عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے
 
پہلا حصہ : عبدا للہ بن سبا کا افسانہ


افسانہ کی پیدائش ۔
افسانہ کے روایوں کا سلسلہ ۔
سیف بن عمر ۔ عبد الله بن سبا کے افسانہ کو گڑھنے والا۔
عبد الله بن سبا کے افسانہ کی پیدائش
”ھٰذہ ہی اٴُسطورة ابن سَباٴ بإیجاز“
یہ افسانہٴ عبد الله بن سبا اور اس کی پیدائش کا خلاصہ ہے۔
ایک ہزار سال سے زائد عرصہ پہلے مؤرخین نے ” ابن سبا“ کے بارے میں قلم فرسائی کرکے اس سے اور سبائیوں ( اس کے ماننے والوں) سے حیرت انگیز اور بڑے بڑے کارنامے منسوب کئے ہیں ۔ لہذا دیکھنا چاہئے کہ
یہ ابن سبا کون ہے ؟ اور
سبائی کون ہیں ؟
ابن سبا نے کونسے دعوے کئے ہیں اور کیا کارنامے انجام دئے ہیں؟

مؤرخین نے جو کچھ ” ابن سبا “ کے بارے میں لکھا ہے ، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے
صنعا ، یمن کے ایک یہودی نے عثمان کے زمانے میں بظاہر اسلام قبول کیا ، لیکن خفیہطور پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف و افتراق پھیلانے میں مصروف تھا اور مسلمانوں کے مختلف بڑے شہروں جیسے ، شام ،کوفہ ، بصرہ اور مصر کا سفر کرکے مسلمانوں کے اجتماعات میں شرکت کرتا تھا اور لوگوں میں اس امر کی تبلیغ کرتا تھا کہ پیغمبر اسلام کےلئے بھی حضرت عیسی کی طرح رجعت مخصوص ہے اور دیگر پیغمبروں کی طرح حضرت محمد مصطفی کےلئے بھی ایک وصی ہے اور وہ حضرت علی علیہ السلام ہیں وہ خاتم الاوصیاء ہیں جیسے کہ حضرت محمد خاتم الانبیاء ہیں ۔ عثمان نے اس وصی کے حق کو غصب کرکے اس پر ظلم کیا ہے ، لہذا شورش اور بغاوت کرکے اس حق کو چھین لینا چاہئے ۔
مؤرخیں نے اس داستان کے ہیرو کا نام ” عبد الله بن سبا “ اور اس کا لقب ” ابن امة السوداء “ (سیاہ کنیز کا بیٹا )رکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اسی عبد الله بن سبا نے اپنے مبلغین کو اسلامی ممالک کے مختلف شہروں میں بھیج کر انھیں حکم دیا تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بہانے، وقت کے حاکموں کو کمزور بنادیں ، نتیجہ کے طور پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت اس کی گرویدہ بن گئی اور انہوں نے اس کے پروگرام پر عمل کیا ،حتی ابوذر، عمار بن یاسر اور عبدا لرحمان بن عدیس جیسے پیغمبر کے بزرگ صحابی اور مالک اشتر جیسے بزرگ تابعین اور مسلمانوں کے دیگر سرداروں کو بھی ان میں شمار کیا ہے ۔
کہتے ہیں کہ سبائی جہاں کہیں بھی ہوتے تھے ، اپنے قائد کے پروگرام کو آگے بڑھانے کی غرض سے لوگوں کو علاقہ کے گورنروں کے خلاف بغاوت پر اکساتے تھے او روقت کے حکام کے خلاف بیانات اور اعلانیہ لکھ کر مختلف شہروں میں بھیجتے تھے ۔ اس تبلیغات کے نتیجہ میں لوگوں کی ایک جماعت مشتعل ہوکر مدینہ ک طرف بڑھی اور عثمان کو ان کے گھر میں محاصرہ کرکے انھیں قتل کر ڈالا ۔ کہ سب کام سبائیوں کی قیادت میں اور انھیں کے ہاتھوں سے انجام پاتے تھے ۔
اس کے علاوہ کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے علی علیہ السلام کی بیعت کی اور عائشہ، عثمان کی خونخواہی کیلئے طلحہ و زیبر کے ہمراہ، راہی بصرہ ہوئی تو شہر بصرہ کے باہر علی علیہ السلام اور عائشہ کی سپاہ کے سرداروں ، طلحہ و زبیر کے درمیان گفت و شنید ہوئی ۔ سبائی جان گئے کہ اگر ان میں مفاہمت ہوجائے تو قتل عثمان کے اصلی مجرم ، جو سبائی تھے ، ننگے ہوکر گرفتار ہوجائیں گے ۔ اس لئے انہوں نے راتوں رات یہ فیصلہ کیا کہ ہر حیلہ و سازش سے جنگ کی آگ کوبھڑکا دیں ۔
اس فیصلہ کے تحت خفیہ طور پر ان کاہی ایک گروہ علی علیہ السلام کے لشکر میں اور ایک گروہ طلحہ و زبیر کے لشکر میں گھس گیا ۔ جب دونوں لشکر صلح کی امید میں سوئے ہوئے تھے تو ، علی علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہوئے گروہ نے مقابل کے لشکر پر تیر اندازی کی اور دوسرے لشکر میں موجود گروہ نے علی علیہ السلام کے لشکر پر تیر اندازی کی ۔ نتیجہ کے طور پر دونوں فوجوں میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی اور بے اعتمادی پید اہوگئی جس کے نتیجہ میں جنگ بھڑک اٹھی ۔
کہتے ہیں کہ اس بنا پر بصرہ کی جنگ ، جو جنگ جمل سے معروف ہے چھڑ گئی ورنہ دونوں لشکروں کے سپہ سالاروں میں سے کوئی ایک بھی اس جنگ کےلئے آمادہ نہ تھا اور وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس جنگ کا اصلی عامل کون تھا۔
اس افسانہ ساز نے داستان کو یہیں پر ختم کیا ہے اور سبائیوں کی سرنوشت کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے ۔
یہ تھا ” سبائیوں “ کے افسانہ کا ایک خلاصہ ، اب ہم اس کی بنیاد پر بحث کرنے سے پہلے مناسب سمجھتے ہیں کہ ” سبائیوں “ میں شمار کئے گئے بزرگوں میں سے بعض کے بارے میں جانکاری حاصل کریں
۱۔ ابوذر
۲۔ عمار بن یاسر
۳۔ عبد الرحمان بن عدیس
۴۔ صعصعہ بن صوحان
۵۔ محمد بن ابی حذیفہ
۶۔ محمد بن ابی بکر ، خلیفہ اول کے بیٹے ۔
۷۔ مالک اشتر

