عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے | |||||
کتاب کے مطالب کی فہرست اور خلاصہ
ہم نے کتاب کے مقدمہ میں ” مباحث پر ایک نظر “ کے عنوان سے کہا ہے کہ ہم نے حدیث و تاریخ میں مسلسل وسیع و عمیق مطالعہ کیا ہے اور ان مطالعات کے دوران اس حقیقت کو پایا ہے کہ اسلامی علوم اور ثقافت اور مآخذمیں صحیح اسلامی احادیث اور حقیقی تاریخی واقعات کے نام پر موجود تین قسم کی روایتوں کی جانچ پڑتال انتہائی لازم و ضروری ہے اور صحیح اسلام کو پہچاننے میں یہ کام انتہائی مؤثر و واضح کنندہ ہے روایتوں کے یہ تین دستے ، جن کی تحقیقضروری ہے حسب ذیل ہیں :
۱۔ ام المؤمنین عائشہ کی روایتیں ۔ ۲۔ پیغمبر خدا کے بعض اصحاب کی روایتیں۔ ۳۔ سیف بن عمر کی روایتیں ہم خدا کی مدد سے مذکورہ تین قسم کی روایتوں اور دوسری روایتوں کو اپنی تالیفات کے سلسلہ میں ” حدیث و تاریخ “ کی چھان بین کے عنوان سے تحقیق کرنا چاہتے ہیں ہم نے سیف کی روایتوں کے ایک حصہ کی اسی کتاب میں جانچ پڑتال کی ہے ، اس کی باقی بچی روایتوں کو بھی انشاء اللہ اس کتاب کی جلد دوم و سوم میں بحث و تحقیق کریں گے ، اس فصل میں ہم گزشتہ بحث و تحقیق کا خلاصہ بیان کریں گے ۔ ۱۔ عبدا للہ بن سبا کے افسانہ کی پیدائش ایک ہزار سال سے یہ افسانہ مؤلفین اور مؤرخین کی زبان پر جاری ہے مؤرخین کہتے ہیں : اس مشن کو چلانے والا ، عبد اللہ بن سبا نامی ایک یہودی تھا اس نے عثمان کے زمانہ میں ظاھری اسلام قبول کیاتا کہ اپنے فتنہ انگیز منصوبوں کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان رخنہ اندازی کرے۔ کہتے ہیں : یہ شخص دو موضوع کا پروپیگنڈا کرتا تھا ۔ ۱۔ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد رجعت ۔ ۲۔ یہ کہ ہر ایک پیغمبر کا کوئی نہ کوئی وصی اور جانشین تھا ، پیغمبر آخر الزمان کے وصی و جانشین علی ہیں اور عثمان ان کا حق غصب کرنے والے ہےں ۔ لہذا عثمان کے خلاف بغاوت کی جانی چاہئے تا کہ حق حقدار کے حوالے کیا جاسکے ۔ کہتے ہیں : عثمان کے خلاف بغاوت اسی پروپگنڈہ کے نتیجہ میں ہوئی تھی بغاوت کرنے والوں میں اصحاب اور تابعین کا ایک گروہ تھا کہتے ہیں کہ وہ عبدا للہ بن سبا کے گرویدہ تھے انھی سبائیہ کہتے تھے ۔ کہتے ہیں : بصرہ سے باہر واقع ہونے والی جنگ جمل میں سبائی فتنہ پر پا کرنے کی غرض سے رات کی تاریکی میں دو لشکروںمیں گھس گئے پو پھٹتے ہی کمانڈروں کی لاعلمی میں دونوں طرف سے تیر اندازی شروع ہوگئی اور اس طرح اچانک جنگ کے شعلوں کو بھڑکادیا ، لہذا ان تمام فتنوں کا سرچشمہ یہی یہودی ہے ۔ اس کے علاوہ اسی شخص نے مسلمانوں میں رجعت اور علی علیہ السلام کی جانشینی کا عقیدہ پھیلایا ہے !! ۲۔ عبدا للہ بن سبا کے افسانہ کے راوی
مؤرخین اورمصنفین معاصر اور غیر معاصر نے اس افسانہ کو سیف بن عمر نامی ایک شخص سے نقل کیا ہے ، درج ذیل اشخاص ،ان میں مشہور ترین افرادمیں سے ہیں ۔
