حضرت ابوبکر کی حکومت کے خلاف ابو سفیان کی بغاوت
ولیس لھا الا اٴبالحسن علیّ
” ابو الحسن علی کے علاوہ کوئی خلافت کا مستحق نہیںہے “
ابو سفیان
ابو سفیان کا نام صخر بن حر ب بن امیة بن عبد الشمس بن عبد مناف تھا، اس نے رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے اس وقت تک جنگ کی جب رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے مکہ کو فتح کرکے قریش کو واضح شکست دیدی ، اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا عباس کی شفاعت پر ابو سفیان کو معاف کرکے اس کا احترام کیا اور اپنی وفا ت سے پہلے اسے کسی ماٴموریت پر بھیجا ۔ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے وقت ابو سفیان مدینہ میں موجود نہیں تھا۱وہ سفر سے واپس آرہا تھا راستے میں مدینہ سے آنے والے ایک شخص سے ملاقات ہوگئی تو اس سے پوچھا : کیا محمد نے وفات پائی ہے ؟
۱۔ استیعاب ج ۲/ ۱۸۱ ، اصابہ ج۲/ ۱۷۲ ، اور اس سفر سے واپس آنے کی تفصیلات کو العقد الفرید ج۳ /۶۲ اور ابو بکر جوہری بہ روایت ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ ۲/۱۳۰ سے نقل کیا ہے ۔
اس شخص نے جواب دیا : جی ہاں ۔
اس نے پوچھا : ان کا جانشین کون بنا؟
اس نے کہا: ابو بکر
ابو سفیان نے پوچھا: علی علیہ السلام و عباس ، ان دو مظلوموں نے کیا رد عمل دکھایا؟
کہا : وہ خانہ نشین ہوگئے ۔
ابو سفیان نے کہا: خدا کی قسم ! اگر میں ان کیلئے زندہ رہا تو انھیں عروج تک پہنچادوں گا، اور کہا: معاشرے کے ماحول میں ایک گرد و غبار کو دیکھ رہا ہوں ،کہ خون کی بارش کے علاوہ کوئی چیز اسے دور نہیں کرسکتی ، اس لئے جب مدینہ میں داخل ہوا تو مدینہ کی گلیوں میں قدم بڑھاتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہا تھا:
بنی ہاشم لا تطمعوا الناس فیکم
و لا سیّما تیم بن مرّة اوعدی
فما الامر إلا فیکم و الیکم
و لیس لھا إلا ابوحسن علیّ
ترجمہ :
” اے ہاشم کی بیٹو! لالچ سے لوگوں پر حکومت کرنے کی راہ کو بند کرو، خاص کر دو قبیلوں تیم بن مرہ و عدی پر ( تیم قبیلہٴ ابو بکر اور عدی قبیلہ عمر تھا ) یہ حکومت ھمارے ہاتھ سے نکل چکی ہے اور آخرکار تمہاری طرف لوٹنی چاہیے اور علی کے علاوہ کوئی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کا سزاوار نہیں ہے ۔
یعقوبی نے ان دو اشعار کے علاوہ مندرجہ ذیل دو شعر کا بھی اضافہ کیا ہے :
ابا حسن فاشدد بھا کف حازم فانک بالامر الذی یرتجی ملی
و ان امرء اً یرمی قصّی وراء ہ عزیز الحمی و الناس من غالب قصیّ ۱
طبری کی روایت کے مطابق ابو سفیان آگے بڑھتے ہوئے کہتا تھا :
خدا کی قسم ! فضا میں ایک گرد و غبار کو دیکھ رہا ہوں کہ خون کے علاوہ کوئی چیز اسے زائل نہیں کرسکتی ۔ اے عبد مناف کے فرزندو! ابو بکر کا آپ کے ساتھ کیا واسطہ ہے ؟!
