عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
 
سیف کی روایت میں مالک بن نویرہ کا ارتداد
فان اقرّوا بالزکاة فاقبلوا منھم وان ابو فلا شیء الا الغارة
اگر انہوں نے زکات ادا کی توا ن کا قصور معاف کیا جائے گا اور اگر اس سے پرہیز کریں گے تو ان کی سزا بربادی اور غارت گری کے سوا کچھ نہیں ہے
سیف کی روایت کے مطابق ، ابو بکر کافرمان
سیف کی روایتیں

قارئین کرام نے مالک بن نویرہ کی داستان کے بارے میں مؤرخین کی روایتوں کا گذشتہ فصل میں مطالعہ کیا ، اب ہم اس فصل میں سیف کی روایتوں کو نقل کرتے ہیں تاکہ بعد والی فصل میں روایتوں کے ان دو مجموعہ کا آپس میں موازنہ کریں ۔
سیف ، مالک بن نویرہ کی داستان کو سات روایتوں میں تشریح کرتا ہے اور انھیں مرتد بتاتا ہے،مالک بن نویر ہ کی داستان اور ان کے ارتداد کے بارے میں سیف کی سات روایتیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ طبری ، جس جگہ بنی تمیم و سجاح کی روایت نقل کرتے ہیں۱وہاں پر کہتے ہیں :
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گماشتے اور ماٴمورین، قبیلہٴ بنی تمیم میں زکات جمع کرنے میں مشغول تھے، پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد زکات وصول کرنے والے ماٴمورین میں شدید اختلاف ہوگیا اور وہ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے، ان میں سے کچھ لوگوں نے وصول کی گئی زکات کو ابو بکر کے حوالہ کیاور چند دیگر افراد اسے ابو بکر کے حوالے کرنے کے سلسلے میں شک میں پڑگئے اور انہوں نے زکات ادا کرنے سے پرہیز کیا تا کہ ان کی تکلیف واضح ہوجائے ، مالک بن نویرہ بھی ان لوگوں میںسے تھے جو ابو بکر کو زکات ادا کرنے کے سلسلے میں شک میں پڑے ہوئے تھے ، اس لئے وہ زکات کو ابو بکرکے ہاتھ دینے سے پرہیز کرتے تھے تا کہ یہ دیکھ لےں کہ مسئلہ کہاں تک پہنچتا ہے ، اسی دوران جب سرزمین بنی تمیم میں یہ اختلاف اور دو گانگی پیدا ہوئی تھی اور وہاں کے باشندے اس اختلاف میں سرگرم تھے تو رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے بعد پیغمبر ی کا دعویٰ کرنے والا سجاح نامی شخص اچانک پیدا ہوا تا کہ ابو بکر پر حملہ کرکے اس سے جنگ کرے۔
سجاح نے مالک بن نویرہ کو ایک خط لکھا ، مالک نے بھی اس کی تجویز مان لی اور وکیع اور سجاح نے مل کر ایک سہ رکنی انجمن تشکیل دی ، اس انجمن میں ان لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے پر حملہ نہ کرنے ، اتحاد و یکجہتی قائم کرنے اور دوسروں سے مل کر جنگ کرنے کا عہد و پیمان باندھا ۔
۲۔ اہل بحرین کے ارتداد اور علاء حضرمی کے ان کی طرف بھیجنے کی داستان کے ذیل میں کہتے ہیں:
------
۱۔ تاریخ طبری ۲/ ۴۹۵۔

