ساتواں باب: تاریخ آل سعود
 

اس بات میں كوئی شك ھی نھیں كہ نجد وحجاز میں وھابیت كے پھیلنے كی اصل وجہ خاندان ”آل سعود“ ھے، یھاں تك كہ آل سعود نے وھابیت كو اپنے ملك كا رسمی (سركاری) مذھب قرار دیدیا، اور اسی كی مدد سے محمد بن عبد الوھاب نے اپنے مذھب كی تبلیغ و ترویج شروع كی اور نجد كے دوسرے قبیلوں كو اپنا مطیع بنایا، یہ آل سعود ھی تھے جس نے محمد بن عبد الوھاب كے مرنے كے بعد اس كے عقائد اور نظریات كو پھیلانے میں اپنی پوری طاقت صرف كردی، اور كسی بھی مشكل كے مقابلہ میں ان كے حوصلے پست نہ هوئے۔
اسی وجہ سے وھابیوں كی تاریخ میں آل سعود كی تاریخ اھم كردار ركھتی ھے، خاندان آل سعود، حافظ وھبہ كی تحریر كے مطابق قبیلہٴ”عَنَزَہْ“ سے تعلق ركھتا تھاجن كی نجد علاقہ میں چھوٹی سی حكومت تھی، جن كی جزیرہ نما عربستان میں كوئی حیثیت نھیں تھی، لیكن جب محمد بن عبد الوھاب، محمد بن سعود كے پاس گیا اور دونوں نے آپس میں ایك دوسرے كی مدد اور نصرت كرنے كا وعدہ كیا تو محمد بن سعود كے ساتھ سعودی عرب كے دوسرے امیروں اور قبیلوں كے سرداروںمیں جنگ اور لڑائیاں هونے لگیں، عوام كی اكثریت سعودی امیر كی اطاعت كرتی تھی، لیكن آہستہ آہستہ آل سعود كی حكومت بڑھتی چلی گئی اور نجد او ردوسرے علاقوں میں اس كا مكمل طور پر قبضہ هوگیا اور وھابیت كے پھیلنے میں بڑی موثر ثابت هوئی۔
اسی زمانہ سے آج تك یعنی تقریباً 240 سال سے نجد كی حكومت اور تقریباً 245سال سے نجد اور حجاز كی حكومت اس خاندان كے ھاتھوں میں ھے، صرف تھوڑی مدت كے لئے آل رشید نے نجد پر حكومت كی تھی اور عبد الرحمن بن سعود كو نجد سے باھر نكال دیا تھا (جس كی تفصیل انشاء اللہ بعد میں بیان هوگی) ورنہ ان كی حكومت كو كوئی طاقت ختم نہ كرسكی یھاں تك كہ عثمانیوں اور محمد علی پاشا كی حكومت نے بھی ان كی حكومت او ران كے نفوذ كو كلی طور پر ختم نھیں كیا۔

آل سعود كی حكومت كا آغاز
خاندان آل سعود كا تعلق عشیرہٴ مقرن كے قبیلہ (”عَنَزَہ “یا”عُنَیْزَہ“) سے تھا جو نجد اور اس كے اطراف مثلاً قطیف اور احساء میں رھتے تھے۔
سب سے پھلے ان میں سے جو شخص ایك چھوٹی سے حكومت كا مالك بنا اس كا نام ”مانع“ تھا كیونكہ وہ ”یمامہ“ كے امیر كا رشتہ دار تھا جس نے اس كو ”درعیہ“ كے دو علاقوں پر حاكم بنا دیا،مانع كی موت كے بعد اس كی ریاست اس كے بیٹوں كو مل گئی، چنانچہ مانع كے بعد اس كے بیٹے”ربیعہ“ نے حكومت كی باگ ڈورسنبھالی، اس نے آہستہ آہستہ اپنی حكومت كو وسیع كیا اس كے بھی موسیٰ نام كا ایك بیٹا تھا جو بھت هوشیار اور بھادر تھا، چنانچہ موسیٰ نے اپنے باپ كے ھاتھوں سے حكومت چھین لی اور قریب تھا كہ اس كو قتل كردیتا، یھاں تك كہ اس كی طاقت روز بروزبڑھتی گئی وہ اسی علاقہ كے اطراف میں موجود آل یزید كی حكومت كو گراكر اس پر بھی قابض هوگیا۔
اس طرح آل مقرن یا قبیلہ عنیزہ نے اپنے لئے ایك مختصر سی حكومت بنالی اور نجد او راس كے قرب وجوار میں شھرت حاصل كرلی، لیكن جیسا كہ عرض كیا جاچكا ھے كہ اس حكومت كی كوئی خاص حیثیت نھیں تھی یھاں تك كہ محمد بن سعود كی حكومت بنی اور محمد بن عبد الوھاب اور محمد بن سعود میں معاہدہ هوا۔
”دائرة المعارف اسلامی“ نے درعیہ میں وھابیوں (یا آل سعود) كی حكومت كو تین حصوں میں تقسیم كیا ھے:
1۔ وھابیت كے آغاز سے مصریوں كے حملہ تك (1820ء) اس وقت درعیہ شھر دار السلطنت تھا۔
2۔ تركی اور فیصل آل سعود نے دوبارہ حكومت حاصل كی اس زمانہ ابن رشید حائل كا حاكم تھا(یعنی1820ء سے1902ء تك) اس وقت حكومت كا مركز ریاض تھا۔
3۔ 1902ء جب ابن سعود نے آل رشید سے حكومت كو چھین كر اپنے قبضہ میں لے لےا، 493 چنانچہ اس وقت سے سعودی حكومت نے بھت تیزی كے ساتھ پیشرفت اور ترقی كی ھے ،سعوی حكومت كو مذكورہ تین حصوں پر تقسیم كرنامناسب ھے كیونكہ ان تینوں حصوں میںھر حصے كی كیفیت ایك دوسرے سے جدا ھے۔

محمد ابن سعود كون تھا؟
محمد بن عبد الوھاب كے حالات زندگی میں مختصر طور پر بیان كیا گیا كہ محمد بن سعود نے وھابیت كو پھیلانے میں بھت كوشش كی، اور اس بات كی طرف بھی اشارہ كیاگیاكہ محمد بن عبد الوھاب نے اس كو دوسرے علاقوں پر غلبہ پانے كے سنھرے خواب دكھائے ۔
محمد بن سعود نے اپنے مقصد تك پهونچنے كے لئے حسن انتخاب اور اس راستہ میں مستحكم پائیداری كا ثبوت دیا جس كی وجہ سے وہ كبھی مشكلات كے سامنے مایوس نھیں هوا، اور نہ ھی اس كو مشكلات كا احساس هوا، اور یہ بات سب كو معلوم ھے كہ جو لوگ ایك طولانی عرصے سے اپنے عقائد پر عمل كرتے آئے ھیں او ردوسروں كے عقائد كو باطل سمجھتے رھے ھیں ان كے سامنے نئے عقائد كو پیش كرنا اوران كو قبول كرانا كوئی آسان كام نھیں تھا، اسی وجہ سے شیخ محمد بن عبد الوھاب اور محمد بن سعودكو شروع شروع میں بھت سی مشكلات كا سامنا كرنا پڑا۔ 494
حافظ وھبہ صاحب كھتے ھیں كہ1187ھ محمد بن سعود كے لئے بھت سختی كا سال تھا كیونكہ ”عر عر بن خالدی“ احساء كے حاكم، اور” سید حسن بن ھبة اللہ“ نجران كے حاكم نے آپس میں معاہدہ كیا كہ درعیہ شھر پر حملہ كریں اور ان كے نئے مذھب كو نیست ونابود كردیں، اور اس مذھب كے مروّج افراد كو بھی درھم وبرھم كردیں، ادھر سے عرعر اور دوسرے مخالفوں كی فوج ابھی تك نھیں پهونچی تھی كہ محمد بن سعود نے دیكھا كہ اس كا بیٹا ”حائر“ (خرج اور ریاض كا درمیانی علاقہ) علاقہ میں شكست كھاچكا ھے، یہ سب كچھ دیكھ كر محمد بن سعود كوبڑی فكر لاحق هوئی، لیكن شیخ محمد بن عبد الوھاب نے اس كی حوصلہ افزائی كی۔
اور اسی دوران شیخ محمد بن عبد الوھاب اور محمد بن سعود اور امیر نجران میں صلح هوگئی495 لہٰذا محمد بن سعود كے لئے در پیش خطرہ ٹل گیا۔
”دائرة المعارف اسلامی “ نامی كتاب اس سلسلہ میں یوں رقمطراز ھے كہ1159ھ میں محمد بن سعود نے محمد بن عبد الوھاب سے مل كر قرب جوار كے علاقوں پر حملہ كردیا اور ان كے تمام مال ودولت كو غارت كرایا، ان سب چیزوں كو دیكھ ان كے دوسرے قرب جوار كے امراء مثلاً بنی خالد (حاكم احساء) یا آل مكرّمی (حاكم نجران) نے ان سے چھیڑ خوانی شروع كی لیكن وہ پھر بھی وھابیت كی پیشرفت كو نہ روك سكے، اور اشراف مكہ496 بھی وھابیوں كو دین سے خارج سمجھتے تھے، لہٰذا ان كو اماكن متبركہ كی زیارت كرنے كی اجازت نھیں دیتے تھے۔
زینی دحلان صاحب كھتے ھیں كہ وھابیوںنے كچھ لوگوں كو شریف مسعود كے پاس بھیجا تاكہ ان كو حج كی اجازت مل جائے اور ان كامقصد یہ تھا كہ یہ لوگ اپنے عقائد كو حرمین شریفین كے افراد كے سامنے پیش كریں، البتہ انھوں نے اس سے پھلے بھی تیس علماء پر مشتمل ایك وفد ان كے پاس بھیجا تھا تاكہ مكہ ومدینہ كے لوگوں كے عقائد كو فاسد اور باطل ثابت كیا جاسكے۔
ھاں تك كہ وھابیوں كو حج كی اجازت كے بدلے معین مقدار میں سالانہ ٹیكس دینا بھی منظور تھا، مكہ اور مدینہ كے لوگوں نے وھابیت كے بارے میں سنا تھا، لیكن ان كی حقیقت كے بارے میں معلومات نھیں ركھتے تھے اور جب نجدی علماء (وھابی گروپ) مكہ پهونچے تو شریف مسعود نے حرمین كے علماء كو ان لوگوں سے مناظرہ كرنے كا حكم دیدیا، مناظرے كے بعد شریف مكہ نے اپنے قاضی شریح كو حكم دیا كہ ان لوگوں كے كفر پر ایك تحریر لكھ دے، چنانچہ ان سبھوںكے گلے میں طوق اور پیروں میں زنجیریں ڈال كر زندان بھیج دیا گیا۔ 497
1162ھ میں اشراف مكہ نے وھابیوں كے بارے میں تفصیلی رپورٹ عثمانی بادشاہ كے سامنے پیش كی، اور یہ سب سے پھلا موقع تھا كہ عثمانی بادشاہ وھابیت سے آگاہ هوا، آخر كار محمد بن سعود1179ھ میں تیس سال حكومت كرنے كے بعد اس دنیا سے چل بسا۔ 498

عبد العزیز بن محمد بن سعود
عبد العزیز (تاریخ پیدائش1179ھ متوفی1218ھ) محمد بن سعود كا بڑا بیٹا تھا اس نے باپ كے مرنے كے بعد حكومت كی باگ ڈور سنبھالی، اور اپنی حكومت كی توسیع اور وھابیت كی تبلیغ میں بھت كوشش كی، اس نے اپنی حكومت كے تیس سالوں میں ھمیشہ اپنے قرب وجوار كے قبائل سے جنگ وجدال كی،1208ھ میں احساء كے علاقہ كو فتح كیا، یا حافظ وھبہ كے قول كے مطابق :سپاہ اسلام نے احساء كے حاكم بنی خالد كو نیست و نابود كیا،اور احساء اور قطیف كے فتح كرنے كے بعد وھابیوں نے خلیج فارس كے سواحل كا رخ كیا۔

عبد العزیز اور شریف مكہ
ھم نے پھلے یہ بیان كیا كہ محمد بن عبد الوھاب نے كچھ افراد كو اپنے عقائد كو پیش كرنے اور حج كی اجازت كے لئے شریف مسعود كے پاس بھیجا، لیكن شریف مسعود نے ان كی گرفتاری كا حكم صادر كردیا اور ان كے كفر كا حكم دیدیا، اور انھیں حج كی اجازت بھی نہ دی۔
وھابی لوگ شریف مسعود كی موت تك (1165ھ) اعمال حج سے محروم رھے، اور جب شریف مسعود كی موت كے بعد اس كے بھائی مساعد بن سعید نے مكہ كی حكومت حاصل كی تو ایك بار پھر وھابیوں نے حج كی اجازت كے لئے كچھ افراد كو ان كے پاس بھیجالیكن اس نے بھی حج كی اجازت نھیں دی۔
1184ھ میں مساعد شریف مكہ كا بھی انتقال هوگیا اور اس كا بھائی احمد اس كی جگہ پر بیٹھا تو ایك بار پھر نجدی علماء نے كچھ افراد پر مشتمل وفد كو احمد كے پاس بھیجا تاكہ حج كی اجازت حاصل كریں، اس نے بھی مكی علماء كو وھابی علماء كے عقائد كا پتہ لگانے كا حكم دیا، چنانچہ انھوں نے وھابی علماء كو ”زندیق“(بے دین) قرار دیدیا،اور شریف نے ان كو اعمال حج كی اجازت نھیں د ی۔
1186ھ میں شریف سُرور بن شریف مساعد نے مكہ كی حكومت اپنے چچا كے ھاتھوں سے چھین لی 499 اور و ھابیوں كوجزیہ دینے كی شرط پرحج كی اجازت دیدی، لیكن ان لوگوں نے جزیہ دینے سے انكار كردیا، 500 اور یہ حق ان كو1202ھ تك حاصل رھالیكن اسی سال شریف غالب، شریف سرور كا جانشین بنا، اور اس نے مذكورہ حق كو ان سے سلب كرلیا، اور عبد العزیز سے آمادہ جنگ هوگیا۔
عبد العزیز كی بھی ھمیشہ یھی كوشش تھی كہ كسی طرح سے مكہ كو فتح كرلے، اور كسی بھانہ كی تلاش میں تھا، چنانچہ جب اس نے شریف غالب كو آمادہٴ جنگ دیكھا تو اس نے بھی اپنے لشكر كو مكہ كی طرف روانہ كردیا، اور جب شریف غالب اور عبد العزیز كے درمیان جنگ چھڑی تو یہ جنگ تقریباً نو سال تكجاری رھی، اور اس مدت میں تقریباً پندرہ بڑے حملے هوئے جس میں كسی ایك كو بھی فتح حاصل نہ هوئی۔
اس سلسلہ میں ”تاریخ المملكة العربیة السعودیہ“ كے موٴلف كھتے ھیں :1205ھ میں شریف غالب نے نجدیوں سے لڑنے كے لئے اپنے بھائی عبد العزیز كی سرداری میں دس ہزار كا لشكربھیجا جس كے پاس بیس توپیں بھی تھی، لیكن پھر بھی مذكورہ لشكر فتح یاب نہ هوسكا۔
مذكورہ كتاب كے موٴلف نے نجدی وھابیوں كی طرفداری میں بھت مبالغہ كیا ھے، چنانچہكھا جاتا ھے كہ شریف غالب كے عظیم لشكر جس كے ساتھ حجاز، شَمّر اور مُطیّروغیرہ كے بھت لوگ ”قصر بسّام“ كو فتح كر نے كی غرض سے ان كے لشكر میں شامل هوگئے تھے، جبكہ ان كے فقط تیس لوگ دفاع كرتے تھے اور اسی طرح وہ شعراء نامی علاقہ كو ایك مھینہ محاصرہ كے بعد بھی اس پر قبضہ نہ كرسكے جبكہ اس علاقہ میں چالیس افراد سے زیادہ نھیں تھے۔ 501
آخر كار1212ھ میں ”غزوة الخرمہ“ نامی حملہ میں عبد العزیز، شریف غالب كے لشكر پر غالب هوگیا، لیكن جیسا كہ حافظ وھبہ صاحب كھتے ھیں كہ اس وقت كی سیاست اس بات كا تقاضا كرتی تھی كہ دونوں فریقوں میں صلح برقرار هوجائے، اور نجدیوں كے لئے صرف حج كا راستہ كھول دیا جائے،1214ھ میں امیر نجد حج كے لئے روانہ هوا یہ سب سے پھلا موقع تھا كہ كسی نجدی امیر نے اعمال حج انجام دئے، اس سے پھلے یعنی1213ھ میں صرف نجدی عوام حج كے لئے جا چكے تھے۔
بھر حال صلح نامہ پر كچھ ھی مدت تك عمل هوا، اور پھر یہ صلح ختم هوگئی، كیونكہ ان میں سے ایك دوسرے پر تھمت لگاتا تھا كہ اس نے صلح كی شرطوں اورصلح نامہ پر صحیح سے عمل نھیں كیا ھے، نجدیوں كی یہ عام سیاست تھی كہ پورے جزیرة العرب میں ھماری بتائی هوئی توحیدنافذ هو، اور ان كے تمام مخالفین ختم هوجائیں۔
چنانچہ چند سال كچھ آرام سے گذرے، اور1215ھ میں عبد العزیز اور اس كا بیٹا نجد كے بھت سے لوگوں (زن ومرد اور بچوں) كے ساتھ حج كے ارادے سے نكلا اور ابھی سات منزل ھی طے كی تھیں كہ تھكن كا احساس هونے لگا، اور اسی وجہ سے نجد میں واپس آگئے، لیكن سعود نے جاكر اعمال حج انجام دئے مكہ پهونچ كر شریف مكہ سے ملاقات كی۔ 502
اس سفر كا نتیجہ یہ هوا كہ ”عسیر“، ”تھامہ“ اور ”بنی حرب“ كے قبیلے سعود سے مل گئے اور جب شریف غالب نے یہ خبر سنی تو بھت ناراض هوا، اسی اثنا میں سعود اور شریف غالب كے كارندوں میں كسی بات پر كچھ اختلاف هوگیا تو ایك بار پھر دونوں میں جنگ كی تیاریاں شروع هوگئیں، اوریہ جنگ بھی كئی سال تك هوتی رھی، اور دونوں فریقوں كے درمیان تیرہ جنگی واقعات پیش آئے ،وھابیوں كی طاقت ھر لحاظ سے شریف غالب كی طاقت سے زیادہ تھی، اسی وجہ سے وھابیوں نے شریف غالب پر دائرہ تنگ كردیا، چنانچہ نجدیوں طائف شھر (مكہ كے نزدیك) پر قبضہ كرلیا۔
جمیل صدقی زھاوی، فتح مكہ كے بارے میں كھتے ھیں كہ وھابیوں كے سب سے برے كاموں میں سے (مسلمانوں) كا قتل عام ھے جس میں چھوٹے بڑوں كے علاوہ وہ شیر خوار بچے بھی ھیں جن كو ان كی ماوٴں كے سینہ سے چھین كر ان كے سروتن میں جدائی كردی، اور ایسے بچوں كو بھی تہہ تیغ كردیا جو قرآن پڑھنے میں مشغول تھے، اور جب گھروں میں كوئی باقی نھیں بچتا تھا تووھاں سے مسجدوںاور دكانوںكا رخ كیا كرتے تھے اور وھاں پر موجود تمام لوگوں كو قتل كردیتے تھے یھاں تك كہ جو لوگ ركوع اور سجدے كی حالت میں هوتے تھے ان كو بھی قتل كردیا كرتے تھے 503 یھی نھیں بلكہ ان كے گھروں میں جو كتابیں قرآن مجید، صحیح بخاری وصحیح مسلم اور حدیث وفقہ كی دوسری كتابیں هوتی تھیں ان سب كو باھر پھینك كر پامال كردیتے تھے، یہ واقعہ1217ھ میں رونما هوا،504 اس كے بعد ان لوگوں نے مكہ كا رخ كیا لیكن چونكہ حج كا زمانہ تھا اور اس موقع پر وھاں حملہ كرتے تو تمام حجاج مل كران سے جنگ كے لئے تیار هوجاتے اسی وجہ سے انھوں نے حج كا زمانہ گذر جانے تك صبر كیا، اور جب حجاج اپنے اپنے وطن لوٹ گئے تو انھوں نے مكہ پر حملہ شروع كردیا۔ 505

