عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
 
معتبر روایتوں میں مالک بن نویرہ کی داستان
ان خالدا قتل مسلماً و تزوج امراٴتہ فی یومھا
خالد نے ایک مسلمان کو قتل کیااور اسی دن اسکی بیوی سے شادی کرلی!!
عمر بن خطاب

مالک بن نویرہ قبیلہٴ یربوع تمیمی نامی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ، ان کی کنیت ابو حنظلہ تھی اور لقب جفول تھا۔
مرزبانی کہتا ہے :
” وہ ایک عالی رتبہ شاعر تھے اور قبیلہٴ یربوع کے جنگجو مردوں میں ایک نامور شہسوار تھے ، وہ عصر جاہلیت میں اپنے قبیلہ کے اعلی طبقہ کے افراد میں شمار ہوتے تھے ، اسلام قبول کرنے کے بعد پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں اپنے قبیلہ کا ٹیکس جمع کرنے پر ماٴمور فرمایا ، پیغمبر کی وفات کے بعد انھوں نے جمع کیا ہوا ٹیکس حکومت وقت کو دینے سے انکار کیا اور اپنے رشتہ داروں کے درمیان تقسیم کردیا اوراس سلسلہ میں فرمایا:

فقلت خذوا اموالکم غیر خائف
و لا ناظر فیما یجییءُ من الغد

فان قام بالدین المحوّف قائم ۱
اطعنا و قلنا الدین دین محمّد

ترجمہ :
میں نے کہا: مستقبل کے بارے میں خوف و پروا کئے بغیر اپنے مال کو واپس لے لو ، کیونکہ اس مال کو تم لوگوں نے دین کے خاطر ادا کیا ہے ، لہذا اگر کسی نے دوبارہ قیام کیا تو ہم اس کی اطاعت کرکے کہیں گے کہ دین، دین محمد ہے ۔
طبری نے اپنی سند سے عبد الرحمان بن ابو بکر سے نقل کیا ہے :
” جب خالد سرزمین بطاح ۲پہنچا تو ضرار بن ازور ۳
-----------
۱۔ شرح ابن ابی الحدید میں (فان قام بالامر المجدد قائم )ہے ، یعنی اگر کسی نے قیام کیا اور دوبارہ دین کی ذمہ داری لی، سید مرتضی کی طرف سے قاضی القضاة کو دئے گئے ساتویں جواب میں ہے۔
۲۔ بطاح قبیلہ اسدبن خزیمہ کے اطراف میں ایک پانی ہے( معجم البلدان )
۳۔ ضراربن ازور مرداس بن حبیب بن عمیربن کثیر بن شیبان اسدی اور کہا گیا ہے کہ ازور کا نام مالک تھا اور وہ بن اوس بن خزیمہ بن ربیعہ بن مالک بن ثعلبہ بن دودان بن اسد ہے اس کی کنیت ابوازور اسد ہے وہ ایک دلیر شہسوار تھا اور جنگ اجنادین میں قتل ہواکہا گیا ہے کہ یمامہ میں قتل ہوا ہے اور بعض نے کہا ہے زمان حکومت عمر میں فوت ہوا ۔ الاستیعاب ج ۲/ ص ۲۰۳ ۔ ۲۰۴ اور الاصابہ کی ج۲/ ۲۰۰ ۔ ۲۰۱ میں لکھتا ہے : خالد نے ضرار کو کچھ لوگوں کے ہمراہ جنگ کیلئے بھیجا ، خالد کے ماٴمورین نے بنی اسد کے ایک قبیلہ پر شب خون مارا اور ایک خوبصورت عورت کو گرفتار کیا ضرار نے لشکر سے مطالبہ کیا کہ اس عورت کو اس کے حوالہ کریں انہوں نے قبول کرکے اسے اس کے حوالہ کردیا،ضرار نے اس سے ہمبستری کی اور اسکے بعد پشیمان ہوا ، روداد کو خالد کے پاس پہنچا دیا گیا ، خالد نے کہا : کوئی مشکل نہیں ہے میں نے اسے تم پر حلال کیا ، ضرار نے قبول نہ کرتے ہوئے کہا، اس روداد کو عمر کی خدمت میں پہچانا چاہئے ، خالد نے تشریح لکھی اور عمر نے جواب میں لکھا کہ اسے سنگسار کرو ۔ جس وقت عمر کا خط پہنچا تو اس وقت ضرار فوت ہوچکا تھا خالد جب قضیہ سے آگاہ ہوا تو اس نے کہا: خدا نہیں چاہتا تھا کہ ضرار ذلیل و خوار ہوجائے ، نیز اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ ضرار ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے ابو جندب کے ساتھ شراب پی لی تھی ،جب ابو عبیدہ نے عمر کو اس کی خبر دی تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ اس کی تحقیق کر اؤگر لوگوں نے کہا کہ شراب حلال ہے تو انہیں قتل کر ڈالو ورنہ ان پر حد جاری کرنا، انہوں نے پوچھ تاچھ پر اعتراف کیا کہ خمر حرام ہے۔

