عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
 
سیف کی روایتوں میں ارتداد
لیقاتلّنکم حتی تکنوہ ابا الفحل
وہ تم لوگوں سے اس قدر جنگ کریں گے کہ ابو بکر کو بڑے اونٹ کا باپ کہیں گے نہ چھوٹے اونٹ کا باپ ۔

قبیلہ طی حضرت ابو بکر کی جنگ کا باعث
ہم نے گزشتہ فصل میں کہا کہ لوگوں کی ایک جماعت نے ابو بکر کی حکومت کی مخالفت کی اور ابوبکر نے ان سے جنگ کی اور ان کے مال کو غنیمت کے طور پر ضبط کیا اور ان کے مردوں کو اسیر بنایا ان لوگوں کو تاریخ میں مرتد اور ان کے عمل کو ارتداد کہا گیا ہے لیکن تاریخ میں تحقیق اور مسئلہ کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہ مرتد تھے اور نہ ان کا عمل ارتداد تھا اور نہ انکے ساتھ ابو بکر کی جنگ اسلام سے ارتداد کے مرتکب ہونے کا سبب تھی ،کیونکہ کلمہٴ ارتداد دوسرے معنی رکھتا ہے اور یہ ان لوگوں سے جو وقت کی حکومت کے مخالف تھے سے مطابقت نہیں رکھتا ۔
ڈاکٹر حسن ابراہیم اپنی ” تاریخ سیاسی “ میں کہتے ہیں :
” جن لوگوں سے حضرت ابوبکر نے جنگ کی ان میں سے کوئی بھی مرتد نہیں تھا اور ابو بکر سے ان کی مخالفت اسلام سے ارتداد کا عنوان نہیں رکھتی تھی ، بلکہ اس کا باعثکچھ اور تھا ، اس وضاحت کے ساتھ کہ وہ لوگ دو گروہ میں منقسم تھے ۔
اول : وہ گروہ جس نے زکات ادا کرنے سے انکار کیا تھا ، اس گمان سے کہ زکات ایک ایساٹیکس ہے جو ذاتی طور پر رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو دیا جانا چاہئے ، چونکہ پیغمبر نے رحلت فرمائی تھی اس لئے خلیفہٴ وقت کو زکوٰة ادا کرنے سے وہ مستثنیٰ ہیں ۱مسلمانوں کے اس گروہ سے جنگ کرنے پر عمر، ابوبکر سے اعتراض کرتے تھے اور ابو بکر اس کے جواب میں رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی بعض فرمائشات سے استناد کرکے کہتے تھے ، میں لوگوں سے جنگ کرنے پر ماٴمور ہوا تا کہ وہ توحید کا اقرار کریں ، لہذا جس نے کلمہٴ توحید کو زبان پر جاری کیا اس کا مال و جان میر ی طرف سے محفوظ ہے، مگر یہ کہ کسی حق کے سبب ہو تو اس کا جواب خدا کے ساتھ ہے امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا الله فمن قالھا فقد عصم منی مالہ و نفسہ الا بحقّہ و حسابہ علی الله“
دوم : وہ گروہ جو در حقیقت مسلمان نہیں تھے
ڈاکٹر ابراہیم حسن اس کے بعد کہتا ہے:
۱۔ ڈاکٹر ابراہیم حسن کا یہ نظریہ ہماری نظر میں صحیح اور کافی نہیں ہے ، ایسا ہرگز نہیں تھا کہ مسلمان زکات کے معنی کو نہیں سمجھ رہے تھے ، بلکہ مطلب وہی ہے جسے خود ڈاکٹر صاحب اور دوسروں نے کہا ہے کہ یہ لوگ ابوبکر کو پیغمبر کے خلیفہ کے عنوان سے قبول نہیں کرتے تھے اس لئے انہیں زکوٰة دینے سے انکار کررہے تھے۔
” لیکن اسلام ۱نے مرتدوں کیلئے جو سزا مقرر کی ہے اور اسے سزائے موت کا حکم دیا ہے ایک سیاسی حکم تھا جسے حکومت وقت نے اس کیلئے مد نظر رکھا تھا اور اس حکومت کی دلچسپی اس حکم کو جاری کرنا تھی بجائے اس کے کہ انھیں اسلام لانے کی ترغیب دے۔
جبکہ دین اسلام نے خاص طور پر مرتدین کی نسبت انتہائی احتیاط کو مد نظر رکھا ہے اور ہر گز شبہہ کے استناد پر انھیں مؤاخذہ نہیں کیا ہے اور صرف تہمت کی بناء پر ارتداد کا حکم جاری نہیں کرتا ، بلکہ تین دن تک مرتد کو فرصت دی جاتی ہے اور ان تین دنوں کے دوران علماء اور فقہائے اسلام مرتد کی طرف سے دین اسلام پر کئے گئے اعتراضات پر مناقشہ کرکے کوشش کرتے ہیں تا کہ اس شبہہ کو دور کریں اورجس کی وجہ سے اسلام کے صحیح ہونے میں انھیں شک و شبہہ پیدا ہوا ہے بر طرف کردیں<لیھلک من ھلک عن بینة و یَحیَیٰ من حَیَّ عن بیّنة> ۲، یہاں پر ہم قارئین کی اطلاع کیلئے اس موضوع پر مذہبی پیشواؤں کے بیانات کا ایک حصہ نقل کرتے ہیں :
ابو حنیفہ کہتے ہیں:
” جب کوئی مسلمان مرد مرتد ہوجائے ، اسے اسلام کی دعوت دینی چاہئے اور تین دن مہلت دینی چاہئے ، کیونکہ ظاہراً ایسا ہے کہ اس کے دل میں ایک شبہہ پید اہوا جس کی وجہ سے ہم پر فرض بنتا ہے کہ اس کے اس شبہہ کو دور کریں
----------
۱۔ یہاں پر ڈاکٹرصاحب کا ” اسلام “ سے مقصود اسلام کا خلیفہ ہے کیونکہ بعد والی عبارت میں وہ اس کی ضاحت کرتے ہیں ۔
۲۔الانفال/۴۲

