عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
 
ابو بکر کی عام بیعت اور پیغمبر اکرم کی تدفین
قد ولیتکم و لست بخیرکم
لوگو! میں تمہارا امیر منتخب ہوا ہوں جبکہ میں تم لوگوں سے بہتر نہیں ہوں!
ابو بکر
و ان ابابکر و عمر لم یشھدا دفن النبیّ
ابو بکر اور عمرپیغمبر کی تدفین میں شریک نہیں ہوئے ۔
مؤرخین

ابو بکرمنبر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر
ہم نے گزشتہ فصلوں میں کہا کہ جنگ و جدال کے بعدآخرکار ابو بکر خلافت کے مسئلہمیں دوسروں پر بازی لے گئے اور بیعت کرنے والوں کے ہاتھ ان کی طرف بڑھ گئے نیزباقی لوگوں نے بھی قدرتی طور پر ان کی پیروی کی ، اس طرح سقیفہ میں ابو بکر کی عام بیعت انجام پائی لیکن اس کے باوجود اس کی کامیابی قطعی صورت اختیار نہ کرسکی اور اس بیعت کو عوامی سطح پر باقاعدہ صورت میں قبول نہیں کیا گیا ۔
اس سلسلہ میں طبری کہتا ہے :
” قبیلہ اسلم مدینہ آیا ، جیسے کہ مدینہ کی گلیاں ان کیلئے تنگ ہوچکی تھیں اور انہوں نے ابو بکر کی بیعت کی ۔ عمر مکرر کہتے تھے : جوں ہی میں نے قبیلہٴ اسلم کو دیکھامجھے یقین ہوگیاکہ ہم کامیاب ہیں ۱ لیکن قبیلہٴ اسلم کے مدینہ آنے کا سبب شیخ مفید نے اپنی کتاب ” الجمل“ میں یوں لکھا ہے :
” وہ اجناس اور کرانہ خریدنے کیلئے مدینہ آئے تھے کہ انہیں کہا گیا : آئیے ہماری مدد کیجئے تا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ کیلئے بیعت لے لیں اس کے بعد ہم تمہیں اجناس دیں گے ، یہی وجہ ہے کہ قبیلہ اسلم نے لالچ میں آکر ابوبکر کی مدد کی “۔
جب سقیفہ میں ابو بکر کی بیعت کا کام اختتام کو پہنچا تو ، ان کی بیعت کرنے والوں نے جلوس کی صورت میں خوشیاں مناتے اور چلاتے ہوئے انھیں مسجد النبی لے چلے !
ابو بکر منبر رسول اللہ پر چڑھے اور لوگ رات گئے تک ان کی بیعت کرتے رہے اور کسی کو بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تدفین کی فکر نہیں تھی ۲
ابو بکر دوسرے دن بھی مسجد النبی میں آئے اور منبر پر گئے تا کہ لوگوں سے بیعت لے لیں ۔
------------
۱۔ طبری ج ۲ ( ص ۴۵۸ ) ابن اثیر ج ۲/ ۲۲۴ اور زبیر بکار کی روایت میں شرح ابن ابی الحدید ج ۶/ ۲۸۷میں آیا ہے ” ابو بکر کو قبیلہ اسلم کی بیعت سے تقویت ملی “)
۲۔ الریاض النضرة ج ۱/ ۱۶۲ اور تاریخ الخمیس ج ۱/ ۱۸۷ ملاحظہ ہو۔

