عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
 
سقیفہ کی داستان کے بارے میں سیف کی روایتوں کی چھان،بین
تتابع المہاجروں علی بیعتہ من غیر ان یدعوھم
مہاجرین کی جماعت کے افرا یکے بعد دیگرے ابو بکر کی بیعت کرتے تھے ، بغیر اس کے کہ ان سے کوئی بیعت کرنے کی دعوت کرتا
سیف
و ان جمیع بنی ھاشم و جمعاً من المہاجرین تخلّفوا عن بیعة ابی بکر
تما بنی ہاشم اور مہاجرین کی ایک پارٹی نے ابو بکر کی بیعت کرنے سے انکار کیا
مورخین

کتاب کی فصلوں کے درمیان ربط
ہم نے اس کتاب کی پہلی فصل میں سپاہ اسامہ کے بارے میں سیف کی روایتوں کی بررسی کی ، کتاب کی دوسری فصل سے سقیفہ کی داستان کو شروع کیا اور اس فصل میں سقیفہ کی داستان کے بارے میں سیف کی سات روایتیں نقل کیں ، بعد والی فصلوں میں ہم نے دوسرے مؤرخین کی روایتوں پر روشنی ڈالی ، اس فصل میں سیف کی سات روایتوں کو دوسرے تاریخ نویسوں کی روایتوں سے تطبیق اور موازنہ کیا اور اس تحقیق اور بررسی کے نتیجہ کا اعلان کرتے ہوئے کتاب کے اس حصہ کو اختتام تک پہنچایاہے ۔ اس کے بعد کتاب کے دوسرے حصوں میں سیف کی دوسری روایتوں پر بحث کی ہے ۔

سیف کی روایتیں
سقیفہ کی داستان کے بارے میں سیف کی سات روایتوں کو اس کتاب کی پہلی فصل میں قارئین کرام نے مطالعہ فرمایا؛ یہاں پر ہم یاددہانی کے طور پر ان کا خلاصہ پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد دوسرے تاریخ نویسوں کی روایتوں سے ان کا موازنہ اور تطبیق کرکے ان کی قدر وقیمت کا اندازہ لگائیں گے :
اول: سیف نے قعقاع بن عمرو کے ساتھ انصار کی مخالفت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس نے کہا؛ میں نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کو درک کیا ہے ، پس جب ہم نے ظہر کی نماز پڑھ لی ، ایک شخص آیا اور مسجد میںکھڑے ہوکر مہاجرین کو خبر دی کہ انصار سعد کو منتخب کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں اور اس طرح چاہتے ہیں کہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کئے گئے عہد و پیمان کو توڑدیں ، اس خبر نے مہاجرین کو وحشت میں ڈالدیا ۔
دوم : سیف نے ایک روایت میں، جسے اس نے سوال و جواب ک صور ت میں پیش کیا ہے کہتا ہے : کسی ایک نے بھی ابو بکر کی بیعت سے مخالفت نہیں کی مگر ان لوگوں نے جو مرتدہوگئے تھے اور دین اسلام سے منحرف ہوگئے تھے ، یا تقریباً مرتد ہوگئے تھے تمام مہاجرین نے انھیں دعوت دے کر یکے بعد دیگرے بیعت کی ۔
سوم : مزید روایت کی ہے کہ حباب بن منذر نے تلوار کھینچ لی اور عمر نے اس کے ہاتھ پر ایسی چوٹ لگائی کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اس کے بعد انصار بیمار اور صاحب فراش سعد کے بدن پر سے چھلانگ لگا کر یکے بعد دیگرے بیعت کرتے رہے ، اور انصار کی یہ مخالفت عصر جاہلیت کی لغزشوں کے مانند ایک خطا تھی ، ابو بکر نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔
چہارم : اس نے روایت نقل کی ہے کہ سعد نے ابو بکر سے کہا: تم کومہاجرین اور میری قوم (انصار) نے مجھے بیعت کرنے پر مجبور کیا۔
ابو بکر نے جواب میں کہا: اگر ہم تجھے معاشرے کو چھوڑنے پر مجبور کرتے اور تم ہماری مرضی کے خلاف معاشرے سے جا ملتے تو کوئی بات تھی ، لیکن ہم نے تجھے معاشرے سے ملنے پر مجبور کیا ہے ، اب واپس لوٹ نہیں سکتے ہو، اگر نافرمانی کرو گے یا معاشرے میں تفرقہ اندازی کرو گے تو ہم تیرا سر قلم کردیں گے ۔
پنجم : علی ابن ابیطالب کی بیعت کے بارے میں کہتا ہے :
حضرت علی علیہ السلام گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ خبر دی گئی کہ ابو بکر بیعت لینے کیلئے بیٹھے ہیں ، حضرت علی عباوشلوار کے بغیر صرف ایک کرتا پہنے ہوئے حیران و پریشان حالت میں گھر سے باہر نکل آئے تا کہ ابو بکر کی بیعت کرنے میں تاخیر نہ ہوجائے ، اور دوڑتے ہوئے ابو بکرکی بیعت کی اس کے بعد کسی کو بھیج دیا تا کہ ان کا لباس لائے۔
ششم : سیف نے نسبتاً طولانی دو خطبوں کو ابو بکر سے منسوب کیا ہے کہ لوگوں کی طرف سے بیعت کئے جانے کے بعد انہوں نے یہ خطبہ دیئے ہیں ، اور سیف کہتا ہے کہ ابو بکر نے ان خطبوں میں موت ، دنیا کے فانی ہونے اور قیامت کے بارے میں بیان کیا ہے ۔
ہفتم : اور خالد بن سعید اموی کی، حضرت ابو بکر کی بیعت سے مخالفت کے بارے میں روایت کی ہے خالد بن سعید نے امن و آشتی صلح و صفا کے زمانے میں حریر کا لباس پہنے ہوئے تھے عمر نے حکم دیا کہ ان کے جسم سے اس لباس کو پھاڑ کر اتاردیا جائے یہی وجہ تھی کہ خالد نے حضرت علی سے کہا اے عبد مناف کے بیٹو! کیا تم لوگوں نے شکست کھا ئی ہے اور مغلوب ہوچکے ہو ! حضرت علی علیہ السلام نے جواب میں کہا؛ کیا تم اسے جنگ جانتے ہو یا خلافت ؟! عمر نے خالد سے کہا؛ خدا تیرے منہ کو توڑ دے تم نے ایک ایسی بات زبان پر جاری کی ہے جو جھوٹ بولنے والوں کیلئے ہمیشہ کیلئے سند کے طور پر باقی رہے گی
مذکورہ سات روایتوں کے اس مجموعہ سے مندرجہ ذیل خاص اور بنیادی نکات قابل تحقیق ہیں ؛
۱۔ یہ کہ حضرت علی علیہ السلام نے پہلے ہی دن عجلت کے ساتھ ابو بکر کے پا س جاکر ان کی بیعت کی
۲۔ یہ کہ سعد بن عبادہٴ انصاری نے پہلے ہی دن بیعت کی ۔
۳۔ یہ کہ ابو بکر کی خلافت ، رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے ایک عہد و پیمان تھا۔
۴۔ یہ کہ حباب بن منذر انصاری نے سقفیہ میں تلوار کھینچی ہے
۵۔ یہ کہ ابو بکر نے بیعت کے بعددو طولانی خطبے جاری کئے ہیں ۔
۶۔ یہ کہ سقیفہ میں رونما ہونے والی روداد کے بارے میں خالد بن سعید قبیلوں کے درمیان مقابلہ اور مبارزہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس تعبیر پر علی اور عمر کی طرف سے مورد اعتراض قرار پاتے ہیں ۔
۷۔ یہ کہ مرتدوں کے علاوہ کسی ایک نے بھی ابو بکر کی بیعت سے انکار و مخالفت نہیں کی ۔
اب ہم بحث کے اس حصہ میں مذکورہ نکات کی بالترتیب چھان بین کرتے ہیں ۔

تطبیق اور بررسی
