سیف کی روایت کے مطابق داستا ن حواٴب
طبری نے حواٴب ۱ کی داستان کو ہوازن کے ارتداد کے حصہ میںیوں بیان کیا ہے :
ام زمل ۲ مالک بن حذیفہ بن بدر کی بیٹی تھی وہ ام قرفہ کے دنوں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں اسیر ہوئی اور عائشہ کے حصہ کے طور پر اسے دی گئی اور عائشہ نے اسے آزاد کردیا ۔ لیکن وہ بدستور عائشہ کی لونڈی کی حیثیت سے رہی اور آخر میں اپنے خاندان کی طرف لوٹی ، ایک دن رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم ا س کے پاس تشریف لئے گئے اور فرمایا: ’ ’ تم میں سے ایک ،حواٴب کے کتوں ۳ کے
--------
۱۔حواٴب بصرہ کے راستہ پر ایک منزل گاہ ہے ۔
۲۔ لسان المیزان ،ج ۳/ ۹۲۲ ۔
۳۔ إنَّ اٴحدکنَّ تسنبح کلاب الحّواٴب۔
بھونکنے کا سبب ہو گی اور یہ کامسلمی سے انجام پایا ، جبکہ وہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعداپنے اُن رشتہ داروں کو خونخواہی کا مطالبہ کرتے ہوئے جو زمانہ رسول میں قتل کردیئے گئے تھے، اٹھی اور ظفر اور حواٴب کے درمیان گشت لگارہی تھی تا کہ ان قبیلوں میں سے ایک لشکر کو اپنے گرد جمع کرے ، جب یہ خبر خالد کو پہنچی وہ اس عورت کی طرف روانہ ہوا جس نے اپنے گرد ایک لشکر کو جمع کیا تھا ، خالد اس عورت کے پاس آیا اور ان کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی یہ عورت اس وقت اونٹ پر سوار تھی کچھ سواروں نے اس کے اونٹ کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور اونٹ کو پئے کرکے اس عورت کو بھی قتل کر ڈالا ۔
حموی نے بھی اس روایت کو سیف سے نقل کرتے ہوئے لغت حواٴب کے ذیل میں اپنی کتاب معجم البلدان میں ذکر کیا ہے اور ابن حجر نے ”الاصابہ“ ۱ میں خلاصہ کے طور پر نقل کیا ہے لیکن روایت کی سند کو ذکر نہیںکیا ہے ۔
سیف کی روایت کی سند
اس روایت کو سیف نے سہل و ابو ایوب سے روایت کیا ہے ۔
سہل ، سیف کی روایتوں کی سند میں ، سہل بن یوسف سلمی ہے کہ اس کا نام سیف کی روایت کی سند نمبر ۲۶ میں تاریخ طبری میں آیا ہے ابن حجر ۲نے لسان المیزان میں کہا ہے کہ دونوں باپ بیٹے معروف نہیں ہیں ، اس کے علاوہ ابن عبدا لبر سے نقل کیا ہے ، نہ وہ معروف ہے اور نہ اس کا باپ اور
-------
۱۔ ج ۲/ ۳۲۵ ۔
۲۔ لسان المیزان، ج۲/ ۱۵۰۔
سیف نے اس سے روایت نقل کی ہے ۔
رہا سوال ، ابو یعقوب کا جو سیف کی روایتوں میںسند کے طور پر ذکر ہوا ہے ، اس کا نام سعید بن عبید ہے بعض راوی اس نام کے تھے لیکن ان میںسے کسی ایک کی کنیت ابو یعقوب نہیں تھی ۔
ذہبی نے راویوں میں سے ایک شخص کے بارے میں جس کا نام سعید بن عبید کہا ہے : یہ غیر معروف ہے یہ تھا روایت کی سند کے بارے میںا ب ملاحظہ فرمائیے اس کے متن کے بارے میں:
سیف کی روایت کے متن کی قدر و قیمت