نجدی علماء كے نام مكی علماء كا جواب
شاہ فضل رسول قادری (ہندی) متوفی1289ھ سیف الجبار نامی كتاب میں اس خط كو پیش كرتے ھیں جس كو نجدی علماء نے طائف میںقتل وغارت كے بعد مكی علماء كے نام لكھا ھے ،اور اس كے بعد مكی علماء كا جواب بھی نقل كیا، اور خود موصوف نے بھی بعض جگهوں پر فارسی زبان میں كچھ توضیحات دیں ھیں، مكہ كے علماء نجدیوں كے خط كا جواب دینے كے لئے نماز جمعہ كے بعد خانہ كعبہ كے دروازہ كے پاس كھڑے هوئے اور اس مسئلہ كے بارے میں گفتگو كی اس جلسہ كے صدر جناب احمد بن یونس باعلوی نے ان كی باتوں كو قلم بند كرنے كے لئے كھا، (چنانچہ وہ خط لكھا گیا)
نجدیوں كی باتیں اور مكی علماء كا جواب شاہ فضل قادری كی توضیحات كے ساتھ تقریباً 89 ستونوں (ھر صفحہ میں دو ستون) میں ذكر هوا ھے، یہ باتیں جو ھم ذكر كریں گے وہ نجدیوں كے خط كے باب اول (باب الشرك) اور باب دوم (باب البدعة) سے متعلق ھیں۔
اس خط كو لكھنے والے احمد بن یونس باعلوی خط كے آخری حصے میں لكھتے ھیں، كہ باب اول كے بارے میں ھمارا نظریہ تمام هوا، نماز عصر كا وقت قریب آگیا، اور نماز پڑھی جانے لگی اور علماء اپنی جگہ سے اٹھ كھڑے هوئے، شیخ عمر عبد الرسول اور عقیل بن یحيٰ علوی اور شیخ عبد الملك اور حسین مغربی اس خط كا املاء بول رھے تھے۔
اور جب علماء نماز سے فارغ هوئے تو دوسرے باب (یعنی باب البدعة) كے بارے میں گفتگو شروع هوئی كہ اچانك طائف كے ستمدیدہ او رمظلوم لوگ مسجد الحرام میں وارد هوئے اور لوگوں كو اپنی روداد سنائی اور ان كو یہ خبر بھی دی كہ نجدی مكہ میں بھی آئےں گے، اور یھاں آكر قتل وغارت كریں گے۔
چنانچہ اھل مكہ نے جب یہ خبر سنی تو بھت پریشان هونے لگے گویا كہ قیامت آنے والی ھے، علماء مسجد الحرام كے منبر كے پاس جمع هوگئے اور جناب ابوحامد منبر پر تشریف لے گئے اور نجدیوں كا خط اور اس كا جواب لوگوں كو پڑھ كر سنانے لگے۔
اور اس كے بعد علماء، قضات اور مفتیوں سے خطاب كیا آپ حضرات نے نجدیوں كی باتوں كو سنا اور ان كے عقائد كو جان لیا اب ان كے بارے میں آپ لوگوں كی كیا رائے ھے؟۔
اس وقت تمام علماء، قضات او راھل مكہ اور دوسرے اسلامی ملكوں سے آئے حاجی مفتیوں نے نجدیوں كے كفر كا فتویٰ دیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی كھا كہ امیر مكہ پر ان سے مقابلہ كے لئے جلدی كرنا واجب ھے اور تمام مسلمانوں پر بھی ان كی حمایت اور مدد كرنا واجب ھے، اور ان كے مقابلہ میں شركت كرنا واجب ھے اور اگر كوئی شخص بغیر عذر خواھی كے جنگ سے منھ موڑے گا تو وہ شخص گناہكار ھے،اور ان لوگوں سے جنگ كرنے والا مجاہد ھے اور اسی طرح ان كے ھاتھوں سے قتل هو نے والا شخص شھید هوگا۔
علماء اور مفتیوں نے اس بات سے اتفاق كرتے هوئے مذكورہ فتوے پر اپنی اپنی مھر لگائی، اور نماز مغرب كے بعد شریف مكہ كے حضور میں پهونچے اور سب لوگوں نے مل كر یہ طے كرلیا كہ جنگ كے لئے تیار هوجائیں اور كل صبح كے وقت نجدیوں سے مقابلہ كرنے كے لئے حدود حرم سے خارج هوجائیں۔ 506
لیكن شریف غالب مكہ میں نہ رہ سكے، اسی بنا پر اپنے بھائی عبد المعین كو مكہ میں اپنا جانشین بنایا اور خود جدّہ بندرگاہ نكل گئے، لیكن عبد المعین سعود سے مل بیٹھا اور ایك خط لكھ كر اس سے امان چاھی، اور اس نے اپنے خط میں یہ بھی لكھا كہ اھل مكہ آپ كی پیروی كرنے كے لئے حاضر ھیں، اور وہ خود بھی سعود كی طرف سے مكہ كا والی هونا پسند كرتا ھے۔
شریف كے بھیجے هوئے افراد سب لوگ بزرگ ہستیاں تھیں، اور ”وادی السّیل“ (طائف اور مكہ كے درمیان) میں سعود سے ملاقات كی۔
چنانچہ ان كے درمیان ضروری گفتگو انجام پائی، اس گفتگو كے بعد سعود نے عبد المعین كی اس پیشكش كو بھی قبول كرلیاجو اس نے اپنے خط میں لكھی تھی، اور اھل مكہ كو دین خدا و رسول كی طرف دعوت دی، اور اپنے ایك خط میں عبد المعین كو مكہ كا والی مقرر كیا، عبد المعین كے بھیجے هوئے افراد بھی صحیح وسالم مكہ پلٹ گئے، سعود كا خط 7محرم الحرام1218ھ كو روز جمعہ مفتی مالكی كے ذریعہ سب كے سامنے پڑھا گیا۔
خط كی عبارت اس طرح ھے:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ
” مِنْ سُعُوْدْ بِنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ اِلٰی كَافَّةِ اَہْلِ مَكَّةَ وَالْعُلَمَاءِ وَالاَغَاوٰاتِ وَقَاضِی السُّلْطَانِ۔
اَلسَّلاٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدیٰ اَمَّا بَعْد:
فَاَنْتُمْ جِیْرَانُ اللّٰہِ وَسُكَّانُ حَرَمِہ، آمِنُوْنَ بِاٴَمْنِہ، اِنَّمَا نَدْعُوكُمْ لِدِیْنِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ۔
قُلْ یَا اَہْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰی كَلِمَةٍ سِوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ اَنْ لاٰ نَعْبُدَ اِلّٰا اللّٰہَ وَ لاٰ نُشْرِكَ بِہ شَیْئاً وَلاٰ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ، فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْااَشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ>
فَاَنْتُمْ فِی وَجْہِ اللّٰہِ وَ وَجْہِ اَمِیْرِ الْمُسْلِمِیْنَ سُعُوْد بِنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ وَاَمِیْرُكُمْ عَبْدُ الْمُعِیْنِ بْنُ مُسَاعِدِ فَاسْمَعُوْا لَہُ وَاَطِیْعُوْا مَا اَطَاع َاللّٰہَ ۔ وَالسَّلاٰمْ“۔
(شروع كرتا هوں اس اللہ كے نام سے جو بڑا رحمن اور رحیم ھے ،یہ خط سعود بن عبد العزیز كی طرف سے تمام اھل مكہ، علماء، خواجگان507 اور سلطان عثمانی كی طرف معین قاضی كی طرف، سلام هو ان لوگوں پر جنھوں نے ہدایت كا اتباع كر لیا ھے ،اما بعد: (بعد از حمد خدا اور درود سلام بر پیغمبر اكرم)
تم لوگ خدا كے ھمسایہ اور پڑوسی هو اور اس كی امان، خانہ خدا میں رھتے هو، خدا كی امان سے امان میں هو، ھم تم كو دین خدا او ردین رسول اللہ كی دعوت دیتے ھیں۔
”اے پیغمبرآپ كہہ دیں كہ اے اھل كتاب آوٴ اور ایك منصفانہ كلمہ پر اتفاق كرلیں كہ خدا كے علاوہ كسی كی عبادت نہ كریں، كسی كو اس كا شریك نہ بنائیں، آپس میں ایك دوسرے كو خدا كا درجہ نہ دیں، او راگر اس كے بعد بھی یہ لوگ منھ موڑیں تو كہہ دیجئے كہ تم لوگ بھی گواہ رہنا كہ ھم لوگ حقیقی مسلمان اور اطاعت گذار ھیں“
تم لوگوں كو چاہئے كہ خدا اور سعود امیر مسلمین كی راہ پر چلو، اور تمھارا والی عبد المعین بن مساعد ھے اس كی باتوں كو سنو، اورجب تك وہ خدا كی اطاعت كرے تم سب اس كی اطاعت كرو والسلام۔ )
سعود 8 محرم كوبحالت احرام مكہ میں وارد هوا، طواف اور سعی كے بعد شریف غالب كے باغ میں مھمان هوا، اس كے بعد مسجد الحرام گیا اور لوگوں كے سامنے ایك تقریر كی جس میں اھل مكہ كو توحید كی دعوت دی، اور ایك دوسری تقریر كے درمیان تمام لوگوں كے لئے یہ حكم صادر كیا كہ جتنی قبروں پر بھی گنبد ھیں سب كو گرادو۔ 508
اس سلسلہ میں ”جبرتی“ كھتا ھے كہ بھت سے اھل مكہ دوسرے حجاج كے ساتھ وھابیوں كے سامنے سے بھاگ نكلے، كیونكہ لوگ وھابیوں كے عقائد كے برخلاف عقائد ركھتے تھے، مكہ كے علماء اور عوام الناس وھابیوں كو خوارج اور كافر كھتے تھے، صرف اھل مكہ ھی نھیں بلكہ دوسرے لوگ بھی ان عقائد كے برخلاف اظھار عقیدہ كرتے تھے۔
اس كے بعد وھابیوں كے رئیس (سعود) نے یمن كے امیر حجاج كو بھی ایك خط لكھا او ركئی صفحات میں اپنے عقائد لكھ كر بھیجا، سعود نے اس خط میں جس كو جبرتی نے نقل كیا ھے، اس بات پر توجہ دلائی كہ جو لوگ مُردوں سے لَو لگاتے ھیں ان سے حاجت طلب كرتے ھیں، قبروں كے لئے نذر یا قربانی كرتے ھیں یا ان سے استغاثہ كرتے ھیں، یہ نہ كریں اس نے لوگوں كو بھت ڈرایا دھمكایا، اسی طرح انبیاءعلیهم السلاماولیاء اللہ كی قبور كی تعظیم كرنا قبروں پر گنبد بنانا، ان پر چراغ جلانا قبروں كے لئے خدمت گذار معین كرنا وغیرہ وغیرہ ان سب كی شدت كے ساتھ ممانعت كردی، قبروں كی گنبدوں كو ویران اور مسمار كرنے كو واجب قرار دیا، ساتھ ساتھ یہ بھی اعلان كیا كہ جو شخص بھی ھمارے عقائد كو قبول نھیں كرے گا ھم اس سے جنگ كریں گے۔ 509
زینی دحلان كھتے ھیں كہ وھابی افراد مكہ میں چودہ دن رھے، اس دوران انھوں نے وھاں كے مسلمانوں سے توبہ كرائی اور اپنے خیال خام میں انھوں نے لوگوں كے اسلام كو تازہ كیا اور جو عقائد مثلاً توسل اور زیارات، شرك تھے ان سب كو ممنوع قرار دیا۔ 510
اپنے قیام كے نویں دن وھابیوں نے كثیر تعداد میں لوگوں كو جمع كیا جن كے ھاتھوں میں بیلچے (پھاوڑے)تھے تاكہ اس علاقہ میں موجود قبروں كی گنبدوں كو مسمار كردیں، سب سے پھلے انھوں نے قبرستان ”معلی“511 جھاں بھت سی گنبدیں تھیں،سب كو مسمار كردیا اس كے بعد پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی جائے ولادت اسی طرح ابوبكر اور حضرت علیںكی جائے ولادت، اسی طرح جناب خدیجہ كی گنبد، نیز چاہ زمزم پر موجود قبہ اور خانہ كعبہ كے اطراف میں موجود تمام قبروں كو نیز خانہ كعبہ سے اونچی تمام عمارتوں كو مسمار كردیا۔
اس كے بعد ان تمام مقامات كو مسمار كردیا جھاں پر خدا كے صالح بندوں كے كچھ بھی آثار تھے، وھابی حضرات جس وقت قبروں اور گنبدوں كو مسمار كرتے تھے تو طبل بجاتے تھے اور رجز پڑھتے تھے، اور صاحب قبور كو برے برے الفاظ سے یاد كرتے تھے، چنانچہ انھوں نے تین دن كے اندر تمام آثار اور قبور كو نیست ونابود كردیا۔ 512
ابن بشر صاحب كھتے ھیں كہ سعود تقریباً بیس دن سے زیادہ مكہ میں رھا اور اس كے ساتھی صبح سویرے ھی قبروں اور گنبدوں كو گرانے كے لئے نكل جاتے تھے یھاں تك كہ یہ كام دس دن میں تمام هوگیا، اور یہ لوگ اس كام میںخدا كا تقرب سمجھتے تھے یھاں تك كہ انھوں نے تمام قبور كو منہدم كردیا۔ 513

سعود كے دیگر كارنامے اور شریف غالب كی واپسی
سعود نے ایك انوكھا حكم یہ صادر كیا كہ نماز عشاء كے علاوہ مذاھب اربعہ كے پیروكاروں كو یہ حق حاصل نھیں ھے كہ ایك ساتھ مسجد الحرام میںنماز میں شریك هوں، بلكہ صبح كی نماز میں شافعی ظھر كی نماز میں مالكی عصر كی نماز میں حنفی مغرب كی نماز میں حنبلی اور نماز جمعہ مفتی مكہ سے مخصوص كردی گئی۔ 514
سعود نے یہ بھی حكم صادر كیا كہ محمد بن عبد الوھاب كی كتاب كشف الشبھات كو مسجد الحرام میں پڑھایا جائے اور تمام خاص وعام اس میں شریك هوں۔
سعود 24دن مكہ میں رھا اس كے بعد شریف غالب كی گرفتاری كے لئے جدہ روانہ هوا، اور اس علاقہ كو گھیر لیا لیكن چونكہ جدّہ كے اطراف میں اونچی اونچی پھاڑیاں ھیں اور ان كے دفاع كے وسائل بھی بھت مضبوط تھے جس كی بناپر سعود، شریف غالب كو گرفتار نہ كرسكا اور مایوس هوكر نجد پلٹ گیا۔
شریف غالب نے مكہ میں سعود كے نہ هونے سے فائدہ اٹھایا اور مكہ واپس آگئے، اور اپنے بھائی عبد المعین كی طرح بغیر كسی روك ٹوك كے شھر كو اپنے قبضہ میں كر لیا،515 لیكن وھابی راضی نہ تھے كہ مكہ معظمہ ان كے ھاتھوں سے چلا جائے، شریف غالب بھی چاھتے تھے كہ پھلے كی طرح مكہ میں حكمرانی كریں ،اسی وجہ سے دونوں میں ایك بار پھر جنگ كا بازار گرم هوگیا، ذیقعدہ1220ھ تك یہ جنگ چلتی رھی، پھر صلح هوگئی، جس میں طے پایا كہ وھابی لوگ صرف حج كے لئے مكہ معظمہ میں داخل هونگے اور پھر واپس چلے جایا كریں گے۔
شریف غالب بھی وھابیوں سے جنگ كرتے هوئے تھك چكے تھے اپنے اندر مقابلہ كرنے كی طاقت نھیں پارھے تھے، اور اپنی پھلی حكمرانی پر باقی بھی رہنا چاھتے تھے،لہٰذا اس كے پاس ظاھری طور پر وھابی مذھب كو قبول كرنے كے علاوہ اور كوئی چارہ نھیں رہ گیا تھا، اور یہ كہ وھابی حضرات جو چاھیں عمل كرےں، اور صلاح الدین مختار كے قول كے مطابق خدا اور اس كے رسول كے دین كو قبول كرنے میں سعود كی بیعت كریں۔ 516
شریف غالب نے اپنے خلوص كو سعود كے نزدیك ثابت كرنے كے لئے لوگوں كو حكم دیا كہ جو گنبد اور مقبرے باقی رہ گئے ھیں ان سب كو گرادیا جائے كیونكہ بعض مقبروں كو وھابیوں نے نھیں گرایا تھا چنانچہ اس نے مكہ معظمہ اور جدّہ میں كوئی مقبرہ نھیں چھوڑا، لیكن پھر بھی شریف غالب كے ھاتھوں كچھ ایسے كام هوتے رھتے تھے جن كی وجہ سے سعود اس سے بد گمان رھتا تھا۔
شریف غالب كے قابل توجہ كاموں میں سے ایك یہ تھا كہ وہ تاجر لوگوں سے ٹیكس لیتا تھا اور سعود اعتراض كرتا تھا تو یہ كھتا تھا كہ یہ لوگ مشرك ھیں (اس كا مقصد یہ تھا كہ چونكہ یہ لوگ وھابی نھیں ھیںلہٰذا مشرك ھیں) اور میں یہ ٹیكس مشركوں سے لے رھا هوں مسلمانوں سے نھیں۔ 517

مدینہ پر قبضہ
1220ھ میں سعود نے مدینہ پر بھی قبضہ كرلیا، اور روضہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قیمتی چیزوں كواپنے قبضے میں لے لیا،اس نے عثمانی بادشاهوں كی طرف سے مكہ او رمدینہ میں معین كئے گئے قاضیوں كو بھی شھر سے باھر نكال دیا۔ 518
صلاح الدین مختار صاحب كی تحریر كے مطابق جس وقت مدینہ كی اھم شخصیات نے یہ دیكھ لیا كہ شریف غالب سعود سے بیعت كرنے كے خیال میں ھے تو انھوں نے سعود كو پیشكش كی كہ اھل مدینہ دین خدا ورسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سعود كی اطاعت كو قبول كرلے، یعنی ان كی بیعت كو قبول كرلے، انھوں نے یہ پیش كش كرنے كے بعد مدینہ منورہ میں موجود گنبدوں اور مقبروں كو گرانا شروع كردیا۔ 519
اس طرح وھابیوں نے ایك بھت بڑی حكومت تشكیل دی كہ جس میں نجد اور حجاز شامل تھے اور عثمانی كارندوں كو باھر نكال دیا، نیز عثمانی بادشاهوں كا ذكر خطبوں سے نكال دیا، اور وہ اسی پر قانع نھیں هوئے بلكہ عراق كا رخ كیا مخصوصاً عراق كے دو مشهور شھر كربلائے معلی اور نجف اشرف پر حملے كئے۔

كربلا اور نجف اشرف پر وھابیوں كاحملہ
ابتداسے ھی آل سعوداور عراقیوں میں جو اس زمانہ میں عثمانی بادشاہ كے تحت تھے، لڑائی جھگڑے هوتے رھتے تھے اور وھابی لوگ عراق كے مختلف شھروں پر حملہ كرتے رھتے تھے، لیكن عراق كے دومشهور شھر نجف اور كربلا پر حملہ ایسا نھیں تھا جو مختلف شھروں پر هوتا رھتا تھا، بلكہ اس حملہ كا انداز كچھ اور ھی تھا او ر اس حملہ میں مسلمانوں كا قتل عام اور حضرت امام حسینںكے روضہٴ مبارك كی توھین كے طریقہ سے یہ معلوم هوتا ھے كہ ان كے مذكورہ كاموں كا بنیادی مقصد ان كے مذھبی عقائد تھے اور وہ بھی شدت اور تعصب كے ساتھ، كیونكہ انھوں نے تقریباً دس سال كی مدت میں كئی مرتبہ ان دونوں شھروں پر حملہ كیا ھے۔
ھم نے پھلے بھی عرض كیا ھے كہ ابن تیمیہ اور اس كے مرید اس وجہ سے شیعوں سے مخالفت اور دشمنی ركھتے تھے كہ ان كو قبروں پر حج كرنے والے یا قبروں كی عبادت كرنے والے كھا كرتے تھے اور بغیر كسی تحقیق كے ان كا گمان یہ تھا كہ شیعہ حضرات اپنے بزرگوں كی قبروں كی پرستش كرتے ھیں اور خانہ كعبہ كا حج كرنے كے بجائے قبور كا حج كرتے ھیں، اور اسی طرح كے دوسرے امور جن كی تفصیل ھم نے پھلے بیان كی ھے، سب كی بڑی وضاحت كے ساتھ تردید بھی كردی ھے۔
بھر حال چونكہ یہ دو شھر،(كربلا اور نجف اشرف) شیعوں كے نزدیك خاص اھمیت كے حامل تھے اور ھیں، اس بناپر ان دونوں زیارتگاهوں پر بھت بھترین، اور عمدہ گنبدیں بنائی گئی ھیں او ربھت سا نذر كا سامان او ربھت سی چیزیں ان روضوں كے لئے وقف كرتے ھیں اور ھر سال ہزاروں كی تعداد میں دور اور نزدیك سے مومنین كرام زیارت كے لئے جاتے ھیں، اور جیسا كہ پھلے بھی عرض كرچكے ھیںوھابی لوگ اپنی كم علمی كی وجہ سے بھت سے شبھات او راعتراضات كے شكار تھے جن كی بناپر شیعوں سے بھت زیادہ تعصب ركھتے تھے اور ھمیشہ ایسی چیزوں كی تلاش میں رھتے تھے جن كے ذریعہ اپنے مقصد تك پهونچ سكیں۔
دائرة المعارف اسلامی كی تحریر كے مطابق، ”خزائل نامی شیعہ قبیلہ“ كی طرف سے نجدی قبیلہ پر هوئی مار پیٹ كو انھوں نے كربلا اور نجف پر حملہ كرنے كا ایك بھانہ بنا لیا۔ 520
كربلا اور نجف پر وھابیوں كے حملے1216ھ میں عبد العزیز كے زمانہ سے شروع هوچكے تھے جو1225ھ سعود بن عبد العزیز كی حكومت كے زمانہ تك جاری رھے۔
ان حملوں كی تفصیل وھابی اور غیر وھابی موٴلفوں نے لكھی ھے اور اس زمانہ كی فارسی كتابوں میں بھی یہ واقعات موجود ھیں، نجف اشرف كے بعض علمائے كرام جو ان حملوں كے خود چشم دید گواہ ھیں اور ان میں سے بعض اپنے شھر كے دفاع میں مشغول تھے انھوں نے ان تمام چیزوں كو اپنی كتابوں میں لكھاھے جن كو خود انھوں نے دیكھا ھے یا دوسروں سے سنا ھے، ھم یھاںپر ان كی كتابوں سے بعض چیزوں كو نقل كرتے ھیں:

كربلا پر حملہ
وھابی موٴلف صلاح الدین مختار اس سلسلہ میں كھتے ھیں:
”1216ھ میں امیر سعود (ابن عبد العزیز) نے اپنی پوری طاقت كے ساتھ نجد اور عشایر كے لوگوں كے ساتھ او راسی طرح جنوب ،حجاز اور تھامہ وغیرہ كے لوگوں كی ھمراھی میں عراق كا رخ كیا اور ذیقعدہ كو شھر كربلا پهونچ كر اس شھر كو گھیر لیا، اور اس لشكر نے شھر كی دیوار كو گرادیا، اور زبردستی شھر میں داخل هوگئے كافی لوگوں كو گلی كوچوں میں قتل كرڈالا اور ان كے تمام مال ودولت لوٹ لیا، اور ظھر كے وقت تك شھر سے باھر نكل آئے اور ” ماء الابیض “ نامی جگہ پر جمع هوكر غنیمت كی تقسیم شروع هوئی اور مال كا پانجواں حصہ (یعنی خمس) سعود نے لے لیا اور باقی مال كو اس طرح اپنے لشكر والوں میں تقسیم كیا كہ پیدل كو ایك اور سوار كو دوحصّے ملے“۔ 521
پھر چند صفحہ بعد لكھتے ھیں كہ امیر عبد العزیز بن محمد بن سعود ایك عظیم لشكر كو اپنے بیٹے سعود كی سرداری میں عراق بھیجا جس نے ذیقعدہ1216ھ میں كربلا پر حملہ كیا۔
صلاح الدین مختار صاحب، ابن بشر522 كی باتوں كو نقل كرنے كے بعد كھتے ھیں كہ امیر سعود نے اس شھر پر حملہ كیا جس كا شیعوں كی نظر میں احترام كرنا ضروری ھے۔ 523
شیخ عثمان بن بشر نجدی مورخ مذكور واقعہ كی تفصیل اس طرح بیان كرتے ھیں كہ ذی قعدہ1216ھ میں سعود بھاری لشكر كے ساتھ جس میں بھت سے شھری اور خانہ بدوش (نجد، جنوب، حجاز اور تھامہ وغیرہ كے) تھے حضرت امام حسینںكی بارگاہ كربلا كا رخ كیا اور شھر كے باھر پهونچ كر پڑاوٴ ڈال دیا۔
مذكورہ لشكر نے شھر كی دیوار كوگرادیااور شھر میں داخل هوگئے اور شھر میں پهونچنے كے بعد گھروں او ربازاروں میں موجود لوگوں كا قتل عام كردیا، اور حضرت امام حسین ں كی گنبد كو بھی گرادیا، اور آپ كی قبر پر موجود ہ صندوق (ضریح) جس پر یاقوت اور دیگر جواھر ات لگے هوئے تھے اس پر قبضہ كرلیا، اور ان كے تمام مال ودولت، اسلحہ، لباس، فرش، سونا چاندی بھترین اور نفیس قرآن كو مال غنیمت میں لے لیا نیز اس كے علاوہ تمام چیزوں كو غارت كردیا، اور ظھر كے وقت شھر سے باھرنكل گئے، اس حملہ میں وھابیوں نے تقریباً دو ہزار لوگوں كو قتل كیا ۔ 524
شیعوں كے عظیم عالم دین مرحوم علامہ سید جواد عاملی ،نجف اشرف پر وھابیوں كے حملہ كے چشم دید گواہ ھیں، وہ وھابی مذھب كی پیدائش كے ضمن میں اس طرح فرماتے ھیں كہ1216ھ میں حضرت امام حسین ں كے روضہٴ مبارك كو غارت كردیا چھوٹے بڑوں كو قتل كر ڈالا لوگوں كے مال ودولت كو لوٹ لیا خصوصاً حضرت امام حسین ں كے روضہ كی بھت زیادہ توھین كی اور اس كو گراڈالا۔ 525
جن شیعہ موٴلفوں نے كربلا كے قتل عام كی تاریخ 18 ذی الحجہ (عید غدیر)1216 ھ ق۔ بیان كی ھے ان میں سے ایك صاحب ”روضات الجنات“بھی ھیں جنھوں نے مولیٰ عبد الصمد ھمدانی حائری كے حالات زندگی كے ضمن میں فرمایاھے: بروز چھار شنبہ 18 ذی الحجہ (عید غدیر)1216 ھ ق۔ كا دن تھا كہ وھابیوں نے مرحوم ھمدانی كو اپنی مكاریوں كے ساتھ گھر سے نكالا اور شھید كردیا۔ 526
لیكن اس واقعہ كی تفصیل ڈاكٹر عبد الجواد كلید دار (جو خود كربلا كے رہنے والے ھیں) اپنی كتاب تاریخ كربلا وحائر حسینی میں ”تاریخِ كربلائے معلی“ (ص 20، 22)سے كچھ اس طرح نقل كرتے ھیں :
” 1216ھ میں وھابی امیر سعود نے اپنے بیس ہزار جنگجو بھادروں كا لشكر تیار كیا اور كربلا شھر پر حملہ ور هوا، اس زمانہ میں كربلا كی بھت شھرت اور عظمت تھی اور ایرانی ،تركی اورعرب كے مختلف ممالك سے زائرین آیا كرتے تھے، سعود نے پھلے شھر كو گھیرا اور اس كے بعد شھر میں داخل هوگیا، اور دفاع كرنے والوں كاشدید قتل عام كیا، شھر كے اطراف میں خرمے كی لكڑیوں اور اس كے پیچھے مٹی كی دیوار بنی هوئی تھی جس كو انھوں نے توڑ ڈالا۔
وھابی لشكر نے ظلم اور بربریت كا وہ ناچ ناچا جس كو بیان نھیں كیا جاسكتا، یھاںتك كہ كھا یہ جاتا ھے كہ ایك ھی دن میں انھوں نے بیس ہزار لوگوں كا قتل عام كیا۔ 527
اور جب امیر سعود كا جنگی كام ختم هوگیا تو وہ حرم مطھر كے خزانہ كی طرف متوجہ هوا، یہ خزانہ بھت سی نفیس اور قیمتی چیزوں سے بھرا هوا تھا، وہ سب اس نے لوٹ لیا، كھا یہ جاتا ھے كہ جب ایك خزانہ كے دروازہ كو كھولا تو وھاں پر كثیر تعداد میں سكّے دكھائی دئے اور ایك گوھر درخشان جس میں بیس تلواریں جو سونے سے مزین تھیں اور قیمتی پتھر جڑے هوئے تھے اسی طرح سونے چاندی كے برتن اور فیروزہ اور الماس كے گرانبھا پتھر تھے ان سب كو لوٹ لیا، اسی طرح چار ہزار كشمیری شال، دوہزار سونے كی تلواریں اور بھت سی بندوقیں اور دیگر اسلحوں كو غارت كرلیا۔
اس حادثہ كے بعد شھر كربلا كی حالت یہ تھی كہ شاعر لوگ اس كے لئے مرثیہ كھتے تھے، اور جو لوگ اپنی جان بچا كر بھاگ نكلے تھے، شھر میں لوٹ آئے، اور بعض خراب شدہ چیزوں كے ٹھیك كرنے كی كوشش كرنے لگے۔
”لونكریك“ نے اپنی تاریخ (چھار قرن از عراق)میں لكھا ھے كہ اس واقعہ كو دیكھ كر اسلامی ممالك میں ایك خوف ووحشت پھیل گئی۔ 528
مذكورہ موٴلف دوسری جگہ پر ”لونكریك“ سے نقل كرتے هوئے اس طرح لكھتے ھیں وھابیوں كے كربلا سے نزدیك هونے كی خبر2نیسان(جولائی)1801ء كو شام كے وقت پهونچی اس وقت كربلا كے لوگوں كی كثیرتعداد زیارت كے لئے (عید غدیر كی مناسبت سے) نجف اشرف گئی هوئی تھی، جو لوگ شھر میں باقی تھے انھوں نے جلدی سے شھر كے دروازے بند كردئے، وھابیوں كی تعداد 600پیدل اور 400 سوار تھے، چنانچہ شھر سے باھر آكر جمع هوگئے اور اپنے خیمہ لگادئے او راپنے كھانے پینے كی چیزوں كو تین حصوں میں تقسم كیا اور ”باب المخیم“ نامی محلہ كی طرف سے دیوار توڑ كر ایك گھر میں داخل هوگئے اوروھاں سے نزدیك كے دروازے پر حملہ كردیا اور پھر شھر میں داخل هوگئے ۔
اس موقع پر خوف ودہشت كی وجہ سے لوگوں نے ناگھانی طور پر بھاگنا شروع كردیا، وھابیوں نے حضرت امام حسین ں كے روضہ كا رخ كیا، اور وھاں پر توڑ پھوڑ شروع كردی، اور وھاں پر موجود تمام نفیس اور قیمتی چیزوں كو جن میں سے بعض ایران كے بادشاهوں اور دیگر حكّام نے نذر كے طور پر بھیجی تھی ان تمام چیزوں كو غارت كرلیا، اسی طرح دیوار كی زینت اور چھت میں لگے سونے كو بھی ویران كرڈالا، قیمتی قالینوں ،قندیلوں اور شمعدانوں وغیرہ كو بھی لوٹ لیا، اور دیواروں میںلگے جواھرات كو بھی نكال لیا۔
ان كے علاوہ ضریح مبارك كے پاس تقریباً 50لوگوں كو اور صحن میں 500لوگوں كو قتل كردیا، وہ لوگ جس كو بھی پاتے تھے وحشیانہ طریقہ سے قتل كردیا كرتے تھے، یھاں تك كہ بوڑھوں اور بچوں پر بھی كوئی رحم نھیں كیا، اس حادثہ میں مرنے والوں كی تعداد كو بعض لوگوں نے ایك ہزار او ربعض لوگوں نے پانچ ہزار بتائی ھے۔ 529
سید عبد الرزاق حسنی صاحب اس سلسلہ میں فرماتے ھیں كہ1216ھ میں وھابیوں كے لشكر نے جس میں 600 اونٹ سوار اور 400 گھوڑے سوار تھے كربلا پر حملہ كردیا اور یہ اس وقت كا واقعہ ھے جب اكثر لوگ نجف اشرف كی زیارت كے لئے گئے هوئے تھے۔
حملہ آوروں نے حضرت امام حسینں اور جناب عباسں كے روضوں كو بھت زیادہ نقصان پهونچایا، اور ان دونوں روضوں میں جوكچھ بھی تھا وہ سب غارت كردیا، اور ساری قیمتی چیزیں جیسے قیمتی پتھر ”ساج“ كی لكڑی، بڑے بڑے آئینے اور جن ہدیوں كو ایران كے وزیروں اور بادشاهوں نے بھیجا تھا ان سب كو لوٹ لیا، اور در ودیوار میں لگے قیمتی پتھروں كو ویران كردیا اور چھت میں لگے سونے كو بھی لے گئے اور وھاں پر موجود تمام قیمتی اور نفیس قالینوں، قندیلوں اور شمعدانوں كو بھی غارت كرلیا۔ 530
قارئین كرام!جیسا كہ آپ حضرات نے ملاحظہ كیا كہ مختلف كتابوں نے وھابیوں كی تعداد اور مقتولین كی تعداد میں اختلاف كیا ھے ۔ لیكن وھابی موٴلف كی تحریر كے مطابق جس كو ھم نے پھلے ذكر كیا ھے اور دوسرے شواہد كی بناپر وھابیوں كی تعداد بیس ہزار او رمرنے والوں كی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ صحیح دكھائی دیتی ھے۔

