ابو محجن کی شراب خواری کی داستان
ان کانوا شربوھا مستحلّین لھا ان یقتلوا و ان کانو شربوھا وھم یؤمنون انھا حرام ان یحدّوا
اگر انہوں نے شراب کوحلال جان کر پیا ہے تو ان کا قتل واجب ہے اور اگر حرام جان کر پیا ہے تو ان پر حد جاری کی جائے گی
علی علیہ السلام
سیف کے علاوہ دوسروں کی روایت میں ابو محجن کی داستان
ابو محجن ثقفی ، حبیب بن عمر بن ثقفی کا بیٹا ہے ، جب قبیلہ ثقیف نے اسلام قبول کیا تو وہ بھی مسلمان ہوا ، وہ شاعر اور ایک دلاور مرد تھا، دوران جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں میں بہادر شمار ہوتاتھا ، وہ ہمیشہ شراب پیتا تھا ، خلیفہ عمر ابن خطاب نے اس پر شراب نوشی کے جرم میں سات یا آٹھ بار حد جاری کی تھی ۔
ابوا لفرج اصفہانی، ”الاغانی“ میں کہتا ہے :
ابو محجن کو شراب پینے والوں کے ایک گروہ کے ساتھ عمر ابن خطاب کے پاس لایا گیا ،
عمر نے اس سے کہا: کیا تم نے شراب پی ہے جبکہ خدا اور اسکے رسول نے اسے حرام قرار دیا ہے ؟ اس نے جواب میںکہا؛ نہ خدا نے اسے حرام کیاہے اور نہ ہی اس کے رسول نے ۱ کیونکہ خداوند عالم فرماتا ہے :
<لَیسَ علیٰ الّذین آمنوا و عَمِلوٰ الصالحات جناح فیما طعموا اذا ما اتقوا و آمنوا و عملوا الصالحات >۲
یعنی جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ان کیلئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جو کچھ کھا، پی چکے ہیں جب کہ وہ متقی بن گئے اور ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے“
عمر نے اپنے طرفداروںکی طرف رخ کرکے کہا؛ ان کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ ہر ایک نے کچھ نہ کچھ کہا، تو عمر نے ایک شخص کو علی (ع) کے پاس بھیجا، اور اس سلسلہ میں آپ سے مشورہ کیا، علی علیہ السلام نے کہا اگر تمہاری مرادیہ ہیکہ اس آیت کے بارے میں یہ لوگ کہتے ہیں، انکو مردار،خون اور سؤر کے گوشت کو بھی حلال قرار دینا چاہئے جب انہوںنے یہ جواب آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے سنا اسلئے خاموش ہوگئے ، اس کے بعد عمرنے، علی علیہ السلام سے مخاطب ہوکر کہا: آپ کا نقطہٴ نظر کیا ہے؟ علی علیہ السلام نے کہا: میرا نظر یہ یہ ہے کہ اگر شراب کو حلال جان کر پیاہے تو اسے قتل کیا جاناچاہئے اور اگر اسے حرام جان کر پیا ہے تو ان پر حد جاری کرنی چاہئے عمر نے ایک جماعت سے پوچھا تو انہوں نے کہا: خدا کی قسم ہم اس کے حرام ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں
----------------
۱۔ ماحرم اللہ و لارسولہ
۲۔ سورہ مائدہ/آیت ۹۳
رکھتے تھے اور جو کچھ ہم نے کہاوہ شرعی قانون سے فرار کےلئے تھا تا کہ ہم پر تازینے نہ لگیں ، عمر نے ان میں سے ایک ایک پر حد جاری کی اور ہر ایک ان میں سے حد کھانے کے بعد باہر چلا جاتا تھا ، یہاں تک ابو محجن کی باری آگئی جب اس پر کوڑے پڑے تو ا سنے درج ذیل اشعار پڑھے ۱
الم تر اں الدہر یعثر بالفتی
