سیف کی احادیث میں سقیفہ کی داستان
”الا و ان لی شیطاناً یعترینی فاذا اٴتانی فاجتنبونی “
ہوشیار رہو ! میرا ایک شیطان ہے جو بعض اوقات مجھ پر مسلط ہوتا ہے اور اگر تم لوگوں نے اس کا مشاہدہ کیا تو اس وقت مجھ سے دوری اختیار کرنا تا کہ میری طرف سے تمہارے مال و جان کو کوئی نقصان نہ پہنچے
ابو بکر
سیف نے سقیفہ کی داستان کو سات روایتوں میں نقل کیا ہے ہم اس فصل میں پہلے اس کی ان روایتوں کو نقل کریں گے اور اس کے بعد ان کے اسناد کی تحقیق کریں گے ، اگلی فصلوں میں دوسرے راویوں کی روایتوں سے ان کی تطبیق و موازنہ کرکے چھان بین کریں گے اور آخر میں سیف کی روایتوں کے مآخذ اور ان کے مضمون کے بارے میں تحقیق کا نتیجہ علم دوست حضرات کی خدمت میں پیش کریں گے ۔
سیف کی روایتیں
پہلی روایت :
ابن حجر نے قعقاع بن عمر و کی زندگی کے حالات کو سیف سے نقل کرتے ہوئے یوں بیان کیا ہے کہ قعقاع نے کہا ہے :
” میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے وقت وہاں پر حاضر تھا ، جب ہم نے ظہر کی نماز پڑھی تو ایک شخص نے مسجد میں داخل ہوکر کہا ؛ انصار متفقہ طور پر سعد بن عبادہ کو جانشینی اور خلافت کے عہدہ پر منتخب کرنا چاہتے ہیں اور اس بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کئے گئے عہد و پیمان کو توڑنا چاہتے ہیں ۔ مہاجرین اس خبرکو سننے کے بعد وحشت میں پڑگئے ۱
دوسری روایت :
طبری نے ۱۱ھ ء میں سیف سے نقل کیا ہے کہ راوی نے سعید بن زید سے پوچھا : کیا تم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے وقت حاضر تھے ؟
اس نے کہا ؛ جی ہاں !
ابو بکر کی بیعت کس دن کی گئی؟
اس نے جواب میں کہا اسی دن جس روز رسول خد ا نے رحلت فرمائی ، کیونکہ لوگ نہیںچاہتے تھے نصف دن بھی اجتماعی نظم و انتظام کے بغیر گزاریں ۔
کیا کسی نے ابو بکر کی بیعت سے اختلاف کیا ؟
----------
۱۔ اصابہ : ۲/ ۲۴۰ ، الجرح و التعدیل رازی ج ۳/ حصہ ۲/ ۱۳۶۔
نہیں ، صرف ان لوگوں نے مخالفت کی جو مرتد ہوئے تھے یامرتد ہونے کے نزدیک تھے توانھیں خدا نے انصار کے ہاتھوں نجات بخشی تھی ۔
کیا مہاجرین میں سے کسی نے بیعت سے سرپیچی کی ؟
نہیں ، تمام مہاجرین نے کسی کی تجویز کے بغیر یکے بعدد یگرے بیعت کی۔
تیسری روایت :
طبری نے بھی سعد بن عبادہ کیلئے بیعت لینے کی انصار کی کوشش اور ان کی ابو بکر سے مخالفت کے بارے میں یوں روایت کی ہے :
کہ ۱ ” سیف نے اپنے مآخذ سے سہل اور ابی عثمان سے اور اس نے ضحاک بن خلیفہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا : ” جب حباب بن منذر ۲ نے کھڑے ہوکر تلوار ہاتھ میں لی اور کہا:
اناجذیلھا المحکک و عذیقھا المرجب ، ان ابو شبل فی عرینة الاسد “ ۳
----------
۱۔ طبری ج ۳/ ۲۱۰
۲۔ حباب بن منذر پیغمبر خدا کے اصحاب میں سے تھے ان کی زندگی کے حالات بعد میں بیان کئے جائیں گے۔
۳۔ یہ تین جملے عربی ضرب المثل ہیں اور ان کے معنی یہ ہیں ؛ میں اس لکڑی کے مانند ہوں جسے اونٹوں کے سونے کی جگہ پر رکھا جاتا ہے تا کہ کھجلی آنے پر وہ اپنے بدن کو اس کے ساتھ رگڑ لیں ( یہ اس بات کی طرف کنایہ ہے کہ مشکل کے وقت میری رائے کی طرف پناہ لیں) اور میں اس قوی درخت کے مانند ہوں کہ مشکلات میں میرے سائے میں پناہ لیتے ہیں اور حوادث کے طوفان مجھے کچھ نقصان نہیں پہنچاتے ۔ میں کچھار میں شیر کے بچوں کے باپ کے مانند ہوں ۔
عمر نے تلوار ہاتھ میں لی اورسعد بن عبادہ کی طرف حملہ کیا ، دوسرے لوگ بھی سعد بن عبادہ پر حملہ آور ہوئے اور پے در پے ابو بکر کی بیعت کی ، انصار کا یہ کام ایام جاہلیت کی سی ایک غلطی تھی جس کا ابو بکر نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔
جس وقت سعد بن عبادہ پایمال ہوا ، ایک شخص نے کہا ؛ کیا تم لوگوں نے سعد بن عبادہ کو قتل کر ڈالا ؟ عمرنے جواب میںکہا : خدا اسے مار ڈالے ، وہ ایک منافق شخص ہے ! اس کے بعد عمر نے حباب کی تلوار کو ایک پتھر پر مار کر اسے توڑدیا “
چوتھی روایت :
اس کے بعد طبری نے مندرجہ ذیل روایت کو نقل کیا ہے ۱سیف نے جابر سے روایت کی ہے کہ : ” سعد بن عبادہ “نے اس دن ابو بکر سے کہا :
اے مہاجرین کی جماعت ! تم لوگوں نے میری حکمرانی پر رشک کیا ہے ! اور اے ابو بکر ! کیا تم نے میرے خاندان کی حمایت میں ہمیں بیعت کرنے پر مجبور کیا ہے ؟ ابو بکر اور ان کے حامیوں نے جواب میں کہا : اگر ہم تیری دلی چاہت کے خلاف ملت سے جدا ہونے پر تجھے مجبور کرتے اور تم مسلمان کے اجتماع سے اپنے رابطہ کو برقرار رکھتے ، تو تم یہ کام کرسکتے ، لیکن ہم نے تجھے اجتماع سے پیوست ہونے پر مجبور کیا ، معلوم ہے کہ اس رسالت کو بدلا نہیں جاسکتا ہے ، اگر اطاعت کرنے سے منہ موڑ لو گے اور معاشرے میں تفرقہ ایجاد کرو گے تم ہم تیرا سر قلم کریں گے ۔
پانچویں روایت :
طبری ابو بکر اور حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کی بیعت کے بارے میں بھی سیف سے اس طرح نقل کرتا ہے کہ علی گھر میں تھے کہ خبر ملی کہ ابوبکر نے بیعت کیلئے نشست کی ہے چونکہ وہ ابو بکر کی بیعت کرنے میںتاخیر کرنانہیں چاہتے تھے، اس لئے صرف ایک کرتا پہن کر قبا و شلوار کے بغیر پوری عجلت کے ساتھ باہرآئے اور ابو بکر کے پاس دوڑے اور ان کی بیعت کی ، اس کے بعد کسی کو بھیج دیا تاکہ ان کی قبا لے آئے پھر قبا کو پہننے کے بعد ابو بکر کے پاس بیٹھ گئے ۔
چھٹی حدیث:
اس کے علاوہ طبری نے سیف سے روایت کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے دوسرے دن ابو بکر نے دو خطبے نسبتاً طولانی بیان کئے جن میں دوسری تمام چیزوں کی نسبت موت ، دنیا کے فانی ہونے اور آخرت کے بارے میں بات کی ۔
انشا ء اللہ ہم ان خطبوں کو کتاب کے آخر میں( روایتوں کی چھان بین کے باب میں ) نقل کرکے اس پر تحقیق کریں گے ، ان دو خطبوں میں جو چیز قابل توجہ ہے وہ یہ جملہ ہے کہ ابوبکر نے کہا ہے :
اٴلا و إنّ لی شیطاناً یعترینی فاذا اتانی فاجتنبونی لا اٴُوٴثر فی اشعارکم و ابشارکم ۔
ہوشیا رہو ! میرا ایک شیطان ہے جو کبھی کبھار مجھ پر مسلط ہوتا ہے اگر وہ شیطان میرے نزدیک آیا تو تم لوگ مجھ سے دوری اختیار کرنا تا کہ میں اپنے مفاد میں تمہارے مال و جان پر دست درازی نہ کروں “
ساتویں حدیث:
طبری ۱ نے مبشرین فضیل سے اس نے جبیر سے اس نے اپنے باپ صخر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محافظ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:
پیغمبر خدا کی وفات کے وقت خالد بن سعید عاصی یمن میں تھا۔ وہ ایک مہینہ بعد مدینہ کی طرف آیا ۔ اورایک زیبا قبا پہنے عمر اور حضرت علی علیہ السلام کے سامنے حاضر ہوا ، جب عمر نے اسے ایک زیبا قبا میں ملبوس پایا تو اپنے حامیوں سے مخاطب ہوکر بلند آواز میں بولے: خالد کی زیب تن کی ہوئی قبا کو پھاڑ ڈالو! اس نے ریشمی قبا پہنی ہے جبکہ یہ جنگ کا زمانہ نہیں ہے بلکہ صلح کا زمانہ ہے ۲ عمر کے حامیوں نے ان کے حکم سے خالد کی زیبا قبا کو پھاڑ ڈالا ۔
خالد نے غصے کی حالت میں حضرت علی علیہ السلام کی طرف مخاطب ہوکر کہا اے ابو الحسن ! اے عبد مناف کے فرزند ! کیا خلافت کو کھونے کے بعد مغلوب ہوچکے ہو؟ حضرت علی علیہ السلام نے جواب میں کہا : تم اسے غالب و مغلوب دیکھتے ہو یا خلافت کو !؟ ۳
--------
۱۔ طبری ج ۲/ ۵۸۶۔
۲۔ اسلام میں مردوں کیلئے جنگ کے موقع پرریشمی لباس پہنناجائز ہے اور صلح میں حرام ہے ۔
۳۔ قال : قال یا ابا الحسن یا بنی عبد مناف اغُلِبتم علیہا ؟ فقال علی اٴ مغالبة تری ام خلافة ؟!
