پیغمبر خدا کی تدفین سے پہلے خلافت کے امیدوار
یاعلیّ امدد یدک ابایعک یبایعک الناس
اے علی ! اپنا ہاٹھ بڑھائیے تا کہ میں آپ کیبیعت کروں اور سب لوگ تیری بیعت کریں ۔
پیغمبر اکرم کے چچا ، عباس
فابیٰ ان یمد یدہ للبیعة و الرسول مسجیٰ بین ایدیھم
علی علیہ السلام نے اس حالت میں بیعت قبول کرنے سے انکار کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جنازہ ان کے سامنے زمین پر پڑا ہو
مؤرخین
خلافت کا پہلا امیدوار
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رشتہ دار اور اصحاب، رسول اللہ کی تجہیز و تکفین کو اختتام تک پہنچانے سے پہلے ہی خلافت کیلئے بیعت لینے کی تلاش میں لگ گئے، یہ تین گروہ تھے اور ہر گروہ اپنے سردار کو خلافت کیلئے امیدوار کے عنوان سے پیش کرتا تھا ۔ پہلے امیدوار علی ابیطالب علیہ السلام تھے۔
ابن سعد روایت کرتے ہیں کہ عباس نے علی علیہ السلام سے کہا:
” اپنے ہاتھ کو بڑھائیے میں بیعت کروں گا تاکہ اور لوگ بھی آپ کی بیعت کریں “۱
مسعودی کی روایت میں یوں آیا ہے :
” اے میرے چچیرے بھائی : آئیے میں آپ کی بیعت کروں گا تا کہ دو آدمی بھی آپ کی بیعت کی مخالفتنہ کر سکیں “ ۲
ذہبی اور دوسروں کی روایت میں یوں آیا ہے :
اپنے باتھ آگے بڑھائیے میں آپ کی بیعت کروں گا اور لوگ کہیں گے کہ پیغمبر کے چچا نے پیغمبر کے چچیرے بھائی کی بیعت کی ہے اس وقت آپ کے خاندان کے سب لوگ آپ کی بیعت کریں گے اور بیعت کا کام ایسے انجام پائے گا اور کوئی اس میں رخنہ نہیں ڈال سکے گا ۔ ۳
جوہری کی روایت میں آیا ہے کہ بعد میں عباس ،علی علیہ السلام کی سرزنش کرتے ہوئے کہتے تھے:
” جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وفات پائی تو ابو سفیان بن حرب اسی وقت ہمارے پاس آیا اور کہا ہم آپ کی بیعت کرناچاہتے تھے ۔ میں نے تجھ سے کہا
----------
۱۔ طبقات ابن سعد ج ۲/ ۳۸
۲۔ مسعودی کی مروج الذہب ج ۲/ ۲۰۰، تاریخ ذہبی ج ۱/ ۳۲۹ ، ضحی الاسلام ج ۳/ ۲۹۱ اور الامامة و السیاسة ابن قتیبہ ج ۱/ ۴۔
۳۔تاریخ السلام ج ۱/ ۳۲۹
اپنے ہاتھ کو بڑھاؤ تا کہ میں تیری بیعت کروں اور یہ شیخ ( قبیلہ کا سرداد ) بھی بیعت کرے گا ۔ یقینا اگر ہم دو آدمی آپ کی بیعت کرلیں گے تو عبد مناف کی اولاد میں سے ایک آدمی بھی مخالفت نہیں کرے گا اور جب بنی عبد مناف آپ کی بیعت کرلیں گے تو قریش سے کوئی مخالفت نہیں کرے گا اور جب قریش آپ کی بیعت کرلیں گے تو عربوں میں سے ایک شخص بھی آپ کی مخالفت نہیں کرے گا۔
تو آپ نے جواب میں کہا: ہم اس وقت رسول الله کے جنازہ کی تجہیز میں مصروف ہیں “۱
طبری کی روایت میں یوں آیا ہے :
” میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد چاہا تھا کہ آپ اس کام میں عجلت کریں لیکن آپ نے اس سے پرہیز کیا “‘ ۲
عباس اور ابو سفیان کے علاوہ اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے چند دیگر افراد بھی علی علیہ السلام کے حق میں کام کرتے تھے اور اس کی بیعت کے حامی تھے لیکن علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازہ کی تجہیز کے سبب خلافت کی فکر کو ذھن سے نکال دیا تھا اور وہ راضی نہیں ہوئے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جنازہ گھر میں چھوڑ کر خود اپنی بیعت کے پیچھے پڑیں ، اسی وجہ سے عباس بعد میں ان کی ملامت کرتے تھے کہ کیوں انہوں نے اپنے لئے بیعت لینے سے انکار کیا، حقیقت میں نہ عباس کا نظریہ صحیح تھا اور نہ انکی سرزنش بجا تھی ! کیونکہ
