عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
 
سیف کے خود ساختہ اور خیالی ایام
إنَّ سیفاً قد تفرّد فی سرد ھذہ القصص
سیف ان ایام وحوادث کو نقل کرنے میں منفرد ہے۔

ایام کے معنی:
عربی لغت میں لفظ ”ایام“مشہور اور کثیر الاستعمال ہے، ایام یوم کی جمع ہے اور تاریخ کے اہم واقعات کو بھی یوم کہتے ہیں اگرچہ اس تاریخی واقعہ کازمانہ ایک دن سے زیادہ بھی ہو، جیسے یوم الجمل، یوم صفّین، یوم سقیفہ اور یوم صلح الحدبیہ، دوران جاہلیت یا اسلام میں یا جاہلیت واسلام میں ان ایام کے واقعات کی تشریح میں کتابوں کو ایک سلسلہ سے تالیف کیا گیا ہے، سیف اس باب میں بھی پیچھے نہیں رہا ہے اور اس نے خود ایام جعل کرکے تاریخ کی کتابوں میں درج کردیاہے، ہم یہاں پر ایسے ایام میں سے چھ دنوں کو نمونہ کے طور پر نقل کرتے ہیں:
یوم الاٴباقر(گائے کا دن)
طبری نے سیف سے روایت کی ہے:
”سعدبن ابی وقاص نے ایرانیوں سے جنگ میں عذیب الھجانات“نامی ایک پانی کے کنارے پر پڑاؤ ڈالا“،اس کے بعد اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے باقی روایت کو یوں بیان کرتا ہے:”سعد نے اس جگہ پر اپنے قیام کے دوران عاصم بن عمرو کو حکم دیا تاکہ فرات کے نیچے کی طرف جائے، عاصم روانہ ہوا اور میسان تکپہنچا۔ یہاں پر چاہا ایک گائے یا بھیڑ فراہم کرے، لیکن پیدانہ کرسکا، کیونکہ سب نے ڈرکے مارے کھیتوں میں پناہ لی تھی، یہاں تک عاصم بن عمرو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مرغزاروں(چراگاہ)میں تلاش وجستجو کرنے نکلا۔ گشت لگانے کے دوران عاصم کو ایک کچھا رکے کنارے ایک شخص ملا، اس سے سوال کیا ،تاکہ وہ اسے گائے یا گوسفندوں کی جگہ کی طرف راہنمائی کرے، اس مرد نے قسم کھاکر کہا:مجھے اس قسم کی کسی جگہ کا علم نہیں ہے، جبکہ وہ خود ایک گلہ کا چرواہا تھا جیسے اس نے اسی کھاڑی میں چھپاکے رکھاتھا۔ اسی اثناء میں ایک گائے نے مرغزار سے آواز بلند کرکے کہا:”کَذب واللّٰہ وھانحن اٴولاء “ خدا کی قسم یہ شخص جھوٹ بولتا ہے، ہم یہاں پر موجود ہیں،عاصم کچھا رمیں داخل ہوا اور جتنی بھی گائے وہاں پر موجود تھیں،انہیں اپنے آگے آگے ہانکتے ہوئے لشکر گاہ کی طرف لے آیا، سعد نے ان کو اپنے درمیان تقسیم کیا اور کچھ دن آرام وآسائش میں گزارے، یہ خبر حجاج کے زمانے میں اس تک پہنچی اس نے اس روز اس قضیہ کے شاہد چند افراد من جملہ نذیربن عبد شمس اور زاہر کو بلایا اور ان سے رودادپوچھی۔ انہوں نے کہا:جی ہاں ،ہم نے سنا اور دیکھا بلکہ ہم نے خود اُن گائے کو اپنے آگے آگے ہانکتے ہوئے لشکرگاہ تاک لائے۔ حجاج نے کہا:تم لوگ جھوٹ بولتے ہو!۱
انہوں نے کہا:تمہیں یہ کہنے کا حق ہے۔ اگر تم اس دن ہماری جگہ پر ہوتے، اور آج ہمارے لئے اُس روداد کو نقل کرتے تو ہم بھی باورنہیں کرتے۔
اس نے کہا :صحیح کہتے ہو، اب ذرایہ تباؤ کہ لوگ اس واقعہ کے بارے میں کیا کہتے تھے؟
انہوں نے کہا:لوگ یوں سمجھتے تھے کہ یہ آیات الٰہی میں سے ایک آیت ہے جو لوگوں کو خدا کی خوشنودی اور رضامندی اور دشمن پر فتح وکامرانی کی نوید دیتی ہے۔
حجاج نے کہا:خدا کی قسم!ایسا اتفاق کبھی پیش نہیں آتا مگر یہ کہ وہ جماعت نیک تھی یہاں تک کہتا ہے اس دن کو گائے کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔

روایت کی سند کی تحقیق:
”یوم الاباقر“نامی افسانہ کی سند میں عبداللہ بن مسلم عکلی اور کرب بن ابی کرب عکلی کانام آیا ہے ہم نے ان دو،راویوں کا سیف کے راویوں کی طرح علم رجال کی کتابوں میں بھی نام ونشان نہیں پایا۔ لہذا حق ہے کہ ا ن دو راویوں کو بھی سیف کے جعلی راوی میں شمار کریں۔۲
-----------------
۱۔عاصم، سیف کے افسانوں کا سوماہے۔
۲۔تاریخ طبری ج۳ ۱۲-۱۵ وان ھذالیوم یوم الاباقر۔

