عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
 
پیغمبر خدا کی وفات
ترکوا رسول الله کما ھو و اسرعوا الی السقیفة
انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازہ کو زمین پر چھوڑ کر خلیفہ منتخب کرنے کیلئے خود سقیفہ کی طرف دوڑ پڑے ۔
مؤرخین

رسول خدا کی رحلت اورحضرت عمر کا اس سے انکار
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سوموار کی ظہر کو اس دنیا سے رحلت فرمائی ، اس وقت عمر مدینہ میں ۱ تھے اور ابوبکر ” سنح“ میں اپنے ذاتی گھر۲ پر تھے ۔
عائشہ کہتی ہیں : ” عمر اور مغیرة بن شعبہ اجازت حاصل کرنے کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کمرے میں داخل ہوئے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہرے پر ڈالے گئے کپڑے کو اٹھا کرکنارے رکھدیا ، عمرنے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھااور چیخ کر کہا ” آہ ! رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! انتہائی بیہوشی کے عالم میں پڑے ہیں ! “ اس کے بعد اٹھے اور
----------
۱۔ سیرہٴ ابن ہشام ج ۴/ ص ۳۳۳۱۔ ۳۳۴ اور تاریخ طبری ج ۲/ ص ۲۴۲ )

۲۔ ابو بکر کا گھر سنح میں تھا ، سنح مدینہ کے مشرق میںا یک میل کے فاصلہ پر واقع تھا ، انصار کے بنی حارب بھی وہیں سکونت کرتے تھے ۔کمرہ سے باہر چلے گئے ۔
کمرے سے باہر آتے ہوئے مغیرہ نے حضرت عمر کی طرف مخاطب ہوکر کہا : ” اے عمر ! خدا کی قسم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس دنیا سے رحلت فرمائی ہے “
عمر نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو ! رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہرگز مرے نہیں ہیں ، لیکن تم ایک فتنہ گر ہو اس لئے ایسا کہتے ہو! رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی نہیں مریں گے جب تک کہ منافقین کو نابود نہ کرکے رکھدیں ۱ عمر نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جو بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موت کا ذکر کرتا تھا اسے قتل کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہتے تھے :
” لوگوں میں سے بعض منافقین گمان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس دنیا سے رحلت فرمائی ہے ، جبکہ ایسا نہیں ہے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہیں مرے ہیں بلکہ موسی بن عمران کی طرح جو چالیس دن تک لوگوں سے غائب ہوکر پھر واپس لوٹے تھے اور لوگوں نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ وہ مرگئے ہیں ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اپنے خدا کے ہاں چلے گئے ہیں اور خدا کی قسم وہ واپس لوٹیں گے اور ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر رکھدوں گا جو یہ کہتے ہیں کہ آپ وفات کرگئے ہیں ۲
------------
۱۔ یہ عبارت ابن سعد کی طبقات ج ۲/ق ۲/ ۱۵۴ سے نقل کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ متقی کنزل العمال ج ۴/ ۵۰ ، ذہبی نے اپنی تاریخ میں ج ۱/ ۳۷ ، ذینی دحلان نے حاسیة الحلیہ ج ۳/ ۳۸۹ میں ، نہایة الارب ج ۱۸ ، ۳۹۹، مسند احمد ج ۶/ ۲۱۹ میں اس کو درج کیا ہے ۔
۲۔ تاریخ یعقوبی ج ۲/ ۹۵ ، طبری ج ۲/ ۴۴۲ ، ابن کثیر البدایہ و النہایة ج ۵ ۲۴۴ ، تاریخ الخمیس ج ۲/ ۱۸۵ اور تیسیر الوصول ج ۲/ ۴۱ ۔