۱۔ابوذر
ان کا نام جندب بن جنادہٴ غفاری تھا ، وہ اسلام لانے میں سبقت حاصل کرنے والے پہلے چار افراد میں چوتھے شخص تھے ، وہ جاہلیت کے زمانے میں بھی خدا پرست تھے اور بت پرستی کو ترک کرچکے تھے ، جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو مکہ مکرمہ میں بیت الله الحرام کے اندر اپنے اسلام کا اظہار کیا اس لئے قریش کے بعض سرداروں نے انھیں پکڑ کر اس قدر ان کی پٹائی کی کہ وہ لہو لہان ہوکر زمین پر بیہوش گر پڑے، وہ اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ کر چلے گئے ، ہوش میں آنے کے بعد وہ پیغمبر خدا کے حکم سے واپس اپنے قبیلہ میں چلے گئے اور بدر و احد کے غزوات کے اختتام تک وہیں مقیم رہے ۔
اس کے بعد مدینہ آئے او رآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد انھیں شام بھیجا گیا ، لیکن عثمان کے زمانے میں معاویہ نے ان کے بارے میں خلیفہ کے یہاں شکایت کی اور عثمان نے انھیں مکہ و مدینہ کے درمیان ”ربذہ “ نام کی ایک جگہ پر جلا وطن کردیاا ور آپ ۳۲ھ میں وہیں پر وفات پاگئے ۔
ابوذر کی مدح و ستائش میں رسول خد ا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بہت سی احادیث موجود ہیں من جملہ آپ نے فرمایا:
”مَا اٴظلّت الخضراء و لا اقلّت الغبراء علی ذی لھجة اصدق من ابی ذر“
آسمان اور زمین نے ابوذر جیسے راستگو شخص کو نہیں دیکھا ہے ۱
-------
۱۔ ابو ذر کی تشریح ، طبقات ابن سعد، ج ۴․ ص ا۱۶ ۔ ۱۷۱، مسند احمد، ج ۲/ ۱۶۳و ۱۷۵، ۲۶۳، ج۵/ ۱۴۷ و ۱۵۵، ۱۵۹، ۱۶۵، ۱۶۶، ۱۷۲، ۱۷۴، ۳۵۱، ۳۵۶، و ج ۶/ ۴۴۲، اور صحیح بخاری و صحیح ترمذی اور صحیح مسلم کتاب مناقب میں ملاحظہ ہو۔