جب علاء بن حضرمی ان کی طرف روانہ ہوا تو یمامہ کا مقابلہ ہوا جس کے نتیجہ میں ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا اور آپس میں جنگ اور مساوات کی ٹھان لی کچھ لوگ علاء سے ملحق ہوگئے راوی کے بقول کہ مالک اور اس کے ساتھی بطاح نامی جگہ پر تھے وہ ہم سے جنگ اورمقابلہ کر رہے تھے اور ہم ان سے نبرد آزما ہوئے ۱
۳۔ اور مزید اس داستان کے بارے میں کہتا ہے :
جب سجاح جزیزہ واپس لوٹا ، مالک بن نویرہ پشیمان ہوچکے تھے اور اپنے کرتوت سے باخبر امور میں حیران و پریشان تھے ، لیکن وکیع و سماعہ ، جنہوں نے زکات ادا کرنے سے پرہیز کیا تھا ، سیاہ کارناموں کو باقی رکھتے ہوئے نہایت اطمینان کے ساتھ خالد کے استقبال کیلئے دوڑے اور اسے زکات ادا کی ۔
اس کے بعد بنی حنظلہ کی سرزمین پر مالک بن نویرہ اور بطاح میں اس کے اردگرد جمع ہوئے لوگوں کے علاوہ کوئی ناخوشگوار چیز باقی نہیں رہی تھی وہ بدستور پریشان تھے بعض اوقات نیک رفتار اور کبھی بد کردار بن جاتا تھا ۔
۴۔ اس کے بعد یوں روایت کرتا ہے :
” خالد قبیلہٴ اسد اور عطفان کے علاقوں کو مرتدوں سے پاک کرنے کے بعد بطاح کی طرف روانہ ہوا جہاں پر مالک بن نویرہ اپنے کام میں مشکوک تھے، انصار خالد کے بطاح کی طرف روانہ ہونے کے بارے میں تشویش میں پڑے لہذا اس کا ساتھ دینے سے پرہیز کیا اور کہا کہ :
----------
۱۔ و کان مالک فی البطاح و معہ جنودہ یساجلنا و نساجلہ۔

خلیفہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اگر ہمیں بزاخہ کہ کی جنگ سے فراغت حاصل ہوجائے تو ہم اس وقت تک وہیں پر رکے رہیں جب تک کہ خلیفہ کا خط نہ ملے خالد نے کہا : کمانڈر میں ہوں اور مجھے حکم دیتے ہو اب جبکہ مالک بن نویرہ ہمارے مقابلے میں ہے میں اس کی طرف روانہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہوںاور تم میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھ آنے پر مجبور نہیں کروں گا ، اتنا کہہ کر روانہ ہوا خالد کے روانہ ہونے کے بعدانصار پشیمان ہوئے اور اسکے پیچھے روانہ ہوئے اور اس سے جا ملے اس کے بعد خالد بطاح پہنچا اور وہاںپر کسی کو نہیں پایا ۔
یہاں تک جو کچھ بیان ہوا ہے وہ سیف کی چار روایتوں کا خلاصہ تھا اور اب مالک کی داستان کے ضمن میں باقی داستان ملاحظہ ہو۔
۵۔ طبری سیف کی ایک دوسری روایت کے مطابق یوں کہتا ہے :
” خالد بن ولید جب بطاح پہنچا تو اس نے وہاں پر کسی کو نہیں پایا اور دیکھا کہ مالک نے اپنے کام میں تردیدکی وجہ سے اپنے قبیلہ والوں کو متفرق ہونے کا حکم دے چکے ہیں اور انہیں ایک جگہ جمع ہونے کے بارے میں سختی سے منع کرچکے ہیں اور ان سے کہہ رہے ہیں : اے بنی یربوع کے افراد ! تم لوگ جانتے ہو کہ جب بزرگ اور سپہ سالار ہمیں دین کی دعوت دیتے تھے ،تو ہم ان کے حکم کی نافرمانی کرنے کے علاوہ، ان کے خلاف پروپگنڈا کرتے تھے تا کہ دوسرے جلدی ان کی تبلیغ سے متاثر نہ ہوں ، لیکن اس مقابلہ میں ہم نے شکست کھائی، ہے میں آپ لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ خلافت کے بارے میں میرے مطالعہ کا نتیجہ یہ ہے کہ ، خلافت کا کام لوگوں کی تدبیر کے بغیر آگے بڑھا ہے ، اس بنا پر ایسانہ ہو کہ تم ان لوگوںکو کہ جنکو زمانے نے ان کی مرادوں تک پہونچادیا ہے، ان سے دشمنی کرو، اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ اور چون و چرا کئے بغیر اس کام میں مداخلت نہ کرو، اس تقریر کے بعد لوگ متفرق ہوگئے اور مالک بھی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے ۔
جب خالد بطاح پہنچا تو اپنے لوگوں کو اسلامی تبلیغات کیلئے علاقہ کے اطراف میں بھیج کر حکم دیا کہ جو بھی ان کی دعوت کو قبول نہ کرے اسے گرفتار کرکے اس کے پاس لے آئیں ، اور اگر کسی نے آنے سے انکار کیا توا سے قتل کر ڈالیں یہ انہیں منجملہ احکام میں سے تھا جو ابو بکر نے خالد کو دیاتھا ،کہ : جہاں پر بھی پڑاؤ ڈالنا اذان و اقامت کہنا، اگر اس علاقہ کے لوگوں نے بھی تمہارے ھمراہ اذان و اقامت کہا تو ان کے ساتھ تعارض نہ کرنا اور اگر ایسانہ کیا تو اس کے علاوہ تمہارا اور کوئی فرض نہیں ہے کہ ان پر اچانک حملہ کرنے کا اختیار رکھتے ہو ، جس طرح ممکن ہو سکے انھیں قتل کر ڈالو ، حتی آگ لگاؤ یا کسی اور طریقے سے اگر انہوں نے اسلام کی دعوت قبول کرلی تو ان سے پوچھ تاچھ کرو اور اگر پوچھ تاچھ کے دوران انہوں نے زکوٰة ادا کرنے کا اعتراف کیا تو ان کے اسلام کو قبول کرلو اور اگر اس کا اعتراف نہ کیا نہ اس کی سز الوٹ ما رکر نے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
ماٴموریت پر گئے خالد کے سپاہی واپس آئے اور مالک بن نویرہ کو ان کے قبیلہ کے افرا داور چچیرے بھائیوں کے ہمراہ پکڑ کر خالد کے پاس لئے آئے ، سپاہیوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا بعضوں ، من جملہ ابو قتادہ نے گواہی دی کہ مالک اور اس کے ساتھیوں نے اذان و اقامت کہکرکر نماز ادا کی ہے جب یہ اختلاف رونما ہوا تو خالد نے حکم دیا کہ مالک اور اسکے ساتھیوں کو زندان میں ڈال دیا جائے ، اتفاقاً اس رات اس قدر شدید سردی تھی کہ کوئی بھی اس سردی کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ، رات کے گزرنے کے ساتھ ساتھ سردی بھی زور پکڑ تی جارہی تھی ، خالد نے حکم دیا کہ اپنے اسیروں کو گرم رکھو ، یہ حکم جملہٴ ” ادفئو اسراکم “ کے ذریعہ ابلاغ ہو ا، کہ یہ لغت میں گرم رکھنے اورقتل کرنے کے دو کنایوں کی صورت میں استعمال ہوتا ہے ، دوسروں کی لغت میں ”دفہ“ جو لفظ ادفئہ سے شباہت رکھتا ہے قتل کے معنی میں ھے ، لوگوں نے جب مذکورہ جملہ سن لیا تو انہوں نے یہ خیال کیا کہ خالد نے ان کے قتل کرنے کا حکم جاری کیا ہے ، لہذ اانہوں نے اسیروں کو قتل کر ڈالا ۔ مالک کا قاتل ضرار بن ازور تھا ، جب چیخ پکار کی آواز خالد کے کانوں تک پہنچی تو وہ اپنے گھر سے باہر نکل آیا اور دیکھاکہ کام تمام ہوچکا ہے اس نے کہا: جب خداوند عالم کسی کام کا اردہ کرتا ہے تو وہ انجام پاتا ہے ۱