حسینی خزانہ كے بارے میں
حاج زین العابدین شیروانی صاحب جو تقریباً محمد بن عبد الوھاب كے ھم عصر تھے اور ایك طولانی مدت سے كربلا میں مقیم تھے اور كربلا پر وھابیوں كا حملہ ا نھیں كے زمانہ میں رونما هوا ھے، موصوف اپنی كتاب ” حدائق السیاحہ“ میں وھابیوں كے حملے كی تفصیل اس طرح لكھتے ھیں: ”روضہ امام حسین ں كا تمام زر وزیور، قندیلیں، سونے اور چاندی كے ظروف او رجواھر وغیرہ سب وہ (وھابی) ظالم لوٹ لے گئے اور باقی تمام دوسری چیزیں غارت كردیں، سوائے وہ سامان جو ان كے پهونچنے سے پھلے پھلے كاظمین پهونچادیا گیا تھا بچ گیا۔
میر عالم صاحب جو دكھن (ہند وستان) كے نوابوںمیں سے تھے انھوں نے اس واقعہ كے بعد كربلا شھر كے چاروں طرف دیوار بنوائی اور اس كے قلعہ كو گچ (چونے) اور اینٹوں سے مضبوط كرایا، اسی طرح آقا محمد خان شھریار ایران نے وھابیوں كے حملے سے پھلے حضرت امام حسین ں كے روضہ كو بنایا اور اس كے گنبد كو سونے كی اینٹوں سے بنوایا۔ 531
وھابیوں كے نجف اشرف پر حملے كے ضمن میں یہ بات بیان كی جائے گی كہ جب نجف كے علماء اور اھم لوگوں كو یہ پتہ چلا كہ وھابی نجف پر بھی حملہ كرنے والے ھیں تو انھوں نے حضرت امیر المومنینں كے خزانہ كو كاظمین پهونچادیا۔
لیكن حضرت امام حسین (ع) كے خزانہ كو كاظمین لے جانے كے بارے میں صرف جناب شیروانی صاحب نے نقل كیا ھے اس كے علاوہ اگر كسی نے بیان كیا هو، توموٴلف كی نظر وں سے نھیں گذرا، جبكہ تمام لكھنے والوں نے یھی لكھا ھے كہ كربلائے معلی كا سب سامان غارت كردیا گیا،جیسا كہ ھم نے وھابیوں كے كربلا پر حملہ كے ضمن میں اشارہ بھی كیاھے، اور یھی بات صحیح بھی دكھائی دیتی ھے كیونكہ ساكنین كربلا كو اس حملہ كے بارے میں كوئی خبر نھیں تھی وہ بالكل بے خبر تھے تو كس طرح وہ سامان كاظمین لے جانا ممكن هوسكتا ھے۔
اور ادھر سے یہ بھی معلوم ھے كہ كربلا كے مومنین خصوصاً جوان اور كار آمد لوگ وھابیوں كے حملے سے ایك یا دو دن پھلے ھی عید غدیر كی مناسبت سے نجف اشرف زیارت كے لئے گئے تھے اور اگر ان لوگوں كو وھابیوں كے اس حملہ كا ذرا سا بھی احتمال هوتا تو یہ لوگ اپنے شھر كو چھوڑ كر نہ جاتے اور عورتوں اور بچوں او ربوڑھوں كو دشمن كے مقابلے میں چھوڑ كر نہ جاتے۔ ظاھر ھے كہ كاظمین اس خزانہ كا منتقل كرنا اسی صورت میں ممكن تھا جب ان كو اس حملہ كی خبر هوتی یا اس كا احتمال دیتے۔ 532

كربلا ئے معلی پر وھابیوں كا حملہ، عثمانی موٴلفوں كی نظر میں
”شیخ رسول كركوكلی“ تیرهویں صدی ہجری كی ابتداء كے عثمانی موٴلف نے1132ھ سے 1237ھ تك كے عراق، ایران اور عثمانی واقعات پر مشتمل ایك كتاب اسلامبولی تركی میں لكھی ھے، اور موسیٰ كاظم نورس نے مذكورہ كتاب كا عربی میں ترجمہ كیا ھے جو ”دوحة الوزرا“ كے نام سے طبع هوچكی ھے۔
كتاب”دوحة الوزرا“ میں ایسے واقعات موجود ھیں جو خود موٴلف كے زمانہ میں رونما هوئے، اور شاید بھت سے واقعات كے وہ خود بھی شاہد هوں، لہٰذا اس كتاب كے واقعات خاص اھمیت كے حامل ھیں۔
اس كتاب كے تفصیلی اور دقیق مطالب میں سے عراق پروھابیوں كے حملے بھی ھیں اور بغداد كے والیوں كی طرف سے هونے والی تدبیروں اور عراق كے حكام كی طرف سے نجد كے علاقہ پر لشكر كشی كرنا بھی موجود ھے لہٰذا ھم یھاں پر كربلائے معلی پر وھابیوں كے حملہ كو اس كتاب سے نقل كرتے ھیں:
1214ھ میں قبیلہ خزائل اور وھابیوں كے درمیان نجف اشرف میں هوئی لڑائی اور وھابیوں كے تین سو كے قریب هوئے قتل كو دےكھتے هوئے عبد العزیز سعودی بادشاہ نے عراق كے حكام كو ایك خط لكھا كہ جب تك مقتولین كی دیت ادا نہ كی جائے اس وقت تك عراق اور نجد میں هوئی صلح باطل ھے۔ 533
سلیمان پاشا والی ٴبغداد نے صلح نامہ كو برقرار ركھنے كے لئے عبد العزیز كے پاس ”عبد العزیزبیك شاوی“ (اپنے ایك اھم شخص) كو بھیجا جو حج كا بھی قصد ركھتا تھا اس كو حكم دیا كہ اعمال حج كے بجالانے كے بعد وھابی امیر كے پاس جائےں اور اس سے صلح نامے كو باطل كرنے سے پرھیز كرنے كے بارے میں گفتگو كریں۔
عبد العزیز بیك نے والی بغداد كے حكم كے مطابق عمل كیااور سعودی امیر عبد العزیز سے گفتگو كی لیكن كوئی فائدہ نھیں هوا، آخر میں عبد العزیز نے یہ پیشكش كی كہ وھابیوں كے بھے خون كے بدلے میں نجد كے عشایر كو ”شامیہ“ (عنّہ اور بصرہ كے درمیان) علاقہ میں اپنے چارپایوں كو چرانے دیا جائے، او راگر ان كو روكا گیا تو پھر صلح نامہ كے پیمان كو توڑنے میں كوئی حرج نھیں هوگا۔
جب عبد العزیز شاوی، عبد العزیز وھابی كو قانع كرنے سے ناامید هوگئے تو انھوں نے ایك قاصد بغداد كے والی كے پاس بھیجا اور اس كو گفتگو كی تفصیل سے آگاہ كیا اور یہ بھی بتایاكہ وھابی لوگ اپنے مقتولین كا انتقام لینے كی غرض سے عراق كا رخ كرچكے ھیں ۔
والی بغداد نے وھابیوں كے احتمالی حملہ كی وجہ سے كافی انتظامات كئے، كئی مھینہ گذر جانے كے بعد بھی وھا بی حملہ كرنے كے لئے نھیں آئے۔
1216 ھ میں شھر بغداد میں وباپھیل گئی اور آہستہ آہستہ یہ وبا شھر كے قرب وجوار میں بھی پھیلنے لگی، یہ دیكھ كر شھر كے لوگ بھاگ نكلے، اسی وقت شیخ حمود رئیس قبیلہ منتفق نے والی شھر كو خبر دار كیا كہ سعود بن عبد العزیز اپنے ایك عظیم لشكر كے ساتھ عراق پر حملہ كرنے كے لئے آرھا ھے۔
بغداد كے والی نے علی پاشا كو حكم دیا كہ وہ وھابیوں كو روك دے اور قتل غارت نہ هونے دے، علی پاشا ”دورہ“ نامی علاقہ كی طرف چلے تاكہ دوسرے لشكر بھی اس سے ملحق هوجائیں، راستہ میں بعض عشایر كا لشكر بھی اس سے ملحق هوگیا۔
ادھر جب علی پاشا اپنے لشكر كو وھابیوں سے مقابلہ كرنے كے لئے تیار كررھے تھے تو ان كو یہ خبر ملی كہ وھابیوں نے كربلا پر حملہ كردیا ھے اور وھاں پر بھت زیادہ قتل وغارت كرڈالاھے، جس میں تقریباً ایك ہزار لوگوں كو تہہ تیغ كردیا، اس وقت علی پاشا نے محمد بیك شاوی كو وزیر كے پاس بھیجا تاكہ اس كو مذكورہ واقعہ سے خبردار كرے اور یہ خبر پاتے ھی فوراً وہ كربلا كی طرف روانہ هوئے تاكہ حملہ آوروں پر كامیابی حاصل كرے اور ان سے اس قتل وغارت كا انتقام لے، اور شھر كو دشمنوں كے پنجہ سے نجات دلائے، لیكن ابھی علی پاشا شھر حلہ میں ھی پهونچے تھے كہ اس كو خبر ملی كہ وھابی لوگ قتل وغارت كے بعد ”اخیضر“ نامی علاقہ كی طرف چلے گئے ھیں، یہ سننے كے بعد علی پاشا بعض وجوھات كی بناپر حلّہ میں ھی رہ گئے، كیونكہ جب انھوں نے یہ خبر سن لی كہ وھابی لشكر كربلا سے نكل چكا ھے تو ان كا كربلا جانا بے فائدہ تھا پھر بھی احتیاط كے طور پر مختصر سے لوگوں كو كربلا بھیج دیا۔
چنانچہ وھابیوں كے حملہ كے خوف سے نجف اشرف كے خزانہ كو بغداد بھیج دیا اور مذكورہ خزانہ كو حضرت امام موسی كاظم ں كے روضہ میں ركھ دیا گیا، مذكورہ خزانہ كو لے جانے والے محمد سعید بیك تھے، اور یہ خبریں نیز وھابیوں كے حملہ كے سلسلہ میں هوئی تدبیروں كو ایرانی حكومت كے پاس پهونچادیا گیا۔ 534

شھر كربلا پر وھابیوں كی كامیابی كے وجوھات
جیسا كہ ھم بعد میں بیان كریں گے كہ وھابیوں نے نجف اشرف پر بھی حملہ كیا او رنجف كو فتح كرنے كی بھت كوششیں كی لیكن وہ لوگ اپنے اس مقصد میں كامیاب نہ هوسكے، لیكن كربلا شھر میں انھوں نے جو كچھ كرنا چاھا وہ با آسانی كرڈالا، موٴلف كی نظر میں اس كی كچھ وجوھات ھیں جن كو چند چیزوں میں خلاصہ كیا جاسكتا ھے:
1۔ سلیمان پاشا والی بغداد ا ور عثمانی بادشاہ كی طرف سے معین شدہ كربلا كے حاكم عمر آقا نے شھر كی حفاظت كے لئے كوئی خاص كام انجام نھیں دیا، بلكہ كچھ بھی نہ كیا، اسی وجہ سے سلیمان پاشا نے اس سے مواخذہ كیا، اور سرانجام اس كو قتل كردیا گیا۔ 535
2۔ شھر كربلا كی دیوار اور اس كا برج زیادہ مضبوط نھیں تھا اور اس كے علاوہ اس كی حفاظت كرنے والوں كی تعداد بھی بھت كم تھی۔ 536
3۔ سب سے اھم وجہ یہ تھی كہ اكثر مرد او رجوان حضرات عید غدیر كی مناسبت سے نجف اشرف زیارت كے لئے گئے هوئے تھے اور شھر كا دفاع كرنے والا كوئی نھیں تھا دشمنوں كے مقابلہ میں فقط عورتیں بچے اور بوڑھے باقی تھے، جو كچھ بھی نھیں كرسكتے تھے۔
4۔ صاحب مفتاح الكرامة كے قول كے مطابق جس وقت وھابیوں نے شھر كربلا پر حملہ كیا بعض شیعہ قبیلوں میں اختلاف پایا جاتا تھا جیسے قبیلہ خزاعل وآل بعیج اور آل جشعم وغیرہ میں شدید اختلاف تھا اور آپس میں چھوٹے موٹے واقعات هوتے رھتے تھے۔ 537 جس كی بناپر ان میں وھابیوں سے مقابلہ كرنے كی طاقت نھیں تھی۔
ھم دیكھتے ھیں كہ انھیں وھابیوں نے جب دوسرے شھروں پر حملہ كرنا چاھا تو لاكھ كوشش كی لیكن پھر بھی كسی شھر میں داخل نہ هوسكے كیونكہ وھاں پر یہ سب وجوھات نھیں تھیں ۔

وھابیوں كے كربلا پر دوسرے حملے
وھابیوں نے تقریباً بارہ سال تك كربلا اور قرب وجوار كے علاقوں پر موقع موقع سے حملہ كیا ھے او رلوگوں كا قتل عام كیا نیز وھاں پر موجود مال و دولت غارت كی ھے جن میں سے سب سے پھلا حملہ 1216 ھ كا تھا جس كی تفصیل گذر چكی ھے۔
صلاح الدین مختار صاحب، ان حملوں میں سے ایك حملہ كے بارے میں اس طرح بیان كرتے ھیں : ” ماہ جمادی الاوّل1223ھ میں امیر سعود بن عبد العزیز نے دوبارہ اپنے عظیم لشكر كے ساتھ عراق كا رخ كیا جس میں بھت سے علاقے مثلاً نجد، حجاز، احسا، حبوب، وادی دواسر، بیشہ، رینہ، طائف اور تھامہ كے افراد شامل تھے، وہ سب سے پھلے كربلا پہنچا اس وقت كربلا شھر كی باھر كی دیوار او ربرجِ مستحكم هوچكی تھی ،كیونكہ كربلا پر هوئے پھلے حملہ نے اھل كربلا كو اپنے دفاع كی خاطر شھر كی دیوار كو مضبوط اور مستحكم بنانے پر مجبور كردیا۔
وھابیوں كے لشكر نے شھر پر گولیاں چلائیں لیكن اس كا كوئی نتیجہ نہ نكلا، اور چونكہ اھل شھر نے ایسے وقت كے لئے اپنے دفاع كی بھت سی چیزوں كو جمع كر ركھا تھا لہٰذا انھوں نے اپنے شھر كا دفاع كیا، امیر نے یہ دیكھ كر اپنے سپاھیوں كو حكم دیا كہ اپنے ساتھ لائی هوئی سیڑھیوں كا استعمال كریں چنانچہ انھوں نے سیڑھیاں لگا كر دیوار پر چڑھنا شروع كیا۔
وھابی لشكر كربلا میں داخل هونا ھی چاھتا تھا لیكن اس طرف سے اھل كربلا اپنے دفاع میں لگے هوئے تھے، انھوں نے ان پر حملہ كیا، جس كی وجہ سے وہ لوگ كربلا پر حملہ كی فكر چھوڑ كر نكل بھاگے،538 ابن بشر صاحب نے (گویا صلاح الدین مختار نے اس واقعہ كی تفصیل انھیں سے نقل كی ھے) مذكورہ واقعہ كو1222ھ میں نقل كیا ھے اور اس طرح كھتے ھیں كہ گولیوں سے حملہ كی وجہ سے بھت سے (سپاہ سعود كے) سپاھی قتل هوئے اور جب سعود نے دیكھا كہ كربلا شھر كی دیوار مضبوط اور مستحكم بنی هوئی ھے اس نے ان كو كربلا پر حملہ كرنے سے روكا اور عراق كے دوسرے علاقوں كا رخ كیا ۔ 539
مرحوم علامہ سید محمد جواد عاملی صاحب نے بھی مفتاح الكرامہ كی ساتویں جلد كے آخر میں اس طرح بیان كیا ھے كہ یہ كتاب رمضان المبارك1225ھ كی نویں تاریخ كی آدھی رات میں ختم هوئی جبكہ ھمارا دل بھت پریشان تھا كیونكہ ”عُنَیْزَہ“ كے عربوں نے جو وھابی خارجیوں كے عقائد سے متاثر تھے، نجف اشرف كے اطراف اور قرب وجوار نیز حضرت امام حسین ں كے روضہ پر حملہ كیا اور
وھاں پر قتل وغارت كا كھیل كھیلا، اس وقت كے مقتولین كی تعداد 150افراد بتائی جاتی ھے اگرچہ بعض لوگ اس تعداد كو اس سے بھی كم بتاتے ھیں۔ 540
”عبد اللہ فیلبی“ صاحب كھتے ھیں كہ كربلا پر وھابیوں كے اس حملہ نے شیعوں كے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں كو تعجب اور حیرانی میں ڈال دیا، لیكن اس حملہ كے انتقام میں ایك بھترین محاذبن گیا جس كی بنا پر سعودی حكومت كو كافی نقصان اٹھانا پڑا۔ 541

وھابیوں كے كربلا پر حملے كاذكر ایرانی كتابوں میں
بعض ان ایرانی علماء نے اس حادثہ كو اپنی كتابوں میں لكھا ھے جو وھابیوں كے حملہ كے وقت یا اس كے نزدیك زندگی بسر كرتے تھے ،یھاںان كی بعض تحریروں كو هوبهو یا خلاصہ كے طور پر نقل كرنا زیادہ مناسب ھے۔ 542
(موٴلف كی اطلاع كے مطابق) ایرانی موٴلفوں میں سب سے قدیمی كتاب جس میں اس حادثہ كے بارے میں تحریر ھے وہ میرزا ابو طالب اصفھانی كی كتاب ھے، موصوف وھابیوں كے كربلامیں قتل عام كے گیارہ ماہ كے بعد كربلا پهونچے ھیں، او رجس وقت وھاں پهونچے ھیں صرف یھی واقعہ زبانزد خاص وعام تھا چنانچہ موصوف اس سلسلہ میں یوں رقمطراز ھیں:

كربلا میں وھابیوں كے حملہ كا ذكر
18 ذی الحجہ (عید غدیر) كو كربلا كے اكثر اور معتبر افراد نجف اشرف میں حضرت امیر المومنین علی ں كی مخصوص زیارت كے لئے گئے هوئے تھے، ادھر 25000 كا وھابی لشكر (عربی گھوڑوں اور بھترین اونٹوں پر سوار) شھر كربلا میں داخل هوا، جس میں سے بعض لوگ زائرین كے لباس میں پھلے ھی سے شھر میں داخل هوچكے تھے اور شھر كا حاكم عمر آقا ان كے ساتھ ملا هوا تھا(یعنی ان سے سانٹھ گانٹھ كئے هوئے تھا ”یہ بات حاشیہ سے نقل هوئی ھے“) جس كی وجہ سے وھابی لوگ پھلے ھی حملے میں شھر میں داخل هوگئے اور یہ نعرے بلند كئے، ”اقتلوا المشركین“ و ” اذبحوا الكافرین“،یہ سن كر عمر آقا ایك دیھات كی طرف بھاگ نكلا، لیكن بعد میں اپنی كوتاھیوں كی بناپر سلیمان پاشا كے ھاتھوں قتل كیا گیا۔
وہ لوگ قتل وغارت كے بعد گنبد كی سونے كی اینٹوں كو اكھاڑنا چاھتے تھے لیكن چونكہ یہ اینٹیں بھت مضبوطی سے لگائی گئی تھیں، لہٰذا جب ان كو اكھاڑ نہ سكے تو گنبد كے اندر كا حصہ كلھاڑیوںوغیرہ سے توڑ ڈالا اور عصر كے وقت بے خوف وخطر اپنے وطن كو لوٹ گئے، تقریباً پانچ ہزار لوگوں كو قتل كیا او ر زخمیوں كی تعداد تو بے شمار تھی منجملہ میرزا حسن ایرانی شاہزادہ، میرزا محمد طبیب لكھنوی وعلی نقی لاهوری اور ان كے ساتھ میرزا قنبر علی وكنیز وغلام وغیرہ،اور حضرت امام حسین ں كے روضہ مبارك اور شھر كا جتنا بھی قیمتی سامان تھا سب غارت كردیا۔
اس قتل وغارت میں حضرت امام حسین ں كے صحن میں مقتولین كا خون بہہ رھا تھا اور صحن مبارك كے تمام حجرے مقتولین كی لاشوں سے بھرے پڑے تھے، حضرت عباس ں كے روضہ اور گنبد كے علاوہ، اور كسی كو بھی اس حادثہ سے نجات نھیں ملی، اس حادثہ كی وجہ سے لوگوں میں اس قدر خوف ووحشت تھی كہ میں اس حادثہ كے گیارہ مھینہ بعد كربلائے معلی گیا هوں لیكن پھر بھی اس حادثہ میں اتنی تازگی تھی كہ صرف یھی حادثہ لوگوں كی زبان پر تھا، اور جو لوگ اس حادثہ كو بیان كرتے تھے وہ حادثہ كو بیان كرتے كرتے رونے لگتے تھے اور اس حادثہ كی وہ درد بھری داستان تھی كہ سننے والوں كا بھی رُواں كھڑا هوجاتا تھا۔
لیكن اس حادثہ كے مقتولین كو بڑی بے غیرتی سے قتل كیا گیا تھا بلكہ جس طرح گوسفند كاھاتھ پیر باندھنے كے بعد بے رحم قصّاب كے حوالے كردیاجاتا ھے اس طرح سے ان لوگوں كو ذبح كیا گیا۔
اور جس وقت وھابی لشكر شھر سے باھر نكل گیا اس وقت اطراف كے اعراب نے ان كے پلٹنے كا شور مچایا اور جب شھر كے لوگ دفاع كے لئے شھر سے باھر باغات كی طرف پهونچے تو خود وہ اعراب گروہ گروہ كركے شھر میں داخل هوئے اور وھابیوںسے بچا هوا تمام سامان غارت كردیا، اس طرح شب وروز لوٹ مار هوتی رھی، اور اس وقت جو شخص بھی شھر میں داخل هوتا تھا وہ قتل هوجاتا تھا، اور جب ھم نے وھابی مذھب كے اصول وفروع اور اس كے ایجاد كرنے والے كا حسب ونسب معلوم كیا تو كسی نے نھیں بتایا، كیونكہ اس شھر كے رہنے والے افراد عثمانی بادشاهوں كے تحت تاثیر اور نسبتاً كم عقلی كی وجہ سے ان كے بارے میں نھیں جانتے تھے اور اس كے معلوم كرنے كی ضرورت بھی نھیں سمجھتے تھے۔ 543
سید عبد اللطیف شوشتری نے كتاب ”تحفة المعالم“ میں شھر كربلا پر وھابیوں كے حملے كا ذكر كیا ھے اور وھابیوں كے بعض عقائد كو لكھا ھے جس كو ھم نے باب پنجم میں ذكر كیا ھے، یھاں پر یہ بات قابل ذكر ھے كہ مذكورہ كتاب ”تحفة المعالم“1216ھ كی تالیف ھے یعنی جس سال كربلائے معلی پر وھابیوں كا حملہ هوا ھے اور اس كتاب كا ضمیمہ دوسال بعد بنام ”ذیل التحفة“ كے نام سے لكھا گیا ھے۔
مرحوم میرزائے قمی كا وہ خط جس میں وھابیوں كے بارے میں ان كے كربلا كے حملہ كے ضمن میں ذكر هوا ھے جس كو ھم نے عبد الرزاق دنبلی كی تفصیل كے ساتھ باب پنجم میں بیان كیا ھے۔
اس سلسلہ میں رضا خان ہدایت صاحب یوں رقمطراز ھیں كہ1216ھ كے آخری حصے میں 18 ذی الحجہ عید غدیر صبح كے وقت سعود اور اس كے لشكر نے حضرت امام حسین ں كے روضہٴ مبارك پر حملہ كردیا اور بے خبری كے عالم میں شھر پر قبضہ كرلیا، اس وقت شھر كے بھت سے افراد زیارت امام علی (ع) كے لئے نجف اشرف گئے هوئے تھے اور صرف كمزور او ربوڑھے زاہد و عابد حضرات موجود تھے وہ لوگ روضہ امام حسین ں میں نماز اور عبادت میں مشغول تھے وھابیوں نے تجّار اور حرم میں ساكن افرادكے كئی لاكھ تومان غارت كردلئے اور بھت زیادہ كفر اور الحاد كا مظاھرہ كیا او رتقریباً چھ گھنٹوں میں سات ہزار علماء او رمحققین كو قتل كرڈالا، اور عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں پر وہ ظلم كیا كہ ان كے خون سے سیلاب جاری تھا، حق پرست اور متقی لوگ جو حضرت امام حسین ں كے ساتھ رہكر شھادت كے درجہ پر فائز هونا چاھتے تھے لیكن اس زمانہ میں نھیں تھے انھیں حضرت كی بارگاہ میں جام شھادت مل گیا اور شہدائے كربلا كے ساتھ ملحق هوگئے۔ 544
”میرزا محمد تقی سپھر “رقمطراز ھیں :”عبد العزیز نے جس وقت نجف اشرف كا رخ كیا اور حضرت كے روضہٴ مبارك پر حملہ كرنا چاھا او رنجف اشرف كے گنبد كو گرانا چاھا اور وھاں پر زیارت كرنے والوں كو جنھیں وہ اپنے خیال میں بت پرست جانتا تھا ان سب كو قتل كرنا چاھا تو اس نے سعود كی سرداری میں ایك لشكر تیار كیا اور نجف كی طرف روانہ كیا اس لشكر نے نجف اشرف كا محاصرہ كرلیا، قلعہ پر كئی حملے بھی كئے لیكن كوئی كامیابی حاصل نھیں هوئی، مجبوراً اس نے واپسی كا ارادہ كیا اور وھاں سے كربلا ئے معلی كا رخ كیا بارہ ہزار كے لشكر كے ساتھ طوفان كی طرح كربلائے معلی پر حملہ كردیا وہ دن عید غدیر كا دن تھا۔
شھر میں داخل هونے كے بعد انھوں نے پانچ ہزار لوگوں كا خون بھایا حضرت امام حسین كی ضریح مقدس كو بھی توڑ ڈالا، وھاں موجود قیمتی سامان جومختلف ممالك كے شیعوں كے ذریعہ بطور نذر وھاں آیا تھا سب غارت كردیا بھترین قندیلوں كو توڑ ڈالا سونے كی اینٹوں كو حرم مطھر كے دالان سے نكال لیا حرم مطھر میں ھر ممكن توڑ پھوڑ كی، اور چھ گھنٹے كی اس قتل وغارت كے بعد شھر سے باھر نكل گئے اورنفیس اور قیمتی سامان كو اپنے اونٹوں پر لاد كر درعیہ شھر كی طرف نكل گئے۔ 545
قارئین كرام!جناب سپھر صاحب كی یہ عبارت دوسرے موٴلفوں سے فرق كرتی ھے،اسلئے كہ وھابیوں نے پھلے كربلا ئے معلی پر حملہ كیا اس كے بعد نجف اشرف پر حملہ كیا ھے مگر یہ احتمال دیا جائے كہ ان كی مراد قبیلہ خزاعل كے ذریعہ دفع شدہ حملہ هو جس كی تفصیل انشاء اللہ بعد میں آئے گی۔

