عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
 
تیسرا حصہ :سیف کی روایتوں میں ارتداد اور مرتد


اسلام میں ارتداد۔
ابوبکر کے دوران ارتداد۔
سیف کے علاوہ روایت میں، داستان مالک بن نویرہ۔
متن وسند کے لحاظ سے داستان مالک کی تحقیق
سیف کی روایتوں کی چھان بین ۔
علاء حضرمی کی داستان ۔
حواٴب کی داستان۔

اسلام میں ارتداد
فتکشف ما فی الصدور و تجلّت النفس العربیة
پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد بعض لوگوں کے اندرونی عقدے کھل گئے نیز ان کی عربی خو، بو کی فطرت اور خاندانی تعصب آشکار ہوئے۔
تاریخ سیاسی اسلام

ارتداد کے معنی
عربی لغت میں ارتداد ” بازگشت“ کے معنی میں ہے ، قرآن مجید میں آیہٴ< فَلّما إنْ جَاءَ البَشیر القیہ علی وجھہ فارتدّ بَصیراً >۱بھی اس معنی میں آئی ہے اور کلمہ ” رد “ بھی قرآن کریم میں ” دین سے منہ پھیرنے “ اور مسلمانوں کی اسلام سے روگردانی کے معنی میں آیا ہے ، چنانچہ اس آیت میں آیا ہے : <یا ایُّھا الّذینَ آمنوا اِن تُطیعوا فریقاً مِنْ الَّذینَ اٴُوتوا الکِتابَ یَرُدّوکُم بعد إیمانکم کافِرینَ >۲
---------
۱۔ یوسف ،۹۷۔
۲۔ آل عمران، ۹۹۔

اور ” ارتداد“ یعنی دین سے منہ موڑ لیا ، چنانچہ آیہٴ کریمہ < یا ایھا الذین آمنوا من یرتدّ منکم عن دینہ فسوف یاٴ تی الله بقوم یحبّھم و یحبّونہ اذلة علی المؤمنین اعزة علی الکافرین > ۱ میں اور آیت < ولایزالوں یقاتلونکم حتی یردّوکم عن دینکم ان استطاعوا و من یَرتَدِد منکم عن دینہ فیمت وھو کافر اولئک حبطت اعمالھم > ۲ میں لیکن ارتداد کا استعمال اسلام میں بازگشت کے معنی میں اس قدر مشہور ہوا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اورمعنی ذہن میں نہیں آتا ۔

پیغمبر کے زمانے میں مرتد
بعض مسلمان ، پیغمبر کے زمانے ہی میں مرتد ہوگئے ، جیسے : عبد اللهبن سعد بن ابی سرح ، اس نے اسلام قبول کرکے مدینہ ہجرت کی اور پیغمبر اسلام کا کاتب بن گیا ، اور اس کے بعد مرتد ہوگیااور قریش کی طر ف مکہ لوٹاوہ قریش سے کہتا تھا کہ میں وحی لکھنے والوں میں سے ایک تھااور محمد کو جس طرف چاہتا موڑدیتا تھا ، وہ مجھ سے کہتے تھے کہ ” عزیز حکیم “ لکھو، میں کہتا تھا یا علیم حکیم ؟! وہ فرماتے تھے : جی ہاں ، دونوں مناسب ہیں ۔
جب فتح مکہ کا دن آیاتو رسول الله نے عبد اللہ کو قتل کرنا حلال کردیا اور حکم فرمایا جو کوئی عبد اللہ کو جس حالت میں بھی پائے ، حتی وہ کعبہ کے پردے کا دامن بھی پکڑے ہو توبھی اسے قتل کرڈالے عبد اللہ نے اپنے رضاعی بھائی عثمان کے پاس پنا ہ لی ، عثمان نے اسے اپنے گھر میں چھپا ئے رکھا ، اور
---------
۱۔ المائدہ /۵۴
۲۔ البقرہ/۲۱۷

اسکے بعد رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے حضور لاکر امان حاصل کی۱
دیگر مرتدین میں ایک عبدا للہ جحش ہے جو پہلے ام حبیبہ کا شوہر تھا اور اپنی بیوی سمیت اسلام قبول کیا عبداللہ نے حبشہ میں دین مسیحیت اختیار کیا اور اسی حالت میں انتقال کرگیا اور ایک مرتد عبد ا للہ بن خطل تھا وہ اس حالت میں قتل کیا گیا کہ کعبہ کا پردہ ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھا۲ ،یہ تھے پیغمبر کے زمانے میں ارتداد کا معنی ، یہ وہ لوگ تھے کہ اسلام کی نظرمیں مرتد ہوچکے تھے اب دیکھنا یہ ہے کہ ابو بکر کے زمانے میں ارتداد کے کیا معنی تھے اور وہ کن لوگوں کو مرتد جانتے تھے ۔

