عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
 
چوتھا حصہ :طاقتور بدکرداروں کے حق میں سیف کا دفاع


زیاد کو ابوسفیان سے جوڑنے کی داستان
نالائق مغیرة بن شعبہ کی داستان
شراب خوار ابو محجن کی داستان
شوریٰ اور عثمان کی بیعت کی داستان
ہرمزان کے بیٹے قماذبان کی داستان

ابو سفیان سے زیاد کا رشتہ جوڑنے کی داستان
الولد للفراش و للعاھرالحجر ! بیٹا باپ کا ہے اور زنا کار سنگسار ہونے کا حقدار ہے
!
رسول اللہ

ایک شرمناک اور ناشناس رشتہ
زیاد جس کی کنیت ابو مغیرہ تھی اس کی ماں کا نام سمیہ تھا، ابو المغیرہ ( زیاد ) کی ماں ” سمیہ “ ایک ایرانی دیہاتی کنیز تھی ، مذکورہ دیہاتی بیمار ہوگیا تو حرث بن کلدہ نامی ایک ثقفی طبیب کو اپنے علاج کیلئے بلایا ، حرث کے علاج کرنے پر بیمار صحت یاب ہوا ، اس نے اس خدمت کے عوض میں اپنی کنیز سمیہ کو اپنے معالج، طبیب کو پیش کیا، سمیہ کے اس طبیب کے ذریعہ نفیع و نافع نامی دو بیٹے پیداہوئے ، اس کے بعد حرث نے سمیہ کو اپنے عبید نامی رومی غلام کے عقد میںقرار دیا ، اس دوران ابوسفیان کا گزر طائف سے ہوا ، اس نے ناجائز کاموں کے ایک دلال ابو مریم سلولی سے درخواست کی کہ اپنا منہ کالا کرنے کیلئے ایک عورت فراہم کرے، اس نے سمیہ کو ابو سفیان کی آغوش میں قرار دیا ، سمیہ حاملہ ہوئی اور عبید کی قانونی بیوی ہوتے ہوئے ۱ھء میں زیاد کو جنم دیا ، جب رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے طائف کو اپنے محاصرہ میں لیا تو نفیع طائف سے فرار کرکے رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے حضور پہنچا اور رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اسے آزاد کیااور اس کی کنیت ” ابوبکر “ رکھی ، اس طرح اسے موالی الرسول ( رسول کا آزاد کیا ہوا) خطاب کرتے تھے اور نافع کو ابن الحرث ( حرث کا بیٹا) اور زیاد کو ابن عبید ( عبید کا بیٹا) کہتے تھے ، جب معاویہ نے زیاد کو اپنے رشتہ سے جوڑا تو اسکے بعد زیاد کو زیاد بن ابی سفیان کہنے لگے۔
یہ سلسلہ بنی امیہ کی حکومت کے زوال تک جاری رہا ، لیکن بنی امیہ کی حکومت کے زوال کے بعد زیاد کو بے پاب ہونے کے سبب زیاد بن ابیہ ( باپ کا بیٹا ) کہتے تھے یا اسے اپنی ماں سے نسبت دیکر زیاد بن سمیہ کہتے تھے ۱
زیاد کے ابوسفیان سے رشتہ جوڑنے کی داستان اور یہ کہ معاویہ نے زیاد کواپنے بھائی کا عنوان دیکر ابو سفیان سے نسبت دی ہے ، متواتر نقل ہوا ہے اور مسلمانوں کے زبان زد عام و خاص تھا ، اس کام کیلئے معاویہ کی سرزنش کی جاتی تھی اور اس پر تنقید کی جاتی تھی۔

زیاد کا شجرہ ٴنسب ، سیف کی روایت میں:
سیف نے یہا ں پر بھی ہمت باندھی ہے تاکہ معاویہ سے اس تنقید کا ازالہ کرکے زیاد کے دامن سے اس شرمناک داغ کو چھڑا دے ، لہذا طبری نے جس روایت میں ۲۳ ھء کے حوادث نقل کئے
----------
۱۔ تاریخ کامل ابن اثیر ،حوادث ۴۴ھء کے ضمن میں ، الاستیعاب ،ج ۱/ ۵۴۸ ۔ ۵۵۵ الاصابة ،ج ۱ ص ۵۶۳۔

