ابو بکر کی بیعت کے بارے میں بزرگ اصحاب کے فیصلے
واعجباً لقریش ود فعھم ھذ الامر عن اھل بیت نبیّھم
تعجب کی بات ہے قریش نے خلافت کی باگ ڈور کو اہل بیت رسول سے چھین لیا !
مقداد ، پیغمبر اسلام کے نامور صحابی
لو بایعوا علیّاً لاٴکلوا من فوقھم و من تحت اٴرجلھم
مسلمان اگر علی علیہ السلام کی بیعت کرتے تو لافانی سعادت و سیادت کو پاتے اور زمین و آسمان کی برکتیں ان پر نازل ہوتیں ۔
سلمان محمدی
۱۔ فضل بن عباس
بنی ہاشم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن مبارک کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے کہ خبر پہنچی کہ سقیفہٴ بنی ساعدہ میں ابو بکر کےلئے بیعت لی جارہی ہے ۔
اس خبر کو سننے کے بعد بنی ہاشم کے رد عمل اور پالیسی کے بارے میں یعقوبی نے یوں لکھا ہے ۱
جب گھر سے باہر آئے تو فضل بن عباس اٹھے اور یوں بولے :
اے قریش کی جماعت ! دھوکہ دہی اور پردہ پوشی سے تم خلافت کے مالک نہیں بن سکتے ، خلافت کے مستحق ہم ہیں نہ کہ تم لوگ ، ہم اور ہمارے سردار علی علیہ السلام خلافت کےلئے آپ لوگوں سے سزاوار تر ہیں ۔
۲۔ عتبہ بن ابی لہب نے جب ابوبکر کی بیعت کی روداد سنی تو اس نے اعتراص کے طور پر یہ اشعار کہے:
ما کنت اٴحسب ھذ الامر منصرفا
عن ھاشم ثم منھا عن ابی الحسن
عن اول الناس ایماناً و سابقة
اعلم الناس بالقرآن و السنن
و آخر الناس عھداً بالنبیّ و من
جبرئیل عون لہ فی الغسل و الکفن
من فیہ ما فیھم لا یمترون بہ
و لیس فی القوم ما فیہ من حسن
ترجمہ:
” میں ہر گز یہ تصور نہیں کرتا تھا کہ خلافت کی باگ ڈور کو بنی ہاشم خاص کر ابو الحسن سے چھین لیاجائیگا ، کیونکہ ا بو الحسن وہی ہیں جو سب سے پہلے ایمان لائے اور اسلام میںا ن کے جیسا اچھا سابقہ کسی اور
----------
۱۔ تاریخ یعقوبی ج ۲/ ۱۰۳ روایة اھم وفقیات، شرح نہج البلاغہ ج ۶/ ۲۸۷ میں قضیہ کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے ۔
کو حاصل نہیں ہے وہ تمام لوگوں سے علوم قرآن و سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بار ے میں دانا تر ہیں او روہ تنہا شخص ہیں جو پیغمبر کی زندگی کے آخری لمحات تک آنحضرت کے ساتھ رہے حتی آپ کی تجہیز و تکفیں کو بھی انہوں نے جبرئیل کی مدد سے انجام دیا ، وہ دوسروں کے تمام نیک صفات اور روحانی فضائل کے اکیلے ہی مالکہیں لیکن دوسرے لوگ ان کے معنوی کمالات اور روحانی و اخلاقی خوبیوں سے محروم ہیں “
حضرت علی علیہ السلام نے کسی کو اس کے پاس بھیجا اور بات کو آگے بڑھانے سے روکا اور فرمایا
” ہم دین کی سلامتی کو تمام چیزوں سے عزیز رکھتے ہیں “ ۱
۳۔ عبد اللہ بن عباس ۲
ابن عباس کہتے ہیں:
ابوبکر کی بیعت کے بارے میں عمر نے مجھ سے کہا؛اے ابن عباس ! کیا یہ جانتے ہو کہ کونسی چیز اس امر کا سبب بنی کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد، لوگوں نے آپ لوگوں کی بیعت نہیں کی ؟ چونکہ میں اس کا جواب دینا نہیں چاہتا تھا ، ا سلئے میں نے کہا : اگر میں متوجہ نہیں ہوں تو امیرالمؤمنین مجھے آگاہ فرمائیں ۔
عمر نے کہا؛ وہ اس بات پر آمادہ نہ تھے کہ نبوت اور خلافت ایک ہی جگہ جمع ہوجائے اور ہر قسم کی عظمت و افتخار تمہارے خاندان کاطرہٴ امتیاز ہو، اس لئے قریش نے خلافت کو اپنے لئے منتخب کیا اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔
۱۔ شرح ابن ابی الحدید طبع مصر ج ۶ / ۸ ، ابن حجر نے اصابہ/ ۲۶۳ میں عباس بن عتبہ کے حالات کو تفصیل کے صمن میں نمبر ۴۵۰۸ ، ابو الفداء نے اپنے تاریخ ی ج ۱/ ۱۶۴ میں ان اشعاع کو پیغمبر کے چچا اور بھائی فضل بن عتبہ بن ابی اللھب سے نسبت دی ہے لیکن ایسا لگتا ہے یہ نسبت صحیح نہیں ہوگی ۔