------------
۱۔ جوہری کی روایت کو ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ ج ۱/ ۱۳۱ میں کتاب سقیفہ سے نقل کیا ہے اور ۵۴ پر بھی خلاصہ کے طور پر درج کیا ہے اور ج ۹ میں خطبہٴ و من کلام لہ خاطب بہ اھل البصرہ کی شرح میں اور ج ۱۱ میں بھی نقل کیا ہے ۔
۲۔ طبری ج ۳/ ۲۹۴ ، العقد الفرید ج ۳/ ۷
اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچیرے بھائی کو ولایت پر معین فرمایا تھا( چنانچہ بعض مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے ) تو بیعت کرنے یا نہ کرنے سے علی علیہ السلام کے حق میں سے کوئی چیز کم نہیں ہوتی ۔
اگر مسلمان پیغمبر کی مرضی کو پورا کرنا چاہتے تو آپ پر ھذیان بکنے کی تہمت نہیں لگاتے فرض کریں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت اور پیرؤں کے اس کام میں لا پروائی اور غفلت کی ہے( جیسا کہ مسلمانوں کے ایک گروہ کا یہی عقیدہ ہے) تو عباس کو یہ حق نہیں تھا کہ اس تدبیر سے انتخاب کے حق کو دوسروں سے چھین لیں ۔ بہر حال اگر علی اس دن اپنے چچا کی نصیحت کو مانتے ، تو ابو بکر کی بیعت کو غلط کہنے ۱ والے علی علیہ السلام کے بارے میں بھی یہی اظہار نظر کرتے،اس وقت مخالفین ایک ایسی جنگ کی آگ کو بھڑکاتے جو برسوں تک نہ بجھ پاجاتی، کیونکہ وہ ایسے افراد تھے جو ہرگز یہ نہیں چاہتے تھے کہ نبوت و خلافت دونوں کا افتخار بنی ہاشم کو ملے۔
ابن عباس نے روایت کی ہے :
” حضرت عمر نے مجھ سے پوچھا ؛ کیا آپ جانتے ہیں کہ محمد؟ کے بعد کس چیز نے لوگوں کو آپ سے دور کیا ، میں نے جواب میں کہا؛ اگر نہیں جانتا ہوں تو امیر المؤمنین مجھے آگاہ کریں گے ، کہا؛ وہ نہیں چاہتے تھے کہ نبوت اور خلافت آپ میں جمع ہوجائے اور اس پر فخر و مباہات کریں “ ۲
ان باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے سینوں میں کس حد تک کینہ کی آگ تھی کہ (غدیر اور
۱۔ہم ابو بکر کی بیعت کے بارے میں عمر کے نظریہ کو بعد میں لکھیں گے جس میں عمر نے ابو بکر کی بیعت کو لغزش سے تعبیر کیا ہے )
۲۔ اس روایت کے باقی حصہ کو طبری سے اس وقت بیان کریںگے جب ابو بکر کی بیعت کے بارے میں ابن عباس کا نظریہ پیش کریں گے ۔
دوسری جگہوں پر) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اقرار اور یاددہانی بھی اس آگ کو بجھا نہ سکی بلکہ اس کو کچھ اور ہی ہوا دے دی، اس لحاظ سے علی علیہ السلام اپنے امور اپنے چچا عباس سے دور اندیش تر اور آپ کی نظر عمیق تر تھی ، اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام ہرگز حاضر نہ تھے کہ ان کی بیعت گھر میں مخفیانہ طور پر کی جائے اور لوگوں کو اس کے مقابلہ میں کھڑے ہونے کی فرصت مل جائے جیساکہ آپ نے عثما ن کے قتل ہونے کے بعد بھی ایسی بیعت سے انکار کیا تھا۱
ان سب چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ، کیا علی علیہ السلام( جو پیغمبر خدا کی نظروں میں برگزیدہ ترین شخصیت تھے) کےلئے سزاورار تھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نسبت گزشتہ فداکاریوں اور عشق و محبت کے باوجو دآپ کے جنازہ کو دوسروں کی طرح بے غسل و کفن چھوڑ کر اپنی بیعت لینے کیلئے دوڑپریں ؟!! علی علیہ السلام کے پاک ضمیر اور پیغمبر کے عشق و محبت سے لبریز دل سے کبھی اس چیز کی امید نہیں رکھنی چاہئے ۔