یہ تھی سیف کی روایت کی سند لیکن اصل داستان یوم الاباقر کے بارے میں ہم نے کسی کو نہیں پایا جس نے اس دن کا ذکر کیا ہو، لیکن بلاذری فتوح البلدان میں یوں کہتا ہے:
اگر سعد کا لشکر کبھی آزوقہ کا محتاج ہوتا،تو وہ چند سواروں کو حکم دیتا تھا کہ فرات کے نیچے کی طرف جاکر لوٹ کر آزوقہ لے آئیں اس کے علاوہ حضرت عمر ان کے لئے مدینہ سے گائے اور گوسفند بھیجتے تھے۱۔
دوسرے لوگوں نے جو کچھ اس بارے میں کہا ہے بس یہی ہے، لیکن سیف نے اپنی روایت کی سند جعل کرنے کیلئے ، عاصم نام کے سورما کو اس افسانہ کے گڑھنے کیلئے اور گائے کی سعد کے لشکر کے ساتھ گفتگو کا افسانہ رچنےکے بعد ڈر گیا کہ کہیں اس کی تائید نہ ہوجائے، لہذا دوسرے جھوٹ سے اسے مستحکم اور مضبوط بنادیا رچنے وہ یہ کہ حجاج نے اس قضیہ کے بارے میں تحقیق کی ہے، ایک جماعت نے شہادت دی ہے، پھر بھی اسے مستحکم بنانے کیلئے ایک تیسرا جھوٹ گڑھ لیا ہے وہ یہ کہ:اس دن کو یوم الاباقر نام رکھا گیا۔ یہ سب قضیہ و داستان کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لئے ہے تاکہ کوئی اس کی روایت پر شک نہ کرے، اور ہم ہمیشہ اس بات کی تاکید اور تکرار کرتے رہے ہیں کہ سیف اس قسم کی توہماتی داستانیں گڑھنے میں منفرد ہے، اور یہ تاکید و تکرار اس لئے کرتے ہیں تاکہ اس افسانہ ساز، کی حقیقت تمام لوگوں پر کھل جائے۔

۲۔۳ اور ۴-ارماث ، اغواث اور عماس کا دن:
سرزمین قادسیہ، یعنی موجودہ کوفہ کے نزدیک لشکر اسلام اور یزد گرد کی فوج کے درمیان گھمسان کی جنگ چھڑگئی، سیف نے اس جنگ کی روداد کو افسانوی انداز میں اپنی روایتوں میں ذکر یوںکیا ہے، من جملہ اس جنگ کے پہلے دن کو ارماث دوسرے دن کو اغواث اور تیسرے دن کو عماس نام دیا ہے، اپنےجعل کئے گئے ان تین دنوں کے دوران خود سیف نے اپنے خاندان بنی تمیم سے تعلق رکھنے والے، قعقاع اور عاصم نامی دوہیرو کو شجاعت وبہادری کے حیرت انگیز کارنامے کیلئے گڑھ لئے ہیں۔
سیف نے ان افسانوں کو گڑھنے کے بعد انہیں تاریخی روایت کی صورت دیدی ہے حتیٰ اپنی روایت کے راویوں کو بھی خلق کرکے حدثنی فلان عن فلان کہا ہے، طبری جیسے مورخین نے اپنی تاریخ میں اس افسانہ کو سیف سے نقل کیا ہے اس طرح حموی نے بھی لغت ارماث، اغواث اور عماس کومعجم البلدان میں اس سے اقتباس کیا ہے۔
دوسرے تاریخ نویسوں جیسے ابن اثیر اور ابن کثیر نے طبری سے نقلکیا ہے، مشہورادیب ابن عبدون نے افسانہ اغواث کو اپنے قصیدہ میں ذکر کیا ہے اور ابن بدران نے اپنے ایک قصیدہ میں سیف کی جعلی روایتوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، قلشقندی (وفات ۸۲۱ھ)نے انہیں تاریخ اسلام کے ایام کی حیثیت سے ذکر کیا ہے،ہم نے ان تین دنوں کے بارے میں سیف کی جعلی روایتوں کو قعقاع اور عاصم کے حالات پر روشنی ڈال کر ایک سو پچاس جعلی اصحاب نامی اپنی کتاب میں مفصل چھان بین کی ہے، یہاں پر ہم صرف ان روایتوں کی سند کی تحقیق کریں گے۔۱
------------------
۱۔طبری ج ۲/۱۱۲-۱۱۶،ابن عبدون طبع لیڈن ۱۴-۱۴۶۔نہایت الارب قلشقندی تحقیق علی خاقانی طبع عراق ۴۲۰-کتاب الاکمال تالیف ابن ماکولا،طبع حیدرآباد ج ا /۵۶۰ لغت نویرہ میں۔

اسنادروایت کی چھان بین:
چھ روایتوں میں محمد ، طلحہ اور زیادنام کثرت سے آیا ہے اور ایک روایت میں ابن محراق قبیلہ طی کے ایک شخص سے اور ایک روایت میں غصن بن قاسم قبیلہ کنانہ کے ایک شخص سے ۔
محمدوطلحہ کے بارے میں زیاد کے نسل کی اصلاح کے باب میں اور ابن محراق اور قبیلہ طیکے شخص کے بارے میں ابو محجن کی شراب نوشی کے باب میں ہم نے تحقیقکی ہے، لیکن غصن بن قاسم کا نام طبری کی روایت کی سند نمبر ۱۳ میں آیا ہے، یہاں پر ہم اس سوال کا حق رکھتے ہیں کہ کنانہ نام کا مجہولشخص کون ہے؟