میں نے کہا؛ اے امیر المؤمنین ! اگر جازت دیں اور مجھ سے ناراض نہ ہوں تو میں بھی کچھ کہوں،اس کے بعد کہا: کہو اے ابن عباس! ۱
میں نے کہا:
یہ جو آپ نے کہا کہ قریش خلافت کیلئے منتخب ہوئے وہ اس کے مستحق تھے اور اس میں کامیاب ہوئے اس سلسلہ میں کہنا چاہتا ہوں کہ اگر قریش اسی چیز پر منتخب ہوتے جو خدا نے ان کیلئے اختیار کیا تھا اگر اسے اپناتے تو نہ ان کا حق ضائع ہوتا اور نہ کوئی ان پر رشک کرتا، لیکنجو آپ نے کہا کہ وہ پسند نہیں کرتے تھے کہ نبو ت اور خلافت دونوں ہم میں جمع ہوجائے ، پس جان لو خداوند عالم قرآن مجید میں ایک جماعت کو اس صفت سے معرفی کرتا ہے اور فرماتا ہے :< ذلک بانھم کرھوا ما انزل اللهفاحبط اعمالھم >“
” چونکہ انہوں نے پیغمبر پر بھیجے گئے دستورات کو پسند نہیںکیا ، اس لئے خداوند عالم نے ان کے کردار کو قبول نہ کرتے ہوئے باطل کر ڈالا“
------------
۱۔ عبداللہ پیغمبر کے چچا عباس کے بیٹے تھے، اس وجہ سے ابن عباس کہتے تھے ابن عباس اور عمر کے درمیان اس گفتگو کو طبری نے ج ۳ میں سیرت عمر کے موضوع کے تحت لایا ہے اور ابن ابی الحدید نے ” للہ بلاد فلان “ کی تشریح میں ج ۲/ ص ۴۹ اورص۵۱ طبع ایران احمد بن ابی طاہر سے سند کے ذکر کے ساتھ نقل کیا ہے اور اس گفتگو میں واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ جس چیز نے عمر کو اس بات پر مجبور کیا تا کہ پیغمبر کی وصیت لکھنے میں رکاوٹ ڈالے یہ تھی وہ بخوبی جانتے تھے کہ وصیت علی علیہ السلام کے حق میں لکھی جائے گی ۔
عمر نے کہا: افسوس ! اے ابن عباس تمہارے بارے میں کچھ ایسی رپورٹیں مجھے ملی ہیں جن پر یقین نہیں آرہاتھا لیکن اب دیکھ رہا ہو ںکہ وہ رپوٹیں صحیح تھیں۔
میں نے کہا: کونسی رپورٹ آپ کو ملی ہے ؟ اگر میں نے حق کہا ہوگا تو اس سے میر ی حیثیت آپ کے سامنے متزلزل نہیں ہونی چاہئے اور اگر جھوٹ ہے تو مجھ جیسے پر حق بنتا ہے کہ جھوٹ کی تہمت اور باطل سے دور ہوجاؤں۔
عمر نے جواب دیا : رپورٹ ملی ہے کہ آپ نے کہا ہے کہ بنی ہاشم پر ظلم و ستم اور ان سے حسد کی وجہ سے خلافت چھین لی گئی ہے ۔
میں نے کہا: یہ جو کہتے ہو کہ میں نے کہا ہے کہ ظلم کیا گیا ہے یہ ہر عالم ا ور جاہلپر واضح ہے لیکن یہ جو کہتے ہو کہ رشک و حسد سے کام لیا گیا ہے ، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ،ا بلیس نے آدم پر رشک کیا اور ہم بھی آدم کے وہی فرزند ہیں جن سے رشک کیا گیا ہے ۔
۴۔ سلمان فارسی :
ابو بکر جوہری نے روایت کی ہے سلمان ، زبیر اور انصار، پیغمبر کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کرناچاہتے تھے جب ابو بکر نے لوگوں سے بیعت لے لی تو سلمان نے کہا: تھوڑی سی خیر و نیکی کو حاصل کرکے خیر و برکت کے معدن و منبع سے محرم ہوگئے“
اس دن ( سلمان ) کہتے تھے : ایک معمر انسان کو منتخب کرکے اپنے پیغمبر کے خاندان کو چھوڑدیا ہے ، اگر خلافت کو پیغمبر کے خاندان میں رہنے دیتے تو دو آدمی بھی آپس میںا ختلاف نہیں کرتے اور لوگ اس درخت کے میوؤں سے بیشتر مستفید ہوتے ۱
انساب الاشراف میں آیا ہے :
سلمان نے اپنی مادری زبان میں کہا: ” گرداز و ناگرداز“ تم لوگوں نے کیا لیکن کچھ نہیں کیا ، یعنی اگر خلافت کو غصب نہ کرتے تو بہتر تھا اور جو کام تم لوگوں نے انجام دیا وہ صحیح نہیں تھا ،بلکہ مزید اس میں اضافہ کیا، اگر مسلمان علی علیہ السلام کی بیعت کرتے تو خدا کی رحمتیں اور برکتیں ہر طرف سے ان پر نازل ہوتیں اور وہ ہر طرح کی سعادت و سیادت سے مالا مال ہوتے لو بایعوا علیاً لاکلوا من فوقھم و من تحت ارجلھم
