عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
 
مسلمان تاریخ نویسوں کی نظر میں عبدالله بن سبا کی داستان

۱۔ سید رشید رضا ۱
متاٴخرین میں سے سید رشید رضا نے یوں کہاہے :
” چوتھے خلیفہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے نام پر شیعیت ، امت محمدی میں دینی اور سیاسی اختلاف کا آغاز تھا ، پہلا شخص جس نے تشیع کے اصول گڑھے ہیں ، وہ عبد الله بن سبا نامی ایک یہودی تھا جس نے مکر و فریب کی بنا پر اسلام کا اظہار کیا تھا ۔ وہ لوگوں کو علی علیہ السلام کے بارے میں غلو کرنے کی دعوت دیتا تھا تا کہ اس طرح امت میں اختلاف اور تفرقہ پھیلا کر اسے تباہ و برباد کرے ۲
سید رشید رضا اس داستان کو اپنی کتاب کے چھٹے صفحہ تک جاری رکھتے ہوئے اس پر اپنا خاطر خواہ حاشیہ لگایا ہے ، جب ہم اس سے اس خیالی داستان کے ثبوت اور مصادر کے بارے میں پوچھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ داستان کو نقل کرنے کے بعد یوں لکھاہے :
” اگر کوئی تاریخ ابن اثیر کی تیسری جلد کے صفحہ ۹۵ ۔ ۱۰۳ پر جنگ جمل کے واقعہ کی
-------
۱۔ متولد ۱۳۶۵ھ
۲۔ سید رشید رضا کی الشیعہ و السنة ،ص ۶۔۴۔
خبر کا مطالعہ کرے تو اسے بخوبی معلوم ہوگا کہ ” سبائیوں “ نے کس حد تک اختلاف اندازی کی ہے اور نہایت ذہانت اور چالاکی سے اپنی مہارت کا اظہار کیا ہے اور صلح کی راہ میں کتنی روکاوٹیں ڈالی ہیں ، اس بنا پر معلوم ہوتا ہے کہ سید رشید رضا نے اس داستان کو ” تاریخ ابن اثیر “ پر بھروسہ کرکے نقل کیا ہے ۔

۲۔ ابو الفدء
ابو الفداء جس نے ۷۳۲ ھ میں وفات پائی ہے ، ” المختصر “ نامی اپنی تاریخ میں چند دوسری غیر صحیح داستانوں کے ساتھ ضمیمہ کرکے اپنی کتاب کے دیباچہ میں اس داستان کے ایک حصہ کو یوں لکھا ہے :
” میں نے اس کتاب کو شیخ عز الدین علی معروف بہ ابن اثیر جزری کی تالیف ’ ’ تاریخ کامل “ سے لیا ہے اور ابن اثیر کے مطالب کو خلاصہ کے طورپرمیں نے اپنی اِس کتاب میں درج کیا ہے “