۱۔ ابن اثیر ۲۔ ابن کثیر ۳۔ ابن خلدون مذکورہ تین اشخاص نے اپنی تاریخ کی کتابوں میںعبد اللہ بن سبا کے افسانوں کو طبری سے نقل کیا ہے ۔ ۴۔ فرید وجدی نے ” دائرة المعارف “ میں ۔ ۵۔ احمد امین نے ” فجر الاسلام “میں ۔ ۶۔ حسن ابراہیم نے ” تاریخ سیاسی اسلام “ میں ۔ ۷۔ میر خواند نے ” روضة الصفا “ میں ۔ مستشرقین
۸۔ فان فلوٹن نے ” تاریخ شیعہ “ میں ۔
۹۔ نیکلسن نے ” تاریخ ادبیات عرب “ میں ۔ ۱۰۔ ولھاوزن نے ’ الدولة العربیة و سقوطھا “ میں ۔ ۱۱۔ انسائیکلوپیڈیا کے مصنفین ” دائرة المعارف اسلامی “ میں ۔ ۱۲۔ دوایت ۔ ایم ۔ ڈونالڈسن نے ” عقیدة الشیعہ “ میں ۔ تمام مذکورہ اشخاص نے اس افسانہ کو طبری سے بلا واسطہ نقل کیا ہے ۔ ۱۳۔ غیاث الدین نے اس افسانہ کو ” حبیب السیر “ میں روضة الصفا سے نقل کیا ہے ۔ ۱۴۔ ابو الفداء نے اپنی تاریخ میں ۔ ۱۵۔ رشید رضا نے ” السنة و الشیعہ “ میں ۔ مذکورہ دونوں افراد نے ابن اثیر سے نقل کیا ہے ۔ یہاں تک مذکورہ دانشوروں نے ابن سبا کے افسانوں کو بلاواسطہ یا ایک واسطہ سے طبری سے نقل کیا ہے، طبری نے یہ افسانہ کہاں سے ذکر کیا ہے ؟ ۱۶۔ طبری نے اپنی تاریخ میں اس افسانہ کو تفصیل کے ساتھ ” سیف بن عمر تمیمی “ سے روایت کیا ہے ۔ ۱۷۔ذہبی نے ” تاریخ اسلام “ میں اس افسانہ کو ” سیف بن عمر “ کی کتاب سے ذکر کیا ہے اور طبری سے بھی روایت کیا ہے ۔ ۱۸۔ ابن ابی بکر نے ” التمہید “ میں اس افسانہ کو ” سیف “ کے علاوہ ابن اثیر سے بھی نقل کیا ہے۔ ۱۹۔ ابن عساکر نے ” تاریخ دمشق “ میں ” سیف بن عمر ّ“ سے روایت کیا ہے ۔ ۲۰۔ ابن بداران نے تاریخ ابن عساکر کو خلاصہ کرکے اسے ” تہذیب تاریخ دمشق “ نام رکھا ہے اور جو کچھ تہذیب میں ذکر کیا ہے اسے ابن عساکر سے نقل کیا ہے۔ ۲۱۔ سعید افغانی نے ” عائشہ و السیاسة “ میں طبری ، ابن عساکر ابن بدران اور ابن ابی بکر سے نقل کیا ہے ۔ اس تحقیق کے بعد واضح ہوجاتا ہے کہ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزرہا ہے کہ تمام دانشور اور مؤرخین اس افسانہ کو سیف بن عمر سے نقل کررہے ہیں لہذا سیف بن عمر کی شخصیت کے بارے میں تحقیق کرنا ضروری ہے ۔ اس بنا پر تاریخ اسلام کی تصنیف میں سیف کی روایتوں کا انتہائی اہم اثر رہا ہے اور مناسب ہے کہ ان روایتوں کو جعل کرنےو الے ( سیف بن عمر ) کو اچھی طرح پہچان لیں تا کہ اسکی روایتوں کی قدر وقیمت معلوم ہوسکے ۔ ۳۔ عبد اللہ بن سبا کے افسانہ کوخلق کرنے والا سیف بن عمر کی زندگی کے حالات :
علم رجال کے علماء نے تیسری صدی ہجری سے دسویں صدی ہجری تک سیف بن عمر کی زندگی کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سیف بن عمر دوسروں کی روایتوں میں دخل و تصرف کرکے حدیث جعل کرتا تھا اور وہ زندیق تھا !!