یہ دو مظلوم اور خوار ہوئے علی اور عباس کہاں ہیں ؟ ! اس کے بعد کہا: اے ابو الحسن اپنے ہاتھ کو آگے بڑھاؤ تا کہ میں تیری بیعت کروں ، علی نے پرہیز کیا اور اسے قبول نہیں کیا تو ابو سفیان نے درج ذیل عاجزان اشعار پڑھے
ان الھوان حمار الاھل یعرفہ
و الجُرّ ینکرہ و الرسلة الاٴُجُدُ
و لا یُقیمُ علی ضیم یراد بہ
الا الاذلاّن عیر الحیّ و الوتد
ھذا علی الخسف معکوس برمتہ
و ذا یشج فلا یبکی لہ احداً۲
ترجمہ :
پالتو گدھا تن بہ خواری دیتا ہے نہ آزاد اور طاقتور !، پستی و خواری کے مقابلہ میں کوئی چیز طاقت و بردباری نہیں رکھتی ، بجز دو چیزوں کے کہ بالاخر دونوںچیزیں ننگ و عارہیں ، ایک خیمہ کی میخ کہ ہمیشہ
-------
۱۔ تاریخ یعقوبی ج ۲/ ۱۰۵ ، موفقیات میں روئیداد کو مصفل تر نقل کیا گیا ہے ، ملاحظہ ہو شرح نہج البلاغہ ج ۶/ ۷۔
۲۔ ابو بکر جوہری کی سقیفہ میں بیاں کی گئی روایت بھی تقریباً اسی معنی میں ہے ۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ ج۲/ ۱۳۰ ، طبع مصر۔
اسکے سر پر ہتھوڑا مارا جاتا ہے اور قبیلہٴ کے اونٹ جو مسلسل عذاب میں ہوتے ہیں اور کوئی ان کی حالت پر رحم نہیں کھاتا
” اے آل عبد مناف“! کا نعرہ ان دنوں ابو سفیان کے امویوں کے زبان زد تھا اور معاشرے کی فضا اس نعرے سے گونج رہی تھی کہ تاریخ میں تغیر پیدا کریں لیکن ابو سفیان کی بیعت کو قبول کرنے سے علی علیہ السلام کے انکار نے اسے ناکام بنا دیا ۔
ابو سفیان کی یہ حمایت اور علی علیہ السلام کا انکار بہت تعجب آور ہے !!!!
ابو سفیان وہ شخص تھا جس نے حتی الامکان پوری طاقت کے ساتھ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی اور مجبور ہوکر اسلام قبول کرنے تک مقابلہ اور جنگ سے پرہیز نہیں کیا ، آج کیا ہوا ہے کہ وہ اپنے دیرینہ دشمن اور چچا زاد بھائی کیلئے اس طرح کی قربانی دے رہا ہے ؟ کیا ابو سفیان واقعی طور پر علی علیہ السلام کا یار و مدد گار تھا ؟ یا یہ کہ اس کا مقصد اور غرض فتنہ و شورش ایجاد کرنا تھا ؟
اس سے بھی دلچسپ تر علی علیہ السلام کا کام ہے ، علی علیہ السلام جو چھ ماہ تک ابو بکر کی بیعت کرنے سے انکار کرتے رہے ، او رمہاجر و انصار کو اپنے گھر دعوت کرتے اور ان سے مدد طلب کرتے تھے حتیٰ اپنے اور اپنے گھر والوں کے جلدئے جانے کی دھمکی سے دوچارہوئے آخر اس میں کیا راز تھا کہ قریش کے دو بزرگ ہستیوں عباس اور ابو سفیان کی طرف سے بیعت کرنے کی پیشکش کو ٹھکرادیا !! اور بیگانوں سے بیعت کی درخواست کی ؟! یہ انتہائی دلچسپ اور تعجب آور بات ہے !