یا خود اس کیلئے فکر و اندیشہ کی ضرورت ہے تا کہ اس پر حقیقت آشکار ہوجائے اور یہ کام مہلت دئےے بغیر ممکن نہیں ہے پس اگر مرتد مہلت کی درخواست کرے ، تو امام پر لازم ہے کہ اس کو مہلت دے اور شرع اسلام میںجس مدت کے دوران ایک موضوع پر غور و فکر کیا جا سکے ، تین روز معین کئے گئے ہیں ، کیونکہ معاملات کے موضوع میں معاملہ توڑنے کے اختیار کے بارے میں معاملہ کی شرط اور اشیاء کو دیکھنے کیلئے تین روز مہلت دی گئی ہے ، اس لئے مرتد کو بھی تین دن کی مہلت دی جانی چاہئے ۱ بعض مالکی فقہاء یوں کہتے ہیں : مرتد ، خواہ غلام ہو یا آزاد ، خواہ عورت ہو یا مرد ، واجب ہے تین دن اور تین رات کی اسے توبہ کرنے کی مہلت دی جائے ، ان تین دن کی ابتداء اس دن سے شروع ہوتی ہے جس دن سے ارتداد ثابت ہوا ہے، نہ اس روز سے کہ جس روز کافر ہوا ہے ، البتہ ان تین دنوں کے دوران اسے بھوکا اور پیاسا نہیں رکھنا چاہئے ، بلکہ اپنے ہی مال سے اسے کھانا پینا فراہم کرنا چاہئے ، نیزاسے جسمانی اذیت نہیں دی جا نی چاہئے اگر چہ وہ توبہ بھی نہ کرے ۲
امام شافعی کہتے ہیں :
” مرتد ، خواہ مرد ہو یا غیر مرد واجب ہے ، اسے توبہ کرائیں ، کیونکہ وہ اسلام کی خاطر محترم تھا ،
---------
۱۔ کتاب مبسوط ، تالیف شمس الدین سرخسی طبع قاہرہ ۱۳۲۴ ئھ کے حاشیہ میں تین دن مقرر کئے گئے ہیں ج ۱۰ / ۹۸ ۔ ۱۰۰۔
۲۔ باب گروہ اور اس کے احکام ، شرع کبیر تالیف در دیر طبع بولاق ۱۲۱۹ ھء ج ۴ ص ۲۷۰ حاشیہ دسوقی ج ۱۴ ص ۲۶۷۔