اس نے ۱۷۰ ھء کے بعد وفات کی ہے اور یادگار کے طور پر درج ذیل اپنی دو کتابیں چھوڑی ہیں : ۱۔ کتاب ” الفتوح و الردة “ کہ اس سے پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد عثمان کی خلافت تک کے واقعات پر بحث کی گئی ہے ۔ ۲۔ کتاب ” الجَمل و مَسیر عليّ و عائشة “ کہ اس میں عثمان کے قتل اور جنگ جمل پر بحث و گفتگو کی گئی ہے ۔ یہی دو کتابیں ان دانشوروں وغیرہ کےلئے مآخذ بن گئی ہیں ۔ ہم نے اس کتاب میں ثابت کیا ہے کہ سیف نے بعض تاریخی حوادث اور اسلامی فتوحات کے بر خلاف واقع، بیان کیا ہے اور بعض کو افسانہ کے طور پر مضحکہ خیر انداز میں نقل کیاہے ۔ اس نے بہت سے افسانوی سورماؤں کو ایسے خلق کیا ہے جو بعد میں اسلامی شخصیات اور اصحاب پیغمبر کی فہرست میںقرار پائے ہیں بعض دانشوروں ، جیسے ابن عبد البر نے ” الاستیعاب “ میں ، ابن اثیر نے ” اسد الغابہ “ میں اور ابن حجر نے ”الاصابہ “ میں سیف کی روایتوں پر استناد کرکے سیف کے افسانوی سورماؤں کے حالات پر اصحاب پیغمبر کی حیثیت سے روشنی ڈالی ہے ۔ اس کے علاوہ جغرافیہ شناسی کی کتابوں کے مؤلفین جیسے ” معجم البلدان “ اور ” الروض المعطار “ کے مصنفین نے سیف کی روایتوںسے استناد کرکے ایسے شہروں اور اماکن کانام لے کر ان کی تفصیلات لکھی ہیں کہ سیف کی روایتوں کے علاوہ انھیں کہیں نہیں پایا جاتا ہے اور حقیقت میںا ن کا کہیں وجود ہی نہیں ہے ۔ ۴۔ اسامہ کا لشکر
سیف نے لشکر اسامہ کے بارے میں روایت کی ہے :
” پیغمبر خدا نے اپنی رحلت سے پہلے روم سے جنگ لڑنے کیلئے ایک لشکر کو آمادہ کیا تھا اور اسامہ کو اس لشکر کی کمانڈری سونپی تھی ، لشکر کے روانہ ہونے کے بعد ابھی اس کی آخری فرد مدینہ کی خندق سے نہ گزری تھی کہ پیغمبر خدا نے رحلت فرمائی ۔ اسامہ وہیں پر رک گئے اور عمر کو رسول خدا کے خلیفہ ابوبکر کے پاس بھیجا اور ان سے واپس لوٹنے کی اجازت طلب کی انصار نے بھی اس سے مطالبہ کیا کہ کمانڈری کو اسامہ سے چھین لیں اور کسی اور کو سونپیں جب عمر نے مذکورہ پیغام کو ابوبکر کے یہاں پہنچایا ابوبکر نے اٹھ کر عمر کی داڑھی پکڑی اور کہا : تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے ! اسامہ کو پیغبمر نے سپہ سالار معین فرمایا ہے اور تم یہ کہتے ہو کہ میںا س سے یہ عہدہ چھین لوں ؟ اس کے بعد ابو بکر آئے اور لشکر کو روانہ کیا اورانھیں رخصت کرتے ہوئے کہا : چلے جاؤ تا کہ خداوند عالم تمہیں قتل و طاعون کے ذریعہ نابود نہ کرے “ ہم نے جو معتبر روایتیں اس سلسلے میں سیف کے علاوہ دوسروں سے نقل کی ہیں ۱ان کی جانچ پڑتال کرنے سے واضح ہو اکہ سیف نے تاریخ کو کس حد تک حقیقت کے برخلاف دکھایا ہے اور اس روایت میں کس قدر جھوٹ اور غیر واقعی مطالب موجود ہیں ۔ ۵۔ سیف کی روایتوں میں سقیفہ کی داستان