۵۔ ام مسطح :
ابو بکر جوہری نے مزید کہا ہے :
جب ابو بکر کی بیعت سے علی علیہ السلام کے انکار کی گفتگو پر چہ میگوئیاں ہونے لگیں تو ابو بکر و عمر نے علی علیہ السلام کے بارے میں شدید رد عمل کا اظہار کیا ، ام مسطح بن اثاثہ نے اپنے گھر سے باہر نکل کر پیغمبر خدا کی قبر کے پاس آکر یہ اشعار پڑھے :
قد کان بعدک انباء و ھنبتة
لو کنت شاھدھا لم تکثر الخطب
انا فقدناک فقد الاٴرض و ابلھا
و اختلّ قومک فاشھدھم و لا تغب
-------
۱۔ ابو بکر جوہری ، سقیفہ بر وایت ابن ابی الحدید ج ۲/ ۱۳ ، ج ۶/ ۱۷۔
اے پیغمبر ! آپ کے بعد چہ میگوئیاں اور اہم حواد ث رونما ہوئے اگر آپ زندہ ہوتے تو ہرگز اس قدر پریشانیاں پیدا نہیں ہوتیں ، ایسے حوادث رونما ہوئے جیسے زمین باران سے محروم ہوجائے اور نمی اور طراوٹ نہ ملنے کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ، ہم آپ سے محروم ہوگئے اور لوگوں کے کام کا شتہ ٹوٹ گیا ، اے پیغمبر ! اس بات پر گواہ رہئے گا!“ ۱
۶۔ ابوذر
رسول اللہ نے جب رحلت فرمائی تو اس وقت ابوذر مدینہ میں موجود نہ تھے جب وہ مدینہ پہنچے تو اس وقت ابو بکر نے حکومت کی باگ ڈورسنبھالی تھی ، انھوں نے اس سلسلے میں کہا: تم لوگوں نے تھوڑی سی چیز کو حاصل کرکے اسی پر اکتفا کیا اور پیغمبر کے خاندان کوکھودیا اگر اس کا م کو اہل بیت رسول کے سپرد کرتے تو دو آدمی بھی آپ کے نقصان میں آپ سے مخالفت نہ کرتے ۔۲
۷۔ مقداد بن عمرو
یعقوبی نے عثمان کی بیعت کی، روداد بیان کرتے ہوئے، راوی سے روایت کی ہے :
’ مسجد النبی سے ایک دن میرا گزر ہو ا، میں نے ایک شخص کو دوز انو بیٹھے اس قدر حسرت بھری آہ بھرتے ہوئے دیکھا کہ گویا تمام عالم اس کی ملکیت تھی اور وہ
--------
۱۔ ام مسطح بن اثاثہ کا نام سلمی بنت ابو رہم ہے ، اس کی بات کو ابو بکر جوہری نے سقیفہ میں بنا بہ روایت ابن ابی الحدید ۲/ ۱۳۱ ۔ ۱۳۲ و ج ۶/ ۱۷ ذکر کیا ہے ۔
۲۔ ابو بکر جوہری نے کتاب سقیفہ میں ابن ابی الحدید شرح ، نہج البلاغہ ج ۶/ ص ۵ طبع مصر سے نقل کیا ہے ، تاریخ یعقوبی میں ابوذر کی تنقید کرتے ہوئے نقل کیا گیا ہے ۔
اسے کھو بیٹھا تھا اور کہہ رہا تھا ’ قریش کا کردار کس قدر تعجب آور ہے کہ مستحق سے کام چھین لیا گیا“ ۔
۸۔ بنی نجار کی ایک عورت
ابو بکر جوہری کہتے ہیں :
” جب ابو بکر کی بیعت کا کام مستحکم ہوگیا ، تو انہوں نے بیت المال سے ایک حصہ مہاجر و انصار کی عورتوں کیلئے معین کیا اور بنی عدی بن نجار کی ایک عورت کا حصہ زید بن ثابت کے ہاتھ سپرد کیا تا کہ اسے پہنچا دے، زید اس عورت کے پاس آئے اور اس کے حصہ کو اسے پیش کیا، عورت نے پوچھا ، یہ کیا ہے ؟
زید نے کہا؛ بیت المال کے ایک حصہ میں سے ہے جسے ابو بکر نے عورتوں میں تقسیم کیا ہے ۔ اس نے کہا؛ کیا تم میرے دین کو رشوت دیکر خریدنا چاہتے ہو ؟
خدا کی قسم ! ان سے کوئی چیز نہیں لوں گی اور یہ حصہ ابو بکرکو واپس دیدو ۱
------------
۱۔ ابو بکر جوہری کتاب سقیفہ میں ابن ابی الحدید کی شرح ج ۲ / ۱۳۳ طبع مصر میں ، طبقات ج ۲/ ۱۲۹ میں بھی اس داستان کو تقریباً اس مضمون سے نقل کیا گیا ہے ۔
۹۔ معاویہ کا نظریہ
معاویہ نے محمد بن ابو بکر کے نام لکھے گئے اپنے ایک خط میں یوں کہا ہے :