سیف نے یہاں پر دو حقیقی داستانوں کو آپس میں ملاکر اس میں چند جھوٹ کا بھی اضافہ کیا ہے داستان کی اصلی حقیقت جیسے کہ ابن سعدو ابن ھشام نے روایت کی ہے وہ یوں ہے :
پیغمبر اسلام نے ۶ئھ کو رمضان کے مہینہ میں زیدبن حارثہ کی سرکردگی میں ایک لشکر قبیلہٴ فزارہ سے جنگ کرنے کیلئے بھیجا، اس جنگ کاسبب یہ تھا کہ اس سے پہلے زید ایک کاروان کے ہمراہ اصحاب پیغمبر سے تجارتی مال لے کر شام رفت آمد کرتے تھے ۔ جب وہ مدینہ سے سات منزل کی دوری پر وادی القری پہنچے ، قبیلہٴ فزارہ نے ان پر حملہ کیا اور ان کے تجارتی مال کو لوٹ کر لے گئے اور زید اس واقعہ میںسخت زخمی ہوئے اور میدان جنگ میں زمین پر گرپڑے ، صحت یاب ہونے کے بعد مدینہ میں رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم حضورمیںپہونچے اور روداد کو حضرت کی خدمت میں بیان کیا ، یہی وجہ تھی کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسامہ کی سرکردگی میںایک لشکر کو ان سے جنگ کرنے کیلئے روانہ کیاا اور داستان ام قرفہ پیش آئی ۔
یعقوبی ، زید کے بھیجے جانے کے سلسلے میں یوں لکھتا ہے :
قبیلہٴ فزارہ کے سردارکی بیوی ام قرفہ نے پیش قدمی کرکے ایک لشکر کو جس میں اس کے چالیس بیٹے بھی شامل تھے ، پیغمبر سے جنگ کرنے کیلئے روانہ کئے زید نے اس کے ساتھ ایک سخت جنگ لڑی ، ان کے تمام جنگجوؤں کو قتل کر ڈالا اور ان کی عورتوں کو اسیر بنایا، اس جنگ میں ام قرفہ کا خاندان پورا کا پورا نابود ہوگیا ۔ اس میں سے صرف دو شخص زندہ بچے : ام قرفہ اور جاریہ نام کی ایک بیٹی یہ دونوں اسیر ہوئیں اس کے بعد ام قرفہ خالد کے حکم سے قتل کی گئی اور جاریہ کو پیغمبر نے اپنے ماموں کو بخش دیا اور اس سے عبدالرحما ن نامی ایک فرزند پیدا ہوا۔
یہ داستان تاریخ میں ” داستان ام قرفہ “ کے نام سے مشہور ہے اور یہ تمام واقعات پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں رونما ہوئے ہیں۔
دوم حواٴب کے کتوںکی داستان ہے
حواٴب بصرہ کے راستے میں ایک منزل ہے حدیث کی کتابوں میں ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر نے اپنی بیویوں سے مخاطب ہوکر فرمایا : تم میں سے کون ہے ؟ جوپشم سے پُراونٹ پر سوار ہوکر وہاں تک جائے گی جہاں پر حواب کے کتے اس پر بھونکیں گے ، اور بہت سے لوگ اس کے دائیں بائیں قتل کئے جائیں گے ۱ لیکن وہ جان سے مار ڈالنے کی دھمکی کے باوجود نجات پائے گی ۲
یہ حدیث ام سلمہ سے یوں روایت کی گئی ہے :
” رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے بعض امہات مؤمنین(اپنی بیویوں) کے باہر نکلنے کے بارے میں یاددہانی کی ، عائشہ نے اس پر مذاق اڑایا، حضرت نے اس سے مخاطب ہوکر فرمایا : اے حمیرا ! :خبر دار، کہیں ان میں سے تم ہی نہ ہو، اے حمیرا : گویا میںدیکھ رہاہوںکہ حواٴب کے کتے تم پر بھونک رہے ہیں ، اس وقت تم علی بن ابیطالب سے جنگ کروگی جبکہ تم ظالم ہوگی۳
