غیر مسلم مؤرخین کی نظر میں عبدللہ بن سبا کی داستانیں
۱۔ فان فلوٹن
وہ ایک مستشرق ہے وہ اپنی کتاب ” السیاسة العربیة و الشیعة و الاسرائیلیات فی عھد بنی امیة“ ترجمہ ڈاکٹر حسن ابراہیم و محمد زکی ابراہیم طبع اول ، مصر ۱۹۳۴ ءء کے صفحہ ۷۹ پر شیعہ فرقہ کے بارے میں نقل کرتے ہوئے، یوں لکھتا ہے :
” امام ،سبائی ، عبداللہ بن سبا کے پیرو ، ہیںنیز ان افراد میں ہیںجو عثمان کے پورے دو ر خلافت میں علی علیہ السلام کو خلافت کےلئے سزاوار جانتے تھے “
اس نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۸۰ کے حاشیہ پر تاریخ طبری کو اپنے مآخذ و مدرک کے طور پر پیش کیا ہے ۔
۲۔ نکلسن
نکلسن اپنی کتا ب” تاریخ الاٴدب العربیّ“ طبع کمبریج کے صفحہ نمبر ۲۱۵ پر لکھتا ہے :
” عبدا للہ بن سبا ،سبائیوں کے گروہ کا بانی ہے ، وہ یمن کے شہر صنعا کا باشندہ تھا ،کہا جاتا ہے کہ وہ یہودی تھا اور عثمان کے زمانے میں اسلام لایا تھا اور ایک سیاح مبلغ تھا ، مؤرخین اس کے بارے میں یوں کہتے ہیں : وہ ہمیشہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر میں رہا کرتا تھا تا کہ مسلمانوں کو گمراہ کرکے ان میں اختلاف پیدا کرے ، سب سے پہلے وہ حجاز میں نمودار ہوا اس کے بعد بصرہ اور کوفہ اس کے بعد شام اور آخر کار مصر پہنچا ، وہ لوگوں کو رجعت کے اعتقاد کی دعوت دیتا تھا ، ابن سبا کہتا تھا : بے شک تعجب کا مقام ہے کہ کوئی شخص حضرت عیسیٰ کے پھر سے اس دنیا میں آنے کا معتقد ہو لیکن حضرت محمد کی رجعت کے بارے میں اعتقاد نہ رکھتا ہو جبکہ قرآن مجید نے اس کا واضح طور پر ذکر کیا ہے اس کے علاوہ ہزاروں پیغمبر آئے اور ان میں سے ہر ایک کا ایک وصی و جانشین تھا ، محمد کا بھی ایک وصی ہے جو علی علیہ السلام ہے ، چونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخری پیغمبر اور خاتم الانبیاء ہیں اس لئے علی علیہ السلام بھی آخری وصی اور ان کے جانشین ہیں “
اس نے بھی اپنا مآخذ کو تاریخ طبری کو قرار دیکر مذکورہ بیانات کے حاشیہ میں اس کی وضاحت کی ہے ۔
۳۔ اسلامی دائرة المعارف لکھنے والے مستشرقین
ہو تسمن ، ولاینسنگ ، اورنلڈ ، برونسال ، ھیونک ، شادہ ، پاسیہ ، ہارٹمان اور کیب جیسے مشرق شناس استادوں کے ایک گروہ کے تصنیف کردہ اسلامی دائرة المعارف میں یہ داستان حسب ذیل درج ہوئی ہے : ۱
---------
۱۔ اسلامی دائرة المعارف ج۱/ ۲۹ طبع لندن
” اگر ہم صرف طبری اورمقریزی کی بات پر اکتفا کریں تو ہمیں کہنا چاہئے کہ جن چیزوں کی طرف عبد اللہ بن سبا دعوت دیتا تھا ، ان میں رجعت محمد بھی تھی وہ کہتا تھا : ہر پیغمبر کا ایک جانشین ہے اور علی علیہ السلام محمد کے جانشین ہیں ۔ لہذا ہر مؤمن کا فرض ہے کہ اپنے کردار و گفتار سے علی علیہ السلام کے حق کی حمایت کرے “ کہا جاتا ہے کہ عبد اللہ نے اس طرز تفکر کی تبلیغ کےلئے بعض افراد کو معین کیا تھا اور خود بھی ان میں شامل تھا، وہ شوال ۱۵ ھ مطابق اپریل ۶۵۶ءء میں مصر سے مدینہ کی طرف روانہ ہو “
ہم نے یہاں پر وہ مطلب درج کیا جسے مذکورہ دائرة المعارف نے طبری سے نقل کیا ہے چونکہ یہ حوادث مقریزی سے ۸۰۰ سال قبل رونما ہوئے ہیں ، اس لئے اس طولانی فاصلہٴ زمان کے پیش نظر اور اس کے علاوہ مقریزی نے مآخذکا ذکر بھی نہیں کیا ہے یا جس کتاب سے نقل کیاہے اس کا نام بھی نہیں لیا ہے اسلئے مقریزی کے نقل پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ طبری اس داستان کی سند کو اس کے راوی تک پہنچاتا ہے اور وہ خود بھی مقریزی سے تقریباً پانچ سو سال پہلے گذراہے، اس حالت میں یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم مقریزی کی تحریر کو تاریخ طبری کے برابر قرار دیں اس کے باوجود ہم کتاب کے آخر میںمقریزی کی روایت پر بحث کریں گے ۔
۴۔ڈوایت ، ایم، ڈونالڈسن
ڈوایت ، ایم ، ڈونالڈسن ، ‘” عقیدہ الشیعہ “ نامی اپنی کتاب کے صفحہ ۵۸ پر یوں رقمطراز ہے:
