عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
 
دوسرا حصہ : سیف کی روایت میں سقیفہ کی داستان


سپاہ اسامہ
احادیث میں سقیفہ کی داستان
داستان سقیفہ کی بنیاد ڈالی جارہی ہے
پیغمبر کی رحلت
پیغمبر کی تدفین سے پہلے خلافت کے امیدوار
سقیفہ میں حضرت ابو بکر کی بیعت
حضرت ابو بکر کی عمومی بیعت اور پیغمبر کی تدفین
حضرت ابو بکر کی بیعت کے مخالف
فاطمہ کے گھر میں پناہ لینے والے
حضرت ابوبکر کی بیعت کے ساتھ علی کی مخالفت
بیعت ابوبکر کے بارے میں بزرگ اصحاب کے فیصلے
حضرت ابوبکر کی حکومت کے خلاف ابو سفیان کی بغاوت
سیف کی روایتوں کی چھان بین یا نتیجہ گیری

سپاہ اسامہ
”قد اٴعطی السّلطة رغبتھا و النّاس رغبتھم“
سیف نے ان داستانوں میں تحریف کرکے لوگوں کی خواہشات کو پورا کرنے کے علاوہ قدرتمندوں کی خواہشات کو بھی پورا کیاہے ۔
مؤلف

سیف کی روایت میں سپاہ اسامہ
طبری نے اپنی تاریخ کی ج ۳/ ۲۱۲ ،پر ۱۱ ھ ء کے وقائع اور حوادث بیان کرتے ہوئے اور ابن عساکر نے تاریخ دمشق کی ج ۱ ص ۴۲۷ میں لشکر اسامہ کے بارے میں درج کیا ہے اس روایت میں سیف کہتا ہے :
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی وفات سے قبل اہل مدینہ اور اس کے اطراف کے باشندوں پر مشتمل ایک لشکر تشکیل دیا تھا ، اور عمر ابن خطاب بھی اس لشکر میں شامل تھا ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس لشکر کے سپہ سالار کے طور پر اسامہ بن زید کو مقرر فرمایا تھا ، ابھی یہ لشکر مدینہ کے خندق سے نہیں گزرا تھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رحلت فرمائی ۔
اسامہ نے لشکر کے آگے بڑھنے سے روکا اور عمر سے کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ کے پاس جا کر ان سے رخصت حاصل کروتا کہ میں لوگوں کو لوٹا دوں “
مزید کہتا ہے :
” اس لشکر میں موجود انصار نے عمر کے ذریعہ ابو بکر کو پیغام بھیجا کہ اسامہ کی جگہ پر کسی اور کو لشکر کا امیر مقرر کریں ، عمر نے جب انصار کے اس پیغام کو پہنچا دیا تو ابو بکر ناراض ہوئے اور عمر کی داڑھی کو پکڑ کر کہا: اے ابن خطاب ! تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے اور تیرے مرنے پر روئے ! اسامہ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لشکر کا سردار مقرر فرمایا ہے ، تم مجھے حکم د یتے ہو کہ میں اس سے یہ منصب چھین لوں اور کسی دوسرے کو اس کی جگہ پر معین کردوں ؟
اسکے بعد کہتا ہے :
” ابو بکر نے اس لشکر کو آگے بڑھنے کا حکم دیا اور انھیں رخصت کیا اور رخصت کے وقت یہ دعا پڑھی : خدا کے نام لیکر روانہ ہوجائیے ، خدا تمہیں قتل و طاعون سے نابود ہونے سے بچائے “
یہ تھی لشکر اسامہ کے بارے میں سیف کی روایت۔

