عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
 
مغیرہ بن شعبہ کے زنا کی داستان
ترکت الدین والاسلام لما بدت لک غدوة ذات النصیف
مغیرہ ! تم وہی ہو ، جب ایک عورت کو اپنے سامنے دیکھا ، تو اپنے دل و دین کو ہاتھ سے گنوادیا
حسان بن ثابت

سیف کی روایت میں مغیرہ کے زنا کی داستان
طبری نے ۱۷ئھ کے حوادث کو بیان کرتے ہوئے سیف سے مغیرہ کے زنا کی ایک داستان نقل کیا ہے ، جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
” بعض لوگوں کے مغیرہ کے زنا کرنے پر شہادت دینے کی وجہ یہ تھی کہ مغیرہ اور ابو بکرة ۱
۱۔ ابوبکرہ ، اس کا نام نفیع بن مروح حبشی ہے ، کہا گیا ہے اس کے باپ کا نام حارث بن کلدہ بن عمرو بن علاج بن ابی سلمة بن عبد العزیز بں عوف بن قیس ہے اور وہ قبیلہ ثقیف سے ہے ابی بکرہ کی ماںکا نام سمیہ تھا وہ ایک کنیز تھی ، وہ حارث کے غلاموں میںسے تھا ،جب پیغمبر نے طائف کو محاصرہ کیا ابوبکرة طائف سے نکل کر رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوا، رسول خدانے اسے آزاد کیا اور اسے ابوبکرة کی کنیت عطاکی وہ پیغمبر کے آزاد کئے ہوئے افراد میں سے تھا اور بصرہ میں سکونت کرتا تھا ، جنگ جمل میں شرکت کرنے سے پرہیز کی اور ۵۱ ئھ میں فوت ہوا۔
کے دمیان رنجش تھی ، نیز بصرہ میں مغیرہ اور ابی بکرة کا کمرہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھا ہر ایک کے کمرے کی کھڑکی ایک دوسرے کے مقابلے میں تھی ایک دن کچھ لوگ ابی بکرة کے گھر میں بیٹھے گفتگو میں مشغول تھے ، اچانک ہوا چلی اور کمرہ کی کھڑکیاں کھل گئیں ، ابو بکرہ اپنی جگہ سے اٹھا تا کہ کھڑکی کو بند کرے اتفاق سے ہوا نے مغیرہ کے گھر کی کھڑکیاں بھی کھول دی تھیں ابو بکرہ کی نظر مغیرہ پر پڑی کہ وہ ایک عورت کے دو پاؤں کے درمیان تھا ، چندافراد جو اس کے پاس تھے ، اس نے ان سے کہا : اٹھئے اور دیکھئے ، اس کے بعد کہا : گواہ رہنا ، انہوں نے کہا : یہ عورت کون ہے ؟ ابوبکرہ نے کہا: یہ ام جمیل ہے ( یہ ایک خادمہ تھی جو مغیرہ اور تمام امراء و اشراف کے یہاں رفت و آمد کرتی تھی ) انہوں نے کہا؛ ہم نے اس کے بدن کا نچلاحصہ دیکھا لیکن اس کا چہرہ پہچان نہیںسکے ( انما راٴینا اعجازاً و لاندری ما الوجہ ) جب عورت اپنی جگہ سے اٹھی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ زانی کو معین کریں ( ثم انھم صمموا حین قامت )
اس کے بعد گواہی کی کیفیت کے بارے میں کہتا ہے کہ مغیرہ نے عمر سے کہا؛ اس کام کے بارے میںغلاموں سے پوچھنا کہ مجھے کس حالت میں دیکھا کیا میں ان کی طرف رخ کئے ہوئے تھا یاپشت ؟ اور عورت کو کس حالت میں دیکھا اور کیا اسے پہچان لیا ؟ اگر ہمیں سامنے سے دیکھا تو میں اسے بغیر دروازہ اور کھڑکی کے گھر میں کیسے اپنے آپ کو لوگوں کی نظروں سے چھپا سکتا ؟
اور اگر ہمیں پیچھے سے دیکھا ہے تو کس شرعی جواز سے میرے گھر میں نگاہ ڈالی جہاںمیں اپنے عیال کے ساتھ تھا ؟ خدا کی قسم ! میںا پنی بیوی سے ہمبستر ہوا تھا او رمیری بیوی ام جمیل سے شباہت رکھتی ہے ۔
اس کے بعد کہتا ہے کہ ابوبکرہ ۱و نافع نے کہا کہ ہم دونوں نے مغیرہ اور اس عورت کو پیچھے سے دیکھا ہے اور شبل ۲نے کہا کہ انھیں سامنے سے دیکھا ہے اور زیاد نے ان کی جیسی شہادت نہیں دی لہذا عمر نے حکم دیا کہ ان تینوں گواہوں پر حد شرعی کے برابر کوڑے مارے جائیں اور مغیر ہ سے مخاطب ہوکر کہا؛ خدا کی قسم ! اگر تیرے بارے میں گواہی مکمل ہوتی تو یقینا تجھے سنگسار کرتا، ۳یہ تھی اس داستان میں سیف کی روایت ۔

