عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے | |||||
ہرمزان کے بیٹے قما زبان کا افسانہ
اٴَتعفواإذ عَفَوت بغیرِحقٍّ فَمالک بالذی تحکی یدان اے عثمان!کیا تم نے ہر مزان کے قاتل کو عفو کیا ہے؟ تمہیں تو اس قسم کی عفووبخشش کا حق ہی نہیں تھا۔ زیادبن عبید سیف کی روایت
طبری نے سیف سے روایت کی ہے:
صبح کو جب عمر زخمی ہوگئے تو، عبدالرحمان بن ابی بکر نے کہا: گزشتہ رات کو میں نے ابولوٴ لوٴ کو دیکھا کہ جفینہ اور ہر مزان سے سرگوشیاں کررہا تھا،میرا ان سے ملنا اس بات کا سبب بنا کہ وہ خوفزدہ ہوکر ایک دوسرے سے جدا ہوگئے، اس دوران ایک دودھار کے خنجر، جس کا دستہ بیچ میں تھا، ان کے ہاتھ سے زمین پر گرگیا ،ذرادیکھنا کہ عمر کس ہتھیار سے قتل کئے گے ہیں؟ اہل مسجد متفرق ہوئے، بنی تمیم سے ایک شخص قضیہ کی تحقیق کے لئے نکلا، ابولوٴلوٴ کا گریبان پکڑلیا جو عمر کو زخمی کرنے کے بعد واپس آرہا تھا، اوراسے قتل کرکے واپس آیا۔ وہ اسی خنجر کو لے کر آیا، جس کی عبدالرحمان نے توصیف کی تھی، جب خبر عبداللہ بن عمر تک پہنچی تو اس نے عمر کی وفات تک کسی قسم کا ردعمل نہیں دکھایا، البتہ جوں ہی عمر اس دنیا سے چلے گئے، عبداللہ بن عمر نے اپنی تلوار اٹھائی اور ہرمزان کے پاس جاکر اسے قتل کرڈالا، جب تلوار ہر مزان کے فرق پر پہنچی تو اس نے لاالہ الااللہ کہا،ہر مزان کو قتل کرنے کے بعد عبد اللہ بن عمر روانہ ہوا اور جفینہ جو ایک عیسائی تھا ،کے نزدیک پہنچا اور اسے بھی تلوار سے قتل کرڈالا یہخبر صہیب (عارضی حاکم) کو پہنچی ۔ اس نے عمروبن عاص کو مامور کیا تاکہ جاکر عبداللہ کے ہاتھ سے تلوار چھین لے۔ عمروبن عاص متعدد بار عبداللہ کے پاس گیا اور اس سے کہا میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوجائیں تلوار مجھے دیدو یہاں تک عبداللہ بن عمر نے اپنی تلوار عمروبن عاص کے حوالہ کردی اسی اثناء میں سعداپنی جگہ سے اٹھا اور عبداللہ کے بال پکڑ کر صہیب کے پاس لے آیا۔ دوسری روایت میں کہتا ہے: قماذبان سے سنا کہ اپنے باپ کے قتل کئے جانے کی داستان بیان کرتا تھا اور کہتا تھا: مدینہ میں مقیم ایرانی ایک دوسرے کے پاس رفت وآمد کرتے تھے، فیروز میرے باپ کے پاس آیا، اس کے ہاتھ میں ایک دودھار خنجر تھا، میرے باپ نے خنجر کو اس سے لے لیا۔اور کہا: اس خنجر سے غربت زدہ شہریوںپر کیا کرنا چاہتے ہو؟۔ ۱۔پہلی روایت کو طبری نے ۲۳ھء کے حوادث کے آخری حصہ میں ج ۵/۳۲ میں اور دوسری روایت کو ۲۴ ھء کے حوادث کے اوائل میں ج۵/۴۳ میں ذکر کیا ہے ۔ فیروز نے جواب میں کہا: - ”ابس بہ“ اس خنجر سے پھاڑ ڈالوں گا۔ اس ملاقات کو ایک شخص نے دیکھا، جب عمر زخمی ہوئے تو اس شخص نے کہا: میں نے دیکھا کہ اس خنجر کو ہر مزان نے فیروز کے ہاتھ میں دیدیا،اس کے بعد عبداللہ آیا اور ہر مزان کو قتل کرڈالا۔ اس کے بعد جب عثمان خلیفہ بن گئے مجھے بلایا اور عبداللہ کو میرے سپرد کیا اور کہا: میرے فرزند! یہ تیرے باپ کا قاتل ہے اور تم اپنے باپ کے خون کا مطالبہ کرنے میں ہم سے سزاوار تر ہو، جاؤ اور اسے قتل کرڈالو، اس دن روئے زمین کے سب لوگ اس بات پر متفق تھے کہ میں اپنے باپ کے قاتل عبداللہ کو قصاص کے طور پر قتل کرڈالوں، مگر چونکہ مجھ سے عفو کا مطالبہ کررہے تھے میں نے ان سے کہا: کیا عبیداللہ کو قتل کرنے کا اختیار میرے ہاتھ میں ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ اور عبیداللہ کو برا بھلا کہا اور گالیاں دیں۔ میں نے کہا: کیا تم لوگ اختیار رکھتے ہو کہ میں قصاص نہ لوں؟ انہوں نے کہا:نہیں، عبیداللہ کو برابھلاکہا۔ میں نے بھی خدا کی رضااور ان کی خوشنودی کے لئے عبیداللہ کو آزاد کیا، لوگوں نے مجھے زمین پر سے اٹھالیا اور خدا کی قسم مجھے گھر پہنچنے تک لوگوں نے اپنے ہاتھوں پر اٹھارکھا تھا۔ سیف کے علاوہ دوسروں کی روایت:
طبری نے مسوربن محرمہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:
عبیداللہ بن عمر، جفینہ، ہرمزان اور ابولوٴلوٴ کی بیٹی کو قتل کرنے کے بعد کہتا تھا، خدا کی قسم ! جو افراد میرے باپ کے قتل میں شریک تھے ان میں سے ان کو قطعی طور پر قتل کرڈالوں گااور اس بات سے مہاجرین وانصار کی طرف کنا یہ اشارہ کرتا تھا۔ سعد اٹھااور تلوار عبیداللہ کے ہاتھ سے چھین لی اور اس کے سرکے بالوں کو ایسے پکڑ کر کھینچا کہ اس نے گھٹنے ٹیک دئے اس کے بعد اپنے گھر میں قیدیبنادیا، یہاں تک عثمان نے اسے وہاں سے باہر لاکر مھاجروانصار کے بعض افراد سے کہا: اس شخص کے بارے میں ،کہ جس نے اپنی من مانی سے اسلام کی راہ میں خون بہایا ہے، اپنی رائے بیان کرو۔ علی علیہ السلام نے کہا: میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسے قتل کیا جائے۔ بعض مھاجرین نے کہا: عمر کل قتل ہوئے اور بیٹا آج قتل ہوجائے؟ عمروبن عاص نے کہا: یاامیرالمٴومنین! خدا نے تجھ پر عنایت کی ہے یہ بہائے گئے خون تیری خلافت میں واقع نہیں ہورہے ہیں۔ شوریٰ کے قضیہ کے بارے میں بلاذری کی جو روایت یہاںبیان ہوئی اس میں عثمان نے کہا: قضائے الٰہی سے عبیداللہ نے ہر مزان کو قتل کرڈالا ہے اور ہر مزان ایک مسلمان ہے اور اس کا کوئی وارث نہیں ہے اور تمام مسلمان اس کے وارث ہیںاور میں نےتم لوگوںکاامام اور پیشوا ہونے کی حیثیت سے اسے بخش دیا، کیا تم لوگ بھی اسے عفو کرتے ہو؟انہوں نے کہا : جی ہاں۔ علی علیہ السلام نے کہا: اس فاسق کا قصاص کرنا چاہئے کیونکہاس نے ایک بڑاجرم انجام دیا ہے اور ایک بے گناہ مسلمان کا قتل کیا ہے، اور عبیداللہ کی طرف رخ کرکے کہا: اے فاسق ! اگر میرے ہاتھ کبھی تجھ تک پہنچتے تو ہر مزان کے قتل کے جرم میں تجھے قطعاً قتل کرڈالتا۔ طبری باقی روایت میں کہتا ہے:عثمان نے کہا: میں مسلمانوں پر ولایت رکھتا ہوں، ہرمزان کے خون کے لئے دیہ مقرر کرچکاہوں اور اس دیہ کو میں خود ایک شخص کی دولتسے بیت المال کو اداکروں گا، زیادبن عبید انصاری جب بھی عبیداللہ بن عمر کو دیکھتا تھا، کہتا تھا: اٴلا یا عبیدَالله مَالک مھرب ولاملجاٴ من ابن اٴروی ولاخفر اٴصبتَ دماً والله فیّ بغیرحلّہ حراماً وقَتْلُ الھرمزان لہ خطر ترجمہ: خبردار ! اے عبیداللہ عثمان سے راہ فرار نہیں ہے اور نہ کوئی پناہ گاہ ! خدا کی قسم ، تو نے ناحق خون بہایا ہے اور ہر مزان کو قتل کرکے ایک خطرناک اقدام کیا ہے۔ عبیداللہ، زیاد بن عبید کی شکایت کو عثمان کے پاس لے گیا اور اس کے شعر کے بارے میں شکوہ کیا۔عثمان نے زیاد کو بلایا اور ایسا کرنے سے منع کیا، زیدنے درج ذیل اشعارعثمان کے بارے میں کہے: اٴبا عمرو عبیدالله رھن فلا تشکک بقتل الھرمزان فانّک إن غفرت الجرم عنہ و اٴسباب الخطا فرسارھان اٴتعفو إذْ عفوت بغیر حقٍّ فما لک بالّذي یحکي یدان ترجمہ: اے ابو عمرو! اس میں شک نہ کرنا کہ عبیداللہ ہر مزان کو قتل کرنے والے گروہ میں ہے اگر اسے اس جرم میں بخش دوگے تو غلطی کے مرتکب ہوگے(کیونکہ یہ بخشش ان دو گھوڑوں کے مانند ہے جو میدان مقابلہ میں ایک دوسرے کے مقابلہ ہوتے ہیں)اگر اس گناہ کو بخش دوگے یہ بے موقع بخشش ہے اور تمہیں یہ حق نہیں ہے“۔ سند کے لحاظ سے سیف کی روایت کی تحقیقات:
سیف نے اس داستان میں ہر مزان کے لئے قماذبان نامی ایک بیٹا جعل کیا ہے اور اس سے نقل کرتا ہے، لیکن سیف کے علاوہ کسی اور نے ہر مزان کے لئے قماذبان نامی کوئی بیٹا نقل نہیں کیا ہے تاکہ راوی روایت کرتا، حتیٰ عثمان بھی اپنی تقریر میں کہتا ہے کہ لاوارث تھا، لہذا اگر اس کا کوئی بیٹا ہوتا تو عثمان ایسی بات نہیں کرتا اور وہ ہرمزان کا وارث ہوتا، اس سے پتا چلتا ہے کہ قماذبان کا کہیں وجود ہی نہیں تھا اور یہ سیف کے جعلی راویوں اور سورماؤں میںسے ایک ہے، حقیقت میں اس روایت کے معتبر ہونے کے بارے میں اتناہی کافی ہے ان افسانوں کا راوی قماذبان نامی موھوم شخص ہے ۔
متن کے لحاظ سے سیف کی روایت کی چھان بین:
اس سلسلہ میں سیف کی روایت دوسرے مورخین کی روایتوں سے چند جہات سے تناقض رکھتی ہے :
۱۔سیف کی روایت میں آیا ہے کہ عمرو ابن عاص نے التماس و درخواست اور انتہائی اصرار سے صہیب کی تلوار کو عبیداللہ ابن عمر کے ہاتھ سے لیا اور ایک ساتھ صہیب کے پاس آئے، لیکن ہم دوسرے راویوں کی روایتوں میں یوں پڑھتے ہیں کہ سعدبن ابی وقاص نے تلوار کو عبیداللہ سے چھین لیا نہ عمروابن عاص نے،اور وہ بھی زبردستی نہ التماس کرکے، سعد نے عبیداللہ کے سرکے بال کو پکڑکر اسے زمین پر گرادیا اور پھر گھسیٹتے ہوئے اپنے گھر لے جاکر اسےقیدکردیا۔ ۲۔ دیگر سیف کے علاوہ تمام روایتوں میں آیا ہے کہ عثمان نے کہا: ہر مزان ایک لا وارث مسلمان تھا، اس بناء پر اس کے وارث عام مسلمان ہوں گے۔ میں مسلمانوں کا نمائندہ اور پیشوا ہوں، اس کے قاتل عبیداللہ بن عمر کو قانونی سزا سے معاف کرتا ہوں، اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرمزان کا کوئی فرزند و وارث نہیں تھا، لیکن سیف نے ہرمزان کے لئے قماذبان نامی ایک بیٹا جعلکیا ہے۔ اس کے بعد عثمان کی طرف سے بری کرنے کے سلسلے میں کہتا ہے کہ عثمان نے ہر مزان کے قاتل عبیداللہ کو گرفتار کرکے اس کے بیٹے قماذبان کے حوالہ کردیا تاکہ وہ اپنے باپ کے قصاص کے طور پر عبیداللہ کو قتل کردے، لیکن قماذبان نے اپنے باپ کا خون بخشتے ہوئے معاف کردیا۔ ۳۔مورخین کی تحقیق سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عبیداللہ نے ہر مزان کو بے گناہ قتل کیا ہے، اور مسلمانوں کی ایک جماعت نے اس سلسلہ میں اس پر اعتراض کیا اور اسے قصاص اور سزادینے کا مطالبا کیا، یہاں تک سعد بن وقاص نے اسے اپنے گھر میں قیدی بنایا،لیکن سیف اسے بے گناہ ثابت کرتے ہوئے اس کے بری ہونے کے سلسلے میں خود سیف کے ہرمزان کے لئے جعلکئے گئے بیٹے قماذبان سے یوں نقل کرتا ہے کہ اس نے کہا: جس خنجر سے عمر قتل ہوئے تھے، وہ میرے باپ اور ابولوٴ لوٴ کے پاس تھا، کسی نے اسے ان کے ہاتھ میں دیکھا اورپہچان لیا۔ اس کے بعد سیف اس بات کی وضاحت اور تائیدمیں ایک اور روایت کوجعل کرتا ہے اور اس میں اسی جعلی بیٹے کی زبان سے کہلواتا ہے: عمر کے قتل کئے جانے کی رات کو عبدالرحمان بن ابوبکر نے میرے باپ اور ابولوٴلوٴ کو ایک جگہ سرگوشیاں کرتے ہوئے دیکھا،جب انہوں نے عبدالرحمان کو دیکھا تو ڈرکے مارے بھاگ گئے اور ان کے ہاتھ سے ایک خنجر زمین پر گرگیا جس پر وہ علامتیں اور آثار تھے کہجس سے عمر قتل کئے گے تھے۔ عبدالرحمان نے اسے اٹھالیا اور اسے عبیداللہ ابن عمر کے پاس بھیجا اور عبیداللہ نے اسے اپنے پاس محفوظ رکھا یہاں تک عمر اس دنیا سے رحلت کرگئے۔ عبیداللہ نے اس تلوار کو اٹھالیا جس سے اس کے باپ قتلکئے گئے تھے اٹھائے رکھا اور ان تمام لوگوں کو قتل کرڈالا۔ سیف ان روایتوں کو گڑھ کر عثمان کو بری کرنا چاہتا ہے کہ اس نے ہر مزان کے قاتل کو عفو نہیں کیا ہے بلکہ اسے پکڑ کر ان کے وارث اور صاحب خون کے حوالہ کیا ہے اور اس کے ساتھ عبیداللہ کو بھی بری کرنا چاہتا ہے کہ وہ بے گناہ ہر مزان کوقتل کرنے میں حق بجانب تھے، کیونکہ بقول سیف ہر مزان عبیداللہ کے باپ کاقاتل تھا۔ لہذا نہ عثمان تنقید وملامت کے سزاوار ہےں اور نہ عبیداللہ، جی ہاں، وہ ہر صورت میں پاک وبری ہونا چاہیے، کیونکہ وہ خاندان” مضر“ کے سرداروں اور بزرگوں میں سے ہےکہ سیف ان کے دفاع میں زبرست کوششکرتا ہے اور ان کے مقام و منزلت کو بڑھاوا دیتا ہے اور ضمناً ، سیف نے اس داستان کو گڑھنے میں فرصت سے فائدہ اٹھا کر اپنے خاندان بنی تمیم کو ایک افتخار بھی بخشا ہے اور عمر کے قاتل ابو لوٴلوٴ کو بنی تمیم کا ایک فرد معرفی کیا ہے۔ یہ تھے سیف کے اپنے ، پیغمبر، ابوبکر، عمر، اور عثمان کے زمانہ سے مربوط افسانوں اور جعلی داستانوںکے چند نمونے۔ سیف نے ان روایتوں اور جھوٹی داستانوں کو گڑھ کر نہ صرف تاریخ اسلام کو جھوٹ سے مالامال کیا بلکہ تاریخی واقعات میں تحریف کرکے حق کو مجہول بنادیا ہے اور اسلامی تاریخ و تمدن پر سپاہ دھبہ لگا کر چھوڑ گیا ہے۔ |