عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
 
شوریٰ اورحضرت عثمان کی بیعت کی داستان
بایع و الا ضربت عنقک
یا علی ! عثمان کی بیعت کرو ، ورنہ ( عمر کی وصیت کے مطابق ) میں تمہارا سر قلم کردوں گا۔
عبد الرحمن بن عوف

سیف کی روایت کے مطابق شوریٰ اور حضرت عثمان کی بیعت
طبری نے ۲۳ ھء کے حوادث بیان کرتے ہوئے سیف سے روایت کی ہے کہ عمر نے کہا: ”میں جانتا ہوں کہ لوگ ان دو مرد ( علی و عثمان) کے برابر کسی کو نہیں جانتے ہیں ، چونکہ یہ دوافراد ایسے ہیں کہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم ان کے اورجبرئیل کے درمیان ہمراز تھے ، آپ جبرئیل سے پیغام لیتے تھے اور ان دو کو املاء فرماتے تھے ۱ اور مزید ۲۴ ھء کے حوادث بیان کرتے ہوئے سیف سے روایت کرتا ہے کہ : ماہ محرم کی تیسری تاریخ کو اہل شوریٰ نے متفقہ طور پر عثمان کے حق میں راٴی دی اور یہ نماز عصرکا وقت تھا ، مؤذن صہیب نے اذان دی لوگ اذان و اقامت کے درمیان جمع ہوئے،عثمان باہر آئے اور نماز کی امامت کی، مزید روایت کی ہے کہ اس نے کہا جب اہل شوریٰ نے عثمان کے حق
----------------
۱۔ تاریخ طبری، ج۳/ ۲۹۲۔

میں راٴی دی تو۔عثمان اس حالت میں باہر آئے کہ دوسرے تمام لوگوں سے غمگین تر نظر آرہے تھے، اس کے بعد رسول خد ا کے منبر پرجا کر ایک خطبہ پڑھا ، خداوند عالم کی حمد و ثناکی اور پیغمبر پر درود بھیجا ، اس کے بعد کہا:
” تم لوگ ایک ایسے گھر میں ہو جس کی بنیادیں انتہائی کمزور ہیں اورا پنی باقی بچی عمریں کاٹ رہے ہو ، جتناممکن ہوسکے موت سے پہلے نیک کام انجام دو صبح یا شام کو موت تمہیں پالے گی دنیا کو غرور نے اپنے جال میں پھنسایا ہے ، لہذا دنیا کی زندگی تمہیں مغرور نہ کرے اور شیطان تمہیں فریب نہ دے ، اپنے اسلاف سے عبرت حاصل کرو اس کے بعد تلاش کرو اور غفلت میں نہ رہو، فراموش نہیں کئے جاؤ گے،کہاں گئے اس دنیا کے بیٹے اور بھائی ، وہ جو کھیت میں ہل چلا کر اسے آباد کرتے تھے اور سالہا سال تک اس سے فائدہ اٹھاتے تھے ؟! کیا اس دنیا نے انھیں دور نہیں پھینکا دنیا کے بارے میں تمہارا مقصد وہی ہونا چاہئے کہ جیسے خداوند عالم نے اسے مقصد قرار دیا ہے اور آخرت کے طالب رہو کہ خداوند عالم نے اس دنیا کیلئے ایک ضرب المثل بیان فرمائی ہے اور جو احسن ہے اسے معین فرمایا ہے ، خدائے عزو جل نے فرمایا ہے: < واَضرِب لَھُمْ مَثَلَ الْحَیوةِ الدُّنیَا کَمَاءٍ واٴَنْزَلْنٰہُ من السَّماءِ > تقریر کے اختتام پر لوگوں نے اس کی طرف بڑھ کی بیعت کی ۔
-----------------
۱۔کھف/۴۵

یہ تھی شوریٰ ،نیز عثمان کی بیعت اور ان کی پہلی تقریر کے بارے میں سیف کی روایت !!

عمر کا نامزد کیا گیا خلیفہ
حقیقت یہ ہے کہ جو شخص شوریٰ اور عمر کے جانشین مقر رکرنے کی کیفیت پر تحقیق و غور و خوض کرے گا وہ اس بات کو با آسانی سمجھ لیگا کہ عمر بہت پہلے ہی سے اپنی جانشینی کے بارے میں منصوبہ بندی کرچکے تھے اور عثمان کی خلافت کیلئے ماحول کو سازگار بنا چکے تھے اس طرح شوریٰ کی روداد ایک بہانہ سے زیادہ نہ تھی ۔
ابن ہشام عبدالرحمان بن عوف سے نقل کرتا ہے کہ ایک شخص نے منیٰ میں عمر سے کہا: اے امیر المؤمنین ! فلان شخص کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ خدا کی قسم ابوبکر کی بیعت کا مسئلہ ایک بغیر سوچے سمجھے عمل کے علاوہ کچھ نہیں تھا اور اسی صورت میں انجام پایاہےِ کہتے ہےں کہ عمر یہ بات سن کر غضبناک ہوگئے اور کہا: میں انشاء اللہ آج رات کو ہی اس کام کے بارے میںا قدام کروں گا اور ان لوگوں کیلئے خطرہ کا اعلان کروں گا جو ناحق اور غاصبانہ طورپر کام کی باگ ڈور کو لوگوں سے چھین لینا چاہتے ہیں ۔
عبدالرحمان کہتا ہے : میں نے کہا:یا امیر المؤمنین ! آپ ایسا نہ کریں کیونکہ سارے کم فہم اور تخریب کار لوگ موسم حج میںا یک جگہ پر اکٹھا ہوئے ہیں اس بات کی مہلت دیجئے تا کہ اسلامی دار الخلافہ مدینہ پہنچ جائےں ، وہاں پر آپ کی بات سننے والے صرف دانشورلوگ ہوں گے جو بھی کہناچاہتے ہیں مدینہ میںاطمینان کامل کے ساتھ کہہ سکتے ہیں اور دانشور آپ کی بات کو قبول کریں گے اور اس پر عمل کریں گے ۔ عبد الرحمان کہتاہے : عمر نے کہا: خدا کی قسم انشا ء الله لوگوں کے درمیان اپنی پہلی تقریر کے دوران اس کام کا اقدام کروںگا ۔
اس کے بعد کہتا ہے: عمر مدینہ پہچنے کے بعد پہلے جمعہ کو منبر پرگیا اور ایک خطبہ پڑھا اور اس میںکہا؛ مجھے رپورٹ ملی ہے کہ فلاں نے کہاہے کہ خدا کی قسم اگر عمر بن خطاب مرجائے تو قطعا فلاں کی بیعت کروں گا ۔ ایسا نہ ہو کہ یہ کلام کہ ابوبکر کی بیعت بلا سوچے سمجھے اور بدون تدبیر انجام پائی ہے “،کسی کو فریب دے ، کیونکہ وہ بیعت اگرچہ ایسی نہیں تھی ، لیکن خداوند عالم نے ہمیں اس کے شر سے نجات دی ہے اور اس کے علاوہ اس نکتہ کی طرف توجہ رکھئے کہ اس وقت ابوبکر کے مانند کوئی اور آپ کے درمیان موجود نہیں تھاکہ جس پر سب اس پراتفاق کرکے اس کی اطاعت کریں ، اس لئے جو کوئی مسلمانوں سے صلاح و مشورہ کئے بغیر کسی کی بیعت کرے گا توایسی بیعت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی اور طرفین قتل کئے جائیں گے ۱
ہم اس کتاب کے پہلے حصہ میں جہاں پر ” فاطمہ زہراء(س) کے گھر میںدھرنادینا “ اور ۱۳۶ (صفحہ پر) پر عمر کے نقطہ نظر اور ان کی رای کے عنوان سے اس کی وضاحت کی ہے وہاں پر اس روایت کی باقی اسناد بھی ذکر کی ہیں ۔
---------------
۱۔ سیرہ ابن ھشام ،ج ۴/ ۳۳۷۔