اس کام کے اختتام پر ، خالد کے حامیوں کے درمیان مقتولین کے بارے میں گفتگو ہوئی اور
اختلاف پیدا ہوا ، ابو قتادہ نے خالد سے مخاطب ہوکر کہا یہ تمہارا کام تھا، خالد نے اسے ایک دھمکی دی،
--------
۱۔ اذا اراد الله امرا اصابہ۔

ابو قتادہ برہم ہوکر غضب کی حالت میں روانہ ہوکر ابو بکر کے پاس آئے ، لیکن ابو بکر ابو قتادہ پر غضبناک ہوئے پھر عمر واسطہ بنے ، لیکن ابو بکر اس سے راضی نہ ہوئے مگر یہ کہ وہ دوبارہ لوٹ کے خالد کے پاس جائے، لہذاواپس چلے گئے اور خالد کے ساتھ مدینہ آگئے ۔ خالد نے ام تمیم بنت منہال ( مالک کی بیوی) سے شادی کرلی ، لیکن عدہ تمام ہونے تک اس سے ہمبستری نہیں کی۱
عمر نے ابو بکر سے کہا کہ خالد کی تلوار میں سر کشی و طغیانی ہے بالفرض اگر ہرجگہ ایسا نہ ہو ،لیکن مالک کے بارے میں تو ایساہی ہے لہذا اس سے مالک کا قصاص لیناچاہئے اس سلسلہ میں عمر اصرار کررہے تھے لیکن ابو بکرنے اپنے کارندوں اور ماٴمورین میں سے کسی سے بھی قصاص نہیں لیا ،اور ان سے کہا؛ چھوڑو عمر ! خالد اپنی نظر میں ایک تاویل کرنے میں خطا کر گیا ہے اس کے بارے میں اپنی زبان کنٹرول میں رکھو نیزاس موضوع پر اس کے بعد بات مت کرناابو بکر نے مالک کا خون بہا ادا کردیا اور خالد کے نام ایک خط لکھا ، اسے اپنے پا س بلایا ، اس نے ابو بکر کے حضور میں آکر تمام واقعہ بیان کیا ابو بکرنے خالد کے عذر کو منظور کیا اور عربوں کی نظر میںمعیوب سمجھی جانے والی شادی کے سلسلے میں اس کی سرزنش کی !
۶۔ سیف ایک اور حدیث میں کہتا ہے :
” خالد کے بعض سپاہیوں نے شہادت دی کہ ہم نے اذان و اقامت کہہ کر نماز پڑھی ہے مالک نے بھی ایساہی کیا لیکن کچھ دیگر سپاہیوں نے شہادت دی کہ ایسا نہیں ہوا ہے لہذا اسے قتل کردیا گیا “
۱۔ جنگ میں ازدواج کرنا عربوں کیلئے اچھا نہیں تھا بلکہ قابل ملامت اور سرزنش کا مقام ہوتا تھا ۔
۷۔ سیف نے اپنی آخری روایت میں یوں کہا ہے ” مالک کے سر پر گھنے بال تھے جب سپاہیوں نے مقتولین کے سروں کو دیگ کے پایہ کے طور پر استعمال کیا تو مالک کے سر کے علاوہ کوئی سر ایسانہ بچا کہ اس کی کھال تک آگ نہ پہنچی ہو دیگ میں موجود کھانا پک کر کھانے کیلئے آمادہ ہوچکا تھا لیکن مالک کا سر گھنے بال کی وجہ سے ابھی تک جلا نہیں تھا ۔
متمم نے اس کے بارے میں کچھ اشعار کہے ہیں ، ان میںمالک کے دھنسے ہوئے پیٹ کی تعریفیں کی ہیں ، جو جنگی سورماؤں کے افتخارات میں شمار ہوتا تھا، عمر نے اس سے پہلے دیکھا تھا کہ مالک کس طرح پیغمبر اسلام کے حضورمیں حاضر ہوئے تھے لہذا نھوں نے کہا؛ مگر ایسا ہی تھا اے متمم ! اس نے جواب میں کہا؛ میری نظر میں ایسا ہی تھا ۔
جو کچھ ہم نے سیف کی روایتوں میں پایا ، اس کا یہ ایک خلاصہ تھا ،انشاء اللہ آئندہ فصل میں متن اور سند کے لحاظ سے تحقیق کریں گے۔