جب ہم سیف کی روایتوں کو صحیح اور متواتر روایتوں، جن میں سے بعض کو ہم نے اس سے قبل والی روایتوںکے پہلو میں قرار دیکر ان میں موازنہ کرتے ہیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ سیف خلاف واقع حدیث جعل کرنے میں حددرجہ حریص اور لالچی تھا ۔
اول : سیف اپنی روایتوں میں اصحاب اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رشتہ داروں خاص کر بنی ہاشم اور مہاجرین کے امیدوار حضرت علی علیہ السلام اور انصار کے نمائندہ سعد کا نام لیتاہے اور صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ ان دو افراد نے پہلے ہی دن ابو بکر کی بیعت کی، جبکہ دوسرے مؤرخین کی روایتوں (جن کو ہم نے گزشتہ فصلوں میں نقل کیا ہے) سے واضح اور مکمل طور پر پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کھلم کھلا اپنے لئے خلافت کا مطالبہ کرتے تھے اور بنی ہاشم کے تمام افراد اور مہاجرین کے بھی کچھ لوگوں نے ان کے حق میں ابو بکر کی بیعت کرنے سے انکارکیا ، اور یہ سب حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کرنا چاہتے تھے ، کہا گیا ہے کہ جب تک پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام زندہ تھیں ، حضرت علی علیہ السلام اور بنی ہاشم میں سے کسی ایک نے بھی ابو بکر کی بیعت نہیں کی ! لیکن سیف کہتا ہے :
” حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے ہی دن عجلت کے ساتھ بلکہ اسی لمحہ میں ابو بکر کی بیعت کی !‘ جبکہ حضرت علی علیہ السلام اس دن رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے اور بنی ہاشم کے دیگر افراد ایک لمحہ کیلئے بھی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازہ سے جدا نہیں ہوئے اور دوسروں کی طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تجہیز و تکفین سے محروم نہیں رہے ۔
لیکن سیف کہتا ہے : ” علی جلد بازی کی شدت کی وجہ سے عبا و شلوار کے بغیر دوڑتے ہوئے گھر
سے باہر آئے اور ابو بکر کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر ان کی بیعت کی اور اس کے بعدان کے پاس بیٹھے“
اگرسیف کا یہ کہنا صحیح ہے تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازہ کا کیا حال ہوا ؟! تجہیز و تکفین کے کام کو کس نے انجام دیا ؟! سیف یہ کہنا بھول گیا ہے
دوم : سعد نے عمر کی خلافت تک بیعت نہیں کی اور اپنے گھر اور گھر والوں سے دور شام کی سرزمین میں دو، پریوں نے تیر مار کر اسے ہلاک کیا ، اس کی جلاوطنی اور عالم تنہائی میں قتل ہونے کی علت صرف اور صرف سند جرم اس کا بیعت سے انکار کرنا تھا ۔
سوم : اس نے قعقاع بن عمرو سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا؛ میں رسول اللہ کی رحلت کے دن مسجد میں تھا ، نماز کے بعد ایک شخص آیا او رمہاجرین کو خبر دی کہ انصار جمع ہوئے ہیں اور رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے عہد و پیمان کے خلاف سعدکی بیعت کرنا چاہتے ہیں !