ابن ابی الحدید نے جاحظ سے روایت کی ہے کہ وہ کہتا ہے : جس شخص نے یہ کہا تھا کہ اگر عمر مرجائے تو میں فلاں کی بیعت کروں گا وہ عمار بن یاسر تھے کہ اس نے کہا تھا ؛ اگر عمر مرجائے تو علی علیہ السلام کی بیعت کروں گا ، عمر کا یہی کلام سبب بنا کہ عمر نے اشتعال میں آکر وہ تقریر کی ۱ایک اور حدیث شناس نے کہا ہے کہ عمر کے مرنے کے بعد جس کی بیعت کی جائے وہ طلحہ بن عبد اللہ تھا ۔
جس کی بیعت کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ، اسے پہچاننا ہمار ی نظر میں اہم نہیں ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ خلیفہ نے اپنی تقریر میں خلافت کے کام میں ” ُمشورت “ کابیان کیاہے جبکہ اس کی مثال نہیں ملتی کہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اپنا جانشین مقرر کرنے کے سلسلے میںکہیں مشورت یا شوریٰ کا ذکر کیا ہو ، دوسری طرف سے ابوبکر کی بیعت اچانک اور بلا غور و فکر اور تدبیر انجام پائی جیساکہ ہم نے عمر کی زبانی سنا ۔
اور اسی طرح خود عمر کی بھی ابوبکر کے نامزدکرنے سے بیعت کی گئی ، نہ مجلس شوریٰ کی روسے اور نہ ہی مسلمانوں کے مشورت سے ، اس لئے یہ ( عمر ) پہلا شخص تھا جس نے جانشین مقرر کرنے کیلئے بذریعہ شوریٰ منصوبہ بنایا تھا، عمر نے اس خطبہ میں واضح طورپر اظہار کیا ہے کہ مغیرة بن شعبہ کے غلام فیروز کے ہاتھوں زخمی ہونے سے پہلے شوریٰ کی فکر میں تھا لیکن یہ کہ وہ اپنی جانشینی کے امید وار کومقرر کرچکا تھا یا یہ کام صرف شوریٰ پر چھوڑا تھا آئندہ نقل کی جانے والی روایتوں سے معلوم ہوگا۔
محب الدین طبری ۲نے ریاض النضرہ کی دوسری جلد کے صفحہ ۷۴۰ پرعبد اللہ بن عمر سے نقل
----------------
۱۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۳/ ۱۲۳۔
۲۔الریاض النضرة ،ج ۲/ ص ۷۴۔

کرتے ہوئے کہا ہے ؛ جب عمر زخمی ہوئے، تو میں نے کہا:اے امیر المؤمنین ! کیااچھاہوتا اگرآپ اپنی کوشش و تلاش سے کسی کو ان لوگوں کی فرمانروائی کیلئے مقرر فرماتے ؟ اس نے کہا : مجھے بٹھائیے ! عبد اللہ نے کہا: جوں ہی اس نے کہا” مجھے بٹھائیے “ تو میں اس قدر ڈر گیااور آرزو کی کہ مدینہ کے برابر اس سے دوری اختیار کیاکروں اس کے بعد کہا؛ قسم اس خداکی جس کے قبضہ میں عمر کی جان ہے میں قطعی طور فرمانروائی کو واپس اسی شخص کے ہاتھ میں دیدوں گا جس نے پہلی بار اسے مجھے دیا تھا
رہا سوال اس کاکہ جس نے پہلی بار عمر کو خلافت دی ، وہ عثمان تھا چنانچہ طبری نے اپنی سند سے واقدی کے حوالے سے کہاہے کہ : ابوبکر نے عثمان کو حکومت میں لے جا کر کہا؛ لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم ، یہ ایک عہد نامہ ہے جسے ابوبکر بن ابی قحافہ نے مسلمانوں کیلئے لکھا ہے اما بعد کہتے ہےں کہ جوں ہی انھوں نے اما بعدکہا، ان کی حالت بگڑگئی اور بے ہوش ہوگئے ا ور مطلب کو جاری نہ رکھ سکے اس کے بعدعثمان نے خود لکھا: اما بعد،میں نے عمر کو آپ لوگوں کیلئے نامزد کیاہے اور میں آپ کے درمیان اس سے بہتر کسی اور کو نہیں جانتا ہوں اسکے بعد ابوبکر ہوش میں آئے اور پوچھا : کیالکھا تم نے؟ مجھے پڑھ کر سناؤ، عثمان نے تحریر کو ابوبکر کیلئے پڑھا ، ابوبکر نے کہا؛ اللہ اکبر ، میری نظر میں خدا تجھے اسلام سے نیک انعام عطا کرے ، اور ابوبکر باقی وصیت نامہ کو، جہاں تک عثمان نے لکھاتھااقرار کرکے تائید کی۔ روایت کا متن حسب ذیل ہے :
دعا ابوبکر عثمان خالیا فقال لہ اکتب :