قبل اس کے کہ ابو بکر اپنی بات کو شروع کریں عمراٹھے اور حمد و ثنائے خدا کے بعد بولے :
کل کی میری بات نہ قرآن سے تھی اور نہ پیغمبر کی کسی حدیث سے لیکن میں خیال کرتا تھا کہ پیغمبر چھ لوگوں کے امور کی خود تدبیر کریں گے اور اس دنیا سے رخصت ہونے والے آخری فرد ہوں گے ، بہر حال پیغمبر نے آپ کے درمیان قرآن کو چھوڑا ہے ، لہذا اگر آپ لوگ اس کا سہارا لیں گے تویہ آپ کو ا س راستے پر راہنمائی کرے گا جس پر تمہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لے جارہے تھے ، اب آپکے امور کی باگ ،ڈور بھی ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی ہے جو تم لوگوں میں سے بہترین صحابی پیغمبر اور آنحضرت کے یارِ غار ہیں ، اٹھوا!اور ان کی بیعت کرو“
اس طرح سقیفہ میں بیعت انجام پانے کے بعد ابو بکر کی عام بیعت بھی انجام پائی ۔
بخاری کہتا ہے :
اس سے پہلے سقیفہ بنی ساعدہ میں ایک گروہ نے بیعت کی تھی ، لیکن ابوبکر کی عام بیعت منبر پر انجام پائی ۱
انس بن مالک نے روایت کی ہے :
” میں نے سناکہ اس روز عمرمکرر ابو بکر کو منبر پر جانے کیلئے کہتے تھے اور اس نے اپنی بات کو اس قدر دہرایا اور زور دیا کہ آخر کارابوبکر منبر پر جاپہونچے اور سب لوگوں نے ان کی بیعت کی ۔
----------
۱۔ صحیح بخاری ،ج ۴/ ۶۵۔

اس کے بعد ابو بکر نے حمدو ثنائے باری تعالی کی: اے لوگو! آپ کی حکمرانی کی باگ ڈور میرے ہاتھ سونپ دی گئی ہے جبکہ میں تم لوگوں میں شائستہ ترین فرد نہیں ہوں پس اگر میں صحیح اور نیک کردار ثابت ہوا تو میری اطاعت کرنا اور اگر میں نے بد کرداری اور بد سلوکی کی تو تم لوگ مجھے سیدھے راستہ پر ہدایت کرنا
یہاں تک کہا:
” جب تک میں خدا ور رسول خدا کی اطاعت کروں ، تم لوگ میری اطاعت کرنا اور اگر میں نے خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو میری اطاعت نہ کرنا ۔
چونکہ نماز کو وقت قریب تھا اس لئے کہا:
”خدا تمہیں بخش دے ، اٹھوا ! تا کہ ہم ایک ساتھ نماز پڑھیں “ ۱

بیعت کے بعد
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سوموار کی صبح کو رحلت فرمائی او رلوگ آپ کے جنازہ کو
-----------
۱۔ ملاحظہ ہو : سیرہ ابن ہشام ج ۴/ ۳۴۰ ، طبری ج ۳/ ۲۰۳ ، عیون الاخبار ابن قتیبہ ۲/ ۲۳۴، الریاض النضرةج ۱/ ۱۶۷ ، تاریخ ابن کثیر ج ۵/ ۲۴۸، تاریخ الخلفاء سیوطی ص ۴۷ ، کنزل العمال ج ۳/ ۱۲۹ ، حدیث نمبر ۲۲۵۴ ، سیرہ حلبیہ ج ۳/ ۳۹۷ اور تاریخ یعقوبی ج / ۱۲۷ ، شرح نہج البلاغہ کی ج ۱ ۱۳۴ ، روایت کے مطابق اورصفوة الصفوی ج ۱/ ۹۸ نے بھی نقل کیا ہے کہ صرف ابو بکر کے سقیفہ کے خطبہ کو ذکر کرنے والوں میں جوہری ہے ۔

دفن کرنے کے بجائے دوسرے کام میں مشغول ہوئے ۱
حقیقت میں لوگوں نے سوموار سے منگل کے عصر تک تین کام انجام دئیے اول : سقیفہ میں رونما ہوئے مظاہرے اور تقریریں انجام دیں ، دوم ۔ ابو بکر سے پہلی بیعت اور سوم ۔ مسجد النبی میں اس کی عام بیعت ، عمر کی تقریر اور ابو بکر کی لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنا۔
مؤرخین کہتے ہیں ؛ جب ابو بکر کی بیعت کا کام اختتام کوپہنچا ، تو منگل کی شب کو لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازہ کی طرف بڑھے ۲ گھر میں داخل ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نماز پڑھی ، ۳
اس طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر امام جماعت کے بغیر نماز پڑھی گئی اور مسلمان گروہ گروہ گھر میں داخل ہوکر آپ پر نماز پڑھتے تھے ۴