خلافت کا دوسرا امیدوار
انصار نے سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوکر کہا : ہم اس کام کی باگ وڈور کو محمد کے بعد سعد بن عبادہ کے ہاتھ سونپتے ہیں اور سعد کو بیمار حالت میں سقیفہ لے آئے
سعد نے خدا کی حمد و ثنا کے بعد دین اسلام کی نصرتمیں انصار کی پیش قدمی اور اسلام میں ان کی برتری کی طرف اشارہ کیا، اس کے علاوہ انصار کے بارے میں پیغمبر خدا اور آپ کے اصحاب کا احترام ان کے جہاد میں حصہ لینے اور عربوں کو صحیح راستے پر لانے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ان سے راضی حالت میں دنیا سے رخصت ہونے تک بیان کیا ، اس کے بعدکہا :
اس کا راہ حل آپ لوگوں کو تلاش کرنا چاہئے نہ دوسروں کو، سب نے ایک زبان ہوکر جواب دیا : آپ کے خیال کی ہم تائید کرتے ہیں او رآپ کی بات صحیح ہے ، ہم آپ کی رائے کی ہرگز مخالفت نہیں کریں گے اور ان امور کی باگ ڈور آپ کے ہاتھ میں دیدیں گے ، اس کے بعد گفتگو اور کچھ مذاکرات ہوئے۔
گفتگو کے آخر میں انہوں نے پوچھا : اگر قریش کے مہاجرین نے اسے قبول نہیں کیا اس خیال میں کہ ہم مہاجر ، رسول خدا کے اصحاب اور ان کے دوست اور رشتہ دار ہیں لہذا ان کے بعد اس امر میں اختلاف مناسب نہیں ہے تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے۔
بعض لوگوں نے کہا: اگر ایسا اعتراض ہو تو ہم جواب میں لکھیں گے : ایک امیر آپ میں سے اور ایک امیر ہم میں سے چنا جائے۔
سعد بن عبادہ نے کہا: یہ بذات خود ہماری پہلی شکست ہوگی ۱
تیسرا امیدوار ، یا کامیاب امیدوار
سقیفہ میں انصار کے جمع ہونے اور ان کی گفتگو کی خبر ابو بکر اور عمر کو پہنچی ، تو دونوں ابو عبیدہ جراح
----------
۱۔ تاریخ طبری ج ۳/ ۴۵ میں ضمن حوادث ۱۱ھ ء ، تاریخ ابن اثیر ج ۲/ ۲۲۲، الامامة و السیاسةابنفتیبة ج ۱/ ۵، جوہری سقیفہ میں ابن ابی الحدید سے روایت کرکے ج ۶ میں شرح خطبہ و عن کلام لہ فی معنی الانصار ہیں ۔
کہ ہمراہ بغیر کسی تاخیر کے سقیفہ کی طرف روانہ ہوئے۔
انصار کے بنی عجلان طائفہ سے اسید بن حضیر ۱ ، عویم بن ساعدہ ،عاصم بن عدی، مغیرہ بن شعبہ و عبد الرحمان بن عوف بھی ان سے جا ملے ۔
ان لوگوں نے خصوصی طور پر اس دن ابو بکر کی بیعت کیلئے انتہائی تگ و دو کی اور قابل ذکر خدمات انجام دئے، لہذا دونوں ہی خلیفہ ابوبکر اور عمر ہر وقت ان کی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کا خیال رکھتے تھے ۔
ابو بکر انصار میںسے کسی ایک کو بھی اسید بن حضیر پر ترجیح نہیں دیتے تھے اور عمر اسے اپنا بھائی کہتے تھے اور اس کے مرنے کے بعدیہ کہتے تھے کہ وہ میرا حق شناس تھا۔
عویم جب مرگیا تو عمرنے اس کی قبر پر بیٹھ کر کہا: روئے زمین پر کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس صاحب قبر سے بہتر ہوں “
ابو عبیدہ کو مشرقی روم کے پادشاہ سے لڑنے کیلئے بھیجا گیا نیز اسے لشکر کا کمانڈ ڑمقرر کیا گیا ۔ عمر نے جس وقت اپنا خلیفہ اور جانشین معین کررہے تھے تو اس کی موت پر افسوس کررہے تھے کیونکہ اسے اپنے بعد مسلمانوں کا خلیفہ بنانا چاہتے تھے لیکن وہ تو عمواس نامی طاعون ہی میں فوت کرچکا تھا ۔