وھابیوں كا خط فتح علی شاہ كے نام
میرزا ابو طالب كی تحریر كے مطابق كربلا كا حادثہ سلطان روم (بادشاہ عثمانی) او ربادشاہ عجم (فتح علی شاہ) كے كانوں میں كئی دفعہ پهونچایا گیالیكن ان میں سے كسی نے كبھی كوئی قدم نھیں اٹھایا لہٰذا عبد العزیز كے حوصلے اور بلند هوگئے اور حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی طرح دنیا بھر كے بادشاهوں كو خط لكھنا شروع كیا، یھاں پرھم عبد العزیز كے ذریعہ فتح علی شاہ كو لكھے گئے خط كا ترجمہ پیش كرتے ھیں: ” اعوذباللّٰہ من الشیطان الرجیم بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرحیم، من عبد العزیز امیر المسلمین الی فتح علی شاہ ملك عجم:
حضرت رسول خدا محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے بعد ان كی امت میں بت پرستی رائج هوگئی ھے،كربلا ونجف میں لوگ قبور كی زیارت كے لئے جاتے ھیں جو پتھر اور مٹی سے بنائی گئی ھیں، وھاں جاكرقبروں كے سامنے سجدہ كرتے ھیں ان سے حاجت طلب كرتے ھیں، مجھ حقیر كو یہ معلوم ھے كہ سیدنا علی اور حسین ان كاموں سے بالكل راضی نھیں ھیں،میں نے دین مبین اسلام كی اصلاح كے لئے كمر ھمت باندھ لی ھے اور اللہ كی توفیق سے اب تك نجد، حجاز او رعرب كے دوسرے علاقوں میں اسلام كی اصلاح كردی ھے، لیكن ھماری دعوت كربلا اور نجف كے لوگوں نے تسلیم نہ كی چنانچہ ھم نے دیكھ لیا كہ اب اس كے علاوہ كوئی چارہ باقی نھیں رہ گیا ھے ھم ان سب كو تہہ تیغ كردیں یھی ان كے لئے مناسب بھی تھا،آپ نے سنا بھی هوگا، اسی بناپر اگر آپ بھی اسی طرح كا عقیدہ ركھتے ھیں تو آپ كو توبہ كرنا چاہئے كیونكہ اگر كوئی توبہ نھیں كرتا اور اپنے كفر وشرك پر بضد هوتا ھے تو ھم اسے كربلا كے لوگوں كی طرح سبق سكھادیتے ھیں، والسلام علی من تبع الہدیٰ۔ 546

فتح علی شاہ كے اقدامات
میرزا عبد الرزاق صاحب یوں رقمطراز ھیں كہ اس (كربلا كے) حادثہ كے بعد فتح علی شاہ نے اسماعیل بیك بیات غلام كو (بغداد میںعثمانی بادشاہ كا والی) سلیمان پاشا كے پاس تفصیل لكھ كر بھیجا،كہ اگر دولت عثمانی كو كوئی اعتراض نہ هو تو ایران كا لشكر آپ كی مدد ونصرت كے لئے آسكتا ھے تاكہ فتنہ وھابیت كو خاموش كردیا جائے كیونكہ ابھی ان كی ساكھ نھیں جمی ھے لہٰذا كوئی خاص قدم اٹھایا جائے، اس خط كے جواب میں سلیمان پاشا نے عرض كیا كہ عثمانیہ حكومت كے حكم كے مطابق یہ طے هوچكا ھے كہ ایسے اسباب اور وسائل فراھم كئے جائیں كہ اس بدنھاد فرقہ كا نام ونشان تك مٹادیا جائے، آپ كی محبت كا شكریہ، ایران كے لشكر كی كوئی ضرورت نھیں ھے، اور روضوں كی تعمیر اور تلف شدہ مال كو عوض كرنا ھماری حكومت كی ذمہ داری ھے، اتفاقاً اسی دوران سلیمان پاشا صاحب اس دنیا سے چل بسے۔ 547
كتاب منتظم ناصری میں اس طرح تحریر ھے :
”جس وقت كربلائے معلی میں مومنین كے قتل عام كی خبر فتح علی شاہ ایران (جن كی بادشاھت كو ابھی چند ھی سال گذرے تھے) كو پهونچائی گئی،548 تو اس نے خبر كو سننے كے بعد اسماعیل بیك بیات كو بغداد كے والی سلیمان پاشا كے پاس بھیجا اور اس سے كھا كہ وھابیوں كے شركو ختم كرڈالو، سلیمان پاشا نے قبول كرلیا لیكن سیلمان بك اتفاق سے كچھ ھی دنوں كے بعد اس دنیا سے كوچ كرگئے۔ 549
رضا قلی خان مذكورہ موضوع كو تفصیلی طور پر اس طرح نقل كرتے ھیں:
”جس وقت فتح علی شاہ اس خبر سے آگاہ هوئے، تو انھوں نے سب سے پھلے اسماعیل بیك بیات كو سلیمان پاشا كے پاس بھیجا اس كے بعداس نے حاج حیدر علی خان، حاج ابراھیم خان شیرازی كے بھتیجے جو عباس میرزا كے نائب الوزراء تھے ان كو مصر كا سفیر بناكر بھیجا اور ایك محبت بھرا خط جس كے ساتھ ایك خراسانی تلوار ”گوھر نشان“ محمد علی پاشا كے پاس بھیجی جو اس وقت مصر كے حاكم تھے اور اس سے درخواست كی كہ وھابیوں كے فتنہ كو دفع كرنے میں ھر ممكن كوشش كریں اور اگر ضرورت هو تو وھابیوں كا قلع قمع كرنے كے لئے ایران كا لشكر دریا اور خشكی كے راستہ سے نجد كی طرف بھیج دیاجائے۔
جس وقت ایران كا سفیر مصر پهونچا او رمحمد علی پاشا حقیقت ِ حال سے آگاہ هوا تو اپنے ربیب (بیوی كے ساتھ دوسرے شوھر كا بچہ) ابراھیم پاشا كو وھابیوں كے شر كو ختم كرنے كے لئے معین كیا تاكہ درعیہ شھر كو نیست ونابود كردے اور عبد اللہ بن مسعود كو گرفتار كركے زنجیر میں باندھ كر اسلامبول (عثمانی بادشاهوں كا پائے تخت) روانہ كرے، لیكن عثمانی بادشاہ كے حكم سے قتل هوگیا اور ایران كا سفیر اپنی جان بچاكر شام (سوریہ) كے راستہ سے تبریز (ایران كا شھر) میں وارد هوا اور عباس میرزا نائب السلطنہ كی خدمت میں پہنچا۔ 550
ھمیں فتح علی شاہ كے اقدامات كا ذكرغیر ایرانیوں كی تحریروں میں نھیں ملا، اور ”سیاق تاریخ“ میں وضاحت كی جائے گی كہ محمد علی پاشا كا وھابیوں سے برسر پیكار هونا عثمانی بادشاہ كے حكم سے تھا لیكن پھر بھی یہ بات كھی جاسكتی ھے كہ اس سلسلہ میں فتح علی شاہ كے اقدامات بھی بے تاثیر نھیں تھے۔

حادثہ كربلا كے بعد عبد العزیز كا قتل
ماہ رجب المرجب1218ھ میں عبد العزیز امیر سعود كا باپ مسجد درعیہ میں نماز كے وقت قتل كردیا گیا اس كا قاتل عثمان نامی شخص ”عماریہ موصل“ علاقہ كا رہنے والا تھا اور اسے سعود بن عبد العزیز كو قتل كرنے كے لئے قربة الی اللہ بھیجا گیا تھا (سعود نے1216ھ میں كربلا شھر پر حملہ كركے قتل وغارت كیا تھا) لیكن چونكہ سعود كو قتل كرنا مشكل هورھا تھا، لہٰذا اس نے اس كے باپ عبد العزیز كا خاتمہ كر ڈالا، عثمان ایك فقیر كے بھیس میں شھر درعیہ میں داخل هوا اور اس نے اپنے كو ایك مھاجربتلایا اور بھت زیادہ عبادت اور زہد وتقویٰ كا اظھار كیا اور خود كو عبد العزیز كا مطیع اور فرمانبردار بتلایا،لہٰذا عبد العزیز بھی اس كو بھت چاہنے لگا اور اس كو بھت سا مال ودولت عطا كرنے لگا، لیكن عثمان كا مقصد تو صرف اس كو قتل كرنا تھا۔
نماز عصر كی ادائیگی كے وقت جب عبد العزیز سجدہ میں گیا تو قاتل تیسری صف میں كھڑا تھا اور اپنے ساتھ خنجر چھپائے هوئے تھا عبد العزیز كی طرف بڑھا اور اس كے پیٹ كو چاك كرڈالا، مسجد میں ھل چل مچ گئی بھت سے لوگ بھاگ نكلے اور بھت سے لوگ قاتل كے پكڑنے كے لئے اس كے پیچھے دوڑے، اس وقت عبد اللہ بن محمد بن سعود، یعنی عبد العزیز كے بھائی نے قاتل كو مار ڈالا اور عبد العزیز كو اپنے محل میں لے گیا لیكن كچھ ھی دیر كے بعد عبد العزیز اس دنیا سے چل بسا۔ 551
ابن بشر صاحب عبد العزیز كے قتل كے واقعہ كے ذیل میں كھتے ھیں كہ عبد العزیز كا قاتل ایك قول كے مطابق كربلا كا رہنے والا شیعہ مذھب تھا، كیونكہ سعود نے جب كربلا پر حملہ كركے وھاں پر قتل وغارت كیا تو وہ شخص اپنے شھر میں هوئے قتل وغارت كا بدلے لینے كے لئے وھاں پہنچا وہ سعود كو قتل كرنا چاھتا تھا لیكن جب وہ سعود كو قتل نہ كرسكا، تو اس نے سوچا كہ سعود كو قتل كرنا تو مشكل ھے لہٰذا اس كے باپ عبد العزیز ھی كو كیوں نہ قتل كردیا جائے، اس كے بعد ابن بشر صاحب كھتے ھیں كہ یھی قول حقیقت سے نزدیك ھے۔ 552 دائرة المعارف اسلامی میں بھی اس طرح تحریر ھے كہ عبد العزیز كا قاتل شیعہ مذھب اور عماریہ كا رہنے والا تھا۔ 553
عبد العزیز كے قتل كے بعد اس كا بیٹا اور جانشین جس وقت مسجد میں نماز كے لئے جاتا تھا تو اپنے ساتھ چند افراد كو اپنی حفاظت كے لئے ركھتا تھا اور جب وہ نماز كے لئے كھڑا هوتا تھا تو یہ لوگ اس كے پیچھے كھڑے هوتے تھے تاكہ اس پر كوئی حملہ نہ كرسكے۔ 554

نجف اشرف پر وھابیوں كا حملہ
سعود بن عبد العزیز نے كئی مرتبہ نجف اشرف پر حملہ كا پروگرام بناكر حملہ كیا اورھر حملہ میںجو لوگ اس كو شھر كے باھر مل جاتے تھے ان كو قتل كردیتا تھا لیكن شھر میں داخل نھیں هوسكا۔
اس كے نجف اشرف پر جلدی جلدی حملہ كرنے كی وجہ یہ تھی كہ اس نے نجف اشرف كے قریب ”رحبہ“ نامی جگہ كو اپنی چھاونی بنالیا تھا۔
اور جس وقت سعود رحبہ سے نجف اشرف پر حملہ كرنا چاھتا تھا تو نجف اشرف كے افراد آگاہ هوجاتے تھے اور شھر كے دروازوں كو بند كردیتے تھے اور سعود شھر كی چھار دیواری كے باھر چلتا تھا اور اگر كوئی وھاں اس كو مل جاتا تھا تو اس كو قتل كردیتا تھا اور اس كے سر كو دیوار كے اس طرف پھینك دیتا تھا۔
اور كبھی كبھی اس كے افراد جن كی تعداد دس یا اس سے زیادہ هوتی تھی نجف كے لوگوں كوغافل كركے شھر میں داخل هوجاتے تھے اور شھر میں قتل وغارت كردیا كرتے تھے۔ 555
وھابیوں كا قبیلہ خزاعل سے ٹكراؤجس كی بناپر وھابی، شھر نجف كی نسبت بھڑك اٹھے
1214ھ میں نجد سے ایك وھابی گروہ جس میں كچھ سوار بھی تھے بغداد پہنچا، اس كاروان كے پاس جو كچھ تھا اس كو بیچ ڈالا اور جوكچھ خریدنا تھا خرید لیا، اور اپنے وطن كو واپس جانے لگے، انھیں كے ساتھ بعض عراقی بھی حج كی ادائیگی كے لئے روانہ هوگئے اور جس وقت وہ نجف پهونچے۔ 556 وھاں پر قبیلہ خزاعل كے كچھ شیعہ مذھب لوگ موجود تھے، چنانچہ جب انھوں نے قبیلہ خزاعل كے رئیس كو حرم مطھر حضرت علی ں كا بوسہ لیتے دیكھا تو اس پر حملہ كرنے لگے، یھاں تك كہ اس كا خون زمین پر گرنے لگا، اس وجہ سے قبیلہ خزاعل اور وھابیوں كے درمیان جھگڑا هوگیا اور یہ جھگڑا تقریباً تین گھنٹے تك جاری رھا، اور دونوں طرف سے تقریباًسو سو افراد مارے گئے۔
عراقی حجاج كا سامان او روھابیوں كے اونٹ اور گھوڑے غارت هوگئے اور وھابیوں میں سے جو شخص بھی باقی بچا وہ نجد كی طرف بھاگا اور عراقی حجاج بھی بغداد واپس هوگئے۔
اس واقعہ كے بعد وھابیوں اور نجف اشرف كے لوگوں میں بغض وحسد كی ایك لھر سی دوڑ گئی۔ 557

پھلا واقعہ
1216ھ میں جب وھابیوں نے كربلا ئے معلی پر حملہ كیا اور اس كو ویران كردیا اس كے بعد نجف اشرف كا رخ كیا۔
اس واقعہ كو ”براقی“ اس كے چشم دید گواہ شخص سے اس طرح نقل كرتے ھیں :
” سعود نجف اشرف آیا اور اس كا محاصرہ كرلیا دونوں طرف سے گولیاں چلنے لگی، نجف كے پانچ افراد قتل هوگئے جن میں سے ایك میرے چچا سید علی حسنی معروف بہ” ببراقی“ تھے۔
چونكہ اھل نجف وھابیوں كے كرتوت سے جو انھوں نے كربلا اور مكہ ومدینہ میں انجام دئے واقف تھے لہٰذا بھت پریشان او رمضطرب تھے عورتیں گھروں سے باھر نكل آئیں، اور جوانوںاور بزرگوں كو غیرت دلانے كے لئے بھت سے جملے كہنے لگیں، تاكہ وہ اپنے شھر اور ناموس سے دفاع كریں اور ان كی غیرت جوش میں آئے۔
تمام لوگ گریہ وزاری میں مشغول، خدا كی پناہ مانگ رھے تھے، اور حضرت علی ں سے مدد طلب كررھے تھے، اس وقت خدا نے ان كی مدد كی اور دشمن وھاں سے بھاگ نكلے اور تمام لوگ اپنے اپنے گھروں كوچلے گئے۔ 558

نجف اشرف كے علماء اور طلاب كے دفاع كا دوسرا واقعہ
نجف اشرف كے لوگوں كو یہ احساس هوگیا تھا كہ وھابی لوگ پیچھا چھوڑنے والے نھیں ھیں، اور آخر كار نجف پر بھی حملہ كریں گے، اس بناپر انھوں نے سب سے پھلا كام یہ كیا كہ حرم حضرت امیر المومنین ں كے خزانہ كو بغداد منتقل كردیا، تاكہ حرم نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے خزانہ كی طرح غارت نہ هو،559 اور اس كے بعد اپنی جان او راپنے شھر سے دفاع كے لئے تیار هوگئے۔
شھر نجف سے دفاع كرنے والوں كے سردار، شیعہ بزرگ عالم دین علامہ شیخ جعفر كاشف الغطاءۺ تھے جن كے ساتھ دیگر علماء بھی تھے، مرحوم كاشف الغطاء نے اسلحہ جمع كرنا شروع كیا، اور دفاع كے سلسلہ میں جس چیز كی بھی ضرورت سمجھی اس كو جمع كرلیا۔
اس تیاری كے چند دن بعد وھابیوں كا لشكر شھر سے باھر آكر اس امید میں جمع هوگیا كہ كل صبح هوتے ھی شھر پر حملہ كردیں گے اور قتل وغارت كریں گے، لہٰذا ساری رات شھر كی دیوار كے باھر گذار دی۔ كاشف الغطاءۺ كے حكم سے شھر كے دروازوں كو بند كردیا گیا او ران كے پیچھے بڑے بڑے پتھر ركھ دئے گئے، اس زمانہ میں شھر كے دروازے چھوٹے هوتے تھے، مرحوم شیخ كاشف الغطاء نے شھر كے ھر دروازے پر كچھ جنگجو جوانوں كو معین كیا اور باقی جنگجو افراد شھر كی دیوار كی حفاظت میں مشغول هوگئے۔ اس وقت نجف اشرف كی دیوار كمزور تھی اور ھر چالیس پچاس گز كے فاصلہ پر ایك برج تھا كاشف الغطاء نے ھر برج میں دینی طلباء كو بھر پور اسلحہ كے ساتھ تعینات كردیا ۔
شھر كے دفاع كرنے والوں كی تمام تعداد 200 سے زیادہ نھیں تھی، كیونكہ وھابیوں كے حملہ سے ڈر كر بھت سے لوگ بھاگ نكلے تھے اور عراق كے دوسرے علاقوں میں پناہ لینے چلے گئے تھے، صرف علماء میں مشهور حضرات باقی بچے تھے مثلاً شیخ حسین نجف اور شیخ خضر شلال، سید جواد صاحب مفتاح الكرامہ، شیخ مہدی ملا كتاب اور دوسرے بعض منتخب علماء حضرات، جو سب كے سب كاشف الغطاء كی مدد كررھے تھے، اور یہ سب لوگ مرنے اور مارنے پر تیار تھے، كیونكہ دشمنوں كی تعداد بھت زیادہ اور خود ان كی تعداد بھت كم تھی، لیكن تعجب كی بات یہ ھے كہ وہ دشمن جس نے یہ طے كرلیا تھا كہ صبح هوتے ھی حملہ كردیا جائے گا، ابھی صبح بھی نہ هونے پائی تھی كہ وہ سب پراكندہ هوگئے۔
صاحب كتاب ”صدف“ (ص 112) جو خود اس واقعہ كے چشم دید گواہ ھیں وھابیوں كے لشكر كی تعداد 15000ذكر كرتے ھیں جن میں سے 700لوگ قتل كردئے گئے۔
ابن بشر، نجدی مورخ نے نجف اشرف پر وھابیوں كے حملہ كے بارے میں كھا ھے كہ1220ھ میں سعود نے اپنے عظیم لشكر كے ساتھ مشہد معروف عراق (مقصود نجف اشرف ھے) كا رخ كیا اور وھاں پهونچ كر اپنے سپاھیوں كو شھر كے چاروں طرف پھیلا دیا، اور شھر كی دیوار كو گرانے كا حكم دیدیا، جب اس كے سپاھی شھر كی دیوار كے نزدیك هو ئے تو انھوں نے دیكھا كہ ایك بھت بڑی خندق ھے جس سے نكلنا مشكل ھے، لیكن دونوں طرف سے گولیوں اور تیروں كی وجہ سے وھابی لشكر(ابن بشر كے قول كے مطابق مسلمانوں كے لشكر) كے بھت سے لوگ مارے گئے، یہ دیكھ كر وہ لوگ شھر سے پیچھے ہٹ گئے اور دوسرے علاقوں میں قتل وغارت كرنے كے لئے روانہ هوگئے۔ 560
خلاصہ یہ كہ نجف اشرف كے اوپر وھابیوں كے حملوں كا سلسلہ جاری رھا لیكن انھیں كوئی كامیابی نھیں مل پا تی تووہ مجبور هوكر لوٹ جاتے تھے، اھل نجف وھابیوںكے شر سے رھائی كے لئے خدا كی پناہ مانگتے تھے او رحضرت علی ں سے متوسل هوتے تھے، جس كی بنا پر ان كی ھمیشہ مدد هوتی رھی۔ 561
مرحوم سید محمد جواد عاملی جو خود اس واقعہ كے چشم دید گواہ اور دفاع كرنے والوں میں سے تھے، مفتاح الكرامہ كی پانچویں جلد كے آخر میں یوں رقمطراز ھیں كہ ماہ صفر كی نویں تاریخ كو نماز صبح كے ایك گھنٹہ پھلے وھابیوں نے اچانك ھم پر دھاوا بول دیا یھاں تك كہ ان میں سے بعض لوگ شھر كی دیوار پر بھی چڑھ گئے اور قریب تھا كہ وہ شھر پر قبضہ كرلیتے۔
لیكن حضرت امیر المومنین علی ں سے معجزہ رونما هوا، اور ان كے كرم سے كچھ ایسا هوا كہ دشمن كے بھت سے لوگ مارے گئے اور وہ بھاگنے پر مجبور هوگئے،562 اگرچہ علامہ عاملی نے واقعہ كی تفصیل بیان نھیں كی ھے۔
اسی طرح علامہ موصوف جلد ہفتم كے آخر میں كھتے ھیں كہ اس كتاب كا یہ حصہ ماہ رمضان المبارك كی نویں تاریخ1225ھ كی تاریخ آدھی رات میں تمام هوا جبكہ ھمارا دل مضطرب اور پریشان ھے كیونكہ ”عُنَیْزَہ“ كے وھابیوں نے نجف اشرف اور كربلائے معلی كو گھیر ركھا تھا۔ 563