ابو بکر کے زمانے میں ارتداد
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کی دلسوز خبر جنگل کی آگ کے مانند تمام جزیرہٴ عرب میں پھیل گئی ، اس زمانے میں جزیرہ میں ساکن عرب دو حصوں میں تقسیم ہوتے تھے :
۱۔ وہ جنہوں نے اسلام قبول کیاتھا ۔
۲۔ وہ جو ابھی اپنے پہلے دین پر باقی تھے ۔
وہ لوگ جنہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا انھوں نے، رسول اللہ کی رحلت کے بعد زیادہ قوت اور قدرت حاصل کی اورکھلم کھلا مبارزہ او رمقابلہ کرنے پر اتر آئے ۔
----------
۱۔ عثمان نے عبد اللہ کو ۲۵ ھء میں مصر کا حاکم مقرر کیا اور وہ ۳۴ ھء تک اس منصب پر قائم رہا اور ۳۴ ھء میں سائب بن ہشام عامری کو اپنا جانشین مقرر کرکے عثمان کی ملاقات کیلئے مصر سے روانہ ہو ااس موقع پر محمد بن ابی حذیفہ نے اس کے خلاف بغاوت کی اور سائب کو اقتدار سے برطرف کیا او خود حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ۔ عبد اللہ بن سعد جب واپس آیا تو محمد بن ابی حذیفہ نے اس سے مصر میں داخل ہونے سے روکا پھر وہ نواحی شام میں واقع عسقلان گیا اور وہیں سکونت اختیار کی یہاں تک کہ ۳۶ھء میں عثمان قتل کئے گئے اور وہ تا ۵۷ھء یا ۵۸ھء میں وہیں پر وفات پاگیا ( استعاب ج ۲/ ۳۶۷۔ ۳۷۰)
۲۔ الاصابہ، ج ۲ص ۳۰۹،۳۱۰ ۔

لیکن تمام مسلمان ، انتظار کی حالت میں مدینہ کی طرف چشم براہ تھے اور ہر راہی سے تازہ خبر
پوچھتے تھے کہ اسی اثنا میں خبر آئی کہ اسلام کے دار الخلافہ مدینہ میں رسول اللہ کی رحلت اور فقدان کی وجہ سے ہلچل مچ گئی ہے ، ابو بکر کی بیعت کی خبر مسلسل انھیں پہنچ رہی تھی اورفطری طور پر اس دن کے حوادث کا دامن اس سے وسیعتر تھا جو آج صدیاں گزرنے کے بعد ہم تک پہنچا ہے ۔
خبر پہنچی کہ اصحاب رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم بیعت کے مسئلہ پر ہاتھاپائی کرکے ایک دوسرے کی جان لینے کے پیچھے پڑے ہیں ؟ اور دوسری طرف سے سنتے تھے کہ بنی ہاشم ( خاندان پیغمبر ) متفقہ طور پر بیعت کرنے سے انکار کرتے ہیں ! اورقبیلہٴ خزرج کے سردار سعد نے بھی بیعت کرنے سے انکار کیا ہے اور
اس قسم کی گوناگوں خبروں کے پھیلنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض مسلمان قبائل نے فیصلہ کیا کہ ایسی بیعت سے پرہیز کریں اور حکومت وقت کو اسلامی مالیات ( زکات ) ادا کرنے سے اجتناب کریں ،نہ اسلئے کہ اصولاً زکوٰة ادا کرنے کیلئے حاضر نہ تھے اور بعض اسلامی قوانین جسیے زکوٰة اور نماز کی مخالفت کرتے تھے (جیسا کہ ان پر اس چیز کی تہمت لگائی گئی) بلکہ اس اےسا تھاکہ وہ وقت کی حکومت پر اعتماد نہیں رکھتے تھے او رحاضر نہیں تھے ابو بکر کے سامنے سر تسلیم خم کریں ، البتہ حکومت کے ان مخالفین کی اس قدر حیثیت اور اہمیت نہیں تھی، جتنی مدینہ میں موجود مخالفین کی تھی ، لہذا حکومت نے ایک خونین کاروائی کرکے ان سب کو قتل کرڈالا اور ابو بکر کا کوئی مخالف باقی نہ رہا ، اس کے بعد باقی مشرکین کی سرکوبی کی کاروائی شروع ہوئی جو پیغمبری کا دعویٰ کرتے تھے اور رسول الله کے زمانے میں جزیرة العرب کے مختلف علاقوںمیں پھیلے ہوئے تھے نتیجہ کے طور پر ان کابھی قلع قمع کیا گیا ، مخالفین کی سرکوبی سے فارغ ہونے کے بعد حکومت نے فتوحات کیلئے اقدام کئے او رلشکر کشی شروع ہوئی ، اسلام کے مؤرخین نے ان تمام جنگوں کو (جو وفات رسول اللہ کے بعد ابو بکر کے سپاہیوں اور جزیر ة کے اعراب کے درمیان رونما ہوئیں )جنگ ”زردہ “ نام دیا ہے کیونکہ مدینہ سے باہر ابو بکر کے مخالفین کو ”مرتد “ کہا جاتا تھا ۔

