تاریخی حوادث واقع ہونے کے زمانے میں سیف کی اداکاریاں
إِنّما حَرَّفَ سیف الوقائع التاریخیة اٴیضاً
سیف نے وقائع کی تحریف پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ ان وقائع کی تاریخ میں بھی تحریف کی ہے ۔
مولف
سیف نے جو تحریفات انجام دی ہیں ، اس میں صرف تاریخی حوادث میں تبدیلی لانے پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے ، بلکہ وقائع تاریخی کے سال معین کرنے میںبھی انہیں خلافِ حقیقت بیان کیاہے ان میں فتح ” ابلہ “ ۱ہے کہ طبری نے سیف سے روایت کی ہے :
ابو بکر نے خالد کو ایک لشکر کے ساتھ ماٴموریت پر عراق بھیجا ، اس نے ابلہ میں دشمن پر حملہ کیا دشمن اور مشرکین کی فوج نے لشکر اسلام سے پہلے پانی کے ساحل پر کیمپ لگایا تھا اور خالد کے سپاہیوں کو
۱۔ ابلہ ایک شہر کا نام ہے ۔ یہ شہر دریائے دجلہ کے کنارے پر بصرہ کے نزدیک جہاں پر ایک خلیج کا کونہ شہر بصرہ میں داخل ہوتا ہے ابلہ شہر بصرہ سے قدیمی تر ہے کیونکہ بصرہ عمر ابن خطاب کے زمانے میں قصبہ بنا جبکہ انہی دنوں ابلہ قصبہ تھا کہ یہاں پر کسری کی فوجی چھاونی تھی اور وہاں پر فوجی کمانڈر رہتا تھا ( معجم البلدان )
پانی استعمال کرنے میں روکاوٹ ڈالی تھی، جب جنگ چھڑ گئی تو خداوند عالم نے ایک ابر کو بھیجا جس نے اسلام کے لشکر کے پیچھے بارش برسانا شروع کیا یہاں تک کہتا ہے : خالد نے اسلام کی فتحیابی کی نوید باقیماندہ جنگی غنائم اور ہاتھی کے ہمراہ مدینہ بھیج دیا ، ہاتھی کو مدینہ کی گلی کوچوں میں پھرایا جاتا تھا تا کہ لوگ اسے دیکھیں ، ضعیف العقل عورتیں کہتی تھیں : یہ جو ہم دیکھ رہے ہیں کیا یہ خدا کی مخلوق ہے؟ ٰاور خیال کرتی تھیں کہ یہ بناوٹی ہے ۱
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ابو جعفر کہتا ہے : جو ہم نے داستان ابلہ اور اس کی فتح کے بارے میں کہا ہے وہ تاریخ دانوں اور صحیح روایتیں بیان کرنے والوں کے بر خلاف ہے بلکہ فتح ابلہ عمر کے زمانے میں ۱۴ ھء میں عتبہ بن غزوان کی کمانڈ ری میںا نجام پایا ہے ۔
جیسا کہ اس داستان میں ملاحظہ ہوتا ہے کہ سیف نے سال وقوع ، کمانڈر کے نام اورخلیفہ وقت کے نام کو بھی تبدیل کیا ہے اور اس کے علاوہ ایسے مطالب کہے ہیں کہ اس کے سوا کسی اور نے انھیں نقل نہیں کیا ہے ۔
سیف کی تحریفات میںا یک ،شہر بصرہ کی بنیاد رکھنے کی تاریخ ہے طبری نے اس سلسلہ میں کہاہے : مدائنی کے کہنے کے مطابق عمر ابن خطاب نے عتبہ بن غزوان کو ۱۴ ھ ء میں بصرہ کی طرف روانہ کیاہے لیکن سیف نے ایسا گمان کیا ہے کہ شہر بصرہ ۱۶ ئھ میں وجود میں آیا ہے ۲
----------------
۱۔ تاریخ طبری ،ج ۲/ ۵۵۶۔
۲۔ تاریخ طبری ، ج ۲/ ۸۹۔
اس روداد کو ابن کثیر نے نقل کیا ہے اور وہیں پر اشارہ کیا ہے کہ اس قضیہکے وقوع کا سال بیان کرنے میں سیف کا دوسروں کے ساتھ اختلاف ہے ۱
