ابو بکر کی بیعت سے علی کی مخالفت
یا ابا بکر ما اسرع ما اغرتم علی اھل بیت رسول اللہ
اے ابو بکر : کتنی عجلت کے ساتھ تم نے خاندان پیغمبر پر دھا وابول دیا ؟!
پیغمبر اکرم کی اکلوتی بیٹی ، فاطمہ
و اللہ لا اکلم عمر حتی القیٰ الله !!
خدا کی قسم ! میں عمر سے مرتے دم تک کلام نہیں کروں گی !!
پیغمبر اکرم کی بیٹی ، فاطمہ(س)
علی کو خلافت کی کچہری تک کھینچ لیا جاتا ہے
ہم نے گزشتہ فصل میں کہا کہ اصحاب میں کچھ نیک افراد نے ابو بکر کی خلافت پر اعتراض کرتے ہوئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یاد گار حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے گھر پر دھرنا دیا تو ابو بکر کی پارٹی نے حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیھا کے گھر پر دھا وابول دیا اور دھرنا دینے والوں کو ڈرانے دھمکانے کیلئے اس گھر کے دروازہ پر آگ لے کر آگئے تاکہ سب کو اس آگ میں جلادیں ، بہر حال علی علیہ السلام کو گرفتار کیا گیا ، گرفتار کرنے کے بعد علی علیہ السلام کو ابو بکر کے پاس لا کر ان سے کہا گیا کہ :
بیعت کرو !
علی علیہ السلام نے جواب میں کہا:
میں اس کام کیلئے تم لوگوں سے مستحق تر ہوں ، میں ہرگز تم لوگوں کی بیعت نہیں کروںگا ، حق یہ ہے کہ تمہیں میری بیعت کرنی چاہیے، تم لوگوں نے اس کام کی باگ ڈور انصار سے لے لی ہے محض اس بنا پر کہ تم لوگ رسول اللہ کے رشتہ دار ہو اور انہوں نے بھی اس بنا پر حکومت کی باگ ڈور تم لوگوں کے حوالے کردی تو، میں بھی یہی دلیل و برہان آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ، اگر خداسے ڈرتے ہو تو انصاف کی راہ پرچلو اور جس طرح انصار نے پیغمبر کے رشتہ دار ہونے کے ناطے تمہیں اقتدار سونپا ،تم بھی اسی ناطے سے اس کی باگ ڈور میرے حوالے کردو، ورنہ یاد رہے کہ تم لوگ ظالم ہو۔
عمر نے کہا: ہم آپ کو، بیعت لئے بغیر نہیں چھوڑیں گے ، علی علیہ السلام نے عمر کے جواب میں کہا اے عمر ! تم اپنے لئے راہ ہموارکررہے ہو ، آج اس کے حق میں کام کررہے ہو تا کہ کل وہ یہ امور تمہیں سونپ دے ، خداکی قسم میں تیری بات کو ہرگز نہیں مانوں کا اور ابو بکر کی اطاعت نہیں کروں گا ،
ابو بکر نے کہا اگر رضا مندی سے میری بیعت نہیں کرو گے تو میں آپ سے جبر وا کراہ کے ذریعہ بیعت نہیں لوں گا ۔