پیغمبر خدا کی تدفین اور اس میں شریک افراد
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن مبارک کو جنہوں نے غسل دیا انہوں نے ہی اسے دفن بھی کیا ( عباس، علی علیہ السلام ، فضل و پیغمبر کا غلام صالح ) ، لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے اصحاب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن مبارک کو آپ
-----------
۱۔ طبقات ابن سعد ج ۲/ ق ۲/ ص ۷۸ طبع لندن۔
۲۔ سیرہ ابن ہشام ج ۴/ ۲۴۳ ، طبری ج ۲/ ۴۶۲، کامل ابن اثیر ج ۲/ ۲۲۵ ، ابن کثیر ج ۵/ ۲۴۸، سیرہ حلبیہ ج ۲ ۲۶۲ و ۲۹۴ موخر الذکر مآخذمیں بیعت کا کام تمام نہ ہونے کی صورت میں تجہیز رسول اللہ کیلئے آنے کی تاریخ معین نہیں کی گئی ہے ۔
۳۔ سیرہ ابن ہشام ج ۴/ ۳۴۳۔
۴۔۔طبقات ابن سعد ج۲/ ۷۰ ، کامل ابن اثیر ج ۲/ ۱۱ھء کے وقائع کے ضمن میں ، نہایة الارب ج ۱۸ ۳۹۲ ۔ ۳۹۳ )

کے خاندان والوں کو سپردکرکے خلیفہ کا انتخاب کرنے کیلئے سقیفہ چلے گئے ۱اس کے علاوہ یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تدفین چار افراد ۱کے توسط سے انجام پائی، حضرت علی علیہ السلام ، فضل ،قثم ، عباس کے بیٹے اور پیغمبر کا غلام شقرین ، اس کے علاوہ کہتے ہیں: اسامہ بھی تھے، غسل و تکفین اور دیگر کام بھی انہوں نے ہی انجام دئے ہیں ۳اور ابو بکر و عمر پیغمبر کی تدفیں کے وقت حاضر نہیں تھے ۴ عائشہ نے روایت کی ہے ؛ ہم رسول اللہ کی تدفین کے بارے میں بدھ کی نصف شب تک آگاہ نہ ہوئے ، جب بیلچوں کی آواز ہمارے کانوں تک پہنچی !۵
ایک اور روایت میں عائشہ نہ کہا ہے : ” ہم بیلچوں کی آوا ز سننے تک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تدفین کے وقت سے آگاہ نہیں ہوئے تھے ۶
مزید روایت کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رشتہ داروں کے علاوہ ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا اور انصار کے ایک قبیلہ نے زمین پر بیلچوں کی آواز اس وقت سنی جب وہ اپنے
---------
۱۔ ، طبقات ابن سعد ج۲/ ق۲/۷۰ اور البدء و التاریخ میں اس معنی کے قریب مطالب نقل ہوئے ہیں۔
۲۔ کنز ل العمال ج ۴/ ۵۴ و ۶۰ ۔
۳۔ العقد الفرید ج ۳// ۶ اور ذہبی نے بھی اپنی تاریخ میں اس معنی کے قریب نقل کیا ہے ۔
۴۔ کنز العمال ج ۳/ ۱۴۰ ۔
۵۔ سیرہ ابن ہشام ج ۴ ۳۴۲ ، طبری ج ۲/ ۴۵۲، ۴۵۵، ابن کثیر ج ۵/ ۲۷۰، اور اسد الغابہ ج ۱/ ۳۴ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حالات زندگی میں کہا گیا ہے دوسری روایتوں میں آیا ہے کہ بیلچہ کی آواز کا سننا منگل کی شب کو پیش آیا ہے جیسا کہ طبقات ج ۲/ ۱ ۲/ ۷۸ اور تاریخ الخمیس ج ۱/ ۱۴۱ میں آیا ہے ،ذھبی نے بھی اپنی تاریخ ج ۱/ ۳۲۷ میں ایسا ہی کہا ہے ، لیکن صحیح یہ ہے یہ بدھ کی شب کو سننے میں آیا ہے ، مسند احمد ج ۶/۶۲ میں کہا گیاہے : بدھ کی رات کے آخری حصہ میں تھا ۔
۶۔ مسند احمد ج ۶/ ۲۴۲ ، ۲۷۴۔