اس کے بعد بولے : جو بھی یہ کہے کہ آپ نے وفات پائی ہے ، میں اس تلوار سے اس کا سر قلم کرکے رکھدونگا ۱رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمان کی طرف گئے ہیں ۲ اس وقت ابن ام مکتوم ۳ نے مسجد النبی میں حضرت عمر کےلئے اس آیت کی تلاوت کی :
” اور محمد تو صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں ۔ کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل ہوجائیں تو تم الٹے پیرؤں پلٹ جاؤ گے جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا خدا تو عنقریب شکر گزاروں کو ان کی جزا دے گ ۴
پیغمبر خدا کے چچا عباس نے بھی کہا : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قطعی طور پر فوت ہو چکے ہیں اور میں نے ان کے چہرے پروہی علائم و آثار مشاہدہ کئے ہیں جو فرزند عبد المطلب کے چہروں پر موت کے وقت نمودار ہوتے ہیں “ ۵
----------
۱۔ تاریخ ابو الفداء ج۱ ۱۶۴ ، تاریخ ابن شحنہ کے حاشیہ الکامل ۱۱۲ ، سیرہٴ زینی دحلان ، ج ۳/ ۳۹۰ میں لکھا گیا ہے کہ حضرت عمر نے کہا : ” جو بھی یہ کہے کہ محمدمرگئے ہیں میں اسپر تلوار چلاؤں گا “ اور اس کتاب کے صفحہ ۳۸۷ میں لکھتا ہے کہ : عمر ابن خطاب نے اپنی تلوار کو باہر کھینچ لیا اور جوبھی یہ کہتا تھا محمد فوت ہوئے ہیں اسے دھمکی دیتے تھے ، اور صفحہ ۳۸۸ میں یوں آیا ہے : عمر نے تلوار کے دستہ کو ہاتھ میں پکڑلیا اورکہا: میں کسی کی زبان سے یہ نہ سنوں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مرگئے ہیں ورنہ اس تلوارسے اس پر وار کرونگا ۔
۲۔ جملہ ” آسمان پر چلا گیا ہے “ تاریخ ابو الفداء ج ۱/ ۱۶۴ سے نقل کیا گیا ہے
۳۔ابن ام مکتوم کا نام عمر بن قیس تھا وہ اصحاب پیغمبر میں سے تھے، اس کی زندگی کے حالات اس کتاب کے آخر میںبیان کئے گئے ہیں۔
۴۔ طبقات ابن سعد ج ۲/ ق ۵۷ ، کنز العمال ج ۴/ ۵۳ حدیث مبر ۱۹۰۲ اور تاریخ ابن کثیر ج ۵/ ۲۴۳ ملاحظہ ہو نص آیت <و ما محمّد إلا رسول قد خلت من قبلہ الرسل> آل عمران / ۱۴۴
۵۔ ملاحظہ ہو تمہید بلاقلانی ص ۱۹۲ ۔۱۹۳

لیکن عمر اپنے کام سے باز نہ آئے ، عباس ابن عبد المطلب نے لوگوں سے پوچھا ، ” کیا تم میں سے کسی کو یاد ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی موت کے بارے میں کچھ فرمایا ہے ؟ اگر اس سلسلے میں کوئی حدیث سنی ہو تو ہمارے لئے بیان کرو “
سب نے کہا : ”نہیں “ عباس نے عمر سے پوچھا ، ” کیا تم نے اس سلسلے میں پیغمبر خدا سے کچھ سنا ہے ؟
عمر نے کہا: ” نہیں “
اس وقت عباس نے لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا: اے لوگوا ! آگاہ رہو کہ ایک شخص نے بھی گواہی نہیں دی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی موت کے بارے میں اس سے کچھ فرمایا ہو ۱ خدائے وحدہ لا شریک کی قسم کھا کرکہتا ہوں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے موت کاجام نوش کیاہے لیکن عمر بدستور گرجتے ہوئے دھمکیاں دیتے رہے ۔
عباس نے اپنے کلام کو جاری رکھتے ہوئے کہا: بے شک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دیگر لوگوں کی طرح حوادث و آفات کا شکار ہو سکتے ہیں اور آپ وفات پاچکے ہیں لہذا ان کے بدن کو تاخیر کے بغیر سپرد خاک کرو کیا خداوند عالمنے تم لوگوں کو ایک بار موت سے دوچار کرتا ہے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دوبار؟ آپ خدا کے یہاں اس سے زیادہ محترم ہیں کہ خدا انھیں دوبار موت کا شربت
----------
۱۔ طبقات ابن سعد ج ۲/ ق ۲/ ۵۷ ، تاریخ ابن کثیر ج۵/ ۲۴۳، سیرہ حلبیہ ج ۳/ ۳۹۰ ۔ ۳۹۱ اور کنزل العمال ج ۴/ ۵۳ حدیث نمبر ۱۰۹۲،