۲۔ عمار بن یاسر
ان کی کنیت ابو یقظان تھی اور قبیلہ بنی ثعلبہ سے تعلق رکھتے تھے، ان کی والدہ کا نام سمیہ تھا ، ان کا بنی مخزوم کے ساتھ معاہدہ تھا۔
عمار اور ان کے والدین اسلام کے سابقین میں سے تھے ، وہ ساتویں شخص تھے جس نے اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ، عمار کے والد اور والدہ نے اسلام قبول کرنے کے جرم میں قریش کی طرف سے دی گئےں جسمانی اذیتوں کا تاب نہ لا کر جان دیدی ہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے عمار کی ستائش میں کئی صحیح احادیث روایت ہوئی ہیں ، من جملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
عمار کی سرشت ایمان سے لبریز ہے۱ ۔
انہوں نے جنگِ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی رکاب میں شرکت کی ہے اور جمعرات ۹ صفر ۳۷ ھ کو ۹۳ سال کی عمر میں شہید ہوئے ہیں ۔ ۲
---------
۱۔” ان عماراً ملیء ایماناً الی مشاشہ“
۲۔ ملاحظہ ہو : مروج الذہب ، مسعودی، ج /۲۱ ۔ ۲۲، طبعی و ابن اثیر میں حوادث سال ۳۶ ۔ ۳۷ ھ ، انساب الاشراف بلاذری، ج۵ ، ص ۴۸ ۔ ۸۸ ، طبقات ابن سعد، ج ۳، ق ۱ ، ۱۶۶۔ ۱۸۹، مسند احمد، ج ۱/ ۹۹ و ۱۲۳، ۱۲۵، ۱۳۰، ۱۳۷، ۲۰۴، اور ج ۲/ ۱۶۱ ، ۱۶۳، ۲۰۶، و ج ۳/ ۵،۲۲، ۲۸ ۔

۳۔ محمد بن ابی حذیفہ
ان کی کنیت ابو القاسم تھی ۔ وہ عتبہ بن ربیعہ عبشمی کے فرزند تھے، ان کی والدہ سہلہ بنت عمرو عامریہ تھیں ، محمد بن ابی حذیفہ ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں حبشہ میں پیدا ہوئے ہیں ، ان کے باپ ابو حذیفہ یمامہ میں شہید ہو ئے تو عثمان نے اسے اپنے پاس رکھ کر اس کی تربیت کی ابن ابی حذیفہ کے بالغ ہونے اور عثمان کے خلافت کے عہدے پر پہنچنے کے بعد اس نے عثمان سے مصر چلے جانے کی اجازت چاہی ۔ عثمان نے بھی اجازت دیدی ، جب مصر پہنچے تو دوسروں سے زیادہ لوگوں کو عثمان کے خلاف اکسانے پر معروف ہوئے ، جب ۳۵ ھ میں عبدالله بن ابی سرح اپنی جگہ پر عقبہ بن عامرکو جانشین قرار دے کر مدینہ چلا گیا تو محمد بن ابی حذیفہ نے اس کے خلاف بغاوت کی اور عقبہ بن عامر کو مصر سے نکال باہر کیا اس طرح مصر کے لوگوں نے محمد بن ابی حذیفہ کی بیعت کی اور عبد الله بن ابی سرح کو مصر سے واپس آنے نہ دیا ، اس کے بعد محمد بن ابی حذیفہ نے عبد الرحمان بن عدیس کو چھ سو سپاہیوں کی قیادت میں عثمان سے لڑنے کیلئے مدینہ روانہ کیا ، جب حضرت علی علیہ السلام خلیفہ ہوئے تو آپ نے محمد بن ابی حذیفہ کو مصر کی حکمرانی پر بدستور برقرار رکھا ، وہ اس وقت تک مصر کے حاکم رہے جب معاویہ صفین کی طرف جاتے ہوئے محمد بن ابی حذیفہ کی طرف بڑھا، محمد مصر سے باہر آئے اور معاویہ کو ” قسطاط “ میں داخل ہونے سے روکا، آخر کا ر نوبت صلح پر پہنچی اور طے یہ پایا کہ محمد بن ابی حذیفہ تیس افراد من جملہ عبد الرحمان بن عدیس کے ہمراہ مصر سے خارج ہوجائیں او رمعاویہ کی طرف سے انھیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، لیکن ان کے مصر سے خارج ہونے کے بعد معاویہ نے انھیں مکر و فریب سے گرفتار کرکے دمشق کے زندان میں مقید کر ڈالاکچھ مدت کے بعد معاویہ کے غلام ” رشدین“ نے محمد بن ابی حذیفہ کو قتل کر ڈالا ، محمد بن ابی حذیفہ ان افراد میں سے ایک تھے جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےصحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا ۱

