وہ لوگ جنہوں نے عبد اللہ بن سباٴکی داستان کو ،مآخذ کا اشارہ کئے بغیر نقل کیا ہے ۔
مؤرخین اور مصنفین کا ایک ایسا گروہ بھی ہے جنہوں نے نہ اپنی روایت کے مآخذ کو لکھا ہے اور نہ اس کتاب کا ذکر کیا ہے جس سے انہوں نے روایت نقل کی ہے ، لیکن اس کے باوجود جہاں بھی اجمالی طور پر ان کی کتابوں کے مصادر کا ذکر آتا ہے ، طبری ایسی کتابیں نظر آتی ہیں جن میں طبری سے روایت نقل کی گئی ہے ، جیسے :
۱۔ میر خواند:
اس نے عبداللہ بن سبا کی داستان کو اپنی کتاب ” روضة الصفا“ میں درج کیا ہے ، لیکن اس کی سند اور مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ لیکن تحقیق و مطابقت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بھی اس داستان کو طبری سے نقل کیا ہے ۔
۲۔ غیاث الدین
غیاث الدین فرزند میرخواند ( وفات ۹۴۰ھ ) نے اپنی کتاب ” حبیب السیر “ میں عبداللہ بن سبا کی داستان اپنے باپ کی کتاب ” روضة الصفا“ سے نقل کیا ہے لیکن اس کی سند و مآخذ کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے ۔
عبداللہ بن سبا کی داستان کے اسناد
جیسا کہ ذکر ہوا ، تاریخ طبری قدیمی ترین کتاب ہے جس میں عبداللہ بن سبا کی داستانیں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں اور ساتھ ہی اس داستان کے راوی کو بھی معین و مشخص کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد لکھی جانے والی تمام کتابوں میں ، ابن سبا کی داستان اور سبائیوں کے افسانہ کو طبری سے نقل کیا گیا ہے ۔
۱۔ ابن سباٴکی داستانوں کےلئے طبری کی سند
اب دیکھنا چاہئے کہ طبری نے اس داستان کو کہاں سے نقل کیاہے ااور اس کی سند کیا ہے ؟
ابو جعفر محمد جریر طبری آملی ( وفات ۳۱۰ھ) نے سبائیوں کی داستان کو اپنی کتاب ” تاریخ الامم و الملوک “ میں صرف سیف بن عمر تمیمی کوفی سے نقل کیا ہے ، وہ ۳۰ ھ کے حوادث سے مربوط حصہ میں اس طرح لکھتا ہے :
” اسی سال ، یعنی ۳۰ ھ میں ابوذر کی معاویہ کے ساتھ داستان اور معاویہ کا ابوذر کو شام سے مدینہ بھیجنے کا واقعہ پیش آیا، اس سلسلے میں بہت سے واقعات نقل کئے گئے ہیں، انھیں بیان کرنے کا دل تو نہیں چاہتا، لیکن ان معاملات میں معاویہ کیلئے عذر پیش کرنے والوں نے اس موضوع پر اس کی داستان نقل کی ہے کہ ” سری بن یحییٰ“ نے اس داستان کو میرے لئے لکھا ہے اور اس تحریر میں یوں کہتا ہے :
” شعیب بن ابراہیم نے سیف بن عمر سے روایت کی ہے جب ابن سودا شام پہنچا تو اس نے ابوذر سے ملاقات کی اور کہا؛ اے ابوذر ! کیا یہ دیکھ رہے ہو کہ معاویہ کیا کررہا ہے ؟ “