سقیفہ کی روداد نقل کرنے کے سلسلے میں سیف بن عمر سے سات روایتیں نقل ہوئی ہیں ، ان میں یوں کہتا ہے :
” پیغمبر اسلام کی وفات کے د ن ، تمام مہاجرین نے کسی دعوت کے بغیر ابوبکر کی بیعت کی ! اور کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی ، مگر وہ جو مرتد ہوئے تھے ۔ حضرت علی علیہ السلام گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ خبر ملی کہ ابو بکر بیعت لینے کیلئے اٹھے ہیں پس جب انہوں نے یہ سنا، صرف ایک کرتاپہن کر گھرسے روانہ ہوئے اور مسجد کی طرف دوڑپڑے اور ابوبکر کی بیعت کی ۔ اس کے بعد ان کا لباس لایا گیا ،تب وہ لباس پہن کر ابوبکر کے پاس بیٹھ گئے۔ مزید روایت کی ہے : ابوبکر نے اپنے خطبہ میں کہا: ہوشیار رہنا ! میرا ایک شیطان ہے جو میرے حواس خمسہ میںا ور میرے رگ وریشہ میں تصرف کرتا ہےخبر دار رہنا، اگر ایسا ہو تو مجھ سے اجتناب کرنا ، ایسا نہ ہو کہ میں تمہارے پیراہن اور بدن سے اپنے حق میںاستفادہ کروں۔ ان روایتوں کے علاوہ دوسری روایتیں بھی حقیقت کے خلاف نقل کی ہیں ۔ ہم نے چوںکہ اس سلسلہ میں سیف کی روایتوں کی اسناد کی چھان بین کی ہے اس سے معلوم ہوجاتاہے ان سات روایتوں میں سے چار روایتوں کو سیف نے اپنے چار افسانوں کے سورماؤں سے نقل کیا ہے اور ان چار سورماؤںکے نام سیف کی روایتوں کے علاوہ ہم کہیں نہیں پاتے ۔ ہم نے اس سات روایتوں کے متن کی جانچ پڑتال کیلئے ناچار ہوکر اہل سنت کی کتابوں سے معتبر روایتیں نقل کی ہیں ، اور اس طرح سیف کی روایتوں میں بہت زیادہ جھوٹ کی موجودگی کو ثابت کردیا ہے ۔ ۶۔ سقیفہ کی داستان صحیح روایتوں میں :
ان روایتوں میں ملتا ہے کہ پیغمبر خدا کو زندگی کے آخری لمحات میں عمر نے یہ موقع فراہم ہونے نہ دیا کہ آپ ایک وصیت نامہ لکھیں ! اس نے پیغبمر کی رحلت کے بعد تلوار کھیچ لی اور کہتا تھا : پیغمبر نے وفات نہیں کی ہے ! اور جو بھی یہ کہے گا کہ آپ نے وفات کی ہے ، اس کا سر قلم کردوں گا ! اس نے ان الفاظ کی اس قدر تکرار کی کہ یہاں تک کہ ابوبکر آگئے اور اس وقت عمر نے اچانک خاموشی اختیاری کی جبکہ اہل بیت پیغمبر رسول خداکے بدن کو غسل دینے میں مشغول تھے ، انصار سقیفہ میں جمع ہوئے تھے تاکہ سعد بن عبادہ کی بیعت کریں ، یہ خبر جب ابوبکر اور