۳۔ ابن اثیر
ابن اثیر وفات ۶۳۰ ھ ئنے اس داستان کو ۳۰ ۔ ۳۶ ء کے حوادث کے ضمن میں مکمل طور پر نقل کیا ہے، لیکن اس بات کی طرف کسی قسم کا اشارہ نہیں کیا ہے کہ اس نے اس داستان کو کس مآخذ سے نقل کیا ہے ، صرف کتاب کے دیباجہ میں ۱
--------
۱۔ صفحہ ۵ ،طبع مصر ۱۳۴۸ھ ۔
جس کا پورا نام ” الکامل فی التاریخ “ ذکر کیا ہے لکھا ہے :
” میں نے اس کتاب کے مطالب کو ابتداء میں امام ابو جعفر محمد طبری کی تالیف ” تاریخ الامم و الملوک “ سے نقل کیا ہے ، کیونکہ وہ تنہا کتاب ہے جو عام لوگوں کی نظروں میں قابل اعتماد ہے اور اگر کبھی کوئی اختلاف پیدا ہوجائے تو اس اختلاف کو دور کرنے کیلئے اس کتاب کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ، لہذا میں نے بھی اس کتاب کی روایتوں کو کسی دخل و تصرف کے بغیر من و عن نقل کیا ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ اس نے اکثر واقعات کے بارے میں متعد روایتیں ذکر کی ہیں لیکن میں نے ان تمام روایتوں کے مطالب کو جمع کرکے ایک جگہ بیان کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر جو کچھ اس نے ایک واقعہ کے بارے میں نقل کیا ہے اور اسے مختلف مآخذ کے حوالہ سے بیان کیا ہے ، میں نے اُسے ایک روایت کی شکلمیں ذکر کیا ہے “
یہاں تک کہ کہتا ہے :
” لیکن اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اختلافات کے بارے میں جو کچھ تھا اسے میں نے مذکورہ تاریخ سے من و عن نقل کرکے درج کیا ہے اور اس میں کسی قسم کا تصرف نہیں کیا ہے ، صرف مطالب کی وضاحت کی ہے یا اشخاص کے نام ذکر کئے ہیں اور یا خلاصہ کے طور پر ان کی تشریح اس طرح کی ہے کہ کسی صحابی کی بے احترامی نہ ہو“
اس لحاظ سے ابن اثیر، (جس سے ابو الفداء اور سید رشید رضا نے نقل کیا ہے )نے اس داستان کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے چونکہ یہ داستانیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے درمیان رونما ہوئے حوادث کی تفصیلات سے مربوط جعل کی گئی ہیں ، لہذ اابن اثیر کے کہنے کے مطابق اس نے طبری کے نقل کردہ مطالب پر کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے ۔

۴۔ ابن کثیر
ابن کثیر ---( وفات ۷۷۴ ھ )نے بھی اس داستان کو اپنی تاریخ ” البدایة و النہایة “ کی ساتویں جلد میں طبری سے نقل کیا ہے اور اس کتاب کے صفحہ ۱۶۷ میں لکھاہے :
سیف بن عمر نے کہا ہے کہ عثمان کے خلافمختلف پارٹیوں کی بغاوت کا سبب یہ تھا کہ ” عبدا للہ بن سبا “ نامی ایک شخص نے ظاہری طور پر اسلام لانے کے بعد مصر میں جاکر خود کچھ عقائد اور تعلیمات گڑھ کر وہاں کے لوگوں میں ان عقائد کو پھیلای“
اس کے بعد عبداللہ بن سبا نے مربوط داستانوں کو تمام خصوصیات کے ساتھ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۲۴۶ تک نقل کرتا ہے اور اس کے بعد لکھتا ہے :
” یہ اس کا ایک خلاصہ ہے جو کچھ ابو جعفر بن جریر طبری ۺ نے نقل کیا ہے “۔
اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بھی مذکورہ داستان کو ” تاریخ طبری “ سے نقل کیا ہے ۔

۵۔ ابن خلدون
عبد الرحمان بن محمد بن خلدون نے بھی ” المبتداء و الخبر “ نامی اپنی تاریخ میں ابن اثیر اور ابن کثیر کے ہی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے عبداللہ بن سبا کی داستان کو قتل عثمان اور جنگ جمل کے واقعہ میں ذکر کیا ہے پھر اسی کتاب کی جلد ۲ صفحہ ۴۲۵ میں جنگ جمل کا واقعہ درج کرنے کے بعد لکھا ہے :
یہ ہے جنگ جمل کا واقعہ جسے میں نے خلاصہ کے طور پر ابو جعفر طبری کی کتاب سے نقل کیا ہے، طبری اس لحاظ سے قابل اعتماد ہے کہ وہ باوثوق ہے اور اس کی کتاب ، ابن قتیبہ اور دوسرے مؤرخین کے یہاںموجود مطالب کی نسبت صحیح و سالم ہے “
اور صفحہ نمبر ۴۵۷ پر لکھاہے :
میں نے جو کچھ اس کتاب میں اسلامی خلافت کے موضوع، مرتدوں کے بارے میں فتوحات ، جنگوں اور اس کے بعد مسلمانوں کے اتحاد و اجتماع ( امام حسن اور معاویہ کے درمیان صلح ) کے بارے میں درج کیا ہے ، وہ سب امام ابو جعفر طبری کی عظیم تاریخ سے خلاصہ کے طور پر نقل کیا ہے ، چونکہ یہ تاریخ دیگر تواریخ کی نسبت قابل اعتمادہے اور ا سمیںا یسے مطالب درج کرنے سے پرہیز کیا گیا ہے جو اس امت کے بزرگوں ، اصحاب اور تابعین کی بے احترامی کا سبب بنیں “