دوسرے خلیفہ نے مغیرہ بن شعبہ کیلئے کافی تگ و دو کی تھی نیز اس پر زنا کی حد جاری نہیں ہونے دیا۔
--------
۱۔ سیرہ ابن ہشام ج ۴/ ۳۳۵
اور ا س کا نام ہمیشہ گورنروں کی فہرست میں ہوا کرتا تھا عمر نے عبد الرحمان بن عوف کا احترام کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی اور اپنے مرنے کے بعد تعیین خلافت کی کنجی اس کے حوالہ کردی۔
یہ وہ بزرگ شخصتیں تھیں جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازہ کو آپ کے خاندان والوں میں چھوڑ کو خود سقیفہ کی طرف دوڑپڑیں اور انصار سے حکومت اور فرمانروائی کے مسئلہ پر بر سر پیکار ہوگئے اورحضرت ابو بکر کے طرفدار ہوکر اس کی بیعت کی، اس طرح سے ابو بکر نے خلافت کی گیند میدان خلافت میں دوسرے امیدواروں سے چھین لی۔
آیند ہ فصول میں انشا ء اللہ اسکی تفصیلات آئیگی
سقیفہ میں ابو بکر کی بیعت
لا نبایع الا علیاً
ہم علی علیہ السلام کے سوا اورکسی کی بیعت نہیں کریں گے
انصار کا ایک گروہ
سقیفہ میں خلافت پر ہنگامہ
ہم کہہ چکے ہیں کہ رسول خدا کے اکابر اصحاب آپ کے جنازہ کو چھوڑ کر سقیفہ میں چلے گئے تا کہ آپ کا کسی کوجانشین معین کریں اور اس سلسلے میں ہر گروہ نے اپنی رای کا ظہار کیا اور ہر کوئی کسی نہ کسی کو امید وار کی حیثیت سے خلفہ نامزد کرتا اور اس کی حمایت کا اعلان کرتا تھا بات کچھ اتنی آگے بڑھی کہ نزاع اور کشمکش کی حد تک پہنچ گئی، ان میں سے کچھ لوگ ابو بکر کی حمایت کرتے تھے کہ جن میں سرفہرست عمرتھے وہ لوگوں کو ابو بکر کی بیعت کرنے کیلئے ترغیب دلاتے اور اس کے مخالفوں کو دھمکیاں دیتے تھے ۔ اس وقت ابو بکرنے کھڑے ہوکر عمر کو خاموش کرایا ۔ خدا کی حمد و ثنا بجا لائے اور مہاجرین کے افتخارات اور کارگردیوں کو بیان کرنے کے بعد کہا؛ لوگو ! مہاجرین وہ افراد ہیں جنہوں نے روئے زمین پر سب سے پہلے خد اکی پرستش کی ہے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لائے ہیں وہ پیغمبر کے دوست اور اعزّہ ہیں ۔ وہ پیغمبر کے بعد خلافت کیلئے سزاوار تر ہیں اور افضل ہیں ۔ اس سلسلے میں ظالم کے سوا کوئی ان کی مخالفت اور ان سے جھگڑا نہیں کرے گا ۔
اس کے بعد ابو بکر نے انصار کی فضیلت بھی بیان کی اور اپنی بات یوں جاری رکھی :
مہاجرین : جو اسلام میںسبقت حاصل کرنے کا افتخار رکھتے ہیں ۔۔ ہمارے پاس آپ کے مقام و منزلت کے برابر کوئی نہیں ہے ، لہذا اس حساب سے ہم امیر ہیں اور آپ وزیر
حباب بن منذور اپنی جگہ سے اٹھ کر بولا: ” اے انصار ! حکومت کی باگ ڈور کو مضبوطی سے پکڑ لو تا کہ دوسرے آپ کی حکومت کے ماتحت زندگی گزاریں اور کسی کو آپ کی مخالفت کی جراٴت نہ ہو ۔ ایسا نہ ہو کہ آپس میںا ختلاف پیدا ہو ورنہ دشمن اس سے فائدہ اٹھا کر آپ کی رائے کو بے کار کردے گا اور آپ لوگوں کی شکست قطعی ہوجائے گی ۔ یہ لوگ اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکیں گے جو تم نے سنا ہم اپنے لئے ایک امیر کا انتخاب کریں گے اور وہ بھی اپنے لئے ایک امیر کا انتخاب کر لیں ۔
عمر نے کہا : ایک خط پر دو پادشاہ حکومت نہیں کرسکتے ،خدا کی قسم عرب ہر گز اس پر راضی نہیں ہوں گے کہ تم لوگ ان پر حکومت کرو جب کہ ان کا پیغمبر آپ لوگوں میں سے نہیں ہے ، لیکن عربوں کیلئے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ حکومت ان کے ہاتھ میں ہے جن میں سے پیغمبر بھی ہیں۔