پلائے ۔ اگر تیری بات صحیح ہو تو ، پھر بھی خدا کیلئے یہ امرمشکل نہیں ہے کہ آپ کے بدن سے مٹی ہٹا کر آپ کو مٹی کے نیچے سے باہر لائے، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تب تک رحلت نہیں کی ہے جب تک آپ نے لوگوں کےلئے سعادت و نجات کی راہ ھموار نہ کردی ۱ لیکن عمر اپنی بات کو اس قدر دہراتے رہے کہ اس کے ہونٹوں پر جھاگ پھیل گئی ۲
اس کے بعد سالم بن عبید ۳ ابو بکرکو آگاہ کرنے کیلئے سنخ کی طرف روانہ ہوئے ۴ ا ور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کی خبر انھیں پہنچا دی ۵ ابو بکر مدینہ آئے اور دیکھا کہ عمر کھڑے ہوکر لوگوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۶ اور کہتے ہیں : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زندہ ہیں آپ نہیں مرے ہیں ! وہ پھر آئیں گے تا کہ ان لوگوں کے ہاتھ کاٹ دیں جو یہ کہتے ہیں کہ آپ مرگئے ہیں ، آپ ایسے لوگوں کے سر قلم کریں گے ،اور انھیں دار پر چڑھادیں گے ۷ عمر نے جب دیکھا کہ ابو بکر آرہے ہیںتو خاموش ہوکر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے ۸
------------
۱۔ طبقات ابن سعد ج ۲/ ق ۲/ ۵۳ ، کنزل العمال ج ۴/ ۵۳ حدیث نمبر ۱۰۹۰ اور حاشیہ الحلبیہ ج ۳/ ۳۹ ،میں طہران سے خلاصہ کے طور پر ، تاریخ الخمیس ج ۲/ ۱۸۵ ، و ص ۱۹۲ خلاصہ کے طور پر
۲۔ طبقات ابن سعد ج۲ ق ۲ / ۵۳ ، کنزل العمال ج ۴/ ۵۳ ، تاریخ خمیس ج ۲/ ۱۸۵، السیرة الحلبیة ج ۳/ ۳۹۲۔
۳۔ بعض نے کہا ہے : عائشہ نے کسی کو بھیجا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے ان کو باخبر کیا،
۴۔ سالم اصحاب اور مسجد النبی میں اہل صفہ میں سے تھا
۵۔تاریخ ابن کثیر ج ۵ ۲۴۲ اور حاشیة الحلبیہ از زینی خلدون ج ۳/ ۳۹۰ ۔ ۳۹۱
۶۔ طبری ج۲/ ۴۴۳ ، ابن کثیر ج ۵/ ۳۱۹، و ابن ابی الحدید ، ج ۱/ ۶۰۔
۷ ۔رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے دن آپ کی موت پر شک کرنا عمر ابن خطاب کی خصوصیات میں سے ہے ، کیونکہ مؤرخین نے ان کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں لیا ہے جس نے وفات پیغمبر پر شک کیا ہو۔
۸۔ کنز العمال ج ۴/ ۵۳ حدیث نمبر ۱۰۹۲۔

ابو بکر نے خداوند عالم کی حمد و ثنا کی اور کہا:
خدا کی عبادت کرنے والے جان لیں کہ خدا ہمیشہ زند ہ ہے اور وہ کبھی نہیں مرے گا ، جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پوجا کرتے ہیں وہ جان لیں کہ محمد رحلت کر گئے ہیں ، اس کے بعد اس آیت کی تلاوت کی :< و ما محمّد إلا رسول قد خلت من قبلہ الرسل > ۱
( وہی آیت جس کی ان سے پہلے ابن ام مکتوم نے عمر کیلئے تلاوت کی تھی ) ، عمر نے سوال کیا : جو تم نے پڑھا ، کیا وہ قرآن کی آیت ہے ؟!
ابو بکر نے جواب میں کہا : جی ہاں۲
عمر نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موت کے بارے میں اپنی رائے کو نہ مغیرہ کی باتوں سے ، نہ عمر ابن قیس کی قرآنی آیت کی تلاوت سے اور ان کے واضح طور پر رسول اللہ کی موت کی خبر دینے سے اور نہ پیغمبر خدا کے چچا عباس کی وضاحت طلبی اور استدلال سے اور نہ کسی دوسرے کے استدلال سے بدلا : ان سب کا کوئی احترام نہ کیا اور نہ ان کی باتوں کی قدر کی ، جب ابو بکر آکر بولے تو انھیں اطمینان ہوا اور خامو ش ہوئے ، بعد میں وہ خود اس قضیہ کے بارے میں حسب ذیل نقل کرتے تھے ۔
” خدا کی قسم ! جوں ہی میں نے سناکہ ابو بکر اسی آیت کی تلاوت کررہے ہیں تو میرے گھٹنے اس قدر سست پڑے کہ میں زمین پر گر گیا اور پھر سے اٹھنے کی ہمت نہ
-----------
۱۔طبقات ابن سعد ج ۲/ ق۲ ۵۴ ، تاریخ طبری ج ۲/ ۴۴۴ تاریخ ابن کثیر ج ۵/ ۲۱۹ ، اور سیرہ حلبیہ ج ۳/ ۳۹۲
۲۔ عمر کا یہ سوال کہ کیایہ کتاب خدا ہے اور ابو بکر کا جواب طبقات ابن سعد سے نقل کیا گیا ہے۔