سیف کے علاوہ دوسروں کی روایت میں مغیرہ کے زنا کی داستان
بلاذری نے فتوح البلدان، ص ۳۵۲، میں ماوردی نے کتاب الاحکام، ص ۲۸۰ میں ، یعقوبی نے اپنی تاریخ ، ج ۲/ ۱۲۴ میں اور طبری و ابن اثیر، نے ۱۷ ھ ئکے حوادث کے ضمن میں اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں نے روایت کی ہے :
----------------
۱۔ نافع بن حرث بن کلدہ ثقفی کی ماں سمیہ ، حرث کی کنیز تھی اور حرث نے اعتراف کیا ہے کہ نافع اس کا بیٹا ہے وہ بصرہ کا رہنے والا تھا اور پہلا شخص تھاجو بصرہ میں اونٹ پالا تھا۔ عمرابن خطاب نے بصرہ کی زمینوں میں سے دس جریب زمین اسکی جاگیر قرار دی تھی ، استیعاب ج ۳/ ۵۱۲ ، اصابہ، ج۳/ ۵۱۴۔
۲۔ سبل بن معبد بن حارث بن عمرو بن علی بن اسلم بن احمسں بجلی احمسی ہے اس بات پر اختلاف ہے کہ اس نے رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو درک کیا ہے یا نہیں اور اصحاب میں شمار ہوتا ہے یا نہیں ، یا یہ کہ اس نے آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو درک نہیںکیا ہے اور تابعین میں سے ہے اصابہ ،ج ۲/ ۱۵۹۔
۳۔ تاریخ طبری ،ج ۳/ ۱۷۰ و ۱۷۱ ۔

