عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے | |||||
حضرت فاطمہ زہر ا (س) کے گھر پر دھرنا دینے والے
یابن الخطاب اجئت لتحرق دارنا
اے عمر ! کیا ہمارے گھر کو آگ لگانے کیلئے آئے ہو پیغمبر اکرم کی اکلوتی بیٹی نعم، اٴتدخلوا فی ما دخلت فیہ الامة جی ہاں ! مگر یہ کہ ابو بکر کی حکومت کی اطاعت کروگے۔ خلیفہ دوم عمر جیسا کہ گذشتہ فصل میں بیان کیا گیا کہ اصحاب کی ایک جماعت ابو بکر کی بیعت سے انکار کرکے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی طالب ہوئی ،ان میں سے کچھ لوگوں نے ابو بکر کی خلافت کے خلاف اعتراض کے طور پر ہڑتال کی اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی حضرت زہرا کے گھر میں جمع ہو کر دھرنا دیکر بیٹھ گئے اور اس طرح نئی تشکیل شدہ حکومت کے خلاف اپنی مخالفت کا عملی اظہار کیا۔ عمر ابن خطاب اس واقعہ کے بارے میں یوں کہتے ہیں : ” جب خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو اس دنیا سے اٹھا لیا، تو ہمیں یہ رپورٹ ملی کہ علی علیہ السلام ، زبیر اور دوسرے چندا فراد ہم سے منہ پھیر کر فاطمہ(س) کے گھر پر جمع ہوئے ہیں “ ۱ مورخین نے حضرت فاطمہ(س) کے گھر پر پناہ لینے والے افراد کو حضرت علی علیہ السلام اور زبیر کے علاوہ بیان کیا ہے من جملہ چند افراد کے اسماء درج ذیل ہیں : ۱۔ عباس بن عبد المطلب ۲۔ عتبہ بن ابی لہب ۳۔ سلمان فارسی ، ۴۔ ابو ذر غفاری ۵۔ عمار یاسر، ۶۔ مقداد بن اسود ۷۔ براء بن عازب ۸۔ ابی بن کعب ----------- ۱۔ مسندا حمد ج ۱/ ۵۵ ، طبری ، ج ۲/ ۴۶۶، ابن اثیر ج ۲/ ۲۲۱ ، ابن کثیر ج ۵/ ۲۴۶،صفوہ ج ۱/ ۹۷، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱/ ۱۲۳، تاریخ سیوطی ابو بکر کی بیعت میں ص ۴۵ ، سیرہ ابن ہشام ج ۴/ ۳۳، اور تیسیر الوصول، ج ۲/ ۴۱)۹۔ سعد بن ابی وقاص ۱۰۔ طلحہ بن عبید اللہ اس کے علاوہ بنی ہاشم اور بعض مہاجرین و انصار سے کچھ افراد ۱ ” الفصول المھمہ“ میں مذکورہ دس افرد کے علاوہ چند دیگر افرادکا نام بھی لیا گیا ہے ۔ ابو بکر کی خلافت سے حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے حامیوں کی مخالفت اور حضرت فاطمہ زہرا کے گھر میں ان کے دھرنادینے کی اصل روداد تاریخ ، سیر و سیاحت اور علم رجال کی کتابوں میں تواتر کی حد تک نقل ہوئی ہے ۔ حقیقت میں چونکہ مؤرخین اس واقعہ سے مربوط مطالب اور ابو بکر کی کامیاب پارٹی اور حضرت فاطمہ زہراء کے گھر میںد ھرنا دینے والے افراد کی روداد کو بیان کرنانہیں چاہتے تھے اس لئے ان کو نقل کرنے سے پرہیز کیا گیاہے ، لیکن بعض روئدادوں کو مجبوراً یا نا دانشتہ طور پر لکھ ڈالا ہے ، یہ واقعات ایسے ہیں جسے بلاذری نے اس طرح نقل کیا ہے: ۱۔ جن مصادر کا اس سے قبل ذکر ہوا ان کے علاوہ کچھ اور مصادر ہیں جن میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ کچھ لوگوں نے ابو بکر کی بیعت کرنے سے انکار کیا ، اور حضرت فاطمہ زہرا کے گھر میںد ھرنادیا ، ان مصادر میں سے بعض نے چند افراد کا نام لیا ہے جنہوں نے علی علیہ السلام کی بیعت کرنے کیلئے حضرت فاطمہ زہرا کے گھر میں اجتماع کیا تھا یہ مصادر عبارت ہیں : الف الریاض النضر ة ج ۱/ ۱۶۷ ، ب۔ تاریخ خمیس ج۱/ ۱۸۸ ج ۔ العقد الفرید ج ۳/ ۶۴، تاریخ ابو الفداء ج ۱/ ۱۵۶ ، ابن شحنة تاریخ کامل ۱۱۲ و۔ ابو بکر جوہری بنا بہ روایت ابن ابی الحدید ج ۳ / ۱۳۰۔ ۱۳۴، ھ۔ سیرہ حلبیہ ج ۳/ ۳۹۷۔ ” جب حضرت علی علیہ السلام نے ابو بکر کی بیعت کرنے سے انکار کیا تو ابو بکرنے عمر کو حکم دیا کہ حضرت علی (علیہ السلام) ہر صورت میں اپنے ساتھ لے آؤ ۔ جب عمر علی علیہ السلام کے پاس پہنچے تو ان دونوں کے درمیان ایک گفتگو ہوئی ۔ حضرت علی علیہ السلام نے عمرسے کہا: خلافت کے پستانوں سے ایسا دودھ کھینچتے ہو کہ اس کا نصف اپنے لئے رکھنا چاہتے ہو ، خدا کی قسم ! یہ جو ش و ولولہ جو آج ابو بکر کی خلافت کیلئے دیکھا رہے ہو ، یہ صرف اس لئے ہے کہ کل وہ تجھے دیگرلوگوں پر ترجیح دیں ۔ اور ابو بکرنے اپنے مرض الموت کے دوران کہا؛ میں صرف تین کاموں کے علاوہ جو اس دنیا میں انجام دیا ہے کسی کام پر فکر مند اور غمگین نہیں ہوں، کاش یہ کام مجھ سے انجام نہ پائے ہوتے یہاں تک کہا:اور وہ تین امور درج ذیل ہیں : کاش ، حضرت زہر ا کے گھر کے دوازے کو نہ کھولا ہوتا اور اسے اپنے حال پر ہی چھوڑ دیا ہوتا اگر چہ وہ دروازہ ہمارے ساتھ جنگ کرنے کیلئے بند ہوا تھا ۱ ۱۔ طبری ، ج ۲/ ۱۹ میں وفات ابو بکر کے سلسلے میں ، مروج الذہب مسعودی ج ۱/ ۴۱۴ ، العقد الفرید ج ۳ ۹میں ابو بکرکی طرف سے عمر کو خلافت کیلئے منصوب کرنے کے سلسلے میں ، کنز ل العمال ج ۳/ ۳۵ ، منتخب کنزل ج ۲ / ۱۷۱ ، الامامة و السیاسة ج ۱/ ۱۸۱ ، کامل مبرد بنا بہ روایت ابن ابی الحدید ج ۲/ ۱۳۰۔ ۱۳۱ ، ابا عبید کتاب الاموال ص ۱۳۱، پر ابو بکرکے قول کو یوں نقل کیا ہے : اما الثلاثة التی فعلتھا فوددتُ انی لم اکن کذا و کذا لخلقہ ذکرھا قال ابو عبید لا ارید ذکرھا ، ابو عبیدہ کہتا ہے ابو بکر نے کہالیکن میں اس کا ذکر کرنا نہیں چاہتا ہوں!ابو بکر جوہری ابن ابی الحدید کی روایت کے مطابق ج ۹/ ۲۹۳ ، لسان المیزان ج ۴/ ۱۸۹، اور تاریخ ابن عساکر میں ابو بکر کے حالا ت کی تفصیل میں مرآة الزمان سبط ابن جوزی بھی ملاحظہ ہو اس کے علاوہ تایخ یعقوبی میں اس طرح لکھا گیا ہے : اے کاش رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ کے گھر کی میں نے تلاشتی نہ لی ہوتی ! اور اس گھر میں موجود مردوں پر حملہ نہ کیا ہوتا گر چہ دروازہ کا بند رہنا جنگ پر تمام ہوتا۲ مؤرخین نے حضرت زہراء (س)کے گھر میں داخل ہونے کی ماٴموریت رکھنے والوں کے نام حسب ذیل درج کئے ہیں ۱۔ عمر ابن خطاب ۲۔ خالد بن ولید ۳۔ عبدا لرحمان بن عوف ۴۔ ثابت بن شماس ۵۔ زیاد بن لبید ۶۔ محمد بن مسلمہ ۷۔ سلمة بن سالم بن وقش ۸۔ سلمة بن اسلم ۹ ۔ اسید بن حضیر ۱۰۔ زید بن ثابت۱ رہا ، حضرت فاطمہ زہراء (س) کے گھر پر حملہ کی کیفیت اور حملہ آوروں اور دھرنا دینے والوں کے درمیان رونما ہونے والی روداد کے بارے میں تو یوں لکھا گیا ہے ۔ ” مہاجرین میں سے چند افراد من جملہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام اور زبیر لوگوں کی طرف سے ابو بکر کی بیعت کرنے پر ناراض ہوئے اور اسلحہ لے کر فاطمہ کے گھر کی طرف روانہ ہوئے ۳ -------- ۱۔۔ تاریخ یعقوبی ج ۲ / ۱۰۵
|