ابو عبیدہ نے علی علیہ السلام سے مخاطب ہوکر کہا؛ اے ابو الحسن !آپ نوجوان ہیں اور یہ لوگ قریش کے بزرگ ہیں جتنا انہیں مہارت اور تجربہ ہے آپ کو نہیں ہے ، میرا اعتقاد یہ ہے کہ ابو بکر اس کام کیلئے آپ سے بیشتر قدرت کے حامل ہیں اور وہ اس کام کو بہتر صورت میں نبھا سکتے ہیں کیونکہ وہ اس میدان کے کھلاڑی ہیں ۔ کام انہیں کو سونپ کر فی الحال اس پر راضی ہوجائیے ، اگر آپ زندہ رہے اور معمر ہوئے تو فضیلت اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قرابت کی بناء پر ااور اسلام اور راہ خدا میں جہادکرنے میں سبقت کی وجہ سے آپ اس کام کیلئے زیادہ لائق و سزاوار ہوں گے ۔
علی علیہ السلام نے جواب دیا:
اے گروہ مہاجر ! پرہیز کرو ، اور خد اسے ڈرو ،اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فرمانروائی کو ان کے گھر سے باہر نہ لے جاؤ اوراپنے گھروں کو اس قدرت و منصب کا مرکز قرار مت دو پیغمبر کے گھرانے سے ان کے حق اور انکی اجتماعی حیثیت کو نہ چھینو ! خدا کی قسم اے مہاجرین ! ہم اہل بیت رسول جب تک قرآن پڑھنے والے ، دین خدا میں فقیہ ، سنت رسول اللہ کے عالم اور اجتماعی حالات کے ہمدرد، رہیں گے ان امور کیلئے آپ لوگوں سے زیادہ سزاوار ہیں ، خد اکی قسم جو چاہو گے ہمارے خاندان میں موجود ہے اپنے ہوائے نفس کی پیروی اور اطاعت نہ کر و، ورنہ اس طرح حقیقت کی راہ سے زیادہ سے زیادہ دور ہوجاؤ گے “
بشیر بن سعد نے کہا:
” اے علی( علیہ السلام) ! اگر انصار نے ابو بکر سے بیعت کرنے سے پہلے آپ کی یہ بات سنی ہوتی تو دو آدمی بھی آپ کے بارے میں اختلاف نہ کرتے ، لیکن کیا کیا جائے کہ کام تمام ہوچکاہے اور لوگوں نے بیعت کرلی ہے “
لہذا علی علیہ السلام اپنے نظریہ پر بدستورقائم رہے اور ابوبکر کی بیعت کئے بغیر اپنے گھر لوٹ آئے۔
حضرت فاطمہ زہرا کے مبارزے
ابن ابی الحدید نے” شرح نہج البلاغہ “ میں ابو بکر جوہری سے نقل کرکے روایت کی ہے :
جب فاطمہ نے دیکھا کہ ان دو اشخاص ( علی علیہ السلام و زبیر ) کے ساتھ کونسا سلوک کیا گیا ہے، تو اپنے گھر کے دروازہ پر کھڑی ہوکر فرمایا: ” اے ابو بکر ! تم نے کتنیجلدی رسول کے خاندان سے مکر کیا ، خدا کی قسم مرتے دم تک میں عمر سے بات نہیں کروں گی “ ۱
ایک دوسری روایت کے مطابق فاطمہ زہراء زار و قطار روتے ہوئے گھر سے باہر آئیں اور لوگوں کو ایک کنارے پیچھے کی طرف ہٹادیا ۔
یعقوبی کہتا ہے ؛ فاطمہ باہر آئیں اور کہا:
”خدا کی قسم ! میرے گھر سے باہر چلے جاؤ ورنہ میں سر برہنہ ہوکر بالوں کو بکھیر کر بارگاہ الہی میں فریاد بلند کروں گی “ اس وقت لوگ ان کے گھر سے باہر آئے اور جو