مغیرہ بن ہلال کی ام جمیل بنت افقم بن محجن بن ابی عمرو بن شعبہ نامی ایک عورت کے پاس رفت و آمد تھی اس عورت کا شوہر قبیلہٴ ثقیف سے تھا اور اس کا نام حجاج بن عتیک تھا ( یہاں تک بلاذری کی عبارت ہے ) اب داستان کی تفصیل ابی الفرج کی اغانی سے نقل کی جاتی ہے:
مغیرہ بن شعبہ بصرہ کا گورنر تھا ، قبیلہٴ ثقیف کی رقطاء نامی عورت کے ساتھ اس کے ناجائز تعلقات تھے اور چوری چھپے اس عورت کے گھر رفت و آمد کرتاتھا ، اس عوت کا شوہر قبیلہ ثقیف سے تھا اور اس کا نام حجاج بن عتیک تھا ایک دن ابوبکرة ، مغیرسے ملا اوراس سے پوچھا : کہا ںجارہے ہو؟ اس نے کہا؛ میں فلان قبیلہ کو دیکھنے جارہا ہو ں ابو بکرہ نے مغیرہ کا دامن پکڑ کر کہاکہ گورنر کیلئے سزاوار ہے کہ دوسرے اس کی ملاقات کیلئے آئیں نہ یہ کہ وہ خود جائے مغیرہ کی عادت تھی کہ دن میں گورنر ہاوس سے باہر آتا تھا ، ابوبکرہ اسے دیکھتا تھا اور پوچھتا تھا ، گورنر صاحب کہاں جانے کا ارادہ رکھتے ہےں ؟ وہ جواب میں کہتا تھا : کوئی کام ہے ، ابوبکر ةپوچھتا تھا: کیا کام ہے ؟ گورنر سے لوگوں کو ملنے آنا چاہئے ، نہ گورنر کسی سے ملنے کیلئے جائے
مؤرخین نے کہا ہے : جس عورت کے پاس مغیرہ جاتاتھا ، وہ ابوبکرة کی ہمسایہ تھی کہتے ہیں : ایک دن ابوبکرة اپنے دو بھائیوں نافع و زیاد اور شبل بن معبد نامی ایک اورشخص کے ساتھ اپنے کمرہ میں بیٹھا تھا اسی دوران ہوا کی وجہ سے اس کے مد مقابل ہمسایہ کا دروازہ کھل گیا ان لوگوں کی نظر اس ہمسایہ کے کمرہ پر پڑی اچانک دیکھا کہ مغیرہ اس عورت کے ساتھ اپنا منہ کالا کرنے میںمشغول ہے ابوبکرةنے کہا ؛ یہ ایک مصیبت ہے جس سے دوچار ہوئے ہو اور ایک تکلیف تمہاری گردنوں پر پڑی ہے ، لہذا پوری دقت کے ساتھ دیکھ لو ، سبھی نے دقت سے دیکھا جہاں تک یقین کیا ابوبکرة گھر سے باہر نکلااور بیٹھ گیا یہاں تک مغیرہ گھر سے نکلا ، ابوبکرة نے مغیرہ سے کہا ؛ تیرا راز فاش ہوگیا ۱
اب تمہیں معزول ہوناچاہیے مغیرہ چلا گیا اور پھر ظہر کی نماز پڑھانے کیلئے آیا ابوبکرة نے اسے نماز پڑھانے سے منع کیا اور کہا : جو کچھ تم نے کیا ہے اس کے پیش نظراب تمہیں ہمارا امام جماعت نہیں ہونا چاہئے لوگوں نے کہا: اسے نماز پڑھنے دو ، وہ گورنر ہے ، لیکن تمہیں ساری روداد کو عمرکے پاس لکھنا چاہئے اس کے بعد اس نے ایساہی کیااور عمرکی طرف سے جواب آیا : کہ سب حاضر ہوجائیں ، مغیرہ جانے کیلئے تیار ہوا اس نے عقیلہ نام کی ایک عرب نسل کنیز ایک خادم کے ہمراہ ابو موسی کیلئے بھیجی یہ کنیز تربیت یافتہ تھیں اور یمامہ کے اسیروں میںسے تھی اور خاندان بنی حنیفہ سے تعلق رکھتی تھی اور اس کا وطن طائف تھا ، مغیرہ عمر کے حضورپہنچا عمر نے عدالتی کاروائی کیلئے جلسہ بلایا اور مغیرہ کوشاہد کے ساتھ طلب کیا ، ابوبکرة آگے بڑھا ، عمر نے ابو بکرة سے کہا؛ کیا تم نے مغیرہ کواس عورت کی دونوںرانوں کے درمیان دیکھا ؟ اس نے جواب میں کہا: ہاں والله گویا ابھی ابھی اس عورت کی رانوں پر پڑے چھالوں
--------------
۱۔ مغیرہ کے زنا کی داستان کو ابن جریر، ابن اثیر اور ابو الفداء نے ۱۷ ئھ کے وقائع کے ضمن میں نقل کیا ہے ۔

