علاء حضرمی کی داستان اور بحرین کے لوگوں کا ارتداد
واقتتلو ا قتالا شدیداً فما ترکوا بھا مخبراً
” علاء کے سپاہیوں نے دارین کے لوگوں سے ایسی جنگ کی اور ان پر تلوار چلائی کہ حتی ان میں سے ایک شخص بھی زندہ نہیں بچا “
سیف
علاء حضرمی ، عبدالله بن عماد بن اکبر بن ربیعہ بن مالک بن عویف حضرمی کا بیٹا ہے اس کا باپ مکہ کا باشندہ تھاا ور حرب بن امیہ کا ہم پیمان تھا، علاء کو رسول خدا نے بحرین کا گورنر مقرر رفرمایا تھا ، پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ابو بکر نے بھی اسے اسی عہدہ پر برقرار رکھا اور عمرکے زمانے میںبھی اسی عہدہ پر برقرار تھا یہاں تک کہ ۱۴ ھء یا ۲۱ ھء میں اس دنیا سے چلا گیا ۱
سیف کی روایتوں میں علاء کی داستان
طبری نے سیف سے اور اس نے منجاب بن راشد ۲ سے نقل کیا کہ ابو بکر نے علاء حضرمی کو حکم
----------
۱۔ الاستیعاب ج ۳/ ص ۱۴۶ ۱۴۸۰ ، الاصابہ ۴۹۱۔
۲۔ اغلب گمان یہ ہے کہ منجاب بن راشد سیف کی خیالی پیداوار ہے ہم مناسب جگہ پر کہیں گے کہ سیف نے اس قسم کے اصحاب بہت جعل کئے ہیں۔
دیا کہ بحرین کے مرتدلوگوں سے جنگ کریںیہاں تک کہتا ہے :
” ہمیں دہنا ۱ کے راستہ سے روانہ کیا، جوں ہی ہم اس بیابان کے بیچ میں پہنچ گئے اور خداوند عالم نے اپنی آیات میں سے ایک آیت کو ہمیں دکھانا چاہا ، علاء مرکب سے نیچے اترا اورلوگوں کو بھی حکم دیاکہ اپنے اپنے مرکبوں سے نیچے اتریں ، جب ہم سب نے وہاںپر پڑاؤ ڈالا تو ہمارے اونٹوں نے اندھیری رات میں اچانک فرارکیا اور ہمارا پورا مال و منال اس ریگستاں میں ایسے نابود ہوا کہ پڑاؤ ڈالتے وقت نہ ہمارے اونٹ کہیں تھے اور نہ زاد راہ کا نام و نشان موجود تھا ، کیوںکہ ہمارے اونٹ سب کچھ لے کر ریگستان میں غائب ہوچکے تھے ہم نے کسی مصیبت زدہ گروہ کو اس حالت میں نہیںدیکھا تھا جو اس رات ہم پرگزری ، ہم اس حد تک مصیبت میں گرفتارہوئے تھے کہ اپنی زندگی سے بھی مایوس ہوچکے تھے اور ہم میںسے ہر ایک ، ایک دوسرے کو وصیت کرتا تھا ، اسی اثناء میں علاء کے منادی نے آواز بلند کرکے سپاہیوں کو ایک جگہ جمع ہونے کا اعلان کیا ہم سب علاء کے اردگرد جمع ہوئے ، اس نے ہم سے مخاطب ہوکر کہا ؛ تم لوگوں میں یہ کیا حالت پیداہوئی ہے ؟
لوگوں نے جواب میں کہا : کیا یہ ملامت کا موقع ہے ؟ اگر ہم اس موجودہ صور ت حا ل میں ر ات گزاریں گے تو کل سورج روشن ہونے سے پہلے ہی ہمارا نام و نشان باقی نہیں رہے گا ۔
علاء نے کہا: اے لوگو ! نہ ڈرو کیا تم مسلمان نہیں ہو، ؟ کیا تم خدا کی راہ میں قدم نہیں اٹھا رہے ہو !
---------
۱۔ دہنا بنی تمیم کے قبیلہ کی زمینوں میںسے ہے جس میںر یت کے سات پہاڑ تشکیل پائے ہیں ،معجم البلدان ج۴/ ۱۱۵
کیا تم خدا کے یاور نہیں ہو ؟
انہوں نے کہا کیوں نہیں !