ہم اپنے اس دعویٰ کے بارے میں ایک واضح دلیل اور روشن مآخذ کے مالک ہیں ۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پادشاہی اور اس کی حکومت کی وراثت کے بارے میں ہم سے کون مقابلہ کرسکتا ہے ؟ چونکہ ہم ان کے دوست اور قبیلہ والے ہیں ۱
مگر یہ کہ اپنے آپ کو کسی باطل راستہ پر لگادے یا خود کو کسی گناہ میں آلودہ کیا ہو، خود کو ہلاکت کے بھنور میں ڈال دیاہو ۔
حباب بن منذر دوبارہ اپنی جگہ سے اٹھا اور بولا : اے انصار ! رک جاؤ اور اس شخص اور اس کے دوستوں کی باتوں پر کان نہ دھرو، یہ تم لوگوں کا حق تلف کریں گے اور اس کام میں آپ کو نقصان پہنچائیں گے ، لہذا اگر انہوں نے آپ لوگوں کی تجویز کی مخالفت کی تو انھیں اس شہر سے جلا وطن کردو اور حکومت کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھوں میں لے لو خدا کی قسم اس کام کیلئے مستحق ترین افراد تم لوگ ہو ، یہ وہ افراد ہیں جو ہرگز حاضر نہ تھے اس دین کو قبول کریں انہوں نے تمہاری تلواروں کے خوف سے ہتھیار ڈالے ہیں ۔
میں تمہارے درمیان ا س لکڑی کے مانند ہوں جو اونٹوں کے اصطبل میں رکھی جاتی ہے تاکہ کھجلی آنے پر اونٹ اپنے بدن کو اس کے ساتھ رگڑ لیں ( یہ اس بات کی طرف کنایہ ہے کہ مشکل اوقات میں میرے مشورہ کا سہارا لیں ) اور ا س مضبوط درخت کے مانند ہوں کہ طوفان ِ کے حوادث
-----------
۱۔ جب علی علیہ السلام نے اس استدلال کو سنا تو فرمایا: انہون نے نبوت کے درخت سے استدالال کیا ہے جبکہ اس درخت کے میوہ کو بھول گئے ( احتجوا بالشجرة و اضاعوا الثمرة ) مہاجرین اس بناپر خلافت کو اپنا حق جانتے تھے کہ وہ قریش میں سے ہیں اور پیغمبر کے رشتہ دار ہیں پیغمبر کے رشتہ دار نہیں تھے اس لئے ان کو خلافت کا حقدار نہیں سمجھتے تھے ، علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے فرمایا: آپ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رشتہ دار ہونے کے ناطے اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھتے ہیں تو پھر کیوں ان لوگوں کو بھلائے بیٹھے ہو جو اس درخت کے میوے اورپیغمبر کے رشتہ دار ہیں۔
حوادث میں لوگ اس کے نیچے پناہ لیتے ہیں ۔ بڑے بڑے کاموں کے بارے میں مجھ پر بھروسہ کرتے ہیں اور میری طاقت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، خدا کی قسم اگر چاہتے ہو تو ہم جنگ کے شعلوں کو پھر سے بھڑکادیتے۔ خدا کی قسم جو بھی ہماری تجویز کی مخالفت کرے گا میں اپنی تلوار سے اس کی ناک کاٹ کر اسے ذلیل خوار کردوں گا ۔
عمر نے کہا؛ پھر توخدا تجھے موت دے !
اس نے جواب میں کہا: خدا تجھے موت دے “ عمر نے اسے پکڑ کر اس کے پشت پر ایک لات ماری اور اس کے منہ کو مٹی سے بھر دیا ۱
اس کے بعد ابو عبیدہ نے جھلّاتے ہوئے بولنا شروع کیا: اے انصار کی جماعت! ” تم پیغمبر خدا کے سب سے پہلے یار اور حامی تھے ، اس وقت تم لوگ تبدیلی لانے والوںمیں پہل نہ کرو!
اس اثناء میں، بشیر بن سعد خزرجی ، ( نعمان بن بشیر کا باپ جو خزرج کے سرداروں میں شمار ہوتا تھا سعد بن عبادہ اور اسکے درمیان دیرینہ حسادت ۲ بھی تھی ) اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا : اے انصار کی جماعت !