”رَحبہ“ كے بارے میں ایك وضاحت
نجف اشرف پر حملہ كر نے كے لئے وھابیوں نے ”رَحبہ“ كو اپنی چھاؤنی بنا لیا تھا،رحبہ نجف اشرف كے نزدیك ایك سر سبز وشاداب علاقہ ھے ،یہ علاقہ ایك ثروتمند اور مالدار شخص سید محمود رَحباوی سے متعلق تھا، جب بھی وھابی لوگ نجف اشرف پر حملہ كرنا چاھتے تھے تو سب سے پھلے مقام رحبہ میں جمع هوتے تھے، اور سید محمود ان كا بھت احترام كرتا تھا، نیز ان كی خاطر ومدارات كرتا تھا، اسی وجہ سے كھا جاتا ھے كہ اسی شخص نے نجف اشرف پر حملہ كرنے كی راہنمائی بھی كی تھی۔
مرحوم كاشف الغطاء جو دفاع كرنے والوں كے سرپرستوں میں سے تھے، ان كو جب اس بات كا علم هوا تو انھوں نے سید محمود كو پیغام بھجوایا :
جب تم یہ احساس كرو كہ وھابی لشكر نجف اشرف پر حملہ كرنا چاھتے ھیں تو ھمیں ضرور آگاہ كردینا، تاكہ ھم غفلت میں نہ رھیں، بلكہ دفاع كے لئے تیار رھیں۔ سید محمود نے جواب دیا كہ میں ایك ثروت مند آدمی هوں اور بھت سی پراپرٹی ركھتا هوں میں وھابیوں كے منھ میں ایك لقمہ كی طرح هوں لہٰذا میں ڈرتا هوں، كاشف الغطاء نے اس كا یہ جواب دیكھ كر مجبوراً نجف كے كچھ جوانوں كو اسلحہ كے ساتھ معین كیا اور ان كی تنخواہ بھی مقرر كی، تاكہ یہ جوان اس طرف سے شھر پر هونے والے حملہ كا خیال ركھیں۔ 564
اس كے بعد سے ایك طولانی مدت تك خصوصاً عراق پر ملك فیصل كے انتخاب كے بعد سے (یعنی پھلی عالمی جنگ كے بعد) عراق پر نجدیوں كے حملے هوتے رھتے تھے، جس میں كافی قتل وغارت هو تی رھتی تھی لیكن یہ حملے تقریباً سیاسی جھت ركھتے تھے ان حملوں كا مذھب سے كوئی تعلقنھیں تھا،منجملہ ان كے 12رجب المرجب كی شب كو نجد كے ”جمعیة الاخوان“ نامی گروہ نے عراقی قبیلہ ”منتفق“ پر حملہ كیاجس میں بھت نقصانات هوئے جن كی فھرست حكومت عراق كی طرف سےمعاینہ كمیٹی نے اس طرح بیان كی ھے كہ اس حملہ میں694لوگ مارےگئے،130گھوڑے،2530اونٹ،3811 گدھے، 34010 گوسفنداور 781 گھر غارت هوئے، جس گروہ نے یہ حملہ كیا وہ ”دویش“ (اخوان كے روٴسا) كے پیروكار تھے۔
اھل عراق وھابیوں كے حملوں سے تنگ آچكے تھے، لہٰذا انھوں نے مجبور هوكر حكومت سے یہ مطالبہ كیا كہ اس طرح كے حملوں كی روك تھام كے لئے كوئی ٹھوس قدم اٹھائے، اس حالت كو دیكھ كر بھت سے وزیروں نے استعفاء دیدیا، اس كے بعد انگلینڈ كی حكومت نے ”سر پرسی كاكْس“ كو بھیج كر عراق اور ابن سعود كی حكومت كے درمیان صلح كرادی۔

كربلا میں ایك عظیم انجمن كی تشكیل
حكومت عراق اور انگلینڈ كی تدبیروں سے عراقی عوام مطمئن نہ هوسكی، اور وھابیوں كے دوبارہ حملہ كوروكنے كے لئے صحیح اور مطمئن راستہ كا انتخاب كرنا چاھا، چنانچہ سب لوگوں نے علماء كی طرف رجوع كیا۔
نجف اشرف كے علماء نے مشهور ومعروف مجتہد حاج شیخ مہدی خالصیۺ جن كا حكومت عراق میں اچھاخاصا رسوخ تھاان كو ٹیلیگرام كے ذریعہ ان سے درخواست كی كہ عراق كے تمام قبیلوں كے سرداروں كو 12شعبان (1240ھ)كو كربلائے معلی میں جمع كریں۔
مرحوم خالصیۺ صاحب نے اس درخواست پر عمل كرتے هوئے مختلف قبیلوں كے سرداروں كو تقریباً 150 ٹیلیگرام بھیجے جن میں انھیں كربلا میں مذكورہ تاریخ پر آنے كی دعوت دی گئی تھی اور خود بھی نھم شعبان كو كاظمین سے كربلا كے لئے روانہ هوگئے۔
اور اس طرح كربلا میں ایك عظیم كانفرس هوئی جس كی عراقی تاریخ میں نظیر نھیں ملتی، اس كانفرس میں مختلف قبیلوں كے لوگوں نے شركت كی، شركت كرنے والوں كی تعداد دو لاكھ (اور ایك قول كے مطابق تین لاكھ) كے نزدیك اندازہ لگایا جاتا تھا، یہ عظیم كانفرس در حقیقت عراق میں انگلینڈ سے قطع رابطہ كے لئے تھی۔
اس كانفرس كے متعدد جلسات دوسرے مقامات پر بھی هوئے، اور اس كا آخری جلسہ حضرت امام حسین ںكے صحن مطھر میں هوا، جس میں دو نسخوں میں قطعنامہ لكھا گیا اور دستخط كئے گئے تاكہ ایك نسخہ ملك فیصل كو دیا جائے اور ایك علماء كے پاس رھے۔
مذكورہ قطعنامہ كا خلاصہ اس طرح ھے كہ دستخط كرنے والے خود اپنی اور اپنے ان موكلین كی طرف سے جو ”جمعیة الاخوان“ والے مسئلے میں جو 12 سے پندرہ شعبان1240ھ تك جاری رھے،جمع هوئے۔
جمعیة الاخوان نے ھمارے مسلمان بھائیوں كا قتل عام اور مال واسباب كو غارت كیا اسی وجہ سے ھم لوگوں نے قاطعانہ طور پر یہ طے كرلیا ھے كہ روضات مقدسات كے تحفظ كے لئے ھر ممكن كوشش كری اورجمعیة الاخوان كے حملوں كو ناكام كرنے كے لئے ھر ممكن طریقے اپنائیں اور جمعیة الاخوان كے حملوں سے متاثر هوئے افراد كی ھر ممكن مدد كریں اور ان تمام چیزوں كا فیصلہ سب سے پھلے اعلیٰ حضرت ملك فیصل سے تعلق ركھتاھے لہٰذا ھم جنابعالی سے درخواست كرتے ھیں كہ اخوان كے قتل وغارت كے پیش نظر اس ملت كی ھر ممكن مدد كریں۔
ملك فیصل نے مذكورہ قطعنامہ كا نرم اور محبت آمیز جواب دیا، لیكن پھر بھی عراق كے حالات میں كوئی تبدیلی واقع نھیں هوئی، او رآخر كار مرحوم خالصی كو عراق سے مكہ اور وھاں سے ایران كے لئے جلا وطن كردیا گیا موصوف1243ھ میں مشہد مقدس میں اس دنیا سے چل بسے اور ان كو امام رضا ں كے جوار میں دفن كردیا گیا۔
مرحوم خالصیۺ كی جلا وطنی كے بعد نجف او ركربلا كے تقریباً تیس بزرگ عالموں كو (جو ایرانی الاصل تھے) ایران میں بھیج دیا گیا اور اس طرف سے نجدیوں كے عراق پر حملے بھی نھیں ركے، جیسا كہ نجدیوں نے كانون اول1924 565 میں عراق كے سرحدی علاقوں كے بعض قبیلوں پر حملہ كیا اور تقریباً 16 لوگوں كو قتل كیا اور بھت سے چوپایوں كو اٹھا لے گئے، اور اس حملہ كے چار دن كے بعد دوبارہ حملہ كیا اور بعض لوگوں كو قتل كیا اور تقریباً 150خیموں كو غارت كردیا۔ 566

مذكورہ مطلب كے بارے میں چند توضیحات
1۔ مرحوم علامہ شیخ آقا بزرگ تھرانی نے حضرت آیت اللہ حاج میرزا حسین نائینی كے حالات زندگی میں اس طرح بیان كیا ھے :
” جب عراق پر انگریزوں كا قبضہ هوا 547 اس وقت ملك فیصل بادشاہ تھے،اور یہ طے پایا كہ مجلس شورائے ملی (پارلیمنٹ) تشكیل دیا جائے اور وزیروں كا انتخاب كیا جائے، تو اس وقت آیت اللہ نائینی، آیت اللہ آقا سید ابو الحسن اصفھانی، آقای شیخ مہدی خالصی اور سید محمد فیروز آبادی نے انتخابات كے طریقہٴ كار پر اعتراضات كئے، چنانچہ انھیں اعتراضات كی بدولت شیخ مہدی خالصی كو ایران جلا وطن كردیا گیا،568 یہ دیكھ كر شیعہ حضرات میں جوش وولولہ بھڑك اٹھا، نجف اور كربلا كے علماء نے انجمن سے گفتگو كی جس كے بعد یہ طے هوا كہ ھم لوگ بھی اعتراض كے طور پر عراق سے چلے جائیں،چنانچہ مرحوم نائینی او رمرحوم اصفھانی نے ایران مھاجرت كی اور قم میں سكونت اختیار كرلی، اس وقت اس شھر (قم) كے رھبر آیت اللہ آقائے شیخ عبد الكریم یزدی حائری تھے، چنانچہ موصوف نے ان لوگوں كا بھت اكرام واحترام كیااور اپنے شاگردوںسے عرض كیا كہ ان لوگوں كے درس میں شركت كریں،عراق كے حالات صحیح هوگئے تویہ دونوں عالم دین نجف واپس چلے گئے۔ 569
2۔ پھلی عالمی جنگ كے بعد عراق پر انگریزوں كا قبضہ هوگیا اور جب انھوں نے اپنی طرف سے عراق كا حاكم معین كرنا چاھا تو اس وقت عراق كے لوگوں نے اس سلسلہ میں قیام كیا منجملہ یہ كہ ماہ ربیع الثانی 1337ھ میں حضرت آیت اللہ میرزا محمد تقی شیرازی سے ایك فتویٰ لیا جس كی تحریر اس طرح ھے:
”ما یقول شیخنا وملاذنا حضرة حجة الاسلام والمسلمین آیت اللّٰہ فی العالمین الشیخ میرزا محمد تقی الحائری الشیرازی متع اللّٰہ المسلمین بطول بقائہ، فی تكلیفنا معاشر المسلمین بعد ان منحتنا الدولة المفخّمة البرطانیة العظمیٰحق انتخاب امیر لنا نستظّل بظلّہ ونعیش تحت رایتہ ولوائہ، فھل یجوز لنا انتخاب غیرالمسلم للامارة والسلطنة علیناام یجب علینااختیار المسلم؟ بینّوا تُوجروا۔ “

فتویٰ كا ترجمہ :
”ھمارے بزرگ اور ھماری پناہ گاہ حضرت حجة الاسلام والمسلمین حضرت آیت اللہ فی العالمین شیخ میرزا محمد تقی حائری شیرازی ،خداوندعالم مسلمانوں كو آپ كی طول عمر سے مستفید كرے، درج ذیل مسئلہ میںجنابعالی كی كیا رائے ھے، برٹین كی بزرگ حكومت ھمارے لئے حاكم معین كرنا چاھتی ھے تاكہ ھم اس كے زیر سایہ زندگی كریں، كیا ھمارے لئے اس غیر مسلم كو اپنی حكومت كے لئے منتخب كرنا جائز ھے كہ وہ ھم پر حكومت كرے یا ھم پر كسی مسلمان كا انتخاب كرنا ضروری ھے؟ حضرت عالی سے درخواست ھے كہ آپ اس سلسلہ میں اپنا فتویٰ صادرفرمائیں، خداوندعالم آپ كو اس كا اجرو ثواب عنایت فرمائے۔
علامہ حائری شیرازی نے اس استفتاء كے ذیل میں یہ عبارت لكھی:
”لیس لاحد من المسلمین ان ینتخب ویختار غیر المسلم للامارة والسلطنة علی المسلمین“(محمد تقی الحائری الشیرازی)
”كسی مسلمان كا اپنے لئے كسی غیر مسلم حاكم كا انتخاب كرنا جائز نھیں ھے“۔570
3۔ اسی طرح كربلا ئے معلی میں بھی مجتہدین كرام نے فتوے صادر كئے ”جو شخص بھی غیر مسلم كی حكومت سے رغبت ركھتا هو وہ دین سے خارج ھے“ یہ تمام فتوے اس بات كی علامت تھے كہ لوگوں كے اندر وطن كے سلسلہ میں جوش وولولہ پیدا هو، اور عراق پر انگریزوں كی حكومت كے بر خلاف كوئی ٹھوس قدم اٹھایا جاسكے۔ 571
اس وقت بھی جمعیة الاخوان كے وھابی گروہ كی طرف سے عراق پر حملے هوتے رھتے تھے جس كی بناپر لوگوں میں خوف ووحشت پیدا هوا، اسی لئے نجف اشرف میں بھی اجتماعاتهوئے، جس میں یہ طے هوا كہ علامہ اكبر آقا شیخ مہدی خالصی مقیم كاظمین سے درخواست كی جائے كہ كربلا میں ایك انجمن بنائی جائے اور عراق كے مختلف قبیلوں كی اھم شخصیات كو نیسان572 كی پھلی تاریخ1922 كربلائے معلی میں بلایا جائے۔
مرحوم خالصی نے اس درخواست كو قبول كر لیا، ظاھری طور پراجتماع كامقصد یہ تھاكہ وھابیوں كے حملہ سے متعلق كچھ تدبیریں سوچی جائیں،573 لیكن یہ تمام جلسات اس انجمن كے تشكیل پانے كا مقدمہ بنے جو حضرت امام حسین ں كے روضہ میں بنائی گئی، مذكورہ جلسہ میں تقریباً دو لاكھ كا مجمع تھا574 جس كی تفصیل پھلے گذر چكی ھے۔
4۔ سرطان 575 كی 13ویں تاریخ1302ھ (مطابق20 ذیقعدہ1341ھ) كو علمائے نجف اور كربلا كی طرف سے تھران ٹیلیگرام بھیجے گئے كہ انگریزوں كے اصرار كی وجہ سے نجف اور كربلا كے تقریباً تیس علمائے كرام كو جلا وطن كردیا گیاھے اور ان كو ایران بھیجا جارھا ھے، شاید ان علمائے كرام كے جلا وطن هونے كی وجہ یہ ھے كہ ان لوگوں نے انگریزوں كے خلاف انتخابات كے سلسلہ میں فتوے صادر كئے ھیں، اور عراق اور انگلینڈ كی حكومت كے خلاف اقدامات كئے ھیں۔
چنانچہ سرطان كی 15 تاریخ 1302 (22 ذی قعدہ1341ھ) كو یہ تمام علماء كرمانشاہ (ایران) میں وارد هوئے اور ان كا بھت احترام واكرام كیا گیا، اور اس وقت كی حكومت سے اجازت ملنے كے بعد (21 ذی الحجہ1341ھ) كو كرمانشاہ سے ھمدان شھر كی طرف روانہ هوگئے، اور ھمدان میں بھت كم ركنے كے بعدشھر قم میں وارد هوئے اور وھاںپر ان تمام علماء كرام نے قیام كیا۔
مرحوم خالصی جو حجاز بھیج دئے گئے تھے، ایران كی حكومت كی سفارش اور انگلینڈ كی حكومت كیسمجھوتے سے یہ بات طے پائی كہ ان كے بارے میں كوئی قطعی فیصلہ هونے پر ان كو حجاز سے ایران كی طرف روانہ كیا جائے۔ 576

سعود بن عبد العزیز
كھا یہ جاتا ھے كہ عبد العزیز 1218ھ میں قتل هوا، اور اس كے بعد اس كا بیٹا سعود اس كا جانشین قرار پایا،سعود كو سعودی عرب كے طاقتور بادشاهوں میں شمار كیا جاتا ھے، كیونكہ اس نے اپنے زمانہ اور اپنے باپ كے زمانہ میں سعودی حكومت كی توسیع كے لئے بھت زیادہ سعی وكوشش كی تھی، سعود ھمیشہ سے اپنے قرب وجوار كے علاقوں پر حملہ كرتا رھتا تھا اس كا جزیرة العرب اور دوسرے علاقوں میں اچھاخاصا رسوخ تھا جس كی بنا پر وہ تمام علاقوں پر حملہ ور هوتا رھتا تھا، شاید اسی وجہ سے سعودی موٴلفین نے اس كو ”كبیر“ كا لقب دیا ھے۔ 577
سعود كے زمانہ میں وھابی مذھب حجاز كے علاقہ میں بھی پھیل گیا، اور اس كی وجہ شریف غالب ھے جو ھمیشہ یہ چاھتا تھا كہ حجاز كے علاقہ پر پھلے كی طرح اپنا نفوذ باقی ركھے، اور اسی چیز كے پیش نظر شریف غالب وھابیوں كے مقابلے میں تسلیم هوگیا جس كی بنا پر حجاز میں مذھب وھابی پھیلتا چلا گیا۔ 578
صاحب تاریخ مكہ كھتے ھیں كہ1220ھ میں شریف غالب نے یہ قبول كرلیا كہ اس كی حكومت نجدیوں (آل سعود) كے تابع رھے، اور اس نے ایسے كام انجام دئے جو وھابیوں كے لحاظ سے صحیح تھے، مثلاً تمباكو نوشی كو ممنوع قرار دیا اور یہ حكم بھی صادر كردیا كہ تمام لوگ نماز پڑھنے كے لئے مسجد میں نماز جماعت میں شریك هوں، اور موٴذن حضرات فقط اذان كھیں اور اذان كے بعد (پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر) سلام بھیجنے، اور اذان كے ضمن میں نصیحت اور طلب رحمت سے پرھیز كریں،1221 ھ میں سعود كے حكم سے یہ اعلان كرادیاگیا كہ كسی بھی حاجی كو اپنی داڑھی كے بال كٹوانے كا حق نھیں ھے۔ 579
ابن بشر صاحب كھتے ھیں كہ جب سعود اپنے ساتویں حج(1225ھ میں) كے لئے آئے تو اس وقت میں حاضر تھا میں نے دیكھا كہ سعود حالت احرام میں ایك اونٹ پر سوار ھے، اور ایك بلیغ خطبہ ارشاد هورھا ھے، میں نے دیكھا شریف غالب ایك گھوڑے پر سوار اس كی طرف آئے اور شریف غالب كے ساتھ فقط ایك آدمی تھا، سعود خطبہ دے رھے تھے لیكن جب شریف غالب كو دیكھا تو اونٹ سے نیچے آگئے اور اس كے ساتھ معانقہ كیا اور اس كے بعد مكہ میں وارد هوئے ،اس نے كچھ لوگوں كو بازار میں معین كیا تاكہ نماز كے وقت لوگوں كو نماز كے لئے كھیں، اور ایسے بھت ھی كم لوگ دكھائی دیتے تھے جو نماز میں شركت نہ كرتے هوں، اور اس سفر كے دوران كسی كو تمباكو نوشی، یا دوسرے ممنوعہ كام كرتے هوئے نھیں دیكھا گیا۔ 580

عثمانیوں كی آل سعود سے جنگیں
خاندان آل سعود نے جب سے اپنی حكومت بنائی اسی وقت سے ان كا یہ نظریہ تھا كہ جزیرة العرب كے قرب وجوار كے تمام علاقے ان كی حكومت كے تحت آجائیں، اور ایك وسیع حكومت بن جائے، اور ان سب كو ایك پرچم كے نیچے جمع كرلےں، اور ایك وسیع اور قدرت مند بادشاھت تشكیل دی جائے،اور اسی وجہ سے ”قسطنطنیہ“ كے عثمانی بادشاهوں میں خوف ووحشت پیدا هوگئی جس كی بنا پر انھوں نے آل سعود سے جنگ كرنا شروع كردی، اور اس سلسلہ میں شدت عمل اختیار كیا۔ 581
خاندان سعود اور آل عثمان كے درمیان دشمنی كی دوسری وجوھات بھی تھیں جن كی وجہ سے ان میں دشمنی بڑھتی گئی انھیں میں سے ایك یہ ھے كہ وہ محمل جو ھر سال بھت ھی اھتمام كے ساتھ حرمین شریفین میں بھیجی جاتی تھی اس كو وھابیوں نے روك دیا تھا (محمل كی تفصیل باب ہشتم جمعیة الاخوان كی بحث میں بیان كی جائے گی) اور ان وجوھات میں سے ایك اھم وجہ یہ بھی ھے كہ سعود نے حكم دیا كہ اب تك جو عثمانی بادشاہ كا نام خطبوں میں لیا جاتا تھا اب اس كو ترك كردیا جائے، اور ان سب سے بھی اھم وجہ یہ تھی كہ سعود نے اپنے ایك خط میں جو دمشق كے والی كے نام بھیجااس میں لكھا تھاكہ نہ صرف یہ كہ تمھیں وھابی مذھب قبول كرنا هوگا بلكہ سلطان عثمانی كو بھی یہ مذھب قبول كرنا هوگا۔
ان كے علاوہ وھابی لوگ ان علاقوں كی طرف بھی ھاتھ بڑھاتے رھتے تھے جو عثمانی حكومت كے زیر تحت هوتے تھے، چنانچہ ان تمام وجوھات اور اسی طرح كی دوسرے اسباب كی بناپر عثمانی درباریوں نے حجاز پر حملہ كر نے كی ٹھان لی (تاكہ وھابیوں كو نیست ونابود كردیا جائے) اور اس كام كی ذمہ داری مصر كے والی علی پاشا كو سونپ دی گئی ۔ 582
جب26 12ھ شروع هوا تو امیر سعود كی پیشرفت اور ترقی كو دیكھ كر عثمانی بادشاہ بھت پریشان هوا كیونكہ سعود نے نجد، حجاز، یمن اور عُمّان پر قبضہ كركے ایك وسیع عربی ملك بنالیا تھا۔
عثمانی سلطان نے ماہ ذی قعدہ1226ھ میں ایك عظیم لشكر جنگی ساز وسامان كے ساتھمصر كی طرف روانہ كیا، اس وقت مصر كا والی محمد علی پاشا تھا، عثمانی سلطان نے لشكر كا سردار محمد علی پاشا كو بنایا،583 اور حكم دیا كہ اس لشكر كے علاوہ مصر سے بھی ایك لشكر تیار كرو۔
محمد علی پاشا نے مصر اور مغرب (ممكن ھے مغرب سے مراد مراكش یا الجزائر او رتیونس هو،) سے بھی ایك لشكر تیار كیا اور اپنے بیٹے احمد طوسون كی سرداری میں دریا كے راستہ سے نجد كی طرف روانہ كیا چنانچہ طوسون نے ” ینبع بندرگاہ“ دریائے سرخ كے سواحل میں (مدینہ منورہ سے نزدیك ترین بندرگاہ) پر حملہ كردیا اور اس كو آسانی سے اپنے قبضہ میں لے لیا، اور جس وقت سعود كو یہ معلوم هوا كہ مذكورہ بندرگاہ پر قبضہ هوچكا ھے، تو اپنے تحت تمام علاقے والوں كو چاھے وہ شھری هوں یا بادیہ نشین سب كو حكم دیدیا كہ جلد سے جلد مدینہ كی طرف حركت كریں۔
دیكھتے ھی دیكھتے اٹھارہ ہزار كا لشكر تیار هوگیا اس لشكر كی سرادری اپنے بیٹے امیر عبد اللہ كے سپرد كی، امیر عبد اللہ نے تُرك لشكر سے مقابلہ كیا اور چند حملوں كے بعد ترك لشكر كو شكست دیدی، طوسون نے مذكورہ بندرگاہ ترك كردی۔ 584 ابن بشر صاحب كھتے ھیں كہ اس جنگ میں تركی لشكر كے چار ہزار اور سعودی لشكر كے چھ سو افراد قتل هوئے۔ 585