گھروں میں سوئے ہوئے تھے بعد میں بنی غنم کے بزرگ کہتے تھے ، ہم نے بیلچوں کی آواز آخر شب میں سنی ۱
---------
۱۔ طبقات ابن سعد ،ج ۲/ ق۲/ٰ ۷۸

حضرت ابو بکر کی بیعت کے مخالفین
عباس ! نحن نرید ان نجعل لک سھماً من ھذا الامر
عباس ! چونکہ آپ پیغمبر کے چچا ہیں ، اگر ہمارا ساتھ دیں گے تو خلافت میں سے آپ کا بھی ایک حصہ معین کریںگے ۔
ابوبکر کی پارٹی

فان کان حقا للمؤمنین فلیس لک ان تحکم فیہ!
اگر خلافت مومنوں کا حق ہے ، تو تم لوگ اس میں سے مجھے کوئی حصہ دینے کا حق نہیں رکھتے ہو اور اگر وہ ہمارا حق ہے تو اسے پورا ہمیں دینا چاہئے نہ اس کاایک حصہ
پیغمبر کے چچا عباس

ہم نے گزشتہ فصلو ںمیں کہا ہے کہ سقیفہ میں خلافت کے موضوع پر شور و غوغا اور بڑی کشمکس پیدا ہوگئی تھی اور مسلمان کئی دھڑوںمیں تقسیم ہوگئے تھے اور ہر گروہ ایک امیدوارکو خلافت کیلئے پیش کرتا تھا ، کچھ لوگ سعد بن عبادہ انصاری کو کچھ لوگ ابو بکرکو اور تیسرا گروہ علی علیہ السلام ( جو سقیفہ میں موجود نہیں تھے بلکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے) کی حمایت کرتا تھا ، ان میں ابو بکر کی پارٹی کا میاب ہوئی اور سعد بن عبادہ کی پارٹی مکمل طور پر شکست کھاگئی لیکن حضرت علی علیہ السلام کے طرفدار کامیاب گروہ کےساتھ ابھی بھی نبرد آزمااور حکومت وقت کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کرتے تھے اور کوشش میںتھے کہ انصار کی رای کو اپنے امیدوار کے حق میں حاصل کریں ۔
یعقوبی لکھتا ہے :
” مہاجرین اور انصار میںسے کچھ افراد نے ابو بکر کی بیعت کرنے سے انکار کیا اورحضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی طرف اپنے رجحان کا اظہار کیا ان میںعباس بن عبدا لمطلب ، فضل بن عباس، زبیر بن عوام ، خالد بن سعید ، مقداد بن عمرو، سلمان فارسی ، ابوذر غفاری ، عمار یاسر ، براء بن عازب اور ابی بن کعب تھے ۱ و ۲
اور ابو بکر جوہری کی کتاب ”سقیفہ“ اس طرح مذکور ہے :
” انہوں نے رات میںا یک انجمن تشکیل دے کر فیصلہ کیا کہ اس کام کے سلسلے میں مہاجرین اور انصار سے دوبارہ صلاح و مشورہ کیاجائے ۔ اس انجمن کے اراکین مذکورہ ناموں کے علاوہ عبادة ابن صامت ، ابو الھیثم بن تیھان اور حذیفہ تھے ۳
------------
۱۔ مذکورہ صحابی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بزرگ اصحاب میں سے تھے ، کتاب کے آخر پران کی زندگی کے حالات درج کئے جائیں گے ۔
۲۔ تاریخ یعقوبی ج۲/ ۱۲۴
۳۔ ابو بکر جوہری کی کتاب سقیفہ کی روایت شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،ج ۲/ ۴۴ اور اس کی تفصیل تحقیق ابو الفضل ابراہیم ج ۲/ ۵ میں ملاحظہ ہو۔