ہم اور تیرے باپ فرزند ابو طالب کی فضیلت اور برتری سے واقف تھے اور اپنے اوپر ان کے حق کو ضروری سمجھتے تھے ، جب خداوند عالم نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے جو کچھ اس کے پاس تھا اس پر عمل کیا اور ان سے کئے گئے عہد و پیمان کو پوراکیا اور اس کی دعوت کو واضح کرکے حجت کو تمام کیا اور اس کی روح کو قبض کرے اپنی طرف بلایا تو تمہارے باپ اور عمر پہلے اشخاص تھے جنہوں نے علی (علیہ السلام) کے حق کو غصب کیا اور ان کے ساتھ مخالفت کی ۔ ان دو آدمیوں نے پہلے سے مرتب کئے گئے منصوبہ کے تحت آپس میں ملی بھگت کرکے علی علیہ السلام سے اپنی بیعت کا مطالبہ کیا حضرت، علی (علیہ السلام) نے جب اجتناب اور انکار کیا تو انہوں نے نا مناسب اقدامات کئے اور ان کے خلاف خطرناک منصوبے مرتب کئے ، یہاں تک کہ علی علیہ السلام نے مجبور ہوکر ان کی بیعت کی اور ہتھیار ڈالدئے ، لیکن پھر بھی یہ دو شخص ہرگز انھیں اپنے کام میں شریک قرار نہیں دیتے تھے نیزانھیں آگاہ نہیں کرتے تھے ، یہاں تک کہ خداوند عالم نے ان دونوں کی روح قبض کرلی، اس بنا پر آج جس راہ پر ہم گامزن ہیں ، اگر وہ صحیح اورحقیقت پر مبنی ہے تو اس کی بنیاد تمہارے باپ نے ڈالی ہے اور ہم اس کے شریک ہیں اور اگر تیرے باپ ایسا نہ کرتے، تو ہم ہرگز فرزند ابو طالب کی مخالفت نہیںکرتے اور خلافت کی باگ ڈورانھیں سونپ دیتے ، لیکن تیرے باپ نے ہم سے پہلے ان کے بارے میں یہی کام انجام دیا اور ہم نے بھی تیرے باپ کے ہی مانند ان سے برتاؤ کیا ، اب تم یا اپنے باپ کی عیب جوئی کرویا ہمیں سرزنش اور ملامت کرنا چھوڑدو ، خداوند عالم توبہ کرنے والوں پر درود بھیجے ۱
۱۰ ۔ خالد بن سعیداموی
خالد بن سعید بن عاص ان افراد میں سے تھا جنہوں نے مسلمان ہونے میں سبقت حاصل کی تھی ، وہ تیسرا یا چوتھا یا پانچواں شخص تھا جس نے اسلام قبول کیا ہے ابن قتیبہ ’ ’ المعارف “ کے صفحہ نمبر ۱۲۸ پر لکھتا ہے : ” خالد ابو بکرسے پہلے اسلام لایا تھا “
خالد ان افراد میںسے تھا جنہوں نے حبشہ ہجرت کی تھی اسلام کے مضبوط اور مستحکم ہونے کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اس کے دو بھائیوں ابان و عمرو کے ہمراہ قبیلہٴ ’ ’ مذحج“ سے زکات وصول کرنے پر ماٴمور فرمایا تھا ، اس کے بعد وہ یمن کے شہر صنعا میں آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا ماٴمور مقرر ہوا ، جب رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے رحلت فرمائی تو خالد اپنے دو بھائیوں کے ہمراہ ماٴموریت کی جگہ سے مدینہ کی طرف واپس آیا ۔ ابو بکر نے ان سے پوچھا تم لوگ کیوں اپنی ماٴموریت کی جگہ کو چھوڑ کر آئے ہو ؟ اس کے علاوہ حکمرانی کیلئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منتخب کردہ افراد سے سزاوار تر کوئی نہیں ہے ، اپنی جگہ جاکر اپنا فریضہ انجام دینے میں مشغول ہوجاؤ ، انہوں نے جواب میںکہا؛ ہم عبدا للہ کے بیٹے رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی اور کی نوکری کرنا نہیں چاہتے ۲
----------
۱۔ مروج الذہب مسعودی ج ۲/ ۶۰ ، نصر بن مزاحم کی صفین ص ۱۳۵ طبع قاہرہ ۱۳۶۵ ئھ اور شرح ابن ابی الحدید ، نہج البلاغہ ج ۲/ ۶۵ ، اس نے بھی تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے اور ج ۱/ ۲۸۴ ۹۔
۲۔ استیعاب ج ۱/۳۹۸، اصابہ ج ۱/ ۴۰۶ ، اسدا لغابہ ج ۲/ ۹۲ ، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ ج ۶/ ۱۳ ۔
خالد اور اس کے بھائیوں نے ابوبکر کی بیعت کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا ۔ خالد نے بنی ہاشم سے کہا ؛ آپ خاندان بنی ہاشم قد آور درخت کے مانند ہیںاور ہم بھی آپ کے تابعدار ہیں۱