اس کے بعد طبری ” ابن سبا“ کی داستان کو صرف سیف سے نقل کرتا ہے اور ابوذر کے حالات کی تفصیلات کو مندرجہ ذیل جملہ کے ذریعہ خاتمہ بخشتا ہے :
دوسروں نے ابوذر کی جلا وطنی کی علت کے بارے میں بہت سی چیزیں لکھی ہیں کہ جی نہیں چاہتا انھیں بیان کروں “
جب۳۰ ۔ ۳۶ ھ کے حوادث لکھنے پر پہنچتا ہے توعثمان کے قتل اور جنگ جمل کے ضمن میں سبائیوں کی داستان کو سیف سے نقل کرتا ہے ، سیف کے علاوہ کسی اور سند کا ذکر نہیں کرتا
طبری نے اپنی تاریخ میں سیف کی روایتوں کو مندرجہ ذیل دو سندوں میں سے کسی ایک سے نقل کیا ہے :
۱۔ عبید اللہ بن سعد زہری نے اپنے چچا یعقوب بن ابراہیم سے اور اس نے سیف سے جن روایتوں کو طبری نے اس سند سے سیف سے نقل کیا ہے ، وہ ایسی روایتیں ہیں جنہیں اس نے خود عبید اللہ سے سنی ہیں اور انھیں کلمہ ” حدثنی“ یا ” حدثنا “ (یعنی” میرے لئے “ یا ہمارے لئے روایت کی ہے)سے بیان کیا ہے :
۲۔ سری بن یحییٰ نے شعیب ابن ابراہیم سے اور اس نے سیف سے ۔
طبری نے اس سند میں سیف کی حدیثوں کو سیف کی دو کتابوں ” الفتوح “ او ر” الجمل “ سے مندرجہ ذیل کلمات میں سے کسی ایک کے ذریعہ سرّی بن یحییٰ سے نقل کیا ہے :
۱۔ کَتَب الیَّ ۔ یعنی سرّی بن یحییٰ نے مجھے لکھا ۔
۲۔ حدثنی ، یعنی سرّی بن یحییٰ نے میرے لئے روایت کی ہے۔
۳۔ فی کتابہ الیّ ۱ یعنی سرّی بن یحییٰ نے جو خط مجھے لکھا ہے ،اس میں روایت کی ہے ۔
۲۔ ابن سبا کی داستانوں کیلئے ابن عساکر دمشقی کی سند
طبری کے بعد ابن عساکر ( وفات ۵۷۱ھ) نے عبدا للہ بن سبا کی داستانوں کو اپنی اسی (۸۰) جلد پر مشتمل تاریخ یعنی ” تاریخ مدینہ دمشق “ میں طلحہ ، عبداللہ بن سبا اور دوسروں کے حالات کے ضمن میں اپنی پسند سے سیف سے نقل کیا ہے ۔ سیف کی روایتوں کے مطابق عبداللہ بن سبا کے افسانہ اور دوسری داستانوں کو نقل کرنے کے بارے میں ابن عساکر ،کی سند یوں ہے :
ابن عساکر نے ابو القاسم سمرقندی سے اس نے ابو الحسین نقور سے ،اس نے ابو طاہر مخلص سے
اس نے ابو بکر سیف سے ، اس نے سرّی بن یحییٰ اس نے شعیب سے اور اس نے سیف سے ۲
------------
۱۔ اس کلمہ سے صرف ایک دفعہ روایت کی ہے ، ملاحظہ ہو ج۱/ ص ۲۰۵۵ طبع یورپ، )
۲۔ اخبرنا ابو القاسم السمرقندی عن ابی الحسین النقور عن ابی طاہر االمخلص عن ابی بکر بن سیف، عن السری بن یحیی عن شعیب بن ابراہیم ، عن سیف بن عمر ،
اس طرح ابن عساکر، کی سند چار واسطوں سے ” سری بن یحییٰ“ تک پہنچتی ہے اور ”سرّی بن یحیی “ طبری کے اسنا کا ایک منبع ہے جس کے بارے میں ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے۔