لیکن یہ تعجب اور حیرت کا مقام اسی وقت دور ہوسکتا ہے جب ہم دونوں ( علی اور ابوسفیان ) کے مقاصد کی چانچ پڑتال کریں ۔
اولاً ، ابو سفیان ، رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم اور لوگوں میں آپ کی حیثیت کو صرف مادی اور دنیوی نگاہ سے دیکھتا تھا اور خیال کرتا تھا کہ یہ جو سرداری رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو ملی ہے یہ وہی سرداری ہے جسے آپ کے اسلاف نے ابو سفیان سے لے لی تھی ،اس بناپر ابوسفیان پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ اسی موروثی سرداری کے سبب جنگ کررہا تھا اور اس دوران جس چیز کو وہ حساب میں نہیں لاتا تھا ، وہ دین مقدس الٰہی تھا ۔ ابو سفیان رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے دین کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کامیابی اور اپنی موروثی سرداری کو کھو جانے کا ایک اصلی اور بنیادی سبب جانتا تھا اسی وجہ سے جس دن رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے مکہ کو فتح کیا ، ابو سفیان ، جس نے تازہ اسلام قبول کیا تھا اسکی شان و شوکت اور اسلامی فوج کا جاہ و جلال دیکھ کر عباس سے مخاطب ہوکر کہا: ” اے ابو الفضل ! خدا کی قسم تیرے بھتیجے نے آج ایک طاقتور بادشاھت کی باگ ڈور ہاتھ میں لے لی ہے ’‘ عباس نے اسے جواب دیا : اے ابو سفیاں ! یہ جو دیکھتے ہو ، وہ نبوت ہے نہ کہ بادشاھت ، ابو سفیان نے کہا: ایسا ہی ہوگا ۱
اس قسم کا شخص ، جو اپنی قوم کا سردار تھا اور شکست کھا کر سردار ی کو کھو بیٹھا تھا ، اور اب یہ سرداری اس کے چچیرے بھائیوں کو مل رہی تھی ، اس بات پر راضی نہ تھا کہ یہ سرداری اس کے چچیرے بھائیوں
-----------
۱۔ سیرہ ابن ہشام ج ۴/ ۲۳
سے بھی چھین کر بیگانوں کو دیدی جائے۔
اس مطلب کو سمجھنے کیلئے ہمیں قبل از اسلام جاہلیت میں قبیلوں کے درمیان مکمل طور پر حکم فرما خاندانی تعصبات کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے ، اس جاہلانہ تعصب کو جڑ سے اکھاڑنے کے بارے میں اسلام کی عظیم جدو جہد سو فیصد کامیاب نہیں ہوئی تھی، برادری اور دوستی کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے سلسلے میں رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی کوششیں مکمل نتیجہ تک نہیں پہنچی تھیں رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی تمام تر تلاش و کوششوں کے باوجود بھی تعصب کی آگ کے شعلے کم و بیش وقفے کے بعد بھڑکتے تھے ۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی زندگی کے حالات کا مطالعہ اور تحقیق کرنے سے یہ مطلب مکمل طورپر واضح ہوجاتا ہے یہ تعصب عبد مناف کی اولاد میں تھا ۔۔۔جس کے ہاتھ میں قریش کی سرداری تھی --۔۔۔دوسروں سے کم تر نہ تھا۔
ابن ہشام نے عبا س سے روایت کی ہے کہ فتح مکہ کی شب عباس پیغمبر اسلام کے خچر پر سوار ہوکر باہر آئے اور تجسس کرنے لگے تا کہ کسی کا سراغ لگائیں اور اس کے ذریعہ قریش کو پیغام بھیجیں کہ وہ جلدی ہی اسلام کے سپاہیوں کے حملہ سے دوچار ہوں گے ، اس لئے مصلحت یہی ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور آکر امان چاہیں ، عباس نے راستے میں ابو سفیان کو دیکھا جو مکہ سے باہرآیا تھا تا کہ پیغمبر اسلام کے بارے میں کوئی خبر حاصل کرے ۔ عباس نے ابو سفیان سے کہا: اچھا ہو اکہ میں نے تجھے دیکھ لیا ، خدا کی قسم اگر اسلام کے سپاہی تجھے پاجائیں گے تو تیرا سر قلم کرے کردیں گے اس کے بعد ابوسفیان کو اپنے ساتھ خچر پر سوارکرکے رسول خد ا کے حضور لے جانے کیلئے آگے بڑھا تا کہ اس کیلئے امان حاصل کرے ، اسلام کے سپاہیوں نے رات کے اندھیرے میں ٹولیوں کی صورت میں بیٹھ کر آگ جلا دی تھی تا کہ اس سے ایک تو قریش خوفزدہ ہوجائیں اور اس کے علاوہ اس آگ کی روشنی دشمن کے احتمالی خطرہ کو رفع کرسکے ۔ مسلمان، عباس کو ان کے پاس سے گزرتے دیکھ کر ایک دوسرے سے کہتے تھے ، یہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے چچا ہیں جو رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے مرکب پر سوار ہوئے ہیں ۱