لوگ گھر میں تھے وہ بھی وہاں سے باہر آگئے “۲
---------
۱۔ ابن ابی الحدید ج ۲/ ۱۳۴ ، ج ۶ / ۲۸۶۔
۲۔ تاریخ یعقوبی ، ج ۲/۵۰
اس کے علاوہ ابراہیم نظام ۱بھی کہتا ہے :
” بیعت کے دن عمر نے فاطمہ کے شکم اور پہلو پر ایسی ضرب لگائی کہ محسن ساقط ہوگئے ، اور اس طرح نعرے لگاتے تھے کہ : اس گھر کو اس کے مکینوں کے سمیت آگ لگادوںگا ! جبکہ اس گھر میں علی علیہ السلام ، حسن اور حسین کے علاوہ کوئی اور نہ تھا ‘ ۲
مسعودی کہتا ہے:” جس دن عام لوگوں کی طرف سے ابو بکر کی سقیفہ میں بیعت ہورہی تھی تو منگل کے دن تجدید بیعت کی گئی، حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر سے کہا: تم نے ہمارا کام خراب کردیا اور اس کام میں ہمارے ساتھ کوئی صلاح و مشورہ نہیں کیا اور ہمارے کسی حق کی رعایت نہیں کی !!“
ابو بکر نے جواب میں کہا: جی ہاں ! لیکن کیا کروںمیں نے فتنہ اور بغاوت کے برپا ہونے سے ڈر گیا ۳
یعقوبی مزید کہتا ہے :
” کچھ لوگ علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے پاس آئے اور ان سے بیعت کا مطالبہ کیا، علی علیہ السلام نے ان سے کہا : ” کل صبح تم سب لوگ اپنے سر منڈوا کر میرے پاس آنا “
لیکن دوسرے دن ان میں سے صرف تین ا شخاص آئے ۴
خلاصہ یہ کہ اس واقعہ کے بعد علی علیہ السلام ، فاطمہ سلام علیھا کو ایک گدھے پر سوار کرکے رات کو انصار کے دروازوں پر لے جا کر ان سے مدد طلب کرتے تھے ، فاطمہ(س) زھرابھی ان سے مدد طلب
----------
۱۔ نظام کا نام ابراہیم بن سیار تھا، اس کی زندگی کے حالات آئندہ بیان کئے جائیں گے۔
۲۔ شہرستانی م ملل و نحل کے گیارھوں سوال میں ، ملل و نحل طبع ایران ج ۱/ ۲۶ و طبعی لیدن ۰ ۴۔
۳۔ مروج الذہب ج ۱ ۴۱۴ ، الامامة و السیاسة ج ۱/ ۱۲ ۔ ۱۴ ۔
۴۔ تاریخ یعقوبی ج۲/ ۱۰۵ ، ابن ابی الحدید ج ۲ / ۴۔
کرتی تھیں ۔ وہ جواب میں کہتے تھے : اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی ! ہماری بیعت اس شخص کے ساتھ تمام ہوچکی ہے ۔ اگر آپ کے چچیرے بھائی ابو بکر سے پہلے ہم سے بیعت کا مطالبہ کرتے، ہم ہرگز کسی دوسرے کو ان کے برابر قرارنہیںد یتے، اور ان کے علاوہ کسی اور کوقبول نہیں کرتے ، علی علیہ السلام جواب دیتے تھے :
” تعجب کی بات ہے تم لوگ مجھ سے یہ توقع رکھتے تھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازہ کو تجہیز و تکفین کے بغیر، گھر میں چھوڑ کر، پیغمبر خدا سے بھی حکومت کے بارے میں، جنگ و جدال میں مشغول ہوجاؤں ؟!