۳۔ ابن ابی بکر
محمد بن یحییٰ بن محمد اشعری مالکی -( وفات ۷۴۱ ھ ) مشہور بہ ابی بکر “ نے عبد اللہ بن سبا اور سبائیوں کے افسانہ کو اپنی کتاب ” التمہید و البیان فی مقتل عثمان بن عفان “ میں سیف بن عمر کی کتاب ” الفتوح “ اور تاریخ ابن اثیرسے نقل کیا ہے ۔
اس بناء پر ابن ابو بکر نے سبااور سبائیوں کے بارے میں سیف کے افسانوں کو کبھی سیف کی کتاب سے بلاواسطہ اور کبھیتاریخ ابن اثیر سے نقل کیا ے اس طرح معلوم ہوا کہ ابن اثیر نے بھی طبری سے اور طبری نے سیفسے نقل کیا ہے۔
یہاں تک سبائیوںکے بارے میں سیف کے افسانو ںکے مندرجہ ذیل تین اسنا دمعلو م ہوئے:
۱۔ طبری ( وفات ۳۱۰ھ ) کی سند۔
۲۔ ابن عساکر ( وفات ۵۷۱ ھ ) کی سند ۔
۳۔ ابن ابی بکر ( وفات ۴۸۱ھ ) کی سند۔
بعض مؤرخین اور مصنفوں نے مذکورہ اسناد میں سے کسی سے اور بعض نے دو سے اور سعید افغانی جیسے افراد نے تینوں اسناد سے استفادہ کیا ہے ۔
۴۔ ذھبی ۱
ابو عبد اللہ محمد بن احمد عثمان ذہبی( وفات ۷۴۸ھ) نے اپنی کتاب ” تاریخ الاسلام “ ۲ میں عبداللہ بن سبا سے مربوط بعض افسانوں کو نقل کیا ہے ، اس نے ابتداء میں سیف سے ایسی دو روایتیں نقل کی ہیں جو تاریخ طبری میں ذکر نہیں ہوئی ہیں ۔ ۳
با وجودیکہ وہ روایتیں افسانہ کو مکمل طور پر بیان کرتی ہے اور اس کے بعد اس نے اپنی کتاب کے ص ۱۲۴ ۔ ۱۲۸ طبری نے مفصل طور پر بیاں کئے گئے مطالب کو خلاصہ کے طور پر ذکر کیا ہے ۔
مذکورہ کتاب کے مقدمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف بن عمر کی کتاب ”الفتوح“ کے بعض نسخے ذہبی کے زمانے ( آٹھویں صدی ہجری ) تک موجوتھے اور اس کا ایک نسخہ ذہبی کے پاس موجود تھا وہ بھی کتاب ” التمہید “ کے مصنف ابن ابی بکر کی طرح اس سے بلاواسطہ روایتیں نقل کرتا تھامن جملہ وہ روایتیں ہیں کہ اس نے سیف سے نقل کی ہیں جو تاریخ طبری میں موجود نہیں ہیں ۔
یہاں تک بیان کئے گئے مطالب کا خلاصہ یہ ہے کہ ان علماء اورمؤرخین نے عبدا للہ بن سبا کے افسانہ کو بلا استثناء سیف بن عمر سے نقل کیا ہے، ان میں سے چار افراد یعنی طبری ، ابن عساکر ، ابن ابی بکر اور ذہبی نے اس افسانہ کو بلا واسطہ سیف سے نقل کیا ہے اور باقی لوگوں نے اسے بالواسطہ نقل کیا ہے ۔
---------
۱۔اس موضوع کو مؤلف نے فارسی ترجمہ میں اضافہ کیا ہے۔
۲۔ ج ۲ ص ۱۲ ۔ ۱۲۸۔
۳۔ ذھبی ان دو روایتوں کو نقل کرتے ہوئے ۱۲۲ ۔ ۱۲۳ پر یوں لکھتا ہے ؛ و قال سیف بن عمر عن عطیة عن یزید الفقعسی قال: لما خرج ابن السوداء اس کے بعد صفحہ ۱۲۳۔۱۲۴ دوسری روایت میں یوں بیان کرتا ہے و قال سیف عن مبشر و سھل ابن یوسف عن محمد بن سعد بن ابی وقاص قال: قدم عمار بن یاسر مصر