دوسرا حملہ
1227ھ میں محمد علی پاشا نے پھلے لشكر سے بڑا اور طاقتور لشكر حجاز كے لئے روانہ كیا اور اس لشكر یا شكست خوردہ لشكر كے باقی لوگوں نے مدینہ كو چاروں طرف سے گھیر لیا اور چاروں طرف توپیں لگادیں، اور شھر كی دیوار كے نیچے گڈھے كھودنے شروع كردئے اور وھاں ”بارود“ركھ كر آگ لگادی جس كے نتیجہ میں دیوار گر گئی، اور تركی لشكر نے شھر پر قبضہ كرلیا۔
اس حملہ میں سعودیوں كے چار ہزار لوگ مارے گئے، یہ دیكھ كر مدینہ كے حاكم نے صلح كی مانگ كی، اور كچھ ھی مدت كے بعد مصری لشكر نے مكہ كا بھی رخ كیا، شریف غالب نے جو عہد وپیمان سعود سے كرركھا تھا اس كی پرواہ نہ كرتے هوئے تركی اور مصری لشكر سے سمجھوتہ كرلیا اور اپنے سپاھیوں كو تركی لشكر كے ساتھ مل جانے كا حكم دیدیا، احمد طوسون كسی جنگ كے بغیر شھر مكہ پر قبضہ كے بعد وھاں كے قصر میں داخل هوگیا۔
اس كے دوسرے سال (یعنی 1228ھ) میں خود محمد علی پاشا ایك عظیم لشكر كے ساتھ جن میںمصری حجاج كے كاروان بھی شامل تھے، مكہ میں داخل هوا،شریف غالب اپنے معمول كے مطابق اس كے احترام میں اس كے پاس گیا، اس سے پھلی ملاقات میں تومحمد علی پاشا نے اس كو بڑے احترام سے بٹھایا، لیكن بعد میں هونے والی ملاقاتوں میں سے ایك ملاقات كے دوران اس نے اس كو گرفتار كرنے اور اس كے مال پر قبضہ كرنے كا حكم دیدیا، اور خود شریف غالب كو جلا وطن كركے ”جزیرہٴ سالونیك“ (یونان) میں بھیج دیا، شریف غالب وھیں رھے یھاں تك كہ1231ھ میں طاعون كی بیماری كی وجہ سے انتقال كرگئے۔ 586
وهابیوں كا مسقط پر حمله اور امام مسقط كا فتح علی شاه سے مدد طلب كرنا
1226ھ كے واقعات كی تفصیل كے بارے میں جناب ”سپھر“ صاحب كھتے ھیں كہ اس جماعت (وھابی لوگ) كی قدرت میں روز بروز اضافہ هوتا جارھا تھا، یھاں تك كہ انھوں نے سر زمین بحرین كو بھی اپنے قبضہ میں لے لیا، اور اس كے بعد مسقط میں بھی قتل وغارت كا منصوبہ بنالیا۔
امام مسقط نے فارس كے فرمان گذار شاہزادہ حسین علی میرزا كو اطلاع دی اور یہ درخواست كی كہ صادق خان دولوی قاجار جو عربوں سے جنگ كا تجربہ ركھتے تھے، وہ ایران كی فوج كے ساتھ مسقط آجائیںاور وھاں سے اپنے ساتھ مزید لشكر لے كر ”درعیہ“شھر پر حملہ ور هوجائیں۔
امیر سعود نے ایرانی لشكر سے مقابلہ كرنے كے لئے سیف بن مالك اور محمد بن سیف كی سركردگی میں اپنا ایك عظیم لشكر بھیجا،جنگ شروع هوگئی، اس جنگ میں سیف بن مالك اور محمد بن یوسف كو بھت زیادہ زخم لگے یہ دونوں وھاں سے بھاگ نكلے، اور وھابیوں كے لشكر كے بھت سے لوگ مارے گئے، اور اس جنگ میں امام مسقط كو فتحیابی حاصل هوئی انھوں نے اس كا شكریہ ادا كرتے هوئے شاہزادہ حسین علی كی قابلیت كی داد تحسین دیتے هوئے كچھ ہدایا اور تحائف بھیجے، فتح علی شاہ كواسواقعہ كی خبر 20 ربیع الاول كو پهونچی۔ 587
قارئین كرام! جیسا كہ آپ نے ملاحظہ فرمایا اس واقعہ كی تفصیل ”سپھر“ صاحب نے1226ھ كے واقعات میں نقل كی ھے، لیكن ”جبرتی“ صاحب نے اس واقعہ كو1218ھ كے واقعات میں ذكر كیا ھے وہ لكھتے ھیں:
وھابیوں نے مكہ او رجدّہ كو خالی كردیاكیونكہ ان كو یہ اطلاع مل گئی تھی كہ ایرانیوں نے ان كے ملك پر حملہ كركے بعض علاقوں پر قبضہ كرلیا ھے۔ 588
ممكن ھے كوئی یہ كھے كہ نجد پر ایرانیوں كے كئی بار حملے هوئے ھیں، جیسا كہ آپ حضرات نے ”آقائے سپھر“ كی تحریر میں دیكھا كہ انھوں نے ” صادق خان دولو“ كے بارے میں یہ كھا ھے كہ وہ عربوں سے جنگ كرنے كا تجربہ ركھتے تھے، 589 لہٰذا اس بات كا احتمال دیا جاسكتا ھے كہ جبرتی صاحب نے آقائے سپھر كے ذكر شدہ حملہ كے علاوہ دوسرے حملہ كی طرف اشارہ كیا هو، بھر حال1227ھ میں نجد كی حكومت نے ایران كی حكومت سے صلح كی درخواست كی، اورظاھراً اسی كے بعد سے طرفین كے مابین كوئی اھم حادثہ پیش نھیں آیا۔

سعود كا انتقال
امیر سعود گیارہ جمادی الاول1229ھ میں مثانہ كی بیماری كی وجہ سے مرگیا، معلوم هونا چاہئے كہ سعود نے محمدبن عبد الوھاب سے دو سال درس پڑھا تھا اور علم تفسیر، فقہ اور حدیث میں مھارتحاصل كرلی تھی اور وہ بعض لوگوں كو درس بھی دیتا تھا۔ 590

امیر عبد اللہ بن سعود اور عثمانیوں كے درمیان دوبارہ حملے
سعودكے مرنے كے بعد اس كے بیٹے عبد اللہ كی بیعت كے لئے عرب كے تمام علاقوں سے لوگ آتے تھے اور عبد اللہ كے ھاتھوں پر بیعت كررھے تھے ا ور اپنی اطاعت گذاری كا اظھار كررھے تھے، اسی اثنا میں محمد علی پاشا جو مكہ میں تھے، وھابیوں سے مقابلہ كے لئے ایك عظیم لشكرتیار كرلیا۔
طرفین میں كئی جنگیں هوئیں، جس كا نتیجہ یہ هوا كہ دونوں نے آپس میں صلح كرلی، لیكن چونكہ عثمانی سلطان اور محمد علی پاشا كا دلی ارادہ یہ تھا كہ وھابیوں كی حكومت كو نیست ونابود كردیا جائے ادھر نجد اور حجاز كے لوگوں نے مصر میں جاكر امیر عبد اللہ كی بدگوئیاں كرنا شروع كردی، (اس وقت مصر كے والی محمد علی پاشا تھے)، اسی وجہ سے محمد علی پاشا نے تركوں اور مصریوں اور اھل مغرب591، شام 592 اور عراق كے لوگوں پر مشتمل ایك عظیم لشكر آمادہ كیا اور چونكہ اس كا بیٹا طوسون1231ھ میں انتقال كرچكا تھا اس وجہ سے اس مرتبہ لشكر كی سرداری اپنے دوسرے بیٹے ابراھیم پاشا (یا ایك قول كے مطابق بیوی كے ساتھ آیا هوا دوسرے شوھر كا بیٹا ابراھیم پاشا) كے حوالہ كی، ابراھیم پاشا اس بھادر لشكر كے ساتھ مصر سے روانہ هوا، اور سب سے پھلے مدینہ منورہ كارخ كیا اور اس كو مع قرب وجوار كے اپنے قبضہ میں لے لیا، اور اس كے بعد ”آب حناكیہ“ كا رخ كیا اور وھاں پر قتل وغارت شروع كیا۔
ابراھیم پاشا كا اس علاقہ میں اس طرح رعب و دبدبہ تھا كہ ان میں سے بعض لوگ اس كی اطاعت كا اظھاركرنے لگے تھے، اور انھوں نے اس كے ساتھ مل كر جنگ كرنے كا بھی اعلان كیا، ابراھیم پاشانے 1232ھ كے شروع تك حناكیہ میں قیام كیا اور اس كے بعد نجد كے علاقہ ”رَجلہ“ پر حملہ كیا۔ لیكن اس كے بعد امیر عبد اللہ نے ایك عظیم لشكر تیار كیا، اور جن قبیلوں نے ابراھیم پاشا كی اطاعت قبول كرلی تھی ان كی نابودی كے لئے حجاز گیا لیكن جیسے ھی مذكورہ قبیلوں نے امیر عبد اللہ كو ایسا كرتے دیكھا تو حناكیہ میں جاكر ابراھیم پاشا كے یھاں پناہ لے لی۔ 593
دونوں طرف میں لڑائی جھگڑے هوتے تھے تو ان میں اكثر نقصان امیر عبد اللہ كا هوتا تھا اس كی وجہ یہ تھی كہ ابراھیم پاشا كا لشكر تعداد كے لحاظ سے بھی اورتوپ اور دیگر اسلحہ وغیرہ كے لحاظ سے بھی امیر عبد اللہ كے لشكر سے طاقتور تھا،594 ابراھیم پاشانے آہستہ آہستہ ”رَسّ“ نامی علاقہ اور ”عنیزہ اور ”خبرا“ شھروں پر بھی قبضہ كرلیا، اور شھر ”شقراء“ كو بھی صلح كے ذریعہ اپنے قبضہ میں كرلیا تھا ۔
خلاصہ یہ كہ ابراھیم پاشا آگے بڑھتا رھا اور نجد وحجاز كے دوسرے علاقوں پر قبضہ كرتا رھا، اس كی پیشرفت اور ترقی قتل وغارت كے ساتھ هوتی تھی،آخر كارابراھیم پاشا نے امیر عبد اللہ كے دار السلطنت شھر ”درعیہ“ كو گھیر لیا، اور بھت سے حملے كرنے كے بعد اس شھر كو بھی اپنے قبضے میں لے لیا، اور امیر عبد اللہ كی بھت سی اھم شخصیتوں كو توپ كے سامنے كھڑا كركے ان پر توپ كے گولے چلا دئے، یہ سب دیكھ كر امیر عبد اللہ نے بھی اس كے سامنے ھتھیار ڈال دئے۔
اور جیسے ھی نجد فتح هونے كی یہ خبر مصر پهونچی تو خوشیاں منانے كی وجہ سے توپ كے تقریباً ایك ہزار گولے داغے گئے، او رسات دن تك مصر كے علاقوں میں چراغانی كی گئی۔
مصر میں امیر عبد اللہ اور حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا خزانہ
ابراھیم پاشا نے دو دن كے بعد عبد اللہ كو خبر دی كہ تیار هوجاؤ تاكہ تمھیں اسلامبول سلطان عثمانی كی خدمت میں پیش كردیا جائے، اسے ایك لشكر كے ساتھ روانہ كردیا گیا اور یہ تاكید كردی كہ راستہ میں اس كی عثمانی سلطان كے دربار عالی تك پهونچنے تك بھر پور حفاظت كی جائے۔
ابن بشر صاحب كھتے ھیں كہ امیر عبد اللہ كو ان كے تین یا چار ساتھیوں كے ساتھ595 (اور زینی دحلان كے بقول بھت سے نجدی رؤساٴ كے ساتھ) درعیہ سے روانہ كیا گیا، او رمحرم1234ھ میںمصر میں پهونچا دیا گیا، اور ان كے لئے ایك جگہ تیار كی گئی تاكہ دیكھنے والے اس كو دیكھ سكیں، او رجب عبد اللہ محمد علی پاشا كے سامنے لایا گیا توپاشاصاحب اس كے احترام میں كھڑے هوگئے، اور ان كو اپنی بغل میں بٹھایا، اور اس سے گفتگو كے دوران سوال كیا كہ ابراھیم پاشا كو كیسا پایا؟!
توامیرعبد اللہ نے جواب دیا كہ اس نے اپنے وظیفہ میں كوئی كوتاھی نھیں كی، او رضروری كوشش كو بروئے كار لائے، ھم بھی اسی طرح تھے، لیكن خداوندعالم نے جو مقرر كردیا تھا وھی انجام پایا، اس كے بعد محمد علی پاشا نے اس كو بھترین كپڑے پہنوائے۔
امیرعبد اللہ كے ساتھ ایك چھوٹا سا صندوق بھی تھا، محمد علی پاشا نے سوال كیا كہ یہ كیا ھے؟
تو عبد اللہ نے جواب دیا كہ اس كو میرے باپ نے حجرے سے (پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے روضہ سے) لیا تھا اور میں اس كو سلطان (عثمانی سلطان) كے پاس لے جارھا هوں۔
محمد علی پاشا كے حكم سے اس صندوق كو كھولا گیا، تو دیكھا كہ اس میں قرآن مجید كے تین نسخے تھے اور یہ قرآن بادشاہ كے خزانہ سے متعلق تھے اور اب تك كسی نے ایسے قرآن نھیں دیكھے تھے، اسی طرح اس صندوق میں مروارید او رزمرّدكے تین سو بڑے بڑے دانے بھی تھے، اسی طرح ایك سونے كا ظرف بھی تھا، محمد علی پاشا نے سوال كیا كہ كیا آپ نے حجرے سے ان كے علاوہ دوسری چیزیںبھی لی تھیں ؟
تب اس نے جواب دیا كہ یہ چیزیں میرے باپ كے پاس تھیںاور وہ جو كچھ بھی حجرے میں آتا تھا صرف وھی نھیں اٹھاتے تھے بلكہ اھل مدینہ اور حرم مطھر كے خادمین بھی اس كو اٹھالیتے تھے۔
محمد علی پاشانے كھا كہ یہ بات صحیح ھے كیونكہ ھم نے بھی ان میں كی بھت سی چیزیں شریف مكہ كے پاس دیكھی ھیں۔ 596

امیر عبد اللہ كو پھانسی
اس كے بعد محمد علی پاشا نے امیر عبد اللہ كو اسلامبول كے لئے روانہ كردیا وھاں اس كو اور اس كے ساتھیوں كو بازار میں گھما كر باب ھمایوں (بادشاہ كا محل) كے سامنے پھانسی پر لٹكادیاگیا اور اس كے ساتھیوں كو شھر اسلامبول كے دوسرے علاقوں میں پھانسی دیدی گئی۔
شھر درعیہ كی بربادی اور آل سعود اور آل شیخ كی مصر كی طرف جلا وطنی
جس وقت دونوں طرف سے جنگ هورھی تھی خصوصاً جس وقت درعیہ شھر كو گھیر كر اس پر قبضہ كرلیا گیا اسی وقت خاندان سعود اور خاندان شیخ محمد بن عبد الوھاب كے بعض لوگوں كو قتل كردیا گیا یا ان كو پھانسی دیدی گئی، انھیں میں سے شیخ سلیمان بن عبد اللہ بن شیخ محمد بن عبد الوھاب تھے جس وقت ابراھیم پاشا نے اھل درعیہ سے مصالحت كی تو اس كو ڈراتے هوئے لایا گیا تاكہ اس كی توھین بھی هوجائے اس كے سامنے” رباب “نامی موسیقی بجوائی گئی اور اس كے بعد اس كو قتل كردیا گیا۔
ابراھیم پاشا تقریباً نو مھینے تك درعیہ میں رھے اور اس مدت میں حكم دیا كہ تمام آل سعود اور خاندان شیخ محمد بن عبد الوھاب كو مصر میں جلاوطن كركے بھیج دیا جائے، او راس كے حكم كے مطابق ان دونوں خاندان كے افراد عورتوں اور بچوں سمیت تمام تر حفاظت كے ساتھ مصر روانہ كردئے گئے۔
ماہ شعبان 1234ھ میں محمد علی پاشا نے ابراھیم پاشا كو ایك خط میںدرعیہ شھر كو بالكل نیست ونابود كردئے جانے اور بالكل زمین سے ھموار كرنے كا حكم دیدیا۔ 597
ابراھیم پاشا نے اھل شھر كو شھر خالی كرنے كا حكم دیا، اور اس كے بعد ابراھیم پاشا كے سپاھیوں نے حكومتی محل اور دیگر لوگوں كے گھروں اور كجھور كے درختوں كو نیست ونابود كرنا شروع كیا،یھی نھیں بلكہ جن كو خالی نھیں كیا گیا تھا ان مكانوں كو بھی گرادیتے تھے، باغات كو كاٹ ڈالا، گھروں میں آگ لگادی، خلاصہ یہ كہ شھر درعیہ زمین كا ایك ڈھیر دكھائی دیتا تھا۔
ابراھیم پاشا نے درعیہ شھر كے علاوہ نجد كے دوسرے علاقوں میں موجود تمام قلعوں اور مستحكم عمارتوں كو گرانے كے لئے ایك لشكر منتخب كیا اور انھیں حملوں كے درمیان ایك نجدی نے ابراھیم پاشا پر حملہ كردیااور ایك خنجر كے ذریعہ اس پر وار كیا لیكن یہ خنجر اس كے كپڑوں اور گھوڑے كی زین میں گھس كر رہ گیا اور خود ابراھیم پاشا كو كوئی نقصان نھیں پهونچا۔
اس كے بعد سے ایك بار پھرنجد كے علاقہ میں افرا تفری پھیل گئی اور مختلف علاقوں كے قبیلے ایك دوسرے كی جان كے پیچھے پڑگئے، اس كے بعد ابراھیم پاشا مدینہ واپس چلے گئے اور وھاں سے شام كا رخ كیا او روھاں بھی بعض علاقوں كو فتح كیا۔ 598

ابراھیم پاشا كا مصر میں داخل هونا اور اس كا عجیب غرور
ابراھیم پاشا اس عظیم فتح وپیروزی اور وھابیوں كو شكست دینے كے بعد محرم الحرام1235ھ میں مصر میں وارد هوا تو منا دی كرنے والوں نے یہ اعلان كیاكہ شھر مصر (یعنی قاھرہ)میں سات شب وروز تك چراغاں كیا جائے اور كوچہ وبازار میں خوشیاں منائی جائیں۔
چنانچہ لوگوں نے اس سلسلہ میں ھر ممكن كوشش كی او رعیسائیوں نے اپنے محلوں اور مسافر خانوں میں نمائش كے طور پر بھت سی عجیب وغریب چیزیں ایجاد كیں مثلاً مختلف قسم كی عجیب وغریب تصویریں او رمجسمہ بناكر نمائش لگائی۔
ابراھیم پاشا كے استقبال كے لئے ایك موكب (سواروں اور پیادہ لوگوں كا لشكر)تیار كیا گیا، درحالیكہ اس نے بھت لمبی داڑھی ركھنا شروع كی تھی ،باب النصر سے وارد هوا، اس كا باپ محمد علی پاشا بڑے فخر كے ساتھ اپنے بیٹے كے موكب كو دیكھنے كے لئے حاضر هوا۔
چراغانی، شب زندہ داری، آتش بازی، توپ داغنا، میوزك اور دوسرے كھیل اور سرگرمی سات شب وروز تك جدید اور قدیم599 مصر اور مصر كے دوسرے علاقوں میں جاری رھے۔
ابراھیم پاشا اس سفر سے واپسی پر خود كو بھت بڑا سمجھنے لگا تھا اور اتنے غرور میں رھتا تھا جس كا كوئی تصور نھیں كیا جاسكتا تھا، اس كا غرور اس وقت ظاھر هوا كہ جب اھم شخصیات اس كی خدمت میں سلام او رتہنیت كے لئے حاضر هوئےں تو یہ جناب اپنی جگہ سے كھڑے تك نہ هوئے، اور سلام كا جواب تك نہ دیا یھاں تك كہ اشارہ تك بھی نہ كیابلكہ اسی حال میں بیٹھا هوا مسخرہ كرتا رھا، لہٰذا وہ لوگ وھاں سے ناراض هوكر واپس هوگئے۔ 600

وھابی اسیروں كو فروخت كرنا
جناب جبرتی صاحب كھتے ھیں كہ محرم1235ھ میں مغرب اور حجاز كے كچھ سپاھی مصر میں وارد هوئے جن كے ساتھ وھابی اسیر بھی تھے، جن میں عورتیں، لڑكیاں او رلڑكے بھی تھے، یہ سپاھی ان اسیروںكو جو شخص بھی خریدنا چاھے اس كو فروخت كردیتے تھے، جبكہ یہ اسیر مسلمان بھی تھے اور آزاد بھی۔ 601
اور شاید اس كی وجہ یہ هو كہ وھابیوں كے مخالف ان كو خارجی سمجھ رھے تھے دوسرا احتمال جس كو جبرتی نے بھی دیا ھے كہ عثمانی سپاھیوں كا كوئی دین و مذھب نہ تھا، ان كے ساتھ شراب كے ظروف بھی موجودهوتے تھے كبھی ان كے لشكر سے اذان كی آواز سنائی نھیں دیتی تھی، نہ ھی ان كو نماز پڑھتے دیكھا گیا،ان كے ذہن میں بھی نھیں تھا كہ ھم دین اسلام كے لئے جنگ كررھے ھیں، جب عثمانی سپاھیوں كے قتل شدہ لاشے ملتے تھے تو ان میں سے بھت سے لوگ ختنہ شدہ بھی نھیں تھے۔ 602
مذكورہ باتوں كے پیش نظر عثمانی سپاھی اپنی ان صفات كے باعث وھابیوں میں سے جس كو اسیر بناتے تھے اس زمانہ كے رواج كے تحت اپنے غلاموں كی طرح فروخت كردیتے تھے اور اسیروں كے مذھب و دین كے بارے میں كوئی فكر نھیں كرتے تھے۔
لیكن چونكہ یہ اسیر حجازی او رمغربی سپاھیوں كے ھاتھوں میں هوتے تھے شاید پھلا والا احتمال حقیقت سے زیادہ نزدیك هو، اسی طرح دوسرے ایسے مواقع بھی آئے ھیں جن میں عثمانی سپاھیوں نے وھابی عورتوں اور بچوں كی خوارج هونے كے لحاظ سے خرید وفروخت كی ھے۔ 603

آل سعود كی حكومت كا دوبارہ تشكیل پانا
اسلامبول میں امیر عبد اللہ كو پھانسی لگنے اور آل سعود او رآل شیخ محمد بن عبد الوھاب كے مصر میں جلا وطن هونے كے بعد گمان یہ كیا جاتا تھا كہ عثمانی بادشاہ، محمد علی پاشا اور ابراھیم پاشا نے وھابیوں اور خاندان آل سعود كی حكومت تباہ كر كے اپنی حكومت قائم كرلےں، لیكن كوئی بس نہ چلا اور دونوں خاندان كے بعض افراد بھاگ نكلے اور بعد میں حكومت آل سعود كو تشكیل دیا۔
ان بھاگنے والوں میں سے ایك امیر تركی بن امیر عبد اللہ بن محمد بن سعود تھا، دوسرا اس كا بھائی زید تھا اسی طرح علی بن محمد بن عبد الوھاب تھا یہ لوگ پھلے قطر اور عُمّان گئے، معلوم هونا چاہئے كہ امیر تركی وھی شخص ھے جس نے بعد میں سعودی حكومت كو دوبارہ زندہ كیا ھے۔ 604
1234ھ كے آخر میں جب ابراھیم پاشا كے حكم سے درعیہ شھر كو نیست ونابود كردیا گیا اس وقت محمد بن مُشارِی بن مَعمر، سعود بن عبد العزیز كا بھانجا درعیہ سے ”عُیَنْیَہ “ بھاگ نكلا تھااور (جب ابراھیم پاشا وھاںسے چلاگیا) تو دوبارہ درعیہ واپس آگیا اور چونكہ آل سعود سے رشتہ داری تھی،لہٰذا اس نے حكومت نجد كو اپنے ھاتھوں میں لےنے كی ٹھان لی۔
اس نے درعیہ شھر كو دوبارہ بنوانا شروع كیا اور بھت سا جنگی ساز وسامان تیار كیا، اور بھت سارا مال اكٹھّا كیا اور آل سعود كے بادشاهوں كی طرح لوگوں كو توحید كی دعوت دینا شروع كردیا، قرب
وجوار كے شھروںدیھاتوں اور قبیلوں كے سرداروں كو خط لكھنے شروع كئے اور اپنے دیدار كے لئے بلایا، بعض لوگوں نے اس كی دعوت پر لبیك كھا، اور بھت سے لوگوں نے اس كی مخالفت كی۔
ابن معمر نے اپنی حسن تدبیر سے مخالفوں پر كامیابی حاصل كرلی اسی دوران تركی بن عبد اللہ اور اس كا بھائی درعیہ میں داخل هوئے پھلے تو تركی نے اس كی موافقت كی اور اس سے مل كر رھا اور اس كے بعد بعض واقعات كی بنا پر ایك دوسرے میں لڑائی جھگڑے هونے لگے، سر انجام تركی نے ابن معمر كو پھانسی دیدی۔
اس زمانہ میں (یعنی1235ھ میں) ایك بار پھر نجد كاماحول خراب هوگیا وھاں افرا تفری پھیل گئی، اور پھلے كی طرح مختلف قبیلوں میں جنگیں هونے لگیں، اسی زمانہ میں انگلینڈ كی دریائی فوج نے (جن كے پاس دریائی كشتیوں پر توپ وغیرہ بھی لگی هوئی تھی) ”راس الخیمہ“ پر حملہ كركے شھر پر قبضہ كرلیا، وھاں كے لوگ بھاگ نكلے اور انگلینڈ كی فوج نے شھر كو ویران كردیا۔ 605

امیر تركی
1236ھ سے عثمانی بادشاہ نے امیر تركی پر حملہ كرنا شروع كردیا، اس كی وجہ جیسا كہ پھلےاشارہ كیا جاچكا ھے عثمانی بادشاہ كو یہ ڈر تھا كہ كھیں یہ لوگ ایك عربی بڑی حكومت نہ بنالیں (اور پھر اس پر حملہ نہ كردیں) اُدھر امیر تركی كی حكومت آہستہ آہستہ مضبوط هوتی گئی اور اس كا دائرہ وسیع هوتا گیا، جسے دیكھ كر عثمانی بادشاہ نے حسین بك كی سرداری میں ایك ترك لشكر نجد كی طرف روانہ كیا ،اس وقت امیر تركی نے اپنا دار السلطنت ”ریاض“ كو بنالیا تھا (جو آج بھی سعودی عرب كا پائے تخت ھے) ۔
امیر تركی اور حسین بك میں بھت خونین جنگیں هوئیں اور ان جنگوں میں تركی كمزور هونے لگا اور نزدیك تھا كہ شكست كھا جائے ایك جنگ میں تركی كے بیٹے فیصل كو گرفتار كركے مصر بھیج دیا گیا ،لیكن آخر كار تركی كو كامیابی ملی اور وہ حكومت پر قابض هوگیا اور اسی زمانہ میں اس كا بیٹا فیصل بھی مصر سے بھاگ نكلا اور اپنے باپ سے آكر ملحق هوگیا۔
تركی بادشاہ كا زمانہ ایسا تھاجس میں ھمیشہ مختلف قبیلوں میں لڑائی اور دیگرمشكلات سامنے آتی رھیں یھاں تك كہ اس كے بھانجے مشاری بن عبد الرحمن بن سعود نے اچانك1249ھ میں اس كو قتل كردیا ۔
قارئین كرام !یہ بھی معلوم رھے كہ مشاری وہ شخص تھا جس كو ابراھیم پاشا نے جلا وطن كركے مصر بھیج دیا تھا، اور وہ وھاں سے بھاگ كر اپنے ماموں كی پناہ میں چلا گیا تھا، اور جس وقت سے مشاری اپنے ماموں كی پناہ میں پهونچا تھا، تركی اس كا بھت احترام واكرام كرتا تھا اور اس كو شھر ”منفُوحہ“ كی ولایت دیدی تھی، لیكن چونكہ مشاری كو حكومت كرنے كا شوق تھا، لہٰذااس نے تركی كے ساتھ خیانت كی، لیكن وہ بھی بھت جلد فیصل كے ھاتھوں اسكے باپ كے انتقام میں قتل كردیاگیا۔