۵۔ یوم الجراثیم یا خشکی کا دن:
طبری نے، ایرانیوں سے جنگ میں، سعد کے لشکر کے دریائے دجلہ سے عبور کرکے مدائن جانے کے سلسلے میں سیف سے پندرہ روایتیں نقل کی ہیں اور سیف کے کہنے کے مطابق اس دن کا نام یوم الجراثیم رکھا ہے، ہم ان روایتوں کے ایک حصہ کو یہاں پر نقل کرتے ہیں:
ایک روایت میں کہتا ہے:مسلمان فوج کے کمانڈر سعدوقاص، جب قادسیہ کی جنگ جوکوفہ کے نزدیک واقع ہوئی جنگ میں فتحیاب ہونے کے بعد مدائن کی طرف روانہ ہوئے۔ جب دجلہ کے نزدیک پہنچاتو دریا کا پانی کافی او نچاتھا،اس لئے کچھ دیر متحیررہا، اس کے بعد ایک تقریر کی اور کہا:آپ کے دشمن نے اس دریا میں پناہ لے لی ہے، اگر وہ چاہیں گے تو کشتیوں کے ذریعہ آپ پر حملہ کر سکتے ہیں۔ اور آپ کی ان تک کسی قسم کی رسائی نہیں ہے، مین نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دریامیں کود کر عبور کیا جائے۔ اس کے فوجیوں نے اس کی تائید کرکے حوصلہ افزائی کی۔
سعد نے کہا:سپاہیوں میں سے ایک دلاور مرد کی ضرورت ہے جو ایک گروہ کی سرپرستی میں دریا کو عبور کرے اور دجلہ کے دوسرے ساحل کو دشمن سے چھین لے تاکہ سپاہی پر امن طریقے سے دریا کو عبور کرسکیں، سپاہیوں میں سے عاصم نامی ایک دلیرمرد نے یہ ذمہ داری لی اور ساٹھ سواروں کے ہمراہ پانی میں کود پڑا اور خشکی وپانی میں ایرانیوں کے ساتھ ایک گھمسان کی جنگ لڑی اور ان پر فتح پاکر دجلہ کے دوسرے کنارے پر قبضہ کرلیا، اس کے بعد پورا لشکر پانی میں کود پڑا اور اس طرح دریا کو عبور کیا۔
ایک اور روایت میں کہتا ہے :سعد کے سپاہی دریا کی طوفانی لہروں پر سوار ہوئے جبکہ دریائے دجلہ طلاطم کی حالت میں تھا، سوار ایک دوسرے کے شانہ بشانہ تیرتے ہوئے آپس میں ایسے محو گفتگو تھے جیسے ایک ہموار زمین پر چل رہے تھے۔۱
ایک اور حدیث میں کہتا ہے:جب بھی کوئی گھوڑا تھک جاتا تھا تو اس کے سموں کے نیچے زمین کا ایک ٹکڑا اوپر آتا تھا اور گھوڑا اس پر کھڑا ہوکر ایسے تھکاوٹ نکالتا تھا، جیسے وہ خشک زمین پر کھڑا ہو،اس قسم کا عجیب اور حیرت انگیز واقعہ فتح مدائن کے دن رونما نہیں ہوا جو یوم الماء کے دن رونما ہوا، اس دن کو یوم الجراثیم کہتے تھے، (جراثیم یعنی مٹی کے ٹیلے)
-----------------
۱۔تاریخ طبری، ج ۲/ ۱۱۹-۱۲۴۔

سیف نے ان دوروایتوں کو دوسری روایتوں کے ذریعہ محکم اور مضبوط بنادیا ہے، اس میں کہتا ہے:کہا گیا ہے کہ دجلہ کو عبور کرنے کے دن کو اس لئے یوم الجراثیم کہتے تھے کہ اس دن اگر کوئی تھک جاتا تھا تو اس کے پیروں کے نیچے تھوڑی سی زمین (جرثومہ)اوپر آتی تھی تاکہ وہ اس پرتھکاوٹ دور کرے، دوسری روایت میں کہتا ہے:راوی نے کہا ہم دریائے دجلہ کے پانی میں کود پڑے جبکہ دریا پانی سے لبرینر تھا ۔ جب ہم دریا کے گہرے حصہ میں پہنچے ، جو بھی سوار وہاں پر کھڑا ہوتا ، پانی گھوڑے کی زین تک نہیں پہنچتا تھا۔
ایک دوسری روایت میں کہتا ہے:پورا لشکر صحیح وسالم دریا سے گزرا، حرف قبیلہ بارق کا غرقدہ نامی ایک شخص سرخ گھوڑے کی پیچھے سے پانی میںسر نگوں ہوا۔
راوی کہتا ہے:گویا ابھی بھی گھوڑے کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنی دم جھاڑ کر پانی نکال رہا ہے جبکہ غرق ہوا شخص پانی کے اوپر آیا تھا۔ اس حالت میں قعقاع نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی طرف کھینچا اور اسے بچا لیا۔ غرق ہونے والا شخص ایک دلیر آدمی تھا اور قعقاع کی ماں اس کے قبیلہ سے تھی۔ اس نے قعقاع سے مخاطب ہوکر کہا:دوسروں کی بہنیں ۔قبیلہ کی دوسری عورتیں، تجھ جیسے کو جنم نہیں دے سکی ہیں۱۔
یہ تھا یوم الجراثیم کے بارے میں سیف کی بعض روایتوں کا متن۔
---------------
۱۔ان روایتوں میں سے بعض کو ابو نعیم نے دلائل النبوہ نامی اپنی کتاب میں سیف سے نقل کرکے ان پر اعتماد کیا ہے اور انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی صداقت کی گواہی شمار کیا ہے۔