خدا کی قسم اگر چہ ہم مشرکین سے جہاد کرنے اور ترویج دین میں طولانی سابقہ رکھنے
---------
۱۔ جملہ ” اسے پکڑ کر“ جوہری کی سقیفہ کی روایت میں ہے ، ملاحظہ ہو شرح ابن ابی الحدد ج ۶/ ۲۹۱
۲۔- جملہ سابقہ حسادت “ تا آکر ، کو جوہیر نے کتاب سقیفہ میں نقل کیا ہے ملاحظہ ہو شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۶، و من کلام لہ فی منی الانصار “ کی تشریح میں )
میں صاحب فضیلت ہیں ، لیکن خدا کی خوشنودی ، پیغمبر خد اکی فرمانبرداری اور اپنے لئے مشکلات برداشت کرنے کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں رکھتے تھے ، لہذا شائستہ نہیں ہے کہ ہم لوگوں کے سامنے غرور کے ساتھ پیش آئیں ہمارا مقصد دنیوی آبرو حاصل کرنا نہیں تھا اور یہ خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جو ہمیں عطا ہوئی ہے ، محمد قریش کے خاندان سے ہیں اور آپ کے رشتہ دار آپ کے وارث اس کے زیادہ حقدار ہیں، میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں خداوند اہر گز ہمیں اس کام میں ان سے لڑتے ہوئے نہیںدیکھے گا ، تم لوگ بھی خداسے پنا ہ مانگو اور ان سے مخالفت اور جنگ نہ کرو۔
ابو بکر نے کہا : عمر او رابو عبیدہ یہاں پر حاضر ہیں ان میں سے جس کی بھی چاہو ، بیعت کرو۔
عمر اور ابو عبیدہ نے ایک زبان ہوکر کہا: خدا کی قسم آپ کے ہوتے ہوئے ہم ہرگز ایسا اقدام نہیں کریں گے ۱
عبد الرحمان بن عوف نے اپنی جگہ سے اٹھ کر یوں کہا : اے انصار کی جماعت ! اگر چہ اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے کہ آپ لوگوں کی بہت فضیلت ہے ، لیکن اس کے باوجود اس امر سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ہے کہ آپ لوگوں میں حضرت ابو بکر، حضرت عمرا ورعلی علیہ السلام، کے مانند لوگ نہیں پائے جاتے۔
-----------
۱۔ ہم نے اختصار کی وجہ سے اس گفتگو کا باقی حصہ اور اس پر اپنی تفسیر لکھنے سے اجتناب کیا ہے ۔
منذر بن ارقم اٹھا اور ر اس کے جواب میں یوں بولا :ہم مذکورہ اشخاص کے فضل سے انکار نہیں کرتے خاص کر اگر ان تین اشخاص میں سے کوئی ایک فرد حکومت کی باگ ڈور سنبھالےتو ایک فرد بھی اس کی مخالفت نہیں کرے گا اس کا مقصود علی ابن ابیطالب علیہ السلام تھا ۱
اس وقت تمام انصار یا ان میں سے ایک جماعت نے بلند آواز میں کہا : ہم علی علیہ السلام کے سوا کسی اور کی بیعت نہیں کریں گے ۔
طبری اور ابن اثیر نے نقل کیا ہے : ۲جب عمر نے ابوبکر کی بیعت کی تو اس وقت انصار نے کہا: ہم علی علیہ السلام کے سوا کسی اور کی بیعت نہیں کریں گے ۔
زبیر بن بکار کہتا ہے :۳
جب انصار کو خلافت نہ ملی تو انہوں نے کہاکہ : ہم علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور کی بیعت نہیں کریں گے۔
حضرت ابو بکر کی بیعت میں ایک عجیب سیاست
عمراس داستان کو نقل کرتے اس طرح کہتے ہیں: ” اس قدر شور مچا مجھے ڈر لگنے لگا کہ کہیں
------
۱۔ تاریخ یعقوبی ج ۲/ ۱۰۳ ، :
و ان فیھم رجلاً لو طلب ھذا الامر لم ینازعہ فیہ احد، یعنی علیّ ابن ابیطالب علیہ السلام )
۲۔ طبری ج ۲/۴۴۳، اور ابن اثیر ج ۲/ ۲۲۰،