فیصل بن تركی
امیر تركی كے قتل هونے كے بعد اس كا غلام ”زوید“ ریاض سے ”اَحساء“ فیصل بن تركی كے پاس گیا اورتمام واقعہ بتلایا كہ تمھارے باپ كو قتل كردیا گیا ھے، واقعہ كو سن كر فیصل نے اپنے باپ كے انتقام میں ریاض پر حملہ كردیا ادھر شھر كا دفاع كرنے والوں میں سے ایك گروہ نے اس كی طرفداری كی، چنانچہ اس نے چند حملوں كے بعد شھر ریاض كو اپنے قبضہ میں لے لیا، اور مشاری اور اس كے چند ساتھیوں كو بھی قتل كر ڈالا۔
فیصل1250ھ كے شروع میں اپنے باپ كی جانشینی میں نجد كی حكومتكا بادشاہ بنا، قرب وجوار كے حكّام نے آكر اس كے ھاتھوں پر بیعت كی اور نجد كی حكومت ملنے پر اس كو مبارك بادپیش كی۔

آل رشید
امیرفیصل نے1251ھ میں صالح بن عبد المحسن كو جو ”جبل شَمَّر“ كا والی تھا معزول كركے اس كی جگہ عبد اللہ بن علی بن الرشید كو مقرر كیا، جس وقت عبد اللہ جبل شمر كے دار السلطنت،شھر ”حائل “ پهونچا تو اس كے اور آل علی میںجو سابق امیر صالح بن عبد المحسن كے ساتھی تھے شدید اختلاف پیداهوگیا، اور دونوں میں لڑائی هونے لگی، آخر كار ابن الرشید نے صالح كو اس كے محل میں گھیر لیا لیكن بعد میں اس كو امان دیدی، اور اس كو شھر سے باھر نكال دیا، اور فیصل كو خط لكھا كہ اختلاف اور جھگڑوں كی ابتداء آل علی كی طرف سے هوئی تھی، چنانچہ فیصل نے بھی اس كی تصدیق اور تائید كی۔
اس كے بعد سے آل رشید جبل شمر پر مستقر هوگئے اور انھوں نے بھی اپنے علاقہ میں توسیع كرنا شروع كردی، یھاں تك كہ اسی خاندان كے ایك حاكم بنام محمد نے ریاض پر بھی غلبہ حاصل كرلیا، اور عبد العزیز سعودی امیر كو بھی نجد سے باھر نكال كر كویت بھیج دیا، لیكن ان سب كے باوجود اس كی قدرت كچھ ھی مدت كے بعد جواب دے گئی اور عبد العزیز بن سعود نے اس پر حملے شروع كردئے، اور 1336ھ میں كلی طور پر اس (آل رشید) كا صفایا كردیا۔
آل رشید كے قدرتمند حاكم محمد كے دورمیں(یعنی1285ھ سے 1315ھ تك) شمر نامی پھاڑ پر یورپی سیّاحوں كو گھومنے پھرنے كی اجازت مل گئی، اور جیسا كہ ھم نے پھلے بھی عرض كیا ھے كہ كئی یورپی سیاحوں نے اس علاقہ كا نزدیك سے دیدار كیاھے۔ 606

نجد پر تركوں كا دوبارہ حملہ اور فیصل كو گرفتار كركے جلا وطن كرنا
مصر كے سپاھیوں كا ایك گروہ احمد پاشا كی سرداری میں مكہ میں مقیم تھا، احمد بن عون نے شریف مكہ احمد پاشا كو ”عَسِیْر“ نامی (نجد كے نزدیكی علاقہ) پر حملہ كرنے كے لئے ابھارا، اور اس نے حملہ كرنے كا پروگرام بنالیا، پھلے تو عسیر كے لوگوں نے فرمانبرداری كا اظھار كیا لیكن موقع پاكر مصریوں كو نیست ونابود كردیا۔
چنانچہ ایك بار پھر مصری فوج نے نجد پر حملہ كیا او رشھر ریاض كو اپنے قبضے میں لے لیا اور امیر فیصل احساء كی طرف بھاگ گیا۔
قارئین كرام!جیسا كہ نجد پر عثمانیوں كے حملوں سے معلوم هوتا ھے كہ عثمانی اور مصری فوج آسانی كے ساتھ نجد كو اپنے قبضہ میں لے لیا كرتی تھی، لیكن ان كو وھاں رہنے میں بڑی مشكلوں كا سامنا تھا، جیسے وھاں كی آب وهوا جو مصری اور تركی فوج كے لئے مناسب نھیں تھی، یا مختلف قبیلوں كی طرف سے هونے والی مشكلات كی وجہ سے پریشان هوتے تھے یادوسری وجوھات، بھر حال عثمانی لشكر نجد كو فتح كرنے كے بعد اس كو اس كے حال پر چھوڑ كر واپس هوجاتے تھے۔ 607
اس بار بھی ایسا ھی هوا ریاض اورنجد میں عثمانی لشكر كمزور هونے لگا ادھر فیصل احساء سے ریاض واپس آگیا لیكن وہ پھر بھی ریاض پر قبضہ نہ كرسكا۔
1254ھ میں خورشید پاشا مصری سپاہ كے سردار نے ملا سلیمان كی سرداری میں ایك طاقتور لشكر ”قصیم“ نامی علاقہ سے ریاض كے لئے بھیجا، اور حكم دیا كہ اسماعیل آقا جو مصر كے سابق سردار تھے ان كو واپس بھیج دو، اور ایك مدت كے بعد خود خورشید پاشا ”عنیزہ“ شھر میں آئے، اور خورشید پاشا اور فیصل كے درمیان گئی ایك حملے هوئے جس كے نتیجہ میں فیصل كو سر تسلیم خم كرنا پڑا، اور اس كو مصر كے لئے روانہ كردیا۔

فیصل كا مصر سے فرار
صلاح الدین مختار صاحب، مصر سے فیصل كے بھاگنے كے بارے میں دو قول بیان كرتے ھیں جن میں سے ایك قول ابن بشر كا ھے جو انھوں نے كتاب عنوان المجد فی تاریخ نجد، سے لیا ھے كہ فیصل اپنے بھائی اور چچا زاد بھائی او راپنے دو بیٹوں عبد اللہ او رمحمد كے ساتھ اس محل سے بھاگ نكلے جس میں ان كو ركھا گیا تھا، ان كا بھاگنے كا طریقہ یہ تھا كہ مذكورہ محل كی دیوارمیں 70 گز كی اونچائی پر ایك موری تھی، انھوں نے كسی مخفی طریقہ سے باھر سے ایك رسی منگائی اور اس رسی كے ذریعہ باھر نكل گئے اور وھاں پر ان كے لئے پھلے سے گھوڑے تیار تھے ان پر بیٹھ كر شمّر نامی پھاڑ كی طرف بھاگ نكلے۔
دوسرا قول امین ریحانی صاحب كا (كتاب نجد الحدیث میں) ھے، كہ خود محمد علی پاشا نے اس كو زندان سے رھا كردیا تاكہ امیر نجد كے عنوان سے اپنے وطن لوٹ جائے، (اس قول كے مطابق فرار كا نام دیا جانا صحیح نھیں ھے)
لیكن صلاح الدین مختار صاحب نے ابن بشر كے قول كو صحیح مانا ھے كیونكہ یہ فیصل كے ھم عمر تھے۔ 608
بھر حال جب فیصل نجد میں واپس پهونچ گئے تو انھوں نے كوہ شمّر كو اپنا دار الحكومت بنایا، اس وقت اس كے بنی اعمام (چچا كی اولاد) میں سے عبد اللہ بن ثنیان نامی ایك شخص 1257ھ میں جنگ وجدال كے بعد ریاض كے علاقہ پر حكمرانی كررھا تھا، فیصل نے اس كو بعض واقعات كی بنا پر گرفتار كركے زندان بھیج دیا، آخر كار یہ شخص زندان میں ھی مرگیا۔
امیر فیصل كا شمار آل سعود كے سب سے طاقتور بادشاهوں میں هوتا ھے،اور اسی نے فتنہ وفساد كی آگ كو خاموش كیا اور كئی سال سے پھیلے افرا تفری كے ماحول كا خاتمہ كركے امن وامان قائم كیا اور اپنی حكومت میں اضافہ كیا، 1268ھ كے بعد ایك بار پھر نجد كے مختلف علاقوں میں آشوب اور اختلاف برپا هوا ان سب كو ختم كرنے كے لئے فیصل نے بھت كوشش كی۔
آخر كار ماہ رجب1282ھ میں فیصل كا انتقال هوگیا، اور اس كے مرنے كے بعد سعودی حكومت میں اختلاف شروع هوگیا۔

حكومت آل سعود
فیصل سے عبد العزیز بن سعود تك
فیصل كے بعد اس كا بیٹا عبد اللہ تخت حكومت پر بیٹھا، اس دوران یعنی1282ھ سے 1283ھ تك امن وامان برقرار رھا، لیكن عبد اللہ كے بھائی سعود نے اس كی نافرمانی كرنا شروع كردی، اور قرب وجوار كے بعض حكّام سے مدد چاھی، آخر كار عبداللہ كے لشكر (جو اس كے دوسرے بھائی محمد كے ما تحت تھا) اور سعود كے لشكر میں جنگ هونے لگی، چنانچہ سعود كو كئی زخم لگ گئے جن كی بناپر اس كو شكست هوئی اور وہ وھاں سے احساء كی طرف بھاگ نكلا اور پھر وھاں سے عُمان چلاگیا۔
1287ھ میں سعود وھاں سے بھی بھاگ لیا اور بحرین میںآل خلیفہ كے امیروں كی پناہ لے لی، اور ان سے اپنے بھائی عبداللہ كے مقابلہ كے لئے مدد چاھی، بحرین كے حكّام نے اس كو مدد دینے كاوعد ہ دیا، ادھر سے عبد اللہ كے دوسرے مخالف افراد منجملہ قبیلہ عَجمان اور آل مُرّہ سعود كے ساتھ مل گئے۔
اور اس كے بعد دونوں میں جنگ هوئی اور اس جنگ میں محمد كو شكست هوئی سعودنے اس كو گرفتار كركے زندان بھیج دیا اوراحساء او رریاض كو اپنے قبضہ میں لے لیا، ادھر ایك مدت كے بعد (عثمانیوں كی طرف سے)والی بغداد نے عبد اللہ كی كمك كے طور پر فریق پاشا كی سرداری میں ایك لشكر نجد كے لئے روانہ كیا، اس لشكر نے عبد اللہ كی ھمراھی میں سعود كو زبر دست شكست دی۔
اُدھر عثمانیوں نے بھی مدحت پاشا كی سرداری میں ایك لشكر كو بھیج دیا یہ لشكر شیخ مبارك الصباح (كویت كے امیروں میں سے ایك امیر)كی مدد سے دریائی راستہ سے بندرگاہ عقیر (خلیج فارس كے بندرگاهوں میں سے ایك بندر گاہ جو بحرین كے مقابل ھے)میں داخل هوا۔
ان لشكروں كی آمد ورفت كے دوران كسی نے چپكے سے عبد اللہ كو یہ خبر دی كہ مدحت پاشا كا اصلی مقصد تمھیں گرفتار كرنا اور عثمانی حكومت كے سامنے تسلیم كرانا ھے، یہ سننے كے بعد عبد اللہ بڑی چالاكی سے عثمانی لشكر كے درمیان سے غائب هوگئے اور ریاض جا پهونچے اور اپنے ہدف كو آگے بڑھایا، چنانچہ اس وقت اس نے آل شمّر پر حملہ كردیا اور وھاں كے بھت سے لوگوں كو قتل كردیا۔
1290ھ میں سعود نے ریاض پر حملہ كردیااور اپنے بھائی عبد اللہ كو شكست دیدی، او روہكویت كی طرف بھاگ نكلا، ادھر سعود كو قبیلہ ”عُتَیْبَہ“ سے هوئی جنگ میںزبر دست شكست كا منھ دیكھنا پڑا، اور ریاض واپس پلٹ آیا، ماحول اسی طرح خراب رھا،1291ھ میں فیصل بن تركی كا چوتھا بیٹا امیر عبد الرحمن جو بغداد میں تھا، احساء آیا اور اس نے بھی آنے كے بعد لشكر او رطاقت كو جمع كرنا شروع كیا چونكہ اس وقت قرب وجوار میں عثمانی لشكر كا قبضہ تھا،اسی لئے عبد الرحمن نے سب سے پھلے شھر ”ہفوف“ میں موجود عثمانی سپاہ سے جنگ كی اور اس كے بعد ان كویتوں پر حملہ كیا جنھوں نے مدحت پاشا كی مدد كی تھی او ران كو ”كوت ِ ابراھیم“ او ر”كوتِ حصار“ نامی جگهوںپر گھیر لیا۔
كویت كے لوگوں نے والی بغداد سے مدد چاھی اس نے ان كی مدد كے لئے ایك لشكر بھیجا،عبد الرحمن نے اس لشكر سے شكست كھائی، وھاں سے ریاض كی طرف بھاگ نكلا، اور (ذی الحجہ1291ھ) میں امیر سعود جو شھر حُریملہ چلا گیا تھا وھیں پراس كا انتقال هوگیا، اور عبد الرحمن اس كی حكومت پر قابض هوگیا۔
1293ھ میں سعود كے بیٹے، (اپنے چچا) عبد الرحمن كی مخالفت میں كھڑے هوئے اور وہ مجبوراً ریاض سے بھاگ كر عتیبہ گاوٴں میں اپنے بھائی عبد اللہ سے ملحق هوگیا، عبد اللہ نے اس كابڑا احترام كیا ۔
اس كے بعد عبد اللہ نے اپنے جنگجو لوگوں اور عبد الرحمن كے ساتھ ریاض كی طرف حركت كی، ادھر سعود كی اولاد بغیر كسی جنگ كے ریاض چھوڑ كربھاگی، عبد اللہ نے ریاض پر قبضہ كرلیا، عبد الرحمن اور اس كا دوسرا بھائی محمد ،عبد اللہ كے كسی كام میں مخالفت نھیں كرتے تھے۔
اس كے بعد سے1308ھ تك آل سعود كی حالت مختلف جنگوں او رفسادات كی وجہ سے بھت زیادہ بحرانی رھی، جن كی بناپر وہ ضعیف او ركمزور هوتے چلے گئے، جس كے نتیجہ میں آل رشید ان پر غالب هوگئے اور محمد بن عبد اللہ الرشید نے ریاض پر قبضہ كرلیا اور نجد كی حكومت اپنے ھاتھوں میں لے لی،اور عبد الرحمن اپنے اھل خانہ كے ساتھ جن میں اس كا جوان بیٹا عبد العزیز الرشید بھی تھا كویت كی طرف روانہ هوئے، لیكن محمد الصباح شیخ كویت نے ان كو كویت میں داخل هونے سے روك دیا، مجبوراً عبد الرحمن نے نجد كے دیھاتی علاقہ (الرّبع الخالی) كا رخ كیا اور پھلے بنی مُرّہ پھر قبیلہ عجمان (جو اپنے كو ایرانی الاصل مانتے تھے) كے یھاں قیام كیا اور اس كے بعد قطر كی طرف حركت كی اور دومھینہ وھیں قیام كیا۔
سلطان عبد الحمید (عثمانی سلطان)نے عبد الرحمن سے دوستی كا ارادہ كرلیا، اس نے ھر مھینہ سونے كے ساٹھ لیرے عبد الرحمن كے لئے معین كئے اور پھر امیر كویت نے اس كو پناہ دیدی، اور عبد الرحمن قطر سے كویت پهونچ گئے، او روھیں پر رھے یھاں تك كہ اس كے بیٹے عبد العزیز (جیسا كہ بعد میں شرح دی جائے گی) نے سر زمین نجد كو اس افرا تفری كے ماحول سے نجات دی او رعربی سعودی حكومت تشكیل دی۔
صلاح الدین مختار صاحب، امین ریحانی سے نقل كرتے ھیں كہ حاكم احساء نے سلطان عثمانی كی طرف سے ڈاكٹر زخور عازار لبنانی كے ذریعہ عبد الرحمن كو پیغام بھیجا كہ اگر تم سلطان كی اطاعت كا اعلان كرو تو تمھیں ریاض كی حكومت مل جائے گی، لیكن عبد الرحمن نے اس پیشكش كو قبول كرنے سے عذر خواھی كی۔ 609

عبد العزیز بن عبد الرحمن معروف بہ ابن سعود
جس وقت عبد العزیز او راس كے باپ عبد الرحمن كویت میں رھتے تھے، انگلینڈ كی حكومت نے عرب كے شیوخ كی خوشنودی كے لئے سلطان عثمانی سے بھت سخت مقابلہ اورجنگ كی۔
عبد الحمید دوم سلطان عثمانی، نے احساس كیا كہ شیخ كویت انگلینڈ كی طرف مائل ھے، یہ دیكھتے هوئے اس نے عبد العزیز الرشید امیر شمّر كی مدد كے لئے ھاتھ بڑھایا جو شیخ كویت كا دشمن تھا، اور عبد العزیز الرشید كو خبر دی كہ اگر وہ كویت كو اپنے علاقوں میں ملحق كرنا چاھتے ھیں تو اس كو كوئی اعتراض نھیں ھے، یہ سن كر عبد العزیز الرشید بھت خوشحال هوئے، كیونكہ اس كا عقیدہ یہ تھا كہ اگر اس بندرگاہ كو بھی اپنے علاقوں میں شامل كرلے گا تو حكومت آل رشید مستحكم اور مضبوط هوجائے گی، اور اسی چیز كے پیش نظر1900ء(1317ھ) میں شَمّر كے جنگجووٴں كے ساتھ كویت پر حملہ كے لئے تیار هوگیا۔
امیر كویت چونكہ اس سے مقابلہ كی طاقت نھیں ركھتا تھا لیكن اس كے پاس مال ودولت بھت تھی اسی وجہ سے عشایر عَجمان، ضُفَیر اورمنتفق كو اپنے ساتھ میں لے لیا اور آل سعود سے بھی نصرت اور مدد چاھی اور ان كو وعدہ دیا كہ ریاض كی حكومت ان كو واپس كردیگا، ادھر عبد العزیز بن عبد الرحمن كو بھی اپنے ارادے سے آگاہ كیا، آخر كار شیخ مبارك بن الصباح امیر كویت اور عبد الرحمن آل سعود اور اسكے بیٹے عبد العزیز نے میٹنگ اور آپس میں صلاح ومشورہ كیا، جس میںیہ طے پایا كہ ابن الرشید كا خاتمہ كردیا جائے۔
1318ھ میں طرفین میں سخت جنگ هوئی، اور امیر كویت كو بھت بری ھار كا منھ دیكھنا پڑا، اور ابن الرشید نے كویت كے دروازہ تك حملہ كیا لیكن اچانك اس كو پیچھے ہٹنا پڑا كیونكہ دریائی راستہ سے انگلینڈ كی سپاہ اس كے راستہ میں آگئی، چنانچہ انگلینڈ كی فوج كے سردار نے اس سے نصیحت كے طور پر كھا كہ پلٹ جانے میں ھی تمھاری بھلائی ھے، او راگرتم نے اس كے علاوہ كوئی قدم اٹھایا تو ھم تمھیں اپنی بڑی بڑی او رپر قدرت توپوں كے ذریعہ نیست ونابود كردیں گے، او رتمھارے تمام ساتھیوں كو ھلاك كردیں گے، ابن الرشید نے عثمانی حكومت سے مدد طلب كی، لیكن ادھر استامبول اور لندن میں پھلے سے عہدوپیمان هوچكا تھااور لندن نے عثمانی حكومت كو ابن الرشید كی مدد نہ كرنے پر قانع كردیا تھا۔
ان واقعات سے اصل فائدہ انگلینڈ نے اٹھایا اس نے اپنے لئے خلیج فارس میں ہندوستان كے راستہ میں اپنے رہنے كا ٹھكانہ بنالیا، او رشیخ كویت كو بھی حملوں كے خطرات سے امان مل گئی۔ 610
عبدالرحمن اور اس كا بیٹا عبد العزیز كویت میں رھتے رھے اور عبد العزیز نے اس مدت میں علوم دینی كے درس میں شریك هونا شروع كردیا۔

عبد العزیز كا ریاض پر قبضہ
جتنی مدت عبد العزیز كویت میں رھا ھمیشہ نجد مخصوصاً ریاض كی یاد میں رھا، اور چونكہ اس پر آل رشید كا قبضہ تھا، اسی وجہ سے وہ بھت پریشان رھتا تھا، اور ھمیشہ اس پریشانی كے بارے میں غور وفكر كرتا رھتا تھا، آخر كار اپنے باپ اور شیخ كویت سے گفتگو كركے اس نتیجہ پر پهونچا كہ وہ ریاض پر حملہ كردے، چنانچہ جب اس كی عمر اكیس سال كی هوئی تو اس نے1319ھ میں ایك تاریك رات میں اپنے كچھ وفادار ساتھیوں منجملہ اپنے بھائی امیر محمد اور پھوپھی كے لڑكے امیر عبد اللہ كے ساتھ ریاض پر حملہ كردیا۔ چند شجاعانہ حملے كركے شوال1319ھ میں ریاض پر قبضہ كرلیا (ان تمام شجاعانہ حملوں كا تذكرہ وھابی كتابوں میں موجود ھے) اسی فتح كے دن ریاض كے موذنوں نے نماز ظھر كے وقت ریاض میں یہ اعلان كیا كہ حكم اور فرمان پھلے درجہ میں خداوندعالم كے لئے او رپھر عبد العزیز بن عبد الرحمن كے لئے ھے۔ 611
عبد العزیز نے ریاض پر قبضہ كے بعد آل رشید كی حكومت كے خاتمہ كی ٹھان لی، اور1320ھ میں نجد كے جنوبی علاقہ پرقبضہ كرلیا اسی طرح1321ھ میں سَدیر، وَشم اور قَصِیم پر بھی قبضہ كرلیا، عبد العزیز اور آل رشید كے درمیان حملہ هورھے تھے، عثمانی حكومت، آل رشید كی طرفداری میں كچھ نہ كچھ مداخلت كرتی رھتی تھی، اس كے بعد 1324 ھ میں عثمانی تُرك، نجد سے نكل گئے، اور اسی سال ابن مُتعب امیر آل رشید بھی قتل كردیا گیا، اورعبد العزیز، آل رشید كی طرف سے كافی حد تك آسودہ خاطر هوگیا۔
1328ھ میں عبد العزیز معروف بہ ابن سعود كا تین طرف سے مقابلہ تھا:
1۔ آل رشید سے۔
2۔ اس كے چچازاد بھائی سے جو نجد كے جنوب میں مخالفت كے لئے قیام كر چكا تھا۔
3۔ شریف مكہ شریف حسین سے۔
هوا ھے، عبد العزیز كی كامیابی كی سب سے اھم وجہ یہ تھی كہ ریاض میں اس كے بھت سے چاہنے والے موجود تھے۔
عبد العزیز نے پھلے دو دشمنوں كے ساتھ تلوار سے فیصلہ كیا لیكن تیسرے دشمن كے مقابلہ میں سیاست سے كام لیا، اور اس كا یہ پھلا ٹكراوٴ تھا جو ابن سعود اور شریف حسین كے درمیان هوا۔
1330ھ میں عثمانی حكومت كمزور هونے لگی كیونكہ بڑی بڑی حكومتوں كی طرف سے اس كا محاصرہ هوچكا اور اس كو دشمن كی فوج سے منھ كی كھانی پڑی، اور ”بالكن“ كی جنگ كی وجہ سے دوری اختیار كرنی پڑی، ادھر عبد العزیز بن سعود نے اس فرصت كو غنیمت جانا اور احساء پر حملہ كردیا اور یہ علاقہ چونكہ عثمانی حكومت كے زیر اثر تھا اس كو ان كے پنجے سے نجات دلائی، او راپنی حكومت كا دائرہ خلیج فارس كے كناروں تك وسیع كر لیا، او رانگلینڈ سے سیاسی تعلقات بنالئے، اور یہ تعلقات ھمیشہ مستحكم اور مضبوط هوتے رھے۔ 612

پھلی عالمی جنگ اور اس كے بعد
1914ء (مطابق با 1333ھ) میں عالمی جنگ شروع هوگئی، عثمانی حكومت جرمن كے ساتھ هوگئی، اور ابن سعود نے چاھا كہ اس فرصت سے فائدہ اٹھائے اور عرب دنیا كو متحد كرنے كی كوشش كرے، چنانچہ اس سلسلہ میں اس نے عرب كے تمام شیوخ اور حاكموں كو خط لكھے لیكن كسی نے بھی نے اس كی پیشكش پر توجہ نہ كی، چنانچہ ابن الرشید نے اپنے كو عثمانی حكومت كی پناہ میں ركھا اور ابن سعود نے انگلینڈ سے دوستی كو ترجیح دی۔
1915ء (مطابق 1334ھ) میں قَطِیف میں انگلینڈ كے ساتھ معاہدہ هوا جس میں یہ طے پایا تھا كہ وہ (ابن سعود) كسی بھی حكومت سے رابطہ بر قرار نھیںكرسكتا، اور اس بات كو حافظ وھبہ(جو سعودی سیاستمداروں اور وھاں كے صاحب نظر لوگوں میں سے ھیں) نے بھی لكھاھے، اسی وجہ سے ابن سعود كے اس وقت كے مشاورین كو بھی دنیا میں رونما هونے والے واقعات كی كوئی خبر نھیں تھی اور اس بھترین فرصت سے استفادہ كرنے كی بھی ان میںصلاحیت نہ تھی۔
بھر حال اس غلطی كا تدارك اور جبران جدّہ معاہدہ مورخہ1927ء كی وجہ سے هوگیا جس كی بدولت ابن سعود كو دوسری حكومتوں سے رابطہ برقرار كرنے یا كسی بھی حكومت كے ساتھ پیمان اتحاد كرنے كا حق حاصل هوگیا تھا، چنانچہ اسی حق كی بدولت ابن سعود ”حائل“ پر مسلط هوگیا اور اپنے سب سے بڑے نجدی دشمن یعنی ابن الرشید صفایاكر دیا۔ 613