اس نے کہا: پھرمیںتمہیں نوید دے رہا ہوں ، خدا کی قسم کھاتا ہو ںکہ خداوند عالم ہرگز تمہارے جیسی حیثیت کے مالک فرد کو ذلیل و خوار نہیںکرے گا جب صبح نمودار ہوئی منادی نے نماز کیلئے اعلان کیا اور علاء نے نماز ہمارے ساتھ پڑھی ہم میں سے بعض نے تیمم کرکے نماز پڑھی اور بعض دیگر ابتدائے شب ہی سے با وضو تھے علاء نے جب نماز سے فراغت حاصل کی تو دو زانو بیٹھ گیا لوگ بھی دو زانو بیٹھ گئے ، اس نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور لوگوں نے بھی دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے ، اس دوران سورج کی گرمی کی وجہ سے دور سے پانی کی لہریں نظر آنے لگیں ، علاء نے جماعت کے صف کی طرف رخ کرکے کہا؛ کوئی جاکر دیکھ لے یہ کیا ہے تو ایک شخص جاکر واپس آیا ، اس نے کہا: یہ ایک سراب کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، علاء نے پھر سے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے ، ایک او رسراب نمودار ہوا جو بالکل پہلے کی طرح تھا ، اس کے بعد پھر سے پانی کی لہریں دکھائی دینی لگیں ، اس دفعہ ہمارا راہنما واپس آکر بولا ” پانی ہے “
پھرعلاء اٹھا اور لوگ بھی اٹھے ہم سب پانی کی طرف روانہ ہوئے اورپانی تک پہنچ گئے ہم نے پانی پی لیا ور اور ہاتھ منھ دھویا،ابھی سورج بلند نہ ہوا تھا کہ ہم نے دیکھا ہمارے اونٹ ہر طرف سے ہماری طرف ہانکے جارہے ہیں، جب وہ ہمارے پاس پہنچے تو ہمارے سامنے جھک کر بیٹھ گئے اورہر ایک نے اپنے اونٹ کو پکڑلیا ، ان کے مال کا ایک ذرہ بھی کم نہیں ہوا تھا ہم نے اپنے مرکبوں کو پانی پلایا او خود بھی سیراب ہوئے اور ہم وہاں سے روانہ ہوگئے ابوہریرہ میرے ساتھ تھا ، جب ہم اس جگہ سے آگے بڑھے اور وہ جگہ نظروں سے اوجھل ہوئی ، تو ابو ہریرہ نے مجھے کہا: کیا پانی کی جگہ کو پہچان سکتے ہو؟ میں نے جواب میں کہا: تمام لوگوں سے بہتر میں اس سرزمین کے بارے میں آشنا ہوں اس نے کہا : میرے ساتھ آؤ تا کہ مجھے اس پانی کے کنارے پہنچادو ،ہم دونوں ایک ساتھ آکر اس جگہ پہنچے ، لیکن ہم نے انتہائی تعجب کے ساتھ مشاہدہ کیا کہ نہ وہ تالاب موجود تھا اور نہ پانی کا کہیں نام و نشان باقی تھا میں نے اس سے کہا: خدا کی قسم اگر میں تالاب کو یہاں غائب نہ پاتا تو کہتا : یہ وہی جگہ ہے ، دلچسپ کی بات یہ ہے کہ میں نے اس سے پہلے بھی یہاں پر پانی نہیں دیکھا تھا ، ہم اس گفتگو میں لگے تھے کہ ابو ہریرہ کی نگاہ اس کے اپنے لوٹے پر پڑی جو پانی سے بھرا تھا ، اس نے کہا : اے ابو سہم خد اکی قسم یہ وہی جگہ ہے اور میںا سی لوٹے کیلئے واپس آیا ہوں اور تجھے بھی اسی لوٹے کیلئے اپنے ساتھ لے آیا ہوں میں نے اس میں پانی تالاب کے کنارے رکھا تھا تا کہ واپس آکر دیکھو لوں کہ پانی کا کوئی اتا پتہ ہے کہ نہیں اس صحرا میں پانی کا نمودار ہونا ایک معجزہ تھا ، اب مجھے معلوم ہوا کہ یہ معجزہ تھا ، لہذا بوہریرہ نے خداکا شکر ادا کرکے ہمراہ روانہ ہوگیا۔