۳۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۶ میں کتاب موفقیات سے یہ روایت نقل کی گئی ہے اور ج ۲/ ۱۲۲ میں بھی اس روایت کو نقل کیا ہے )
اختلاف پیدا نہ ہو ، میں نے ابو بکر سے کہا: اپنے ہاتھ کو آگے بڑھائیے تا کہ آپ کی بیعت کروں ۱
ایک دوسری روایت میں عمر سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے کہا:
” ہم ڈر گئے کہ اگر اس اجتماع میں بیعت نہ لی جاگئی تو لوگ منتشر ہوجائیں گے، اور ان سے بیعت لینے کا موقع ہاتھ نہیں آئے گا اور کسی اور کی بیعت ہو جائے گی اور اس وقت ہم مجبور ہوجائیں گے کہ اپنی مرضی کے خلاف کسی اور کی بیعت کریں یا اس کی مخالفت کریں اور ایک دوسرا فتنہ پیدا ہوجائے ۔
عمر اور ابو عبیدہ بیعت کرنے کے ارادہ سے ابو بکرنے آگے بڑھے لیکن اس پہلے کہ ان کے ہاتھ ابوبکر کے ہاتھ تک پہنچ جائےں بشیر بن سعد نے ان پر سبقت لے لی اور آگے بڑھ کر ابو بکر کی بیعت کرلی۔
حباب بن منذر نے چلا کر کہا؛ اے بشیر بن سعد ! اے بد بخت ! تم نے قطع رحم کیا ، تم نہیں دیکھ سکے کہ تیر اچچیرا بھائی حاکم مقرر ہو ؟
بشیر نے کہا : ” خدا کی قسم ہر گز ایسا نہیں ہے ، لیکن میں نہیں چاہتا کہ ایک ایسی جماعت سے بر سر پیکار ہوجاؤں جن کیلئے خداوند عالم نے ایک حق قرار دیا ہے “
قبیلہٴ اوس کے بعض بزرگوں نے جن میں اسیر بن حضیر بھی شامل تھا جب بشیر کو ابو بکر کی
-----------
۱۔ سیرہ ابن ہشام ج ۴/ ۲۳۶ اور تمام موخین جنہوں نے بیعة ابی بکر کانت فلتة کی روایت کو نقل کیاہے اس جملہ کو روایت کیا ہے ، اس کے علاوہ تاریخ ابن اثیر ج ۵ / ۲۴۶ ہم ڈر گئے کہ دوسرا فتنہ نقل کیا ہے ۔
بیعت کرتے دیکھا اور قریش کی دعوت کو سنا خزرج والوں کی ان باتوں کے بھی شاہد تھے جو سعد بن عبادہ کو منتخب کرناچاہتے تھے انھوں، نے کہا: خدا کی قسم ! اگر چہ قبیلہ خزرج والے اس کام کی باگ ڈور ایک بار بھی اپنے ہاتھ میں لے لیں اور آج اس حساس موقع پر وہ کامیاب ہوجائیں تو ہمیشہ کیلئے وہ اس فضیلت کے مالک بن جائیں گے اور ہرگز تم لوگوں کو یہ فضیلت نصیب نہ ہوگی ، لہذا جتنا جلد ممکن ہوسکے اٹھ کر ابو بکر کی بیعت کرو ۔
ابو بکر جوہری نے کتاب سقیفہ میں نقل کیا ہے : ” جب قبیلہٴ اوس نے قبیلہٴ خزرج کے ایک سردار کو ابو بکر کی بیعت کرتے دیکھا تو اسید بن حضیر جو قبیلہٴ خزرج کا ایک سردار تھا نے سعد بن عبادہ کی کامیابی کو روکنے کیلئے فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کر ابو بکر کی بیعت کی ۱ خزرج کے کام میں اوس کی کارشکنی اور رخنہ اندازی کے بعد لوگ جوق در جوق اٹھے اور ہر طرف سے آگے بڑھ کر ابو بکر کی بیعت کرنے لگے اور کہا جاتا ہے کہ ایک ایسا ہجوم ہوا کہ قریب تھا سعد بن عبادہ پیروں تلے دب جائے۔
تاریخ یعقوبی میں یوں آیا ہے:
” لوگ ابو بکرکی بیعت کرنے کیلئے سعد اور اس کےلئے بچھے فرش پر اس طرح دوڑے کہ قریب تھا وہ کچل جائے جو لوگ سعد کے اطراف اور حوالی موالی میں شمار ہوتے تھے چلائے احتیاط سے کام لو ورنہ سعد دب جائےں گے۔
----------
۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۶/میں و من کلام لہ فی معنی الانصار ملاحظہ ہو۔