پڑی اور مجھے یقین ہوا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وفات کرگئے ہیں ۔ ۱ وفات پیغمبر سے عمر کیوں انکار کرتے تھے ؟
کیا عمر حقیقت میں پیغمبر خدا کے ساتھ محبت کی شدت اور لگاؤ کی وجہ سے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کھو دینے کے سبب غم و اندوہ کے مارے تلوار کھینچ کر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موت کی تائید کرنے والے مسلمانوں کو دھمکاتے تھے ؟
کیا بعض مؤرخین کا یہ لکھنا درست اور صحیح ہے کہ عمر اس دن دیوانے ہوگئے تھے ۲ لیکن ایسا نہیں تھا ، ہم جانتے ہیں کہ مطلب اس کے علاوہ کچھ اور ہی تھا ، ہمارے خیال میں ابن ابی الحدید نے حقیقت کو درک کرکے بیان کیا ہے :
” عمر نے جب سمجھ لیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رحلت کرگئے ہیں تو وہ اس امر پر ڈر گئے کہ امامت کے مسئلہ پر شورش اور بغاوت رونما ہوجائے گی اور انصار یا دیگر لوگ حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے ، لہذا انہوں نے اس میں مصلحت سمجھی لوگوں کو بہر صورت اور ہر ممکن طریقے سے خامو ش اور مطمئن کردیں۔ اس سلسلے میں جو کچھ انھوں نے کہا لوگوں کو شک و شبہ میں ڈالدیا ، اس کا مقصد ابو بکر کے آنے تک کا احترام اور اس کا دین اور حکومت کا تحفظ تھا۳
----------
۱۔سیرہ ابن ہشام ۴/ ۳۳۴ ،و ۲۳۵ ، تاریخ طبری ج ۲/ ۴۴۲، ۴۴۴ ، ابن کثیر ج ۵/ ۲۴۲ ، ابن اثیر ، ج / ۱۹ ، ابن ابی الحدید ج ۱/ ۱۲۸ ، صفری الصفوھ ج ۱/ ۹۹/ خلاصہ کے طور پر کنزل العمال ج ۴/ ۴۵ حدیث نمبر ۱۰۵۳۔
۲۔ سیرہ حلبیہ ج ۳/ ۳۶۲ اور حاشیہ سیرہ ج ۳/ ۳۱۹۔
۳۔ شرح ابن ابی الحدید ج ۱/ ۱۲۹۔