عبداللہ بن سبا کے افسانہ کو گڑھنے والا سیف بن عمر
و ھو:کذّاب متروک الحدیث اٴُتّھم بالزندقة
ابن سباکے افسانہ کوگڑھنے والا جھوٹا ہے اور اس پر زندیقی ہونے کا الزام ہے ، اس کی روایتیں ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کے قابل ہیں
علمائے رجال
جیسا کہ ہم نے بیان کیاکہ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزررہا ہے کہ سبائیوں کے افسانے علما اور دانشوروں کے زبان زد ہیں ان افسانوںکا سرچشمہ سیف بن عمر نامی ایک شخص ہے ،تمام روات ان قصوں کو اس سے نقل کرتے ہیں ، اب مناسب ہے کہ سیف کے بارے میں تحقیق کی جائے اور حقیقت تک پہنچنے کے بعد اس کی روایتوں کی بھی چھان بین کی جائے تا کہ معلوم ہوسکے کہ وہ کس قدر حقیقت سے دور تھا اور اس کی کیا قدر ہے ۔
سیف بن عمر کون ہے ؟
سیف بن عمر قبیلہ ” اسید “ سے ہے جو تمیم نامی ایک بڑے خاندان کی شاخ تھا ، اس لحاظ سے اسے ” اسید تمیمی“ کہا جاتا ہے اور بعض اوقات اسے ” تمیمی برجمی “ بھی کہتے ہیں ، برجمی ،ا براہیم سے منسوب ہے کہ خاندان تمیم کے چند قبیلوں کا نام تھا ، جنہوں نے آپس میں مل کر عہد و پیمان کیا تھا ،
وہ شہر کوفہ کا رہنے والا تھا لیکن اس سے پہلے وہ بغداد میں رہائش پذیر تھا ، اس نے ہارون الرشید کی خلافت کے دوران ۱۷۰ ھ ء کے بعد وفات پائی ہے ۔
سیف کی روایتیں
اس زمانہ کے مؤرخین کی یہ عادت تھی کہ وہ تاریخی حوادث کو سال کے ساتھ نقل کرتے تھے ، اس لئے سیف نے بھی اپنے جعل کئے گئے افسانوں کو صحیح تاریخ کی صورت میں پیش کرنے کیلئے اور انھیں صداقت کا رنگ دینےکیلئے کئی حصوں میں تقسیم کیا ہے اور اس نے ہر حصہ کیلئے علیحدہ سند گڑھ لی ہے اور اس طریقے سے اس نے مندرجہ ذیل دو کتابیں تالیف کی ہیں:
۱۔ الفتوح الکبیر و الردة :: اس کتاب میں اس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے قریب زمانہ سے عثمان کی خلافت کے زمانہ تک گفتگو کی ہے ، اسی کتاب میں ابو بکر کی خلافت کی مخالفت کرنے اور اس کی خلافت کو نہ ماننے والے مسلمانوں سے ابو بکر کی جنگ کو’ ’ مرتدوں سے جنگ “ کا نام دیا ہے ، اس نے اس کتاب میں لکھے گئے تمام حوادث کو افسانوی روپ دیا ہے اور ا ن میں مبالغہ آمیزی اور غلو سے کام لیا ہے ۔
۲۔ جمل اور عائشہ اور علی علیہ السلام کی راہ :اس کتاب میں عثمان کے خلاف بغاوت اس کے قتل ہونے اور ”جنگ جمل “ کے بارے میں گفتگو کی ہے ، کتاب کی روایتوں کی چھان بین کے بعد واضح ہوتا ہے کہ یہ کتاب صرف بنی امیہ کے وفاع میں لکھی گئی ہے ۔
