عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
 
مالک کی داستان کے بارے میں سیف کی روایتوں کی چھان بین
و بکل ذلک اثبت ارتداد مالک بن نویرہ
سیف من گڑھت روایتوں سے مالک کے ارتداد کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے
مؤلف

انا علی الاسلام لا غیّرت ولا بدّلت
میں اپنے اسلام پر ثابت و پائیدار ہوںنہ میں نے دین میں تغیر پیدا کیا ہے اور نہ تبدیلی کی ہے۔
مالک بن نویرہ

گزشتہ فصلوں کا ربط
ہم نے گزشتہ دو فصلوں میں مالک بن نویرہ کی داستان کے بارے میں سیف کی روایتوں اور دیگر مؤرخین کی روایتیں درج کی ہیں ، اب ہم اس فصل میں اس جگہ پر سیف کی روایتوں کو دیگر مؤرخین کی روایتوں سے تطبیق اور موازنہ کرکے تحقیق کریں گے پھر متن اور سند کے لحاظ سے ان کی جانچ پڑتال کریں گے ۔
جب ہم سیف کی رواتیوں کی اسناد کی تحقیق کرتے ہیں اور ان کے متن کو دوسروں کی روایتوں سے ملاتے اور موازنہ کرتے ہیں تو اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ سیف کی روایتیں متن اور سند کے لحاظ سے بے بنیاد اور ناقابل اعتبار ہیں ، یہاں پر ہم پہلے سیف کی روایتوں کی سند کی چھان بین کریں گے اور پھر ان کے متن پربحث کریں گے ۔

سند کے لحاظ سے سیف کی روایتوں کی قدر وقیمت
سیف نے روایت نمبر ۱ ، ۲ و۳ کو صعب بن عطیہ سے نقل کیا ہے اور کہتا ہے : صعب نے بھی اپنے باپ عطیہ بن بلا ل سے روایت کی ہے اور اپنی پانچویں اور ساتویں روایت کو عثمان بن سوید بن مثعبہ سے نقل کیا ہے ۔
عطیہ اورصعب ---باپ، بیٹے --- اور عثمان بن سوید کی آشنائی کےلئے ہم نے علم حدیث اور سند شناس دانشوروں کی رجال کی کتابوں کی طرف رجوع کیا تو ہمیں عطیہ و صعب کے بارے میں کہیں کوئی اثر نہ ملا لیکن، عثمان بن سوید ، اگرچہ تاریخ میں سوید بن مثعبہ یا سوید بن شعبہ کا نام ملتا ہے لیکن اس کیلئے عثمان نامی کوئی فرزند ذکر نہیں ہوا ہے اہل فن کی نظر میں واضح اور مسلم قاعدے کے مطابق ان راویوں کو سیف کے ذہن کی تخلیق جاننا چاہئے اور اس مطلب کی وضاحت کے سلسلے میں ہم کہتے ہیں :
سیف نے بہت سے لوگوں کیلئے بیٹے جعل کئے ہیں چنانچہ حواب کے کتوں کی داستان میں ام قرفہ کیلئے ”ام زمل“ نامی ایک بیٹی تخلیق کی ہے اور ہرمزان کیلئے قماذبان نامی ایک بیٹا جعل کیا ہے چانچہ یہ بحث آئے گی ، ” جعلی اصحاب “ کی بحث میں ہم دیکھیں گے کہ ایک سو پچاس سے زائد راوی و اصحاب اس کی کے ذہنی تخلیق کانتیجہ ہیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے اور ان کا کسی کتاب میں نام و نشان تک نہیں ملتا ، لہذ اہم ناچارہیں کہ عثمان بن سوید کو بھی سیف کے ذہن کی تخلیق سمجھیں ۔

راویوں کے طبقات
یہاں پر ممکن ہے سوال کیا جائے کہ : کس وجہ سے سیف نے جن راویوں سے روایتیں نقل کی ہے ان کانام و نشان کتابوں میں نہیں ملتا اور وہ سیف کے خیالات کی تخلیق ہیں ؟
اس سوال کے جواب کو واضح کرنے کیلئے ہم کہتے ہیں :