ہیں ، سیف اس روایت میں طائفہ عنزہ کے ایک مرد کی شکایت بیان کرتا ہے کہ اس نے ابو موسی ۱کے خلاف عمر کے پاس شکایت پہنچادی ۔ کہتا ہے کہ مرد عنزی نے عمر سے کہا ؛ اس نے ایک کام اپنے کاتب زیاد بن ابو سفیان کو سونپا۲
اس روایت میں سیف کی چابک دستی کا مقصد یہ ہے کہ وہ کہنا چاہتا ہے کہ زیاد ، قبل از زمان معاویہ یعنی معاویہ کا زیاد کو اپنے نسب میں شامل کرنے سے قبل بھی زیاد بن ابوسفیان کے نام سے مشہور معروف تھا ؟! کیونکہ اس مرد عنزی نے عمر کے پاس ابوموسیٰ کی شکایت کی تھی اور عمر کے حضور میں کہا تھا : ” زیاد بن ابی سفیان “ اور عمر نے کوئی اعتراض نہیںکیا تھا اس کے بعد بڑی چالاکی اور مہارت سے --(جو سیف کی خصوصیت تھی -- کہ کوئی متوجہ نہ ہوسکے) ---- زیا دکے عبید کے ساتھ منسوب ہونے کا اسی روایت میں علاج کیا ہے اور کہا ہے : عمر نے زیاد کو گرفتار کیا اور اس سے پوچھ گچھ کے دورران پوچھا : پہلا تحفہ جو تجھے ملا اسکو تم نے کیسے خرچ کیا ؟ زیاد نے جواب میں کہا: ” پہلے اپنی ماںکو خرید کر
--------
۱۔( ابو موسی اشعری کا نام عبدالله بن قیس ہے اس کے نسب کے بارے میں اختلاف ہے ، جب وہ مکہ آیا تو اس نے سعید بنی عاص سے پیمان باندھا اس کے بعد مکہ میں اسلام قبول کیا ، عمر نے مغیرہ کو معزول کرنے کے بعد اسے بصرہ کی گورنری سونپ دی اور وہ اس عہدہ پر خلافت عثمان تک باقی رہا ، عثمان نے اسے معزول کردیا ، کوفہ کے لوگوں نے عثمان سے درخواست کی کہ ابو موسی کو ان کا حاکم مقرر کردے اس نے بھی کوفہ والوں کی درخواست کے مطاق ابو موسی کو کوفہ کاگورنر مقرر کردیا ، تا کہ ابو موسی لوگوں کو علی علیہ السلام کی حمایت کرنے سے روکتا رہے ، لہذا علی نے اسے معزول کیا اسکے بعد عراق کے لوگوں کی درخوا ست پر صفین کے قضیہ میں اسے حَکَم کے طور پر منتخب کیا وہ (ابو موسی اشعری) عمر و عاص کی فریب کاری سے دھوکہ کھانے کے بعد مکہ چلا گیا او رآخر عمر تک وہیں پر ساکن رہا یہاں تک ۴۲ ھء ھ یا ۴۴ ھء یا ۵۰ ئھ یا ۵۳ ھء میں ( روایتوں میں اختلاف کے ساتھ ) فوت ہوا، استیعاب، ج ۴/ ۱۷۳۔ ۱۷۴ ، الاصابہ، ابو موسی کی تشریح میں ۔
۲۔ و فوّض الی زیاد بن ابی سُفیان ۔

آزاد کرایا پھر اپنے سوتیلے بھائی عبید کو خرید کر اسے بھی آزاد کرایا، سیف نے ایسی چالاکی سے معاویہ کے بارے میںعام مسلمانوں کی اس بات پر تنقید کا ازالہ کیاہے کہ اس نے کیوں زیاد کو اپنے رشتہ سے جوڑا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ زیاد ابوسفیان کا بیٹاتھا اور روایت کو بھی عمر کے زمانے سے نقل کیا ہے تا کہ یہ لوگوں کے دلوں میں بہتر صورت میں جگہ پیدا کرلے اور کسی قسم کا شک و شبہہ باقی نہ رہے ۔
اب ہم سیف کی روایت کا دوسروں کی روایتوں سے موازنہ کرنے سے پہلے سیف کی روایت کی سند کے بارے میں بحث کرتے ہیں ۔