کے نشان دیکھ رہاہوں ، مغیرہ نے کہا؛ عجب ! کیا اتنی دقت سے دیکھا ہے ؟ ابو بکرہ نے کہا: میں نے اس کام میںکوتاہی نہیں کی ہے جس میں خداوند تجھے رسوا کرے عمر نے کہا: خدا کی قسم میں اس پر اکتفا نہیں کروں گا جب تک کہ گواہی نہیں دو گے کہ تم نے مغیرہ کو اس حالت میں دیکھا ہے کہ وہ اس عورت کے اندر ایسے ڈال رہا تھا جیسے سرمہ دانی کے اندر سلائی ڈالی جاتی ہے اس نے کہا جی ہاں ، یہی گواہی دیتا ہوں عمر نے کہا: جاؤ مغیرہ ایک چوتھائی کھو بیٹھے ہو۔
ابو الفرج کہتا ہے : بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ بات کہنے والے علی علیہ السلام تھے ، اس کے بعد عمر نے نافع کو طلب کیا اور کہا : تم کس چیز کی شہادت دیتے ہو؟ نافع نے کہا : اس کیفیت کی شہادت دیتا ہوں جس کی ابو بکرة نے شہادت دی ہے ، عمر نے کہا: نہیں، جب تک اس طرح گواہی نہیں دو گے کہ تم نے دیکھا کہ مغیرہ اس عورت کے اندر اس طرح ڈالے ہوائے تھا جیسے سرمہ دانی میں سلائی ڈالی جاتی ہے ، اس نے جواب میں کہا: جی ہاں اس کے اندر آخر تک ڈالے تھا ، عمر نے کہا : جاؤ مغیرہ نصف تم میں سے گیا ، اس کے بعد تیسرے شاہد شبل بن معبد کو طلب کیا ، شبل نے کہا: میںبھی اپنے دو دوستوں کے مانند شہادت دوں گا، عمر نے کہا: جاؤ مغیرہ تین چوتھائی کھو بیٹے ہو ؟
راوی کہتا ہے : جب عدالتی کاروائی یہاں تک پہنچی تو ، مغیرہ مہاجرین کے پاس جاکر اس قدر رویا کہ وہ بھی رو پڑے اور امہات المؤمنین کے پاس جا کر بھی ایسا ہی کیا حتی کہ انہوں نے بھی گریہ کیا ۔
راوی نے کہا: زیاد اس مجلس میں حاضر نہ تھا عمر نے کہا یہ تین گواہ ایک طرف بیٹھ جائیں اور اہل مدینہ میں سے کوئی ان کے پاس نہ بیٹھے ، اور زیاد کے آنے کا منتظر تھا ، جب زیاد آپہنچا او رمسجد میں بیٹھا مہاجر و انصار کے بزرگ اس کے اردگرد جمع ہوئے ، مغیرہ کہتاہے اس دوران میں نے ایک مطلب آمادہ کیا تھا تا کہ کہوں ، لیکن جوں ہی عمر کی نظر زیاد پر پڑی اور دیکھا کہ وہ آرہا ہے تو اس نے کہا؛ میں ایک ایسے مرد کو دیکھ رہا ہوں کہ خداوند عالم ہرگز اس کی زبان سے مہاجرین میں سے کسی کو ذلیل و خوار نہیں کرے گا ۱ابو الفداء ۲کی روایت میں آیا ہے کہ عمر نے زیاد سے کہا: میں ایک ایسے مرد کو دیکھ رہاں ہوں کہ امید کرتا ہوں خداوند عالم اس کے ذریعہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو ذلیل نہیں کرے گا ۔
اغانی کی روایت میں ابی عثمان نہدی ۳سے نقل کیا گیا ہے : جب پہلے گواہ نے اپنی شہادت کو عمر کے سامنے بیان کیا ، عمر کا رنگ پھیکا پڑگیا، اس کے بعد دوسرا شاہد آیا اور اس نے بھی شہادت دی، دوسرے کی گواہی پر عمر کے قیافہ میںشکست کے آثار نمودار ہوگئے، اس کے بعد تیسرا آیا اور اس نے جب شہادت دی تو عمر کی حالت ایسی بنی جیسے اس کے چہرے پر راکھ پھینک دی گئی ہو۔
------------------
۱۔ ابن خلکان ج ۸/ ۲۰۶ کتاب وفیات الاعیان ، ” یزید بن مفرغ“ کی تشریح میں اور یہ جملہ جو عمر نے زیاد سے کہا؛ میں ایک مرد کو دیکھ رہا ہوں کہ امید رکھتا ہوں خداوند عالم اس کے ذریعہ اصحاب رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم میں سے کسی کو رسوا نہیں کرے گا یعقوبی نے اپنی تاریخ ج ۲/ص ۱۲۴ میں نقل کیا ہے ، کنزل العمال ج ۳/ ۸۸ حدیث ۱۲۶۸۲ او رمنتخب کنز ، ج ۲/ ۴۱۳ میں یوں آیا ہے کہ عمر نے کہا: میں ایک چالاک جوان کو دیکھ رہاہوں کہ انشاء اللہ حق کے علاوہ کسی اور چیزکیلئے گواہی نہیں دے گا ۔
۲۔ تاریخ ابو الفداء ،ج ۱/ ۱۷۱۔