روایتوں کی سند کی چھان بین:
ان روایتوں کی سند میں محمد، طلحہ، مہلب ، نضر ، ابن رفیل اور ایک ناشناس شخص کا نام آیا ہے، ہم نے محمدوطلحہ کے بارے میں زیاد کی نسل کی اصلاح کے عنوان کے تحت تحقیقکی ہے۔
اما مہلب ، تو سیف کی روایتوں میں مہلب بن عقبہ اسدی ہے، کہ تاریخ طبری میں سیف کی ۶۷ روایتیں اس سے نقل ہوئی ہیں۱۔
ابن رفیل نے سیف کی روایتوں کو اکثر اپنے باپ رفیل سے نقل کیا ہے۔ ہم نے ان راویوں میں سے کسی ایک کا نام سند شناسی کی کتابوں میں نہیں پایا اور سیف کی روایتوں میں ناشناس اشخاص کی حالت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتیں:
یہ تھی سیف کی حدیث کی سندا ور اس کے متن کا حال یوم الجراثیم کے دن ،لیکن دوسرے حموی اپنی کتاب معجم البلدان میں کوفہ کی تشریح کے دوران سعد کے قادسیہ کے بعد مدائن جانے کے بارے میں لکھتے ہوئے یوں کہتا ہے:گاؤں والوں نے مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کی اور انہیں محاذ جنگ کے ضعیف علاقوںکی طرف راہنمائی کی۔ انہوں نے مسلمانوں کو کچھ تحفے دیکر ان کی ضرورتوں کو پورا کیا،
-----------------
۱۔اٴعجز اٴلاخوات اٴن یلدن مِثلک یا قعقاع،دلائل النبوہ ج ۲ میں ۲۰۸ طبع حیدرآباد۔

اس کے بعد سعد نے یزدگرد کی طرف جانے کا ارادہ کرکے مدائن کی طرف روانہ ہوا اور خالدبن عرفطہ۔ جو بنی زہر ہ قبیلہ اسد کا ہم پیمان تھا ۔ کو پہلے روانہ کیا، لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا، یہاں تک خالد نے چھت دار یعنی آبادی والے علاقہ کو فتح کیا لیکن اس کو فتح کرنے کے باوجود دریا کو عبور کرنے کا کوئی راستہ نہ پایا، دیہاتیوں نے انہیں قریہ صیادین کے نزدیک شہر کے نچلے حصے میں واقعہ مخاضہ کی طرف راہنمائی کی، سعد کے سوار اس طرف چلے گئے اور اسی جگہ سے دریا کو عبور کیا۱۔
بلاذری اپنی کتاب فتوح البلدان میں اس مطلب کے بعد کہتا ہے:ایرانیوں نے مسلمانوں پر تیراندازی کی اور قبیلہ طی کے سلیل بن یزید بن مالک سنبسی نامی ایک شخص کے علاوہ سب صحیح وسالم بچے اور کوئی ہلاک نہیں ہوا۔۲

تحقیق اور موازنہ کا نتیجہ:
سیف اس افسانہ میں کہتا ہے:پہلے عاصم نے دشمن کو شکست دی اور عبور کا راستہ نکالا اس کے بعد سپاہی پانی میں کود پڑے اور جب بھی کوئی گھوڑا تھک جاتا تھا، فوراً زمین کا ایک ٹکڑا دریا کی تہہ سے اٹھ کر اس کے سموں کے نیچے لگ جاتا تھا، ایک دوسری روایت میں کہتا ہے:اس دن کو اس لئے یوم الجراثیم کہتے ہیں کہ اس دن کوئی تھکتا نہیں تھا، اگر کوئی تھکتا تو فوراً زمین کا ایک ٹکڑا (جرثومہ)اس کے پیروں تلے اوپر آجاتا تھا تاکہ وہ اس پر تھکاوٹ دور کرے، اپنی آخری روایت میں کہتا ہے:غرقہ کے علاوہ سب صحیح
-----------------
۱۔مخاضہ : پانی کی اس جگہ کو کہتے جہاں سے پیادہ اور سوار گزرسکیں،
۲۔معجم البلدان، ج۷ ۲۹۶۔

وسالم گزرے ، قعقاع کی ماں اس کے قبیلہ سے تھی، غرقہ غرق ہوا، لیکن قعقاع نے اسے پکڑ کر صحیح وسالم باہر کھینچ لایا، اس نے کہا:اے قعقاع عورتیں تجھ جیسے کو جنم دینے سے عاجز ہیں۔ اس نے روایت کو مضبوط کرنے کے لئے راوی سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا:گویا میں اس وقت اس کے گھوڑے کو دیکھ رہا ہوں کہ اپنے جسم سے پانی جھاڑ رہا ہے۔ا
ہم یہ نہ سمجھ سکے کہ قعقاع کی والدہ کے رشتہ دار کے لئے کیوں زمین اوپر نہیں آئی تاکہ وہ غرق ہونے سے بچ جائے ، شاید یہ اس لئے تھا کہ سیف اپنے افسانہ کے سورما، قعقاع کے لئے ایک فضیلت گڑھ لے۔سیف کے افسانوں میں عاصم وقعقاع قبیلہ تمیم کے دو دلیر اور بہادربھائی میں جنہوں نے پیغمبر کو درک کیا ہے۔ ان کی تفصیل ایک سوپچاس جعلی اصحاب نامی کتاب کی پہلی جلد میں آچکی ہے۔
جب ہم سیف کی ان روایتوں کو دوسروں (حموی اور بلاذری)کی روایتوں سے مواز نہ کرتے ہیں، کہ انہوں نے کہا ہے:دیہاتیوں نے مسلمانوں کی راہنمائی کی اور انہیں عبور کا راستہ دکھا یا تاکہ اس راستہ سے پانی سے گزرجائیں، اس سے صاف ظاہر ہے کہ سیف نے تاریخ حوادث میں کافیحد تک جھوٹ ملادیا ہے۔

۶۔یوم النحیب:
یہ دن بھی ان ایام میں سے ہے کہ سیف نے تاریخ اور اسلام کے وقائع میں جعل کئے ہیں۔
---------------
۱۔فتوح البلدان ،ص ۲۷۲۔