سپاہ اسامہ سیف کے علاوہ دوسری روایتوں میں
دوسرے راویوں نے لشکر اسامہ کے بارے میں یوں بیان کیا ہے :
” رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ۱۱ھء میں سوموار کے دن جبکہ ماہ صفر کے چار دن باقی بچے تھے ، رومیوں سے جنگ کی تیاری کا حکم دیدیا ، دوسرے دن اسامہ بن زید کو بلایا اور فرمایا:
سپہ سالار لشکر کی حیثیت سے اس جگہ کی طرف روانہ ہوجاؤ جہاں پر تیرا باپ شہید ہوا ہے لہذا جاؤ اور ان پر ٹوٹ پڑو۔
بدھ کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سردرداور بخار کا اثر ہوا اور جمعرات کی صبح کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے جنگ کے پرچم کو اسامہ کے ہاتھ میں دیدیا ، اسامہ پرچم کو ہاتھ میں لینے کے بعد مدینہ سے نکل گئے اور مدینہ سے ایک فرسخ کی دوری پر ” جرف “ کے مقام پر پڑاو ڈال کر کیمپ لگا دیا ۔
عام طور پر مہاجر و انصار کے سرداروں کو اس جنگ میں شرکت کی دعوت دی گئی ، ابو بکر ، عمر ، ابو عبیدہ ٴ جراح ، سعد و قاص اور سعید بن زید کے علاوہ چند دوسرے لوگ ان میں شامل تھے ، کچھ لوگوں نے اعتراض کے طور پر کہا : ” کیوں اس بچہ کو ایک ایسے لشکر کا سپہ سالار مقرر کیا جاتا ہے جو صف اول کے مہاجرین پر مشتمل ہے !؟
یہ باتیں سن کر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سخت برہم ہوگئے ، آپ کے سر پر ایک رومال بندھا ہواتھا اور شانوں پر ایک تولیہ رکھا تھا ۱ ، آپ اسی حالت میں گھر سے باہر تشریف لائے اور منبر پر جاکر کر فرمایا :
”یہ کیا باتیں ہیں جو اسامہ کی سپہ سالاری کے بارے میں سننے میں آتی ہیں بے شک
آپ وہی لوگ ہیں جو اس سے پہلے اس کے باپ کی سپہ سالاری کے بارے میں اعتراض کرتے تھے ، جبکہ بخدا اسکا باپ ایک لائق کمانڈر تھا اور اس کا بیٹا بھی اس کی لیاقت و شائستگی رکھتا ہے اس کے بعد آپ منبر سے نیچے تشریف لائے ، اسامہ کے ساتھ جانے والے مسلمانوں نے پیغمبر خدا کو الوداع کہدیا اور ” جرف “ کے فوجی کیمپ کی طرف روانہ ہوگئے ۔
پیغمبر خدا کا مرض شدت پکڑتا گیا اس حد تک کہ آپ بیماری کی شدت کی وجہ سے بے ہوش پڑے ہوئے تھے ، اسامہ آپ کے نزدیک آئے اور جھک کر آپ کے بوسے لئے ، پیغمبر خدا میں بات کرنے کی طاقت نہیں تھی ، اسامہ لوٹے اور سوموار کو دوبارہ پیغمبر خدا کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اس دن پیغمبر کی حالت بہتر تھی اور آپ نے اسامہ سے مخاطب ہوکر فرمایا:
” خوش بختی اورمبارک کے ساتھ روانہ ہوجاؤ“ ، اسامہ نے پیغمبر خدا سے رخصت حاصل کی الوداع کہا اوراپنے فوجی کیمپ کی طرف آگئے اور فوج کو روانہ ہونے کا
۱۔ ان دنوں رسم یہ تھی کہ مریضوں کو ردا اور عمامہ کے بجائے ان کے سر پر ایک رومال باندھا جاتا تھا اور شانوں پر ایک تولیا رکھا جاتا تھاا ور یہ اس وقت ہوتا تھا جب بیمار کا سر عمامہ پہننے اور شانے پر ردا ڈالنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔
حکم دیدیا، لیکن جب اپنے گھوڑے پر سوار ہورہے تھے ، اسی اثناء میں اسکی ماں کی طرف سے ایک قاصد آیا اور خبر دیدی کہ پیغمبر احتضار کی حالت میں ہیں ، لہذا اسامہ، عمر ، ابو عبیدہ اور چند دیگر افراد کے ہمراہ واپس لوٹا ، پیغمبر خدا نے بھی اسی دن وفات پائی ۲
یہ تھی اسامہ کے لشکر کی حالت پیغمبر کی زندگی کے آخری لمحات تک کی ایک اجمالی تشریح۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد والے حالات کے بارے میں ابن عساکر نے اپنی کتاب کے ج ۱/ ۴۳۳ میں یوں روایت کی ہے :
”جب خلافت کےلئے بیعت لینے کا کام تمام ہوا اور لوگوں نے اطمینان کی سانس لی ، تو ابو بکر نے اسامہ سے کہا :” اس جگہ کی طرف چلے جاؤ جہاں جانے کا تمہیں پیغمبر خدا نے حکم دیا ہے “ مہاجرین اور انصارسے بعض لوگوں نے ابو بکر کو یہ تجویز پیش کی کہ اس لشکر کو روانہ کرنے میں تاخیر کریں لیکن ابو بکر نے ان کی یہ تجویز منظور نہیں کی ۔ ۴۳۸ پر ایک اور روایت میں کہتا ہے ۔
ابو بکر نے لشکر کو روانہ کیا ور اسے رخصت کرتے ہوئے اسامہ سے مخاطب ہوکر کہا :
”میں نے خود سنا ہے کہ پیغمبر خدا ضروری ہدایات تجھے دے رہے تھے ان ہی ہدایات پر عمل کرنا میں تجھے کوئی اور حکم نہیں دیتا ہوں “
------
۱۔ اسی روایت کو ابن سعد نے طبقات ج ۴/ ۱۹۰، میں ابن سید نے ” عیون الاثر ، ج ۲/ ۸۱ میں نقل کیا ہے اور دوسروں نے بھی صراحت کے ساتھ کہ ابو بکر اور عمر اسامہ کے لشکر میں شامل تھے ان میں بلاذری نے انساب الاشراف ج ۱/ ۴۷۴ ، یعقوبی نے اپنی تاریخ ۲/ ۷۲ میں ، ابن بدران نے تہذیب ج۲/ ۷۴ میں ، ابن اثیر نے اپنی تاریخ کی ج۲/ ۱۲۰ میں ، ملا متقی نے کنز العمال ج ۵/ ۳۱۲ اور منتخب کنز ج ۴/ ۱۸۰ میں ، ابن سعد نے بھی طبقات ج ۴/ ۶ میں اور مراغی نے ” تلخیص معالم دار الہجرہ ص ۹۰ میں درج کیا ہے