۴۔ عبد الرحمان بن عدیس بلوی
وہ صاحب بیعت شجرہ تھے ۔ مصر کی فتح میں شریک تھے اور وہاں پر ایک زمین کو آبادکرکے اس کے مالک بن گئے تھے ، مصر سے عثمان کے خلاف لڑنے کیلئے روانہ ہوئے لشکر کی سرپرستی اور کمانڈری ان کے ذمہ تھی، معاویہ نے محمد بن ابی حذیفہ سے صلح کا عہد و پیمان باندھنے کے بعد مکرو فریب سے عبد الرحمان بن عدیس کو پکڑ کر فلسطین کے ایک جیل میں ڈالدیا، ۳۶ ھ میں اس نے جیل سے فرار کیا لیکن اس کو دوبارہ پکڑ کر قتل کردیاگیا ۲

۵۔ محمد بن ابی بکر
ان کی والدہ کا نام اسماء تھا اور وہ عمیس خثعمیہ کی بیٹی تھی ، جعفر ابن ابیطالب کی شہادت کے بعد ان کی بیوی اسماء نے ابو بکر سے شادی کی تھی اور حجة الودادع میں مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ
-------
۱۔ اصابہ ، حرف میں ق ۱/ ج۳/ ۵۴، اسد الغابہ، ج ۴/ ص ۳۱۵، الاستیعاب ،ج ۳/ ۳۲۱۔۳۲۲۔
۲۔ اصابہ، ج ۴/ ۱۷۱ ق ۱، حرف عین ، استیعاب حرف عین کی طرف مراجعہ کریں۔

پیدا ہوئے پھر ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے، اور جنگ جمل میں آنحضرت کے ہمرکاب رہے اور پیادہ لشکر کی کمانڈری بھی کی۔
حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں تلوار چلائی اور اس جنگ میں پیدل فوج کی کمانڈر تھے ۔ انہوں نے جنگ صفین میں بھی شرکت کی ہے اور اس جنگ کے بعد امیر المؤمنین کی طرف سے مصر کے گورنر مقرر ہوئے اور ۱۵ رمضان المبارک ۳۷ھ کو مصر پہنچ گئے ،معاویہ نے ۳۸ ھ کو عمرو عاص کی سرکردگی میں مصر پر فوج کشی کی ، عمرو عاص نے مصر پر قبضہ جمانے کے بعد محمد بن ابو بکر کو گرفتار کرکے اسے قتل کر ڈالا پھران کی لاش کو ایک مردار خچر کی کھالمیں ڈال کر نذر آتش کیا ۱