اس کی تفصیل حسب ذیل ملاحظہ فرمائیں۔
طبری نے ۳۶ئھ کے حوادث میں سیف سے ، اس نے ابن الشہید سے اور اس نے ابن ابی ملیکہ سے وہ وروایت کرتا ہے کہ طلحہ وزبیر باہر نکلے اور چکر لگانے لگے پھر اس وقت عائشہ باہر آگئی اور اس کے پیچھے پیغمبر اسلام کی دوسری بیویاں بھی باہر آگئیں، یہاں تک یہ لوگ ذات عرق پہنچ گئے۔
اسلام کے لئے اس سے بدتر مصیبت کا دن کوئی دن نہیں تھا، اس دن کا نام یوم النحیب رکھا گیا۱۔
عائشہ نے عبدالرحمان بن عتاب۲ کو حکم دیا تاکہ وہ لوگوں کی امامت کرے تو اس نے بھی نماز کی ذمہ داری سنبھالی، اس کو امام جماعت کے طور پر معین کرنے کا کام ایک منصفانہ کا م تھا۔
ایک دوسری روایت میں سیف نے نقل کیا ہے کہ :عبدالرحمان راستے میں اور بصرہ میں لوگوں کو نماز پڑھاتا تھا، یہاں تک کہ قتل ہوا۔
سیف نے ان روایتوں کو طلحہ ، زبیر اور عائشہ کے جنگ جمل کے لئے مکہ سے بصرہ کی طرف روانہ ہونے کی خبر کی رپورٹ کے طور پر نقل کیا ہے کہ مجموعاً تین داستانوں کو بیان کیا ہے:
۱۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹیوں کے عائشہ کو ذات عرق تک رخصت کرنے کی خبر:
ہم نے اس خبر کے بارے میں کوئی مآخذ نہیں پایا، صرف ام سلمہ سے ایک روایت نقل کی گئی
-----------------
۱۔ذات عرق ، بخد اور نہامہ کے درمیان سرحد ہے۔ یہاں سے عراق حج کا احرام باندھتے ہیں۔
۲۔تاریخ طبری ج ۳۱۴، تاریخ ابن کثیر ۷۷ ، ۲۳۰

ہے یا اس سلسلے میں اس کا عائشہ کے نام لکھا گیا خط ہے۔ اور ام سلمہ کے عائشہ کے نام لکھے گئے خط کا متن یوں ہے:
جب عائشہ نے جنگ جمل کے لئے مکہ سے نکل کر بصرہ کی طرف روانہ ہونے کا فیصلہ کیا تو ام سلمیٰ نے یوں کہا:
اے عائشہ!تم رسول خدا اور امت کے درمیان ایک دہلیز کی حیثیت رکھتی ہو تیرا پردہ حریم پیغمبر پر لٹکا ہوا ہے۔ قرآن مجید نے تیرے دامن کو سمیٹا ہے تم اسے نہ پھیلاؤ خداوند عالم نے تجھے گھر میں بیٹھنے کا حکم دیا ہے، تم اپنے آپ کو صحرااوربیابان میں کھینچ کرنہ لاؤ۔ خدا اس امت کو اس منحوس کام کی انجام دھی سے بچائے:۱
رسول خدا تیری حیثیت کو جانتے تھے، اگر وہ چاہتے تو تجھے کوئی ذمہ داری (یعنی عثمان کی خون خواہی کے بارے میں )سونپتے، بلکہ اس کے برخلاف تجھے سیر وسیاحت اور شہروں میں پیش قدمی کرنے سے منع فرمایا ہے!اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبر سے سراٹھا کر تجھے اس حالت میں دیکھیں کہ تم نے اپنے اونٹ کو اپنی جگہ سے کھینچ لیا ہے اور سرعت کے ساتھ گھومتی پھرتی ہوئی ایک بیابان سے دوسرے میں گزرتی ہوئی دور دراز علاقوں تک پہنچ گئی ہو، تو تم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کیا جوا ب دوگی؟
بہرحال تم کوخدا کے حضور میں اور اسی کی طرف پلٹنا ہے، رسول خدا کے حضورمیں پیش کی جاؤ
-----------------
۱۔عبدالرحمان بن عتاب بن سید بن ابی العیص بن عبدشمس جنگ جمل میں عائشہ کے لشکر میں قتل ہوا،تاریخ طبری ج ۱ ۳۲۳و ۳۱۴۔

گی۔ اگر مجھے اس حالت میں بہشت برین میں داخل ہونے کو کہاجائے جب کہ میں نے رسول خدا کے حکم کی خلاف ورزی کی ہو اور خدا کی طرف سے مجھ پر مقرر کئے گئے احکام نیزآنحضرت کے پردہ حرمت کو تارتار کیا ہوتو مجھے شرم آئے گی، اے عائشہ! تم اپنے آپ پر کنٹرول کرو اور پردہ سے باہر نہ نکلو، اپنے گھر کی چوکھٹ کو اپنی آرام گاہ قرار دو تاکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشنودی اور رضا کے ساتھ ان سے ملاقات کرو۔
ایک اور روایت میں اس جملہ کے بعد اضافہ ہوا ہے:
اگر میں تمہیں وہ چیز بتادوں جو میں نے رسول خدا سے سنا ہے، تو تم سانپ کے ڈسے ہوئے کی طرح تڑپوگی۔ والسلام
عائشہ نے جواب دیا:اے ام سلمہ! تیرے پندونصائح کو قبول کرتی ہوں اور ان کی قدر وقیمت جانتی ہوں لیکن بات ویسی نہیں ہے جیسے کہ تم کہتی ہو میرے لئے بہتر موقع فراہم ہوا ہے تاکہ ایک دوسرے کے جان کے پیاسے دوگروہوں کے درمیان صلح کراؤں۔