اس کے بعد علی علیہ السلام کی طرف رخ کرکے فرمایا: اگر عائشہ کے امور تمہارے ذمہ ہوئے تو اس کے ساتھ نرمی اور مہربانی سے پیش آنا ۴
-------
۱۔ابن کثیر ،ج ۶/ ۱۲۱
۲ سیوطی نے خصائص، ج ۲/ ص ۱۳۷ ، ابن عبدالبر نے عائشہ کی تشریح میں استعیاب میں یہ روایت نقل کی گئی ہے اس کے بعد کہا گیا ہے : یہ روایت نبو ت کی نشانیوں مےں سے ہے۔
۳۔ سیوطی نے خصائص، ج ۲/ ۱۳۷ ، ابن عبد البر نے عائشہ کی تشریح میں استیعاب میں یہ روایت نقل کی گئی ہے ۔ اس کے بعد کہا گیا ہے : یہ روایت نبوت کی نشانیوں میں سے ہے ۔
۴۔ ابن عبدربہ ، عقد الفرید، ج ۳/ ۱۱۸، سیرہٴ حلبیہ، ج ۳/ ۳۲۰ ۔ ۳۲۱ ۔
غیر سیف کی روایت میں حواٴب کی داستان
یہ تھی وہ حدیث جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیشنگوئی کے طور پر روایت کی گئی ہے اور مؤرخین کے نقل کے مطابق اصل داستان یوں ہے :
عرنی( عائشہ کے اونٹ کے مالک) نے کہا : میںایک اونٹ پر سوار تھااور راستے پر چل رہا تھا کہ اچانک ایک سوار سامنے آکر بولا : اے اونٹ کے مالک ! کیا اپنے اونٹ کو بیچو گے ؟
میں نے کہا: ہاں
اس نے کہا: کتنے میں؟
ہزار درہم میں ۔
کیا تم دیوانہ ہوگئے ہو ؟ کیا اونٹ ہزار درہم میںفروخت کیا جاتا ہے ؟
جی ہاں ! میراا ونٹ ہے
کس لحاظ سے یہ بات کہہ رہے ہو ؟
اس کا سبب یہ ہے کہ میں نے اس اونٹ پر سوار ہوکر کسی کا پیچھا نہیں کیا مگر یہ کہ اس تک پہنچا اور جس کسی نے میرا پیچھا کیا ، اگر میں اس اونٹ پر سوار تھا تو پیچھا کرنے والا مجھ تک نہیں پہنچ سکا ہے ۔ اگر میںیہ بتادوں کہ اس اونٹ کو کس کیلئے خریدنا چاہتا ہوں تو تم میرے ساتھ اس سے اچھا معاملہ کرو گے ۔
کس کیلئے چاہتے ہو؟
تیری ماں کیلئے !
میں تو اپنی ماں کو اپنے گھر میں چھوڑ کے آیا ہوں وہ صاحب فراش ہے اور حرکت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔
میں اس اونٹ کو ام المؤمنین عائشہ کیلئے چاہتا ہوں ۔
اگر ایسا ہے تو اونٹ کو میں بلا قیمت تجھے دیتا ہوں ۔
نہیں ، میرے ساتھ میرے گھر آؤ تا کہ ایک اونٹ اور کچھ رقم تجھے دیدوں ۔
وہ کہتا ہے میں وہاں چلا گیا اس نے مجھے ایک بچہ دار اونٹی دی جو عائشہ کی تھی اور اس کے علاوہ چار سو یا چھ سو درہم دئیے، اس کے بعد کہا : کیا راستہ جانتے ہو ؟
میں نے کہا: ہاں ، دوسروں سے بہتر
اس نے کہا: لہذا ہمارے ساتھ آجاؤ۔
میں ان کے ہمراہ چلا ہم جس بیابان اور دریا سے گزرتے تھے وہ مجھ سے سوال کرتے تھے یہاں کونسی جگہ ہے ؟یہاں تک ہم حواٴب کے پانی سے گزرے ، وہاں کے کتوں نے بھونکنا شروع کیا
سوال کیا؛ یہ کونساپانی ؟
میں نے کہا: حواٴب کا پانی
کہتا ہے کہ : عائشہ نے بلند آواز میں ایک فریاد بلند کی ، اس کے بعد اونٹ پر ہاتھ مارا اور اونٹ کو بٹھا دیا اور کہا: خدا کی قسم ! میں وہی ہوں جس کیلئے حواٴب کے کتون نے بھونکا ، مجھے واپس لے چلو (تین مرتبہ جملہ کی تکرار کی ) عائشہ نے اونٹ کوبٹھا دیا اور لوگوں نے بھی اپنے اونٹوں کو اسکے اطراف میں بٹھادیا ، وہ سب اسی حالت میں تھے اور عائشہ دوسرے دن آگے بڑھنے سے انکار کرتی رہیں ۔