جیسا کہ پہلے اشارہ ہوا کہ سیف روایت جعل کرنے میں خاص تجربہ اورمہارت رکھتا تھا ، مثلاً اس روایت میں رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے ایک عہد و پیمان کا نام لیا ہے اور لشکر اسامہ کی روایت کو نقل کرتا ہے تا کہ اس عہد و پیمان سے مربوط شخص معلوم ہوجائے ، جہاں پر کہتا ہے : جوں ہی اسامہ کو رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کی خبر ملی ، اپنا سفر موقوف کرکے عمر کو خلیفہ رسول خدا ابو بکر کے پاس بھیجا
ان دو روایتوں کو پڑھنے والا پہلی روایت سے یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ خلافت کے بارے میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کوئی عہد و پیمان تھا اور انصار اس کی خلاف ورزی کرناچاہتے تھے دوسری روایت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ عہد و پیمان ابو بکر کے بارے میں تھا سیف کہتا ہے جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کی خبر اسامہ کو ملی تو وہ اس جگہ رک گیا اور عمر کو رسول خدا کے پاس بھیجا ۔
ایک دوسری روایت میں وہ خود بھی اس نظریہ کی تائید کرتے ہوئے کہتا ہے : تمام مہاجرین نے بغیر ا سکے کہ کوئی انھیںد عوت دیے یکے بعد دیگرے بیعت کی، لیکن ہم تحقیق اور بررسی کے بعد دیکھتے ہیں کہ اس روایت کا راوی قعقاع بن عمرو در حقیقت خار ج میں وجود ہی نہیں رکھتا ہے اور سیف کے افسانوں کا جعلی ہیروہے ، ہم نے اس مطلب کو اپنی کتا ب” ایک سو پچاس جعلی اصحاب “ میں واضح طور پر بیان کیا ہے ۔
چہارم: سیف کہتا ہے کہ حباب بن منذر انصاری نے سعد بن عبادہ کی بیعت کیلئے تلوار کھینچ لی ، جبکہ حقیقت میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی زبیر بن عوام نے علی کے حق میں بیعت لینے کیلئے تلوار کھینچ لی تھی ، لیکن چونکہ زبیر اور علی مہاجروں میں سے تھے اسلئے سیف کہنا چاہتاتھا کہ مہاجرین میں سے کسی ایک نے بھی ابو بکر کی مخالفت نہیں کی صرف انصار تھے جنہوں نے مخالفت کی، لہذا اس نے زبیر کے کام کو حباب سے منسوب کیا ہے ! اور یہ کہ اسکا کام بھی سعد انصاری کی حمایت میں تھا نہ حضرت علی قریشی کی حمایت میں ۔
پنجم : عمر نے ابو بکر سے بیعت کے بارے میںکہا تھا : ابو بکر سے بیعت کرنازمانہٴ جاہلیت کی لغزشوں جیسی ایک لغزش اور خطا تھی ۱سیف نے عمر کے بیان پر پردہ پوشی کرنے کیلئے ابو بکر کی بیعت سے انصار کی مخالفت کو ” فلتہ“ یا لغزش سے تعبیر کیا ہے تھاکہ پڑھنے والا خیال کرے کہ عمر کی مراد ”فلتہ “ سے وہی لغزش تھی !!
ششم : سیف نے نسبتاً طولانی دو خطبوں کو ابو بکر سے منسوب کیاہے کہ لوگوں کی بیعت کرنے کے بعد ابوبکر نے ان دو خطبوں کو جاری کیا ہے ، اگر ان دو خطبوں پر دقت اور جانچ پڑتال کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیف کی یہ روایت بھی اس کی دیگر روایتوں کے مانند جعلی ہے کیونکہ اس کے باوجود کہ ان دو خطبوں کا مواد اغلب موعظہ او رموت ، دنیا کے فانی ہونے اور آخرت کے عذاب کی یاد دہانی پرمبنی ہے ، خلفاء ثلاثہ کے خطبوں کی یہ روش نہیں ہوتی تھی یہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور علی ابن ابیطالب سے مخصوص روش تھی ،اور علی کے بعد مسلمانوں میں یہ معمول رہا ہے ، سیف کے لکھے گئے اشعار و رزم نامہ نسبتاً فصیح اور دلچسپ ہوا کرتے ہیں ، البتہ اس کے بر عکس یہ دو خطبے انتہائی بے مزہ اور سست انشاء پر مشتمل ہیں ، گویا سیف وعظ و نصیحت اور ثواب و عقاب کے بارے میں عقائد سے لئے گئے الہام کے تحت مناسب مہارت نہیں رکھتا تھا ، اس کی جھوٹ گڑھنے والی زبان اس حصہ کوبخوبی جعل کرنے میں ناکام رہی ہے اس کے علاوہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ابو بکر کے زمانے