و لا یستطیع المرء صرف المقادر
صبرت فلم اجزع و لم اک کائعاً
لحادث دھر فی الحکومة جائر
و انّی لذو صبر و قد مات اخوتی
و لست عن الصھباء یوماً بصابر
رماھا امیر المؤمنین بحتفھا
فخلانّھا یبکون حول المعاصر
ترجمہ
” کیا تم نے نہیں دیکھا کہ زمانہ، جوان مرد کو لغزش سے دوچار کرتا ہے اور انسان تقدیر کو بدل نہیں سکتا ، میں نے بردباری سے کام لیا ور بے صبری کا مظاہرہ نہیںکیا اور زمانہ کے حوادث ، جو ہمیشہ حکومت کے ظلم سے رونما ہوتے ہیں سے نہیں ڈرا،میں باوجود اس کے کہ اپنے بھائیوں سے ہاتھ دھو بیٹھا ہوں لیکن ان کی جدائی کی مصیبت میں صبر کادامن نہیں چھوڑا ہے لیکن شراب سے جدائی کا تحمل یاایک دن کیلئے میرے لئے ناقابل برداشت ہے امیر المؤمنین نے اسے نابود کردیا اورشراب کے دلداد ہ شراب کی مشین کے گرد آنکھوں سے شوق کے آنسو بہارہے ہیں “
-----------------
۱۔ سیف نے اس داستان میںبھی تحریف کی ہے اور اشعار کو بھی دوسرے کی طرف نسبت دی ہے۔ طبری، وقائع، ۱۸ ج ۴ ص ۲۲۲۔
عمر نے جب ابو محجن کا کلام سنا، تو کہا جو کچھ تیرے دل میں تھا کہ جس سے ہم بے خبر تھے تم نے آشکار کردیا ، مجھے تیر ی سزا کو یقینا شدید کرنی چاہئے تھی، چونکہ تم مئے نوشی پر اصرار کرتے ہو ، علی علیہ السلام نے فرمایا: تم ایسا حق نہیں رکھتے ہو اورجائز نہیں ہے کہ ایک شخص کو زبان پر جاری کرنے کے جرم میں سزادو جبکہ وہ جرم کا مرتکب نہیں ہو ا چونکہ کہ خداوند عالم شاعروں کے بارے میں فرماتاہے:
<إنَّھم یَقولوَن ما لا یفعلون > ۱
وہ جو کام نہیں کرتے ہیں کہتے ہیں۔
عمر نے کہا : خداوند عالم نے ان میں سے ایک جماعت کو مستثنی قرار دیا ہے اور فرمایا <الاالذین آمنوا و عملوا الصالحات > ۲جو لوگ ایمان لائے اور انہوںنے نیک اعمال کئے ) علی علیہ السلام نے فرمایا : کیاتم ان شراب خواروں کو مؤمنین سے صالح تر جانتے ہو؟ یا یہ کہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ” بندہ ایمان کی حالت میں شراب نہیں پیتا ہے “ ۳
اور الاصابہ میں ہے کہ ابو محجن عمر کے پاس گیا ، عمر نے گمان کیا کہ ابو محجن نے شراب پی ہے ، حکم دیاکہ اس کے منہ کو سونگھا جائے ، ابو محجن نے کہا: تیرا کام وہی تجسس ہے جسے منع کیا گیاہے ، پس عمر نے اسے چھوڑدیا ۔
طبری نے ۱۴ ھ کے وقائع بیان کرتے ہوئے روایت کی ہے : اسی سال عمر نے اپنے بیٹے اور
-----------------
۱۔ سورہ الشعراء/آیت ۲۲۶۔
۲۔ سورہ الشعراء/آیت ۲۲۷۔
۳۔ الاغانی ، ج ۱۹، ص ۱۴۳ ۔
اس کے دوستوں کو ابو محجن کے ہمراہ شراب پینے کے جرم میں حد جاری کی ۱ اور ابن کثیر نے کہا ہے : اس سال ابو محجن ثقفی پر مئے نوشی کے جرم میں سات بار حد جاری کی گئی۲
عقد الفرید میں باب ” اعیان و اشراف “ میں جن پر حد جاری کی گئی ہے اور اسی وجہ سے مشہور بھی ہوئے ہیں کے بارے میں کہاہے ؛ من جملہ ان میں ابو محجن ثقفی تھا اور وہ شراب پینے کا انتہائی شوقین تھا، سعد بن ابی وقاص نے اس سبب سے چند بار اس پر حد جاری کی تھی ۔