عمر کو پہنچی تووہ ابو عبیدہ اور چند دوسرے افراد کے ہمراہ سقیفہ کی طرف روانہ ہوگئے اور انصار کے ساتھ جنگ و جدل کیا ، نتیجہ کے طور پر ابوبکر کے حامی گروہ نے فتح پائی اور ابوبکر کی بیعت کی گئی ، اس کے بعد اسے مسجد النبی لے آئے اور لوگوں سے اس کیلئے بیعت لی، اس پوری مدت کے دوران پیغمبر خدا کا جنازہ آپ کے گھر میں پڑا رہا اورآنحضرت کے اہل بیت اور انصار میں سے ایک شخص کے علاوہ کوئی وہاں پر موجود نہ تھا سقیفہ اور مسجد النبی میںبیعت کا کام مکمل کرنے کے بعد یہ لوگ پیغمبر خدا کے جنازہ پر نماز پڑھنے کیلئے حاضر ہوئے ۔ آنحضرت کا جنازہ سوموار سے منگل کی شب تک اپنے گھر میں پڑا رہا اور منگل کی نصف شب کو اہل بیت نے آپ کی تجہیز و تکفین کا کام انجام دیا ۔
علی علیہ السلام، اہل بیت پیغمبر ، اصحاب میں سے ایک جماعت اور تمام بنی ہاشم نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور انہوں نے پیغمبر کی بیٹی حضرت فاطمہ کے گھر میںد ھرنا دیا، عمر چند لوگوں کے ہمراہ آئے تا کہ دھرنادینے والوں کو لے جاکر ابوبکر کی بیعت کرائےں ۔ لیکن علی علیہ السلام اور بنی ہاشم نے چھ مہینہ تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی ، مگر پیغمبر خدا کی بیٹی کی رحلت کے بعد اس کتاب میں یہ تمام روداد تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ، ان وقائع کو بیان کرنے کے بعد ہم نے بعض اصحاب جیسے ابن عباس، ابوذر ، مقداد، ابو سفیان ، معاویہ ، اور عمربن خطاب کے نقطہ ٴ نظر پیش کئے ہیں اور اس کے علاوہ سعد بن عبادہ کی زندگی کے آخری ایام کے حالات کا ایک خلاصہ بھی بیان کیا ہے اس کے بعد پھر سے سقیفہ کے بارے میں سیف کی روایتوں کا دوسروں کی صحیح روایتوں سے موازنہ کیا ہے اور نتیجہ کے طور پر سیف کی روایتوں کے حقیقت کے خلاف اور جھوٹے مواقع کو واضح کردیا ہے۔ سیف کی روایتوں کی چھان بین
اس تحقیق اور جانچ پڑتال کے بعد سیف کی روایتوں میں موجود جھوٹ کا پول کھل گیا اور مکمل طور پر واضح ہوگیا کہ کہ ” سیف بن عمر “ اصحاب کی زندگی کے بارے میں ، وقت کے حکام کی خواہش اور اس زمانے کے لوگوں کے جذبات کے مطابق جو چیز کسی بھی کتاب میں نہ لکھی گئی تھی ، کو مختلف صورتوں میں نقل کرکے اپنی روایتوں کیلئے اسناد جعل کرتا تھا اس کام کے نتیجہ میں اس نے اپنے اصل مقصد یعنی تاریخ اسلام کو مضحکہ خیز اور برعکس دکھانے کی ضمانت فراہم کی ہے اور آج صدیاں گزرنے کے بعد بھی سیف کے افسانے تاریخ اسلام کے نام پر زبان زد ہیں ۔