کو لشکر کی ایک ٹولی کے ہمراہ بھیجا ابو قتادہ ۱بھی ان کے ساتھ تھا، انہوں نے قبیلہٴ مالک پر شب خون مارا، بعد میں ابو قتادہ کہتا تھا: جب ہماری فوج نے رات میں ان کا محاصرہ کرلیاتو قبیلہٴ مالک وحشت میں پڑ کر جنگی اسلحہ لے کر آمادہ ہوگئے
ابو قتادہ نے کہا: ہم نے کہا : ہم مسلمان ہیں ۔
انہوں نے کہا: ہم بھی مسلمان ہیں ۔
لشکر کے سپہ سالار نے کہا؛ پھر کیوں جنگی اسلحہ لئے ہوئے ہو؟
انہوں نے کہا؛ تم لوگ کیوں مسلح ہو؟
ہم نے کہا: اگر تم لوگ سچ کہتے ہو کہ مسلمان ہو تو اسلحہ کو زمین پر رکھدو۔
ابو قتادہ نے کہا: انہوں نے اسلحہ کو زمین پر رکھدیا ، پھر ہم نے نماز پڑھی اور انہوں نے بھی نماز پڑھی ۔
ابن ابی الحدید اپنی شرح میں اس کے بعد کہتا ہے :
” جوں ہی انہوں نے اسلحہ کو زمین پر رکھدیا تو ان سب کو اسیر بنا کر رسیوں سے باندھ کر خالد۱ کے پاس لے آئے “
کنزل العمال ۲ اور تاریخ یعقوبی ۳ میں اس داستان کو یوں نقل کیا گیا ہے :
------------
۱۔ فلما وضعو السلاح ربُطوا اٴُساری فاتوا بھم خالدا
۲۔ کنز ل العمال ، ج ۳/ ۱۳۲ ۔
۳۔ تاریخ یعقوبی، ج ۲/ ۱۱۰۔

مالک بن نویرہ ، گفتگو کیلئے خالد کے پاس آئے ان کی بیوی بھی انکے پیچھے آئی ، جب خالد کی نظر اس عورت پڑی تو وہ اس پر فریفتہ ہوگیا اور مالک سے مخاطب ہوکر کہا : خدا کی قسم تم پھر سے اپنے قبیلہ کی طرف واپس نہیں جاسکتے ہو ، میں تجھے قتل کر ڈالوں گا۔
کنزل العمال کی تیسری جلد ۱۳۶ پر کہتے ہیں :
” خالد بن ولید نے دعویٰ کیا کہ مالک بن نویرہ مرتد ہوگیا ہے اس دعویٰ میں اس کی دلیل اور استناد ایک بات تھی کہ اظہار کرتا تھا کہ جو بات مالک سے اس کے کان تک پہنچی ہے ، مالک نے اس خبر کو جھٹلا دیا اور کہا: میں بدستور مسلمان ہوں اور میں نے اپنے دین میں کوئی تبدیل نہیں کی ہے ، نیز ابو قتادہ اور عبد اللہ بن عمر نے بھی اس کی صداقت پر شہادت دی ، اتنے میں خالد نے مالک کو آگے کھینچ کر ضرار بن ازور کو حکم دیا کہ مالک کا سر قلم کردے ، اس کے بعد خالد نے مالک کی بیوی( جس کا نام ام تمیم تھا) کو اپنے قبضہ میں لے کر اس کے ساتھ زنا کیا ۔ ۱
تا ریخ ابو الفداء ۲ اور وفیات الاعیان میں آیا ہے : عبد اللہ بن عمر اور قتادہٴ انصاری دونوں اس مجلس میں حاضر تھے اور انہوں نے مالک کے بارے میں خالد سے گفتگو کی، لیکن خالد نے ان کی بات کو قبول نہیںکیا ، مالک نے کہا: خالد !تم مجھے ابو بکر کے پاس بھیجدو تا کہ وہ خود میرے بارے میں فیصلہ کریں ، خالد نے جواب میں کہا: خدا مجھے معاف نہ کرے اگر میں تجھے معاف کردوں گا اس کے بعد ضرار بن ازور سے مخاطب ہوکر کہا: مالک کا سر قلم کردو !
--------
۱۔ کنز العمال ،ج ۳/ ۱۳۲
۲۔ تاریخ ابو الفداء ، ص ۱۵۸ ۔