---------
۱۔ انھا کانت فلتة کفلتات الجاھلیة ۔

میں بنیادی طور پر طولانی خطبوں کا رواج نہیں تھا اور غالباً خطبے چھوٹے اور قابل سماعت ہوتے تھے ، طولانی خطبوں کا رواج عمر کے زمانے سے شروع ہوا ہے علی کی خلافت کے دوران اپنے عروج کو پہنچا۔
اس کے علاوہ حکومت کے عہدہ دار عام طور پر اپنے پہلے خطبہ میں اپنی حکومت کے پروگرام اور منصوبوں کا اعلان کرتے ہیں ، یہ نکتہ ابو بکر کے حقیقی اور مختصر خطبوں میں مکمل طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے جن کے بارے میں دوسرے مؤرخین نے روایت کی ہے ، ان تمام چیزوںکو نظر انداز کرتے ہوئے جو بات زیادہ دلچسپ اور قابل توجہ ہے وہ سیف کا وہ جملہ ہے کہ جسے اس نے ان دو خطبوں میں ابو بکر سے منسوب کیا ہے کہ ابو بکر نے کہا:
الا وان لی شیطاناً یعترینی فاذا اتانی فاجتنبونی و لا اوثر فی اشعارکم و ابشارکم ۱
معلوم نہیں اس جملہ کو ابو بکر سے منسوب کرنے میں اس کا کیا مقصد تھا ؟ کیا اس نے یہ محسوس کیا تھا کہ اس زمانے کے لوگ ابو بکر سے بھی وعظ و نصیحت اور ترک دنیا کے موضوع پر پیغمبر اورعلی بن ابیطالب کے جیسے خطبے سننا پسند کرتے ہیں ؟ اگر ایسا تھا ، تو ، وہ کیوں متوجہ نہیں ہوا کہ چارو ناچار ابو بکر کے اس بیان کی شدید ملامت و مذمت کی ہے ! اور اس صورت میں خلیفہ مسلمین کا اعتراف ہرگز
----------
۱۔اس جملہ کا ترجمہ پہلے گزر چکا ہے۔

مناسب نہیں ہے، اور خلیفہ پر شیطان کا غلبہ ہونے کی صورت میں مسلمانوں کا ان سے پرہیز کرنا ،صحیح معنی و مفہوم نہیں رکھتا ، یہ جملہ بھی خلیفہ کے توسط لشکر اسامہ ۱کو الوداع کرتے وقت پڑھی گئی دعا کے مانند مسلمانوں میں خلیفہ کیلئے بدگمانی اور نفرت پیدا ہونے کا سبب بن سکتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ سیف اس سے زیادہ چالاک تھا کہ ان جوانب کی طرف متوجہ نہ ہوتا بلکہ ہمارے عقیدہ کے مطابق سیف نے اپنے الحاد اور اسلام سے دشمنی کے باعث( جیسا کہ علمائے رجال نے بھی اسے زندیق کہا ہے)۲ چاہا ہے کہ کچھ مضحکہ خیزاوھام اور کام کو تاریخ اسلام میں داخل کرے تا کہ اس طرح اسلام کی با عظمت عمارت کو متزلزل کرکے رکھدے آئندہ بحثوں میں نقل کی جانے والی روایتوں پر دقت کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجائے گی ۔
ہفتم : سیف خالد بن سعید اموی کی ابو بکرکی بیعت سے مخالفت کے بارے میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محافظ صخر سے نقل کی گئی روایتوں میں کہتا ہے: خالد جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے وقت یمن میں تھا ، پیغمبر کی وفات کے ایک ماہ بعد مدینہ آیا جبکہ وہ ریشمی لباس زیب تن کئے ہوئے تھا اور عمر کے حکم سے اس کے لباس کو پھاڑ ڈالا گیا چونکہ جنگ کی حالت کے علاوہ مردوں کیلئے ریشمی لباس پہننا جائز نہیں ہے ۔
روایت کے اس حصہ سے سیف کا مقصد بیعت ابو بکر سے خالد کی مخالفت کو انتقامی
-------
۱۔ فضل ” لشکر اسامہ “ ملاحظہ ہو
۲۔ فصل ” سیف کتب رجال میں “ ملاحظہ ہو

رنگ دینا ہے تا کہ اسے اس توہین آمیز واقعہ کے ذریعہ مستند بنادے ، اس کے بعد کہتا ہے خالد نے حضرت علی سے کہا؛ اے ابو الحسن ! افسوس ہے عبد مناف کی اولاد پر ! آپ لوگوں نے مقابلہ میں شکست کھائی ہے ! یعنی کس طرح قبیلہٴ تیم، قبیلہٴ عبد مناف کے مقابلہ میں کامیاب ہوگیا ؟!