۲۔سرزمین ذات عرق میں اجتماع کی خبر:
ایک دوسری روایت میں جسے طبری نے سیف کے علاوہ ایک دوسرے راوی سے بھی نقل کیا ہے یوں آیا ہے:
سعد بن عاص نے مروان بن حکم اور اس کے دوستوں سے ذات عرق میں ملاقات کی اور کہا:کہاں جارہے ہو، جنہوں نے عثمان کا خون بہایا ہے انہیں قتل کرڈالو اور اپنے گھر کی طرف چلے جاؤ اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۱
جواب دیا گیا:ہم جارہے ہیں تاکہ شاید عثمان کے تمام قاتلوں کو ایک ہی جگہ پر قتل کرسکیں۔
اس کے بعد طلحہ وزبیر کو مخفیانہ طور پر دیکھا اور انہیں کہا:
اگر تم لوگ کامیاب ہوئے تو حکومت کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میںدوگے؟
انہوں نے جواب دیا:ہم دوآدمیوں میں سے جس کسی کوبھی لوگ منتخب کرلیں۔
-----------------
۱۔بلاغات النساء ،۸ ح ا ۲۹۰،العقد الفرید ج۳ ۶۹---،شرح ابن ابی الحدید، ج۲ ۷۱، تاریخ یعقوبی ج۲/ ۱۸۔

سعد بن عاص بن امیہ، اس کی ماں ام کلثوم بنت عمرو مریہ تھی، حضرت علی نے جنگ بدر کے دن اس کے باپ کو قتل کیا تھا، سعید قریش کے بزرگوں میں سے تھا یہ ان لوگوں میں سے ایک تھا جس نے عثمان کے لئے قرآن مجید لکھا تھا، عثمان نے اسے ولید کے بعد کوفہ کا حاکم مقرر کیا، عثمان کی وفات کے بعد اس نے جنگوں سے کنارہ کشی کی۔ معاویہ نے اپنی حکومت کے دوران مروان کو معزول کرنے کے بعد اسے مدینہ کا حاکم معین کیا۔ کچھ مدت کے بعد اسے معزول کرکے پھر مروان کو مدینہ کا حاکم مقرر کردیا۔ تاکہ اس کے ذریعہ ان دو کے درمیان دشمنی ایجاد کرے(اسدالغابہ ۲/۳۰۹)
اس روایت میں سعید اموی نے تمام خاندان بنی امیہ کے اس لشکر میں موجود تمام افراد کو مخاطب قرار دیکر ان سے طلحہ وزبیر و عائشہ کو قتل کرنے کا مطالبہ کیاکیونکہ انہوں نے جو عثمان کی خونخواہی کے لئے قدم اٹھایا ہے، دراصل وہ اس کے ذمہ دار تھے اور وہ خون ان کے پاس تھا (وہی عثمان کے قتل میں شریک تھے)
پھر اپنے گروہ کی طرف پلٹے ۔ بنی امیہ نے جواب دیا کہ وہ عثمان کے تمام قاتلوں کو ایک ہی جگہ قتل کر ڈالنا چاہتے ہیں اور ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ جائیں اور شاید اس جماعت کے ذریعہمحمد بن ابی بکر بک اور قتل عثمان میں ملوث دوسرے لوگوں کو قتل کرڈالیں۔
اس نے کہا :نہیں، تمہیں یہ کام عثمان کی اولاد کے ہاتھ میں دینا چاہئے،کیونکہ تم لوگوں نے عوام کو عثمان کی خون خواہی کے نام پر اکسایا ہے۔
انہوں نے کہا:کیا ہم مہاجرین کے بزرگوںکو چھوڑ کرخلافت ان کی اولاد کے حوالہ کریں گے؟(یعنی خلافت کو اپنے سے۔ جوکہ مھاجر کے بزرگ ہیں،دورکرکے عثمان کی اولاد کو سو نپیں گے؟)اس نے کہا:ہم مناسب نہیں سمجھتے ہیں کہ حکومت کو عبد مناف کی اولاد سے باہر لانے کی کوشش کریں،(یعنی مناسب نہیں ہے کہ ہم یہ کو شش کریں کہ خلافت حضرت علی کے ہاتھ سے لے لیں، جبکہ علی آل عبد مناف و ہمارے چچیرے بھائی ہیں، بنوامیہ اور بنوہاشم آپس میں چچیرے بھائی تھے)
اس کے بعد وہاں سے عبداللہ بن خالدبن سعید( جوخود بھی بنی امیہ سے تھا) کے ہمراہ واپس آیا،مغیرہ بن شعبہ( جو ثقیف میں سے تھا) نے کہا:سعید کا نظریہ صحیح ہے:جو بھی قبیلہ ثقیف سے یہاں آیا ہے، واپس چلاجائے۔ اس گروہ نے بھی جنگ سے منہ موڑا اور واپس چلاگیا۔ لیکن دوسرے اپنے راستے پر آگے بڑھتے رہے۔ جنگ کے لئے جانے والوں میں عثمان کے بیٹے ابان اور ولید جیسے اشخاص بھی
موجود تھے۔ وہ وہاں سے روانہ ہوکر دور پہنچے اور راستہ میں ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوا کہ کس شخص کو سرپرست بنایا جائے تاآخر روایت عائشہ کے حکم سے مرتے دم تک عبدالرحمان بن عتاب کا راستے میں اور بصرہ میں امامت کے فرائض انجام دینا۔
یہ خبر سیف کے علاوہ دوسروں کے یہاں یوں ذکر ہوئی ہے:جس وقت کاروان مکہ سے باہر
---------------
۱۔عبداللہ بن خالدبن اسید بن ابی العیص بن امیہ، زیادنے اسے فارس کا حاکم مقرر کیا اور مرتے وقت اسے کوفہ میں اپنا جانشین مقرر کیا اور معاویہ نے اسے اسی عہدہ پر برقرار رکھا(اسد الغابہ ۳۰/۱۴۹)