مالک نے اپنی بیوی پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈالی اور خالد سے مخاطب ہوکر کہا؛ اس عورت نے مجھے قتل کروایا ہے وہ عورت انتہائی خوبصورت تھی ، خالد نے کہا : بلکہ خدا نے تجھے قتل کیا ہے چونکہ اسلام سے تم نے منہ پھیر لیا ہے !
مالک نے کہا: میں مسلمان ہوں اور اسلام پر پابند ہوں ۔
خالد نے کہا: ضرار اس کا سر قلم کردو اور اس نے بھی اس کا سر تن سے جدا کردیا ۱
اور ابن حجر، ”الاصابہ“ (ج۳/ ص ۳۳۷)میں ثابت بن قاسم سے نقل کرتا ہے کہ اس نے اپنی کتاب الدلائل میں لکھا ہے :
” خالد کی نگاہ مالک کی بیوی پر پڑی، وہ اپنے وقت کی خوبصورت ترین عورت تھی ، مالک نے اپنی بیوی سے کہا: تم نے مجھے قتل کیا ۲اس کا مقصود یہ تھا میں تیرے سبب جلد ہی قتل کیا جاؤں گا ۳
اور اصابہ میں زبیر بن بکار سے اس نے ابن شہاب سے نقل کیا ہے :
مالک بن نویرہ کو جس وقت قتل کیا گیا ۴ اسکے سرپر گنجان زلف تھی ، خالد نے حکم دیا کہ مالک کے سر کو دیگ کا پایہ قرار دیں تو ایسا ہی کیا گیا اور اس سے پہلے کہ آگ ان کے بالوں سے گزر کر ان
-----------
۱۔ یہ تاریخ ابن شحنہ ص ۱۶۶ کا مل ج ۷ کے حاشیہ سے نقل کیا گیا ہے ۔
۲۔ الاصابہ ج ۳/ ۳۳۷۔
۳۔ ان خالد رآی امرة مالک و کانت فائقہ فی الجمال فقال مالک : بعد ذلک لامر تہ قتلیتنی یعنی ساٴُقتل من اجلک
۴۔ ان مالک بن نویرہ کان کثیر شعر الراٴس فلما قتل امر خالد براٴسہ فنصب اٴُثفیة لقدر فنضج ما فیھا قبل ان یخلص النارالی شئون راٴسہ ۔

کی کھال تک پہنچے دیگ میں موجود کھانا پک چکا تھا ۱
خالد نے مالک کی بیوی ام تمیم( منہال کی بیٹی)سے اسی رات زنا کیا ۔
ابو نمیر سعدی اس سلسلہ میں کہتا ہے :

ْْْاٴلا قُلْ لحیّ اوطاٴوا بالسنابک
تطاول ھذا اللّیل من بعد مالک

قضیٰ خالد بغیاً علیہ دعرسہ
و کان لہ فیھا ھوی قبل ذلک

فامضی ھواہ خالد غیر عاطف
عناں الھویٰ عنھا ولا متمالک

فاصبح ذا اھل و اصبح مالک
الی غیر اھل ھالکاً فی الھوالک ۲

ترجمہ :
خبردار ! اس گروہ سے کہدو جنہوں نے گھوڑے دوڑائے ہیں، مالک کے بعد ہماری تاریک رات ختم ہونے والی نہیں ہے ، خالد جو اس سے پہلے مالک کی بیوی پر فریفتہ ہوچکا تھا ، اس نے مالک کو اس عورت کیلئے بزدلانہ طور پر قتل کیا اور اپنے دل کی تمنا پوری کی اور اپنے سر کش نفس کو لگام نہ لگا سکا جس صبح کو مالک اپنی بیوی سے جدا ہوکر عدم کی طرف روانہ ہو ئے، خالد ان کی بیوی پر تصرف کرچکا تھا ۔
ابن حجر الاصابہ میں کہتا ہے :
جب خالد نے مالک کو قتل کیا تو منہال کی نظر مالک کے بے سر بدن پر پڑی تو اپنی زنبیل سے
-----------
۱۔ طبری ،ج ۲/ ۵۰۳ ، الاصابہ ،ج ۳/ ۳۳۷ ، ابن اثیر ،جنگ بطاح ، ابن کثیر ،ج ۶ / ۳۲۱ ، ابی الفداء ،۱۵۸ و ابن ابی الحدید، ج ۱۷۔
۲۔ یعقوبی، ج۲/ ۱۱۰۔