ہماری نظر میںا بن ابی الحدید کا یہ کہنا کہ عمر امامت کے عہدہ پر انصار یا دوسروں کے غلبہ سے سے ڈر تے تھے ، صحیح ہے ، کیونکہ دوسروں کے زمرہ میں حضرت علی علیہ السلام تھے اور عمرکو خوف تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ خلافت کا قرعہ فال حضرت علی علیہ السلام کے نام کھل جائےکیونکہ اس زمانے میں خلافت کے امیدوار تین افرد سے زیادہ نہیں تھے ۔
پہلے علی ابن ابیطالب علیہ السلام تھے کہ تمام بنی ہاشم ان کے طرفدار اور حامی تھے اور ابو سفیان بھی ان کا نام لیتا تھا اور زبیر ان کے حق میں تبلیغ کرتے تھے اور اسی طرح خالد بن سعید اموی ، براء ابن عازب انصاری ، سلمان ، ابو ذر ، مقداد اوردیگر بزرگ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب کے سب علی علیہ السلام کی حمایت کرتے تھے ۱
دوسرا سعد ابن عبادہ انصاری تھے جو انصارکے قبیلہ خزرج کا امیدوار تھے،
تیسرے ابو بکر تھے جس کی حمایت عمر ، ابو عبیدہ ، مغیرہ بن شعبہ اور عبد الرحمان بن عوف ، ۲ کرتے تھے ۔
لیکن سعد بن عبادہ خلافت کی کرسی تک نہیں پہنچ سکتے تھے ، کیونکہ ا نصار میں سے قبیلہ اوس اس کا مخالف تھا اور مہاجر میں سے بھی کوئی ان کی بیعت کرنے کو آمادہ نہیں تھا۔ لہذا اگر ابو بکر کے حامی گروہ علی علیہ السلام کے خلاف بلا تاخیر بغاوت نہ کرتے ، اورپیغمبر کی تجہیز و تکفین سے پہلے ہی قدم نہ اٹھاتے تو خلافت کا کام علی علیہ السلام کے حق میں تمام ہو چکا ہوتا ، اگر علی علیہ السلام کو اس امر کی مہلت دی جاتی کہ پیغمبر خدا کی تجہیز و تکفین کے کام کو اختتام تک پہنچا کر اس مجمع میں حاضر ہوتے تو مہاجرین ، انصار اور تمام بنی ہاشم اور آل عبد مناف کے بعض افراد جو خلافت کو علی علیہ السلام کا مسلم حق جانتے تھے (کے ہوتے ہوئے ہرگز ابو بکر اپنے مقصد واور دیرینہ تمنا کو نہیں پہنچتے) حقیقت میں انہیں حالات کے پیش نظر عمر کے دل میں وہ خوف و اضطراب پیدا ہوا تھا اور اس طرح کی اشتعال انگیزی کررہے تھے ، علماء اور دانشور بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ عمر کی تمام کوششیں اور کارکردگیاں اسی کا پیش خیمہ تھیں، خواہ رسول اللہ کی وفات کے بعد کہ آپ کی موت کا انکار کرنا خواہ رسول اللہ کی زندگی کے آخری لمحات میں جب آپ وصیت لکھنا چاہتے تھے قلم و اور دوات دینے سے منع کرنا ۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت اور آنحضرت کی مفارقت کا غم اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جنازہ بغیر غسل و کفن مصیبت زدہ خاندان رسالت میں چھوڑ کر ابو بکر کیلئے بیعت لینے سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف دوڑیں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے انصار کے ساتھ جنگ و جدال کریں ؟!

سقیفہ کی جانب
جب عمر و ابو بکر کو یہ خبر ملی کہ انصار سقیفہ میں جمع ہوئے ہیں -( اور یہ خبر ان کو اس وقت ملی جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جنازہ آپ کے گھر پر تھا اور تجہیز و تکفین کا کام ابھی اختتام کو نہیں پہنچا تھا ) ۱
-------------
۱۔ سیرہ ابن ہشام، ج ۴/ ۳۳۶ ، ریاض النضرہ ،ج ۱ ۱۶۳ ، تاریخ الخمیس ،ج ۱/ ۱۸۶ ، السقیفہ تالیف ابو بکر جوہری اور ابن ابی الحدید،ج ۶/ ۱)