علم حدیث کے علماء نے حدیث کے راویوں کی طبقہ بندی کی ہے:
طبقہٴ اول میں: و ہ لوگ ہیں جو رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے ہم عصر تھے اور بلا واسطہ آپ سے روایت نقل کرتے ہیں اس گروہ کو اصحاب یا صحابہ کہتے ہیں ۔
طبقہ دوم : وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو درک نہیںکیا ہے لیکن آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب سے ملاقات کی ہے اور ان سے روایت کرتے ہیں انھیں تابعین کہتے ہیں اور تابعین میںسے جنہوں نے دس اصحاب یا دس سے زیادہ اصحاب سے روایت کی ہو انھیں ” بزرگان تابعین “ کہتے ہیں :
تیسرا طبقہٴ : یہ تابعین کے وہ افراد ہیں جنہوں نے بعض اصحاب سے حدیث روایت کی ہو اور اس گروہ کا زمانہ ولیداموی کی خلافت کے اختتام ۱۲۶ ئھ پر ختم ہوتا ہے ۔
چوتھا طبقہٴ : یہ تابعین کا آخری گروہ اور ان کے ہمعصر راوی ہیں او راس طبقہ نے غالباً طبقہٴ اول کے تابعین سے روایت کی ہے اور ان میں سے بعض نے بھی بعض اصحاب کو درک کیا ہے اس طبقہ کا زمانہ، بنی امیہ کی خلافت کے اختتام ۱۳۲ ھء پر ختم ہوتا ہے ۔
پانچواںطبقہٴ :یہ وہ راوی ہیں جو طبقہ چہارم کے بعد تھے اور ان کا زمانہ منصور عباسی کی خلافت کے اختتام تک تھا ۔
چھٹا طبقہٴ : یہ وہ راوی ہیں جن کا زمانہ ماٴمون کی خلافت کے اختتام تک ختم ہوتا ہے ۱ اور یہ طبقہ بندی چودہ طبقہٴ تک پہنچتی ہے بعض علماء نے دوسرے طریقے سے طبقہ بندی کی ہے جن راویوں نے ہجرت کے پہلے دس برسوں کے دوران وفات پائی ہے انکو پہلے طبقہ سے جانا جاتا ہے اورجنہوں نے دوسرے دس سال میں وفات پائی ہے انھیں دوسرا طبقہ اور اسی طریقہ سے طبقات کے سلسلہ کو آگے بڑھایا جاتا ہے چونکہ دینی علم پہلی صدی ہجری کے اوائل میں قرائت قرآن اور روایت حدیث تک منحصرتھا اوراس کے بعد صرف روایت حدیث اہم ترین دینی علم حساب ہوتا تھا ، لہذا صحاب و تابعین اور ان کے بعد جنہوں نے حدیث روایت کی ہے انھیں عالم کہا جاتاہے جس سے روایت کی گئی
---------
۱۔ تذکرہ حفاظ کے چار جلد ، طبع حیدر آباد کو طرف رجوع کیا جائے ۔

ہے اسے شیخ کہا جاتا ہے ہر شیخ (جو روایت کا استاد تھا) کو معین کیا گیا ہے جس کے چند شاگرد تھے اور ہر شاگرد نے راوی کی تعیین کی ہے جنہوں نے چند شیوخ سے اخذ کیا ہے ان کے اساتید کون ہیں ؟ پھر اس وقت کس طرح ہر ایک کے تفصیلی حالات بیان کرتے ہیں کہ کس شہر میں زندگی گزار رہے تھے با تقویٰ اور پرہیزگار تھے یا یوں ہی ضعیف عقیدہ ،شیعہ تھے یا سنی ، خارجی تھے یاغالی مرجئی تھے یا قدری ، معتزلی تھے یااشعری ، خلق قرآن کے قائل تھے یا اس کے قدیم ہونے کے ، حاکم وقت کے درباسے دور تھے یا درباری تھے ، قوی حافظہکے مالک تھے یا ضعیف حافظہ والے ، سچ بولنے والے تھا یا جھوٹ بولنے والے ، آخر عمر تک اس کی عقل کام کرتی تھی یا آخری عمر میںضعیف العقل ہوگئے تھے ، حدیث نقل کرنے میں کسی دوسرے کے ساتھ شریک تھے یا تنہا روایت کرتے تھے حتی راویوں کی جمع کی گئی حدیثوں کے نمبر تک بھی معین کئے گئے ہیں ۔