ایک پیراہن نکال کر مالک کو اس سے کفن کیا ۱
یہ تھا مالک کا خاتمہ، اب دیکھنا چاہئے کہ حکومت وقت نے اپنے اس سردار خالد کے ساتھ اس عمل کی سز اکے طورپر کیا برتاؤ کیا ؟
تاریخ یعقوبی میں آیا ہے :
ابوقتادہ نے اپنے آپ کو ابو بکر کے پاس پہنچا دیا اور تمام واقعہ کے بارے میں رپورٹ پیش کی اور کہا؛ خدا کی قسم اب میں خالد کے پرچم تلے اس کی کمانڈری میں کسی جگہ نہیں جاؤں گا کیوںکہ اس نے مالک کو مسلمان ہونے کے باوجود قتل کر ڈالا ہے ۔
تاریخ طبری میںا بن ابی بکر سے نقل کیا گیا ہے :
من جملہ جن لوگوں نے مالک کے مسلمان ہونے پر شہادت دی، قتادہ تھا ، اس نے اپنے خدا سے عہد کیا کہ وہ خالد کی کمانڈ ری میں کسی محاذ جنگ پر شرکت نہیں کرے گا ۲
اور تاریخ یعقوبی میں ہے کہ ” عمر بن خطاب نے ابو بکر سے کہا : اے رسول اللہ کے جانشین ! یہ سچ ہے کہ خالد نے ایک مسلمان مرد کو قتل کیا ہے اور اسی دن اس کی بیوی سے ناجائز تعلقات قائم کئے ابو بکر نے خالد کو خط لکھا اور اسے اپنے پاس بلایا ، خالد نے کہا: اے جانشین رسول ! میں نے مالک کوقتل کرنے میں اپنی نظر میں ایک تاویل کی ہے اور اس میں صحیح راستہ اختیار کیا لیکن خطا بھی سرزد ہوگئی ہے“
----------
۱۔ اصابہ ۳/ ۴۸۷
۲۔ فلحق ابو قتادہ بابی بکر فاخبرہ الخبر و حلف ان لا یسیرتحت لواء خالد لانہ قتل مالکا مسلماً۔

یعقوبی نے کہاہے :
” متمم بن نویرہ ۱( اس زمانہ کے شاعر تھے)نے اپنے بھائی کی سوگ میں بہت سے شعرکہے ہیں اور نوحہ بھی پڑھا ہے وہ مدینہ میں ابو بکر کے پاس گئے، فجر کی نما زکو ابو بکر کی امامت میں پڑھی ، جوں ہی ابو بکرنماز سے فارغ ہوئے ،متمم اپنی جگہ سے اٹھے اور اپنی کمان سے ٹیک لگا کر مندجہ ذیل اشعار پڑھے :

نعم القتیل اذ الریاح تناوحت
خلف البیوت قتلت یابن الاٴزور

اٴدعوتہ بالله ثم غدرتہ
لو ھو دعاک بذمة لم یغدر

ترجمہ
اے فرزند ازور ! جب نسیم صبح ہمارے گھر کے درو و دیوار پر چل رہی تھی ، تم نے کتنے نیک مرد کا قتل کیا ! خدا کے نام پر اسے بلایا اور اسے امان دیا ، اس کے بعد مجرمانہ طورپر اسے قتل کر ڈالا ، جب کہ اگر مالک تم سے کوئی عہد کرتا تو وہ اپنے عہدو وپیمان پر وفادار رہتا اور کسی قسم کی فریب کاری و حیلہ سے کام نہیں لیتا “
تاریخ ابو الفداء میں لکھا گیا ہے کہ جب یہ خبر ابو بکر و عمر کو پہنچی تو عمر نے ابو بکر سے کہا :
” مسلم الثبوت ہے کہ خالد نے زنا کیا ہے ، اسے سنگسار کیاجانا چاہئے ! ابو بکر نے کہا: میں اسے سنگسار نہیں کروں گا کیونکہ اس نے اپنے لئے ایک فریضہ کو تشخیص دیا ہے اور
----------
۱۔ اس کی کنیت ابو ادھم یا ابو نھیک یا ابر اہیم تھی ، وہ نویرہ کا بیٹا ہے، اس کا نسب اسکے بھائی کے حالات میں ہم نے بیان کیا ہے اس نے اپنے بھائی کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا ، اس نے اپنے بھائی مالک کے سوگ میں اچھے مرثیہ کہے ہیں الاصابہ ج ۲/ ۳۴۰ ، استیعا ج ۲/ ۴۸۸۔