۶۔ فرید وجدی
فرید وجدی نے بھی اپنے” دائرة المعارف “ میں لغت ” عثم “ ، جنگ جمل اور حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے حالات بیان کرنے کے ضمن میں ان داستانوں میں سے بعض کا ذکر کیا ہے اور اسی کتاب کے صفحہ ۱۶۰ ، ۱۶۸ ، اور ۱۶۹ میں اشارہ کیا ہے کہ اس کا مآخذ ” تاریخ طبری “ ہے ۔

۷۔ بستانی
بستانی( وفات ۱۳۰۰ھ )نے عبدا لله ابن سبا کی داستان کو ”تاریخ ابن کثیر “ سے نقل کرکے اپنے دائرة المعارف میں مادہ ” عبد اللہ “ کے تحت ذکر کیا ہے اور ” خطط مقریزی “ ۱ کے بیان کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اپنی بات تمام کی ہے ۔

۸۔ احمد امین
عصر حاضر کے مصنفین ، جوتاریخی حوادث کو تجزیہ و تحلیل کے طریقے سے لکھنا چاہتے ہیں اور ہر حادثہ کے سرچشمہ پر نظر رکھتے ہیں ، ان میں سے ایک احمد امین مصری ہیں ۔جنھوں نے ” فجر الاسلام “ نامی اپنی کتاب میں ایرانیوں اور اسلام پر ان کے اثر انداز ہونے کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس کے صفحہ نمبر ۱۰۹ سے ۱۱۱ تک ” مسلمانون پر زرتشت عقائد و افکار کے اثرات “ کے باب میں ” مزدک “ کے
-------
۱۔ یہ احمد بن علی مقریزی وفات ۸۴۸ ھ ہے
بارے میں بیان کیا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کی بات کا خلاصہ حسب ذیل ہے ۱ ”مزدک کی اہم دعوت اس کا اشتراکی نظام مقصد تھا ، مزدک کہتا تھا
” لوگ مساوی طور پر دنیا میں آئے ہیں اور انھیں مساوی زندگی بسر کرنی چاہئے ، اہم ترین چیز جس میں لوگوں کو مساوات کا لحاظ رکھنا چاہئے ، دولت اور عورت ہے ، کیونکہ یہی دو چیزیں لوگوں کے درمیان دشمنی اور جنگ کا سبب بنتی ہیں ، لہذا لوگوں کو ان دو چیزوں میں ایک دوسرے کا شریک ہونا چاہئے تا کہ دشمنی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے “
وہ دولتمندوں کی دولت کو محتاجوں اور فقیروں میں تقسیم کرنا واجب جانتا تھا ، لہذا حاجتمندوں نے فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس کے اس اعتقاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی حمایت کی اور اس طرح وہ اس قدر قوی ہوگیا کہ کوئی اس کی مخالفت کی جراٴت نہیں کرسکتا تھا ، لوگوں کے گھروں پر حملہ کرکے ان کے مال و ناموس کو لوٹ لیتا تھا ، اس طرح ایسے حالات رونما ہوئے کہ نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کو پہچان سکتا تھا اور نہ بیٹا باپ کو جانتا تھا اور نہ کسی کی دولت باقی رہی تھی “
اس کے بعد احمد امین لکھتے ہیں کہ یہ دین اسلام کے پھیلنے کے زمانے اور بنی امیہ کی خلافت کے آخری ایام تک ایران کے بعض دیہاتی باشندوں میں موجود تھا ۔
اس مطلب کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
-------
۱۔ احمد امین سے پہلے رشید رضا نے اپنی کتاب ” الشیعہ و السنة “ میں یہی بات کہی ہے ۔
” ہم مالی امور کے سلسلے میںا بوذر کے نظریہ اور مزدک کے نظریہ میں شباہت پاتے ہیں ، کیونکہ طبری کہتا ہے ابوذر نے شام میں انقلاب کرکے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ ” اے دولتمندو حاجتمندوں کی مدد و یاری کرو“ اور یہ کہتا تھا : <اَلَّذِینَ یکنزون الذھب و الفضة و لا ینفقونھا فی سبیل الله فبشّرھم بعذابٍ الیم> ۱
اس نعرہ کو اس قدر دہرایا کہ تنگدستوں نے اسے اپنا منشور قرارد یا اور مساوات کو ثروتمندوں پر واجب سمجھنے لگے ، یہاں تک کہ دولتمندوں نے تنگ آکر شکایت کی اور معاویہ نے اس ڈر سے کہ کہیں ابوذر شام کے لوگوں کو اس کے خلاف بغاوت پر نہ اکسائےں، اسے عثمان کے پاس مدینہ بھیج دیا۔
عثمان نے ابو ذر سے پوچھا : کیوں لوگ تیری زبان درازی پر تجھ سے شکایت کرتے ہیں؟ ابوذر نے جواب میں کہا : دولتمند سزاوار نہیں ہیں کہ وہ اپنے مال کو جمع کریں !
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مال اور دولت کے بارے میں ابوذر کا طرز تفکر مزدک کے نظریہ سے بہت نزدیک تھا یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابوذر نے نظریہ کہاں سے سیکھا تھا؟
ہم اس سوال کے جواب کو طبری کی تحریر میں پاتے ہیں جب وہ یہ کہتا ہے : ابن سوداء عبداللہ بن سبا نے ابوذر سے ملاقات کرکے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے ، البتہ عبداللہ بن سبا ابود رداء اور عبادہ بن صامت ۲ کے پاس بھی گیا تھا لیکن وہ اس کے فریب میں نہیں آئے تھے ، حتی عبادة بن
--------
۱۔ مال و دولت کو جمع کرکے راہ خدا میں خرچ نہ کرنے والوں کو خبردار کرو کہ ان کی پیشانی اور پہلو کو داغ کرنے کیلئے اوزار آمادہ ہے ۔
۲۔یہ دونوں پیغمبر خدا کے اصحاب ہیں ، اس کتاب کے آخر میں ان کے حالات پر روشنی ڈالی جائے گی۔