اس کے علاوہ الاصابہ اور الاغانی میں آیاہے کہ ابو محجن ” شموس“ نامی ایک عورت پر فریفتہ ہوگیا تھا ، اس سے ملنے کیلئے اس نے ہر بہانہ سے کام لیا لیکن کامیاب نہ ہوا ، آخر کار ایک معمار کا شاگرد بن گیا جو اس عورت کے ایک ہمسایہ کی دیوار تعمیر کررہا تھا اور اس طرح اس گھر کی کھڑکی سے اپنی محبوبہ کو دیکھنے میں کامیاب ہوا اور ا س سلسلہ میں یہ اشعار کہے:
و لقد نظرت الی الشموس و دونھا
حرج من الرحمن غیر قلیل
قد کنت احسبنی کا غنی واجد
و رد المدینة عن زراعة فول
ترجمہ
” میں نے شموس کے چہرہ پر ٹکٹکی لگائی، جبکہ میں خداکی نہی سے آگاہ تھا ، جب میں مدینہ میں آیا تو ا سکے جمال پر نظر ڈالے ہوئے تھا، خود کو ایک دولتمند کسان تصور کرتا تھا کہ جسے باقلہ اور مٹرکی کھیتی
---------------
۱۔ تاریخ طبری ،ج ۴/ ۱۵۲۔
۲۔ البدایة و النہایة، ج ۷/ ۴۸۔
کرنے کی ا حتیاج نہیں ۱
اس عورت کے شوہر نے عمر کے پاس اس کی شکایت کی ، عمر نے ابو محجن کو ”حضوضی“ ۲ نامی جگہ پر جلا وطن کیا اور ابن جھراء نصری نامی ایک شخص کو ایک دوسرے آدمی کے ساتھ اس کے ہمراہ بھیجا ، اور حکم دیدیا کہ ابومحجن کو تلوار اپنے ساتھ اٹھانے کی اجازت نہ دیں ۔
ابو محجن نے تلوار کو ایک تھیلی میں اوراس کے غلاف کو ایک دوسری تھیلی میں رکھا جس میں آٹا تھا ، جب ساحل کے نزدیک پہنچا ، ابو محجن نے ایک بھیڑ خرید کر ابن جہراء سے کہا؛ آؤذرا کھانا کھاتے ہیں، اور خود تیزی کے ساتھ اٹھ کر تھیلی کے پاس گیا ، اور اسی بہانے تلوار کو تھیلی سے نکال کر ہاتھ میں لے لی ، ابن جہراء نے جب ابو محجن کو تلوار ہاتھ میں لئے دیکھا، تو باہرنکل کر بھاگ گیا یہاںتک اونٹ پر سوار ہوکر واپس عمر کے پاس آگیا اوراسےساری رپورٹ پیش کی۔
الاصابہ اور استیعاب میں یوں بیان ہوا ہے کہ اس واقعہ کے بعد ابو محجن سعد بن وقاص کے پاس گیا ، اتفاقاً یہ زمانہ ایران سے جنگ یعنی جنگ قادسیہ کا تھا ، محمد بن سعد ابن ابی وقاص سے روایت کی گئی ہے کہ اس نے کہا: جنگ قادسیہ میںا بو محجن کو سعد کے پاس لایا گیا جبکہ وہ شراب پی کرمست تھا ، سعد نے حکم دیا کہ اسے زنجیر میں باندھا جائے ، اس دن سعد بدن پر ایک زخم لگ جانے کی وجہ سے میدان میں نہیں آیا اور خالد بن عرفطہ کو سوار فوجیوں کا کمانڈر مقرر کیا اور اپنے لئے ایک ایسی
---------------
۱۔ الاغانی ج ۱۹/ ۱۳۸۔
۲۔حصوصی ایک پہاڑ کا نام ہے جو جزیرہ میں واقع ہے یہ جاہلیت کے زمانے میں عربوں کیلے جلا وطنی کی جگہ تھی ۔
جگہ منتخب کرلی جہاں سے لشکر گاہ پر نظر رکھ سکے ۔ جب دو فوجیں آمنے سامنے آئیں تو ابو محجن نے کہا:
کفیٰ حزناً ان تَردِی الخیل بالقنا
و اترک مشدوداً علیّ وثاقیاً
ترجمہ: اس سے بڑھ کر کیا مصیبت ہوسکتی ہے کہ سوار نیزوں کو ہاتھ میں لئے رفت وآمد کررہے ہیں او ر میرے ہاتھ پاؤں زنجیر میں باندھ کر ایک جگہ رکھ دیا ہے ۔