سیف کی تحریفات میں یرموک ۲کا واقعہ بھی ہے ابن کثیر اپنی تاریخ میں لکھتا ہے : یرموک کا واقعہ ماہ رجب ۱۵ ھء میں واقع ہوا ہے چنانچہ یہ تاریخ کے علماء : لیث بن سعد ، ابن لھیعہ ، ابو معشر ، ولید بن مسلم ، یزید بن عبیدہ ، خلیفہ بن خیاط ، ابن کلبی ، محمد بن عائذ، ابن عساکر اور شیخ ابو عبدا للہ ذہبی حافظ کا عقیدہ ہے لیکن سیف بن عمر اور ابو جعفر جریر کا عقیدہ یہ ہے کہ یرموک کا واقعہ ۱۳ ھ ء میں رونما ہوا ہے اور ہم نے یہاں پر اس واقعہ کی تاریخ ۱۳ ھء معین کی ہے تا کہ طبری کی پیروی ہوجائے۳
اسی اختلاف کو دوسری جگہ پر ۱۳ ھ ء کے حوادث میں لکھا ہے اور کہا ہے : ابن عساکر کہتا ہے : جو صحیح ہے وہ یہی ہے ۴
لیکن جو سیف نے کہا ہے کہ یہ واقعہ فتح دمشق سے پہلے ۱۳ ھ ء میں رونما ہوا ہے، کسی نے سیف کی اس بات پر اعتبار نہیں کیا ہے ۔
ابن عساکر کی تاریخ میں اس کی عبارت یوں ہے :
----------------
۱۔ تاریخ ابن اثیر ،ج ۷، ص ۵۷ و ۴۸ ۔
۲۔ یرموک شام کی طرف ایک بیابان ہے ، (معجم البلدان )
۳۔ تاریخ ابن کثیر ، ج ۷ ص ۶۱ ۔
۴۔ تاریخ ابن اثیر ، ج ۷ ص ۲۔
ذکر سیف بن عمر إنھا کانت سنة ۱۳ ھء قبل دمشق و لم یتابعہ اٴحد علیٰ ما قالہ ۱
من جملہٴ واقعہٴ فحل کی تاریخ ۲ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں کہاہے : واقعہٴ فحل کو مؤرخین کی ایک بڑی جماعت نے فتح دمشق سے پہلے لکھا ہے لیکن طبری نے اسے فتح دمشق کے بعد لکھا ہے اور اس بات میں سیف بن عمر کی پیروی کی ہے ۳
بلاذری نے فتو ح البلدان میں کہاہے : واقعہٴ فحل اردن ، خلافت عمر کے پانچ ماہ گزرنے کے بعد اس وقت رونما ہوا ہے جب کہ ماہ ذیقعدہ کے دودن باقی بچے تھے ۴
سیف کی تحریفات میں ایک ” ہرقل “ کے شام سے روانہ ہونے کی خبر ہے ، طبری نے اپنی تاریخ کی ج ۳ ص ۹۹ میںلکھا ہے : اس کے بعد ہرقل “ قسطنطینہ کی طرف روانہ ہو ، ہرقل کے قسطنطینہ کی طرف روانہ ہونے کی تاریخ میںا ختلاف ہے ، ابن اسحاق نے کہا ہے یہ ۱۵ھء میںتھا اور سیف نے کہا ہے کہ ۱۶ ھء میں تھا ۵اور ان ہی اختلافات کو ابن کثیر نے اپنی تاریخ میںبیان کیا ہے ۶اور بلاذری نے بھی ابن اسحاق کے نظریہ کو فتح البلدان میں ذکر کیا ہے ۷
------------------
۱۔ تاریخ ابن عساکر ج، ۱/ ۱۵۹۔
۲۔ فحل شام میں ایک جگہ کا نام ہے جہاں پر مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان مڈ بھیڑ ہوئی تھی ۔
۳۔ تاریخ ابن کثیر ، ج۷ ص ۴۵۔
۴۔ فتوح البلدان، ۱۲۱ ۔
۵۔ تاریخ طبری، ج ۳ ص ۹۹۔
۶۔ تاریخ ابن اکثیر ،ج ۷ ص ۵۳۔
۷۔ فتوح البلدان ،ص ۱۴۳۔
من جملہ تحریفات میں ایک فتح بیت المقدس ہے ، طبری نے اپنی تاریخ میں بیت المقدس کی فتح کی کیفیت کو سیف سے نقل کیا ہے اور عمر اور بیت المقدس کے باشندوں کے درمیان واقع ہوئی صلح کی عبارت کو لکھا ہے اس میں ذکر کرتا ہے کہ صلح نامہ کے آخر میں یوں آیا ہے : و کتب و حضر سنة۱۵ ۱
ابن کثیر نے اپنی تاریخ کی ج، ۸ ص ۵۷ میں سیف کی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے : سیف بن عمر نے یوں کہا ہے جبکہ دوسرے مؤرخین و دانشوروںکا عقیدہ یہہے کہ بیت المقدس ۱۶ھء میں فتح ہو ا ہے ۲اس کے بعد مؤرخین کی ان روایتوں کو بیان کیا ہے جن سے سیف کی معین کردہ تاریخ سے اختلاف معلوم ہوتا ہے اور بلاذری نے اپنے طریقہ پر روایت کی ہے کہ یہ واقعہ ۱۶ ۔ ۱۷ میں رونما ہو ا ہے ، من جملہ وہ فتوحات ہیں جو الجزیزہ میں رونما ہوئی ہیں ۳