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ھذا ما عھد ابوبکر بن ابی قحافہ الی المسلمین ، اما بعد، قال ، ثم اغمی علیہ ، فذھب عنہ ، فکتب عثمان : اما بعد فانی قد استخلفت علیکم عمر بن الخطاب و لم آلکم خیراً منہ ثم اٴفاق ابوبکر فقال : إِقراٴ علیَّ ، فقراٴ علیہ فکبر ابوبکر ، و قال : اراک خفت ان یختلف الناس ان افتلتت نفسی فی غشیتی؟ قال نعم، قال : جزاک اللہ خیراً عن الاسلام و اقرّھا ابوبکر من ھذ االموضع ۱
خود عمر نے بھی ایک دوسری جگہ پر صراحت سے کہا ہے کہ عثمان کو اپنی جانشینی کیلئے مد نظر رکھا تھا خیثمہ بن سلمان اپنی کتاب ” فضائل الصحابہ “ میں حذیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا؛ کسی نے موقف میں عمر سے پوچھا: آپ کے بعد خلیفہ کون ہوگا ؟ اس نے کہا: عثمان بن عفان:۲
قیل لعمر و ھو بالموقف مَن الخلیفة بعدک ؟ قال : عثمان بن عفان۔
متقی ھندی نے نے کنزل العمال ۳ روایت میں کہا ہے کہ عمر نے یہ جواب مدینہ میں ان لوگو ں کو دیا جنہوں نے ان سے سوال کیا تھا:آپ کے بعد خلیفہ کون ہوگا۔
-----------------
۱۔ تاریخ طبری ،ج ۲/ ۶۱۸ ۔
۲۔ الریاض النضرة ،ج ۲/ ۱۲ قیل لعمر و ھو بالموقف ، من خلیفتک بعدک ؟ قال : عثمان بن عفان ۔
۳۔ کنزل العمال، ج ۳/ ص۱۵۸

سیف کے علاوہ کی گئی روایت میں شوریٰ کی داستان
بلاذری نے انساب الاشراف۱میں اور ابن سعد نے طبقات۲میں روایت کی ہے کہ عمر بن خطاب نے ایک جمعہ کو خطبہ پڑھا اور پیغمبر اور ابوبکر کا ذکر کیا پھر کہا؛ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک مرغا مجھے چونچ ماررہا تھا ، میرے خیال میں اسکی تعبیر اسکے سوا کچھ نہیں ہے کہ میری موت نزدیک ہے اور دوسری طرف سے کچھ لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ اپنے بعد والے خلیفہ کو نامزد کروں، البتہ خداوند عالم اپنے د ین ، اپنے خلیفہ اوراپنے اس ہدف کو ضائع ہونے نہیں دے گا جس کیلئے پیغمبر کو بھیجا تھا۔ اگر جلدی میر ی موت آگئی تو خلافت شش رکنی شوریٰ میں سے کسی ایک کو ملے گی جسے شوریٰ والے رائے دیں گے اور یہ چھ افراد وہی ہیں جن سے رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم رحلت کے وقت راضی تھے ، میں جانتا ہوں کہ اس کام کے بارے میں مجھ پر اعتراض کیا جائے گا ، لیکن تم لوگوں کو توجہ کرنا چاہئے کہ اعتراض کرنے والے وہی لوگ ہیں جنہیں میں نے زبردستی اسلام کے دائرے میں داخل کیاہے اگر انہوں نے ایسا اعتراض کیا تو وہ دشمن اسلام ہیں ۔
ابن عبدالبر۳ دوو سندوں کے ساتھ روایت کرتا ہے کہ جب عمر ابن خطاب زخمی ہوئے تو ان سے کہا گیا : یا امیر المؤمنین ! کیا اچھا ہوتا اگراپنے بعد خلیفہ کومقرر کردیتے تو انھوںنے کہا: اگر میں تمہیں اپنے حال پر چھوڑدوں اور یہ کام تمہارے سپرد کردوںتو؟ اس لئے کہ جو مجھ سے بہتر تھاا س
---------------
۱۔ انساب الاشراف ،ج ۵ ص ۱۵۔ ۱۶۔
۲۔ طبقات ابن سعد ق ۱، ج ۳/ ۲۴۳۔
۳۔العقد الفرید ، ج۳/ ۷۳

نے ایسا ہی کیا ہے اور اگرآپ لوگوں کیلئے خلیفہ نامزد کروں تو بھی مجھ سے بہتر تھا اس نے بھی ایسا ہی کیاہے اگر اس وقت ابو عبیدہ جراح زندہ ہوتے تو میں یقینا انھیںاپنا جانشین بنا دیتا اور اگر خداوند عالم مجھ سے اس سلسلہ میں پوچھتا تو میں کہتا کہ میںنے تیرے پیغمبر سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے: ابو عبیدہ اس امت کاامین ہے۔
اور اگر ابوحذیفہ کا آزادکردہ غلام ، سالم زندہ ہوتاتو اسے اپنا جانشین قرار دیتا اور خدا کے اعتراض کے جواب میں کہتا کہ میں نے تیرے پیغمبر سے سنا ہے کہ فرماتے تھے : بے شک سالم خداکو ایسا دوست رکھتا تھا کہ اگر خدا سے خوف بھی نہ رکھتا تو بھی گناہ نہیں کرتا ،کہا گیا: کیوں عبداللہ کو اپنا جانشین نہیں بناتے وہ، جبکہ دیانت و فضل اور اسلام میںپیش قدم ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیت مسلم ہے ۔ کہا: خطّاب کے بیٹوں کیلئے ا تنا ہی کافی ہے کہ ان میںسے صرف ایک شخص امت محمد کے بارے میں حساب دے، میں کتنا خوشحال ہوں کہ اس محاسبہ سے سالم نکل آیا نہ نفع کمایا اور نہ نقصان ، پھر ان سے سوال ہوا ،کہ کاش کسی کو معین کرتے ؟ کہا : جو بات میں نے کہی اسکے کیلئے آمادہ کیا ہے کہ آپ لوگوں کی فرمان روائی کیلئے کسی کو معین کروں گا اور امید رکھتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کو راہ حق کی طرف راہنمائی کرے گا ، یہ کلمات کہتے ہوئے علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا پھر اضافہ کرتے ہوئے کہا: لیکن میں نے مصلحت اس میں سمجھ کہ اپنی زندگی میں نیزمرنے کے بعد بھی اس کام کی ذمہ داری اپنے سرنہ لوں ۱
--------------
۱۔العقد الفرید، ج ۳/ ۷۳۔