اس کے بعد سیف بحریں کے مرتدلوگوں سے علاء کی جنگ کی داستان نقل کرتا ہے اور اس سلسلے میں کہتا ہے : علاء کی فوج نے اس رات میں( جب سب مست تھے) فتح پائی یہاں تک اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۵۲۶ پرلکھتا ہے جب علاء نے اس طرف سے خاطر جمع ہوکر سکون حاصل کیا تب اس نے لوگوں کو شہر ” دارین “ کی طرف روانہ ہونے کی دعوت دی اور ان کو جمع کرکے ایک خطبہ دیااوربولا : خداوند عالم نے شیاطین اور جنگ سے فرار کرنے والوںکو اس شہر میں جمع کیا ہے ، اس نے اپنی آیات صحرا میں تمہارے لئے دکھلائی ہیں، تا کہ تم لوگوں کیلئے عبرت اور اطمینان کا سبب بنو ،لہذا اٹھو! اوراپنے دشمن کی طرف رخ کرکے سمندر میں کود پڑو کہ خداوند عالم نے تمہارے دشمن کو ایک جگہ جمع کردیاہے ۔
فوجیوں نے کہا : خدا کی قسم صحرائے ”دھنا“ کی داستان کے بعد مرتے دم تک ہم کسی بھی خطرناک واقعہ کے رونما ہونے سے خائف نہیںہوں گے ۔
علاء اپنے مرکب پر سوار ہوا ور اس کے فوجی بھی سوار ہوئے اور سمندر کے ساحل پر پہنچے ، علاء اور اس کے سپاہی یہ دعاپڑھ رہے تھے : یا ارحم الراحمین یا کریم یا حلیم یا احد یا صمد یا حی یا محیِی الموتی یا حی یا قیوم لا الہ الا انت یا ربنا اس کے بعد خدا کا نام لے کر سمندر میں کود پڑے ان کے قدموںتلے سمندر کا پانی نرم زمین کے مانند تھا پانی صرف اونٹوں کے سموںکے اوپر والے حصہ تک پہنچتا تھا دریا سے شہردارین تک سمندر میںکشتیوں کے ذریعہ ایک دن رات کا فاصلہ تھا۔ ” دارین “ پہنچ کر وہ دشمن کی فوج سے نبرد آزما ہوئے ، گھمسان کی جنگ ہوئی ، دشمن پر انہو ںنے ایسی تلوارچلائی کہ ان میں سے ایک نفر بھی زندہ نہ بچا، جو ان کی کوئی خبر لاتا ان کے بال بچوں کو اسیرکیا گیا اور ان کا مال لوٹ لیا گیا، اس قدر دولت ہاتھ آئی کہ ہرسوار کو چھ ہزار اور ہر پیادہ کو دو ہزار کا حصہ ملا پھر وہ اسی روز اس طرح واپس چلے گئے جس طرح آئے تھے ، عفیف بن منذر نے اس واقعہ کے متعلق یوں کہا:
اٴلم تر انَّ اللّہ ذلّل بحرہ
و انزل بالکفار احدی االجلائل
دعونا الذی شقّ الرمال فجائنا
باعجب من فَلْقِ البحار الاوائل
ترجمہ :
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خداوند عالم نے کس طرح سمندر کی پر خروش اور سرکش لہروں کو رام کیا اور کفار کے سر پر ایک بڑی بلاء و مصیبت ڈال دی ؟ ہم نے ایک ایسے خدا سے التجا کی جس نے ریگستان کی ریت کو توڑدیا ( اور ہمارے لئے پانی جاری کیا) اس نے بھی ہماری دعا قبول کی اور ایسا کام کیا کہ گزشتہ زمانوں میں ( دوران فرعون ) سمندر کو چیرنے سے عجیب تر تھا۔
اسکے بعد طبری کہتا ہے :