اس واقعہ کے بعد ابو بکر نے عمر ، ابو عبیدہ اور مغیرة بن شعبہ کو اپنے پاس بلایا اور ان سے پوچھا کہ اس سلسلہ میں تمہاری رائے کیا ہے ؟ تینوں افراد نے متفقہ طور پر کہا: آپ کو عباس بن عبد المطلب سے مفصل ملاقات کرنی چاہئے اور خلافت کے ایک حصہ کو ان سے مخصوص رکھنا چاہئے تا کہ وہ خود اور ان کے فرزند اس سے استفادہ کریں ، اگر عباس راضی ہوئے تو علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی طرف سے بے فکر ہو جاؤگے اور عباس کا آپ کی جانب میلان علی علیہ السلام کے ضرر میں آپ کے ہاتھ میں ایک حجت ہوگی ۱
ابو بکر نے اس مشورہ کو پسند کیا ور راتوں رات عمر ، ابو عبیدہ جراح اور مغیرہ کے ہمراہ عباس کے گھر گئے ۔
ابو بکر نے خداوندعالم کا حمد و ثنا بجالانے کے بعد کہا: بے شک خداوند عالم نے محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث کیا ہے تا کہ اپنے پیغام کو لوگوں تک پہنچا دے ان پر منت رکھیں ، ان کی سرپرستی کو سنبھالیں اور اپنی عمر شریف کو ان کے درمیان اس وقت گزاریں جب انھیں اپنی طرف بلائےں۔ جو ان کیلئے محفوظ رکھا تھا وہ انھیں عطا فرمایا : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رحلت کے وقت لوگوں کے کام کو ان پر ہی چھوڑدیا تا کہ جو کچھ وہ اپنے لئے مصلحت جانیں اخلاص کے ساتھ اسے اختیار کریں ، انہوں نے مجھے اپنے اوپر حکمراں اور اپنے کاموں پر نگہبان قرار دیا ،اور میںنے بھی اسے قبول کیا اور خداکی مدد سے مجھے اس
۱۔ جوہری کی سقیفہ کی روایت ہے کہ مشورہ صرف مغیرہ بن شعبہ نے دیا اور یہ حقیقت کے نزدیک ہے کہ یہ جماعت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے دو شب بعد عباس کے پاس گئی ۔
کا خوف نہیں ہے کہ اس کام کو نبھانے میں مجھ میں کمزوری یا پریشانی و وحشت نہیں ہے میں اپنی کامیابی کو خدا کی عنایت جانتا ہوں اور اسکی پناہ چاہتا ہوں اور اس کی طرف لوٹنے والاہوں ۔
مجھے مسلسل رپورٹ مل رہی ہے کہ بعض افراد عام لوگوں کے نظریات کے خلاف اظہار نظر کرکے تنقید کرتے ہیں اور مجھ پر آپ کے اعتماد کے بارے میں اعتراض کرتے ہیں ۔ یہ لوگ صرف آپ کی اجتماعی حیثیت اورآبرو کی آڑ میں یہ نیا کام انجام دے رہے ہیں ، لہذا آپ یا لوگوں کا ساتھ دیجئے یاان کو اس کج فکری سے منع کیجئے،اس وقت ہم آپ کے پاس آئے ہیں کہ خلافت میں آپ کیلئے بھی ایک حصہ کے قائل ہوجائیں تا کہ آپ خود اور آپ کے فرزند اس سے استفادہ کریں ، کیونکہ آپ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا ہیں ، لوگوں نے آپ کی اور آپ کے دوستی کی حیثیت کو جانتے ہوئے بھی آپ کو یہ نظر انداز کر دیا ہے اے بنی ہاشم ! مطمئن رہو کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم سے اور تم سے ہیں نہ کہ صرف تم سے مخصوص ہیں ۔
عمرنے اس بیان میں اضافہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ خیال نہ کیا جائے کہ ہمارا آپ لوگوں کے پاس آناہماری کمزوری اور آپسی تعاون کیلئے ہے، نہیں ! ایسا نہیں ہے بلکہ ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ مسلمانون کے اتفاق کئے گئے کام کے بارے میں آپ کی طرف سے مخالفت کی آواز سنی جائے کیونکہ اس کا نقصان آ پ اور ان لوگوں کو پہنچے گا ۔ لہذا آپ اپنے کام میںصحیح طور پر فکر کریں!