حضرت علی علیہ السلام نے جواب دیا : یہ قبیلوں کی جنگ نہیں تھی ، بلکہ امر خلافت ہے اور خلافت کا موضوع خاندانی مقابلہ اور تعصب سے جدا ہے ! لیکن خالد نے تکرار کرتے ہوئے دوبارہ کہا: اے عبد مناف کی اولاد ! خلافت کیلئے آپ لوگوں سے سزاوار تر کوئی نہیںہے “ اور اس طرح دوبارہ مقصد کو خاندانی مقابلہ کے طورپر پیش کیا ۔
یہاں پر عمر نے خالد سے کہا؛ خدا تیرے منہ کو توڑدے تم نے ایک ایسی بات کہی جو جھوٹ بولنے والوں کیلئے ہمیشہ سند کے طور پر باقی رہے گی
جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ سقیفہ کی فعالیتوں کی بنیاد خاندانی تعصب پر تھی ۱لیکن سیف اس روایت کے آخری حصہ کو جعل کرکے کہنا چاہتا ہے کہ یہ صرف خالد تھا جو ایسا سوچتا تھا ورنہ مہاجرین و انصار کا دامن ان چیزوں سے پاک و پاکیزہ تھا کہ خلافت کے موضوع پر خاندانی تعصب دکھائیں ، لہذا حضرت علی علیہ السلام نے اس روایت میں خالد کی بات پر اعتراض کیاا ور عمر بھی برہم ہوئے اور خالد کو برا بھلا کہا، اس طرح سیف چاہتا ہے ابو بکر کی بیعت کے بعد خاندانی تعصب کی بنا پر کہے گئے تمام مطالب کو (جو تاریخ میں ثبت ہوئے ہیں) عمر سے منسوب کی گئی پیشن گوئی کے ذریعہ ختم کردے۔
اس سے اہم تر یہ کہ سیف یہ دکھانا چاہتا تھا کہ بنیادی طور پر اس امر میں حضرت علی علیہ السلام ابوبکر اور عمر کے درمیان کسی قسم کا اختلاف نہیں تھا ، تا کہ اگر کسی اختلاف کے بارے میں گفتگو ہوتی تو لوگ سمجھتے کہ اس کی بنیاد خالد کی بات تھی اور عمر نے اس کی پیشین گوئی کی تھی اور خبر دیدی تھی کہ یہ بات مستقبل میں جھوٹ بولنے والوں کیلئے ایک سند بن جائے گی ، لہذا جو بھی ان کے درمیان اختلاف کی بات کرے گا وہ جھوٹا ہوگا ( توجہ کیجئے)
ساتھ میں یہ بات بھی ہم فراموش نہ کریں کہ سیف نے اس روایت کو پیغمبر کے محافط صخر سے نقل کیا ہے جبکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس نام کاکوئی محافظ نہیں تھا اور مذکورہ محافظ جعلی اصحاب میں سے ایک ہے ۔
ہشتم : سب سے اہم جملہ جو سیف کی جعلی روایتوں میں پایا جاتا ہے ، یہ ہے کہ وہ کہتا ہے ؛ کسی نے بھی ابو بکر کی بیعت سے انکار نہیں کیا ، مگر یہ کہ مرتد ہوگیا ہو یعنی دین اسلام سے خارج ہوگیا ہو ، یا مرتد کے قریب پہونچ گیا ہو!
سیف نے اس روایت کو گڑھ کر ابو بکر کی بیعت نہ کرنے والے مؤمنوں اور مسلمانوں کے ناموں کو تاریخ کے صفحات سے پاک کرناچاہا ہے لہذا انھیں مرتد اور بے دین بتایا گیاہے تا کہ اس عمل سے یہ ظاہر ہو کہ اگر کوئی مطالعہ کرنے والا تاریخ کے متون میں رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے صحابیوں کے ایک گروہ کو دیکھئے کہ ا نھوں نے ابو بکر کی بیعت سے مخالفت کی ہے ، تو فوراً اس جملہ کے استناد پر انھیں حکم کفر و ارتداد دیکر مرتدوں کی فہرست میں قرار دے !