” جب علاء بحرین واپس آیا تو اس قت اس سرزمین میں اسلام پائدار و مستحکم ہوگیا تھا اہل اسلام عزیز اور اہل شرک ذلیل ہوگئے مسلمانوں کے ہمسفر ایک راہب نے اسلام قبول کیا تو اس سے سوال کیا گیا کہ تیرے اسلام قبول کرنے کا کیا سبب ہوا ؟ اس نے جواب میںکہا؛ میں نے تین چیزوں کا مشاہدہ کیا اور ڈر گیا کہ اگر ان کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ایمان نہ لاؤں ، تو خداوند عالم مجھے ایک حیوان کی صورت میں مسخ کردے گا۔
۱۔ ریگستان میں جاری ہونے والا پانی
۲۔ سمندر کی طوفانی لہروں کا راستہ میں تبدیل ہونا۔
۳۔ ہنگام سحر لشکر اسلام سے جو دعا میں نے سنی ۔
سوال کیا گیا : وہ دعا کیا تھی ؟
اس نے کہا:
اللّٰھم انت الرحمن الرحیم ، لا الہ غیرک ، و البدیع لیس قبلک شیء و الدائم غیر الغافل ، والحی لا یموت ، و خالق ما یری ، و ما لا یری و کل یوم انت فی شاٴن و علمت اللُّھم کل شیء بغیر تعلّم ،
پھرمجھے معلو ہوا کہ ملائکہ ان لوگوں کیلئے ماٴمور کئے گئے ہیں کیونکہ وہ حق کی راہ پر چلتے ہیں ، بعد میں رسول خدا کے اصحاب نے اس راہب سے مذکورہ واقعہ سنا۔
علاء نے حضرت ابو بکر کو لکھا : اما بعد ، خداوند عالم نے ریگستان کو ہمارے لئے ایک ایسے چشمے میں تبدیل کردیا ہے جس کی انتہا نظر نہیں آتی تھی : اس طرح ہمارے مشکل اور غم و اندوہ میں گرفتار ہونے کے بعد اپنی قدرت کی ایک آیت اور عبرت کے اسباب ہمیں دکھا یا ، تا کہ ہم خدا کا شکر بجالائیں، لہذاآپ بھی ہمارے لئے دعا کیجئے اور خدا سے درخواست کیجئے کہ اپنے لشکر اور ا سکے دین کی یاری کرنے والوں کی مدد فرمائے۔
جب حضرت ابو بکر کو یہ خط ملا تو انھوں نے خدا کا شکر اداکیااور دعا کرتے ہوئے کہا: ہر وقت جزیرة العرب کے بیابانو ںکے بارے میں بات چھڑتی تھی ، عرب کہتے تھے لقمان سے پوچھا گیا : کیا ”دہنا “ کے ریگستانوں میں کنواں کھودیں ؟ لقمان نے منع کیا اوراجازت نہیں دی کہ وہاں پر کھدائی کی جائے ،کیونکہ ان کا اعتقاد یہ تھا کہ اس سرزمین میں پانی اتنی گہرائی میں ہے کہ کوئی بھی رسّی، اس تک نہیں پہنچ سکتی اور اس سرزمین سے ہرگز کوئی چشمہ ابل نہیں سکتاایسی صورتحال میں اس سرزمین پر پانی کا وجود خدا کی عظیم نشانی ہے اس سے قبل کسی بھی امت میںایسا واقعہ رونما نہیں ہوا ہے ، الٰہی ! وجود محمد کے اثرا ت و برکات کو ہم سے نہ چھین لینا“ ۱
اس افسانہ کو ابن کثیر نے اپنی تاریخ ۲ میں سیف سے تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے اور ابو الفرج نے بھی ”الاغانی“ میں اسی روایت کو طبری سے نقل کرکے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے بے شک ان تمام دانشوروں اورعلماء نے اس افسانہ کو سیف سے نقل کیا ہے ۔
سیف کے علاوہ دوسروں کی روایت میں علاء کی داستان
ہم نے علاء کی داستان کے بارے میں سیف کی روایت کو پڑھا ، لیکن سیف کے علاوہ دوسرے ۱س بارے میںکچھ اور روایت نقل کرتے ہیں جو سیف کی روایت سے سازگار نہیں ہے ، مثال کے طورپر بلاذری فتوح البلدان میں لکھتے ہےں : ” خلافت عمر بن خطاب کے زمانے میں ” زارہ“ اور ”دارین “ کے لوگوںسے جنگ کرنے کیلئے علاء روانہ ہوا ، لیکن ” زارہ “ کے لوگ جنگ کیلئے آمادہ نہیں