خالد نے کہا : اے عبد منا ف کے بیٹو ! ” تمہارے سوا کوئی اور خلافت کا سزاوار نہیں ہے ؟ “ عمر نے خالدسے مخاطب ہوکر کہا ؛ خدا تیرے منہ کو توڑ ڈالے ! تم نے ایسی بات کہی ہے جو جھوٹوں کیلئے ہمیشہ سند بن جائے گی او راس کو نقل کرنے والا اپنے لئے نقصان کے سوا کچھ نہیں پائے گا ! اس کے بعد عمر نے خالد کی باتوں کی رپورٹ ابو بکر کو پیش کی ۔
کچھ وقت گزرنے کے بعد جب ابو بکر مرتدوں سے جنگ کرنے کیلئے ایک لشکر کو منظم کررہے تھے تو خالد کے ہاتھ بھی ایک پرچم دینے کی ٹھان لی ، عمر نے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا اور کہا :
خالد ایک ناتوان اور کمزور شخص ہے اور اس نے ایک ایسا جھوٹ بولا ہے کہ جب تک اسکے اس جھوٹ کو نقل کرنے والا دنیا میںموجود ہو اور لوگ اس کے گرد جمع ہوجائیں اس شخص سے ہرگز مدد طلب نہیں کرنی چاہئے، ابو بکر نے مرتدوں سے جنگ کرنے کے بجائے خالد کو رومیوں سے جنگ کرنے کیلئے بھیجا اور اسے فوج کے ڈپٹی کمانڈر کی حیثیت سے تیماء روانہ کیا اس طرح عمر کی باتوں کے ایک حصہ پر عمل کیا اور ایک حصہ کو مسترد کردیا ۔
سیف کی روایتوں کا مآخذ
علم حدیث کے دانشور اور علماء جب کسی روایت کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتے ہیں تو وہ دو چیزوں کو مد نظر رکھتے ہیں :
اول : روایت کا مآخذ، یعنی روایت کرنے والا کن خصوصیات کا مالک ہے اور اس نے روایت کو کن اشخاص سے نقل کیا ہے ۔
دوم : روایت کا متن ، یعنی روایت میں بیان ہوئے مطالب کی چھان بین کرنا اس لحاظ سے سقیفہ کے بارے میں سیف کی روایتوں کو متن و مآخذ کے لحاظ سے چھان بین کرنا چاہئے تا کہ ان کی علمی قدر و منزلت اور اعتبار کی حیثیت معلوم ہوسکے اب ہم سیف سے نقل کی گئی روایتوں کے مآخذکی چھان بین کرتے ہیں ۔
سیف کی سب سے پہلی روایت جسے ہم نے نقل کیاوہ کتاب ” الاصابہ “ سے ہے ، جسے سیف نے قعقاع بن عمرو تمیمی سے نقل کیا ہے ، قعقاع ایک ایسا سورما ہے جو سیف کے خیالات کی تخلیق ہے اسی قسم کے کسی شخص کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے، لیکن بعض علماء نے تحقیق کئے بغیر صرف سیف کی روایت پر بھروسہ کرکے قعقاع کے نام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کی فہرست میں درج کرکے سیف کی روایتوں سے اس کی زندگی کے مفصل حالات قلم بندکردیئے ہیں سینکڑوں کتابوں میں اس کے اشعار ، بہادریوں ، جنگوں ، جنگی منصوبوں ، لشکر کشیوں اور اجتماعی کارکردگی کے بارے میں قلم فرسائی کی ہے ، ان افسانوں کا سرچشمہ صرف اور صرف سیف کی روایتیں ہیں ۔ ہم نے اس موضوع اور سیف کے اس قسم کے افسانوی بہادروں کے بارے میں اپنی کتاب ” خمسون و ماٴة صحابی مختلق“ میں تفصیلات بیان کی ہیں ۱
-۱۔ اس کتاب کا ترجمہ اردو زبان ” ۱۵۰ جعلی اصحاب “ کے عنوان اسی مترجم کے قلم سے ہوا ہے ۔
سیف نے تیسری روایت کو سہل سے نقل کیا ہے اور اسے یوسف بن سلمی انصاری کا بیٹا بتایا ہے ہم نے جس کتاب میں اس کے بارے میں لکھا ہے وہاں یہ ثابت کیا ہے کہ حقیقت میں اس نام کا کوئی راوی ہی وجود نہیں رکھتا تھا اور یہ بھی سیف کے خیالات کی تخلیق ہے ۔
چوتھی روایت سیف نے مبشر سے نقل کی ہے ، یہ نام بھی صرف سیف کی روایتوں میں درج ہے اس کا کہیں اور سراغ نہیں ملتا ، علم حدیث کے علماء نے اس کے بارے میں کہا ہے :
” سیف اس سے روایت کرتا ہے لیکن اسے کوئی نہیں جانتا “ ۱
آخری روایت کو سیف نے صخر نامی ایک شخص سے نقل کیا ہے ، سیف نے اس کا پیغمبر خدا کے خصوصی محافظ کے عنوان سے تعارف کرایا ہے ، جبکہ علم رجال کی کتابوں اور پیغمبر خدا کے اصحاب کی زندگی کے حالات میں اس قسم کے کسی شخص کا ذکر تک نہیں ہے اور پیغمبر خدا کا کوئی محافظ اس نام کا نہیں تھا ۔