تطبیق و موازنہ کا نتیجہ
۱۔ سیف اپنی روایت میں کہتا ہے :
ابھی اسامہ کے لشکر کا آخری حصہ مدینہ کے خندق سے نہیں گزرا تھا کہ پیغمبر نے رحلت فرمائی ، اس جملہ کو سیف نے ایک خاص مقصد کے پیش نظر گڑھ لیا ہے ، اس طرح وہ یہ دکھانا چاہتا ہے کہ پیغمبر کے اصحاب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرنے میں ایسے آمادہ تھے کہ آپ حکم روانگی کے بعد بلا تاخیر روانہ ہوئے اور ابھی لشکر کا آخری حصہ مدینہ کے خندق سے نہ گزرا تھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رحلت فرمائی اس طرح وہ اس سے پہلے اور بعد والی مخالفتوں اور نافرمانیوں پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے ! جبکہ دوسری روایتوں میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس تھی اور اسامہ کے فوجیوں نے ” جرف“ میں کیمپ لگایا تھا اور چند روزتک مدینہ میں رفت و آمد کرتے رہے ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حالت ٹھیک ہونے پر اسامہ کے لشکر کے روانہ ہونے کے بارے میں سوال فرماتے تھے ، جب آپ کو معلوم ہوتا تھا کہ بعض افراد آپ کے حکم پر عملی جامہ پہنانے میں ٹال مٹول کررہے ہیں اور آپ کے حکم کے اجراء میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں تو آپ سخت برہم ہوتے تھے اور مکرر فرماتے تھے :
” لشکر اسامہ کو روانہ کرو ! لشکر اسامہ کو بھیجدو ! “
لیکن سیف نے اس حقیقت کے بر خلاف تخریب کاروں کو بری کرنے کیلئے مذکورہ جملہ کا اضافہ کیا ہے ۔
۲۔ سیف کہتا ہے :
” اسامہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کی خبر سنتے ہی عمر کو خلیفہٴ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابو بکر کے پاس بھیج دیا اور ان سے اجازت چاہی تا کہ واپس لوٹیں “ سیف نے اس جملہ کو بھی اپنے خاص مقاصد کے پیش نظر گڑھ لیا ہے ، جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ دوسری روایتوں میں آیا ہے : ” جو خبر اسامہ کو پہنچی وہ پیغمبر کے احتضار کی خبر تھی اور اسامہ عمر اور ابو عبیدہ کے ہمراہ یا بعض روایتوں میںہے ابو بکر و عمر کے ہمراہ مدینہ واپس لوٹے ۔ پیغمبر کی رحلت کے بعد ابو بکر مدینہآئے اور سقیفہ میں ان کی بیعت انجام پائی جو مسجد النبی میں اختتام کو پہنچی اور جب ابو بکر پیغمبر کے خلیفہ کے عنوان سے پہچانے گئے تو لشکر اسامہ کے سلسلہ میں مداخلت کی ، لیکن سیف اپنے شاطرانہ بیان سے یہ کہنا چاہتاہے کہ ابو بکر کی خلافت کا مسئلہ پیغمبر کے زمانے سے چلا آرہا تھا !!۔
۳۔ سیف روایت کرتا ہے : ” انصار نے ابو بکر سے درخواست کی کہ اسامہ سے سپہ سالاری کا عہدہ چھین کر اس کی جگہ کسی اور کو معین کیا جائے “ جبکہ دوسری روایتوں میں خاص کر تاریخ ابن عساکر ج ۱ ص ۴۳۸ پر واضح طور پر آیا ہے کہ یہ درخواست پیغمبر خدا سے ہوئی ہے اور درخواست کرنے والے مہاجرین میںسے صف اول کے کچھ لوگ تھے نہ انصار، لیکن چونکہ سیف کی ہم عصر حکومت مہاجرین کے ہاتھوں میں تھی ، لہذا س نے وقت کی حکومت کو راضی رکھنے کیلئے مہاجرین کا کام انصار کے سر پر تھونپ دیا ہے ۔
۴۔ سیف کہتا ہے کہ ابو بکر نے اسامہ اور اس کے لشکر کو دس احکام جاری کئے ، جبکہ دوسری روایتوں کے مطابق ضروری احکام پیغمبر خدا نے دئے تھے ، حتی ان روایتوں میں آیا ہے ابو بکر نے کہا: میں نے سنا ہے کہ پیغمبر خدا نے تمھیں ضروری ہدایات دئے ہیں ، ان ہی ہدایات پر عمل کرنا میں ان کے علاوہ کوئی اور حکم نہیں دوں گا ۔
۵۔ اپنی روایات کے اختتا م پر سیف کہتا ہے :
” عمر جو پیغام انصار کی طر ف سے ابو بکر کے پاس لائے تھے ، اس کے سبب ابو بکر نے عمر کی داڑھی پکڑ کر ان کی نفرین کی “ ، جبکہ ایسا واقع ہونا بعید لگتا ہے ، کیونکہ دوسری روایتوں میں اس سلسلے میں کوئی ذکر نہیں ہے ، اور دوسری طرف سے ” و ما علی الرسول الاّ البلاغ“ بھی ہے ۔
اگر چہ ہم نے اس سے پہلے دیکھا کہ سیف نے اپنی جعل کی گئی روایتوں میں حکومت وقت اور اس کے ہم عصر لوگوں کی خوشنودی اور رضا مندی کے تحفظ کی کوشش کی ہے لیکن یہ آخری جملہ کس لئے گڑھ لیا ہے ؟ کیا اس کے علاوہ کوئی اور علت ہوسکتی ہے کہ علم رجال کے علماء کے بقول وہ زندیق تھا ، اور تاریخ اسلام کا مذاق اڑانا چاہتا تھا ؟ ہمیں تو اس کے علاوہ کوئی اور سبب نظر نہیں آتا ہے !!
سیف نے کچھ ایسی روایتیں جعل کی ہیں جن کی بالکل کوئی بنیاد نہیں ہے ، سیف کے افسانے خود اس سے مربوط ہیں ان افسانوں میں ایسے ہیرو اور پہلوان نظر آتے ہیں کہ زمانے کی مامتا نے انھیں ابھی جنم ہی نہیں دیا ہے،لیکن سیف کی روایتوں کے منتشر ہونے کے بعد وہ ہیرو، اسلام کی عظیم شخصیتوں میں شمار ہوئے ہیں ، انشاء اللہ ہم اس کتاب کے اگلے صفحات میں ان سورماؤں کی معرفی کرادیں گے ۔