خالد نے دو ماہ تک ابو بکر کی بیعت نہیں کی اور کہتا تھا ، ہمیں رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے صنعا کا ماٴمور مقرر فرمایا اور اپنی وفات تک ہمیں معزول نہیں کیا ۔
خالد نے ایک دن علی ابن ابیطالب اور عثمان سے ملاقات کی اور انھیں کہا: اے عبد مناف کے فرزندو ! آپ نے اپنے کام سے ہاتھ کھینچ لیا تا کہ دوسرا اس پر قابض ہوجائے ۔ ابو بکر نے اس کی بات پر کوئی توجہ نہیں کی ، لیکن عمر نے اسے اپنے دل میں رکھا ۲
اس کے بعد خالد نے علی علیہ السلام کے پاس آکر ان سے کہا آگے بڑھئے ! میں آپ کی بیعت کرتا ہوں، خدا کی قسم لوگوں میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانشینی کیلئے آپ سے سزاوار تر کوئی نہیں ہے ۳لیکن جب بنی ہاشم نے ابو بکر کی بیعت کی تو خالد نے بھی ان کی بیعت ۴کا کام مکمل ہونے کے بعد جب ابو بکر لشکر اسلام کو شام کی جانب روانہ کررہے تھے ، سب سے پہلے جسے لشکر کی ایک چوتھائی کی کمانڈ سونپی گئی وہ خالد بن سعید تھا ، لیکن عمر اس کے مخالف تھے اور کہتے تھے کہ کیا ایسے شخص کو سپہ سالار بنا رہے ہیں کہ جس نے جونہ کرنا تھا کیا اور جو نہیں کہنا تھا کہہ دیا ؟ اور عمر نے اپنی مخالفت جاری رکھی اور
----------
۱۔ استیعاب ۱/ ۲۹۸ ، اصابہ ۱/ ۴۰۶ ، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ ج ۶/ ۱۳
۲۔ اسد الغابہ ج ۲/ ۹۲ ، ابن ابی الحدید ، شرح نہج البلاغہ ج ۲/ ۱۳۵
۳۔ طبری ج ۲/ ۵۸۶ ، تہذیب التہذیب ابن عساکر ج ۵/ ۴۸ ، انساب الاشراف ج۱/ ۵۸۸،
۴۔ تاریخ یعقوبی ج ۲/ ۱۰۵
خاموش نہیں بیٹھے جب تک خالد کو اس عہدے سے معزول نہیںکرلیا پھرسپہ سالاری کا حکم یزید بن ابی سفیان کے نام جاری کیا گیا ۱خالد کو اپنے معزول ہونے پر کوئی پروا نہ تھی کیونکہ وہ مقام و منزلت کا پابند نہ تھا اس لئے وہ لشکر اسلام کے ہمراہ شام کی طرف روانہ ہواا ور ۲۸جمادی الاول ۱۳ ئھ کو اس جنگ میں شہید ہوا۔
۱۱۔ سعد بن عبادہٴ انصاری
وہ قبیلہ خزرج کا سردار تھا وہ بیعت عقبہ میں حاضر تھا اور اس نے رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے تمام غزوات میں شرکت کی ہے اس کے غزوہٴ بدر میں حاضر ہونے کے بارے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف نظر ہے ۔
سعد ایک رحم دل او ر سخی شخص تھا ، فتح مکہ کے دن انصار کا علمبردار تھا چونکہ اس نے اس جنگ میں یہ نعرہ بلندکیا ” آج جنگ کا دن ہے ، جس دن عورتیں اسیر کی جائیں گی، اس کی مرادقریش کی عورتیں تھیں “ اس لئے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پرچم کو اس کے ہاتھ سے چھین کر اس کے بیٹے قیس کے ہاتھ میں دیدیا ، ۲سعد بن عبادہ کے بارے میں اسلام کے مؤرخین لکھتے ہیں۳
” سقیفہ میں جب ابو بکر کے حامی سعد شدید مخالفت سے دوچار ہوئے تو انہوں نے اس میں مصلحت سمجھی کہ چند روز سعد سے چھیڑچھاڑ نہ کی جائے جب بیعت کا کام انجام
------
۱۔ طبری ج ۲/ ۵۸۶، تہذیب ابن عساکر ج ۵/ ۴۸، انساب الاشراف ج ۱/ ۵۸۸ ۔
۲۔ ملاحظہ ہو اس کا ترجمہ استیعاب ج ۲/ ۳۲ میں اور اصابہ ج ۲/ ۲۷۔
۳۔ طبری ج ۲/ ۴۵۹ ، ابن اثیر ج ۲/ ۲۴۴ ، روایت کو ” فاترکوہ تک “ نقل کیا ہے ، کنز العمال ج ۳/ ۱۳۴ ، حدیث نمبر ۲۲۹۶ ، الامامة و السیاسة ج ۱/ ۱۰ ، سیرہ حلبی نے ج ۴/ ۳۹۷، میں اضافہ کیا ہے کہ سعد ان میں سے کسی سے بھی مل کر سلام نہیں کرتا تھا ، لا یسلم علی من بقی منھم “۔