طبری نے اپنی تاریخ میں کہاہے: اور بقول سیف الجزیزہ ۱۷ ھء میں فتح ہوا ۔
لیکن ابن اسحاق کہتا ہے کہا الجزیرہ ۱۹ھء میں فتح ہوا اور اسی اختلاف کو ابن کثیر نے اپنی تاریخ میںا ور حموی نے معجم البلدان میں ذکر کیا ہے ، بلاذری نے فتوح البلدان میں ابن اسحاق کی روایت کی تائید کی ہے ۴اور فتح جزیرہ کو ۱۹ھء میں اور اس کے بعد جاناہے ۔
من جملہ اس میں عمو اس کا طاعون ہے ، طبری کہتا ہے حقیقت میں عمو اس میں طاعون پھیلنے کی خبر اور یہ کہ یہ کس سال میں واقع ہوا ، اس میں اختلاف ہے ۔
-----------------
۱۔ تاریخ طبری، ج ۳/ ۱۰۳۔
۲۔تاریخ ابن کثیر ، ج ۸ ص ۵۷۔
۳۔ فتوح البلدان ، ص ۱۳۵ ۔ ۱۴۶۔
۴۔ فتوح البلدان ، ص ۱۷۶ ۔ ۱۸۴۔
ابن اسحاق کہتا ہے : اس کے بعد ۱۸ ھء میں پہنچا کہ اسی سال عمواس میں طاعون پھیلا تھا ۱اس کے بعد اس قول کے قائل افراد کی روایتوں کو نقل کرتے ہوئے کہتا ہے : لیکن سیف : نے دعویٰ کیا ہے کہ عمواس کا طاعون ۱۷ ھء میںپھیلا تھا۔
ابن کثیر نے اس روایت کو تفصیل سے نقل کیا ہے اور سیف کی غلطی کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہتا ہے : محمد ابن اسحق، ابو معشر اور دوسرے متعدد افراد نے سیف سے اختلاف کیا ہے اور کہاہے کہ یہ واقعہ ۱۸ ھ ء میں پیش آیا تھا ۲
بلاذری نے بھی فتوح البلدان میں روایت کی ہے عمواس کا طاعون ۱۸ ھء میں پھیلاتھا ۳
دوسری تحریفات میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان واقع ہوئی نبردا آزمائی ہے ، طبری کہتا ہے : سیف نے کہا ہے کہ یہ ۱۵ ھء میں واقع ہوئی ہے اور ابن اسحق و اقدی نے کہا ہے کہ ۱۶ ھ ء میں واقع ہوئی ہے اور ابن کثیر نے اسی اختلاف کو اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے ۴
اس کی دوسری تحریفات میں خراسان کی جنگ ہے طبری ۵
نے سیف سے نقل کیا ہے کہ خراسان کی جنگ ۱۸ھء میں واقع ہوئی ہے اور دوسروں نے کہا ہے کہ یہ
-------------------
۱۔ تاریخ طبری ،ج ۳/ ۱۶۱۔
۲۔ تاریخ طبری ،ج ۳ ص ۱۶۳۔
۳۔ فتوح البلدان، ص ۱۲۶۔
۴۔ تاریخ ابن کثیر ،ج ۷ ص ۶۰۔
۵۔ تاریخ طبری ، ج ۳ ص ۲۴۴ اور۔تاریخ ابن کثیر ،ج ۷ ص ۱۲۶
جنگ ۲۲ھء میں واقع ہوئی ہے ۔
طبرستان کی جنگ کے بارے میں بھی سیف نے تحریف کی ہے واقدی ، ابو معشر اور مدائنی نے روایت کی ہے کہ اس جنگ کو سعد بن عاص نے ۳۰ ھء میںلڑا ہے اور وہ پہلا آدمی ہے جس نے طبرستان کی جنگ شروع کی ہے لیکن سیف کہتا ہے : ۳۰ ھء سے پہلے سوید بن مقرن نے قضیہ کو صلح کرکے خاتمہ دے دیا اس سلسلہ میں تاریخ طبری ۱اور ابن کثیر ۲ اور بلاذری ۳کی فتوح البلدان کی طرف رجوع کیا جائے ۔
یہ تھا تاریخ کی سالوں اور دسیوں دوسرے واقعات کے بارے سیف کی اداکاریوں کا ایک خلاصہ کہ سیف نے وقائع اسلام کی تاریخوں کے بارے میں حقیقت کے برخلاف بیان کیا ہے۔
----------------
۱۔ تاریخ طبری ،ج ۳ ص ۳۲۳ ۔
۲۔ تاریخ ابن کثیر ،ج ۷ ص ۱۵۴ ۔
۳۔ فتوح البلدان ،ج ۷ ص ۳۴۲ا۔
|