کیا ابھی بھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہم اس جھوٹ ( سیف اور اس کی جیسی روایتوں) کی جڑ کو تاریخ اسلام سے اکھاڑ کر پھینک دیں ؟ اور تحقیق و مجاہدت کے ذریعہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم او رآپ کے خاندان کے خوبصورت چہرہ سے جھوٹ کے پردوں کو اٹھالیں ، تا کہ اسلام کا حقیقی روپ اپنے جمال و جلال کے ساتھ نمایاں ہوجائے ؟ یا یہ کہ ابھی بھی ان مضحکہ خیز افسانوں کے ساتھ دلچسپی دکھا کراسلام کے دفاع پر ان افسانوی اور انکے خالق کا دفاع کرکے ،اسلام کے حقائق کو پھیلانے کے راستہ میںایک بڑی رکاوٹ ایجاد کریں ؟!! ہم نے خداوند عالم کی مدد سے اس کتاب کی پہلی جلد میں حقائق اسلام کو پہچاننے کی راہ میں ایجاد کی گئی بڑی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انشا ء اللہ دوسری جلد میںبھی اسی راستے پر آگے بڑھتے ہوئے اس کے پہلے حصہ میں سیف کی ان روایتوں پر بحث و تحقیق کریں گے جن کے ذریعہ اسلام کو تلوار اور خون کا دین بتایا گیا ہے۔ ہم اس حصہ میں سیف کی ان فرضی اورخیالی جنگوں کی بحث و تحقیق کریں گے جنھیں اس نے تایخ اسلام میں شامل کیا ہے یہ جنگیں ابوبکر کی خلافت کے دوران ” مرتدین کی جنگ “ کے نام سے مشہور ہوئیں جیسے : ابرق الربذہ کی جنگ ، زی القصہ پر لشکر کشی ، قبیلہٴ طی کا ارتداد اور ان سے جنگ ، ارتداد اور جنگ ام زمل ، مہرہ کے باشندوں کا ارتداد ، عمان کے باشندوں کا ارتداد ،اہل یمن کے ساتھ مرتدین کی پہلی جنگ ، ارتداد اور جنگ اخابث اور یمن میں مرتدین کی دوسری جنگ۔ تاریخ اسلام میں چند دوسری جنگیں بھی ’ فتوح اسلامی “ کے نام پر درج کی گئی ہیں کہ ان کی بھی کوئی اصلیت یا بنیاد نہیں تھی ، جیسے : جنگِ سلاسل یا فتح ابلہ ، واقعہ مذار، فتح ولجہ ، فتح الیس ، فتح امغیشیا ، فتح فرات باذقلی ، جنگ حصید، جنگ مصیخ، جنگ مثنی ، جنگ زمیل اورجنگ فراض سیف ان افسانوی جنگوں کو تاریخ اسلام میں نشر کرکے اسلام کو خون اور تلوار کا دین بتادینے میں کامیاب ہوا ہے جبکہ بحث و تحقیق کے بعد واضح ہوتا ہے کہ یہ سب داستانین جھوٹی اور افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں تھی ۔ کتاب کے دوسرے حصہ میں ، سیف کی چند ایسی روایتوں کی تحقیقات کی جائے گی جو اسلام کے عقائد کی توہمات کے ساتھ ملاوٹ کا سبب بنیں ہیں جیسے: خالد بن ولید پرزہرکے اثر نہ کرنے کی مہمل داستان ،عمر بن خطاب کے بارے میں پیغمبر کی بشارتیں اور پیشنگوئیاں ، مسلمانوں کے نعروں کی آواز سے شہر حمص کی فتح |