بعض طبقات اپنے شاگرد کے نام پر روایت نقل کرنے کی اجازت نامے جاری کرتے تھے اور شاگرد ( راوی ) کو سر ٹیفکیٹ دیتے تھے او خود ان روائی اجازوں کو کو علماء نے دسیوں جلد کتابوں میں ضبط کیا ہے اور اس کے علاوہ دسیوں کوائف حدیث کے راویوں کے بارے میں لکھے گئے ہیں علم حدیث کی اتنی اہمیت تھی کہ اسے دیکھنے کیلئے ایک شہر سے دوسرے شہر میں جاتے تھے ، جیسے کہ آج کل علم حاصل کرنے کیلئے ایک ملک سے دوسرے ملک میں سفر کرتے ہیں خراسان سے مدینہ ، یمن سے مصر اور ری سے بغداد جاتے تھے ،نیز نیشابور ، کوفہ ، بصرہ ، بلخ اور سمرقند وغیر ہ جاتے تھے ۔
راویوں کے حالات میں تالیف کی گئی کتابیں چند حصوں میں تقسیم کی گئی ہیں ، اکثر کتابوں میں راویوں کے نام او رمؤلف کا زمانہ الف ،با ء کی ترتیب سے لکھا گیا ہے اور ان کے حالات کی تشریح بھی لکھی گئی ہے جیسے : ”تاریخ کبیر “، ”وسیط بخاری“ صاحب صحیح بخاری، ”جرح و تعدیل “رازی ، تہذیب بن مزی ، میزان الاعتدال ذہبی ، تہذیب التہذیب ، لسان المیزان ، ابن حجر عسقلانی کی تقریب التہذیب ۔
بعض کتابیں سال کی ترتیب سے لکھی گئی ہیں ، یعنی ہر ایک راوی کی زندگی کے حالات اس کی وفات کے سال میں لکھے گئے ہیں ، جیسے :” التہذیب“ ابن حجر عسقلانی ، ”العبر“ تالیف ذہبی ، ”شذرات الذہب“ تالیف ابن عمار ،” الرفیات“ تالیف صلاح الدین صفری ،” تکملة الرفیات“ منذری ، اور بعض تاریخ کی کتابوں سے بھی راوی کے سال وفات میں اس کے حالات کی تشریح لکھی ہے ، جیسے : ”ابن اثیر“ ،” ابن کثیر“ ، ذہبی نے ”تاریخ اسلام کبیر“ میں، ابن سعد نے طبقات میں ہر شہر کے راویوں کی طبقہ بندی کی ہے ، جیسے : مکہ ، مدینہ ، بصرہ ، کوفہ ، ری ، بغداد ، یمن اور شام کے راوی ، جن علماء نے شہروں کیلئے مخصوص تاریخ لکھی ہے انہوں نے ان شہروں میں رہنے والے راویوں یا ان شہروں سے گزرنے والے راویوں کے حالات کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے ، جیسے : ابن عساکر کی ”تاریخ دمشق“ ، خطیب بغدادی کی ”تاریخ بغداد“ ، ابو نعیم اصفہانی کی ”تاریخ اصفہان“ حموی نے معجم البلدان میں شرح بلاد کے ضمن میںا ن شہروں سے منسوب راویوں کو بھی لکھا ہے ۔
بعض روات کسی شہر کی طرف منسوب ہوئے یا لقب سے مشہور تھے ، جیسے : اصفہان ،طبری ، عکلی ، عمری ،برجمی و بعض دانشوروں نے ایسے راویوں کے حالات زندگی پر کتابیں لکھی ہیں ، جیسے : سمعانی نے ”انساب“ میں اور ابن اثیر نے” لباب الانساب“ میں اس نسبت کا ذکر کیا ہے اور جو بھی راوی اس نسبت سے مشہو تھے اس کو لکھا ہے، جب کبھی راویوں کے نام میں کوئی غلطی ہوجاتی تھی تو اس غلطی کو دور کرنے کیلئے کتابیں لکھی جاتی تھی ، جیسے : المختلف و المؤتلف اور المشتبہ و الاکمال ۔