” قدیم روایتین ہمیں اس امر کی طرف رہنمائی کرتی ہیں کہ علی علیہ السلام جس خلافت کا دعویٰ کرتے تھے اس کی ان کے حامیوں اور شیعوں کی نظر میں صرف سیاسی اہمیت نہیں تھی بلکہ وہ اسے ایک الہی حق سمجھتے تھے اور ان عقائد و افکار کے پھیلانے میں تاریخ اسلام کے ایک مرموز شخص کی ریشہ دوانیوں کا اہم رول تھا ۔ کیونکہ عثمان کی خلافت کے دوران عبداللہ بن سبا نامی ایک شخص پیدا ہوا جس نے وسیع تعلیمات کو پھیلانے کا اقدام کیا ، اس نے ان عقائد کو پھیلانے کیلئے اسلامی ممالک کے شہروں کا ایک طولا نی دورہ کیا ، طبری کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد اسلام کو نابود کرنا تھ“
جیسا کہ کتاب کے صفحہ نمبر ۵۹ کے حاشیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ” عقیدہ الشیعہ “ نامی کتاب کے مصنف نے اس داستان کو براہ راست طبری سے نقل نہیں کیا ہے بلکہ اس نقل میں اس نے دو کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے :
۱۔ گذشتہ اشارہ کئے گئے مستشرقین کے دائرة المعارف کا مادہ ” عبداللہ “
۲۔ نیکلسن کی تالیف کردہ کتاب ” تاریخ الادب العربی “ ص ۳۱۵۔
جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بھی کہا ہے کہ مذکورہ دونوں کتابوں میں جو کچھ عبداللہ بن سبا کے بارے میں لکھا گیا ہے وہ تاریخ طبری سے نقل کیا گیا ہے ۔
۵۔ ولھاوزن
ولھاوزں اپنی کتاب ” الدولة العربیة و سقوطھا“ کے صفحہ نمبر ۵۶ اور ۵۷ پر لکھتا ہے :
” سبائیوںنے اسلام میں تبدیلی ایجاد کی ، قرآن مجید کے بر عکس اعتقاد رکھتے تھے کہ روح خدا نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم میں حلول کیا ہے اور ان کی وفات کے بعد اس روح نے علی علیہ السلام اور آل علی علیہ السلام میں حلول کیا ہے ان کی نظر میں علی علیہ السلام ، ابو بکر اور عمر کے ہم پلہ خلیفہ نہیں تھے بلکہ وہ ان دونوں کو علی علیہ السلام کا حق غصب کرنے والے جانتے تھے اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اس مقدس روح نے علی علیہ السلام کے اندر حلول کیاہے “
اس کے بعد لکھتا ہے :
” کہا جاتا ہے کہ سبائی عبداللہ بن سبا سے منسوب تھے وہ یمن کا رہنے والا ایک یہودی تھا “
ولھاوزن نے یہاں پر اپنے مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے ، لیکن اپنی کتاب کے ۳۹۶ سے ۳۹۹ تک مطلب کو تفصیل کے ساتھ بیان کرکے اپنے مآخذ کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھتا ہے :
” سیف کہتا ہے : سبائی پہلے ہی دن سے شر پسند اور بد نّیت تھے ، انہوں نے عثمان کوقتل کرکے مسلمانوں کے اندر افراتفری اور جنگ کے شعلے بھڑکادیئے ان میں اکثر لوگ موالی اور غیر عرب تھے ۔
سبائی عبد اللہ بن سبا کی پیروی کرتے ہوئے اعتقاد رکھتے تھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رجعت کریں گے اور آپ اپنے اہل بیت کے بدن میں حلول کرتے ہیں چونکہ علی علیہ السلام کی اولاد جو پیغمبر کی بیٹی فاطمہ سے تھی ، نے اسلام اورعربی نسل سے منہ نہیں موڑا اور سبائیوں کو مسترد کردیا اسلئے وہ علی علیہ السلام کے دوسرے بیٹے محمد بن حنفیہ سے منسلک ہوگئے ۔
محمد کی وفات کے بعد ان کا بیٹا ابو ہاشم ---جو اپنے باپ کی طرح بے قدر تھا ---ان کا امام بنا ، ابو ہاشم نے اپنے بعد محمد بن علی عباسی کو اپنا وصی اور جانشین مقرر کیا اور یہاں سے خلافت بنی عباس میں منتقل ہوگئی ۔ سیف کی روایت کے مطابق بنی عباس کا خروج سبائیوں کے خروج کے مانند تھا ، دونوں گروہوں کی دعوت کا مرکز شہر کوفہ تھا ور ان کے پیرو ایرانی تھے اور دونوں گروہوں نے عرب مسلمانوں کے خلاف خروج کیا تھا “
یہ ان مطالب کا خلاصہ تھا جنہیں ولھاوزن نے سیف سے نقل کرتے ہوئے وضاحت کے ساتھ دوبار اس کے نام کی تکرار کی ہے ، کتاب کے مقدمہ میں جہاں پر وہ سیف کی ستائش کرتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سیف کی روایتوں کو طبری سے نقل کیا ہے ۔
اس بناء پر ولھاوزن کا مآخذ بھی تاریخ طبری ہے اور طبری کے ہی واسطہ سے اس نے اس افسانہ کو نقل کیا ہے ۔
جیسا کہ معلوم ہوا ، ا بن سبا کا افسانہ عجیب شہرت کاحامل ہوا جیسا کہ مشاہدہ ہورہا ہے، کہ جنہوں نے بھی اس افسانہ کو نقل کیا ہے ان سب کی روایتیں بلاواسطہ یا ایک یا اس سے زیادہ واسطوں سے طبری پر ختم ہوتی ہیں ۔
|