پایا تو کسی شخص کو اس کے پاس بھیج کر اانھیں پیغام دیدیا کہ آکر بیعت کریں ، دوسروں حتی تیرے قبیلہ والوں نے بھی بیعت کی ہے ، سعد نے جواب میں کہا؛ خدا کی قسم جب تک میرے ترکش میں تیر موجود ہے اور تمہیں نشانہ بنا سکتا ہوں اور اپنے نیزے کی نوک کو تمہارے خون سے رنگین کرسکتا ہوں ، اور جب تک میرے بازؤں میں تلوار چلانے کی طاقت موجود ہے ، تم لوگوں سے لڑتارہوں گا ،اور اپنے خاندان کے ان افراد کی مدد سے جو ابھی تک میری اطاعت میں ہیں تم لوگوں سے جب تک ممکن ہوسکے گانبرد آزمائی کرونگا اور تمہاری بیعت نہیں کروں گا اور خدا کی قسم ! اگر جن و انس تمہاری مدد کو آجائیں تو بھی میں تم لوگوں کی ہرگز بیعت نہیں کروں گا جب تک خدا کے پاس اپنی شکایت نہ کرلوں اور تم لوگوں کے ساتھ عدل الٰہی کے حضور اپنا حساب نہ چکالوں۔
جب یہ باتیں ابو بکر تک پہنچیں تو عمر نے کہا؛ اسے نہ چھوڑو جب تک کہ بیعت نہ کرے، لیکن بشیر بن سعد نے اپنانظریہ پیش کرتے ہوئے کہا : میرے خیال میں اس قضیہ کاپیچھا کرنے میں مصلحت نہیں ہے ، کیونکہ سعد کی مخالفت ہٹ دھرمی پر مبنی ہے جو آگاہی، میں سعد کے اخلاق کے بارے میں رکھتا ہوں، ا س سے میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ قتل ہونے تک ڈٹا رہے گا اور دوسری طرف سعد
کا قتل ہونا بھی کوئی آسان کا م نہیں ہے، کیونکہ وہ ایک فرد نہیں ہے کہ اس کے قتل کئے جانے سے مخالفتوں کو ختم کیا جاسکے ، وہ ایک بڑی آبادی والے قبیلہ کا سردار ہے اور ابھی تک اس کا معنوی اثر و نفوذ اس کے خاندان میں موجود ہے ، جب تک اس کے فرزندوں ، رشتہ داروں اور قبیلہ کے کچھ افراد کو قتل نہ کیاجائے اس پر ہاتھ نہیںلگایا جاسکتا ہے ، اس لئے مصلحت اسی میں ہے کہ اسے اپنے حال پر چھوڑدیا جائے اس طرح وہ ایک آدمی سے زیادہ نہیں ہے اور کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے ۔
بشیر بن سعد کی تجویز منظور ہوئی اور سعد بن عبادہ کو اس کے حال پر چھوڑدیا گیا وہ بھی ان کی جماعت اور دیگر اجتماعات میں حاضر نہیں ہوتا تھا نیز حج کے موقع پر بھی ان کی اطاعت نہیں کرتا تھا اور ابو بکر کے دنیاسے چلے جانے اور عمر کی خلافت کے دور تک اسی حالت میں تھا ۱ اپنی خلافت کے دوران ایک دن عمر نے سعد کو مدینہ کی ایک گلی میں دیکھا اور اسے کہا: خبر دار ، اے سعد !
سعد نے جواب میں کہا: خبردار اے عمر !
عمر نے پوچھا : کیا تم نے چہ می گوئیاں کی تھیں !
سعد نے کہا :جی ہاں : میں ہی تھا ، اس وقت حکومت کی باگ ڈور تیرے ہاتھ میں آئی ہے ، لیکن خدا کی قسم ہمارے نزدیک ابو بکر کی محبوبیت تجھ سے زیادہ تھی اور میں ذاتی طورپر پسند نہیں کرتا ہوں تمہارے نزدیک رہوں۔
عمر نے کہا: جو کوئی کسی کی ہمسائیگی سے متنفر ہوتا ہے وہ اپنی سکونت تبدیل کرتا ہے ۔
سعد نے کہا؛ میں تیری ہمسائیگی سے زیادہ خوشحال نہیں ہوں ، یہ کام کرکے میں دم لوں گا اور تم
-----------
۱۔ الریاض النضرة ج ۱/ ۱۶۸ اس سے قبل نقل کئے گئے مصادر کے ساتھ ۔
سے بہترہمسائے کے نزدیک جاؤں گا۔
اس ملاقات کے بعد زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ سعد شام چلا گیا ۱بلاذری نے اس قضیہ کے بارے میں یوں نقل کیا ہے ۲
” عمر نے ایک شخص کو شام بھیجا اور اسے حکم دیا کہ جس طرح ممکن ہو سکے سعد کو لالچ دلاؤشاید وہ بیعت کرلے اور اگر اس نے بیعت نہیں کی تو خدا سے مدد کی درخواست کرکے اسے ماٴمور کے عنوان سے روانہ کرو اوراس شخص نے حوران کے مقام پر ایک باغ میں سعد سے ملاقات کی اور اسے عمر سے بیعت کرنے کی ترغیب دیدی۔
سعد نے کہا: میں قریش کے کسی شخص کی ہرگز بیعت نہیں کروں گا۔
قاصد نے کہا؛ اگر بیعت نہ کرو گے تو میں تجھے قتل کر ڈالوں گا
سعد نے کہا : کیا میرے ساتھ جنگ کرنے کی صورت میں بھی ؟
اس نے کہا: کیا تم اس چیز سے دور رہنا چاہتے ہو جس پر ملت نے اتفاق کیا ہے ؟!