عباس ، عمر کے نزدیک سے گزرے، جب عمر کی نظر ابوسفیان پر پڑی تو اس نے فریاد بلند کی : اے دشمن خدا! خدا کا شکر ہے جس نے تجھے بغیر اس کے کہ ہم تعرض کا کوئی عہد وپیمان تجھ سے باندھیں ہمارے جال میں پھنسا دیا اس کے بعد تیزی کے ساتھ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی طرف روانہ ہو ئے تا کہ آپ کو ابو سفیان کی گرفتاری کی خبر دےں اور ان سے قتل کرنے کی اجازت حاصل کرےں ۔
عباس نے جب یہ حالت دیکھی تو خچر کو چابک لگاکے عمر سے آگے بڑھ گئے۔
عباس کہتے ہیں : میں خچر سے جلدی نیچے اترا اور رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے حضور پہنچا، بلافاصلہ عمر بھی اسی دم آپہو بچے اور کہا: یا رسول اللہ ! یہ ابوسفیان ہے کہ کسی قید و شرط کے بغیر پکڑا گیا ہے ، اجازت د یجئے تا کہ اس کا سر قلم کروں ، میں نے کہا: اے رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم میں نے ابو سفیان کو پناہ دیدی ہے اور وہ میری پناہ میں ہے ؛ لہذا میں رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا ، چونکہ عمر اپنے کام میں اصرار کررہے تھے، اس لئے میں نے اس سے مخاطب ہوکر کہا؛
۱۔ پیغمبر اسلام کے چچا کی شخصیت اور ابوسفیان کا عباس کے ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مرکب پر سوار ہونا اسلام کے سپاہیوں کے نزدیک ابو سفیان کیلئے ایک قسم کا امان نامہ تھا ور ابوسفیان کی توہین میں رکاوٹ بنا تھا )
خاموش ہوجاؤ اے عمر ! خدا کی قسم اگر ابو سفیان قبیلہٴ عدی بن کعب کا ایک فرد ہوتا۱تو اس کے بارے میں تم اس قدر زبان درازی نہ کرتے ، لیکن چونکہ جانتے ہو کہ وہ بنی عبد مناف ۲سے تعلق رکھتا ہے اس لئے یہ گستاخی کررہے ہو ۳
اس زمانے کے لوگوں کے خاندانی تعصب کا اندازہ لگانے کیلئے یہی ایک مثال کافی ہے ، بالکل واضح ہے کہ عباس اور عمر کو مشتعل کرنے کا تنہا سبب یہی خاندانی تعصب تھا اور کچھ نہیں ، یہی سبب تھا جس نے رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ابو سفیان کو تحت تاثیر قرار دیا اور چلا کر کہتا رہا: اے آل عبد مناف ! ابو بکر کو آپ کے کام ( یعنی سرداری ) سے کیا تعلق ہے ؟!! ۴
اور بعض اوقات کہتا تھا : ہمیں ابو فصیل کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ !۵
یہ کام ( یعنی خلافت ) عبد مناف کی اولاد سے متعلق ہے ۶
یہ مطلب کہ سرداری قبیلہٴ عبد مناف سے متعلق ہے ، اس روز خاندان قریش کے تمام افراد کیلئے واضح تھا ۔ لہذا مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ جب ابو بکر کے باپ ابو قحافہ نے رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی رحلت
-----------
۱۔ عدی بن کعب عمر کا قبیلہ ہے ۔
۲۔ بنی امیہ اور بنی ہاشم دونوں خاندان عبد مناف سے تھے۔
۳۔ ابن ہشام ج ۴/ ۲۱ سے خلاصہ کے طور پر نقل ہوا ہے ۔
۴۔ طبری ج ۲/ ۴۴۹۔
۵۔ ” ابو فصیل “ ابو بکر کی طرف کنایہ ہے کہ عربی زبان میں بکر کا ایک معنی جوان اونٹ ہے اس کے دوسری معنی بھی ہیں ”فصیل “ اونٹ کے اس بچے یا بچھڑے کو کہتے ہیں جو ماں سے جدا ہوا ہو ابو سفیان نے اس مناسبت سے ابو بکر کو ” ابو فصیل“ کہا ہے
۶۔ طبری ج ۲/ ۴۴۹۔
کی خبر سنی تو سوال کیا : آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے بعد حکومت کی باگ ڈور کو کس نے سنبھالا ؟ خبردینے والے نے کہا؛ تیرے بیٹے ابو بکر نے ۔
اس نے سوال کیا ؛ کیا عبد مناف کی اولاد اس کی حکمرانی پر راضی تھی ؟
مخبر نے کہا : جی ہاں!