شائد وہ جس شبہہ سے دوچار ہوا ہے کہ ممکن ہے یہ شبہہ دور ہوجائے ، بعض نے کہا ہے : تین دن کی مہلت دی جاتی ہے ۱
امام احمد حنبل کہتے ہیں : جو بھی اسلام سے مرتد ہوجائے ، مرد ہو یا عورت وہ سن بلوغ کو پہنچا ہو اور دیوانہ نہ ہو، تین دن تک اسے اسلام کی دعوت دینی چاہئے ۲
ان فتاویٰ کے علاوہ اصولاًسزاوار نہیں ہے کہ ایک مسلماں کو کافر کہا جائے جس کے گفتار یا کردار سے کافر ہونے یا نہ ہونے کا دونوں احتمال پایا جاتا ہومگر یہ کہ وہی مسلمان اس گفتار و کردار کو کفر کا سبب جانیں اور علمائے اسلام نے وضاحت کی ہے کہ اگر ایک مسلمان مرد کے گفتار میں ۹۹ فیصد کفر کا احتمال اور ایک فیصد ایمان کا احتمال ہوتوایسے مسلمان کے خلاف کفر کا حکم نہیں دیا جاسکتا ہے ۳
تاریخ لکھنے والے کیا کہتے ہیں ؟
تاریخ کی کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ جن افراد نے ابو بکر سے جنگ کی وہ اسلام کو قبول کرتے تھے اور نماز پڑھتے تھے ، توحید و نبوت کی شہادت دیتے تھے ، ان کی مخالفت صرف ابوبکر کی حکومت کو قبول کرنے اور ان کو زکوٰة ادا کرنے میں تھی ، ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں یوں لکھا ہے :
”ابن ماجہ “ کے علاوہ تمام اہل حدیث نے اپنی کتابوں میں ابو ہریرہ سے روایت کی
----------
۱۔ باب ” ردہ“ حاشیہ ، بجری ، شرح نہج البلاغہ ، طبع بولاق ۱۳۰۹ئھ۔
۲۔ کشف القناع علی متن الاقناع، طبع قاہرہ ۱۳۱۹ ھء ج ۴/ ص ۱۰۰ ۔ ۱۰۵ ۔
۳۔ باب مرتد حاشیہ رد المختار علی الدر المختار ، تالیف ابن عابدین، طبع مصر۔