صامت نے ابن سوداء کے گریبان پکڑ کر اسے معاویہ کے پاس لے گیا اور معاویہ سے کہا: خدا کی قسم یہ وہ شخص ہے جس نے ابوذر کو تیرے خلاف اکسایا ہے ۱
اس کے بعد احمد امین بیان کو اس طرح جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں:
ہم جانتے ہیں کہ عبداللہ بن سبا صنعاء کا رہنے و الا ایک یہودی شخص تھا ، اس نے عثمان کے زمانے میں ظاہری طور پر اسلام قبول کیا تھا تا کہ اسلام کو نابود کردے ، اس لئے اس نے مختلف شہروں میں اپنے گمراہ کن اور مضر افکار کو پھیلادیا جن کے بارے میں بعد میں ہم اشارہ کریں گے۔
چونکہ ابن سبا نے حجاز ، بصرہ ، کوفہ ، شام اور مصر جیسے بہت سے شہروں کا سفر کیا تھا ا س لئے اس کا قوی امکان ہے کہ اس نے اس طرز تفکر کو عراق یا یمن کے مزدکیوں سے حاصل کیا ہوگا اور ابوذر نے اس سے حسن نیت رکھنے کی بنا پر اس نظریہ کو قبول کیا ہوگا“
اور حاشیہ میں لکھا ہے :
” تاریخ طبری کا حصہٴ پنجم ملاحظہ ہو “
وہ اس بحث کو جاری رکھتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۱۲ میں اس طرح نتیجہ اخذ کرتے ہیں :
” مزدک و مانی وہ سرچشمہ تھے جن سے رافضیوں -( شیعوں ) نے اپنے عقائد اخذ کئے ہیں ، انہوں نے علی علیہ السلام اور آل علی علیہ السلام کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ اپنے ایرانی اسلام کے اس عقیدہ سے لیا ہے جو وہ ساسانی بادشاہوں کے بارے میں رکھتے تھے ، کیونکہ وہ پادشاہوں کی پادشاہی کو ایک قسم کا خدائی حق جانتے تھے ۔
احمد امین نے وعدہ کیا تھا کہ ” مختلف شہروں میں ان گمراہ کن اور مضر عقیدوں و و افکار کو پھیلنے کے بارے میں بعد میں اشارہ کریںگے “ وہ اس وعدہ کو پورار کرتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ ۲۵۴پر اسلامی فرقوں کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ہیں :
عثمان کی خلافت کے آخری ایام میں بعض گروہ مخفی طور پر جگہ جگہ پھیل گئے اور لوگوں کو عثمان کا تختہ الٹنے، اس کی جگہ پر دوسروں کو بٹھانے کی ترغیب دلانے لگے ۔
ان فرقوں میں سے بعض فرقے علی علیہ السلام کے حق میں پروپگنڈہ کرتے تھے ، ان کے سرغنوں میں سب سے مشہور شخص عبداللہ بن سبا تھا ، جو یمن کا ایک یہودی تھا اور اس نے ظاہری طور پر اسلام قبول کیا تھا اور بصرہ ، شام و مصر کے شہروں کا دورہ کرتا تھا اور لوگوں سے کہتا تھا : ہر پیغمبر کا ایک وصی تھا اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصی، علی علیہ السلام ہیں اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت پر عمل نہ کرے اور ا س کے وصی کے خلاف بغاوت کرے ؟ ابن سبا ان معروف افراد میں سے تھا جس نے لوگوں کو عثمان کے خلاف بغاوت پر اکسایا “
اس کے بعد صفحہ ۲۵۵ پر لکھتے ہیں :
” یہ اس تاریخ کا خلاصہ ہے جس کو نقل کرنے پر میں مجبور تھا ، کیونکہ مسلمانوں کے سب سے بڑے تین فرقے اسی کی بناء پر وجود میں آئے ہیں جو عبارت ہیں ، شیعہ اور “
اپنی کتاب کے ۲۶۶۔ ۲۷۸ پر شیعوں سے مربوط فصل میں ایسے مطالب کو واضح تر صورت میں بیان کیا ہے ۔ وہ صفحہ ۲۷۰ پر رقم طراز ہیں :
رجعت کے عقیدہ کو ابن سبا نے مذہب یہود سے لیا ہے کیونکہ وہ لوگ اس امر کے معقتد ہیں کہ الیاس پیغمبر نے آسمان کی طرف عروج کیا ہے اور وہ واپس آئیں گے اس عقیدہ نے شیعوں کو ائمہ کے غائب ہونے او رمھدی منتظر کے اعتقاد رکھنے پر مجبور کیا ہے ۱
اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۲۷۶ پر مذکورہ مقدمات کا حسب ذیل نتیجہ اخذ کرتے ہیں:’ ’ حقیقت میں تشیع ایسے لوگوں کی پناہ گاہ تھی جو اسلام کے ساتھ دشمنی اور کینہ رکھنے کی بناء پر اسے نابود کرنا چاہتے تھے ۔ جو بھی گروہ اپنے اسلام یعنی یہودی ، عیسائی اور زردشتی دین کو اسلام میں داخل کرنا چاہتا تھا ، اس نے اہل بیت پیغمبر کی دوستی
--------
۱۔ مؤلف نے مصری عالم شیخ محمود ابوریہ کے نام لکھے گئے اپنے خط میں مھدی موعود (عج) کے بارے میں شیعوں کے عقیدہ کے سلسلہ میں کچھ دلائل لکھے ہیں، اس خط کا ایک حصہ مذکورہ عالم کی کتاب ” اضواء علی السنة المحمدیہ “ میں درج ہوا ہے ، طبع صور لبناں ۱۳۸۳ ھ ء ملاحظہ ہو۔