سپاہ اسامہ میں موجود نامور اصحاب
اس بحث کے اختتام پر مناسب ہے کہ سپاہ اسامہ میں موجود چند اصحاب رسول کی زندگی کے بارے میں خلاصہ کے طور پر کچھ بیان کیا جائے ۔
اول و دوم : ابو بکر و عمر یہ پہلے اور دوسرے خلیفہ ہیں جو محتاج تعارف نہیں ہیں اس لئے ان کے حالات کی تشریح کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔
سوم : ابو عبیدہ جراح ۱ ان کے حالت کے بارے میں یوں کہا گیا ہے :
--------
۱۔ ملاحظہ ہو الاستعیاب ج۳/ ۲۔۴ اور اسد الغابہ ج ۳/ ۸۴ ۔ ۸۶ اور اصابہ ج ۲/ ۳۴۵۔

” ابو عبیدہ ان کی کنیت تھی اور ان کا نام عامر ابن عبد اللہ بن جراح قرشی تھا ۔ ان کی ماں امیمہ بنت غنم بن جابر تھیں ۔ وہ اسلام کے صف اول کے اشخاص میں سے تھے اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے دوبار ہجرت کی ہے ۔ ابو بکر نے انھیں ایک لشکر کا سردار مقررر کرکے شام بھیجدیا ۔ انھوں نے ۱۸ئھ میں ”عمواس“ نامی مشہور طاعون کے سبب وفات پائی، اور موجودہ اردن میں ایک جگہ پر انکو سپرد خاک کیا گیا۔
چہارم : سعد ’ ’ وقاص“۱ ان کی کنیت ابو اسحاق تھی اوران کے باپ کا نام مالک تھا،وہ قریش کے قبیلہٴ زہرہ سے تعلق رکھتے تھے ، کہا جاتا ہے کہ وہ ساتوین افراد تھے جنھوں نے اسلام قبول کیا نیز انھوں نے بدر اور دوسرے غزوات میں شرکت کی ہے ، وہ اسلام میں پہلے وہ شخص ہیں جس نے سب سے پہلے دشمن کی طرف تیر پھینکا، وہ عراق کے سرکردہ فاتحین میں سے تھے اور عمر نے انھیں کوفہ کا گورنر مقرر کیا تھا ، عمر ابن خطاب نے ابو لؤ لؤ کے ہاتھوں زخمی ہونے کے بعد سعد و قاص کو خلافت کی چھ رکنی شوریٰ کا ممبر معین کیا ۔
سعد نے عثمان کے قتل ہونے کے بعد لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کی اور معاویہ کی خلافت کے زمانے میں مدینہ سے باہر ” عقیق“ نامی ایک جگہ پر رہائش پذیر تھے اور وہیں پر وفات پائی ، ان کے جنازہ کو مدینہ لے جا کر بقیع میں دفن کیا گیا ۔
پنجم: سعید بن زید ۲ : سعید قریش کے قبیلہٴ عدی سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت عمر ابن خطاب
---------
۱۔ ملاحظہ ہو استیعاب ،ج ۲/ ص۱۸۔ ۲۵ اور اسد الغابہ ،ج ۲/ ۲۶۰ و اصابہ ،ج ۲/ ۳۰۔ ۳۶
۲۔ اسکے حالات زندگی کے سلسلے میں اسد الغابہ ج ۲/ ۳۰۸ اور اصابہ و استیعاب کا مطالعہ کیا جائے ۔

کا چچیرے بھائی تھے۔ عمر نے سعید کی بہن عاتکہ سے اور سعید نے عمر کی بہن فاطمہ سے شادی کی تھی ۔
عمر کی بہن فاطمہ اور عمر کے چچیرے بھائی سعید نے عمر سے پہلے اسلام قبول کیا، جب عمر کو اس کی اطلاع ملی تو ان کے گھر جا کر اپنی بہن کے چہرے پر ایسا تھپڑ مارا کہ ان کے رخسار سے خون جاری ہوگئے ، لیکن اس کے فوراً بعد بہن کی اس حالت پر رحم کھا کر خود بھی مسلمان ہوگئے !!! سعید نے ۵۰ ئھ یا ۵۱ھء میں وفات پائی اورمدینہ میں انھیں سپرد خاک کیا گیا۔
ششم ۔ اسامہ ۱ :اسامہ کے باپ زید بن حارثہ کلبی ، پیغمبر خدا کا آزاد کردہ غلام اور ان کی ماں ام ایمن حضرت کی آزاد کردہ کنیز اور ان کی خادمہ تھیں ، اسامہ اسلام کے ابتدائی دنوں میں پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے معاویہ کی خلافت کے دوران وفات پائی تھی ۔

سپاہ اسامہ روانہ کرنے میں پیغمبر خدا کا مقصد
جس کام کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں انجام دیا ، وہ حیرت انگیز تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اصحاب میں سے بعض افراد اور بزرگوں کو انتہائی اصرار کے ساتھ مدینہ سے نکال کر شام اور سوریہ کی سرحد تک روانہ کرکے اسلامی مرکز سے دور بھیجنا چاہتے تھے۔ اس غرض سے ان کو مجبور کیا تھا کہ اسامہ کی کمانڈری میں رہیں، یعنی ایک ایسے شخص کی کمانڈری میں جس کے ماں باپ دونوں غلام تھے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں آزاد کیا تھا۔
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیوں مذکورہ افراد کو اسامہ کی سرکردگی میں مدینہ(جو اس زمانے میں اسلام کا دار الخلافہ تھا)سے دور بھیجنا چاہتے تھے اور اس نازک وقت پر علی علیہ السلام کو اپنے سرہانے رکھنا چاہتے تھے ؟!!!