گویا فریضہ کی تشخیص میں خطا ہوئی ہے ؟!!
عمر نے کہا : وہ قاتل ہے اور اس نے ایک مسلمان کو قتل کیا ہے اس کے خلاف قصاص کا حکم دینا چاہئے ۔
ابو بکر نے کہا : میں اس کوہرگز قتل نہیں کروں گا ، جیسا کہ میں نے کہا کہ اس سے ایک فریضہ کی تشخیص میں خطا ہوئی ہے !
عمر نے کہا: پس کم از کم اسے معزول کرو!
ابوبکر نے کہا: میں ہرگز اس تلوار کو دوبارہ نیام میں نہیں رکھوں گا جسے اس نے اسلام کیلئے کھینچا ہے ۔
اور طبری کی روایت میں نقل ہے:
مالک کو قتل کرنے میں خالد کا عذر یہ تھا کہ جب مالک میرے پاس آئے ، تو انھوں نے گفتگوکے دوران کہا: میں گماں نہیں کرتا ہوں کہ آپ کے حاکم نے ایساویساکہنے کے علاوہ کچھ اور کہا ہوگا !
خالد نے کہا : مگر تم اسے اپنا حاکم نہیںجانتے ہو کہ کہتے ہو تمہاراحاکم ؟ پھرمالک کو آگے کھینچ کر اس کا سر تن سے جدا کیا اور اس کے دوستوں کا سر بھی قلم کردیا ۔
جب مالک اور اس کے دوستوں کے قتل کی خبر عمرکو پہنچی تو انھوں نے ابو بکر سے کافی گفتگو کی اور کہا:
۱۔ ما اخال صاحبکم الا وقد کان یقول کذ ا و کذا ۔
اس دشمن خدا نے ایک مسلمان پر متجاوزانہ دست درازی کرکے اسے قتل کر ڈالا ہے اور اس کے فورا ًبعد حیوان کی طرح اس کی بیوی کی عصمت دری کی ہے ۱
خالد سفر سے لوٹ کر مسجد میں چلا گیا ، ایک چغہ زیب تن کیا ہوا تھا جس پر لوہے کا زنگ لگا ہوا تھا اور ایک عمامہ سر پر باندھے ہوا تھا کہ اس پر اسلامی لشکر کی علامت کے طور پر چند تیر نسب کئے ہوئے تھے جب مسجد میں داخل ہوا توعمرغضبناک ہوکر اپنی جگہ سے اٹھے اور تیروں کو اس کے عمامہ سے کھینچ کر انھیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دیا اور اس کے بعد خالد کی سرزنش کرتے ہوئے بولے : تم نے یہ مکاری اور ریا کاری سے ایک مسلمان کو قتل کر ڈالا ہے اور اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ ایک حیوان کی طرح اس کی بیوی پر جھپٹ پڑے ، خدا کی قسم میں تجھے سنگسار کرونگا اور تم اس سز اکے مستحق ہو !
خالد خاموش بیٹھا تھا ، کیونکہ وہ گمان کرتا تھا کہ عمرکی طرح ابو بکر بھی اسے مجرم جانتے ہوںگے اس نے عمر کو کوئی جواب نہیں دیا بلکہ ابو بکرکے پاس جاکر اپنی رپورٹ پیش کی اور اپنے کئے ہوئے پر عذرخواہی کی ، ابو بکر نے خلاف توقع اس کے عذر کو قبول کرلیا، راوی کہتا ہے : جوں ہی خالد نے ابو بکرکی رضامندی حاصل کی وہ وہاں سے رخصت ہو کے مسجد کی طر ف چلا گیا عمر ابھی تک مسجد میں بیٹھے تھے خالد سے خطاب کرتے ہوئے گرج کر بولے:
خبردار اے ام شملہ کے بیٹے ! اس وقت اگر مجھے کچھ کہنا چاہتے ہو تو آگے بڑھ کرکہو عمر نے
-----------
۱۔ عدو الله ، عدا علی امرء مسلم فقتلہ ، ثم زنا علی امراٴتہ ۔

اپنی فراست سے جان لیاکہ ابو بکر خالد سے راضی ہوگئے ہیں اس لئے خالد سے کچھ کہے بغیر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے!!
یہ تھاصحیح اور معتبر روایتوںمیں خالد او رمالک بن نویرہ کی داستان کا خلاصہ ، جسے تمام مؤرخین نے اسی طرح نقل کیا ہے ۔ لیکن سیف کی روایتوں میں یہ داستان دوسری طرح میں نقل ہوئی ہے کہ جسکو آنے والی فصل میں ملاحظہ فرمائیں گے ۔