سیف کی روایت کی سند
اس روایت کی سند میں محمد ، طلحہ اور مہلب کا نام آیا ہے ، سیف کی روایت کی سند میں محمد سے مراد، محمد بن عبدا لله بن سواد بن نویرہ ہے۔
تاریخ طبری میں سیف کی تقریباً ۲۱۶ روایتیں اس راوی سے نقل کی گئی ہیں ہم نے کسی اور کتاب میں کثرت سے روایت کرنے والے اس راوی کا نام و نشان نہیں پایا ، صرف اکمال میں کہا ہے، سیف نے اس سے روایت کی ہے اس جملہ سے واضح ہوتا ہے کہ صاحب اکمال نے بھی اس راوی کا نام صرف سیف کی روایتوں کی سند میں پایا ہے ۔
اور طلحہ کا نام سیف کی روایتوں کی سند میں دو افراد میں مشترک ہے ، ایک ابو سفیان ، طلحہ بن عبدالرحمان ہے کہ ہم نے اس نام کو رجال اور سند شناسی کی کتابوں میں نہیں پایا ، دوسرا طلحہ بن الاعلم حنفی ہے جو شہر ری کے اطراف میں واقع جیان نامی گاؤں کا باشندہ تھا ا ور معلوم نہیں ہے کہ سیف کا ُمنظور نظر ان دو میں سے کون ہے ؟!
اور مہلب سیف کی روایتوں کی سند میں ، مہلب بن عقبہ اسد ی ہے ، تاریخ طبری میں سیف نے اس سے ۶۷ حدیثیں روایت کی ہیں سیف کے اس راوی کا بھی رجال اور سند شناسی کی کتابوں میں کوئی سراغ نہیں ملتا، یہ رہا سیف کی اس روایت کا متن اوراس کی سند کی بحث ۔

سیف کے علاوہ دوسروں کی روایت میں زیاد کا نسب
دینوری نے ” الاخبار الطوال “ نامی اپنی کتاب میں اسی روداد کی روایت کرتا ہے :
” ابو موسی نے زیاد بن عبید (جو ثقیف کا غلام تھا) کے بارے میں پوری دقت کی اور اس کی عقل و ادب کو پسند کیا اور اسے کاتب کی حیثیت سے اپنا ملازم قرار دیا ،اور ایک مدت تک اس کے
ساتھ رہا ، وہ اس سے پہلے مغیرہ کے ساتھ تعاون کررہا تھا ۱
ابن عبدالبر ، استعیاب میں ” زیاد “ کی تشریح میں لکھتا ہے :
”معاویہ سے ملحق ہونے سے پہلے اسے زیاد بن عبید ثقفی کہتے تھے “ اس کے علاوہ روایت کی ہے کہ راوی نے کہا:
” زیاد نے اپنے باپ عبید کو ایک ہزار دینار میں خرید کر آزاد کیا ، ہم اسکے اس خدادوست عمل پر رشک کرتے ہیں “ ۲
اور ایک دوسری جگہ پر کہتا ہے؛
” زیاد نے عمر کے سامنے ایک تقریر کی جو سامعین کی نظر میںبے مثال تھی “ عمرو عاص نے کہا : خداکی قسم اگر یہ جوان خاندان قریش میں سے ہو تا توعربوں کی اچھی راہنمائی کرتا اور انھیں ہانکتا ، ابوسفیان نے کہا: خداکی قسم میں اس شخص کو پہچانتا ہوں جس نے اپنانطفہ اس کی ماں کے رحم میںداخل کیا ہے ۔ علی ابن ابیطالب نے کہا: وہ کون ہے اے ابوسفیان ؟ اس نے جواب میں کہا؛ میں خود ہوں، علی علیہ السلام نے کہا؛ اے ابوسفیان !مبالغہ نہ کرنا! ابو سفیاں نے کہا : خدا کی قسم اے علی ! اگر اس مجلس میں موجود اپنے ایک دشمن سے نہ ڈرتا تو حقائق سے پردہ اٹھاتا تا کہ سب پر عیان ہوجائے کہ وہ ( زیاد ) یوں ہی اس قدرت بیان کا مالک نہیںہے ۔
----------------
۱۔ اخبار الطوال ، ص ۱۴۔
۲۔ الاستیعاب ، ج۱/ ۵۴۸۔