۶۔ صعصعہ بن سوہان عبدی
انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں اسلام قبول کیا ہے ، وہ فصیح تقریر کرنے والا ایک شخص تھا انہوں نے جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میںمعاویہ سے جنگ کی ہے ، جب معاویہ نے کوفہ پر تسلط جمایا تو صعصعہ کو بحرین جلا وطن کردیااور انہوں نے وہیں پر وفات پائی ۲
--------
۱۔ تاریخ طبری ، سال ۳۷۔۳۸ ھ کے واقعات کے ذیل میں، اصابہ، ج ۳/۴۵۱ق، حرف میم ، استیعاب ،ج ۳/ ۳۲۸ و ۳۲۹ ملاحظہ ہو
۲۔ اصابہ، ج۳/ ۱۹۲ حرف ص ، استیعاب، ج۲/ ۱۸۹۔

۷۔ مالک اشتر
انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو درک کیا ہے ، تابعین کے ثقات میں شمار ہوتے
تھے ، مالک اشتر اپنے قبیلے کے سردار تھے ، چونکہ یرموک کی جنگ میں ان کی آنکھ زخمی ہوگئی تھی اس لئے انہیں ” اشتر“ لقب ملا تھا ،انہوں نے جنگ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے رکاب میں آپ کے دشمنوں سے جنگ لڑی اور نمایاں کامیابی حاصل کی ، ۳۸ھ میں حضرت علی علیہ السلام نے انھیں مصر کا گورنر مقرر کیا ور وہ مصر کی طرف بڑھ گیے ، جب وہ قلزم ( بحر احمر ) پہنچے تو معاویہ کی ایک سازش کے تحت انھیں زہر دیا گیا جس کے نتیجہ میں وہ وفات پاگئے ۱ یہ تھا صدر اسلام کے بزرگ مسلمانوں کے ایک گروہ کے حالات کا خلاصہ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مؤرخین کی ایک جماعت نے انھیں ایک نامعلوم یہودی کی پیروی کرنے کی تہمت لگائی ہے ؟!!!
اب جب کہ ہمیں معلوم ہوا کہ عبد الله بن سبا کا افسانہ کیاہے ، تو اب مناسب ہے اس افسانہ کے سر چشمہ اور آغاز کی تلاش کریں تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس کو کس نے گڑھ لیا ہے اور اس کے راوی کون ہیں ۔
-------
۱۔ استیعاب ، ابی بکر کے ترجمہ کے ذیل میں ج ۳/ ۳۲۷، اصابہ ج ۳/ ۴۶۹، اور
افسانہٴ عبدا للہ بن سبا کے راوی
”اکثر من عشرة قرون و المؤرّخون یکتبوں ھذہ القصة“
دس صدیوں سے زیادہ عرصہ سے مورخین اس افسانہ کو صحیح تاریخ کے طورپر لکھتے چلے آئے ہیں ۔
” مولف“

بارہ صدیاں گزر گئیں کہ مؤرخین ” عبدا للہ بن سبا “ کے افسانہ کو لکھتے چلے آ رہے ہیں ۔ جتنا بھی وقت گزرتا جارہاہے ، اس افسانہ کو زیادہ سے زیادہ شہرت ملتی جارہی ہے ، یہاں تک کہ آج بہت کم ایسے قلم کار دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے اصحاب کے بارے میں قلم فرسائی کی ہو اور اپنی تحریرات میںا س افسانہ کو لکھنا بھول گئے ہوں! بے شک گزشتہ اور موجودہ قلم کاروں میں یہ فرق ہے کہ قدیمی مؤلفین نے اس افسانہ کو حدیث اور روایت کے روپ میں لکھا ہے اور اس افسانہ کو اپنی گڑھی ہوئی روایتوں کی صورت میں بیان کیا ہے جبکہ معاصر مؤلفین نے اس کو علمی اور تحقیقاتی رنگ سے مزین کیا ہے ۔
اس لحاظ سے اگر ہم اس موضوع کی علمی تحقیق کرنا چائیں تو ہم مجبور ہیں پہلے اس افسانہ کے سرچشمہ اور اس کے راویوں کی زندگی کے بارے میں ابتداء سے عصر حاضر تک چھان بین کریں تا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ کن لوگوں اور کن منابع کی بنا پر اس داستان کی روایت کی گئی ہے اس کے بعد اصلی داستان پر بحث کرکے اپنا نظریہ پیش کریں ۔