سیف نے ان دو کتابوں کے علاوہ دوسری روایتیں بھی گڑھ لی ہیں جو دسیوں کتابوں میں درج ہوکر آج تک تاریخ اسلام کے سب سے بڑے مآخذ میں شمار ہوتیہیں ۔
طبری نے سیف کی روایتوں کو اپنی تاریخ کی کتاب ” تاریخ الامم و الملوک“ میں ۱۱ ھ ء سے ۳۷ ھ ء کے تاریخی حوادث کے ضمن میں نقل کیا ہے ۔
اس کے بعد ابن عساکر نے بھی اپنی اسی (۸۰) جلدوں پر مشتمل تاریخ میں دمشق سے گزرنے والے اشخاص کے ضمن میں ان میں سے بعض روایتوں کو نقل کیا ہے ۔
اصحاب پیغمبر پر خصوصی شرحیں لکھنے والے علماء ، یعنی :
۱۔ ابن عبد البر وفات ۴۳۶ ھ ، نے کتاب ” استیعاب “ میں ،
۲۔ ابن اثیر ، وفات ۶۳۰ ء ھ نے کتاب ” اسد الغابہ “ میں ۔
۳۔ذھبی وفات ۷۴۸ ھ نے کتاب” التجرید “ میں ۔
۴۔ ابن حجر ، وفات ۸۵۲ نے کتاب ” الاصابہ “ میں سیف کے افسانو ںکے بعض ہیروں کو اصحاب پیغمبر کے صف میں لا کھڑا کیا ہے اور ان کی زندگی کے حالات کی تفصیلات لکھی ہیں ان کتابوں کی تحقیق کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان ہیروںمیں سے تقریباً ایک سو پچاس کا کہیں وجود ہی نہیں تھا بلکہ ” صرف سیف بن عمر“تمیمی کے ذہن کی تخلیق ہیں “ ۱
---------
۱۔ مصنف نے اپنی کتاب ” ایک سو پچاس جعلی اصحاب “ میں ان کی معرفی کی ہے ۔
لیکن یہ علماء سیف کے افسانوں میں ان کے ناموں کو دیکھتے ہیں لہذاانھیں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فہرست میں قرارد یا ہے لہذا ان کی زندگی کے حالات کی وضاحت لکھنے کیلئے بھی ہاتھ پاؤں ماراہے اور اس طرح اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعداد کو بڑھادیا ہے ۱ اسلامی شہروں کی جغرافیہ لکھنے والے جیسے یاقوت حموی ( وفات ۶۲۶ ھ ) نے اپنی کتاب ” معجم البلدان “ میں اور صفی الدین نے ” مراصد الاطلاع “ میں سیف کی روایتوں سے استفادہ کرکے بعض ایسی جگہوں کی شرحیں لکھی ہیں جو صرف سیف کے افسانوں میں موجود ہیں :
اس طرح سیف بن عمر نے صرف عبد اللہ بن سبا کے افسانہ کو ہی ایجاد کرکے تاریخ اسلام میں ایک ہی ہیرو جعل نہیںکیا ہے بلکہ سینکڑوں دوسرے افسانے اور تاریخی بہادر ہیں جو اس کی فکر کی تخلیق ہیں اور ان کا کہیں وجود نہیں ملتا۔
ان افسانوں کو حدیث تفسیر ، تاریخ ، جغرافیہ ، ادبیات اور انساب کی سینکڑوں کتابوں میں درج کیا گیا ہے ، سیف کی روایتوں کی قدرو منزلت معلوم کرنے کیلئے ہمیں سب سے پہلے علمائے رجال کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے تا کہ یہ دیکھ لیں کہ انہوںنے سیف کی روایتوں کے قوی ، ضعیف ، صحیح ، اورمؤثق ہونے کے بارے میں کیا کہا ہے اس کے بعد انشاء اللہ اس کی روایتوں کی چھان بین کریں گے ۔