بلاذری نے عمرو بن میھون سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا؛ میں عمر کے زخمی ہونے کا شاہد تھا ، اس کے بعد ایک مفصل حدیث ذکر کی اس کے بعد کہا؛ عمر نے کہا، علی علیہ السلام ، عثمان ، طلحہ و زیبر ، عبد الرحمان بن عوف اور سعد بن ابی وقاص کو میرے پاس بلالاؤ ان چھ افراد میں سے علی علیہ السلام اور عثمان کے علاوہ کسی اور سے بات نہیں کی ، علی علیہ السلام سے کہا؛ یا علی ! شاید یہ لوگ آپ کے بارے میں معلومات کرنا اور پہچاننا چاھتے ہیں کہ آپ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے رشتہ دار ہیں اور آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے داماد ہونے کا شرف بھی رکھتے ہیں اور خداوند عالم ٰ نے آپ کو فقہ و دانش میں ایک بلند مقام عطا کیا ہے اگر آپ نے اس کام کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی تو تقویٰ کو ہاتھ سے جانے نہ دینا ، اس کے بعد عثمان کو بلاکر اس سے کہا؛ اے عثمان ! شاید یہ لوگ تیرے حق کو جان لیں کہ آپ پیغمبر کے داماد تھے اوربہت سن رسیدہیں ، اگر حکومت تیرے ہاتھوں میں آئی تو خدا سے ڈرنا اور ابو معیط کے خاندان ( عثمان کے رشتہ دار ) کو ملت کی گردن پر سوار نہ کرنا اسکے بعد کہا: صہیب کو میرے پاس بلاؤ ، جب وہ حاضر ہواتو ا سے یوں حکم دیا : تین دن تک لوگوں کی امامت کی مسئولیت تیرے ذمہ ہے اور ان چند افرادکو کسی گھر میں بیٹھ کر شوریٰ کو تشکیل دینا چاہے ، اگر متفقہ طور پر انہوں نے اپنے میں سے کسی ایک کو معین کرلیا، تو جو بھی اس کی مخالفت کرے اس کا سر قلم کردینا جب یہ لوگ عمر سے رخصت ہوکر چلے گئے توعمر نے کہا: اگر خلافت کے کام کو ’ ’ اجلح“ ( وہ مرد جس کے سر کے اگلے حصہ کے بال کم ہوں مقصود علی تھا) کے ہاتھ سونپیں گے تو وہ لوگوں کی احسن طریقہ ےسے رہبری کرے گا اور منزل مقصود تک پہنچائے گا ۱
------------------
۱۔ انساب الاشراف، ج ۵ ان ولّو ھا الاٴجلع لسلک بھم الطریق۔

ابن عمر نے کہا: یا امیر المؤمنین کیا آپ کیلئے خودمعین کرنے میں کوئی مشکل ہے ؟ کہا: میں نہیں چاہتا ہوں زندہ یا مردہ اس کے زیر بار رہوں طبقات ۱
ابن سعد میں بھی تقریباً اس قسم کی روایت ہے ۔
الریاض النضرہ میںبھی عمرو بن میمون نے جو کچھ عمر سے علی کے بارے میںنقل کیا ہے اس کے بعد آیا ہے : صاحب صحیح ، نسائی نے یہ روایت نقل کی ہے اورا س میں اضافہ کیا ہے : کیا اچھے لوگ ہوں گے اگر خلافت کی باگ ڈور کو کشادہ پیشانی والے شخص کو سونپتے تو وہ اس وقت دیکھیں گے کہ کس طرح وہ انھیں حق پر چلنے پر مجبور کرے گا اگر چہ وہ ہمیشہ تلوار لئے ہوئے ہوگا : للّہ درّھم ان ولّوھا الاٴصلع کیف یحملھم علی الحق و ان کان السیف علی عنقہ ۔
میں نے کہا: اگر اس کے بارے میںا س قسم کی لیاقت کا تجربہ رکھتے ہں تو خلافت کو اس کے حوالہ کیوں نہیں کرتے ؟
اس نے کہا؛ اگر میں مرگیا اور یہ کام لوگوں پر چھوڑکے چلا گیا تو مجھ سے پہلے کسی نے ایسا کیا ہے جو مجھ سے افضل تھا ۲
بلاذری نے انساب الاشراف میں اپنی سند سے واقدی سے نقل کیا ہے کہ عمر اپنی جانشینی کے بارے میں گفتگو کررہے تھے اُن سے کہاگیا کہ کیوں عثمان کے بارے میں کچھ نہیں کہتے ہو؟
----------------
۱۔الریاض النضرة، ج ۲/ ص ۷۲۔
۲۔ الریاض النضرة،ج ۲/ ص ۷۲۔

اس نے کہا: اگر میں ایساکروں تو عثمان، ابو معیط کی اولاد کو لوگوں کی گردن پر سوار کردے گا ۔
کہا گیا : زبیر کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
اس نے کہا: وہ راضی حالت میں مؤمن صفت ہے او رغضب کی حالت میں کافر۔
کہا گیا : طلحہ ؟
اس نے کہا: اس کی ناک آسمان تک لمبی ہے اور اس کا مقعد پانی میں ہے
کہا گیا : سعد؟
اس نے کہا؛: وہ ایک لشکر کی سرکردگی کا سزاوارہے مگر دسویں حصہ کی فرمانروای اس کیلئے زیادہ ہے ۔
کہا گیا : عبد الرحمان ؟
اس نے کہا: اگر وہ اپنے اہل و عیال کوادارہ کرسکے تو کافی ہے ۔
ابن میمون سے روایت ہے کہ عمر نے شوریٰ کو چھ افرد پرچھوڑدیا اور کہا عبید اللہ بن عمر بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہے لیکن وہ امیدوار بننے کا حق نہیں رکھتا ہے ۱
بلاذری نے کتاب انساب الاشراف، ج ۵/ ص ۱۸ میں ابو مخنف سے روایت کی ہے: عمر بن خطاب جب زخمی ہوئے تو اس نے عبد للہ بن جدعان کے آزاد کردہ غلام صہیب کو حکم دیا تا کہ مہاجر و انصار کے بزرگوں کو عمر کے پاس بلالائے جب وہ سب اس کے پاس جمع ہوئے توعمرنے ان سے کہا:
-----------------
۱۔ انساب الاشراف ،ج ۵ ص ۱۷۔