ابو بکر کی مخالفت ارتداد نہیں ہے
ڈاکٹر حسن ابراہیم اپنی کتاب ” تاریخ الاسلام السیاسی “ میں اسی نظریہ کی تائید کرتے ہوئے یوں لکھتے ہےں: ” جب رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے رحلت فرمائی اور آپ کی موت کی تصدیق ہوگئی تولوگوں کی ایک جماعت، دین کے اصول(جو رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے باقی بچے تھے) کے بارے میں شک و شبہہ میں پڑگئی اور بعض لوگ اس لحاظ سے خائف تھے کہ ایسا نہ ہو کہ قریش یا کوئی دوسرا قبیلہ حکومت کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھ میں لے لے،اور اس سے متعلق ایک مطلق العنان اور خاندانی حکومت میں تبدیل کردے، اسلئے وہ اسلامی حکومت کی حالت اور اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے ۔ کیوںکہ وہ مشاہدہ کررہے تھے کہ جو پیغمبر، خداوند عالم کے عظیم سفیر کی حیثیت رکھتے تھے اور انھیں حق پر مبنی امرو نہی کی تبلیغ کرنے کے ساتھ ساتھ عصمت کی نعمت سے بہرہ مند اور خطا و لغزشوں سے بھی محفوط تھے ان سے رخصت ہوچکے تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ مختلف قبائل کے درمیان مساوات کے قانون کو نافذ کرنے والا ، لوگوں اور قبائل کےساتھ مساوی سلوک کرنے والا ایسا شخص ہوناچاہئے جس میں پیغمبر کے وہی عالی صفات موجود ہوں ۔
ان حالات کے پیش نظر یہ احتمال تھا کہ اس پیغمبر کا جانشین اپنے ذاتی اور خاندانی مطالبات کو مسلمانوں اور معاشرے کی مصلحتوں پر مقدم قرار دیگا ، کیونکہ یہ امر بعید نہیں تھا کہ خلافت کے عہدہ دار خلیفہ وقت کے خاندان کی اجتماعی حیثیت کو بیشتر اہمیت دیکر اسے تقویت بخشیں گے اور دوسرے خاندان اور قبائل کو کچل کے رکھ دیں گے، جس کے نیتجہ میں سماجی انصاف اپنا توازن اور تعادل کھو بیٹھے گا۔
یہ احتمال اس لئے اہمیت کا حامل ہے کہ ہم نے دیکھا کہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے دوران عرب قبائل اور خاندانوں نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے اور حالات پر تسلط جمالینے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی ایک دوڑ لگانی شروع کردی تھی، تا کہ ہر ایک اس مقابلہ میں کامیاب ہوجائے اور دوسرے کو نیچا دکھا کر میدان سے خارج کرکے صرف اپنے آپ کو اس مقابلہ کا فاتح قرار دے، یہاں پر انکے پوشید راز طشت از بام ہوئے اور ان کی دیرینہ عرب قومی فطری اور مزاج کھل کر سامنے آگئے انصار ، قریش اور مہاجرین سے خائف تھے کہ کہیں ایسانہ ہو کہ اس کام میں وہ سبقت حاصل کریں اور انصار کو اس میں دخل دینے کی اجازت نہ دیں ، قریش اور مھاجرین بھی اپنی جگہ پر وحشت و اضطراب سے دوچار تھے اور قبیلہٴ اوس و خزرج بھی ایک دوسرے سے خوفزد ہ تھے ۱
یہ تھی مدینہ کی سیاسی حالت ، دوسری طرف سے مکہ کی حالت بھی اسی سیاسی ہلچل کی وجہ سے مدینہ سے کم نہ تھی ، کیونکہ مکہ میں موجود قریش کے قبائل میں بھی یہی رقابت موجود تھی ، لہذا جب بیعت کا کام ابو بکر کے حق میں ختم ہوا تو بنی ہاشم ابو بکر سے سخت برہم ہوئے اسی لئے کئی مہینوں تک ان کی بیعت کرنے سے اجتناب کیا اور ابو سفیاں بن حرب نے زبردست تک و دو کی تا کہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے جذبات کو ابو بکر کے خلاف مشتعل کرے ، جس نے خلافت کو ،بنی عبد مناف سے چھین لیا تھا ۔
مہاجرین و انصار خود رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے کسی قسم کی قرابت رکھتے تھے یا اسلام لانے میں سبقت حاصل کرچکے تھے یا دین خدا کی نصرت کی تھی اور اسلام کی سرحدوں کی حفاظت کرچکے تھے ان فضائل کے پیش نظر افتخار اور ناز کرتے ہوئے خلافت کے امیدوار تھے ، لیکن عربوں کے دوسرے قبیلے جو اسلام میں نہ ایسا سابقہ رکھتے تھے اور نہ ان کی رسول خدا سے کوئی رشتہ داری تھی ، اگر چہ خلافت کی لالچ اور امید نہیں رکھتے تھے ، لیکن جب وہ اس امر کا مشاہدہ کرتے تھے کہ مہاجر و انصاراس کام پر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے ہیں اور مہاجر، انصار سے کہتے ہیں : سپہ سالار ہم میں سے ہو اور وزراء کی کابینہ آپ میں سے چنی جائے ۲ اور انصار اس تجویز کو مسترد کرکے کہتے تھے : ” نہیں ،
----------
۱۔ سقیفہ کی روداد اس سے پہلے بیان ہوئی ہے ملاحظہ ہو ۔