اس کے مآخذ میں اور بھی مجہول راوی ہیں کہ اس خلاصہ میں ان کا ذکر کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔
یہ تھیں سیف کی روایتیںمآخذاور قدر ومنزلت کے لحاظ سے، اب ہم ان روایات کے متن کے بارے میں قارئین کو جانکاری دیں گے ۔
-----
۱۔ ملاحظہ ہو لسان المیزان ج۵/ ۱۳
سیف کی روایتوں کے مآخذ
سیف کی روایتوں میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اسے روایت گڑھنے میں خاص مہارت تھی ۔ کیونکہ وہ روایتوں کے ایک حصہ میں حقائق کی تحریف کرتا ہے اور حوادث کے دوسرے حصہ کو ایسے نقل کرتا ہے کہ پڑھنے والا غیر شعوری طور پر مطلب کو واقعیت کے خلاف سمجھتا ہے اس مطلب کی وضاحت کیلئے سیف کی روایت گڑھنے کی مہارت کے سلسلے میں یہاں پر ہم ایک نمونہ پیش کرتے ہیں: قعقاع سے نقل کی گئی سیف کی روایت میں (جسے اسی کتاب میں پہلی روایت کے طور پر درج کیا گیا ہے ) آیا ہے :
’ ’ پیغمبر خدا کی رحلت کے دن ظہر کی نماز کے بعد یہ خبر ملی کہ انصار سعد بن عبادہ کی بیعت کرکے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کئے گئے عہد و پیمان کو توڑنا چاہتے ہیں “
پڑھنے والا اس روایت سے یہ سمجھتا ہے کہ لوگوں نے خلافت کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کوئی عہد وپیمان باندھاتھا ، جسے انصار توڑنا چاہتے تھے۔
اس کے علاوہ لشکر اسامہ کے بارے میں دوسری روایت میں(جسے ہم نے اس سے پہلے بیان کیا ) تاریخ طبری اور تاریخ ابن عساکر سے نقل کرکے سیف بیان کرتا ہے :
”جب پیغمبر خدا کی رحلت کی خبر فوجی کیمپ میں پہنچی ، تو اسامہ نے عمر کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ ابو بکر کے پاس بھیجا “
اس روایت سے اس امر کا استنباط ہوتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ لوگوں کا عہد و پیمان ابو بکر کی خلافت کے بارے میںتھا ۔
سیف نے سقیفہ کہ داستان نقل کرنے میں مذکورہ چابک دستی اور مہارت سے کافی استفادہ کیا ہے ۔
سقیفہ کا واقعہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس میں حقیقت اپنی اصلی راہ سے مکمل طور پر منحرف ہوئی ہے ، سیف نہیں چاہتا تھا اس تاریخی امانت میں خیانت کئے بغیر اسے دوسرں تک پہنچادے، سقیفہ کے بارے میں نقل کی گئی اس کی تمام روایتیں خلاف واقع اور حقیقت سے دور ہیں ، سقیفہ اور ابو بکر کی بیعت کے بارے میں حقیقت قضیہ جاننے سے سیف کے جھوٹ کا پول کھلنے کے علاوہ سقیفہ کے بارے میں معاویہ کے زمانے تک کے تاریخی حقائق کھل کر سامنے آتے ہیں ۔
لہذا ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ پہلے سقیفہ کے واقعہ کو مکمل طور پر اور استناد کے ساتھ علمائے اہل سنت کی معتبر کتابوں میں موجود مورد اعتماد روایتوں سے نقل کر کے پیش کریں اور اس کے بعد اس سلسلے میں سیف کی نقل کی گئی روایتوں کی چھان بین کریں ۔
داستان سقیفہ کی داغ بیل
ھلم اکتب لکم کتاباً لن تضلّوا بعدہ ابداً
آؤ ! میں تمہارے لئے ایک ایساوصیت نامہ لکھدوں گا ، جس کے ہوتے ہوئے تم لوگ ہرگز گمراہ نہیں ہوگے
پیغمبر اکرم
ان النبیّ غلبہ الوجع و عندکم کتاب الله
پیغمبر خدا بخار اور بیماری کے سبب بولتے ہیں ، تمہیں کتاب ِ خدا کے ہوتے ہوئے ان کی تحریر کی ضرورت نہیں ہے ۔
عمر ، خلیفہ دوم
وہ فرمان جس کی اطاعت نہیں ہوئی
سقیفہ کے واقعہ کی پیغمبر خدا کی رحلت سے پہلے داغ بیل ڈالی گئی تھی ، چنانچہ ہم نے گزشتہ فصل میں دیکھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ کوشش اور تلاش تھی کہ اسلام کے دار الخلافہ مدینہ کو سرکردہ مہاجر اور انصار سے خالی کریں اسی لئے انھیں شام کی سرحدوں پر جاکر جہاد کرنے کی ذمہ داری دیدی تھی ، صرف علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنے سراہنے رہنے کی اجازت دی تھی ، لیکن ان لوگوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان کی اطاعت نہیں کی اورا س حکم کی تعمیل کرنے میں لیت و لعل اور لاپرواہی سے کام لیا اور اسی دوران پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رحلت فرماکر اپنے مالک حقیقی سے جاملے ، اس رونما شدہ واقعہ کے دوران ایک ایسا اہم حادثہ پیش آیا ، جس نے تاریخ کی راہ کو مکمل طور پر موڑ کے رکھ دیا ۔