کو وسیلہ قرار دیا اور اس آڑ میں جو بھی چاہا انجام دیا ، شیعوں نے رجعت کے عقیدہ کو یہودیوں سے سیکھا ہے ۱
اور صفحہ ۲۷۷ پریوں تحریک کرتے ہیں :
ولھاوزن کا عقیدہ یہ ہے کہ تشیع ایرانیوں کے دین کی بہ نسبت ،دین یہود سے زیادہ متاثر ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ تشیع کا بانی عبداللہ بن سبا نامی ایک یہودی شخص تھا ۔“
احمد امین کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ شیعوں نے رجعت اور امامت کے عقیدہ کو عبدا للہ بن سبا سے لیاہے اور ائمہ کی عصمت اور غیبت مھدی (عج) کے عقیدہ کا سرچشمہ بھی یہی ہے اور ابوذر نے جو اشتراک کی تبلیغ کی ہے یہ تبلیغات اور تعلیمات بھی عبداللہ بن سبا سے سیکھی ہے اور ابن سبا نے بھی رجعت کے عقیدہ کو دین یہود سے لیا ہے اور اشتراکی نظریہ کو مزدک کے دین سے اخذ کیا ہے اور عبدا لله بن سبا نے یہ کام علی علیہ السلام کے حق کے مطالبہ کی آڑ میں انجام دیا ہے اور اس طرح اسلام میں شیعہ عقیدہ کو ایجاد کیا ہے ، اس طرح یہاں سے نتیجہ نکلتا ہے کہ حب اہل بیت دشمنان اسلام کے لئے وسیلہ قرار پایا ہے اور شیعیت کے روپ میں یہود وغیرہ کی تعلیمات اسلام میں داخل ہوئی ہیں !!!
احمد امین کے ان تمام مفروضوں کا منبع اور دلیل ابن سبا کے افسانے ہیں اور مآخذ تاریخ طبری ہے اس نے صرف ایک جگہ پر ولھاوزن سے نقل کیا ہے ، ہم ثابت کریں گے کہ ولھاوزن نے بھی طبری
۱۔ کتاب ” فجر اسلام “ اور ” تاریخ الاسلام السیاسی “ دنیا کی یونیورسٹیوںمیں تاریخی مآخذمیںجانی جاتی ہیں یہ شیعہ تاریخ یونیورسٹیوں میں یوں پڑھا ئی جاتی ہے تو کیاصحیح تاریخ سمجھانے کا کوئی وسیلہ موجود ہے ؟
سے نقل کیا ہے ۔
اگر چہ احمد امین نے اس افسانہ کو علمی تجزیہ و تحلیل کے طریقے پر پیش کیا ہے ، لیکن اس میں ذرہ برابر شک و شبہہ نہیں کہ شیعوں کے بارے میں ان کے بغض و کینہ نے انھیں ان مفروضوں کے سلسلہ میں کوسوں دور پھینک دیا ہے نہ کہ علمی ا ور تحقیقی روش نے

