حقائق کو کشف کرنے کے بعد نتائج ملائم و نرم لہجہ میں دوسروں کے سامنے پیش کریں اور فیصلہ قارئین کے ذمہ چھوڑ دیں ، خاص کر ابو بکر ، عمر اور خلافت سے مربوط مسائل کو بیشتر ملائم اور مناسب حالت میں بیان کریں ،کیونکہ ابھی لوگوں کے اذہان اس حد تک آمادہ نہیں ہیں کہ ان کے بارے میں حقائق صاف ا ور واضح الفاظ میں سن کر انھیں قبول کریں ۔
وا لسلام علیکم
خیر اندیش
محمود ابور یہ
مصر، جیزہ ، شارع قرة بن شریک
۲۰ رجب ۱۳۸۰ ئھ ، ۷ نومبر ۱۹۶۱ ئئ
خرطوم یونیورسٹی میں شعبہٴ تاریخ کے پروفیسر
ڈاکٹر حسن عباس کا خط
میں نے کتاب ” عبد اللہ بن سبا‘ کا مطالعہ ، کیا، ” احادیث سیف بن عمر“ کے موضوع کے تحت آپ نے جو واقعی کو شش کی ہے ، خاص کر جو سیف کی روایتوں اور دوسرے مؤرخین کی روایتوں کے درمیان موازنہ کرکے ان کی مطابقت کی ہے ، اس سے میں، انتہائی خوش ہوا۔
آپ کی کتاب نے میرے ذہن میں چند سوالا ت پیدا کئے ، جن کو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں :
۱۔ کیا علم رجال کے بعض علماء کی طرف سے سیف کے خلاف حکم جاری کرکے اس کی روایتوں کو ضعیف اورمتروک کہنے پر اکتفاء کرکے اس کی تاریخی روایتوں کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے ؟ علم حدیث کے دانشوروں کے پاس حدیث کے راویوں کی پہچان کیلئے خاص معیار موجود ہےکہ جس کے ذریعہ بعض کی تعدیل و توثیق کرتے ہیں کہ اخبار کے راویوں کیلئے یہ اعتراضات کوئی مشکل پیدا نہیں کرتے ۔ مثلا ” قول بہ قدر‘کا الزام بعض اوقات سبب بنتا ہے کہ کسی شخص کے بارے میں جرح کرکے اس کی حدیث کو مردود قرار دیں ۔ اس قسم کے الزامات ہمارے آج کل کے معیار کے مطابق زیادہ مشکل کا سبب نہیں بن سکتے ہیں ۔
۲۔ کیا یہ ممکن ہے کہ سیف نے ان تمام مطالب کو پہلے سے خود ہی گڑھ لیا ہوگا ؟ یعنی ایک پوری تاریخ کو فرضی طور پر لکھا ہوگا؟ اگر آپ کا یہ مفروضہ صحیح ہے توانسان اس وسیع خیال طاقت پر تعجب اور حیرت میں پڑتا ہے !
۳۔ سیف نے بعض رودادوں کو مفصل طور پر تالیف کیا ہے اس کی یہ تفصیل نویسی اس کی تیز بینی اور ذرہ بینی کی دلیل ہے جس کا اس نے اہتمام کیا ہے اور دوسروں نے ان چیزوں کی طرف توجہ نہیں کی ہے ۔ اسے انہی تفصیلات کی وجہ سے بعض ناموں کے ذکر کرنے پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ ذہنوں سے نکل کر فراموش ہو گئے تھے اس سلسلہ میں آپ کیلئے ایک مثال پیش کرتا ہوں :
آپ بلاذری کی کتاب ”فتوح البلدان “ کو اٹھا کرابن عبد الحکیم کی کتاب ” فتوح مصر “ سے موازنہ کریں ۔ پہلی کتاب عام موضوع پر لکھی گئی ہے اور دوسری کتاب خاص اور صرف مصر کے بارے میں لکھی گئی ہے ۔ کیا ابن عبد الحکیم نے ان تمام چیزوں کو ---- جو آپ کی اور ہماری نظر میں قابل اعتماد ہیں --- لایا ہے جن کے بارے میں بلاذری نے بھی ذکر کیا ہے ؟ پھر اس صورت میں کیسے ممکن ہے کہ ابن عبد الحکیم کی روایتوں کو بلاذری کی روایتوں سے موازنہ کیا جائے ؟ میرا عقیدہ یہ ہے کہ سیف کی ایسی ہی حالت تھی ، کیونکہ اس کاارادہ تھا کہ ایک مفصل اور جامع کتاب تالیف کرے جس میں تمام رودادوں کو درج کرے اور عام باتوں اور خلاصہ پر اکتفا نہ کرے بلکہ جو کچھ دوسروں کے قلم سے سہواً یا عمداً چھوٹ گیا ہے ان سب چیزوں کو درج کرے ۔ مناسب نہیں ہے کہ صرف سیف کی کتاب کو ابن سعد کی طبقات --- جس کا مقصد اشخاص کے طبقات ، درجے ، اور مراتب لکھنا تھا ---- یا اس کے بعد والی کتابوںجیسے اسد الغابہ اور الاصابہ سے موازنہ کریں ،ہاں ان سے آگاہی پیدا کرے اوریہ اندازہ کرنے کیلئے کہ ان میں سیف کی کس طرح روایتیں نقل ہوئی ہیں اور سلسلہ جاری رہا ہے ۔
میں ہر چیز سے پہلے سیف کی روایتوں کو ---ابو مخنف یا دوسروں کی روایتوں ، جن سے طبری نے روایتیں نقل کی ہیں ---- ترجیح دیتا ہوں تا کہ میرے لئے یہ امر روشن ہوجائے کہ کیا گزرا ہے صرف وہی ہے جس نے ایک موضوع کو نقل کیاہے ، شائد ایسا نہ ہوگا کہ نقل کئے گئے موضوع میں سیف کی تنہائی کا سبب اس کا خیال اور وہم ہوگا یا اس نے چاہا ہوگا کہ ان بزرگوں کا دفاع کرے جن کے دامن پر تاریخ کی رودادوں کی گردِ ملامت بیٹھی ہو۔
۴۔ ان مواقع کے بارے میں آپ کا نظریہ کیا ہے جہاں سیف کی روایتیں دوسروں کی روایتوں سے ہم آہنگ ہیں ؟ کیا اس کے باوجود بھی اسے داستان گھڑھنے والا سمجھتے ہیں؟ مثلا یہ روایت کہ گمان نہیں کرتا ہوں کہ طبری نے اسے نقل کیا ہوگا :
سیف بن عمر نے عبد الملک ابن جریح ، اس نے نافع سے اس نے ابن عمر سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے : میں نے عمر سے کہا کہ اپنے لئے ایک جانشین مقرر کرو ، ورنہ اپنے خدا کو اس وقت کیا جواب دو گے، جب اس سے ملاقات کرو گے ، جبکہ امت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بے سرپرست چھوڑ گئے ہوگے ؟
اس نے جواب دیا : اگر میں اپنے لئے جانشین منتخب کروں ، تو میں نے ایسے شخص کا سا عمل کیا ہےجو مجھ سے بہتر تھا اور اس نے اپنے لئے جانشین مقرر کیا ہے ( یعنی ابو بکر کہ جس نے اپنے بعد مجھے مقرر کیا ) اور اگر کسی کو مقرر نہ کروں تو بھی میں نے اس شخص کا سا عمل کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھا کہ اس کے بقول اس نے اپنے لئے کسی کو جانشین مقرر نہ کیا ہے ( اس کا مقصود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں جنہوں نے اس کے بقول کسی کو جانشین کے طور پر معین نہ کیا تھا )
یہ عین وہی عبارت ہے جسے ابن ابی بکر نے سیف سے روایت کی ہے اور اگر ابن سعد کی طبقات کی طرف رجوع کریں گے تو اسی روایت کو دوسروں کے ذریعہ ملاحظہ فرمائیں گے (ج ۳/ ص ۳۴۸)۔
امید کرتا ہوں کہ آپ روایتوں کی چھان بین کرتے ہیں ، مہربانی کرکے بتائیے کہ کیا سیف کی تمام روایتیں مردود ہیں یا ان میں سے بعض کو آپ قبول کرتے ہیں ؟