آیا، مروان نے نماز کے لئے اذان کہیپھر طلحہ وزبیر کے پاس جاکر ان سے پوچھا،تم میں سے کس کو میں امیر کی حیثیت سے سلام کروں گا اور نماز کی اذان کس کے لئے کہوں؟
عبداللہ بن زبیر نے کہا:ابو عبداللہ کے لئے۔ یہ زبیر کی کنیت تھی۔
محمد بن طلحہ نے کہا:ابو محمد کے لئے، یہ طلحہ کی کنیت تھی۔
عائشہ نے مروان کو پیغام بھیج دیا اور کہا:تمہیں کیا ہوگیا؟کیا ہمارے کام میں اختلاف ڈالنا چاہتے ہو؟بہر صورت میرا بھانجا عبداللہ بن زبیر پیش نماز ہوناچاہئے۔۱
ان میں سے بعض افراد نے کہا:خدا کی قسم اگر ہم کامیاب ہوئے تو فتنہ برپا ہوگا، کیونکہ نہ طلحہ زبیر کی سرداری قبول کرنے کیلئے آمادہ ہے اورنہ زبیر طلحہ کی ۔
بصرہ پہنچنے تک راستہ میں یہ اختلاف موجود تھا، یعقوبی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ انہوں نے بصرہ میں بیت المال کو لوٹ لیا اور جو کچھ وہاں تھا اسے لے گئے اور جب نماز کا وقت پہنچا تو طلحہ وزبیر کے درمیان اختلاف پیدا ہوا ان میں سے ہر ایک دوسرے کو محراب سے کھینچ رہا تھا تاکہ وہ پیش نماز نہ بنے ، لوگوں نے فریاد بلند کی:الصلاة الصلاة اے یاران محمد!عائشہ نے کہا:ایک دن محمد بن طلحہ امام جماعت ہوگا اور دوسرے دن عبداللہ بن زبیر۔
ابن سعد نے طبقات میں یوں کہا ہے:ابن زبیر آگے بڑھاتاکہ امامت کرے لیکن محمد بن طلحہ نے اسے پیچھے ڈھکیل کر خود امام بننا چاہا، عبداللہ بن زبیر نے بھی ویسا ہی کیا، آخر کار پہلی بار امام
-----------------
۱۔تاریخ طبری، ج ا / ۳۱۳و۳۱۴۔

جماعت کو معین کرنے کے لئے قرعہ کشی کی گئی اور قرعہ میں محمد بن طلحہ کا نام نکلا وہ آگے بڑھا اور یہ آیة پڑھی:<سَاٴلَ سائِلٌ بِعذابٍ واقع>، یعنی ایک سوال کرنے والے نے عذاب کے بارے میں سوال کیا، عجب !کیسا منحوس فال تھا؟
کتاب الاغالی میں یوں آیا ہے:ایک شاعر نے اس سلسلہ میں یہ اشعار کہے ہیں:

تَباری الغِلامان إذْ صلّیا
وشحّ علی الملک شیخاھما

و مالی و طلحہ و ابن الزبیر
وھذا بذي الجذع مولاھما

فامّھما الیوم غرتّھما
وَ یعلی بن منیة دلاھما

ترجمہ:
نماز کے وقت فرزندان ایک دوسرے کو پیچھے ڈھکیل رہے ہیں اور بوڑھے لوگ بادشاہی پر نزاع کررہے ہیں اور اسے للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ہمیں طلحہ اور زبیر کے بیٹے سے کیا کام ہے جبکہ بیابان کے کنارے ان کا رہبر کھڑا ہے،آج ان کی ماں، یعنی عائشہ نے انہیں فریب دیا ہے اور منیہ کے بیٹے یعلی نے انہیں فریفتہبنالیاہے۱
یہ تھے وہ مطالب جن کے بارے میں سیف کی روایت کے متن میں واقع کے خلاف ذکر ہوا ہے اس کے علاوہ اب اس کی حدیث کی سند کے بارے میںچھان بین کریں تا کہ اس کا صحیح اندازہ ہوسکے۔
----------------
ا۔ان دونوں کی ماں سے مراد عائشہ ہے، یعلی بن امیہ نے انہیں دھو کہ دیاتھا۔ یعلی کی ماں کا نام منیسہ بنت غزوان تھا اور اس کا باپ میتہ بن عبدہ تھا اور وہ قبیلہ بنی تمیم سے تھا اور بنی امیہ کا ہم پیمان تھا وہ عثمان کے زمانے میں یمن کا گورنر تھا اور اس کے بعد عثمان کے قتل ہونے پر مکہ آگیا اور جنگ جمل میں شرکت کی۔ (الاغانی ج۱۱/ص۱۱۹-۱۲۱)

روایت سیف کی سند کی تحقیقات:
سیف نے روزنحیب ، کی روایت کو ابن الشہید سے نقل کیا ہے، ابن الشہید کا باپ ، جو اس روایت کاراوی ہے کون ہے؟اور اس کے بیٹے کا نام کیا ہے جو اس روایت کا راوی ہے؟اور ان دو افراد کو پہچاننے کا راستہ کیا ہے جن کے بارے میں جناب سیف نے خیال آرائی کی ہے؟
اس لحاظ سے اور اسی گمنامی کے سبب ہم نے اس شخص کا نام ونشان سیف کی روایت کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا، اس لئے ہم اس شخص کو سیف کے خیالی راویوں میں سے ایک فرد جان کراسے جعلی راویوں کی فہرست میں قرار دیتے ہیں۔
بصرہ میںعبدالرحمان کی پیش نمازی کی روایت کو سیف نے محمد بن قیس سے نقل کیا ہے اور یہ شخص بھی سیف کے جعلی راویوں میں سے ایک ہے۔