اب دیکھنا چاہئے کہ جو شخصیتیں سیف کے ارتدادی تہمت کے زمرہ میں آئی ہیں کون ہیں اور کیا سیف کی تہمت کا عنوان ان پر صادق آتا ہے ؟!
ابو بکر کی بیعت سے اختلاف کرنےو الے اشخاص حسب ذیل ہیں :
۱۔ علی بن ابیطالب علیہ السلام
۲۔ رسول اللہ کی بیٹی فاطمہٴ زہراء سلام اللہ علیھا
۳۔ زیبر بن عوام ، یپغمبر کے پھوپھی زاد بھائی ۔
۴۔ عباس ، پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا۔
۵۔ سعد وقاص، فاتح عراق
۶۔ طلحہ بن عبید اللہ
۷۔ مقداد بن اسود ۔
۸۔ ابوذر غفاری ۔
۹۔ سلمان فارسی
۱۰۔ عمار یاسر
۱۱۔ براء بن عازب انصاری
۱۲۔ ابی بن کعب انصاری
۱۳۔ فضل بن عباس، پیغمبر کے چچیرے بھائی
۱۴۔ ابو سفیان بن حرب اموی ۔
۱۵۔ خالد بن سعید اموی ۔
۱۶۔ ابان بن سعید اموی ۔
۱۷۔ سعد بن عبادہ انصاری
۱۸۔مالک بن نویرہ
یہ اٹھارہ شخصیتیںوہ ہیں ، جنہوں نے تاریخ کے مطابق ابو بکر کی بیعت سے مخالفت کی ، ان کے علاوہ بنی ہاشم کے تمام افراد کے بارے میں بھی مؤرخین نے صراحت سے کہا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ زہراء کی زندگی میں انہوں نے ابو بکر کی بیعت نہیں کی ۔
کیا اسلام کی ایسی شخصیتوں کو سیف کے کہنے کے مطابق ( نعوذ باللہ ) مرتد کہا جاسکتا ہے ؟!
اصحاب رسول میں سے یہ افراد سب کے سب مدینہ میں موجود تھے ،لیکن مدینہ سے باہر رہنے والے جن افراد نے ابو بکر کی بیعت سے مخالفت کی ، ان میں سے بعض افراد ابو بکر کی مخالفت کی راہ میں قتل کئے گئے ، جیسے : مالک بن نویرہ و غیرہ جن کو سیف نے صراحتاً مرتد قرار دیا ہے اور ان کے ساتھ ابو بکر کی جنگ کو مرتدوں سے جنگ کا نام دیا ہے اور ان جنگوں کو بھی حقیقت کے برعکس دکھایا ہے ، انشاء اللہ ہم خدا کے مدد سے آنے والی جلد میں ان میں سے بعض کی تحقیق کریں گے ۔

آغاز کی طرف بازگشت
آخر میں ہم ابتدائی بات کی طرف لوٹتے ہیں ، ہماری نظر میں ان صفحات کی گنجائش کے مطابق سیف کی حقیقت واضح ہوگئی ہم نے دیکھا کہ سیف نے کس طرح تاریخ اسلام کو اپنے خائن ہاتھوں کا کھلونا بنایا ہے اور اپنے مضحکہ خیز افسانوں کو مسلمانوں ،غیر مسلمانوں او رمستشرقین میں رائج کردیا ہے او راس کے افسانوں کے سورما حضرات، اصحاب اور اسلام کی شخصیات کے طور پر معرفی ہوئے ہیں ۔
کیا ابھی بھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہم خود غرضوں کو چھوڑ کر ، اسلام کے دامن کو جھوٹ اور حقیقت سے عاری روایتوں کوپاک کریں اور بحث و تحقیق کے ذریعہ پیغمبر اسلام ، آپ کے خاندان اور اصحاب کی زندگی کو حقیقت کے روپ میں پیش کریں ، اور نتیجہ کے طور پر حقیقی اسلام کو موجودہ اور آئندہ نسل کیلئے متعارف کرائیں؟
یا ہمارا مزاج ان مضحکہ خیز افسانوں کا عادی بن گیا ہے کہ اسلام کے دفاع کے نام پر ان افسانوں اور افسانہ سازوں کا دفاع کرکے اسلامی حقائق کو منتشر کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ایجاد کرتے ہیں؟