-------
۱۔ تاریخ طبری ،م ج ۲ / ۵۲۲۔ ۵۲۸ ۔
۲۔ تاریخ ابن کثیر ،ج ۶/ ۳۲۸ ، و ۳۲۹ ۔
ہوئے اور صلح کے دروازے سے داخل ہوکر علاء سے صلح کا عہد پیمان باندھ کر جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیااور صلح کی شرط یہ تھی کہ شہر کی دولت کا ایک تہائی نیز وہاں پرموجود سونے چاندی کا ایک تہائی علاء کو دیا جائے اور شہر سے باہر موجود اموال کا نصف اس کو دیا جائے ، اخنس بن عامری علاء کے پاس آیا اور کہا کہ انہوں نے اپنے بارے میں آپ سے صلح کی ہے لیکن ” دارین “ میں موجود اپنے خاندان کے بارے میںکوئی صلح نہیں کی ہے،”کرازالنکری “ نامی ایک شخص نے علاء کو پانی کے درمیان سے گزرنے والے ایک خشکی کے راستے ” دارین “ تک پہنچانے میں راہنمائی کی ۔ علا ء مسلمانوں کے ایک گروہ کے ہمراہ اسی راستہ سے روانہ ہوا، اہل ” دارین “ جو بالکل بے خبر تھے، نے اچانک مسلمانوںکے ” اللہ اکبر “ کا نعرہ سن کر اپنے گھروں سے باہر نکل آئے، وہ تین جانب سے حملہ کا نشانہ بنے ، ان کے جنگجو اسلام کے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور ان کے اہل و عیال کو اسیر بنایا گیا “
سیف کی روایت کا متن اور دیگر تاریخ نویسوں کے متن سے اس کی تطبیق :
قارئین کرام نے یہاں تک علاء کی داستان اور بحرین کے باشندوں کے ارتداد کے بارے میںسیف اور غیر سیف کی روایت کو ملاحظہ فرمایا، اب ہم روایتوں کے ان دو سلسلوں --جو مضمون کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں --کی تطبیق اورموازنہ کرتے ہیں اور سیف کی رو ایت کے متن کی ساخت کے لحاظ سے باطل ہونے کو واضح اور روشن کریں گے ۔
سیف نے ابو بکر کے لشکر کیلئے ان جنگوں میں (جنہیں جنگ ” ردّہ“ کہا جاتا تھا ) خشک بیابان میں پانی کا تالاب جعل کیا ہے ، البتہ ان کے اونٹوںکے رم کرکے فرار کرنے کے بعد اور مطلب کی مکمل طور پر تائید کرنے کیلئے کہا ہے کہ ابوہریرہ اپنے ساتھی کے ہمراہ دوبارہ اس جگہ کی طرف لوٹے اور تالاب کے کنارے رکھے ہوئے اپنے لوٹے کو اس صورت میں موجود پایا، لیکن تالاب کا کہیں کوئی نام و نشان نہ تھا، اور اس کے علاوہ کہا ہے کہ لقمان نے ( ان تمام خداداد حکمت کے باوجود ) بیابان میںکنواںکھودنے کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ اس کنوے کے عمق تک پہنچنے والی رسی موجود نہیں تھی اس کے بعد ان کیلئے ایک اور معجزہ گڑھ لیا ہے کہ اس کے کہنے کے مطابق اس سے پہلے کسی نے ایسا معجزہ نہیںدیکھا یا، اگر چہ موسی ابن عمران نے دریا کو چیر ڈالا ، لیکن ( موسی ید بیضا کے ذریعہ ) پانی کے اوپر سے نہ چل سکے ، اس مطلب کی تائید میں عفیف بن منذر کے دو شعر بھی نقل کرتا ہے اور ان کے ہمسفر راہب کے اسلام قبول کرنے کو اپنی صداقت ثابت