فاطمہ بھی کہتی تھیں :
” ابو الحسن نے وہ کام انجام دیا، جس کے وہ سزاوار تھے اور اس طرح انہوں نے اپنا فریضہ نبھایا اور ان لوگوں نے بھی ایک ایسا کام انجام دیا جس کے بارے میں خداوند عالم ان سے پوچھ تاچھ کرے گا “ ۱
معاویہ نے بھی علی علیہ السلام کو اپنے ایک خط میں اسی روداد کے بارے میں اشارہ کیا ہے ۔ جسے ہم نے یعقوبی سے نقل کیا جس پر وہ یوں کہتا ہے :
جیسا کہ کل ہی ابو بکر کی بیعت کے دن تم اپنے گھر کی پردہ نشین کو گدھے پر سوار کرکے اپنے دو بیٹوں حسن و حسین کے ہاتھ پکڑ کر آگئے اہل بدر اور اسلام میں سبقت لینے
----------
۱۔ ابو بکر جوہری اپنی کتاب سقیفہ میں بہ روایت ابن ابی الحدید ج ۶/ ۲۸ و الامامة و السیاسة ج ۱/ ۱۲۔
والوں کے گھروں کے دروازوں پر جا کر ان سے اپنے لئے بیعت چاہتے تھے ، اپنی بیوی کے ہمراہ ان کے پاس چلے گئے اور اپنے دو بیٹوں کو لیکر ان سے التماس کیا اور ان سے اپنے لئے مدد طلب کی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یار ابو بکر سے منہ موڑ لیں ، لیکن چار یا پانچ اشخاص کے علاوہ کسی اور نے تمہارے مطالبے کا جواب نہیں دیا ، اپنی جان کی قسم ! اگر حق تیرے ساتھ ہوتا تو وہ تیرا مثبت جواب دیتے لیکن تم ایک باطل دعویٰ کررہے تھے اور ایک غیر معمولی مطلب بیان کرتے تھے اور ایک ایسی چیز کا مطالبہ کرتے تھے جس کے تم حقدار نہ تھے ۔
میں جس قدر بھی فراموش کار ہوں گا ، لیکن جو بات تم نے ابو سفیان کو کہی اسے ہرگزبھلایا نہیں جاسکتا جب وہ تمہیں اشتعال دلا رہے تھے ، تم نے اس سے کہا : اگر چالیس مستحکم ارادے والے آدمی میرا ساتھ دیتے تو میںا نقلاب بر پا کرکے ان لوگوں سے اپنے حق کا مطالبہ کرتا ! ۱
جنگ صفین میں جب معاویہ کے لشکر کے افراد نے علی علیہ السلام کے لشکر کو پانی استعمال کرنے سے روکا ، تو عمر و عاص نے معاویہ کو اپنی گفتگو کے ضمن میں اس بات کی طرف یاددہانی کرائی اور کہا : ہم دونوں نے سنا ہے کہ علی علیہ السلام کہتے تھے کاش چالیس آدمی میرا ساتھ دیتے اور اس کے بعدکچھ کہ،“ اور عمرو کا مقصود حضرت فاطمہ زہرا کے گھر کی تلاشی لینے کے دن امیرالمؤمنین کی
----------
۱ ۔ابن ابی الحدید ج ۲ /۶۷ اور کتاب صفین ص ۱۸۲
فرمائشات کی طرف اشارہ تھا ۔
مبارزات کا خاتمہ اورعلی کی بیعت
ابن اثیر اسد الغابہ میں ابوبکرکے حالات کے ضمن میں لکھتے ہیں :
” صحیح بات یہ ہے کہ بیعت کی مخالفت کرنے والوں نے چھ ماہ بعد بیعت کی “ ۱
تاریخ یعقوبی میں آیا ہے :
” علی علیہ السلام نے چھ ماہ بعد بیعت کی “۲
ابن عبدا لبر ، استیعاب میں اور مسعودی التنبیہ و الاشراف میںیوں لکھتے ہیں :
” علی علیہ السلام نے فاطمہ علیہا السلام کی وفات کے بعد ابو بکر کی بیعت کی “۳
ابن قتیبہ نے ” الامامة و السیاسة “ میں لکھا ہے :