تحقیق اور موازنہ کا نتیجہ:
سیف نے ایک چھوٹی سی روایت کے ذریعہ خاندان قریش پر کئے جانے والے تین اعتراضات کا سد باب کرنا چاہاہے، جو عبارت ہیں ۔

۱۔ عائشہ کے بصرہ کی طرف روانگی کے وقت ام سلمہ کی طرف سرزنش کی روایت۔
اس سرزنش اور اشکال کو سیف نے مندرجہ ذیل جملہ نقل کرکے تدارک کیا ہے:”پیغمبر کی بیویوں نے عائشہ کو ذات عرق تک رخصت کیا“اور اس مطلب کا اضافہ کیا ہے کہ پیغمبر کی بیویوں نے متفقہ طور پر عائشہ کا احترام کیا جبکہ یہ مطلب ام سلمہ کی سرزنش کرنے کے ساتھ سازگار نہیں ہے، لہذا سیف اسے تغیر دیتا ہے اور اسے ایک دوسری صورت میں پیش کرتا ہے جو اس کے نظریہ کی تائید کرتا ہے۔

۲۔ ذات عرق میں سعید اموی کی بنی امیہ سے گفتگو، اور یہ کہ اس نے ان سے مطالبہ کیا کہ قاتلان عثمان ، یعنی وہی جنہوں نے عثمان کی خونخواہی کا علم بلند کیا تھا،کو قتل کریں اور اس کی طلحہ اور زبیر سے گفتگو کی رود اد کہ عثمان کے بیٹوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں اور ان دونوں نے اسکی مواقفت نہیں کی ، لہذا سعید آگے بڑھنے سے منکر ہوگیااور واپس چلاگیا اور اس کے ساتھ مغیرہ اور ثقیف کے کچھ اور لوگ واپس چلے گئے۔
اس روداد کو سیف نے درج ذیل جملہ کو نقل کرکے نابود کردیا ہے:اس دن سے پُر مصیبت کوئی اور دن دیکھا نہیں گیا، یہاں تک اس دن کو یوم الحیب نام رکھا گیا ہے، جبکہ ذات عرق میں رونماشدہ روداد وہی تھی جسے ہم نے نقل کیا، اس طرح جناب سیف نے بزرگان قریش اور خاندان مضر سے تعلق رکھنے والے اصحاب کی لغزشوں کی توجیہ کرکے ان پر پردہ پوشی کی ہے اور اس روایت کو نقل کرکے ان کی غلطیوں کو چھپادیا ہے۔
۳۔ راستہ اور بصرہ میں پیش نمازی کے مسئلہ پر اختلاف کی داستان اور عائشہ کا اپنے بھانجے اور اپنے چچیرے بھائی محمد بن طلحہ کو اس کام پر معین کرنا تاکہ اختلافات کو دور کرسکے،سیف نے اس خبر کی بھی مندرجہ ذیل جملہ نقل کرکے تصحیح کی ہے:
ام المومنین عائشہ نے عبدالرحمان بن عتاب کو پیش نمازی کے لئے معین کردیااور وہ بھی راستے میں اور بصرہ پہنچنے پر قتل ہونے تک لوگوں کی امامت کرتا رہا، سیف نے ان تمام تخریب کاریوں اور جاہ طلبیوں کو ایک چھوٹی سی روایت جعل کرکے دقیق جملوں کے ذریعہ محو کیا ہے پھر ایک اور روایت کے ذریعہ اس کی تائید کی ہے۔
سیف یوم الحیب کی داستان کے نقل کرنے میں (ذات عرق میں گریہ کے دن)منفرد ہے، اور طبری نے اس سے نقل کیا ہے اور ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں تاریخ طبری سے نقل کیا ہے، اس طرح سیف اپنے مقصد میں کامیاب ہوا ہے اور جس اضطراب اور تشویش کو تاریخ اسلام میں پیدا کرنا چاہتا تھااسے شرمندہ کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔

بحث کا خاتمہ:
ہم نے اس سے پہلے بھی دیکھا کہ سیف نے کس طرح جعلی ایام خلق کئے ہیں اور مسلمانوں اوراعراب میں دوران جاہلیت اور اسلام کے مانند مشہور ایامجعل کئے ہیں، اور ہمیں معلوم ہوا کہ اس نے حقیقی روداد وں کو الٹادکھانے کی کتنی کوشش کی ہے تاکہ اسلامی معاشرے میں تشویش ایجاد کرکے ان کے عقائد اور افکار کو توہمات اور مذاق میں تبدیل کردے۔
اس کے جعلی ایام اسی حد تک محدود نہیں ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا بلکہ ہم نے اس لئے اتنے پر ہی اکتفا کیا ہے تاکہ تاریخ اسلام میں اس قسم کی تحریفات کے نقش پا اور آثار کو پہچان سکیں اور اس کے بعد سیف کے اس قسم کے جعل کے بارے میں مزید نمونے پیش کریں گے۱
-----------------
۱۔جیسے حتیان کے دن (مچھلیوں کے دن)سیف کہتا ہے:یہ دن اس لئے اس نام سے مشہور ہوا ہے کہ سعد بن ابی وقاص کے سپاہیوں نے قادسیہ میں تین سو خچر گائے اور ماہی غنیمت کے طور پر حاصل کئے (طبری ۱۵/۲۲۴۴)