کہتا ہے : عائشہ کا بھانجا ، ابن زبیر عائشہ کے پاس آیا اور کہا: جلدی کرنا جلدی کرنا خدا کی قسم علی ابن ابیطالب آپ کے نزیک پہنچ رہے ہےں ، وہاں سے روانہ ہونے کے بعد اس نے ہمیں برا بھلا کہ تا آخر روایت ۱
مسند احمد میں یوں لکھا گیا ہے کہ اس موقع پر زبیر نے کہا: کیا واپس جانا چاہتی ہو ؟ شاید خداوند عالم تیرے واسطے لوگوں کے درمیان صلح کرائے ۲
ابن کثیرکہتا ہے :با وجو اس کے کہ اس روایت میں صحیح ہونے کے وہ شرائط موجود ہیں جنکے شیخین قائل ہیں ، لیکن پھر بھی شیخین نے اس کو روایت نہیں کیا ہے۳
طبری نے نےززہری سے نقل کیا ہے کہ عائشہ نے کتوں کے بھونکنے کی آواز سنی اور کہا:
یہ پانی کونسا پانی ہے ؟
کہا گیا: حواٴب
---------
۱۔ ابن کثیر، ج ۶/ ۱۳۶ خوارزمی نے مناقب میںبھی جنگ جمل کے باب میں ، المستدرک ،ج۳/ ص ۱۱۴ ، الاصابہ،۶۳۔
۲۔ مسند احمد ، ج ۶/ ص ۹۷۔
۳۔ البدایة و النہایة ، ج ۷ ص ۲۳۰۔
اس نے کہا: <انا لله و انا الیہ راجعون >یقینا میں وہی ہوں سچ یہ ہے کہ میں نے رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے جبکہ آپ کی سب بیویاں آپ کے نزدیک موجود تھیں اور آپ نے فرمایا تھا : کاش مجھے معلوم ہوتاکہ تم میں سے کس پر حواٴب کے کتے بھونکیں گے !
عائشہ وہاں سے واپس جانا چاہتی تھیں لیکن عبداللهبن زبیر اس کے پاس آئے اور تا آخر۱
ابن کثیر ۲اور ابو الفداء ۳کی روایت میں یوں آیا ہے : عائشہ نے کفِ افسوس ملتے ہوئے کہا:
”میں وہی عورت ہوں “
اسی روایت میں ہے کہ ابن زبیر نے عائشہ سے کہا: جس نے بھی یہ کہا ہے کہ یہ حواٴب کا پانی ہے ، اس نے یقینا جھوٹ بولا ہے ۔
مسعودی نے مروج الذہب میں روایت کی ہے کہ ابن زبیر نے کہا: خداکی قسم یہ حواٴب نہیں ہے اور جس نے تجھے ایساکہا ہے اس نے خطا کی ہے ۔ طلحہ (جومجمع کی انتہائی نقطہ پر تھے)نے بھی اپنے آپ کو عائشہ کے پاس پہنچادیا اور قسم کھا کر کہا کہ یہ حواٴب نہیں ہے ، اس کے علاوہ ان میں سے پچاس افراد نے بھی ان دونوں کی پیروی میں اس طرح شہادت دی ، یہ پہلی جھوٹی قسم تھی جو اسلام میںکھائی گئی۔
-------
۱۔ تاریخ طبری ج ۳/ ص ۴۸۵۔
۲۔تاریخ ابن کثیر ، ج ۷/ ۲۳۰۔
۳۔ تاریخ ابو الفداء ص ۱۷۳۔
تاریخ یعقوبی میں لکھا گیا ہے کہ عائشہ نے کہا؛ مجھے واپس بھیجدو یہ وہی پانی ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا : ہوشیار رہنا !ایسانہ ہو کہ جس عورت پر حواٴب کے کتے بھونکیں گے تم ہو ، چالیس آدمی عائشہ کے پاس لائے گئے اور انہوں نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ یہ پانی ، حواٴب کا پانی نہیں ۱
