سیف کے خیالی شہر
نَثرالحمويّ کتاب سیف فی کتابہ معجم البلدان
حموی نے سیف کی کتاب کو (اس کے خیالی شہروں کی وجہ سے)اپنی کتاب معجم البلدان میں درج کیا ہے۔ اور دوسروں نے بھی اس کی پیروی کی ہے۔
(موئف)
معجم البلدان اور دوسرے جغرافیہ دانوں کا اہم مآخذ:
محققین کے لئے یہ امر پوشیدہ نہیں ہے کہ یاقوت حموی نادر و نایاب قضیے اور اشعار نقل کرنے میں عجیب دلچسپی رکھتا ہے، جس قدر اس نے اس طرح کے قضیے واشعار کو شہروں کی تشریح میں درج کیا ہے دوسری کتابوں میںویسے نہیں ملتا۔ گویا یاقوت حموی نے اپنے اس تصور کو سیف کی داستانوں میں پایا ہے لہذا اس نے اسی طرح سیف کے مطالب کو اپنی کتاب معجم البلدان میںپیش کردیاہے، لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے ایسی جگہوں کی تشریح کی ہے کہ جو سیف کے افسانوں کے دائرہ سے باہر نہیں ہیں ۔ جس طرح اس نے ”جبار“ ،” جعرانہ“،” شرجہ“ و”صہید“ کے بارے میں تشریح کی ہے، اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیف کی کتاب کا ابن خاضبہ کے ہاتھ لکھا ہوا ایک نسخہ اس کے پاس موجود تھا۔
ظاہر اًاس کتاب کے حاشیہ میں ابوبکر بن سیف کے بارے میں ایک تحقیقات لکھی گئی ہے،ابن خاضبہ ، وہی ابوبکر محمد بن احمد بن عبدالباقی بغدادی حافظ۱ ہے کہ ابو بکر خطیب اور دوسروں سے روایت کرتا ہے، اس نے ماہ ربیع الاول ۴۸۹ئھ میں وفات پائی ہے۲ اور ابوبکر بن سیف یا ابوبکر بن احمد بن سیف جصینی ہے کہ سمعانی وحموی نے مادہٴ جصینی میں انساب ومعجم البلدان میں اس کی تشریح کی ہے، یا ابو بکر احمد بن عبداللہ بن سیف بن سعدسبحستانی ہے کہ اس کانام ابن عساکر کی روایتوں کے اسناد میں آتا ہے اور خاص کر ابن عساکر نے سیف سے جو بھی روایت نقل کی ہے، اس کی سند میں اس کا نام لیا گیا ہے۔ اور ابن ندیم نے اپنی کتاب الفہرست میں اس کی تشریح کی ہے۔
حموی نے جن روایتوں کو نقل کیا ہے، انہیں تاریخ طبری میں بھی پایا جاتا ہے،اور بعض اوقات حموی ایسی چیزوں کو نقل کرتا ہے کہ طبری نے انہیں نقل نہیں کیا ہے، چنانچہ طبری نے بھی بعض روایتیں نقل کی ہیں، جن کو حموی نے نقل نہیں کیا ہے، ان دو بزرگواروں نے اس چشمہ سے جو بھی اپنے ذائقہ کے مطابق شریں پایا ہے اس سے استفادہ کیا ہے، اور فرق صرف یہ ہے کہ طبری سیف کی روایتوں کو پے در پے نقل کرتا ہے جو وہ سیف کی مجموعی داستان کو تشکیل دیتی ہیں اور عمومی طور پر جوسیف نے مآخذ اپنی داستانوں کے لئے جعل کئے ہیں ان سب کو نقل کرتا ہے۔
---------------