سعد نے جواب دیا : اگر تمہارا مقصود بیعت ہے ، تو جی ہاں،
یہاں پر ماٴمور نے حکم کے مطابق سعد کی طرف ایک تیر پھینکا اور اسے قتل کر ڈالا ، مسعودی
---------
۱۔ طبقات ابن سعد، ج ۳/ ق۲/ ۱۴۵ ، تہذیب ابن عساکر ،ج ۶/ ۹ میں ترجمہ سعد کی تشریح میں ، کنز العمال ،ج ۳/ ۱۳۴ حدیث نمبر ۲۲۹۶ ، سیرہ حلبی ،ج ۳/ ۳۹۷)
۲۔ العقد الفرید ،ج ۳/ ۶۴ ، اور بلاذری نے اس عبارت کے قریب انساب الاشراف ،ج ۱/ ۵۱۸ میں آیا ہے ۔
کہتا ہے۱
” سعد بن عبادہ نے بیعت نہیں کی اور مدینہ سے شام چلا گیا اور ۱۵ھء کو وہیں پر قتل ہوا“
ابن عبدربہ کی روایت میں آیا ہے :
” سعد بن عبادہ پر ایک تیر مارا گیا اور تیر اس کے بدن پر لگ گیا اور اسی سے وہ مرگیا ، اسکے مرنے کے بعد پریوں نے اس پر گریہ کرتے ہوئے اس کے سوگ میں شعر پڑھا :
وقتلنا سید الخزرج سعد بن عبادہ و رمیناہ بسھمین فلم تُخطیٴ فؤادہ ۲
ابن سعد نے طبقات میں اس کی موت کے باے میںلکھا ہے ۳
سعد ایک خندق میں پیشاب کرنے کیلئے بیٹھا تھا کہ اس پر حملہ کیا گیا اور اسی حالت میں اس نے جان دیدی اس کے جسد کو اسی حالت میں پایا گیا ہے اس کے بدن کی کھال کا رنگ سبز ہوچکا تھا“
ابن اثیر نے اسد الغابہ میںلکھا ہے : ۴
سعد نے نہ تو ابو بکرکی بیعت کی اور نہ عمر کی ، وہ شام چلا گیا اور شہر حوران میں سکونت اختیار کرلی، ۱۵ ء میں اس نے وفات پائی ، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اس کے گھر کے نزدیک سڑک کے کنارے اس حالت میں دیکھا گیا تواسکے جسم کا رنگ سبز ہوچکا تھا ، اس کی موت کے بارے
---------
۱۔ مروج الذہب، ج ۱/ ۴۱۲ و ج ۲ ۱۹۴ ،
۲۔ العقد الفرید ،ج ۳/ ۶۴۔
۳۔ طبقات ابن سعد، ج ۳/ ق ۲/ ۱۴۵ ، ابن قتیبہ نے المعارف ۱۱۳ پر ۔
۴۔ معلوم ہوتا ہے سعد کی طرف پھینکا گیا تیر زہر آلود تھا۔
میں کسی کو پتا نہ چلا جب تک ایک نامرئی شخص کی آواز کنویں میں سنی گئی اور لوگ اس سے آگاہ ہوئے ۱
عبد الفتاح نے کتاب الامام علی بن ابیطالب “ میں لکھا ہے :
بعض احمق لوگ کہتے ہیں کہ سعد جنوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے ، لیکن جو حقیقت حال سے آگاہ ہے یا گمان کیا جاتا ہے کہ آگاہ ہوگا ، کہتا ہے : ” سعد کو خالد بن ولید اور اس کے ایک دوست، جو اس کا شریک کا ر تھا ، نے رات کو گھات لگا کر اسے قتل کر ڈالا اور اس کے بدن کو ایک کنویں میںسرکے بل لٹکا کر رکھدیا ، اس سے پوچھا گیا کہ جنوں کی جوآواز ہم نے سنی وہ کیا تھی ؟ جواب دیا گیا وہ آواز خالد کے ہمکار کی تھی ، اس نے اس لئے ایساکیاتاکہ وہ لوگوں کو بتائیںاس پر یقین کریںاوراس بات کو دھرائیں۔۲
بلاذری نے روایت کی ہے کہ عمر نے خالد اور محمد بن مسلمہ کو ماٴمور کیا تا کہ سعد کو قتل کر ڈالیں اور انہوں نے اپنی ماٴموریت کو بجالا کر، دو تیروں سے سعد کو قتل کر ڈالا اور اس کی زندگی کا خاتمہ کیا ، اس روداد کو نقل کرنے کے بعد انصار میں سے ایک شخص کے درج ذیل دو شعر ذکر گئے ہیں جو سعد کے سوگ میں کہے گئے ہیں :
--------
۱۔ سعد کی تشریح اسد الغابہ اور استیعاب ج ۲ ۳۷ میں
۲۔ الامام علی ابن ابیطالب ج ۱/ ۷۳۔
یقولوں سعداً شقت الجن بطنہ