۳۔ ابو عثمان عبد الرحمان بن رمل بن عمرو بن عدی بن وھب بن ربیعہ بن سعد بن کعب بن خزیمہ بن کعب رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں اسلام لایا اور جنگ قادسیہ اور دوسری جنگوں میں شرکت کی اور ۱۰۰ ئھ میں ۱۳۰ سال سے زیادہ عمر میںوفات پاگیا۔
جب زیاد آیا ( ایک جوان جو ہاتھ ہلا ہلا کر ناز سے چل رہا تھا) عمر نے اسکی طرف سر اٹھا کر کہا؛ کیا خبر لائے ہو ئے فضلہٴ عقاب ( ابو عثمان نہدی نے اس موقع پر عمر کے قیافہ کی حالت کو ایسی خوفناک بتایا ہے کہ جس کے بارے میں عبد الکریم بن رشید کہناہے : نزدیک تھا میںابوعثمان کی فریاد اور دھمکی سے غش کرگر جاؤں ) لہذا مغیرہ نے کہا: اے زیاد! خدا کیلئے تجھے یاد دہانی کراتا ہوں اور تجھے قیامت کے میدان کی یاد،دلاتا ہوں کہ خدا ، کتاب خدااور رسول خدا( صلی الله علیہ و آلہ وسلم ) اور امیر المؤمنین نے میرے خون کی حفاظت کی ہے ، مگر یہ کہ تم تجاوز کرکے ایسا کچھ بیان دیدو کہ جس کو تم نے نہیں دیکھا ہے ، پھرزیاد نے کہا: یا امیر المؤمنین ! لیکن حقیقت مطلب میرے پاس اس صورت میں نہیں، جس صورت میںد وسروں کے پاس ہے ،میں نے ایک ناشائستہ مجلس کا نظارہ کیا ، اور تیز تیز سانس لینے کی آواز سن رہا تھا، میں نے مغیرہ کو دیکھا کہ وہ اس عورت پر سوار تھا ، پھرعمر نے کہا: کیا تم نے دیکھا کہ مغیرہ سرمہ دانی میں سلائی کے مانند اندر اور باہر کرتا تھا ؟
اس نے کہا: نہیں ۔
ابو الفرج کہتا ہے : بہت سے راویوں نے روایت کی ہے کہ زیاد نے کہا: میں نے دیکھا کہ مغیرہ نے عورت کی دونون ٹانگیں بلند کی تھیں اور میں نے اس کے خصیہ بھی دیکھے کہ عورت کی دونوں رانوں کے درمیان آگے پیچھے حرکت کررہے تھے ۱
اس نے کہا: نہیں
-----------------
۱۔ ابو عثمان عبد الرحمان بن رمل بن عمرو بن عدی بن وھب بن ربیعہ بن سعد بن کعب بن خزیمہ بن کعب رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں اسلام لایا اور جنگ قادسیہ اور دوسری جنگوں میں شرکت کی اور ۱۰۰ ئھ میں ۱۳۰ سال سے زیادہ کی عمر میں فوت ہوا۔