۱۔حافظ اس شخص کو کہتے ہیں، جس نے ایک لاکھ احادیث حفظ کی ہوں۔
۲۔تاریخ کامل طبع لیڈن۱۰/۱۷۸ورشذرات، ۲۸۹ئھ کے حوادث میں، لسان المیزان ج۶/۵۷اورج۶/۴۷۹
لیکن حموی سیف کی داستانوں کے اشعار اور عجیب وغریب مطالب میں سے جو کچھ ہے انہیں چن کر نقل کرتا ہے اور بعض اوقات چن لئے گئے مطالب کو سیف کی طرف نسبت دئے بغیر اور سند کا ذکر کئے بغیر نقل کرتا ہے۔
سیف کے خیالی شہروں کے چند نمونے:
جیسا کہ ہم نے کہا حموی نے اپنی کتاب معجم البلدان میں جو بعض شہروں اور زمینوں کے ماخذ ذکر کئے ہیں، وہ سیف کی روایتیں ہیں، ہم یہاں پر سیف کے ان خیالی شہروں اور اماکن کے نمونے شاہد کے طور پر پیش کرتے ہیں جنہیں حموی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے:
۱۔دلوث:
حموی اس کلمہ کی تشریح میں کہتا ہے:سیف قبیلہ عبد قیس کے صحارنامی ایک شخص سے نقل کرتا ہے:ہر مزان کی جنگ کے دنوں جو اہواز کے اطراف میں واقع ہوئی ، یہ علاقہ دلوث و دجیل کے درمیان واقع ہے، میں ھرم بن حیان کے پاس گیا اور اس کے لئے خرمے کی چند زنبیلیں ساتھ لے گیا۔ (قدمت علی ھدم بن حیان)تاآخر
اور طبری اسی داستان کو اپنی سند اور سیف سے ۱۳ئھ کے حوادث میں جملہ ” بجلال من تمر“ تک نقل کرتا ہے ۔ اس کے بعد جو کچھ حموی نے نقل کیا ہے، طبری نے اسے نقل نہیں کیا ہے۔
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف کی روایتوں کو نقل کرنے میں حموی کا مآخذ تاریخ طبری نہیں تھا، بلکہ اس کے پاس خود سیف کی کتاب موجود تھی اور وہ اس سے نقل کرتا تھا۔
۲۔طاووس:
حموی نے جوروایتیں سیف سے نقل کی ہیں ، ان میں طاوؤس کی تشریح کی ہے۔ اور کہتا ہے:طاووس فارس کے اطراف میں ایک جگہ کا نام ہے، سیف نے کہا ہے:علاء بن حضرمی نے سمندر کے راستے ایک فوج وہاں بھیجی اور یہ کام عمر کی اجازت کے بغیر انجام پایا۔
یاقوت حموی نے اس پوری داستان کو، جسے طبری نے اپنی سند سے ۱۷ء کے حوادث میں سیف سے نقل کیا ہے ، اس پر خلید بن منذر کا ایک شعر بھی اضافہ کیا ہے، لیکن طبری نے اس شعر کو نقل نہیں کیا ہے۔
۳و ۴، جعرانہ ونعمان:
یاقوت حموی نے جعرانہ اورنعمان جو حجاز میں واقع ہیں، سیف کے کہنے پر استناد کر کے ان دونوں جگہوں کو عراق کی سرزمین شمار کیا ہے اور یہاں پر خاص کر سیف کا نام لیا ہے۔
اس طرح حموی نے سیف کی داستانوں میں نام لئے گئے دس سے زیادہ شہروں اور محلوں کی تشریح کی ہے یا ان کی تشریح کو سیف کی داستانوں سے استخراج کرکے سیف کا نام ذکر کیا ہے، جیسے حمقتین،لیکن وہ جگہیں جن کی اصل یا تشریح کو سیف کی داستانوں سے نقل کیا گیا ہے اور اس میںسیف کا نام نہیں لیا گیا ہے، بہت ہیں، جیسے:
۵۔قردودہ:
یاقوت حموی قردود کی تشریح میں یوں کہتا ہے:جب طلحہ نے پیغمبری کا دعویٰ کیا تووہ شمیراء میں داخل ہوا، تمامہ بن اوس بن لام طائی نے کسی کو اس کے پاس یہ پیغام لے کر بھیجا کہ قبیلہ جذیلہ کے پانچ سوافراد میرے ساتھ ہیں اگر آپ کے لئے کوئی مشکل پیش آئی تو ہم قردودہ اور آنسر میں ریگستان کے نزدیک ہوں گے۔
طبری نے اسی روایت کو اپنی سند سے ۱۱ھ ئمیں اہل غطفان کے ارتداد کے سلسلہ میں سیف سے نقل کیا ہے۔ اور یہی روایت حموی کی مورداعتماد قرار پائی ہے اور اس نے قردودہ کی تشریح کی ہے۔
ابن جحر نے بھی اسی روایت پر اعتماد کیا ہے، جہاں پر اس نے رسول اللہ کے صحابہ کی تشریح کے ضمن میں ثمامہ کی تشریح کی ہے جبکہ ہم نے ثمامہ اور قردودہ کے بارے میں سیف کے علاوہ کہیں کوئی نشان نہیں پائی
۶۔نہراط:
چونکہ حموی نے سیف کی بعض روایتوں کو سیف کا نام لئے بغیر اپنی کتاب میں درج کیا ہے، لہذا بعض اوقات قارئین شک وشبہہ میں پڑکر خیال کرتے ہیں کہ تشریح کی عبارت خود حموی کی ہے۔ مثال کے طور پر نہراط کی تشریح میں کہتا ہے جب خالد بن ولید نے حیرہ اور اس کے اطراف میں تسلط جمایااور اپنے کارندوں کو اس کے اطراف میں بھیجا من جملہ قبیلہ بنی تمیم کے ابواط کے فرزند ”اط“ نامی ایک شخص کو دور قستان بھیجا، جب وہ اس جگہ پر پہنچا ، تو اس نے ایک ندی کے کنارے پر پڑاؤ ڈالا، لہذا وہ ندی آج تک اس کے نام پر نہراط کے عنوان سے مشہور ہے۔
طبری نے اسی روایت کو ۱۲ ئھ کے حوادث کے ضمن میں حیرہ کے اخبار کے بعد یوں نقل کیا ہے:خالد بن ولید نے اپنے افراد اور کارندوں کو بھیجا، یہاں تک کہتا ہے:اور اط ابن ابو اط کو ”بروز مستان“ بھیجا، اس نے ایک ندی کے کنارے پر ایک جگہ پر پڑاؤ ڈالا اور اس جگہ کا نام بعد میں اسی کے نام سے مشہور ہوا اور آج تک ”نہراط“ کے نام سے مشہور ہے۔” اط“ قبیلہ سعد بن زید بن مناة سے تعلق رکھتا تھا۔
ابنحجر نے الاصابہ میں اسی روایت پر اعتماد کرکے اط بن اط کی تشریح میں لکھتا ہے: اط بن ابواط قبیلہ سعد بن بکر کا ایک فرد ہے کہ ابو بکر کے زمانہ میں خالد بن ولید کا دوست تھا اور خالد نے اسے ٹیکس جمع کرنے کے لئے اسی علاقہ میں ڈیوٹی دی تھی۔ اسی لئے وہاں پر موجود ایک ندی اسی کے نام سے مشہور ہوئی ہے۔
۷،۸ ،اور ۹۔ارماث، اغواث اور عماس:
حموی نے ان تین جگہوں کے نام کو سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب معجم البلدان میں ذکر کیا ہے، طبری نے بھی جنگ قادسیہ کی داستان کی تفصیل کو اپنی سند سے سیف سے نقل کیا ہے کہ ہم نے ایام سیف نامی فصل میں اسے بیان کیا۔
۱۰۔ ثنی:
طبری نے داستان ” ثنی“ کو اپنی سند سے سیف سے نقل کرکے ۱۲ ھء کے حوادث کے ضمن میں اپنی کتاب کی ج ،۱/ ص ۲۰۲۶ اور ص ۲۰۳۰ میں نقل کیا ہے ۔
۱۱ ۔ ثنیہ رکاب:
اس کو بھی طبری نے اسی طریقہ سے ج ،۱/ ص ۲۰۲۶ ۔ ۲۰۲۰ میں ۱۲ ھ ء کے حوادث کے ضمن میں نقل کیا ہے ۔
۱۲۔ قدیس:
طبری نے مذکورہ طریقے سے جنگ قادسیہ کے بیان میں اسے ج ،۱/ ۲۲۳۰ و ۲۲۳۳ و ۲۲۴۳، ۲۲۵، ۲۲۸۸، ۲۲۹۴، ۲۳۲۶ و۲۳۲۸ میں نقل کیا ہے ۔
۱۳۔ مقر:
اس کو بھی طبری نے ۱۲ ھء کے حوادث میں ج ،۱/ ۲۰۳۷ و ۲۰۳۸ میں نقل کیا ہے۔
۱۴۔ وایہ خرد:
سیف کے خیالی اماکن میں ” وایہ خرد “ بھی ہے کہ طبری نے ج ،۴ ص ۲۴۲ طبع اول مصر میں خلاصہ کے طور پر نقل کیا ہے ۔
15۔ ولجہ:
سیف کے خیالی اماکن میں ” ولجہ “بھی ہے یہ سرزمین کسکر میں واقع ہے اور طبری نے اسے ۲۱ ھء جنگ نہاوند میں بیان کیا ہے ۔ ج، ۱/ ۲۶۱۸ و ۲۶۲۵ ۔
۱۶۔ ھوافی:
سیف کے خیالی اماکن میں سے ایک ’ ’ ھوافی“ ہے اسے بھی طبری نے ۱۳ ئھ کے حوادث میں ج ،۱/ ۲۱۶۹ میں نقل کیا ہے ۔
جغرافیہ کی کتابیں اور سیف کے خیالی شہر
یہ، اور ان جیسے بہت سے شہر اور اماکن کو حموی نے سیف کی داستانوں پر اعتماد کرکے اپنی کتاب ” معجم البلدان“ میں نقل کیا ہے جبکہ شہروں کے بارے میں لکھی گئی دوسری کتابوں میں سیف کی روایتوں پر اعتماد نہیں کیا گیا ہے اور ان شہروں اور اماکن کے نام تک نہیں لئے گئے ہیں ، جیسے مندرجہ ذیل کتابیں :
۱۔ ”صفہ جزیرة العرب“ تالیف ابو محمد حسن بن احمد بن یعقوب بن یوسف بن داؤد معروف بہ ابن حائک ( وفات ۳۳۴ئھ )
۲۔ فتوح البلدان ۔ تالیف بلاذری
۳۔ مختصر البلدان ، تالیف ابو بکر احمد بن محمد ہمدانی معروف بہ ابن الفقیہ جو تیسری صدی ہجری کے اواخر کے دانشوروں میں شمار ہوتے تھے ۔
۴۔ الآثار الباقیة عن القرون الخالیة : تالیف ابو ریحان محمد بن احمد بیرونی خوارزمی وفات ۴۴۰ئھ ،
۵۔ معجم مااستعجم تالیف ابی عبدا للہ بن عبدا لعزیز بن مصعب بکری وزیر ، وفات ۴۷۸ئھ
۶۔ تقویم البلدان : تالیف اسماعیل صاحب حماة ، وفات ۴۳۲ ئھ
اس کے علاوہ متاخرین میں سے دو شخصیتوں نے حموی پر اعتماد نہیں کیا ہے اور ان شہروں کی اپنی کتابوں میں تشریح نہیں کی ہے ۔
۱۔ مستشرق لسٹرنج نے اپنی کتاب ” بلدان الخلافة الشرقیہ “ میں
۲۔ عمر رضا کحالہ نے اپنی کتاب ” جغرافیای شبہ جزیرہ ٴ عربستان “
|