اس کے بعد سعد کی بیوی خصفہ سے مخاطب ہوکر بولا : افسوس ہو تم پر ! مجھے آزاد کرو ۔ میں تم لوگوں سے عہد و پیمان باندھتا ہوں کہ اگر میدان جنگ سے زندہ لوٹا تو اپنے آپ کو خود زنجیر میں باندھ لوں گا اور اگر قتل ہوا تو تم لوگ میرے ہاتھ سے نجات پاؤگے ، اس عورت نے ابو محجن کے پاؤں کی زنجیر کھول دی وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور ( بلقا نامی ) سعد کے گھوڑے پر سوار ہوکر ہاتھ میںایک نیزہ لئے ہوئے روانہ ہوا جس طرف بھی حملہ کرتا تھا دشمن کو شکست دیتا تھا لوگ کہتے تھے : یہ نصرت کا فرشتہ آیا ہے تاکہ اسلام کی مدد کرے ۔
سعد خودبھی ان حملوں کا مشاہدہ کررہا تھااور کہتا تھا : اس گھوڑے کی اچھل کود میرے گھوڑے (بلقاء ) کی جیسی ہے لیکن نیزہ مارنا ابو محجن کی نیزہ بازی جیسی ہے البتہ وہ زنجیروں میں باندھا ہوا ہے جب دشمں نے شکست کھائی تو ابو محجن واپس آیا اور اپنے پیروں میں دوبارہ زنجیر باند ھ لی ، خصفہ کی بیٹے نے اس قضیہ کو سعد تک پہونچایا تو سعد نے کہا: خدا کی قسم میں آج ایسے مرد پر حد جاری نہیں کروں گا کہ خداوند عالم نے اس کے ہاتھوں مسلمانوں کو ایسی نعمت عطا کی ہے ، اس کے بعد ابو محجن کو آزاد کردیا گیا ، ابو محجن نے کہا: جن دنوں مجھ پر حد جاری کی جاتی تھی میں شراب پیتا تھا ، اور خود کو حد کے ذریعہ پاک کرتا تھا، لیکن تم نے مجھ سے حد اٹھالی ، توخدا کی قسم میں ہرگز شراب نہیں پیئووں گا۔
سیف کی روایت میں ابومحجن کی داستان
یہ تھی محمد بن سعد کی روایت کے مطابق ابو محجن کے بارے میں قادسیہ کی داستان ، لیکن طبری کی نقل کی گئی روایت کے مطابق سیف یوں کہتا ہے :
سعد نے شورش برپا کرنے والی ایک جماعت کو گرفتار کرکے جیل میںڈالدیا اور کہا: خدا کی قسم اگر دشمن کے مقابلے میں نہ ہوتے تو تم لوگوں کو دوسروں کیلئے عبرت کا سبب بناتا، ابو محجن بھی زندانیوں میں شامل تھا ۔
ایک دوسری جگہ پر ا س سے نقل کیا گیا ہے : سعد کی بیوی کے ہاتھوں آزاد ہونے کے بعد ابو محجن قادسیہ کے دن جنگ کرکے پھر سی زندان لوٹا اور خود کو زنجیر میں باندھ لیاسلمی نے ابو محجن سے کہا: اے ابو محجن ! اس مرد نے تجھے کس جرم میں جیل میں ڈالدیا ہے ؟ اس نے جوا ب میں کہا: خدا کی قسم مجھے ایام جاہلیت کے دوران حرام چیز کے کھانے یا پینے کے جرم میں جیل میںڈالدیا گیا ہے چونکہ میں ایک شاعر ہوں اور شعر کہتا ہوں اور گاہے ان اشعار کو پڑھتا ہوں اس لئے لوگ بر ابھلا کہتے ہیں اور اسی لئے سعد نے مجھے زندان میں ڈالدیا ہے یہاں تک کہتا ہے : سلمی نے اپنے شوہر سعد سے واقعہ بیان کیا ۔ سعد نے اسے بلا کر آزاد کردیا اور کہا: جاؤ ، اس کے بعد سے جب تک کہ کوئی عملی صورت نہ ہو تجھ سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کروں گا ، ابومحجن نے کہا؛ اب جب کہ ایسا ہے تو میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ اپنی زبان کو کبھی اجازت نہیں دوں گا کہ وہ کسی بد کلامی کیلئے کھلے۔