الامامة و السیاسة اور مناقب خوارزمی میں جنگِ جمل کی ذکر میںیوں آیا ہے : جب حواب کے کتوں نے عائشہ پر بھونکنا شروع کیا تو اس نے محمد بن طلحہ سے سوال کیا ؛ یہ کونسا پانی ہے ؟ یہاں تک کہ آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا قول نقل کیا کہ آنحضرت نے فرمایا: اے حمیرا! ایسا نہ ہو کہ وہ عورت تم ہو ؟! محمد بن طلحہ نے عائشہ سے کہا: خداآپ کو معاف کرے، آگے بڑھیئے اور ایسا کہنے سے پرہیز کیجئے۔ عبدالله بن زبیر بھی عائشہ کے پاس گئے اور خد اکی قسم کھاکر کہا : آپ شب کی ابتداء میں سے گزری ہیں ۔ اور عربوں میں سے جھوٹے گواہ لاکر اسی چیز کی شہادت بھی دلائی گئی ، کہا جاتا ہے کہ یہ پہلی جھوٹی شہادت تھی جو اسلام میں دی گئی۲
مذکورہ مؤرخین کے علاوہ دوسرے مؤرخین نے بھی اس روایت کو رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے ، جیسے : ابن اثیر نے کتاب ” النہایة“ میں ، حموی نے ” معجم البلدان “ میں ، دونوں نے لغت ” حواٴب “ میں ، زمخشری نے لغت ” دیب“میں کتاب الفائق سے ، ابن الطقطقہ نے الفخری ۷۸
--------
۱۔ تاریخ یعقوبی ،ج ۲/ ۱۱۷۔
۲۔ الامامة و السیاسة، ج ۱/ ۵۶۔
، طبع مصر میں ،زبیدی نے لغت ” خاٴب“ ج ۱/ ص ۱۹۵ اور لغت ” دبب“ ج: ۲۴۴ میں ، مسند احمد ج ۶/ ۵۲ ۔ ۹۷ ، تاریخ اعثم مص ۱۶۸ ۔ ۱۶۹ ، سمعانی نے انساب میں ” حوینی “ کی تشریہ میں ، سیرہ حلبیہ، ج ۳/ ص ۳۲۰ ، ۳۲۱ او رمنتخب کنز ،ج ۵/ ۴۴۴ ۔ ۴۴۵۔
چھان بین اور موازنہ کانتیجہ
سیر ، حدیث اور تاریخ کی تمام کتابوں میں متفقہ طور پر لکھا گیا ہے کہ ام المؤمنین عائشہ تنہا خاتون ہےں جس پر حواٴب کے کتوں نے بھونکا ، چونکہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اس سے پہلے خبر دی تھی اور اس خبر کو نبوت کی علامتوں میں سے ایک علامت سمجھا گیا ہے ۔
ان میں صرف سیف ہے جس نے اپنے افسانوںکے پیاسوںکیلئے اس تاریخی حقیقت کو بدلنا چاہا ہے ، لہذا اس نے ”ام زمل“ نامی ایک عورت کو گڑھکر اس واقعہ کو ان کے سر تھونپا ہے ، لیکن خوش قسمتی سے چونکہ طبری نے اس قضیہ میں صرف اسی کی روایت کو نقل کرنے پر اکتفا نہیں کیا ہے ، بلکہ عرنی ( اونٹ کے مالک ) اور زہری کی روایت کو بھی جمل اور کتوں کے بھونکنے کی داستان میں نقل کیا ہے ، لہذ اطبری سے نقل کرنے والے تاریخ نویسوں اور تاریخ طبری پڑھنے والوں کیلئے حقیقت قضیہ پوشیدہ نہیں ہے ، یہ بعض تاریخی حقائق کے برعکس ہے جنکے بارے میں طبری نے سیف کے علاوہ کسی اور کی روایت کو نقل نہیں کیا ہے ۔
ہم نے یہاں تک ابو بکر کے زمانے کے مرتد لوگوں کے بارے میںاس کے کثیرافسانوں میںچند نمونے پیش کئے ان کے دوسرے حصہ کو ہم اس کتاب کی دوسری جلد اوراپنی کتاب ” ایک سو پچاس جعلی اصحاب“ کیلئے رکھتے ہیں اس کتاب کے اگلے حصہ میںہم طاقتور بدکرداروں کے حق میں سیف کا دفاع کے عنوان سے سیف کے چند دوسرے افسانوں پر بحث کریں گے۔
|