کرنے کیلئے ایک دوسری تائیدپیش کرتا ہے اس بیچارہ نے ان معجزوں کو دیکھ کر اور ملائکہ کی دعا کو سن کر اسے خدا کی طرف سے ابوبکر کے لشکر کی تائید سمجھ کر اسلئے اسلام قبول کیاتا کہ مسخ نہ ہوجائے اور اپنی بات کی آخری تائید کے طور پر اس خط کو پیش کرتا ہے جسیے ابو بکر کے نام لکھا تھا اور ان سے دعا کی درخواست کی تھی توابو بکر نے بھی اس کے التماس کو منظور کرکے منبر پر جاکر اس کیلئے دعا کی تھی۔
سیف ایسے افسانہ کو جعل کرتا ہے اور طبری ، حموی ، ابن اثیر ، ابن کثیر اور دوسرے مؤرخیں اور علمائے حدیث اس کی روایت کے استناد کی بناء پراس افسانہ کو اپنی کتابوں میں نقل کرتے ہیں اور نتیجہ کے طورپر یہ افسانے تاریخ اسلام کے جزو قرارپاتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے علاوہ صرف اتنیہے کہ لشکر اسلام دارین کی طرف جارہا تھا کہ ان کے راستے میںا یک دریا ملا، جس میں عبورکرنے کا راستہ بھی موجود تھا اور یہ راستہ ابوبکر کے لشکر کیلئے مخصوص نہیں تھا بلکہ ہر ایک راہی اس طرف سے دریا کو عبورکرسکتا تھا ، لہذا ” کزازنکری “ پہلے سے اس راستہ کے بارے میں علم رکھتا تھا اور اس نے ابو بکر کے لشکر کی راہنمائی کی تھی اور انھیں پانی سے عبور کرادیا تھا ، ان تمام باتوں کے علاوہ،جنگ ابو بکر کے زمانے میںواقع نہیں ہوئی ہے ( جیساکہ سیف نے کہاہے ) بلکہ یہ جنگ عمر کے زمانے میںواقع ہوئی ہے ان تمام مطالب کو صرف سیف نے نقل کیا ہے اور یہ اسکی خصوصیات میں سے ہے ۔
چنانچہ وہ جنگ کی کیفیت نقل کرنے میں بھی منفرد ہے، کہتا ہے : ” انہوں نے ایک شدید جنگ لڑی ، حتی کہ ان میں سے ایک نفر بھی زندہ باقی نہ بچا تا کہ ان کی کوئی خبر لے کر آتا ۔ ۱
سیف کی روایتوں کی سند
جعلی او رمن گڑھت تھی سیف کی روایتوں کا متن ملاحظہ فرمایا،لیکن اس روایت کے سند کے لحاظ سے باطل اور کمزور ہونے کے سلسلے میں اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اس روایت کو صعب بن عطیہ سے نقل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس روایت کو اس نے اپنے باپ عطیہ بن بلال سے میرے لئے نقل کیا ہے اور ہم نے مالک بن نویرہ کی داستان میں ثابت کردیا کہ یہ باپ ،بیٹے اور جد سیف کے خیالات
۱۔ اس افسانوی راہب کی جعلی دعا کو ابن طاووس نے کتاب ” مہج الدعوات “ میں تاریخ ابن اثیر سے نقل کرکے اپنی کتاب کی دعاؤں میں شامل کیا ہے ۔
کی پیداوار ہیںا ور ہرگز ایسے افراد اور کارندوں کادنیا میں وجود ہی نہیں تھا ، یہ ہے سیف کی روایت کے متن اور اس کی سندکا عالم!
یہ سیف کی ” مرتدین “ کی داستانوں کی دوسری داستان تھی جسے ہم نے اس فصل میں بیان کیا اور اگلی فصل میں تیسری داستان ملاحظہ فرمائیں ۔
ام زمل کا ارتداد اور حواٴب کی داستاں
وَضَع سیّف ھذہِ الاٴُسطورة دِفاعاً عن عائشةَ
سیف نے اس داستان کو عائشہ کے دفاع کیلئے جعل کیا ہے ۔
مؤلف
|