میں نے اپ لوگوں کا کام مہاجرین کی ایک چھ رکنی شوریٰ کے سپرد کردیا ہے وہ ہجرت میں سبقت رکھتے ہیں اور رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم اپنی رحلت کے وقت ان سے راضی تھے ، میں نے ان سے کہا ہے کہ اس شوریٰ میں سے کسی ایک کو اپنے پیشوا کے طور پر منتخب کریں اس کے بعد عمر نے ان میںکچھ افراد کا نام لیا اس کے بعد ابو طلحہ زید بن سہل خزرجی کو حکم دیا تا کہ انصار میں سے پچاس افرادکو منتخب کرکے اپنے ساتھ رکھے ، اور کہا: جب میں وفات پاؤں تو شوریٰ کے چھ افرد کو مجبور کرنا تا کہ جتنا ممکن ہوسکے جلدی اپنے میں سے ایک کو امت کی رہبری کیلئے چن لیں اور شوریٰ کا جلسہ تین دن سے زیادہ طولانی نہیں ہونا چاہئے اور صہیب کو حکم دیا کہ نماز جماعت کی امامت خود سنبھالے تا کہ شوریٰ خلافت کا مسئلہ حل کرے ۔
جس وقت عمر یہ احکام جاری کررہے تھے ، طلحہ بن عبد اللہ ” سراہ“ میں اپنے کھیت میںتھا اور مدینہ میں موجود نہ تھا ۔
لہذا عمر نے کہا: ا گر طلحہ ان تیں دنوں کے جلسہ کے دوران آگیا تو بہتر ورنہ اس کا انتظار نہ کرنااور کام کو آگے بڑھانا۔ جس پر بھی اتفاق ہواس کی بیعت کرنا جو بھی اس کی مخالفت کرے اس کا سر تن سے جدا کرنا۔
راوی کہتا ہے کہ ایک قاصد کو طلحہ کے پاس بھیجاگیا تا کہ فوری طور پر اپنے آپ کو مدینہ پہنچادے لیکن وہ اس وقت مدینہ پہنچا جب عمر اس دنیا سے جاچکے تھے اور لوگوں نے عثمان کی بیعت کرلی تھی اورطلحہ اپنے گھر میں بیٹھا رہااور بولا :
کیا مجھ جیسے پر رائے تھونپی جاسکتی ہے ؟
لہذا عثمان طلحہ کے پاس آئے ، طلحہ نے ان سے کہا؛ اگر میں شوریٰ کی رائے قبول نہ کروں تو کیا تم خلافت کو واپس کردوگے ۱
اس نے کہا: جی ہاں
طلحہ نے کہا: لہذا میں دستخط کرتا ہوں ، اس طرح اس نے عثمان کی بیعت کی ۲ عبد اللہ بن سعد بی ابن سرح کہتا ہے : جب تک طلحہ نے یہ کام انجام نہیں دیا تھا میں اس تشویش میں تھا کہ ایسانہ ہو کہ بیعت ٹوٹ جائے اور یہ اسی لئے تھی کہ عثمان طلحہ کو ہمیشہ ا حترام کی نظر سے دیکھتے تھےتا وقتیکہ انھیں اپنے گھر میں محاصرہ کیا گیا اور اس دن طلحہ دوسروں سے زیادہ عثمان کی دشمنی کا مظاہرہ کررہاتھا ۔
بلاذری انساب الاشراف میں روایت کرتے ہوئے کہتا ہے : عمر نے حکم دیا کہ اقلیت کو اکثریت کے تابع رہنا چاہئے اور جو کوئی بھی تم لوگوں کی مخالفت کرے اس کا سر قلم کردو ۳ابو مخنف سے روایت کی گئی ہے کہ عمر نے شوری کے ارکان کو حکم دیا کہ تین دن تک اپنے کام میں مشورہ کریں اگر دو افراد نے ایک کے حق میں اور دوسرے دو افراد نے دوسرے کے حق میں رائے دیدی تو شوریٰ کی رائے گیری دوبارہ انجام دی جائے اگر چارافراد نے کسی ایک کے حق میں رائے دی اور ایک نے
-----------------
۱۔انساب الاشراف ،ج ۵ والعقدا لفرید ج ۳/ ۷۳۔
۲۔العقدا لفرید ، ج ۳/ ۲۰۔
۳۔ انساب الاشراف ،ج ۵ ،ص ۸ لیتبع الاقل الاکثر فمن خالفکم فاضربوا عنقہ ۔

رائے مخالف دی تو چار افراد کی رائے کے تابع ہونا چاہئے اور اگر ووٹ دو ،دو یا تین تین کرکے تقسیم ہوجائےںتو اس طرف کو ترجیح دی جانی چاہئے جس میں عبدا لرحمان بن عوف شامل ہو ، کیونکہ اس کی دیانت اور رائے زیادہ مورد اعتماد ہے جو اسے مسلمانوں کے لئے اختیار کرے وہ امین ہے ۱ عقد الفرید میں بھی تقریباً یہی مضمون آیا ہے ۱
ابن سعد نے ایک دوسری روایت میں ذکر کیاہے کہ عمر نے کہا؛ اگر آراء دو اورتین میں تقسیم ہوئے تو اس طرف عبدالرحمان بن عوف ہو اسکی اطاعت کریں ، اس کے فرمان پر کان دھرنا اور حکم کا انتظار کرنا ۲
بلاذری نے روایت کی ہے کہ عمر نے کہا؛ لوگ کہتے ہیں کہ ابوبکر کی بیعت ہاتھ سے چلی جائے گی لیکن خداوند عالم نے اس شر سے بچالیا عمر کی بیعت مشورہ کے بغیر انجام پائی لیکن اس کے بعد بیعت کا کام شوریٰ کو سونپا گیا اگرچار افراد نے ایک طرف رائے دی تو دیگر دو افراد کو ان کی پیروی کرنا چاہئے اور اگر ووٹ تین اور تین میں مساوی تقسیم ہوئے تو عبدالرحمان بن عوف کی رائے کے تابع رہنالہذا س کے حکم کی اطاعت کرنا اگر عبدا لرحمان بن عوف نے اپنا ایک ہاتھ بعنوان بیعت کسی
ایک کے ہاتھ میںد یدیا تو اپ کو اسکے تابع رہنا چاہئے ۳
متقی ہندی نے روایت کی ہے کہ عمر نے کہا؛ اگر عبدالرحمان بن عوف نے اپنا ایک ہاتھ کسی کے
---------------
۱۔ انساب الاشراف ،ج ۵/ ۱۸۔
۲۔العقد الفرید ،ج ۳/ ۷۴۔
۳۔ طبقا ت ابن سعد ،ق ۱ ج ۳ ص ۴۳۔