ابوالفرج نے ابی محجن کی تشریح میں اغانی سے اور سیف کی اسی روایت کو طبری سے نقل کیا ہے-۔
ابن حجر الاصابہ میں کہتا ہے : ابن فتحون نے ابن عبد البر کی اس بات پر تنقید کی ہے کہ ابو محجن کے بارے میں کہتا ” وہ ہمیشہ شراب میں غرق رہتا تھا “ اور کہا ہے کہ یہی بیان حد جاری کرنے کیلئے کافی تھا اس سے بیشتر سزاوار نہ تھا کہ اسکے بارے میں کوئی اور بات کہتا اور بہتر یہ تھا کہ اس کے بارے میںسیف کی روایت کو نقل کرتے اس کے بعد اس نے خود ہی سیف کی روایت کو جسے ہم نے نقل کیا ہے ، نقل کیا اس کے بعد اصابہ کا مؤلف کہتا ہے : سیف ضعیف ہے اور جس روایت کو ہم نے نقل کیا ہے زیادہ معتبر اور مشہور ہے ۱
ابن فتحون کی نظرمیں جو بھی روایت کرے کہ سعد نے ابو محجن کی حد کو اٹھالیا ، صحیح نہیں ہے اور کہا ہے سعد کے بارے میں کبھی ایسا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ا س کے بعد کہتا ہے :لیکن سعد کا یہ عمل بہتر توجیہ کا حامل ہے ، مگراس توجیہ کو پیش نہیں کیا ہے ، شاید اس کا مقصود یہ ہو ، چونکہ سعد نے کہا ہے ”ابو محجن کو شراب نوشی کے بارے میں تا زیانے نہیں لگاؤں گا “ کوئی شرط مد نظر رکھی تھی اور وہ یہ کہ اگر
-----------------
۱۔ الاصابہ ج ۴/ ۱۵۷۔
ثابت ہوجائے کہ اس نے شراب پی لی ہے لیکن خداوند عالم نے ابو محجن کو توفیق عطا کی کہ اس نے مخلصانہ طور پر توبہ کی اور پھرکبھی شراب نہیں پی
مسعودی نے مروج الذہب ۱میں سیف کی روایت کو سند کے بغیر نقل کیا ہے ہماری نظر میں اسے تاریخ طبری سے نقل کیا گیا ہے کیوںکہ مسعودی نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں جہاں پر مؤرخین کی تفصیلات بیان کرتا ہے اور تاریخ کے معتبر مصادر کا نام لیتا ہے طبری کی ،کافی تجلیل کرتا ہے ، جبکہ وہاں پر نہ سیف کا نام لیا ہے اور نہ اس کی تالیفات کا ذکر کیا ہے یہ تھا سیف کی روایت کا متن اور جنہوں نے اسے نقل کیا ہے۔
سیف کی روایت کی سند کی چھان بین
روایت کی سند میں محمد ،طلحہ ، زیاد، اور ابن محراق کے نام اور اس نے قبیلہٴ طی کے ایک مرد کے ہمراہ آیا ہے ۔
” زیاد کی نسل کی اصلاح “ کے باب میں سیف کے دوراوی یعنی محمد و طلحہ کی تحقیق کی ہے لیکن زیاد سیف کی روایتوں کی سند میں زیاد، زیاد بن سرجس احمری ہے اور اس جعلی راوی کا سیف کے دوسرے راویوں کے مانند علم رجال اور سند شناسی کی کسی اور کتابوں میں کہیں نام و نشان نہیں پایا جاتا
ہے باوجودیکہ سند نمبر ۵۳ میں ذکر کی گئی روایت سیف کی کچھ روایتیں طبری میں درج ہےں لیکن ،
--------------
۱۔مروج الذھب ج ۲/ ۴۲۲۔ ۴۲۴۔
ابن محراق ، نہ وہ خود معلوم ہے اور نہ اس کا بیٹا اورنہ ہی ” قبیلہ طی کا وہ مرد ، کہ جس سے یہ گمنام باپ کا بیٹا روایت کرتا ہے ۔
متن روایت سیف کی چھان بین:
جو کچھ ہم نے لکھا اس سے معلوم ہوا کہ سیف کی روایت اور محمد بن سعد کی روایت میں کس حد تک فرق ہے ، ابومحجن سعد کی بیوی سے کہتا ہے : اگر میں قتل ہوا تو تم لو گ مجھ سے مطمئن ہوجاؤ گے اور یہ خود اس کی دلیل ہے کہ سعد کی بیوی اس امر سے مطلع تھی کہ اس کا شوہر ابو محجن سے کتنا رنجیدہ خاطر تھا ، اس کے علاوہ ابو محجن کا دائم الخمر ہونا، شراب نوشی کے جرم میں چند بار تازیانہ کھانا، شموس نامی انصار یہ عورت کے گھرمیں بری نظر سے جھانکنا اور اسکے بعد ” خضوضی“ کے لئے جلا وطن ہونا ، مامور محافط کو قتل کرنے کا قصد کرنا قادسیہ میں اس کا لشکر سے ملنا اور قادسیہ کے کیمپ میں مست ہونے کی وجہ سے زندانی ہونا ، یہ سب واقعات ایسی چیزیں نہیں تھیں جو اس زمانے میں کسی سے پوشیدہ ہوں چہ جائے کہ ، سپہ سالار ابو محجن سے پوچھے کہ تجھے کس لئے جیل میں ڈالدیا گیا ہے ؟ جبکہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ سعد کا بیٹا اپنی روایت میں صراحت سے کہتا ہے کہ جب قادسیہ کے دن آیا ، ابو محجن کو میرے والد سعد کے پاس لایا گیا جبکہ وہ پی کر مست تھے، لہذا حکم دیاکہ اسے زنجیروں سے جکڑ دیا جائے محمد بن سعد اپنی روایت کے آخر میںکہتا ہے کہ سعد نے کہا: نہیں ، خدا کی قسم ! میں آج ایسے مرد پر حد جاری نہیں کروںگا جس کے ہاتھوں خدا نے مسلمانون کوایسی نعمت عطا کی ہے اور ابو محجن نے خود یوں کہا ہے : جب تک مجھ پر حد جاری ہوتی تھی وہ میرے گناہوں سے تطہیر کا سبب ہوتا تھا ، میں شراب پیتا تھا لیکن اب جبکہ آپ نے مجھ سے حدا ٹھالی ہے لہذا خدا کی قسم اب میںدوبارہ ہرگز شراب نہیں پیئوں گا ۔
لیکن سیف نے اس گفتگو کو ابومحجن اور سعد کی بیوی کے درمیان گڑھ کر اسے اپنی روایت کا حصہ قرار دیا ہے تاکہ سعد کا دفاع کرے کہ اس نے کیوں خدا کے معین کئے گئے حد کو معطل کیاہے اور اس کے علاوہ ابو محجن کا بھی دفاع کرے کہ کیوں دائم الخمر تھا ، پھر اپنی جعلی داستان کو مکمل کرکے سعد کی زبانی نقل کرتا ہے : میں تجھے تیرے کلام پر پوچھ تاچھ نہیں کروں گا جب تک کہ ان پر عمل نہ کرو اس کے علاوہ ابو محجن کی زبانی ایک جھوٹ گڑھ لیا ہے کہ اس نے کہا: خد اکی قسم میں بھی اپنی زبان کو برے کلام سے ناپاک نہیں کروںگا اس جھوٹی روایت کے ذریعہ سیف ابو محجن سے جو کچھ تواتر کےساتھ نقل ہوا ہے اس کا مست رہناتازیانے کھانااور بدکرداریوں سے انکار کیا جاناہے اور ابن فتحون جیسے لوگ( جو اگر تاریخ کے حقیقی واقعات ان کی چاہت کے بر خلاف ہوں توسننے کیلئے تیار نہیں ہیں)نے بھی اس جھوٹ کی اشاعت کی ہے اور مسعودی جیسے قابل اعتماد تاریخ نویس نے بھی اس سلسلے میں تغافل کیاہے ور طبری پر کئے جانے والے اعتماد کی بنا پر اس جھوٹ کو اپنی قیمتی تاریخ مروج الذہب میں درج کیا ہے البتہ مسعودی جیسی کچھ بزرگ شخصیتیں بھی لغزش و خطا سے محفوط نہیں ہیں ،لیکن ان تمام حالات کے باوجود دوسری مشہور کتابوں نے اس تاریخی واقعہ کے بارے میں صحیح روایتوں کو تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے لہذا سیف اور اس کے حامی کامیاب نہیں ہوئے ہیں کہ اس حقیقت پر پردہ ڈال کر اسے بر عکس دکھائیں۔
|