۱۔ منا الامراء و منکم الوزراء ۔
بلکہ سپہ سالاری ہم دونوں گروہ سے منتخب ہونا چاہئے “ ۱
ان حالت کے پیش نظر، وہ مکمل طور پر نامید اور مایوس ہوئے اور اپنے آرمانوں کو برباد ہوتے
دیکھا ۔ لہذا انہوں نے مخالفت کا پرچم بلندکیا اور ان میں سے بھی بہت لوگوں نے ابو بکر کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا اور ان کو زکات اداکرنے سے پرہیز کیا
سیف نے اپنی روایتوں میں اس عمل کو ارتداد اور ایسے لوگوں کو مرتد کہا ہے اور ایسا دکھایا ہے کہ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعداکثر عرب قبائل ارتدادکاشکار ہوگئے تھے ۔
بعض مستشرقین۳نے بھی اسی پر استناد کرکے پیغمبر کی وفات کے بعد بعض عرب قبائل ، مرتد ہوکر دین سے منحرف ہوگئے کے پیش نظر معتقد ہوئے ہیں کہ ” اسلام تلوار اور نیزہ کی نوک پر پھیلا ہے اور تنہا عامل جس نے عربوں کو یہ دین قبول کرنے پر مجبور کیا تھا تلوار کا خوف تھا “
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابو بکر کی حکومت کے دوران کسی قسم کا ارتداد نہیں تھا ، جن لوگوں کے ساتھ ابو بکر ارتداد کے نام پر جنگ کررہے تھے ، یہ نہ مرتد تھے اور نہ اسلام سے منحرف ہوئے تھے ، بلکہ ان میں سے کچھ لوگ تو آغاز ہی سے مسلمان نہیں تھے اور کچھ دوسرے لوگوں نے صرف ابو بکر کو زکات ادا کرنے سے انکار کیا تھا ۔ ان دونوں گروہوں کو غلطی یا اشتباہ سے مرتد کہا گیا ہے آئندہ فصل میں اس روداد کی تفصیل اور وضاحت بیان کی جائے گی ۔
----------
۱۔ بل منا امیر و منکم امیر ۔

۱۔ جیسے ” فون فولٹن “ جرمنی کا معروف مستشرق۔