اما و الله لولا خوف شخصٍ
یرانی یا علیُّ من الاعادی

لاظھر امرہ صخر بن حرب
ولم یکن المقالة عن زیاد ۱

زیاد کے معاویہ کے نسب سے پیوند کی داستان کے بارے میں مندجہ ذیل مؤرخیں نے روایت کی ہے :
” ابن اثیر ۴۴ئھ کے حوادث بیان کرنے کے ضمن میں ، ابن عبدالبر نے استعیاب میں زیاد کی تشریح میں ، یعقوبی نے اپنی تاریخ کی جلد۲/ ۱۹۵ میں ، مسعودی نے مروج الذہب ج ۲/ ۵۴ میں ، سیوطی نے اپنی تاریخ میں ۴۱ئھ کے حوادث کے ضمن میں ، ابن کثیر نے ج ۸/ ۲۸ میں ، ابو الفداء نے ص۱۹۴ میں ، طبری نے اپنی تاریخ کی ج ۴/ ۲۵۹ میں ۴۴ھء کے حوادث کے ضمن میں اشارہ کے طورپر ، اور ۱۶۰ ئھ کے حوادث کے ضمن میں ص ۳۳۴ و ۳۳۵ میں ، صحیح مسلم ج ۱/۷/۵ ، اسد الغابہ و الاصابہ میں ”زیاد “ کی سوانح حیات میں ، ابن عساکر نے ج ۵/ ۴۰۹ ۔ ۴۲۱ میں اور تاریخ و تشریح کی دوسری کتابوں میں موجود ہیں جن کے نام اختصار کے پیش نظر ذکر کرنے سے اجتناب کرتے ہیں ۔

تحقیق و جستجو کا نتیجہ
مؤرخین اور علم الانساب کے ماھرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زیاد ، عبید رومی کے ہاں سمیہ نامی ایک بد کردار عورت سے پیدا ہوا ہے ، سب نے کہا ہے کہ ابوسفیان طائف گیا اور وہاں پر ابو مریم
-------------
۱۔ الاستیعاب ،ج ۱/ ص ۵۴۹۔

سلولی سے ایک فاحشہ سے منہ کالا کرنے کی درخواست کی اور یہ کہ وہ کس طرح سمیہ سے وصال کرنے میںکامیاب ہوا اور جو بات ( ابوسفیان ) نے مجلس عمر میں مخفیانہ کہی اور عمر کے ڈر سے کھلم کھلا نہ کہہ سکا ہم نے اس کی تفصیلات بیان کرنے سے پرہیز کیا ہے، مزید کہا گیا ہے کہ زیاد کو عبید سے نسبت دی جاتی تھی یہاں تک معاویہ نے اسے اپنے نسب سے ملاد یا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کس طرح یہ کام بنی امیہ کی طرف سے مورد انکار و اعتراض واقع ہوا ۔
اس سلسلہ میں چند اشعار بھی کہے گئے ہیں اور فقہاء نے معاویہ کے بارے میں جو تنقید کی ہے کہ معاویہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے خلاف عمل کیا ہے، کہ حضرت نے فرمایا : الولد للفراش و اللعاھر الحجر ، یہ سب چیزیں مفصل داستانیں ہیں اور ان کا بیان طولانی ہوگا تمام مؤرخین نے لکھا ہے زیاد کی بنی امیہ کے زمانے میں ابو سفیان سے نسبت دی گئی اور حکومت بنی امیہ کے زوال کے بعد کبھی کبھی اس کے باپ ” عبید “ اور بعض اوقات اسکی اپنی ماں ” سمیہ “ سے اس کی نسبت دی جاتی تھی ۔
اس دوران سیف بن عمر پیدا ہوا اور وہ اس خیال میںپڑا کہ ایک روایت میں دخل اندازی کرکے اس تمام شور و غوغا کو خاتمہ دیدے اور اس روایت میں اس نے ایک شکایت کرنے والے کو عمر کے پاس بھیجا اور اس کی زبان سے اس شخص کو زیاد بن ابوسفیان کہا گیا ہے وہی عمر ، جس کے ڈر سے ابوسفیان نے اظہار حقیقت کی جراٴت نہ کی تھی اور روایت کے آخر میں کہا ، زیاد نے عبید کو اپنی ربیبہ ( بیوی کا بیٹا ) معرفی کیا ، جب کہ خود زیاد نے معاویہ کے اسے، اپنے سے ملحق کرنے کے بعد شام میں ایک تقریر کے دوران کہا:” عبید میرے لئے ایک نیک باپ تھا اور میں اس کا شکر گزار ہوں “ چنانچہ اسے یعقوبی نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے ۱
حقیقت یہ ہے کہ سیف نے افسانہ سازی میں نہایت مہارت اور تجربہ کا مظاہرہ کیا ہے ۔
------------------
۱۔ تاریخ یعقوبی ، ج۲/ ۱۹۵۔