ہے کہ عمر ابن خطاب نے ابو بکر سے کہا؛ لوگوں کے ساتھ کس لئے جنگ کررہے ہو ؟ جب کہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے ؛ میں ماٴمور ہوں تا کہ لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں کہ خدا کی وحدانیت اور میری ( محمد ) رسالت کی شہادت دیدیں ، اورجوں ہی یہ دو شہادتین کہیں گے تو ان کے مال و جان میری طرف سے محفوظ ہیں پھر ان کے ساتھ جنگ نہیں کروں گا مگر یہ کہ حق ہو۔
ابو بکر نے کہا:خدا کی قسم ! جو زکوٰة رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو ادا کرتے تھے ، اگرمجھے ادا نہ کریں گے اگر چہ وہ ایک اونٹ یا اس اونٹ کا بندھن ہی کیوں نہ ہو، ضرور ان کے ساتھ لڑوں گا ، کیونکہ زکوٰة مال کا حق ہے خدا کی قسم نماز اور زکوٰة کے درمیان فرق کرنے والوں کی ساتھ میں حتمی طور پر لڑوں گا
عمر کہتے ہےں میں نے جب دیکھا کہ خدا نے ابو بکر کے سینہ کو جنگ کیلئے آمادہ کیا ہے تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ حق پر ہےں ۱
تاریخ طبری میں آیا ہے :
’ ’ کچھ عرب گروہ مرتد ہوئے تھے ، ابو بکر کے پاس آئے ، وہ نما زکا اقرار
۱۔ البدایہ و النہایہ ج ۶/ ۳۱۱ ، و ان عمر بن الخطاب قال لابی بکر :لم تقاتل الناس و قد قال رسول الله امرت ان اقاتل الناس حتی یشھدو ان لا الہ الا الله و ان محمدً رسول الله فاذا قالوھا عصموا منی دمائھم و اموالھم الا بحقّھا فقال ابو بکر: و الله لو منعونی عناقا و فی روایة عقالاً کانوا یؤدونہ الی رسول الله(ص) لاٴ قاتلنّھم علی منعھا ان الزکاة حق المال و الله لاقاتلن من فرق بیں الصلاة و الزکاھ قال عمر: فما ھوالا ان رایت الله قد شرح صدر ابی بکر للقتال فعرفت انہ الحق (ص ۲۴۰)
کرتے تھے ، لیکن زکوٰة ادا کرنے سے پرہیز کرتے تھے ، ابو بکر نے اس کام کو قبول
نہیں کیا اور انھیں واپس بھیجدیا “ ۱
ابن کثیر نے البدایہ و النھایہ کی چھٹی جلد کے ۳۱۱ صفحہ پر کہتے ہےں:
”عربوں کا گروہ مدینہ آیا جبکہ نماز کا اقرار کرتے تھے لیکن زکات دینے سے پرہیز کرتے تھے ان میں ایسے اشخاص بھی تھے جو ابو بکر کو زکات ادا کرنے سے پرہیز کرتے تھے “
ان میں سے ایک نے یہ شعر کہے :

اطعنا رسول اللہ ما کان بیننا
فواعجبا ما بال ملک ابی بکر

ایورثنا بکراً اذا مات بعدہ
و تلک لعمر الہ قاصمة الظھر ۲

ترجمہ
جب تک رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم ہمارے درمیان تھے ، ہم ان کی فرمانبردار تھے ، تعجب کی بات ہے ! ابوبکر کو حکمرانی سے کیا ربط ہے ؟ کیا مرنے کے بعد اپنے بیٹے بکر کو جانشین قرار دےں گے ؟ خدا کی قسم یہ واقعہ کمر شکن تھا۔
طبری نے سیف سے اور اس نے ابو مخنف سے روایت کی ہے :
” قبیلہ طی کے سوار ، بنی اسد اور فزارہ کے سواروں سے (خالد کے ان پر حملہ کرنے سے پہلے
-----------
۱۔ تاریخ طبری ج ۲/۴۷۴ و قد جائتہ و فود العرب مرتدین یقرّون بالصلاة و یمنعون الزکاة فلم یقبل ذلک منھم و ردّھم ۔
۲۔ البدایة و النھایة ، ج ۶ ص ۳۱۱۔

ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوکرجنگ کئے بغیر ایک دوسرے کو گالیاں بکتے تھے ، اسد اور فزارہ کہتے تھے : نہیں ، خدا کی قسم ہم ہرگز ابو الفصیل کی بیعت نہیں کریں گے سوار ان، اُن کے جواب میں کہتے تھے: ہم شہادت دیتے ہیں کہ ابو بکر آپ لوگوں سے اس قدر جنگ کرے گا کہ آپ اسے ابو الفحل اکبر کہیں گے۱
مذکورہ مقدمہ سے اہل بحث و تحقیق کیلئے واضح ہوگیا کہ جس چیز کو ابو بکر کے زمانے میں ارتداد کہتے تھے وہ در حقیقت اسلام سے اردتاد نہ تھا بلکہ صرف ابو بکر سے مخالفت تھی ، لیکن چونکہ ابو بکر کی بیعت کے مخالفین عرب قبائل اور صحرا نشین تھے اور جنگ میں شکست کھا کر قدرت پر قبضہ نہ کرسکے تھے اور دوسری طرف سے مسلسل کئی برسوں تک حکومت ابو بکر و عمر اور ان کے دوستوں ، خاندان اور حامیوں کے ہاتھ میںر ہی ، اور وہ روایتیں جو مبارزات کے روداد اور سیاسی حالات کی تشریح کرتی ہیں، انہیں با نفوذ اور فاتح افراد کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہیں ، لہذا ہم پرلازم ا ورواجب ہے کہ شکست خوردہ فرنٹ کے بارے میں نقل کئے گئے مطالب کے صحیح ہونے کے بارے میں دقیق تحقیق اور جانچ پڑتال کریں ، یہ تھا ابو بکر کے دوران حکومت میں مرتدوں کے واقعہ کے بارے میں ایک خلاصہ ۔