عمر نے کہا: اللہ اکبر ، مغیرہ اٹھوا! اور ان تین افراد پر کوڑے مار و، مغیرہ آگے بڑھا اور ابوبکرة پر اسّی کوڑے مارے اور دوسروں پر بھی تازیانے لگائے بعض لوگوں نے نقل کیا ہے کہ خود مغیرہ نے ان پر کوڑے نہیں مارے ، عمر کو زیاد کا بیان پسند آیا اور مغیرہ کی سزا معاف کی !
مستدرک میں حاکم کی روایت میں اور ذہبی کی تلخیص میںیوں آیا ہے کہ جب مغیرہ نے نجات پائی ، تو عمر نے تکبیر بلند کی اور خوشحال ہوا اور تمام گواہوں پر تازیانے لگائے ، صرف زیاد پر تازیانہ نہیں لگائے ۱ اور فتوح البلدان میں ہے کہ شبل نے کہا: کیا سچائی کے شاہدوں پر تازینے ماررہے ہو ؟ اور حد الٰہی کو حذف کررہے ہو ؟ جب ابو بکرة نے کوڑ ے کھالئے تو کہا: شہادت دیتا ہوں کہ مغیرہ نے زنا کیا ہے ، عمر نے کہا: اس پر دوبارہ کوڑے لگاؤ،حضرت علی علیہ السلام نے کہا؛ اگر ابوبکر ة کی اس بات کو شہادت شمار کرکے حد جاری کرو گے تو میں بھی تیرے دوست کو سنگسار کروں گا،اور کنزل العمال اور منتخب کنزمیں اور یعقوبی نے اپنی تاریخ میں حضرت علی علیہ السلام کے نقطہ نظر کے بار ے میں تقریباً یہی مضمون نقل کیا ہے ۔
الاغانی اور شرح ابن ابی الحدید میں کہا گیا ہے : ابوبکرہ نے تازیانے کھانے کے بعد کہا: شہادت دیتا ہوں کہ مغیرہ نے ایسا ویسا کیا ہے ، عمر نے اس کو مارنا چاہا ،حضرت علی علیہ السلام نے عمر سے کہا؛ اگر اسے دوبارہ تازیانہ لگاناچاہتے ہو تو اپنے دوست کو سنگسار کرو اور عمر کو اس کے فیصلہ سے روکا ۔
۱۔ مستدرک حاکم، ج۳/ ۴۴۸) میں نے سخت رگڑ کی آواز سنی اور سانس پھولنے کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی ، پس عمر نے کہا: کیا تم نے دیکھا کہ سرمہ دانی کی سلائی کے مانند اندر باہر کررہا تھا ؟
ابو الفرج کہتا ہے :حضرت علی علیہ السلام کا مقصود یہ تھاکہ اگر حد جاری کرکے عمر ابو بکرة کو دوبارہ کوڑامارناچاہیںتو اس کی شہادت دوگنی شمار ہوگی اور اس صورت میں مغیرہ کو سنگسار ہوناچاہیے ۔
اس کے بعد کہتا ہے : عمر نے ابو بکرة کو اس کی دی گئی شہادت کے بارے میں توبہ کرنے کی تجویز پیش کی۔
ابوبکرہ نے کہا: کیا یہ تجویز اس لئے پیش کرتے ہو کہ اگر اسکے بعد گواہ بنا تو قبول کروگے ؟
اس نے کہا: ہاں ،
کہا: اب میں زندگی بھر دو آدمی کے بارے میں گواہی نہیں دوں گا۔
کہتا ہے : جب حد کو جاری کیا گیا مغیرہ نے کہا: اللہ اکبر ! شکر اس خدا کا جس نے تجھے ذلیل و خوار کیا ۔
عمر نے کہا: خاموش رہ ، خدا اس جگہ کو خوار کرے جس جگہ انھوں نے تجھے دیکھا ہے
کہتا ہے : ابوبکرہ اپنی بات پر ڈٹا رہا اور بارہا کہتا تھا؛ خدا کی قسم اس عورت کی رانوں کو کبھی نہیں بھولوں گا۔
لہذا ن دوسرے دو آدمیوں کو توبہ کرایا گیا اور ا س کے بعد ان کی شہادت قابل قبول ہوئی ۔ لیکن ابوبکرة کو جب کسی شہادت کیلئے دعوت کرتے تھے تو وہ کہتا تھا :
کسی دوسرے کو بلائیے کیونکہ زیاد نے میری شہادت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے ۔
ابن عبد البر نے ابی ابو بکرہ کی تشریح میں کہا ہے کہ وہ اپنے نقطہ نظر پر باقی تھا لیکن دوسرے دو آدمیوں نے توبہ کرلی تھی۔
اغانی اور شرح نہج البلاغہ میں شعبی سے روایت نقل کی گئی ہے کہ ا س نے کہا: مغیرہ کی طرف رقطاء نامی جس عورت سے ناجائز تعلقات کی نسبت دی گئی تھی اس عورت کے پاس مغیرہ کی کوفہ پر حکومت کے دوران رفت و آمد تھی اور وہ اس کی ضروریات کو پورا کرتا تھا ۔
ابو الفرج کہتا ہے کہ اس قضیہ کے بعد ، ایک سال عمر حج پر گئے، اتفاق سے رقطاء کو موسم حج کے دوران دیکھا اور مغیرہ بھی وہاں پر تھا ، عمر نے مغیرہ سے مخاطب ہوکر کہا؛ کیا اس عورت کو پہچانتے ہو؟
اس نے کہا: جی ہاں ، یہ ام کلثوم بنت علی علیہ السلام ہے ۔
عمر نے اس سے کہا؛ افسوس ہو تم پر ، میرے سامنے بھی تجاھل عارفانہ سے کام لیتے ہو ؟ خدا کی قسم مجھے گمان نہیں ہے کہ ابوبکرةنے تیر بارے میں جھوٹ کہا ہوگا میں جب بھی تجھے دیکھتا ہوں ڈرتا ہوں کہ کہیں آسمان سے مجھ پر پتھرنہ برس پڑے۔
حسان بن ثابت نے مغیرہ کی ہجو کرتے ہوئے اس قضیہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔

لو ان اللؤوم ینسب کان عبداً
قبیح الوجہ اعور من ثقیف

ترکت الدیں و الاسلام لما
بدت لک غدوة ذات النصیف

و راجعت الصبا و ذکرت لھواً
مع القینات فی العمر اللطیف

ترجمہ :
اگر پست فطرت اور کمینہ کو ڈھوٹدھو ایک منحوس بد صورت قبیلہٴ ثقیف کا ،کانا (جسکی ایک آنکھ خراب ہو) غلام ہوگا ۔
( مقصود مغیرہ ہے جو قبیلہٴ ثقیف سے تھا ور ایک آنکھ سے کانا تھا ) ایک صبح کو جب ایک مقنہ پوش عورت نے تجھے اپنا جلوہ دکھایا تو ایک دم تم نے اپنے دین او راسلام کو کھودیا اور جوانی کے زمانہ کی طرف پلٹ گئے اور بہارِ جوانی میں کنیزوں کے ساتھ شہوت رانی کی یادوں کو تازہ کرنے لگے۔
بلاذری نے فتوح البلدان ص ۲۸۸ پر روایت کی ہے کہ خلیفہ عمر بن خطاب نے جب اس واقعہ کے بعد دوبارہ کوفہ کا گورنر مقرر کرنا چاہا تو اس سے کہا: اگر فرمان روائی کا حکم تیرے نام جاری ہوجائے ، تو کیا پھر بھی اسی چیز کی طرف پلٹ جاؤ گے جس کی تجھ پر تہمت لگی ہے ؟ اس نے کہا: نہیں
ان تمام افراد میںجنہوں نے مغیرہ کے زنا کی طرف اشارہ کیاہے ، حموی بھی ہے جس نے معجم البلدان کی دوسری جلد کے صفحہ ۱۷۹ پر ذکرکیا ہے۱
---------------
۱۔ ج ۲/ ۱۷۹

چھان بین کا نتیجہ

سند کے لحاظ سے :
روایت کی سند میں محمد ، طلحہ اور مہلب کے نام آئے ہیں ، ” نسلِ زیاد کی اصلاح “ کے موضوع پر سیف کی روایت کی تحقیق کے دوران ان دو تین راویوں کی چھان بین ہوئی ہے۔

متن کے لحاظ سے :
سیف نے ایسا کہاہے ابو بکرة ، اس کے دو بھائی اور شبل مغیرہ کے گھر کے مد مقابل واقع کمرے میں بیٹھے تھے کہ ہوا چلی اور دونوںگھروں کی کھڑکیاں کھل گئیں اور انہوں نے مغیرہ کو دیکھا کہ اپنے گھر میں ایک عورت سے مباشرمیں مصروف ہے اور یہ عورت ام جمیل نامی ایک خادمہ تھی جو مغیرہ کی خدمت گزاری کرتی تھی ، انہوں نے صرف دو سر دیکھے اور چہرے نہیں دیکھے، جب اٹھے تو فیصلہ کیا ، مغیرہ نے عمر کو تجویز پیش کی کہ ا ن سے پوچھو کہ انہوں نے اسے کس حالت میں دیکھا ہے سامنے سے یا پیچھے سے اور کس کی اجازت سے اس کے گھر میں نگاہ کی ہے جبکہ دوسرے راویوں نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ مغیرہ چوری چھپے ام جمیل کے گھر جاتا تھا نہ یہ کہ وہ عورت اسی کے گھر آئی تھی ، انہوں نے مغیرہ کو ام جمیل کے گھر میں اپنا منہ کالا کرتے دیکھا تھا اور کسی نے نہیں کہا ہے کہ ام جمیل مغیرہ کی خادمہ تھی مغیرہ گواہوں سے پو چھتاتھا اور وہ مختلف جواب دیتے تھے اس کے علاوہ دوسرے مطالب بھی کہے گئے ہیں لیکن چونکہ سیف مغیرہ کا دفاع کرنا چاہتا تھا اس لئے ان ساری باتوں کو جھوٹ ثابت کیا ہے اور طبری نے بھی انھیںا پنی تاریخ میں ثبت کیا ہے اور کچھ لوگوں نے تاریخ طبری سے نقل کیا ہے اور یہ داستان مشہور اور زبان زد عام و خاص ہے۔