وصیت نامہ ، جو لکھا نہ جاسکا
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زندگی کے آخری لمحات قریب سے قریب تر ہوتے جارہے تھے ، مدینہ منورہ کی فضا میں اضطراب اور وحشت کے بادل منڈلارہے تھے ، ہر ایک یہ محسوس کررہا تھا کہ عالم ِ بشریت جلدی ہی اپنے عظیم الشان قائد سے محروم ہونے والی ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے تربیتی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بستر علالت پر ہی آخر ی خاکہ کھینچ رہے تھے ۔ آپ نے فیصلہ کیا کہ کسی تاخیر کے بغیر اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنائیں اور اپنی کئی برسوں کی زحمتوں اور خدمات کو ضائع ہونے نہ دیں ، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ وہی افراد جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مرضی کے خلاف مدینہ سے باہر نہ نکلے تھے ، حالات کا جائزہ لے رہے تھے تا کہ پہلیفرصت میں اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنائیں ۔
لہذا انہوں نے اس امر کی اجازت نہیں دی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا آخری پروگرام بشریت کی راہنمائی کیلئے ایک تحریر ی سند کے طور پر باقی رہے ۔
عمر ابن خطاب بذات خود کہتے ہیں :
”ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے اور خواتین پردے کے پیچھے بیٹھی تھیں کہ رسول خد ا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: مجھے سات خوشبو والے پانی سے غسل دینا اور میرے لئے ایک کاغذ اور قلم لاؤ تا کہ تمہارے لئے ایک ایسی تحریر لکھدوں کہ اس کے بعد تم لوگ ہرگز گمراہ نہ ہو گے “
خواتین نے کہا: جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہتے ہیں اس چیز کو حاضر کرو “۱
مقریزی لکھتا ہے :
” اس بات کو جحش کی بیٹی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی زینب اور اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی دوسری عورتوں نے کہا : ” عمر“ کہتے ہیں : ” میں نے کہا چپ رہو ، تم وہی عورتیں ہو ، جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیمار ہوتے ہیں تو اپنی آنکھوں پر زور دیکر روتی ہو اور جب آپ دوبارہ صحت یاب ہوجاتے ہیں تو ان کی گردن پکڑ کران سے نفقہ مانگنی ہو ! رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
” یہ عورتیں تم سے بہتر ہیں “
ابن سعد نے طبقات ۲ میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ ا س نے کہا :
--------
۱۔ ملاحظہ ہو طبقات ابن سعد ج۲/ ۳۷ او نہایة الارب ج ۱۸ ۳۷۵ ، و کنزل العمال ج ۳/ ۱۳۸ و ج ۴/ ۵۲ اور مختصر کنز ج۳ ۔
۲۔ ج ۲ صفحہ۲۴۲ ۔
” پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت کاغذ طلب کیا تا کہ اپنی امت کیلئے ایک ایسی تحریر لکھ ڈالیں کہ اس کے بعد نہ آپ کی امت گمراہ ہوگی اور نہ کوئی اسے گمراہ کرسکے گا ، اس مجلس میں حاضر لوگوں نے ایسا ہنگامہ مچایا کہ پیغمبر اسلام نے اپنا فیصلہ ترک کردیا ۔
اس کے علاوہ مسند احمد ۱ میں ابن عباس سے روایت کی گئی ہے : جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موت نزدیک آئی تو، آپ نے فرمایا :
”میرے لئے ایک بھیڑ کا کندھا لاؤ ۲میں تم لوگوں کیلئے ایک تحریر لکھ دوں گا تا کہ میرے بعد تمہارے درمیان حتی دو افراد میں بھی آپس میں اختلاف پیدا نہ ہوسکے“