۹۔ حسن ابراہیم
معاصر کے مصنفین میں سے ایک اور شخص جس نے ان داستانوں کو تجزیہ و تحلیل کے ساتھ پیش کیا ہے وہ مصر کی یونیورسٹی کے شعبہ تار یخ اسلام کے استادپروفیسر ڈاکٹر حسن ابراہیم ہیں ، انھوںنے ” تاریخ الاسلام السیاسی “ نامی اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۳۴۷ پر خلافت عثمان کے آخری ایام میں مسلمانوں کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :
” یہ ماحول مکمل طور پر عبد اللہ بن سبا اور اس کے پیرکاروں ،اور اس کے اثر ات قبول کر نے والوں کا تھا، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک دیرینہ صحابی ، ابوذر غفاری ( جو تقوی اورپرہیزگاری میں مشہور تھے اور خود ائمہ حدیث کی عظیم شخصیتوں میں شمار ہوتے تھے )نے فتنہ کی آگ کو بھڑکادیا ، اس نے صنعا کے رہنے والے ایک شخص عبد اللہ بن سبا کے کئے گئے زبردست پروپگنڈے کے اثر میں آکر عثمان اور اس کے شام میں مقرر کردہ گورنر معاویہ کی سیاست کی مخالفت کی ، عبد اللہ بن سبا ایک یہودی تھا جس نے اسلام قبول کرکے مختلف شہروں کا دورہ کیا اس نے اپنے دورے کو حجاز سے شروعکیا اور کوفہ ، شام اور مصر تک چھان ڈالا “
اس نے اس صفحہ کے حاشیہ پر تاریخ طبری ۱ کو اپنا مآخذ قرار دیا ہے اور کتاب کے صفحہ نمبر ۳۴۹ پر یوںلکھا ہے :
” عبداللہ بن سبا سب سے پہلا شخص ہے جس نے عثمان کے خلاف عوام میں نفرت پھیلائی اور عثمان کا تختہ الٹنے کی راہ ہموار کی “
کتاب کے حاشیہ پر تاریخ طبری کے صفحات کی طرف چار بار اشارہ کرتا ہے کہ اس خبر کو میںنے اس سے نقل کیا ہے اور اسی طرح داستان کو ص ۳۵۲ تک جاری رکھتا ہے اور بارہ دفعہ اس داستان کے تنہا مآخذ تاریخ طبری کے صفحات کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کے باوجود کہ جنگِ جمل کے بارے میں طبری کی نقل کردہ بات کو بیان کرنے سے گریز کرتا ہے ، جبکہ ابن سبا دونوں داستانوں میں موجود ہے، اور دونوں قصے ایک ہی داستان پر مشتمل ہیں اور داستان گڑھنے والا بھی ایک ہی شخص ہے!!!