ابو قحافہ نے کہا جو چیز خداوند متعا ل کسی کو عطا کرے ، کوئی بھی چیزاس میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۱
لہذا ابو سفیان ، یعنی وہی شخص جو کل اپنے چچیرے بھائی ، رسول سے جنگ و مقابلہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتا تھا ، علی علیہ السلام کے حق میں نعرے لگا کر کہتا تھا : خدا کی قسم اگر موت مجھے فرصت دیدے تو عباس و علی کو عروج تک پہنچادوں گا ۲اس کی اس بات کا سرچشمہ خاندانی تعصب تھا اور خاندانی فخر و مباہات کے علاوہ ہرگز کوئی اور مقصد نہیں رکھتا تھا!
معروف عربی ضرب المثل ہے ٖ: ” انا علیّ اخی ، و انا و اخی علی بن عمی و انا و اخی و بن عمی علی الغریب “ یعنی ، میں اپنے بھائی سے دشمنی کرتا ہوں لیکن چچیرے بھائی کے خلاف اپنے بھائی کی حمایت کرتا ہوں اور اگر لڑنے والا اجنبی ہو تو اپنے بھائی اور چچیرے بھائی سے اتفاق و یکجہتی کرکے اجنبی کے خلاف لڑتا ہوں ، کیونکہ اجنبی کے حملہ کے وقت تمام خاندان والوں کو متحد ہوکر دفاع کرنا چاہئے ۔
---------
۱۔ انساب الاشراف بلاذری ج ۱/ ۵۸۹، شرح نہج البلاغہ ج ۱/ ۵۲ ، عبارت دوسرے مآخذ سے نقل کی گئی ہے ۔
۲۔ العقد الفرید ج۳/ ۶۰۔
اس لحاظ سے ضروری تھا کہ اس روز ابو سفیان اپنے چچا زاد بھائی علی علیہ السلام کے حق میں ابو بکر کے خلاف دفاع کرے ، کیونکہ ابو سفیان اور علی علیہ السلام دونوں عبد مناف کی اولاد تھے ، لیکن اس کے مقابلہ میں ابوبکر اجنبی تھا۔
اس لئے اس دن ابو سفیان نعرہ بلند کررہا تھا ، یا آل عبد مناف! حق تھا ابو سفیان کا یہ نعرہ تاریخ کے رخ کو بدل کے رکھدے ، کیونکہ قریش کی سرداری ہمیشہ خاندان عبد مناف کے ہاتھوں میں رہی تھی، قبیلہٴ عبد مناف کے دو خاندانوں ( بنی ہاشم و بنی امیہ ) کے درمیان سرداری پر ہمیشہ سے کشمکش ہونے کے باوجود ، اس وقت ان کے خاندان کے ہاتھ سے سرداری اور افتخار کے چلے جانے کا خطرہ تھا، ا س لئے عبد مناف کی اولاد سے منشعب ۱ تمام قبیلے ایک صف میں قرار پاتے تھے اگر ان قبیلوں کے بے شمار افراد اپنے چچیرے بھائیوں کے ھمراہ(جو قبائل قصی سے تھے )متحد ہوتے ، تو ایک ایسی طاقتور پارٹی تشکیل پاتی اور ابو سفیان کو یہ کہنے کا حق تھا کہ : جس شخص کی حمایت قبیلہٴ قصی ( اس میں قبیلہٴ عبد مناف ہے ) کرتا ہو ، وہ بے شک طاقتور اور کامیاب ہے ۔
اور یہ شخص وہی علی ابن ابیطالب تھے ، ابو بکر جیسے شخص کے مقابلہ میں جو قبیلہٴ تیم بن مرة سے تعلق رکھتے تھے کہ جو کبھی مقابلہ نہیں کرسکتا تھا ، کیونکہ جیساکہ ابو سفیان نے قبیلہٴ تیم کو قریش کے ایک چھوٹے اور کمزور قبیلہ کے طور پر معرفی کرائی ہے نہ ان کی تعداد زیادہ تھی اور نہ ان میں قابل توجہ کوئی