ابن عباس کہتے ہیں:
” ایک جماعت نے شور و ھنگامہ شروع کردیا تو ایک عورت نے ان سے مخاطب ہوکر کہا: ”افسوس ہو تم لوگوں پر !پیغمبر وصیت کرنا چاہتے ہیں “
ابن عباس اپنی ایک دوسری روایت میں کہتے ہیں ۳ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس
--------
۱۔ ج ۱ ص ۲۹۳ ۔
۲۔ اس زمانہ میں کاغذ نہ ہونے کی وجہ سے تحریرات چمڑے ، حیوانوں کی ہڈیوں اور لکڑی جیسی چیزوں پر لکھے جاتے تھے ۔
۳۔ طبقات ابن سعد ج ۲/ ۲۴۴۔
بیماری کے دوران (جس کے سبب آپ وفات پاگئے )فرمایا:
” میرے لئے دوات اور ایک کاغذلاؤ تا کہ تمہارے لئے ایک ایسی تحریر لکھ دوں کہ تم اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو گے ؟“
عمر نے کہا: روم کے باقی رہ گئے فلاں اور فلاں شہروں کو جب تک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فتح نہیں کرلیں گے اس وقت تک اس دنیا سے نہیں جائیں گے ، اور اگر آپ نے وفات پائی تو ہم آپ کے انتظار میں اسی طرح رہیں گے جس طرح بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کے انتظار میں منتظر رہے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی زینب نے اس کے جواب میں کہا: کیا نہیں سنتے ہو پیغمبر تمہیں وصیت کرنا چاہتے ہیں ؟! اس کے بعد انہوں نے ہنگامہ اور شور و شرا با کیا ، لہذا پیغمبر نے فرمایا: یہاں سے اٹھ جاؤ ، ” جب وہ اٹھ کر چلنے لگے تو آپ نے وفات پائی “۔
ان روایتوں اور اس کے بعد آنے والی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ضعیف حالت کے باوجود کئی بار حکم دیا تھا کہ ان کےلئے کاغذ و دوات لائی جائے، لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر کے پاس بیٹھے ہوئے افراد نے مجلس میں کھلبلی اور ہنگامہ مچا کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے فیصلہ سے دست بردار ہونے پر مجبور کردیا ، آنے والی بحثوں میں جن روایتوں کو ہم نقل کریں گے ، ان سے معلوم ہوجائے گا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور میں کس طرح کے ناشائستہ باتیں کی گئیں جن کے سبب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وصیت نامہ لکھنے سے صرف نظر کریں۔
صحیح بخاری ۱ اور دوسری کتابوں میں روایت نقل ہوئی ہے کہ ابن عباس نے کہا :
”جمعرات کا دن کیسا دن تھا ، ؟! اس کے بعد اس قدرر وئے کہ ان کی آنکھوں سے بہنے والے آنسؤں نے کنکریو ںکو تر کردیا اس کے بعد بولے: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی شدید بیماری کے عالم میں فرمایا: میرے لئے ایک کاغذ لاؤ تا کہ تمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہو گے “
مجلس میں موجود افراد میں جنگ و جدل برپا ہوگیا ، جبکہ کسی بھی پیغمبر کے حضور اختلاف و جدال کرنا جائز نہیں ہے ، کچھ لوگوں نے کہا : پیغمبر ہذیان بک رہے ہیں !!
پیغمبر نے فرمایا:
”مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو ! میری حالت اس سے بہتر ہے جو تم میرے بارے میں کہتے ہو ؟ ۲
ابن عباس نے ایک دوسری روایت میں اس بات کے راوی کاتعارف کرایا ہے ، صحیح بخاری میں
-------
۱۔حدیث کا لفظ صحیح بخاری میں سے ہے ،کتاب جہاد باب جوائز وفد ج ۲/ ۱۲۰ ، ملاحظہ ہو ج ۲/ ۱۱۲ باب اخراج یہود از جزیرة العرب کتاب جزیہ اور صحےح مسلم ج ۵/ ۷۵ باب ترکہ وصیت اور مسند احمد تحقی احمد شاکر حدیث نمبر ۱۹۳۵ اور طبقات ابن سعد ۲/ ۲۴۴ ، اور طبری ج ۴ /۱۹۳ ان کی حدیث کے لفظ میں یہ ہے :ما شاٴنہ اٴھجر فذھبوا یُعیدون علیہ فقال:دعونی )
۲۔ بلاذری کی انساب الاشراف ج ۱/ ۵۶۲ ، ملاحظہ ہو اور طبقات ابن سعد ج ۲/ ۲۴۲ اور صحیح مسلم ج ۵/ ۷۶ اور ان لفظ ان رسول اللہ لیَھجُر تحریر ہوا ہے ۔
اس سے نقل کرکے بیان ہوا ہے ۱
” جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موت نزدیک آگئی ، کچھ لوگ ، جن میں عمر ابن خطاب بھی شامل تھے ، پیغمبر خدا کے گھر میں جمع ہوئے تو، پیغمبر نے فرمایا: جلدی کرو تا کہ میں تمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں کہ اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو گے “
عمر ابن خطاب نے حاضرین سے کہا : بیماری نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حواس خمسہ پر غلبہ کیا ہے ، قرآن تمہارے پاس ہے اور خدا کی کتاب ہمارے لئے کافی ہے ! “
اس گھر میں موجود لوگوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا، بعض لوگوں نے عمر کی ہاں میں ہاں ملائی ، جب بیہودہ گفتگو حد سے بڑھ گئی اور اختلاف کا دامن پھیلنے لگا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رنجیدہ ہوکر فرمایا:
”میرے نزدیک سے اٹھ جاؤ، کیونکہ میرے سامنے جدال و اختلاف کرنا جائز نہیں ہے“۔
مسند احمد کی روایت اور طبقات میں یوں آیا ہے :
” جب بیہودہ کلام حد سے بڑھ گیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رنجیدہ خاطر ہوئے اور فرمایا:
”میرے پاس سے اٹھ جاؤ !“
اس حدیث کا راوی کہتا ہے کہ: ابن عباس مکرر کہتے تھے: ” بد بختی اور مصیبت ہم پر اس وقت
---------
۱۔ یہ لفظ صحیح بخاری میں ہے ملاحظہ ہو ج ۱/ ۲۲ ، باب کتابة العلم ، کتاب علم سے اس لفظ کے نزدیک ہے ، مسند احمد تحقیق احمد شاکر حدیث نمبر ۲۹۹۲ ، طبقات ج۲/ ۲۴۴
نازل ہوئی جب اختلاف اور یاوہ گوئی کے سبب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس تحریر کو نہ لکھ سکے “ ۱وہ صحابی ، جس نے پیغمبر خدا پر ہذیان بکنے کی تہمت لگائی ۔
ان تمام روایتوں میں عمر ابن خطاب کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں لیا گیا ہے ، یہ عمر تھےجنھوں نے پیغمبر کی بیویوں کے یہ کہنے : ” جو پیغمبر چاہتے ہیں اسے حاضر کیجئے “ کے جواب میں کہا: ”انکن صواحبة “ ۲اور اس رائج ضرب المثل کے ذریعہ ان کی سرزنش کرکے اس توہین آمیزلہجہ میں پیغمبر کی بیویوں کی بے احترامی کی ۔
یہ عمر تھے جس نے یہ کہا کہ : اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مرجائیں تو روم کے شہروں کو کون فتح کرے گا؟
یہ عمر تھے جس نے جب احساس کیا کہ مجلس میں حاضرین کی اکثریت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مرضی کی حامی ہے اور قریب ہے مسلمانوں کے ہاتھ پیغمبر کی ایک ایسی تحریر آئے جس سے
۱۔ یہ صحیح بخاری کی عبارت کتاب اعتصام بہ کتاب و سنة کے باب کراھیة الخلاف ، ج ۴/ ۱۸۰ اور کتاب مرض کے باب قول المریض قوموا اعنی ج ۴/ ۵ اور ج ۳/ ۶۲ باب مرض النبی کتاب مغازی اور صحیح مسلم ج ۵/ ۷۶ کتاب کے آخری باب ” وصیة “ میں اور مسند احمد تحقیق احمد شاکر حدیث نمبر ۳۱۱۱ اور تاریخ ابن کثیر ج ۵/ ۲۲۷ ۔ ۲۲۸ اور تیسیر الوصول ج ۴/ ۱۹۴ اور تاریخ ذہبی ج ۱/ ۳۳۱۱ اور تاریخ خمیس ج ۱/ ۱۸۲ اور البدة و تاریخ ج ۵ / ۹۵ اور تاریخ ابن محنہ تاریخ کامل کے حاشیہ پر ۱۰۸ ، تاریخ ابو الفداء ج ۱/ ۱۵۱ میں آیا ہے : فقالَ : قُوموا عنی لا ینبغي عِندَ نبيّ تَنازُع ، فقالوا : إنَّ رسول الله لیھجُر فذھبو ا یعیدون علیہ ، فقال : دعونی ما اٴنا فیہ خیرٌ مما تدعونی إِلیہ ۔
۲۔ صدر اسلام میں اگر کسی عورت کو ڈانٹا جاتا تھا تو اسے ان عورتوں سے تشبیہ دیتے تھے جو حضرت یوسف سے محبت کرتی تھیں اور اسے زندان بھیجدیا جاتا تھا ، ایسی عورت کو کہتے تھے : إِنّکَن صُویحباتة تشبیہا لہا بصویحبات یوسف۔
عمر اور اس کے حامیوں کے منصوبے نقش بر آب ہوجائیں گے تو اس نے کہا : پیغمبر پر بیماری کا دباؤ پڑا ہے اور وہ نہیں جانتے ہیں کہ کیا بول رہے ہیں ، تمہارے پاس قرآن ہے اور وہی کافی ہے!