سیف کیا کہتا ہے ؟
طبری نے سیف بن عمر سے نقل کیا ہے :
۱۔ ” بکر و بکرہ “ کا عربی لغت میں ایک معنی اونٹ کا بچہ ہے اور ” فصیل “بھی اونٹ کے بچہ کو کہتے ہیں لہذا ابو بکر کو ” ابو الفصیل “ کہا گیا ہے ، یعنی اونٹ کے بچہ کا باپ لہذا ابوبکر کو اس نام کیساتھ یادکرنا تو ھین کے عنوان سے تھا ۔
” جب ابو بکر کی بیعت کی گئی ، عرب عام طور پر یا ہر قبیلہ کے کچھ لوگ مرتد ہوگئے ۱
اس کے علاوہ ایک اور جگہ پر سیف کے حوالہ سے نقل کرتا ہے :
” کفر نے زمیں پر اپنا دامن پھیلا یا تھا اور لوگ دین سے روگردانی کرتے تھے اور قریش و ثقیف کے علاوہ ہر قبیلہ میں سے یا تمام افراد یا کچھ مخصوص افراد مرتد ہوگئے تھے ۲
سیف نے ارتداد کے سلسلے میں رونما ہونے والی جنگوں کی توصیف میں افسانوی اور خیالی داستانیں گڑھ لی ہیں جو تاریخ طبری میں پراکندہ حالت میں پائی جاتی ہیں ،سچ تو یہ ہے کہ سیف افسانے گڑھنے میں ” عنترہ بن شداد “ کے افسانے گڑھنے والوں اور ان کے مانند افسانہ نویسوںکا استاد تھا اور اس کی خیال بافی کا دامن ان لوگوں سے وسیع تر تھا ، کیونکہ سیف کے افسانوں کے ہیرو کیلئے خشک بیابانوں او ریگستانوں میں پانی کے چشمے جاری ہوتے ہیں وہ دریا کے پانی پر چلتے ہیں ، حیوانات ان سے گفتگو کرتے ہیں، اور فرشتے ان کی خبر گیری کرتے ہیں ،اور اسی طرح کے مطالب جو دوسرے افسانوں میں نہیں پائے جاتے ہیں ،اس کے علاوہ سیف کے افسانے، ایک اور خصوصیت کے بھی حامل تھے اور وہ یہ کہ اس کے افسانے با نفوذ شخصیتوں اور وقت کے حکام کی ستائش میں ہوا کرتے تھے اور اس نے ایسے لوگوں کی رفتار و گفتار کے دفاع میں(جو عام لوگوں کی نظروں میں مورد تنقید قرار پاتے تھے)زیادہ سے زیادہ روایتیں جعل کی ہیں،نمونہ کے طور پر کافی ہے کہ ہم ابو بکر
----------
۱۔ تاریخ طبری ج ۶/ ۲۶۱ : لمّا بویع ابو بکرارتدت العرب اما عاما و اما خاصة فی کل قبیلة ۔
۲۔ تاریخ طبری ج ۶/ ۴۷۰ ، کفرت الارض و تصرّمت و ارتدّت من کل قبیلة عامّة او خاصة الا قریشاً و ثقیفاً

کی مرتدوں سے جنگ کے بارے میں سیف کی گڑھی چند داستانوں کو نقل کریں تا کہ اس کی کتاب ” الفتوح و الردة “ میں اس کی داستان سرائی و افسانہ سازی کا طریقہ کار اور رویہ معلوم ہوسکے طبری نے اپنی تاریخ کبیر میں اسی کتاب سے بہت کچھ نقل کیا ہے ۔