خلاصہ یہ کہ، جیسا کہ ہم نے کہا کہ علم حدیث ، ایک اہم ترین علم او رمسلمانوں کی دلچسپی کا علم تھا ۔ اس سلسلے میں تمام کوشش و تلاش کی گئی ہے کہ سند شناسی کے لحاظ سے کوئی تاریک نقطہ باقی نہ رہے ۔ اس کے پیش نظر اگر ہم نے دیکھا کہ ، سیف نے اپنی روایتوں کو اپنی دو کتابوں ” فتوح “ اور ” جمل“میں جمع کیا ہے اور کسی سبب سے -- جسے ہم نے مناسب جگہ پر بیان کیا ہے--- ان دوکتابوں کو اس نے بنی امیہ کے زمانے میں لکھا ہے اس زمانے تک حدیث کے راوی گنے چنے تھے اور اس کے علاوہ سند شناسی کی کسی کتاب میں سیف کے راویوں کا نام و نشان نہیں پایا جاتا ہے ، خاص طور پر جو تجربہ ہم سیف کے احادیث گڑھنے کے بارے میں رکھتے ہی ، ہمارے لئے مسلم طور پر ثابت ہوگا کہ وہ راوی صرف اور صرف سیف کے خیال کے پیداوار ہیں اور کچھ نہیں ۔
قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ ہم سیف کی روایتوں کی سند کی پڑتال اور تحقیق میں صرف اس زاویے کی طرف توجہ مبذول کراتے کہ اس حدیث کا فلان راوی وجود و خلقت کے بنیادی اصول کے تحت سیف کے خیال کی پیدائش ہے اور اسی زاویہ پر اکتفا کرتے ہیں ، لیکن دوسرے زاویئے جو حدیث شناسی کے فن کے لحاظ سے روایت کی سند کی بناوٹ میں ہماری نظر میں قابل اعتراض ہیں جیسے : فلاں راوی کے بارے میں روایت کی سند میں باجود اس کے اس کا نام تاریخ میں ذکر ہوا ہے اور حقیقت میں راویوں میں سے ایک ہے ، لیکن سیف کا اس سے روایت کرنا محل اشکال ہے جیسے اس داستان کی پانچویں روایت ہم اس قسم کے اشکالات کو نظر انداز کریں گے ۔
فی الجملہ چونکہ رجال کی کتابوں میںعطیہ ، صعب او رعثمان بن سوید کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ، اس لئے ہم مجبور ہیں کہ انہیں سیف کے ذہن کی پیداوار شمار کریں ، اور یہ کام علمائے حدیث کے راویوں کی نظر میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور اسے ناقابل بخشش گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ سیف کی نظر میںا یک انتہائی سہل و آسان کام ہے جی ہاں ! اس سادگی اور آسانی کے ساتھ کہتا ہے کہ : صعب بن عطیہ نے اپنے باپ عطیہ بن بلال سے میرے لئے روایت کی ہے ؟! اور ان چند جملوں کے ذریعہ اس نے بیٹے ، باپ اور جد پر مشتمل ایک گھرانے کو خلق کیا ہے تا کہ اپنی روایتوں کیلئے سند جعل کرسکے یہ تھی سیف کی روایتوں کی سند اور ملاحظہ ہو ان کا متن اور صحیح روایتوں سے ان کا موازنہ :

متن کے لحاظ سے سیف کی روایتوں کی قدر وقیمت
جب ہم سیف کی روایتوں کے متن کا دوسروں کی روایتوں سے تطبیق اورموازنہ کرتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ سیف بن عمر نے ان روایتوں کے ایک حصہ کو مکمل طور پر جعل کیا ہے اور ان کے ایک حصہ میں اپنی مرضی کے مطابق تحریف کرکے ان میں کچھ مطالب کا اضافہ کردیا ہے ، تاکہ اس طرح، خالد بن ولید پر کئے گئے اعتراض اورتنقید کا دفاع کرسکے اور اس نظریہ کی حمایت کیلئے پہلے اہل بحرین بنی تمیم اور سجاح کی روایتوں کو نقل کرنے کے ضمن میں راہ ہموارکی ۔ اوروہاں پر مالک کے شک و شبہہ کا ذکر کیا ہے اور اس کے مقابلے میں ثابت قدم مسلمانوں کے ایک گروہ کو جعل کیا ہے اور انہیں مالک کے طرفداروں سے مجادلہ اور نبرد آزمائی کرتے دکھایا ہے اور ابو بکرکوثابت قدم مسلمانوں پرحملہ کی غرض سے نبوت کے مدعی سجاح سے مالک کی موافقت جعل کی ہے ، سجاح کی واپسی کے بعد مالک کو حیران و پریشان دکھایا ہے جبکہ مؤرخین میں سے کسی ایک نے نہیں کہا ہے کہ مالک نے ضرار کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے وقت اپنے ارد گرد کچھ لوگوں کو جمع کیا تھا اور اپنے ساتھ ایک فوج تیار کر رکھی تھی ، جیساکہ سیف نے کہا ہے ، سیف اپنی رسوائی سے بچنے کیلئے چارہ جوئی کے طورپر اپنی چوتھی روایت میںا س زاویہ کو اپنے خیال میں اس وضاحت کے ساتھ تصحیح کرتا ہے کہ مالک نے اپنے حامیوں کو حکم دیا کہ متفرق ہوجائیں او رمالک کا یہ کام اس لحاظ سے نہیں تھا کہ اس نے اپنی کارکردگی سے پشیمان ہوکر توبہ کیا ہو بلکہ اس خوف و دہشت کی وجہ سے تھا جو اس پر طاری ہوا تھا ۔
آخر کاران باتوں نے رفتہ رفتہ مالک کے ارتداد کو ثابت کیااس نے مالک کے ارتداد کو نہ صرف ان روایتوں سے ثابت کیا ہے بلکہ دوسری روایتوں میں بھی جس میں خالد کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے مالک کے ارتداد کو ثابت کیا ہے اور یہ کام اس غرض سے انجام دیا ہے تاکہ کوئی اس امرکی طرف متوجہ نہ ہوجائے کہ مالک پر لگائی گئی تہمت در حقیقت خالد یا کسی اور کے دفاع میں ہے اور گر یہ ثابت ہوجائے کہ مالک کا قاتل خالد ہے تو عام فیصلہ خالد کے حق میںد یا جائے کہ اس نے ایسے شک کرنے والے مرتد شخص کو قتل کیا ہے ۔
اس کے بعد اس نے خالد کی سپاہ میں موجود انصار اور خالد کے درمیان فرضی اختلافات درست کئے ہیں تاکہ خالد کا گناہ ابو بکر کی گردن پر نہ پڑے اور تاریخ پڑھنے والا خالد کے اس عمل کو ابو بکر سے نسبت نہ دے، سیف کی گڑھی ہوئی روایت میں انصار نے ابو بکر کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابو بکر نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا ہے ، اور خالد پر یہ الزام نہ لگا سکے کہ وہ اس جرم کر مرتکب ہوا ہے چونکہ خالد نے واضح کیا ہے کہ اسے پے در پے فرمان ملتے تھے تا کہ تنقید و اعتراض صدا بصحرا ہوجائے ۔
پھر راہ ہموار کرنے کے بعد سیف کہتا ہے : خالد نے اپنے سپاہیوں کو اسلام کی تبلیغ کرنے کیلئے مختلف علاقوں میں بھیجا اور حکم دیا کہ جو بھی ان کی دعوت کو قبول نہ کرے ، اسے گرفتار کریں ، ابو بکر سے نقل کی گئی ایک سفارش کے تحت اس سے کہیں زیادہ اور سخت تر سزا کا قائل ہو اہے مزید کہتا ہے کہ مالک کے سپاہیوں کو دھوکہ دے کر خالد کے پاس لایا گیا جبکہ وہ خود بھی مالک کے باب میں اختلاف رکھتے تھے اس کے بعد خالد حکم دیتا ہے کہ مالک اور اس کے ساتھیوں کو جاڑے کی سرد رات میں جیل