۱۔ مثال کے طور پر سیف نے اپنے افسانوں میں مذکورہ بہادروں کو سپہ سالاروں کے طور پر معرفی کیا ہے اور یہی دلیل بن گئی ہے کہ وہ بہادر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب تھے کیونکہ خود سیف کے بقول رسم یہ تھی کہ سپہ سالار اور کمانڈر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے انتخاب ہوتے تھے ۔
سیف علم رجال کی کتابوں میں :
۱۔ یحییٰ بن معین ( وفات ۲۳۳ ھ ) نے اس کے بارے میں کہا ہے :
” اس کی حدیث ضعیف اور کمزور ہے ۱
۲۔ نسائی ،صاحب صحیح ( متوفی ۳۰۳ ) نے کہا ہے :
” ضعیف ہے ، اس کی حدیث کو ترک کیا گیا ہے ، وہ نہ مورد اعتماد ہے اور نہ امین “ ۲
۳۔ ابو داؤد ( وفات ۲۷۵ ھ ) نے کہا ہے :
” بے ارزش ہے اور انتہائی دروغگو ہے “ ۳
۴۔ ابن حماد عقیلی ( وفات ۳۲۳ ھ ) نے اس کے بارے میں کہا ہے :
” اس کی روایتوں پر اعتماد نہیں کیا جاتا ہے اس کی بہت سی روایتوں میں سے ایک پر بھی اعتبار نہیں کرنا چاہئے “ ۴
۵۔ ابن ابی حاتم ( وفات ۳۲۷ ھ ) نے کہا ہے :
” چونکہ وہ صحیح احادیث کو خراب کرتا تھا لہذالوگ اس کی احادیث پر اعتبار نہیں کرتے تھے ، اس
----------
۱ٌ۔ کتاب الضعفاء ج ۲/ ص ۲۴۵ ، تہذیب التہذیب ج ۴/ ۳۹۵ رقم ۵۰۶ ، الضعفاء الکبیر ج ۲/ ۱۷۵ رقم ۶۹۴، )
۲۔ الضعفاء و المتروکین ص ۵۱ ، رقم ۲۶۵ ۔
۳۔ تہذیب التہذیب ج ۴/ ص ۲۹۵ ، رقم ۵۰۶۔
۴۔الجرح و التعدیل ج ۷ ص ۱۳۶ ، رقم ۷۶۲ ، ،تہذیب التہذیب ج ۴․ ص ۲۹۵ ۔
کی حدیث کو ترک کیا گیا ہے “ ۱
۶۔ ابن سکن ( وفات ۲۵۳ ھ ء ) نے کہا ہے : ” ضعیف ہے “
۷۔ ابن حبان ( وفات ۳۵۴ ھ ) نے کہا ہے :
” اپنی جعل کی گئی حدیثوں کو کسی مؤثق شخص کی زبانی نقل کرتا تھا مزید کہتا ہے ” سیف پر زندیقی ہونے کا الزام ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ حدیث گڑھ کر انھیں مؤثق افراد سے نسبت دیتا تھا ۲
۸۔ دار قطنی ( وفات ۳۸۵ ھ ) نے کہا ہے :
” ضعیف ہے اور اس کی حدیث کو ترک کیا گیا ہے “۳
۹۔ حاکم ( وفات ۴۰۵ ھ ) نے کہا ہے :
” اس کی حدیث کو ترک کیا گیا ہے ، اس پر زندیقی ہونے کا الزام ہے ۴
۱۰ ۔ابن عدی ( وفات ۳۶۵ ھ )نے اس کے بار ے میں کہا ہے :
” اس کی بعض احادیث انتہائی مشہور ہیں لیکن میری نظر میں اس کی تمام احادیث ناقابل اعتبار ہیں اسی وجہ سے اس کی احادیث پر بھروسہ نہیں کیا جاتا ہے ۔
--------