عمر نے جواب میں کہا ؛ اسے ماڑ ڈالو خدا اسے مار ڈالے ، اس کے بعد سعد کے سرہانے پر کھڑے ہو کر کہا ؛ تجھے اس طرح پامال کرنا چاہتا ہوں کہ تیرے بدن کے اعضا چور چور ہوجائیں۔ یہا ں پر قیس بن سعد آگے بڑھے اور عمر کی داڑھی پکڑ کر کہا:
خدا کی قسم اگر سعد کے سرسے ایک بال بھی کم ہوجائے تو تیرے دانتوں میں سے ایک دانت بھی سالم نہ بچے گا ۔
ابو بکر نے فریاد بلند کی : اے عمر !خاموش رہنا اس نازک موقع پر امن و سکون کی اشد ضرورت ہے ۱
عمر ،سعد کو اپنے حال پر چھوڑ کر واپس لوٹے ۔ اس وقت سعد نے عمر سے مخاطب ہوکر کہا: خدا کی قسم ! اگر میں اٹھ سکتا تو مدینہ کی گلی کوچوں اور اس کے اطراف میںمیرا ایسا نعرہ سنتے کہتم اورتمہارے دوست ڈر کے مارے بل میں چھپ جاتے خدا کی قسم تجھے ایک ایسے گروہ کے پاس بھیج دیتا کہ تم ان کے فرمانبردار ہوتے نہ فرمان روا، اس کے بعد اپنے حامیوں کی طرف مخاطب ہوکر بولا : مجھے یہاں سے باہر لے چلو پھر ان لوگوں نے اسے اپنے کاندھوں پر اٹھا کر گھر پہنچا دیا“ ۲
ابو بکر جوہری کہتا ہے :
” عمر اس دن یعنی ابوبکر کی بیعت کے دن کمر کس کر ابو بکر کے آگے پیچھےہورہے تھے اور نعرہ
--------
۱۔ یہاں پر اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دو خلیفوں نے کس طرح سیاست میںا یک دوسرے کی مدد کی ۔
۲۔ تاریخ طبری ج ۲/ ۴۵۵، ۴۵۹، تاریخ یعقوبی ج / ص ۱۲۳ ۔
لگا رہےتھے: سنو!لوگوں نے ابو بکر کی بیعت کرلی ہے
لوگوں نے ابو بکر کی بیعت کرنے کے بعد اسی حالت میں اسے مسجد میں لے آئے تا کہ اور لوگ بھی ان کی بیعت کریں ، علی علیہ السلام اور عباس (جو ابھی رسو خدا کے بدن کو غسل دینے سے فارغ نہیں ہوئے تھے )نے مسجد النبی سے تکبیر کی آواز سنی ، علی علیہ السلام نے پوچھا :
یہ شور و غل کیسا ہے ؟
عباس نے کہا: آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا ہے ! اس کے بعد علی سے مخاطب ہوکر کہا : میں نے آپ کو کیا کہاتھا ۱
سقیفہ کی بیعت کا اختتام
تاریخ یعقوبی میں آیا ہے :
” جب لوگوں نے سقیفہ میں ابوبکر کی بیعت کی ، براء بن عازب نے اضطراب و گھبراہٹ کے عالممیں بنی ہاشم کے دروازہ کھٹکھٹایا اور فریاد بلند کی : اے گروہ بنی ہاشم ، آگاہ ہوجاؤ ! لوگوں نے ابو بکر کی بیعت کرلی ہے ۔
بنی ہاشم ایک دوسرے کی طرف تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہتے تھے : مسلمان تو ہماری ، یعنی ہم محمد کے نزدیک ترین رشتہ داروں کی عدم موجودگی میںکوئی کام انجام نہیں دیتے تھے ؟!
عباس نے کہا : کعبہ کے رب کی قسم ! انہوں نے ایسا کام انجام دیا ہے جسے انجام نہ دینا چاہئے تھا فعلوھا و ربّ الکعبة ، مہاجر و انصار سب کو یقین تھا کہ خلافت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور کو نہیں ملے گی ۱ یعقوبی براء بن عازب سے نقل کرتے ہیں :
” عباس نے بنی ہاشم سے مخاطب ہوکر کہا: تمہیں ہمیشہ کیلئے حقیر بنادیا گیا ہے ، جان لوکہ میں نے تم سے کہا تھا ، لیکن تم لوگوں نے میری نافرمانی کی “
اس طرح ابو بکر کی خصوصی بیعت سقیفہ میں اختتام کو پہنچی۔
|