۱۔ قبیلہٴ ہاشم ، نوفل ، مطلب و عبد شمس سے کہ صرف عبد شمس قبائل عبلات سے تھا اور ربیعہ ، عبد العزی ، جیبہ اور امیہ و بھی مختلف خاندانوں میں منشعب ہوا تھا انہیں میں ایک ابو سفیان کے باپ حرب کا گھرانہ ہے۔
شخصیت تھی ویسا ہی قبیلہ عدی بھی تھا جس سے عمر تعلق رکھتے تھے ۔
ان دو خاندانوں میں سے ایک بھی قریش کے شریف اور بزرگ قبیلہٴ قصی سے نہیں تھا ، قبیلہٴ قصی سے عبد مناف تھے ، یہی قبیلہ علی علیہ السلام کی طرفداری اور حمایت کرتا تھا نہ ابو بکر کی ۔
اسی بنا پر ابوسفیان کی بغاوت خصوصاً بعض اوقات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس کا بھی اس کاساتھ دینا اور اس کی حمایت کرنا، ایسی موثر کاروائی تھی کہ تمام سازشوں کو ناکام بنا کررکھدیتی اور اس زمانے میں مختلف گروہوں کے درمیان جنگ و پیکار کا سرچشمہ خاندانی تعصب تھا اور اس خاندانی تعصب سے اجتناب ممکن بھی نہیں تھا۔
اس زمانے کے تمام تاریخی حوادث تعصب کے محور کے گرد چکر لگاتے ہیں ، صرف علی اس طریقہ کار کے مخالف تھے اور اسی وجہ سے بہ ظاہر ناکام رہے ۔
اصولی طور پر رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد خاندانی تعصب اپنے عروج پر پہنچا تھا ، انصار کا سقیفہ میں جمع ہونا اور سعد کی بیعت کرنے کا اقدام صرف تعصب کی بنیاد پر تھا ورنہ وہ خود جانتے تھے کہ مہاجرین میں ایسے افراد موجود ہیں جو سعد سے بہت زیادہ فاضل تر اور پرہیزگار تھے ، اسی طرح ان کی ابو بکر کے ساتھ بیعت کرنے میں خاندانی تعصب کے علاوہ اور کوئی بنیاد نہیں تھی وہ اس طرح چاہتے تھے کہ سرداری خاندان خزرج میں نہ چلی جائے ،کیونکہ ان دو قبیلوں اوس و خزرج کے درمیان زمانہ جاہلیت میں مسلسل خونین جنگیں رونماہوتی رہی تھیں ۔
سقیفہ میں ابو بکر عمر کی تقریر سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ان کی پارٹی کے افراد کس حد تک خاندانی تعصب اورجذبات کے زیر اثر تھے اور کس حد تک ان جذبات اور خاندانی تعصب سے انہوں نے اپنی پارٹی کے مفاد میں فائدہ اٹھایا ۔
ابو سفیان بھی انہی جذبات سے متاٴثر ہوا تھا اور علی علیہ السلام کے حق میں اس طاقت سے فائدہ اٹھانے میں اپنے مخالفوں کے مقابلہ میں کمزور نہیں تھا وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح تعصب کے پنچے میں پھنس گیا تھا صرف علی علیہ السلام کی ذات تھی جس کا طرزتفکر ان چیزوں سے الگ تھا کہ حکومت کی باگ ڈور کو تعصب کی طاقت سے حاصل کریں چونکہ آپ برسوں تک پیغمبر اسلام کے شانہ بہ شانہ خاندانی اور قومی تعصبات کو نابود کرنے کیلئے مسلسل جہاد کرچکے تھے ۱