ہاتھ میں بیعت کے عنوان سے دیدیا تو تم بھی بیعت کرو۱
اور اسلم سے روایت کی گئی ہے کہ عمر بن خطاب نے کہا جس کی عبدالرحمان بیعت کرے تم بھی اس کی بیعت کرو اورجو بیعت سے انکار کرے اس کا سر قلم کردو۲
ان تمام روایتوں سے معلوم ہوتا کہ خلیفہ نے انتخاب کے کام کو فقط عبد الرحمان بن عوف کے ہاتھ میںسونپا تھا اور چھ رکنی شوریٰ صرف کام کو مستحکم کرنے کیلئے تھی اور دوسروں کو عمرکے ولی عہد کی خواہ ناخواہ بیعت کرنی چاہئے اور یہ منصوبہ علی علیہ السلام کے نقطہ نظر سے بھی پوشیدہ نہیں تھا ، کیونکہ بلاذری روایت کرتا ہے کہ علی نے جب عمر کی بات کو ان لوگوں کی حمایت میں سنا جن کے ساتھ عبدا لرحمان بن عوف ہو تو اپنے چچا عباس سے اس حکم کی شکایت کرتے ہوئے کہا: خدا کی قسم کام ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ۔
عباس نے کہا: میرے بھتیجے ! یہ بات کہاں سے معلوم ہوئی ؟
علی علیہ السلام نے کہا؛ اس لئے کہ سعد اپنے چچیرے بھائی عبدالرحمان کی مخالفت نہیں کرے گا اور عبدالرحمان عثمان کا دوست اور اس کا داماد ہے اس صورت میںا ن میں سے کوئی ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کرے گا ، بالفرض اگر طلحہ و زبیر مجھے اپنااپنا اووٹ دیدیں چونکہ عبدالرحمان دیگر تین افرد کے ساتھ ہوگا اس طرح طلحہ و زبیر کی موافقت مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی ۳
----------------
۱۔ انساب الاشراف ،ج ۵ ص ۱۵۔
۲۔ کنز ل العمال ،ج ۳/ ۱۶۰۔
۳۔ کنز العمال ،ج ۳/ ص ۱۶۰ بایعولمن بایع عبدالرحمن بن عوف فمن ابی فاضربوا عنقہ ۔

ابن کلبی نسابہ نے کہاہے : عبدا لرحمان بن عوف ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط کا شوہر ہے اور ام کلثوم کی ماں ” اروی “ ”گیرز “ کی بیٹی ہے اور عثمان کی ماں ہے لہذا علی علیہ السلام نے فرمایا: عبدالرحمان عثمان کا داماد ہے،اور عقدالفرید میں بھی تقریباً اسی مضمون کی روایت نقل ہوئی ہے ۲
بلاذری نے ابو مخنف سے روایت کی ہے : علی کو اس بات کا ڈر تھاکہ عبدالرحمان ، عثمان اور سعد آپس میںمتفق ہیں۔ لہذا حسن و حسین کو ہمراہ لیکر سعد کے پاس گئے اور ا س سے کہا؛ اے ابو اسحق! میرا تجھ سے یہ مطالبہ ہے کہ اپنے چچیرے بھائی کو چھوڑ کر میری حمایت کرویا مجھے اس پر ترجیح دیکر میری بیعت کرو اور اسے چھوڑدو اور میں تجھ سے امید رکھتا ہوں کہ اگر عبدالرحمان نے چاہا کہ تجھے عثمان کو رائے دینے والوں میں تیسری فردقرار دے تو تم منظور نہ کرنا، کیونکہ رشتہ کے لحاظ سے میں عثمان کی نسبت تیرے نزدیک ہوں، علی علیہ السلام نے سعد کو اپنے اور اس کے درمیان خاندانی رشتہ ، حسن و حسین کے ساتھ رشتہ ، رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی والدہ ، آمنہ ، جو بنی زہرہ قبیلہٴ سعد سے تھی کے رشتہ کا واسطہ دیکر قسم دیا ۔
سعد نے کہا؛ جو آپ نے فرمایا اس پر میں عمل کروں گےا۲ ۔
جب سعد عبدالرحمان کے پاس آیا تو عبدلرحمن نے سعد سے کہا؛ آؤ تا کہ شوریٰ تشکیل دیں گے ۔
-------------------
۱۔انساب الاشراف ،ج ۵ ص ۱۹۔
۲۔العقد الفرید ،ج ۳/ ص ۷۴۔

سعد نے کہا: اگر مجھ سے چاہتے ہو کہ میں تیرے حق میں ووٹ دوں اور عثمان کو نہ دوں تب تومیں مؤافق ہوں ، لیکن اگر چاہتے ہو کہ کام عثمان کے ہاتھ میںد یدیا جائے تو ، علی علیہ السلام اس سے سزاوا تر ہیں او رمیں انھیں عثمان سے لائق تر جانتا ہوں ۔
راوی کہتا ہے ؛ ابو طلحہ ان کے نزدیک آیا اور انھیں مجبور کیا کہ جتنا جلد ممکن ہوسکے شوریٰ کاکام نپٹالو۔
عبد الرحمان نے کہا: اے جماعت ! عجیب بات ہے کہ میں مشاہدہ کرتاہوں تم لوگ اس کام کے بارے میں لالچ دکھارہے ہو لیکن کام کو یقینی بنانے میں تاخیر کررہے ہو ! خدا تمہیں بخش دے لگتا ہے جیسا کہ تم میں سے ہر ایک کے سر میں خلیفہ بننے کا خیال موجود ہے ؟
ابو طلحہ اس صورتِ حال کو دیکھ کر روپڑااور کہا: ان کے بارے میں میرا گمان اور تصور یہ تھاکہ اس لالچ کے برخلاف مشاہدہ ہو خاص کر میں ڈرتاتھا کہ کوئی بھی ایک دوسرے کے دباؤمیں نہ آکر مسئلہ کو ایک دوسرے کے سر تھونپیں گے، پھر بلاذری مدائنی سے روایت کرتا ہے عمر نے اپنے بیٹے کو شوریٰ میں شامل کیا اس شرط پر کہ اسے ووٹ دینے کا حق ہوگا امیدوار بننے کا نہیں ۔
ابو الحسن مدائنی کہتا ہے ؛ ابن عمر نے اس شرط پر شوریٰ میں شرکت نہیں کی ۱
ابی مخنف سے روایت کرتا ہے جب عمر کو دفن کیا گیا اور صہیب بن سنان نے اسکی نماز جنازہ
----------------
۱۔ انساب الاشراف ،ج ۵ ص ۲۱۔