۱۔ المجروحین ج ۱․/ ص ۳۴۵ ، تہذیب التہذیب ج ۴ ص ۲۹۶
۲۔ تہذیب التہذیب ج ۴․ ص ۲۹۶،
۳۔ تہذیب التہذیب ج ۴ ص ۲۹۶
۴۔ تہذیب التہذیب ج ۴ ص۲۹۵ اور ۵۰۶
۱۱۔ صاحب قاموس ، فیروز آبادی ( وفات ۸۱۷ ھ ) فرماتے ہیں :
” ضعیف ہے “
۱۲۔ محمد بن احمد ذہبی ( وفات ۷۴۸ ھ ) نے اس کے بارے میں کہا ہے :
” تمام دانشوروں اور علمائے اسلام کا اس امر پر اجماع اور اتفاق ہے کہ وہ ضعیف تھا اور اس کی حدیث متروک ہے “ ۱
۱۳۔ ابن حجر ( وفات ۸۵۲ ھ ) نے کہا ہے :
” ضعیف ہے “۲
ایک اور کتاب میں کہتا ہے :
” اگرچہ تاریخ کے بارے میں اس کی نقل کی گئی روایتیں بہت زیادہ اور اہم ہیں ، لیکن چونکہ وہ ضعیف ہے ، لہذا اس کی حدیث کو ترک کیاگیا ہے “۳
۱۴۔ سیوطی ( وفات ۹۱۱ ھ ) نے کہا ہے :
” انتہائی ضعیف ہے “
----------
۱۔ المغنی فی الضعفاء ج ۱ ،ص ۲۹۲، رقم ۲۷۱۶،
۲۔ تہذیب التہذیب ج ۴ ،ص ۲۹۵ ، ۲۹۶ ، رقم ۵۰۶۔
۳۔ تقریب التہذیب ج ۱․ ص ۳۴۴ ، رقم ۶۳۳۔
۱۵۔ صفی الدین ( وفات ۹۲۳ ھ ) نے کہا ہے :
” اسے ضعیف شمار کیا گیا ہے “ ۱
یہ تھا سیف کے بارے میں علم رجال کے دانشوروں اور علماء کا نظریہ اب ہمیں سیف کی روایتوں کی چھان بین کرنا چاہئے تاکہ روایتوں کو جعل کرنے میں اس کی روش معلوم ہوسکے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی روایتوں کی قدر و قیمت کابھی اندازہہوسکے ۔
ہم ابن سبا کے افسانہ کی تحقیق سے پہلے نمونہ کے طورے پر سیف کی چند روایتوں کو نقل کرکے ان کی چھان بین کرتے ہیں اس کے بعد انشاء اللہ ابن سبا کے افسانہ کی چھان بین کریں گے ۔
-------
۱۔ خلاصة التہذیب ص ۱۳۶۔
سیف کی زندگی کے حالات کے منابع
عبد اللهبن سبا کے افسانہ کو تخلیق کرنے والے سیف بن عمر کی زندگی کے حالات کے بارے میں مندرجہ ذیل کتابوں میں ذکر کیا گیا ہے:
۱۔ فہرست ابن ندیم
۲۔الجرح و التعدیل : ابی ابی حاتم رازی: ج ۷، ص ۱۳۶۔
۳۔ الاستیعاب : ابن عبدالبر ، ج ۴ ، ۲۵۲۔ ۴۔ الضعفاء الکبیر ، : عقیلی ، ج ۲․ ص ۱۷۵۔
۵۔ المغنی فی الضعفاء : ذھبی ،ج ۱/ ص ۲۹۲ ۶۔ میزان الاعتدال : ذھبی ، ج ۲/ ۲۵۵۔
۷۔ تہذیب التہذیب : ابن حجر عسقلانی ، ج ۴/ ص ۲۹۶
۸۔ کتاب الضعفاء و المتروکین: نسائی ، ص ۵۱
۹۔الاصابة : ابن حجر عسقلانی ، ج ۴ ص ۱۷۵۔
۱۰۔ تقریب التہذیب : ابن حجر ، ج ۱ ص ۳۴۴،
۱۱۔ خلاصة التہذیب : صفی الدین ص ۱۲۶،
۱۲۔ کتاب المجروحیں : ابن حبّان، ج ۱ ص ۳۴۵۔
۱۳۔ کشف الظنون : حاجی خلیفہ ، ج ۱ ص ۱۲۴
۱۴۔ ھدا یة العارفین : اسماعیل پاشا، ج ۱ ص ۴۱۳
۱۵۔ الغدیر:سید عبدالحسین امینی، ج ۵ ص ۱۳۳۔
۱۶۔ الاعلام :زرکلی، ج ۳ ص ۱۵۰۔
|