الا ربما حققت فعلک بالقدر
و ما ذنب سعد بعدان بال قائماً
و لکن سعداً لم یبایِع ابابکر
ترجمہ : کہتے ہیں کہ جنوں نے سعد کے شکم کو پھاڑ ڈالا آگاہ ہوجاؤ، بسااوقات لوگ اپنا کام دھوکے سے انجام دیتے ہین سعد کا گناہ یہ نہ تھا کہ اس نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا تھا بلکہ اس کا گناہ یہ تھاکہ اس نے ابوبکرکی بیعت نہیں کی تھی ۔
حقیقت میں اس طرح سعد کی زندگی کا خاتمہ کیا گیا ، لیکن یہ تاریخی حادثہ مؤرخین کیلئے ناپسند تھا ان میں سے ایک جماعت نے اس قضیہ کو ذکر ہی نہیں کیا ہے ۱
اور ایک جماعت نے غیر واضح طور پر لکھا ہے کہ سعد بن عبادہ کو جنوں نے قتل کیا ہے۲
لیکن افسوس ہے کہ اس تاریخی راز کو ہمارے لئے واضح نہیں کیا گیا آخر سعد بن عبادہ کی جنوں کے ساتھ کونسی دشمنی اور عداوت تھی اور جنوں نے رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے تمام اصحاب میںسے صرف سعد کے دل کو اپنے تیروں کا نشانہ کیوں قرار دیا ؟ ہماری نظر میں اگر اس داستان میں یہ اضافہ
--------
۱۔ جیسے طبری ، ابن اثیر اور ابن کثیر نے اپنی تاریخوں میں۔
۲۔ جیسے ریاض الدین طبری نے ریاض النضرہ میں ” ابن عبد البر نے استیعاب میں اور مندرجہ ذیل مآخذ نے سعد کی بیعت سے انکار کو ذکرکیا ہے : ۱۔ ابن سعد نے طبقات میں ، ۲۔ ابن قتیبہ نے الامامة و السیاسہ میں ،۳ ۔ ابن جریر نے اپنی تاریخ میں ، ۵۔ ابو بکر جوہری نے ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ کی روایت میں ، ۔ مسعودی نے مروج الذہب میں ، ۷۔ ابن عبد البر نے الاستیعاب میں ،۸۔ ابن اثیر نے اسد الغابہ میں ، ۹۔ابن اثیر نے اسد الغآبہ میں ،۹۔محب الدین طبری نے ریاض النضرہ میں ، ۱۰۔ ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ میں ،۱۱۔ تاریخ الخمیس ، ۱۲، علی بن برہان الدین نےالسیرة الحلبیہ میں ، ۱۳ ابو بکر جوہری نے السقیفہاور ۱۴۔ بلاذری نے انساب الاشراف میں ۔
کرتے کہ ”چونکہ سعد نے بیعت سے انکار کیا تھا اور سعد کا یہ عمل صالح جنوں کیلئے ناپسند تھا ، اس لئے انہوںنے اس کے قلب پر، دو تیر ما کر اسے ہلاک کردیا “
تو ان کی یہ جعلی داستاں بہتر اور مکمل تر ہوتی !!
۱۲۔ عمر کا نظریہ
اس سے قبل ہم نے ابو بکر سے عمر کی بیعت کی روداد بیان کی ہے ، لیکن اس سلسلے میں انہوں نے اپنا عقیدہ اس طرح بیان کیا ہے :
” بے شک میرے کانوںتک یہ خبر پہنچی ہے کہ ایک شخص نے کہا ہے کہ خدا کی قسم جب عمر بن خطاب مرجائے گا تو میں فلاں کی بیعت کروں گا ، کوئی اس عمل کو صحیح قانونی تصور نہ کرے ،کیونکہ ابو بکر کی بیعت ایک لغزش اور خطا تھی جو انجام پائی اور گزر گئی، حقیقت میں ایساہی تھا ، لیکن خداوند عالم نے لوگوں کو اس خطا کے شر سے نجات دیدی ۱
۱۳ ۔ ابو سفیان
ابو سفیان بھی ان لوگوں میں سے ایک تھا جنہوں نے ابو بکرکی حکومت کی شدیدمخالفت کی اور صراحت کے ساتھ اعتراض کیا اور اپنی مخالفت کو قول و فعل کے ذریعہ اعلان کیا اس روداد کی تفصیل اگلی فصل میں بیان ہوگی۔
----------
۱۔ طبری ، ابن اثیر اور ابن کثیر میں قصہٴ سقیفہ ملاحظہ ہو،۔
|