” علی علیہ السلام نے فاطمہ علیہا السلام کی وفات کے بعد بیعت کی ، اور یہ پیغمبر کی وفات سے ۷۵ روز کا فاصلہ تھا اس واقعہ کی تفصیل کو زہری نے نقل کیا ہے اور پیغمبر خدا کی میراث کے موضوع کے بارے میںا بو بکر اور فاطمہ کے درمیان واقع ہونے والی روداد ام المؤمنین عائشہ سے نقل کی ہے کہ عائشہ نے کہا ہے: فاطمہ نے ابو بکر سے
---------
۱۔ اسد الغابہ ج ۳/ ۲۲۲۔
۲۔ تاریخ یعقوبی ج ۲/ ج ۱۰۵۔
۳۔ الاستیعاب ج ۲/ ص ۴۴۴ ، التنبیہ و الاشراف ص ۲۵۰۔
منہ موڑ لیا اور ان کے ساتھ بات نہیں کی اور علی علیہ السلام نے فاطمہ علیہا السلام کے بدن کو ابو بکر کی اطلاع کئے بغیر رات کے سناٹے میں دفن کردیا۔ جب تک فاطمہ زندہ تھیں لوگ علی علیہ السلام کا احترام کرتے تھے اور جب فاطمہ اس دنیا سے رحلت کرگئیں تو لوگوں نے علی علیہ السلام سے منہ موڑ لیا ، فاطمہ پیغمبر خداکے بعد چھ ماہ زندہ رہیں اور اس کے بعد وفات کرگئیں۔
راوی کہتا ہے : ایک شخص نے زہری سے پوچھا کیا ان چھ ماہ کے دوران علی نے بیعت نہیں کی؟! زہری نے جواب میں کہا: نہ انھوں نے اور نہ بنی ہاشم میں سے کسی نے مگر یہ کہ جب علی علیہ السلام نے بیعت کی ۱
تیسیر الوصول میں آیا ہے کہ زہری نے کہا؛ خدا کی قسم نہیں ! اور علی علیہ السلام کی بیعت کرنے تک بنی ہاشم میں سے کسی ایک نے بیعت نہیں کی 2
اور کہا گیا ہے : جب علی علیہ السلام نے دیکھا کہ لوگوں نے ان سے منہ موڑ لیا ہے تو ابو بکر کے ساتھ صلح کرلی الخ ۳
-----------
۱۔ الامامة و السیاسة ج ۱/ص ۱۳۔
۲۔ تیسیر الوصول ج ۲/ ص ۴۶۔
۳۔ ہم نے اس حدیث کو خلاصہ کے طور پر مندرج ذیل کتابوں سے نقل کیا ہے :
طبری ج ۳/ ۲۰۲ ، صحیح بخاری ج ۳/ ۳۸، ( باب غزوہٴ خاٴبر ) کتاب مغازی اور صحیح مسلم سے باب قول رسول الله و نحن لا نورّث ما ترکناہ صدقہ ج ۱ ۷۴ ، ج ۳ ۱۵۳، ابن کثیر ج ۶، ۲۸۵ ۔ ۲۸۶، العقد الفرید ج ۳/ ۶۴ ، ابن اثیر خلاصہ کے طور پر ج ۲/ ۲۲۴ میں نقل کیا ہے ، گنجی کفایةالطالب ص ۲۲۵ ۔ ۲۲۶ ، ابن ابی الحدید ج ۲/ ۱۲۲ ، مسعودی ج ۲/ ۴۱۴ مروج الذہب سے نقل کرکے صواعق ج ۱/ ۱۲ ، تاریخ الخمیس ج۱/ ۱۹۳ ، ابو الفداء ج ۱/ ۱۵۶ و البداء و التاریخ ج ۵/ ۶۶ )
بلاذری نے انساب الاشراف میں یوں نقل کیا ہے :
’ جب عربوں نے دین سے منہ موڑ لیا تو وہ مرتد ہوگئے ، عثمان ،علی علیہ السلام کے پاس گئے اور کہا اے میرے چچازاد بھائی : جب تک آپ بیعت نہیںکریں گے کوئی بھی ان دشمنوں سے لڑنے کیلئے نہیں جائے گا اور مسلسل اس موضوع پر گفتگو کرتے تھے اور آخر کارانھیں ابو بکر کے پاس لے گئے “
یہاں تک کہتے ہیں :
علی علیہ السلام نے ان کی بیعت کی اور مسلمان خوشحال ہوئے اور جنگ کیلئے آمادہ ہوگئے اور گروہ گروہ سپاہیوں کو روانہ کیا گیا۱