عمر نے ابو بکر سے کہا : آجاؤ! ذرا اپنے بھائی ( انصار ) کے پاس چلے جاتے ہیں اور دیکھ لیں کہ وہ کیا کررہے ہیں ۔
طبری کی روایت میں آیا کہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام نہایت انہماک اور لگن کے ساتھ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازہ کی تجہیز و تکفین میں لگے ہوئے تھے کہ یہ دونوں بڑی سرعت سے انصارکی طرف چلے گئے ، راستے میں ابو عبیدہ جراح کو دیکھا اور تینوں ایک ساتھ ہو گئے ۱
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اسی حالت میں رکھ کر دروازے کو ان پر بند کرکے ۲ سقیفہ کی طرف دوڑ پڑے ۳
انصار کا گروہ خلافت کے موضوع پر مشورت اور گفتگو کرنے کیلئے پہلے ہی سقیفہ میں جمع ہوا تھا،مہاجرین کے چند افراد بھی ان سے جا ملے ، اس طرح پیغمبر کے رشتہ داروں اور اعزہ کے علاوہ کوئی آپ کی تجہیز و تکفین کےلئے باقی نہ بچا تھا ، صرف یہی لوگ تھے جنہوں نے آپ کی تجہیز و تکفین کی ذمہ داری لی تھی ۴
----------
۱۔ تاریخ طبری ج ۲/ ۴۵۶ اور الریاض النضرة نے بھی ان تین افرادکے باہم سقیفہ جانے کا ذکر کیا ہے ۔
۲۔ یہ جملہ ” دروازہ کو ان پر بند کردیا “ البداء و التاریخ ج ۵/ ۱۶۵ میں ہے اور سیرہ ابن ہشام ج ۴/ ۳۳۶ میں یوں آیا ہے : ” و قد اغلق دونہ الباب اھلہ “ تاریخ الخمیس ج ۱/ ۱۸۶ اور الریاض النضرة ج ۱/ ۱۶۳ میںبھی ایسا ہی آیا ہے
۳۔ جملہ : سقیفہ کی طرف دوڑ پڑے “ کو البداء و التاریخ سے نقل کیا گیا ہے ۔
۴۔ مسند احمد ج ۴/ ۱۰۴ ۔ ۱۰۵ تفصیل سے مسند ابن عباس میں نقل کیا ہے اور ابن کثی ج ۵/ ۲۶۰ اور صفوة الصفوة ج ۱/ ۵ ، تاریخ الخمیس ج ۱/ ۱۸۹ ، طبری ج ۲/ ۴۵۱ ، اور ابن شحنہ نے حاشیہ کامل کے ص ۱۰۰ خلاصہ کے طور پر ، ابو الفداء ج ۱/ ۱۵۲ ، اسد الغابہ ج ۱/ ۳۲ میں الفاظ میں تھوڑاکچھ اختلاف کے ساتھ، العقد الفرید ج ۳/ ۶۱ ، تاریخ الذھبی ج ۱/ ۳۲۱ ، طبقات ابن سعد ج ۲/ ق۲/ ۷۰ ، تاریخ یعقوبی ج ۲/ ۹۴ ، البداء و التاریخ ج ۵/ ۶۸، التبیہ و الاشراف مسعودی ص ۲۲۴ او ر نہایةا لارب ج ۱۸ / ۳۸۹ ۔ ۳۹۱۔ ان تمام مؤرخین نے صراحت سے کہا ہے کہ صرف خاندان رسالت نے تجہیز و تکفین کا کام انجام دیا ، جوعبارت انھوں نے نقل کی ہے وہ عبارت مسند ابن احمد سے لی گئی ہے ۔

ابو ذویب ھذلی ۵۔۔ جو اس دن مدینہ پہنچا تھا ۔۔۔ کہتا ہے :
’ ’ جس وقت میں مدینہ پہنچا ، میں نے شہر کو نالہ وزاری کی اس حالت میںدیکھا جب لوگ حج کیلئے احرام باندھتے ہیں ، میں نے پوچھا، کیا ماجرا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : پیغمبر رحلت فرماگئے ہیں، میں مسجد کی طرف دوڑا لیکن مسجد کو خالی پایا اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر کی طرف دوڑا ، لیکن وہاں پر دروازہ کو بند پایا ، میں نے سنا کہ اصحاب رسول نے جنازہ کو خاندان ِ رسالت میں تنہا چھوڑا ہے، میں نے سوال کیا ؛ لوگ کہاں ہیں ؟ جواب دیا گیا : وہ سقیفہ میں انصار کے پاس چلے گئے ہیں ۶
جی ہاں : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تجہیز و تکفین کا کام انجام دینے کیلئے خاندانِ رسالت کے علاوہ کوئی اور نہ رہا تھا ، یہ لوگ یہ ہیں: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا ، عباس بن عبد المطلب ، علی ابن ابیطالب علیہ السلام ، فضل بن عباس ، اسامہ بن حارثہ اور اس کا غلام صالح، علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم کے جسم سے کرتا اتارا، جسم نازنین کو اپنے سینے سے لگا لیا ، عباس ، فضل اور قشم بدن کے کروٹ بدلنے میں علی علیہ السلام کی مدد کرتے تھے ، اسامہ اور صالح پانی ڈالتے تھے اور علی علیہ السلام پیغمبر کے بدن مبارک کو غسل دیتے تھے ، اوس بن خولی انصاری بھی ان کے پاس آیا لیکن کوئی کام انجام نہیں دیا ۔
۵۔ ابو ذویب بادیہ میں رہتا تھا جب اس نے سناکہ پیغمبر بیمار ہوئے ہیں تو مدینہ آیا ، اس کی زندگی کے حالت آئندہ بیان ہوں گے ۔
---------
۶۔ سقیفہ کے بارے میں ابو ذوب کا بیان کتاب استیعاب ج ۲/ ص ۲۴ او اسد الغابہ ج ۵/ ۱۸۸ س نقل کیا ہے ، اوراصابہ میں ج ۴/ ۳۸۸ میں بھی ذکر آیا ہے ۔