اگر علی علیہ السلام اپنے لئے حق حاکمیت کا مطالبہ کرتے تھے ، تووہ اسلئے تھا کہ ایک ایسی حکومت قائم کریں جس کی بنیاد قرآن اور دین کے حکم کے علاوہ کسی اور چیز پر نہ ہو ، علی علیہ السلام چاہتے تھے ، سلمان ، ابوذر اور عمار جیسے صحابی ان کی حمایت کریںتاکہ ان کی حمایت میں عقیدہٴ الہی کے سوا کوئی اور بنیاد اور سبب نہ ہو، نہ ابو سفیان جیسوں کی حمایت جس کی حمایت کا سبب دنیاوی امور اور خاندانی تعصب کے علاوہ کوئی اور چیز نہ تھی “
ہماری گفتگو کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر چہ ابو سفیان حضرت علی علیہ السلام کی نسبت اظہار تعصب کرنے میں دینی محرک نہیں رکھتا تھا لیکن پھر بھی خاندانی تعصب کے اثر میں حقیقی معنوں میںعلی علیہ السلام کا حامی تھا ، لیکن تاریخ کے ظالم ہاتھوں نے جب دیکھا کہ ابو سفیان نے ابو بکر کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا تو اس انقلاب کی حیثیت کو داغدار کرنے کیلئے ، تاریخ کے صفحات میں لکھ دیا کہ ابو سفیان ایک مہم جو اور شورش برپا کرنے والا شخص تھا ور اس بغاوت سے اس کا مقصد صرف فتنہ برپا کرکے معاشرے کے امن و سلامتی کو درہم برہم کرنا تھا ! اس کے علاوہ یہی تاریخی ظلم ان تمام افراد کے بارے میں روا رکھا گیا ہے جنہوں نے ابو بکر کی بیعت کرنے سے انکار کیا ، انھیں بلوائی شورشی اور مرتد کہا گیا ہے اس تہمت کو ابوسفیان کے بارے میں حقیقت سے زیادہ قریب کیلئے اس روایت کو حضرت علی علیہ السلام کی زبانی جعل کیا گیا ہے کہ جب ابو سفیان نے علی علیہ السلام سے کہاکہ : ”کیوں یہ کام قبیلہ قریش کے کم تر اور سب سے چھوٹے خاندان کو سونپا جائے ؟ خدا کی قسم اگر اجازت دو تو مدینہ کو سواروں اورپیادہ سے بھردونگا ، تو علی علیہ السلام نے ابو سفیان کے جواب میں فرمایا: ” اے ابو سفیان ! تم نے ایک طولانی عمر اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی میں گزاری ہے لیکن دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے ہو ، ہم نے اس کام کیلئے ابوبکر کو شائستہ اور لائق پایا ہے ۔!!“ ۱
اس روایت کی جانچ پڑتال میں بھی ہم اس روایت کی سند پر اعتراض کرتے ہیں ، کیوںکہ اس کا راوی دسیوں سال اس واقعہ کے بعدگذراہے ان روایتوں میں سے بعض کا راوی ابو عوانہ ہے کہ جو حدیث گڑھنے میں مشہور تھا اور اس کے بارے میں کہا گیا ہے :
کان عثمانیاً یضع الاخبار۲
---------
۱۔ طبری ج ۳/ ۲۰۲۔