حقیقت میں علی علیہ السلام نے ایک طرف سے فاطمہ کو کھویا تھا اور دوسری طرف سے مسلمانوں کی ،ناگفتہ بہ حالات اور ان کی بے توجہی کا مشاہدہ کررہے تھے اور اب تو وہ فرصت بھی ہاتھ سے چلی گئی تھی جس کی وجہ سے لوگ رونما ہونے والے حالات سے بے توجہ تھے، اس لئے انہوں نے مجبور ہوکر ابو بکر سے صلح کی لیکن ان دنوں کی تلخیوں کو کبھی نہیں بھولے حتی اپنی خلافت کے دوران بھی ان حوادث کی تلخی کو نہیں بھولے اور مسلسل ان کے بارے میں شکوہ شکایت کرتے رہے ، وہ اپنے معروف خطبہٴ شقشقیہ میں فرماتے ہیں :
---------
۱۔ انساب الاشراف، ج ۱/ ص ۸۷۔
میرے لئے ایہ امر عقل کے مطابق اس ذمہ داری کی بنا پر جو مجھ پر تھی واضح تھاکہ صبر و شکیبائی کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے لہذا میں نے صبر وتحمل سے کام لیا ، لیکن یہ حالت میرے لئے ایسی ہی تھی جیسے کہ میرے آنکھوں میں تنکا اور میرے گلے میں ہڈی پھنس گئی ہو ، میں اپنی آنکھوں سے ناقابل انکار حق کو لوٹتے دیکھ رہا تھا۔
اس کے بعد فرمایا:
” انتہائی تعجب کی بات ہے کہ ابو بکر اپنی زندگی میں لوگوں سے درخواست کرتے تھے کہ ان کی بیعت کو توڑ دیں لیکن اپنی موت سے چند دن پہلے خلافت کا عہد وپیمان عمر کیلئے مستحکم کرگئے افسوس ان دو لٹیروں نے خلافت کو، دودھ بھرے دو پستانوں کے مانند آپس میں تقسیم کرلیا ۱
ابو بکر سے بیعت کی قدر و قیمت
کہتے ہیں ایک چور اور ڈاکو کی ماں نے بستر مرگ پر اپنے بیٹے سے مطالبہ کیا کہ اس کیلئے حلال مال سے کفن آمادہ کرے ، کیونکہ بیٹے کا جو بھی مال تھا وہ حرام تھا ، ڈاکو حلال مال کی تلاش میں گھر سے باہر نکلا اور ایک چوراہے پر گھات لگا کر بیٹھ گیا ۔ اتفاق سے سفید عمامہ پہنے ایک بزرگ وہاں سے گزرے راہزن نے چابک دستی سے شیخ کے سر سے عمامہ کو اتارلیا اور ا ن کی پٹائی شروع کی تا کہ وہ یہ کہیں کہ :”حلال ہے “
۱۔ نہج البلاغہ و شرح ابن ابی الحدید ج ۲/ ۵۰ ، ابن جوزی نے اپنے تذکرہ کے باب ششم ، کتاب ما ھو نہج البلاغہ تالیف علامہ شہرستانی خطبہ ملاحظہ ہو۔
شیخ نے درد سے کراہتے ہوے ڈر کے مارے کہا؛ ’ حلال ہے “ ! ڈاکو نے ان کی مزیدپٹای کی اورکہا: بلند آواز میں کہوتا کہ میری بیمار ماں بھی اسے سن لے ! شیخ نے بلندا آواز میں فریاد بلند کی : ”’حلال ہے ! حلال ہے “
کیا جس بیعت کا نام ”لوگوں کا انتخاب “ رکھا گیا تھا اس کے علاوہ کچھ اورتھی ؟
کیا کہنا اس آزاد انتخاب او رمشروع بیعت کا ، جس کو سقیفہ میں جو تم پردباؤاور ڈرا دھمکا کے حاصل کیا گیا پھرجسے مدینہ کی گلی کوچوں میں قبیلہٴ اسلم جیسے صحرا نشین قبائل کو لالچ دیکر مکمل کیا گیا اور آخر میں پیغمبر خدا کی بیٹی حضرت زہراء کے گھر کے دروازے پر آگ کے شعلے لے جا کر اختتام کو پہنچایا گیا !
|