۵۔ آپ نے سیف پر تاریخی واقعات کے سالوں میں تحریف کرنے کی نسبت دی ہے لفظ تحریف کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اس نے اس موضوع میں عمداً یہ کام کیا ہے جبکہ تاریخی واقعات میں اختلاف صرف ان سے ہی مخصوص نہیں ہے ، تنہا وہی نہیں تھاکہ تاریخی واقعات میں اختلاف رکھتا ہو ۔ اگر آپ غزوات اور جنگوں کے راویوں ، جیسے موسی بن عقبہ ، ابن شہاب زہری ، واقدی اور ابن اسحاق پر ذر اغور فرمائیں گے تو جنگوں کے سالوں اور لشکر بھیجنے کی تاریخوں کے بارے میں کافی اختلافات مشاہدہ کریں گے اور اگر ذرا سا آگے بڑھ کر تاریخ طبری میں فتح دمشق اور شام کے دیگر شہروں کے بارے میں گوناگوں روایتیں ملاحظہ کریں تو میں نہیں سمجھتا ہوں کہ ان اختلافات کا مطالعہ و مشاہدہ کرنے کے بعد بھی آپ اسی اعتقاد پر قائم رہیں گے کہ سیف نے ان سالوں اور تاریخوں میں عمداً تغیر دے کر تحریف کیا ہے ۔
نمونہ کیلئے طاعون عمواس کے حادثہ کو مد نظر رکھیں، ابن اسحاق و ابو معشر کہتے ہیں کہ یہ حادثہ ۱۸ھ ء میں پیش آیا اور سیف کہتا ہے ۱۷ھء میں پیش آیا ہے ۔ ان اختلافات میں سے بعض اس لئے رونما ہوئے ہیں کہ تاریخ کی ابتداء میں اختلاف تھا، عمر نے ہجرت کی ابتداء کو اول محرم سے حساب کیا ہے جبکہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجرت ربیع الاول میں واقع ہوئی ہے اس بنا پر اگر مورخ کہتا ہے کہ یہ تاریخی روداد ۱۷ھء میں واقع ہوئی ہے اور دوسرا کہتا ہے ۱۸ھء میں تو یہ ان چند مہینوں کی وجہ سے ہے ، کیونکہ بعض راویوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کی حقیقی ہجرت کو تاریخ کی ابتداء قرار دیا ہے اور بعض نے اس زمانے کو قرار دیا ہے کہ عمر نے مقرر کیا ہے یعنی اگر کوئی موضوع ماہ محرم یا صفر میں واقع ہو ا ہوگا تو ایک آدمی کہہ سکتا ہے ۱۸ھء میں واقع ہوا ہے اور دوسرا کہہ سکتا ہے ۱۷ ھء کے آخری ماہ میں واقع ہوا ہے ۔
اور اسی طرح سیف کے بعض دوسرے تاریخی اختلافات ہیں جو دوسروں سے مختلف ہیں تاریخ کے ذکر میں اس قسم کے اختلافات کا بدنیتی سے کوئی ربط نہیں ہے اور یہ تحریف کی دلیل نہیں بن سکتے ہیں ، فرض کیجئے اگر سیف ایک مسئلہ میں دوسرے راویوں سے اختلاف بھی رکھتا ہو تو یہ دلیل نہیں بن سکتا ہے کہ اس نے خطا کی ہے ، اور دوسرے صحیح راستہ پر چلے ہیں ہم مجبور ہیں کہ ہر ایک موضوع کی دقیق، تحقیق و تحلیل کریں اور جو بھی صحیح اور زیادہ ترمستحکم ہو اسے قبول کریں ۔
۶۔میں چاہتا تھا کہ آپ سیف کی روایتوں میں موجود اسناد و مآخذ جن پر سیف نے تکیہ کیا ہے کی جانچ پڑتال کرتے، تا کہ ہم دیکھتے کہ کیا ان اسناد میں آپ کی نظر میں اشکال موجود ہے یا نہیں اگر ہے تو کس دلیل کی بنا پر ؟ شائد بحث ایک تازہ نتیجہ پر پہنچ جاتی اور آپ کے نقطہ نظر کو تقویت ملتی ۔
یہ تھے وہ چند مسائل جو آپ کی کتاب کے مطالعہ کو مکمل کرنے کے بعد میرے ذہن میںپیدا ہوئے ، اس امید کے ساتھ کہ ہمیں ایک ایسے متحیر سوال کنندہ کی حیثیت سے جان لیں جو حقیقت کی جستجو میں ہے نہ ایک ہٹ دھرم تنقید اور سرزنش کرنے والے کی حیثیت سے ، ہم سب اس چیز کے متمنی ہیں کہ حقیقت تک پہنچ کر قلب ور روح کو مطمئن کریں۔
والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ
مخلص
احسان عباس
۲۴ /۱/ ۱۹۵۷ئئ
|