پڑھی اوراصحاب شوریٰ نے اس رات جلسہ منعقد کرنے سے پرہیز کیا ور جب صبح ہوئی تو ابو طلحہ نے انھیں بحث و تمحیص کیلئے بیت المال کے مقام پر جمع کیا ۔
راوی کہتا ہے: جب عبدالرحمان نے دیکھا کہ ہر ایک سرگوشی کرنے میںلگا ہے اور ہر ایک اس بات کی کوشش میں لگا ہے کہ دوسرے کو خلافت کے عہدے سے محروم کردے ، اس نے ان سے مخاطب ہوکر کہا؛ حضرات ! میںا ور سعد آپ چار افراد کے حق میں کنارہ کشی کرتے ہیں لیکن اس شرط پر کہ تم چار افراد میں سے ایک کو میں منتخب کروں ، مذاکرات کافی طولانی ہوئے ہیں لوگ منتظر ہیں کہ انتخاب کا نتیجہ اعلان ہوجائے تا کہ اپنے خلیفہ اور امام کو پہچان لیں نیز قصبوں کے باشندے بھی اسی کے انتظار میں بیٹھے ہیں وہ واپس اپنے گھروں کو جانا چاہتے ہیں سب نے اسکی اس تجویز سے اتفاق کیا صرف علی علیہ السلام نے موافقت نہیں کی اور کہا جب تک نہ دیکھوں
اسی اثناء میں ابو طلحہ آیا ، عبدالرحمان نے اپنی تجویز اس کے سامنے پیش کی اور اضافہ کیا کہ علی کے علاوہ اس پر سب متفق ہیں ۔
ابو طلحہ نے علی سے مخاطب ہوکرکہا : اے ابوالحسن تم جانتے ہو کہ ابو محمد عبد الرحمان تمہارے اور تمام مسلمانوں کے نزدیک مورد اعتماد ہے تم کیوں اس کی مخالفت کرتے ہو۔
اسکے بعد علی علیہ السلام نے عبدالرحمان بن عوف کو قسم دلائی کہ اپنی مرضی کے مطابق عمل نہ کرے،بلکہ حق کو مقدم قرار دے کر لوگوں کے فائدے کی کوشش کرے اور اپنے رشتہ داروں کی طرفداری نہ کرے ، عبدالرحمان نے بھی قسم کھائی ۔
اس کے بعد علی علیہ السلام نے کہا: انتخاب کرو، کامیاب رہو گے ! یہ قضیہ بیت المال کی جگہ پر انجام پایا ، کہا گیا ہے کہ روداد مسور بن مخزمہ کے گھر پر واقع ہوئی اس کے بعد عبد الرحمان نے ان میں سے ہر ایک کو بڑی بڑی اور شدید قسمیں دلائیں اور ان سے عہد و پیمان لیا کہ جس کسی کی بھی وہ بیعت کرے دوسرے لوگ مخالفت نہیں کریں گے اور جو بھی مخالفت کرنا چاہے دوسرے لوگ عبد الرحمان کی حمایت کریں گے ، اسی صورت میں سب نے حلف لیا ، اس کے بعد عبد الرحمان نے علی علیہ السلام کے ہاتھ کو پکڑ کر ان سے کہا: اپنے خدا سے عہدو پیمان کریں کہ اگر میں نے آپ کی بیعت کی تو آپ اولاد ابی طالب کو لوگوں کی گردن پر سوارنہیں کریں گے اور رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی سیرت پر کمی بیشی کے بغیر عمل کرو گے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کریں گے۔
علی علیہ السلام نے کہا: میں ہرگز خدا سے ایسا عہد وپیمان نہیں کروں گا جسے نہ خود انجام دے سکوں اور نہ کوئی اور کون اس دعویٰ کا حق رکھتا ہے کہ وہ سیرت رسول خدا پر عمل کرے گا؟ لیکن جس چیز کا میں عہدکرتا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں تک میری سعی و کوشش کے دائرے میں ہو اور امکانات مجھے اجازت دیں اور اپنے فریضہ کو تشخیص دوںگا ، سیرت رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے مطابق انجام دوں گا۔
عبد الرحمان نے جب یہ جواب سناتو علی علیہ السلام کا ہاتھ چھوڑدیا اور اس کے بعد عثمان کی حلف برداری کا کام انجام پایا اور اس سے عہد و پیمان لے لیاکہ بنی امیہ کو لوگوں کی گردن پر سوار نہ کرے اور رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم ، ابو بکر اور عمر کی سیرت پر چلے اور کسی قسم کی مخالفت نہ کرے، عثمان نے بھی انھیں شرائط پر قسم کھالی علی علیہ السلام نے کہا: ابو عبدالله ( عثمان ) ! جو تم چاہتے تھے وہ تجھے دیدیا گیا ، اپنا حال بہتر جانتے ہو ، اس کے بعد عبدالرحمان دوبارہ پلٹ گیا اور علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر عثمان کو دی گئی قسم کی طرح علی علیہ السلام سے پھر پیشکش کی یعنی رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم ، ابو بکر اور عمر کی سیرت کی مخالفت نہ کریں گے ۔
علی علیہ السلام نے کہا: میں ا پنے اجتہاد پر عمل کرنے کا عہدکرتا ہوں ۔
عثمان کہتا تھا : جی ہاں اس عہد و پیمان پر میں عمل کروں گا جس طرح شدید ترین عہد وپیمان کو خداوند عالم نے اپنے انبیاء سے لیا اور عہد کرتا ہوں کہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم ، ابو بکر اور عمر کی سیرت سے کسی قسم کی مخالفت نہیں کروں گا اوراسکے انجام دینے میں کوتاہی نہیں کروں گا۔
اس کے بعد عبدالرحمان نے عثمان کی بیعت کرکے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا ، شوری کے ارکان نے بھی بیعت کی ، علی علیہ السلام جو اس وقت تک کھڑے تھے ، بیٹھ گئے ، عبد الرحمان نے علی علیہ السلام سے کہا: بیعت کرو ورنہ سر تن سے جدا کردوں گا ، عبدالرحمان نے جس وقت یہ بات علی علیہ السلام سے کہی ، عبد الرحمان کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں تلوار نہیں تھی ، بعض لوگوں نے کہا علی علیہ السلام غضبناک حالت میں مجلس سے اٹھ کر چلے گئے اور اصحاب شوریٰ علی علیہ السلام کے پیچھے چلے اور ان کے نزدیک پہنچ کر کہا: بیعت کرو، ورنہ ہم تیرے ساتھ لڑیں گے ، علی علیہ السلام ان کے ساتھ پلٹے اور عثمان کی بیعت کی ۱
بلاذری نے واقدی سے روایت کی اور کہا: جب انہوں نے عثمان کی بیعت کی تو عثمان باہر آیا تا کہ لوگوں سے مخاطب ہوکر تقریر کرے ، اس کے بعد خدا کی حمد و ثنا کی اور بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: اے لوگو ! کسی بھی مرکب پر سوار ہونے میں ابتداء میں مشکل ہوتی ہے اس کے بعد ہمارے سامنے انتہائی مشکل دن ہیں ، اگر میں زندہ رہا تو آپ لوگوں کیلئے ایک تقریر کروں گا ، میں آج تک خطیب نہیں تھا ، اور خدا مجھے تقریر کرنا سکھادے گا۲
ابن عبدربہ کہتا ہے : عثماں من جملہ ان افراد میں سے تھا جو تقریر کرتے وقت اضطراب اور غلطی کا شکار ہوتے تھے یہ عثمان تھا جس نے کہا: اے لوگوں ) تا آخر حدیث۔۳
البیان و التبیین “ میں ہے کہ عثمان منبر پرگئے اورخطاء و غلطی سے دوچارہوئے تو کہا : اے لوگو! بے شک ابو بکر اور عمر یہاں کیلئے خطبہ آمادہ کرتے تھے تا آخر حدیث۔
ابو مخنف سے روایت ہے ، جب عثمان منبر پرگئے ، کہا؛ اے لوگو ! یہ وہ جگہ ہے جس کیلئے میں نے خطبہ آمادہ نہیںکیا ہے اورتقریر نہیں کی ہے ، انشاء اللہ جلدی ہی واپس آکر تقریر کروں گا۔
---------------
۱۔ انساب الاشراف ،ج ۵/ ص ۲۱ کے بعد ۔
۲۔ انساب الاشراف ،ج ۵ ۲۴ ان عثمان لما بویع خرج الی الناس فخطب فحمد اللہ و اثنی علیہ ثم قال : ایھا الناس ان اول مرکب صعب و ان بعد الیوم ایاماً و إن اٴعش تاتکم الخطبة علی وجھھا فما کنا خطباء و سیُعلّمنا الله
۳۔ عقد الفرید ،ج ۲/ ۴۱۰۔