۱۰۔ ابن بدران
ابن بدران ( وفات ۳۴۶ھ ء) نے تاریخ ابن عساکر کا خلاصہ لکھا ہے اور اس کا نام ” تہذیب ابن عساکر “ رکھاہے اس نے اپنی اس کتاب میں اکثر روایتوں کو راوی کا نام لئے بغیر نقل کیا ہے ۔ اس
----------
۱۔ طبری طبع یورپ حصہ اول صف ۲۸۵۹

نے ابن سبا کے افسانے کے بعض حصوں کو نقل کیا ہے اس نے بعض جگہوں پر اس کے راوی سیف بن عرم کا نام لیا ہے اور بعض جگہوں پر راوی کا ذکر کئے بغیر افسانہ نقل کیا ہے اور بعض مواقع پر سیف کی روایتوں کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے چنانچہ اس سے زیادہ ا بن ابیہ کے حالات بیان کرتے ہوئے سیف کی روایتوں کو اس کی کتاب سے نقل کیا ہے ۱
لہذا معلوم ہوتا ہے کہ سبائیوں کی داستان نقل کرنے میں اسلام کے مؤرخین کا مآخذ و مدرک ” تاریخ طبری “ تھا۔

۱۱۔ سعید افغانی
سعید افغانی نے ” عائشہ و السیاسة “ نامی اپنی کتاب میں ابن سبا کے افسانہ سے کچھ حصے، ” عثمان کااحتجاج “ ابن سبا مرموز اور خطرناک ہیرو ، سازش و دسیسہ کاری پر نظر “‘ کے عنوا ن کے تحت بیان کیا ہے ، اس نے اپنی کتاب کے دوسرے حصوں میں ان افسانوں کے چند اقتباسات درج کئے ہیں۔
اس کا مآخذ ، پہلے درجہ پر تاریخ طبری ، دوسرے درجہ پر تاریخ ابن عساکر اور اس کی تہذیب اور تیسرے درجہ پر تمہید ابن ابی بکر ۱ ہے ، وہ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۵ پر طبری کے او پر اکثر اعتماد کرنے کا سبب یوں بیان کرتا ہے :۔
میں نے بیشتر اعتماد تاریخ طبری پر کیا ہے ، کیونکہ یہ کتاب دوسرے تمام مصادر سے حقیقت کے
-----------
۱۔ ص ۴۳ اور ۴۵ پر تاریخ ابن عساکر ، صفحہ ۴۲ ، ۴۹، ۵۲ اور ۱۸۷ پر تہذیب ابن عساکر سے اور صفحہ ۳۴ اور ۳۵ میں تمہید سے استفادہ کیا ہے ۔

نزدیک تر اور اس کا مصنف دوسروں سے امین تر اور اس کے بعد آنے والے ہر با اعتبارر مؤرخ نے اس پر اعتماد کیا ہے ۔
میں نے اس کے الفاط میں کسی قسم کے رد و بدل کے بغیر اپنی کتاب میں درج کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے ۔