عباس نے خداوند عالم کی حمد و ثناکے بعد یوں جواب دیا: خداوند عالمآپ کے کہنے کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پیغمبر کی حیثیت سے مبعوث کیا ہے اور اپنے حامیوں اور مومنین کا مددگار اور آپ کے وجود کی برکت سے اس امت پر احسان کیا ۔
آخرکارآپ کو اپنے پاس بلالیا اور آپ کے لئے جو مناسب تھا وہی انجام دیا ور مسلمانوں کے کام کو ان پر چھوڑدیا تا کہ حق کی طرف ہدایت پائیں اور اپنے لئے اسے انتخاب کریں نہ یہ کہ حق سے منہ موڑ کر دوسری طرف جائیں ۱
اگر تم نے اس حق کی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام پر حاصل کیا ہے تو یہ ہمارا حق ہے اور تم نے غصب کیا ہے اور اگرپیغمبر کے پیرو ہونے کی حیثیت سے اس مقام و منزلت تک پہنچے ہو تو ہم بھی ان کے پیرو ہیں لیکن تمہارے کام میں ہم نے آگے بڑھ کر مداخلت نہیں کی ہے اور یہ جان لو کہ ہم معترض ہیں ، اگرمؤمنین کی وجہ سے تم پر خلافت واجب ہوئی ہے اور اس کے سزاوار ہوئے ہو تو ، چونکہ ہم بھی مومنین میں سے ہیں اور ہم اس پر راضی نہیں ہیں اس لئے یہ حق تم پر واجب و ثابت نہیں ہوگا ۔ یہ کیسا تناقض ہے کہ ایک طرف یہ کہتے ہو کہ مجھ پر اعتراض کرتے ہو اور دوسری طرف سے دعویٰ کرتے ہو تمہیں لوگوں نے منتخب کیا ہے اور رای دی ہے ؟ ایک طرف سے اپنے آپ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خلیفہ جانتے ہو اور دوسری طرف سے کہتے ہو کہ پیغمبر نے لوگوں کے کام کو انہی پر چھوڑدیا ہے تا کہ کسی ایک کو اپنے لئے منتخب کرلیں ، کیا انہوں نے تجھے منتخب کیا ہے ؟ لیکنجویہ کہتے ہو کہ خلافت میں ایک حصہ ہمارے لئے مخصوص ہے تمہاری جانب سے ، لہذایہ جو چیز تم مجھے دے رہے ہو اگر مؤمنین کا حق ہے تو اس کا اختیارتم نہیں رکھتے ہو ۱ اور اگریہ حق ہمار اہے تو پورا حق ہمیں دینا چاہئے ہم اپنے اس حق سے ایک حصہ لیکر باقی تمہیں سونپتے پر راضی نہیں ہیں ، تمہیں جاننا چاہئے کہ رسول خد ا ایسے ایک درخت کے مانند ہے جس کی ٹہنیاں ہم ہیں اور تم اس کے سایہ میں بیٹھنے والے ہو۔
گفتگو یہاں تک نا کام رہی اور ابو بکر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ عباس کے گھر سے باہر آگئے۔
پیغمبر کے چچاعباس اور چند افراد کا ہم نے اس فصل میں ذکر کیا ہے، ان کے علاوہ اور بھی نیک خو ، نامور اور اکابر اصحاب نے ابو بکر کی بیعت سے انکار کیا ہے اور صراحت کے ساتھ اس پر اعتراض کیا ہے حتی کہ اظہار مخالفت کیلئے ہڑتال کی اور پیغمبر کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا کے گھر میں دھرنا دیا، اس سلسلے میں تفصیلات اگلی فصل میں یبان کی جائیگی
------------
۱۔ جوہری کی کتاب سقیفہ اور الامامة و السیاسة میں اس طرح آیا ہے : ” اگر یہ تمہارا حق ہے تو ہم اس کے محتاج نہیں ہے ۔