۲۔ ابو عوانہ کے حالات ” لسان المیزان “ ج ۴/ ۳۸۴، الحضارة الاسلامیہ ادم متز ج ۱/ ۸۳ ، ابو عوانہ ۵۸ئھ میں فوت ہوا ۔ دوسری روایت کا راوی ” مرة “ ہے کہ اس کے بارے میں کہا گیا ہے : اس نے ابو بکر و عمر کو نہیں دیکھا ہے ، تہذیب التہذیب ج ۱۰/ ۸۹۔
اس کے علاوہ متن روایت کے بارے میں بھی ہمار ااعتراض ہے کہ اگر یہ روایت صحیح ہے تو معلوم نہیں ابو سفیان نے حضرت علی علیہ السلام کے جواب میں کیوں نہ کہا؛ اگر ابو بکر اس مقام کیلئے سزاوار ہے تو کیوں خود اس کی بیعت نہیں کرتے ہو؟۱
علی نے ہر گز نہیں فرمایا ہے کہ ”ہم نے اس کو اس کام کیلئے لائق پایا ‘ بلکہ آپ نے فرمایا ہے : اگر فولادی عزم والے چالیس آدمی ہماری نصرت کرتے تو ہم مقابلہ اور مبارزہ کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے ۲
اس بات میں ابو سفیان کی طرف کنایہ ہے کہ یعنی تم و یسے مرد نہیں ہو جیسا میں چاہتا ہوں ۔
حضرت علی علیہ السلام نے معاویہ کو لکھے گئے اپنے ایک خط میں ابو سفیان کی حمایت کے بارے میں یوں ذکر فرمایا ہے :
تیرا باپ ہمارے حق کو تجھ سے بہتر سمجھتا تھا ، اگر تم اسی قدر کہ تیرا باپ ہمارے حق کو جانتا تھا ، جانتے ، ، تو معلوم ہوتا کہ عقل و فکر کی پختگی کے مالک ہو۳
ابو سفیان جب حضرت علی علیہ السلام سے ناامید ہوا ، دوسری طرف سے حکام وقت بھی اسکی مخالفت سے ڈرتے تھے ، لہذاحضرت عمر ابوبکر کے پاس جاکر بولے: اس گھٹیا آدمی کے شر سے محفوط نہیں رہا جاسکتا ، رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم بھی ہمیشہ اس کی اس لئے دلجوئی فرماتے تھے ، جتنا بھی صدقہ اور بیت المال اس کے پاس ہے اسے بخش دو تا کہ خاموش رہے ۔
---------
۱۔ گزشتہ فصل کے عنوان ” ابو بکر کی بیعت کے بارے مں حضرت علی علیہ السلام کی پالیسی“ ملاحظہ ہو۔
۲۔ گزشتہ فصل کے عنوان ” ابو بکر بیعت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کی پالیسی“ ملاحظہ ہو۔ اس کے علاوہ معاویہ کاحضرت علی علیہ السلام کے نام خط ملاحظہ ہو ۔
۳۔ کتاب صفین نصر بن مزاہم ۴۹ ، العقد الفرید ج ۳/ ۱۳ ، شرح ابن ابی الحدید ج ۲/ ۲۲۱۔
ابو بکر نے ایسا ہی کیاتو ابو سفیان نے راضی ہوکر ابو بکر کی بیعت کرلی ۱
طبری کی روایت سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ ابو سفیان نے اس وقت تک ابو بکر کی بیعت نہیں کی جب تک اس نے اپنے بیٹے یزید بن ابو سفیان کو شام بھیجے جانے والے لشکر کی کمانڈری کا حکم حاصل نہیں کرلیا۲
اس سے پتا چلتا ہے کہ ابو سفیان حضرت علی علیہ السلام کی حمایت کرنے میں کس قدر دینی و الٰہی پہلوؤں کی رعایت کرتا تھا اور کس حد تک دنیوی اور مادی منافع کے پیچھے تھا !!
-------
۱۔ العقد الفرید ۳/ ۶۲۔
۲۔ طبری ج ۲/ ۴۴۹۔
|