میں ڈالدیں اور انھیں گرم رکھنے کا انتظام کریں ، فوجیوں نے اس گمان سے کہ خالد کنایہ میں بات کرتا ہے زندانیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے ، ان سب کو قتل کر ڈالا جب چیخ و پکار اور گریہ و زاری کی آوازیں خالد کے کانو تک پہنچیں تو وہ باہر آیا لیکن دیکھا کہ کام تمام ہوچکا ہے اور فوجی ،قیدیوں کا قتل عام کرکے فارغ ہوچکے ہیں پھر اس کے بعد کہتا ہے : خالد نے عدہ تمام ہونے کے بعد مالک کی بیوی سے ہمبستری کی ، تنہا اعتراض جو خالد کیلئے باقی رہتا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے جنگ کی حالت میں شادی کی ہے جو عربوں میں قبیح فعل شمار ہوتا ہے ، اسی طرح اس نے ابو قتادہ خالد اور عمر کے درمیان گزرے واقعات کو تحریف کے ساتھ پیش کیا ہے۔
جی ہاں ! اس کے خیال میں مالک کو غلطی سے قتل کیا گیا ہے اور اس کا سبب یہ تھا کہ خالد کے سپاہیوں نے خیال کیا تھا کہ خالد نے ان کے ساتھ کنایہ میں بات کی ہے ، ہم تویہ نہ سمجھ سکے کہ اس خیال کا سرچشمہ کیا تھا ؟ باوجودیکہ خود خالد قبیلہٴ قریش اور بنی مخزوم سے تعلق رکھتا تھا اور ضرار بن ازور ( قاتل ) قبیلہٴ بنی اسد و بنی ثعلبہ سے تھا ، بالفرض اگر یہ قتل غلطی کے سبب بھی انجام پایا تھا ، تو مقتولین کے قلم کئے گئے سروں کو کیوں کھاناپکانے والی دیگوں کے پایہ کے طور پر استعمال کیا گیا ؟ یہ اور اس کے علاوہ دیگر نکات( جن کی طرف ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں ہے) ایسے مطالب ہیں جنہیں صرف سیف نے نقل کیا ہے اور ا سکے علاوہ کسی اور نے نقل نہیں کیا ہے ، لیکن کیاکیا جائے کہ طبری جیسے مؤرخ پیدا ہوتے ہےں اور اس کی باتوں کو اپنی تاریخ میں درج کردیتے ہےں اور دوسرے بھی مانند ابن اثیر ، ابن کثیر،میر خوان جیسے لوگ اپنی تاریخ کی کتابوں میں طبری سے نقل کرتے ہیںا ور اسی طرح ابن حجر بھی اپنی کتاب الاصابہ میںا نھیں درج کرتے ہےں ، نتیجہ کے طور پر سیف کی گڑھی ہوئی روایتیں ابن حجر بھی اپنی کتاب الاصابہ میں انھیں درج کرتا ہے نتیجہ کے طور پر سیف کی گڑھی ہوئی روایتیں تاریخ اسلام اور رجال کی کتابوں میں شائع ہوجاتی ہیں اور حقیقت واقعہ آئندہ نسلوں سے پوشیدہ رہ جاتاہے مگر یہ کہ کوئی ( سیف کے علاوہ ) دوسروں کی لکھی گئی تاریخ او ر تشریح کا سنجیدہ گی سے مطالعہ کرکے چھان بین کرے تا کہ اس پر حقیقت امر واضح اور روشن ہوجائے اور جان لے کہ سیف کے کہنے کے علاوہ دیگر مصادر نے بھی (جیسا کہ اس سے پہلے کہا گیا)خالد کا مالک کے قتل کا حکم دینا نقل کیا ہے ، جیسے : فتوح البلدان بلاذری ۱، تاریخ ابن عساکر ۲تاریخ الخمیس ج ۲/ ص ۳۳۳، نہایة ابن اثیر ج ۳/ ۲۵۷، صواعق المحرقہ ص ۲۱ ، تاج العروس زبیدی ج ۸/ ص ۷۵ وغیرہ ،
یہ تھی ” ردہ “ کی جنگوں میں سے ایک جنگ کی داستان و علی ھذہ فقس ما سواھا اور اسی پر باقی کو قیاس کیجئے۔
----------
۱۔ صفحہ ۱۰۵ ۔
۲۔ ج ۵/ ۱۰۵ ، ۱۱۲۔