عمر نے ہی کہا تھا : ” یہ شخص ہذیان بک رہاہے اور اس نے اس نامناسب جملہ کو کہہ کر اپنے منصوبوںکو عملی جامہ پہنایا ، کیونکہ عمر کے اس جملہ اور ان کا پیغمبر اکرم کی طرف ہذیان کی نسبت دینے نے دوسرے کے ذہنوں پر بھی اثر ڈالا تھا ، لہذا اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکمل اصرار کے طور پر کوئی وصیت بھی لکھ ڈالتے تو اس کی کوئی قدر و منزلت ہی باقی نہ رہتی اور اس کے مخالف کہتے کہ یہ وصیت اس حالت میں لکھی گئی ہے جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے حواس خمسہ کھو بیٹھے تھے ۔ لہذا اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی جاتی ، یہ نازک نکتہ ابن عباس کی ایک روایت میں مورد توجہ قرار پایا ہے ، وہ کہتے ہیں :
” پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضورمیں موجود افراد میں سے ایک شخص نے کہا:” پیغمبر خدا ہذیان بک رہے ہیں“
اس کے بعد جب مجلس میں حالات معمول کے مطابق ہوئے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا گیا : کیا آپ جس چیز کو چاہتے تھے اسے آپ کیلئے لائیں ؟ پیغمبر نے فرمایا:
اب اس کا فائدہ کیا ہے ؟! یعنی یہ بات کہنے کے بعد اس تحریر کا کوئی فائدہ نہیں ہے ‘۱
جی ہاں ! ہنگامہ برپا کرکے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ایک وصیت نامہ لکھنے نہیں دیا گیا اس طرح قبل اس کے کہ ایک اور فرصت ہاتھ آتی اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وصیت نامہ کو تحریر فرماتے تا کہ لوگ ہمیشہ کیلئے گمراہی سے نجات پاتے ، آپ نے رحلت فرمائی ۔
----------
۱۔ طبقات ابن سعد ج ۲/ ۲۴۴
وضاحت طلبی
اس بحث کے آخر میں مناسب ہے کہ عمر سے ایک سوال کیا جائے وہ یہ ہے کہ جہاں پرآپ نے یہ جراٴت اور جسارت کی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف ہذیان بکنے کی تہمت لگائی! کیا وجہ ہے کہآپ نے یہی الزام ابو بکر کو نہیں دیا جب کہ انھوں نے بیہوشی کے عالم میںوصیت نامہ لکھا ؟
طبری لکھتا ہے : ابو بکر نے عثمان کو اپنی بیماری کی حالت میں اپنے سرہانے بلایا اورکہا: لکھو ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ یہ ابو بکر بن ابی قحافہ کی طرف سے مسلمانوں کے نام ایک وصیت ہے اما بعد “
راوی کہتا ہے ؛
اس کے بعد بیہوش ہوگئے اور کوئی بات نہ کرسکے ( لہذا عثمان نے ابو بکر کی بیہوشی ) کے عالم میں لکھا ، ” اما بعد ، میں نے اپنے فیصلہ کے مطابق عمر ابن خطاب کو تم لوگوں پر اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا ہے ، جان لو کہ میں نے تمہارے متعلق خیر خواہی میں کسی قسم کی لا پروائی نہیں برتی ہے “
جب عثمان تحریر لکھنے سے فارغ ہوئے تو ابو بکر ہوش میں آئے اور عثمان سے کہا : ذرا پڑھو دیکھتا ہوں کہ تم نے کیا لکھا ، عثمان نے جو کچھ لکھا تھا ابو بکر کو پڑھ کر سنا دیا۔
ابو بکر نے کہا : ” اللهاکبر ! میرے خیال میں تم ڈر گئے کہ اگر میں اس بیہوشی کے عالم میں مرجاؤں تو لوگوں میں اختلاف پیدا ہوجائے گا “
اس نے جواب میں کہا : جی ہاں ۔
ابو بکر نے کہا : ” خدا تجھے اسلام اور اہل اسلام کی طرف سے خیر پہنچائے اور اس طرح عثمان کی تحریر کی تائید کی ۔
کیا عمر نے اس تحریر کے بارے میں کوئی رد عمل ظاہر کیا ؟
طبری کہتا ہے :
” عمر بیٹھ گئے جبکہ لوگ ان کے پاس بیٹھے تھے ، عمر کے ہاتھ میں درخت خرما کی ایک ٹہنی تھی ۔ ابو بکر کے آزاد کردہ غلام شدید ابو بکر کی اس تحریر کو ہاتھ میں لئے ہوئے تھے، جس میں عمر کی جانشینی کافرمان لکھا گیا تھا، عمر نے لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا:
اے لوگوں سن لو !اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ کے حکم کی اطاعت کرو ؟ خلیفہ تمہیں کہتا ہے ؛ ’ ’ میں نے تمہاری خیر خواہی میں کسی قسم کی لاپروائی نہیں کی ہے “۱
تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ عمر حالت بیماری میں رسول خد ا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تحریر کو قبول نہ کرتے ہوئے کہتے ہیں حسبنا کتاب اللہ لیکن ابو بکر کے اس حالت میں لکھی گئی تحریر کی تائید کرتے ہیں !! دیکھئے فرق کہا سے کہاں تک ہے ! بے شک ابن عباس کو حق تھا کہ رونما ہوئے اس حادثہ پر اتنے آنسو بہائیں کہ کنکریاں تر ہوجائیں۔
---------
۱۔ تاریخ طبری ج ۴/ ۵۱ ۔
|