مزید روایت کی گئی ہے کہ عثمان منبر پرگئے اور اس کے بعد کہا: اے لوگو! مجھے تقریر کرنے کا تجربہ
نہیں ہے ، اگر زندہ رہا تو انشاء اللہ ایک اچھی تقریر سنو گے ، جو مطلب مجھے اس وقت کہنا چاہئے یہ ہے کہ تقدیر الہی کے مطابق عبید اللہ بن عمر نے ہرمزان کو قتل کر ڈالا ہے اور ہرمزان ایک مسلمان ہے اور
اس کا کوئی وارث نہیں ہے مگر یہ کہ تمام مسلمان اس کے وارث ہیں میں جو تمہارا امام اورپیشوا ہوں میں نے اسے بخش دیا ، کیا تم لوگ بھی بخشتے ہو ؟ انہوں نے کہا: جی ہاں ۔
علی علیہ السلام نے کہا: اس گناہگار سے قصاص لینا چاہئے کیونکہ اس نے ایک بڑا ظلم کیا ہے اور ایک مسلمان کا بے گناہ قتل کیا ہے اس کے بعد عبدا للہ کی طرف رخ کرے کہا: اے فاسق! اگر کسی دن میرے ہاتھ تجھ تک پہنچے تو تجھے ہرمزان کے قتل کے جرم میں قتل کر ڈالوں گا ۱ اور اسی کتاب میں روایت کرتا ہے کہ عثمان نے تقریر کی اور کہا: ابو بکر و عمر جب بھی تقریر کرنا چاہتے تھے ، پہلے ، اسے تیار کرتے تھے ، ہمارے لئے بھی خدا ٹھیک کرتا ہے ۱
ابن سعد نے اس خطبہ کو اپنی ” طبقات “ میں عثمان کی تشریح میں بیان کیا ہے ۔

سیف کی روایت کی جانچ پڑتال اور بحث کا نتیجہ
جن روایتوں کو ہم نے ذکر کیا اور ان کے علاوہ شورای کی داستان کے بارے میں دوسری روایتوں کو آپس میںملا کر طبری نے ان میں سے بعض کو اس قدر خلاصہ کرکے نقل کیا ہے کہ اس سے
--------------
۱۔ البیان و التبین، ج ۲ ص ۲۵۰۔

مفہوم میں خلل واقع ہوتا ہے اس نے ان سے ایک ہی طرز پر نقل کیا ہے اورعثمان کے خطبہ میں صرف سیف کی روایت پر اکتفاء کیا ہے۱
ہم نے خاص طورپر شوری کی داستان سے متعلق روایات کی ایک جھلک کو بیان کیا مقصد یہ تھا کہ صحیح روایتوں اور سیف کی اس موضوع پر نقل کی گئی روایتوں کے درمیان ایک موازنہ ہوجائے ہم اصل موضوع میں داخل ہوکر شوری کی رودا کو تجزیہ و تحلیل کرکے مؤرخین کے بیانات اور اس سلسلے میں لکھی گئی کتابوں کے بارے میں مناقشہ میں پڑنا نہیں چاہتے اور انشاء اللهاس موضوع پر آئندہ سقیفہ کے قضیہ اورشوریٰ کے عنوان سے بحث و تحقیق کریں گے ۔
سیف نے مذکورہ موارد کے علاوہ سینکڑوں روایتیں جعل اور تحریف کی ہیں ان میں تاریخی حوادث کو تحریف کرکے اور بانفوذ افراد، سپہ سالاروں اور وقت کے اعلیٰ طبقہ کے افرادکا دفاع کرتے ہوئے اپنی جعلی احادیث پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
لہذا بعض نامور مؤرخین، من جملہ طبری نے اس قسم کی روایتوں کو منتشر کرنے میں دلچسپی دکھائی ہے ، یہاں تک طبری نے ۱۱ھء سے ۳۷ ھء تک کے حوادث کو انہیں روایتوں سے نقل کیا ہے جو بھی تاریخ طبری کے اس حصہ کی طرف رجوع کرے گا اسے معلوم ہوگا کہ اس مدت کے دوران جعل و تحریف کا کام کس قدر وحشت و خطرناک حد تک پہونچ گیا تھا۔
-------------
۱۔ انساب الاشراف ،ج ۵/ ۲۵۔