ابن سعود اور شریف حسین
ابن سعود نے آہستہ آہستہ سر زمین نجد كے تمام علاقوں میں نفوذ میں كرلیا، اور جیسا كہ ھم نے پھلے بھی عرض كیا كہ اس نے اپنے سب سے بڑے دشمن ابن الرشید كو بھی نابود كردیا، اور ان قبیلوں كو بھی پسپا كردیا جو كسی بھی حال میں امن وامان برقرار هونے نھیں دیتے تھے، یھاں تك كہ قبیلہ عجمان كو بھی مغلوب كرلیا جو نجد كا بھت شجاع اور دلیر قبیلہ تھا اور اب چونكہ اس كو نجد كی داخلی پریشانیوں كا سامنا نھیں تھا لہٰذا اس نے منصوبہ بنالیا كہ اپنی حكومت میں توسیع كرے اور حجاز كو بھی اپنے ماتحت كرلے، اور حرمین شریفین (مكہ ومدینہ) كو بھی اپنی حكومت سے ملحق كرلے۔
اس زمانہ میں اور دوسری وجوھات بھی تھیں جن كے سبب ابن سعودكو پیشرفت اور ترقی هوئی، ان میں سے ایك ”جمعیة الاخوان“ نامی انجمن كی تشكیل تھی، جو دل وجان سے اس كی مدد كرتی تھی اور اس كے ہدف اور مقصد كے تحت اپنی جان كی بازی لگاكر كچھ بھی كرنے كے لئے تیار تھی (اگرچہ كبھی كبھی اس كے لئے بعض مشكلات بھی پیدا كردیتی تھی جن كی تفصیل اخوان سے مربوط بحث میں بیان كی جائے گی) لیكن ابن سعود كے مقابلہ میں حجاز پر قبضہ كرنے كے لئے شریف حسین جیسا طاقتور اور بھادر انسان موجود تھا جس كے هوتے هوئے حجاز اور حرمین شریفین پر قبضہ كرنا بھت مشكل كام تھا۔
ھاں پر ابن سعود كااور شریف حسین میں مقابلے كی تفصیل بیان كرنے سے شرفائے مكہ مخصوصاً شریف حسین كے بارے میں مختصر طور پر تفصیل بیان كرنا مناسب ھے۔

شرفائے مكہ
مكہ معظمہ كے والیوں كو چوتھی صدی ہجری سے شریف كا لقب دیا جانے لگا، جبكہ اس سے پھلے ان كو صرف والی كھا جاتا تھا، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی طرف سے سب سے پھلے والی جو مكہ معظمہ كے لئے معین هوئے وہ ”عَتّاب بن اَسِید“ تھے جو سپاہ اسلام كے ذریعہ فتح مكہ كے بعد آٹھویں ہجری میں مكہ كے والی بنائے گئے۔
پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی رحلت كے بعد سے چوتھی صدی ہجری كے وسط تك مكہ كے والیوں كو خلفاء معین كیا كرتے تھے، (اس مدت میں خلفاء كے علاوہ دوسرے لوگ بھی اس مقدس شھر كو حسرت بھری نگاهوں سے دیكھتے تھے تو اس وقت كی وضعیت كچھ او رهوتی تھی) تقریباً385ھ میں مصر كے مقتدر (طاقتور) والی ”اَخْشِیْدِی“ جو خلفائے عباسی كی طرف سے تھا، اس كے انتقال كے بعد سے اور خلفاء فاطمی كے مصر پر قبضے سے پھلے سادات حسنی میں سے ایك شخص بنام ”جعفر بن محمد بن الحسن (از اولاد حسن مثنّیٰ) نے مكہ پر غلبہ حاصل كیا اور ”المعزّ لدین اللہ فاطمی“ كے مصر پر قبضے كے بعد جعفر نے اس كے نام كا خطبہ دیا 614 جعفر كے بعد ان كا بیٹا ان كا جانشین هوا، اور اس كے بعد سے مكہ كی ولایت سادات آل ابی طالب سے مخصوص تھی جو اشراف یا شرفائے مكہ كے نام سے مشهور تھے۔ 615
مكہ كے شرفاء چار طبقوں میں تقسیم هوتے تھے تین طبقوں نے358ھ سے 598ھ تك مكہ شھر پرفرمانروائی كی اور چوتھے طبقے نے جو ” آل قَتادہ “كے نام سے مشهور تھا598ھ سے 1344ھ تك ولایت كی ،اس سلسلہ كے آخری شریف، شریف حسین كو ابن سعود نے حجاز سے باھر نكال دیا اور خود مكہ كا والی بن بیٹھا۔
922ھ میں جس وقت سلطان سلیم عثمانی نے مصر كو فتح كرلیا تو شریف مكہ نے اس كی اطاعت كرلی اور جب تك عثمانیوں میں طاقت اور قدرت رھی شرفائے مكہ ان كی اطاعت كرتے رھے لیكن جس وقت سے عثمانیوں كا زوال شروع هوا، خود كو سلطان كا خادم ظاھر كرنے والے حجاز كے علاقوں میں اپنا سكّہ جمانے كی كوشش میںلگ گئے۔ 616
شرفائے مكہ كی تاریخ میں ھمیشہ جنگیں اور لڑائی وغیرہ هوتی رھی ھیں جن كی تفصیل تاریخی كتب میں موجود ھے، چنانچہ دوستوں اور دشمنوں كے قلم اس سلسلہ میں مختلف چیزیں بیان كرتے ھیں ۔

شریف حسین
شریف حسین، مكہ كے شریف خاندان كی آخری كڑی تھے جن كی پیدائش اسلامبول میں1270ھ میں هوئی، اور جس وقت ان كے والد (شریف علی) مكہ كے والی منتخب هوئے یہ بھی اپنے باپ كے ساتھ مكہ پهونچ گئے،1299ھ میں ان كے چچا شرف عون 617 مكہ كے والی بنے تو شریف عون كی درخواست (عثمانی حكومت) كے مطابق شریف حسین كو اسلامبول بلوالیا گیا، موصوف اسلامبول میں رھے یھاں تك كہ1908ء میں ان كو مكہ كا والی بناكر بھیج دیا گیا، حسین كی ذمہ داری عرب ممالك میں ماحول كو سازگار كرنے كی تھی اور امن وامان قائم كرنے اور اس علاقہ میں عثمانیوں كے نفوذ كو مضبوط بنانے كی كوشش كرنے كی تھی۔
سابق شرفاء خود كو لوگوں سے الگ ركھتے تھے اور لوگوں سے تكبر اور جبروتی سلوك كرتے تھے، لیكن شریف حسین ان كے برخلاف ایك متواضع اور عادل انسان تھے وہ مكہ كے لوگوں كوبھت چاھتے تھے اور ان كے فائدوں كی خاطر دفاع كرتے تھے اسی طرح بلند ھمت او رپاك دامنی كے مالك تھے۔ 618

عثمانیوں اور انقلاب حجاز سے شریف حسین كی مخالفت
عثمانی تركوں نے دسویں صدی ہجری (سلطان سلیم كے زمانہ) سے عرب كی سر زمین پر اپنے نفوذ میں اضافہ كیا اور عرب كے اھم علاقے یا بعض امور میں عرب كے تمام علاقے عثمانی حكومت كے ما تحت تھے لیكن عربوں نے عثمانی حكومت كے برخلاف ھمیشہ آواز اٹھائی اور قیام كرتے رھے، اور مختلف علاقوں جیسے عَسِیر، نجد اور سوریہ سے علم مخالفت بلند هوتے رھے۔
حافظ وھبہ صاحب كھتے ھیں كہ اس حقیقت كاانكار نھیں كیا جاسكتاھے كہ عثمانی افراد جنگجو اور فاتح تھے، لیكن اھل علم و ثقافت نھیں تھے بلكہ ھمیشہ جنگ وجدال اور ویران گری كرتے تھے، جس كی بنا پر ترك اور عرب علاقے جو ایك طولانی مدت تك ان كے زیر اثر رھے وہ پسماندگی كے عالم میں رھےبلكہ تنزّل ھی كرتے رھے، یھی وجہ تھی كہ عرب اور ترك كے آزادی خواہ افراد ایك دوسرے كے ساتھ متحد هوگئے اور مخفی طور پر كمیٹیاں بنانے لگے، اور آشوب برپا كرنے لگے، یھاں تك كہ سلطان عبد الحمید (سلطان عثمانی) كی حكومت ختم هوگئی اور عثمانی حكومت كی طرف سے قانونی حكومت كا اعلان هو گیا۔
عرب كے جوانوں كو یہ امید تھی كہ ھماری اس سر زمین میںقوانین كی وجہ سے كچھ اصلاحات انجام پائیں گی، لیكن ان كی امید كے برخلاف عثمانیوں نے اپنا رویہ ذرہ برابر بھی نھیں بدلا، اور گذشتہ زمانہ كی طرح عثمانی حكّام ،حاكم اور عرب محكوم رھے ،انھیں ان تمام وجوھات كی بناپر عربوں نے اپنے حقوق حاصل كرنے كی سوچی، اور مخفی كمیٹیوں كے علاوہ سیاسی پارٹیاں بھی بنائیں جن میں سے چند ایك اھم پارٹیاں اس طرح ھیں:
”جمعیت قَحطانی“ جو1909ء میں اسلامبول میں تشكیل پائی۔
”جمعیت عہد“ جوجمعیت قحطانی كا ایك حصہ تھی1913ء میں تشكیل پائی۔
”جمعیت لامر كزیہ“ جو1912ء میں مصرمیں سید رشید رضا اور ان كے ساتھیوں كے ذریعہ وجود میں آئی۔
چنانچہ آہستہ آہستہ ان جمعیتوں كے شعبہ جات دوسرے عربی شھروں میں بھی كھلنے لگے، مثلاً بغداد، دمشق، حلب، حمص، حماة اور بیروت وغیرہ میں ۔
1912ھ اور1913ھ میں عربی اور عثمانی اخباروں میں شدید مقابلہ بازی شروع هوگئی، بعض عثمانی مقالہ نگار اپنے مقالوں میں عربوں پر طعنہ كرتے تھے اور ان میں سے كچھ لوگوں پر جو اصلاحات كا دم بھرتے تھے اتھام اور تھمت لگاتے تھے كہ تم لوگ تو غیروں كے قبضے میں هو، اور ایسی جماعتوں انگریز ادارہ كررھے ھیں۔
ادھر عربی طالب علم پیرِس میں ایك انجمن بنانے كی فكر میں پڑگئے، اسی طرح مصر كی ”لامركزی جمعیت“ كو پیشكش كی كہ عربوں كو ان كے حقوق ملنے چاہئے، چنانچہ اس جمعیت كی شورائے عالی نے ان كی اس پیش كش كو قبول كرلیا، اور اپنی طرف سے كچھ نمائندے بھی پیرِس بھیج دیئے اور1913ء میں پیرِس كی جمعیت جغرافیائی كے بڑے ھال میں طلباء كی انجمن تشكیل پائی۔
ان تمام چیزوں كو دیكھتے هوئے عثمانیوں نے مزید شدت عمل اختیار كرلی اور بیروت میں بعض اصلاح طلب افراد كو گرفتار كرلیا، لیكن عوام كی طرف سے عكس العمل یہ هوا كہ بازاز بند هوگئے، چنانچہ عثمانیوں نے سوچا كہ كسی دوسرے راستہ كو اپنایا جائے اور وہ یہ كہ عربوں كے ساتھ ظاھری طور پر صلح ودوستی كی جائے لیكن اس كے ساتھ ساتھ كچھ دوسری تدبیریں بھی كی جائیں، اور ان كا یہ حیلہ كارگر بھی ثابت هوا، اوروہ یہ كہ خود اصلاح طلب لوگوں میں اختلاف هوگیا، مذكورہ تدبیر یہ تھی كہ ان میں سے بعض لوگوں كو بلند مقام دیا جائے مثلاً سید عبد الحمید زھراوی جو پیرس انجمن كے صدر تھے ان كو مجلس اعیان كا ممبر بنادیا گیا اور دوسرے چند اصلاح طلب جوانوں كو اھم كاموں میں مشغول كردیا گیا۔
ہ دیكھ كر عرب كے جوانوں میں ان كی نسبت غصہ بھڑك اٹھا اور انھوں نے یہ كہنا شروع كردیا كہ انھوں نے امانت میں خیانت كی ھے (جس كی وجہ سے ان لوگوں كو یہ بڑے بڑے عہدے مل گئے) جبكہ ھم لوگوںكو ان پر اعتماد تھا۔
ان تمام واقعات كو كچھ ھی دیر گذری تھی كہ عالمی جنگ شروع هوگئی، 619 اور جیسا كہ ھم بعد میں بیان كریں گے عثمانی حكومت كی حالت بدل گئی۔

انقلاب كی ابتدا اور خلافت شریف حسین كی داستان
عثمانی حكومت كے عہدہ داروں كے درمیان یہ بات مشهور هوگئی تھی كہ شریف حسین مخفی طور پر كچھ خاص كام انجام دے رھے ھیں اور اپنے كو تركوں سے الگ كرنا چاھتے ھیں، اور ان كے لڑكوںنے مصر سے گذرتے وقت ”بالُرد كِیچنر“ (انگلینڈ كا مشهور ومعروف سیاستمدار) سے گفتگو كیھے تاكہ ان كی اس سلسلے میں مدد كرے، اور اسی طرح یہ بات بھی مشهور هوئی كہ شریف حسین كا ارادہ صرف تركوں سے جدا هونے كا نھیں ھے بلكہ اس كی كوشش عثمانیوں سے حكومت بھی چھین لےنے كی ھے۔
عثمانیوں نے اس احتمالی خطرے سے نپٹنے كے لئے اپنے ایك شخص ”وُھیب بك“ كو حجاز كا والی بناكر بھیجا تاكہ وہ جاكر اس مھم كو ختم كردے۔
شریف كے خلاف جو منصوبے بنائے جاتے تھے وہ ان سب سے آگاہ هوجا تے تھے اور اپنی دور اندیشی سے وہ ان كے جال سے بچنے كی كوشش كرتے رھتے تھے، اس موقع پر عثمانی حكومت انگلینڈ اور فرانس كی ضدمیں جرمنی كے ساتھ متحد هوگئی، او ران دونوں ملكوں سے اعلان جنگ كردیا تھا، ادھر انگلینڈ كی حكومت نے شریف حسین سے (لرد كیچنركے ذریعہ) هوئی گفتگو كو آگے بڑھایا اور دونوں نے آپس میں اپنا ایك پروگرام بنالیا۔ 620
اس كے بعد برٹین كے حكومتی افراد اور شریف حسین كے درمیان خط وكتابت هونے لگی، چنانچہ ان خطوط كی عبارت كتاب جزیرة العرب فی القرن العشرین اور 2كتاب الثورة العربیة الكبریٰ میں موجود ھے۔ 3
ان خطوں میں سے ایك خط جس پر ”سر آرٹرماكماهون“ كے دستخط ھیں اس طرح وضاحت كی گئی ھے كہ انگلینڈ عربی ممالك كا استقلال چاھتا ھے اور جب خلافت كا مسئلہ بیان هوگا تو وہ اس كو پاس كردیگا، اسی طرح ماكماهون ایك دوسرے خط میں لكھتا ھے كہ ھم ایك بار پھر اس بات كو واضح طور پر كھتے ھیں كہ بادشاہ كبیر برٹین اس بات پر راغب ھیں اور خوش آمد كھتے ھیں كہ خلافت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نسبت ركھنے والے عرب كے ایك حقیقی شخص كوھی ملنی چاہئے۔
مختلف وجوھات كی بناپر شریف حسین نے عثمانیوں كی مخالفت شروع كردی، ان میں سب سے اھم انگریزوں كا وہ وعدہ تھا جس میں مدد كا عہد وپیمان كیا گیا تھا۔
اس سلسلہ میں ”كولو نل لُورَنس“ نامی انگریز 621 كی كوششوں كو بھی مد نظر ركھا جائے جو مدتوں سے حجاز میں رھا اور كافی عرصے سے جزیرہ نما عربستان میں عربی لباس پہن كر گھوما كرتا تھااور حجاز كے انقلاب كے وقت یعنی1334ھ میں شریف حسین اور اس كے دوستوں نے ”لورنس“ جو انگلینڈ كے ٹیلیفون آفس میں كام كرتا تھا، اس سے درخواست كی كہ مدینہ اور اس كے قرب وجوار میں هورھی جنگ كی مكمل طریقہ پر رپورٹ پیش كرے اور دونوں طرف سے میدان جنگ كی ضرورتوں كو بیان كرے تاكہ ضروری سامان بھیجا جاسكے، لورنس (مدینہ میں) فیصل اور شریف حسین كے بیٹے علی سے ملحق هوگیا، اور سپاہ كی مدد كرنے لگا، اور اپنے مشاہدات اور جستجو كے نتائج كو بھت جلد بھیج دیتا تھا، یھی نھیں بلكہ انگلینڈ كی مدد بھی یكے بعد دیگرے پهونچتی رھی، چنانچہ شریف حسین كی مدد كے لئے چار هوائی جھاز بھیجے گئے۔ 622
بھر حال پھلے مدینہ اور پھر مكہ میں شریف حسین اور عثمانی سپاھیوں میں جنگ كا آغاز هوا، اس وقت مدینہ میں عثمانی لشكر كا سردار عثمانی حكومت كانامور شخص فخری پاشا تھا۔
ہ لشكر عثمانی حكومت كی طرف سے مضبوط اور طاقتورهوتا رھا، شریف بھی اپنی طاقت كو جمع كرنے میں مشغول رھا اور قرب وجوار كے روٴسا سے مدد طلب كرتا رھا اور شریف كے بیٹوں نے بھی اپنے باپ كی ھر ممكن مدد كی چاھے وہ سیاسی هو یا كسی دوسرے طریقہ سے۔
لڑائی كا آغاز 9 جنوری1916ء كو مدینہ میں شروع هوا، فخری پاشا نے شریف كے لشكر كو شكست دیدی، اس كے بعد بھی مقابلہ هوتا رھا، اور چونكہ فخری پاشا بھت قدرتمند تھا شریف نے مجبوراً انگلینڈ سے مدد مانگی، چار مھینے كی لگاتار گفتگو كے بعد مصر او رانگلینڈ كے كچھ سپاھی اس كی مدد كے لئے پهونچے جبكہ شریف كی امید یں اس سے كھیں زیادہ تھیںاور یھیں سے انگلینڈ كی بنسبت شریف حسین كی مایوسی شروع هوگئی۔
شریف نے طاقت اور قوت كو جمع كرنے كی بھت كوشش كی، ادھر عالمی جنگ بھی ختم هونے والی تھی اور اس جنگ كے خاتمہ پر عثمانی حكومت كا بھی خاتمہ هوجانا تھا۔
ادھر عالمی جنگ ختم هوئی، ادھر شریف حسین نے مدینہ میں فخری پاشا كو گھیر لیا (كیونكہ عالمی جنگ كے آخر میں عثمانی حكومت اس حالت میں پهونچ گئی تھی كہ فخری پاشا كی مدد نھیں كرسكتی تھی) چنانچہ اسی مدت میں ترك فوج كو حجاز سے واپس بلالیا گیا جس كا نتیجہ یہ هوا كہ شریف حسین نے بغیر كسی زحمت اور مشكل كے حجاز پر اپنا سكّہ جمالیا۔

قاضی القضاة اور مجلس شیوخ كے صدر كا تقرر
7 ذی الحجہ 1334ھ میں شریف حسین كی طرف سے دو حكم جاری كئے گئے جن كی وجہ سے لوگوں نے اس كی حكومت كو مستقل هونے كا پیش خیمہ تصور كیا اس وقت یہ تصور كیا جارھا تھا كہ 8 یا 11ذی الحجہ كو جب اس كی خدمت میں مبارك باد پیش كرنے جائیں گے تو وہ لوگوں سے اپنی خلافت كے بارے میں بیعت لے گا۔
ان دو فرمان كی عبارت سید رشید رضا (مدیر مجلہ المنار) كے سفر نامہ میں موجود ھے : شریف حسین نے اپنے پھلے فرمان میں شیخ عبد اللہ سراج (مفتی حنفی) كو قاضی القضاة كے عہدہ پر فائز كیا اوراس كو وكیل الوكلاء بھی بنایا (شریف حسین كا بیٹا امیر علی رئیس الوزراء تھا یعنی عبد اللہ سراج كو نائب رئیس الوزراء بنایا) اور اسی فرمان میں امیر عبد اللہ (شریف حسین كا دوسرا بیٹا) كو وزیر خارجہ اور نائب وزیر داخلہ معین كیا، اور عبد العزیز بن علی كو وزیر دفاع بنایا، شیخ علی مالكی كو معارف كا وزیربنایا اسی طرح شیخ یوسف بن سالم (سابق شھردار) كو وزیر منافع عمومی بنایا نیز شیخ محمد بن امین (حرم شریف كے سابق مدیر) كو اوقاف كی وزارت دی۔
گویا شریف حسین نے اپنے اس فرمان میں وزیروں كی كابینہ بنالی۔
شریف حسین نے دوسرے فرمان میں جو شیخ عبد اللہ سے خطاب تھا شیخ محمد صالح شَیبی(خانہٴ كعبہ كے كلید دار)كو تقریباً پارلیمنٹ جیسی مجلس تشكیل دینے كا حكم دیتے هوئے ان كو اس كا صدر بنایا۔
سید رشید رضا صاحب جن سے یہ بات نقل هوئی ھے ان لوگوں میں سے ھیں جنھوں نے شریف حسین كی حكومت كے مستقل هونے میں بھت كوشش كی ھے، اور اس سلسلہ میں خود شریف كے سامنے ایك زبردست تقریر بھی كی، ان تمام چیزوں كے باوجود شریف حسین نے حكومت اور خلافت كے لئے اعلان نھیں كیا اور لوگوں نے دیكھا كہ خطیب جمعہ نے حسب معمول سلطان عثمانی كے لئے دعا كرائی۔ 623
شریف حسین كی حكومت نے چند سال كے بعد كافی حد تك استحكام پیدا كرلیالیكن جیسا كہ بعد میں تفصیل سے بیان هوگا زیادہ دنوں تك نہ چل سكی۔

عثمانی بادشاهوں كی داستان خلافت
عصر حاضر كے بعض موٴلفین نے یورپی موٴلفین سے نقل كرتے هوئے لكھا ھے كہ جب عثمانی سلطان سلیم كے ھاتھوں مصر فتح هوا تو922ء میں مصر كے عباسی خلیفہ نے خلافت كو محمد المتوكل علی اللہ كے سپرد كردیا او رخلافت كی باگ ڈور اس كے حوالے كردی۔
لیكن اس زمانہ كی لكھی گئی تاریخ مصر وشام اور ان لوگوں كی كتابوں سے جو ان واقعات كے شاہد تھے مذكورہ بات كی تصدیق نھیں هوتی، مثلاً ابن ایاس مصر میں اور ابن طولون شام میںتھے اور ھر روز اپنی آنكھوں دیكھے واقعات یا مورد اعتماد لوگوں سے سنے واقعات كولكھتے رھتے تھے،چنانچہ ان لوگوں نے ان باتوںكو نھیں بیان كیا، اور عباسی خلیفہ سے سلطان سلیم پر حكومت كو منتقل هونے كے بارے میں نھیں لكھا ھے، بلكہ ابن ایاس كی تحریر سے یہ بات معلوم هوتی ھے كہ سلطان سلیم قبل اس كے كہ مصر كو فتح كرے اپنے كو خلیفہ تصور كرتا تھا (لیكن اس كے القاب میں خلافت كا ذكر نھیں هوتا تھا اور خطبوں میں اس كا نام خلیفہ كے عنوان سے نھیں لیاجاتا تھا)۔
سلطان سلیم نے، امیر طومان بائی مصر كے حاكم كے نام ایك خط میں اس طرح لكھا :
”مصر كا خراج (مالیات اور ٹیكس) جس طرح بغداد كے خلفاء كے پاس بھیجا جاتا تھا وہ میرے پاس بھیجا جائے كیونكہ میںروئے زمین پر خدا كا خلیفہ هوں، اور میں حرمین شریفین كی خدمت كرنے میں تجھ سے بھتر هوں۔ 624
حقیقت یہ ھے كہ اس زمانہ میں خلافت كو كھیل بنا ركھا تھا وہ اس طرح كہ سلطان سلیم اپنے كو مصر كے خلیفہ عباسی كا جانشین هونے میں كوئی فخر اور عظمت نھیں سمجھ رھا تھا، اسی طرح بغداد میں خلافت عباسی كے ختم هوجانے كے چند سال بعد ایك شخص نے یہ دعویٰ كیا :
میں خلفائے عباسی كی اولاد میں هوں، اس وقت كے مصر پر حكومت كرنے والے بادشاهوں كا لوگوں میں كوئی معنوی اثر نہ تھا تو انھوں نے اس شخص كو پاكر یہ طے كیا كہ مصر میں خلافت عباسی تشكیل دی جائے چنانچہ اس شخص كو خلیفہ عباسی كے عنوان سے خلیفہ بنادیاگیا۔ جس كے نتیجہ میں ایك طرح كی خلافت عباسی مصر میں وجود میں آگئی جو كئی صدی تك جاری رھی، جبكہ یہ خلافت اس وقت كے بادشاهوں كے كھیل كے علاوہ كچھ نھیں تھا۔
اور جس وقت سلطان سلیم نے922ء میں مصر اور شام پر حملہ كیا تو خلیفہ محمد المتوكل علی اللہ سلطان سلیم كے سامنے تسلیم هوگیا اورسلطان سلیم نے اس كومع ساتھیوں كے اسلامبول روانہ كردیا، چنانچہ وہ چند سال تك وھاں رھا شروع میں تواس پر سلطان كا لطف وكرم هوتا رھا، لیكن بعد میں اس سے دستبردار هوگیا۔
سلطان نے اس سے خلافت چاھی هو، یہ بات معتبر مدارك اور كتابوں میں نھیں ملتی (البتہ جھاں تك موٴلف كی نظر ھے)۔
اگرچہ عصرحاضر كے بعض موٴلفین كی كتابوں میں یہ بات دیكھنے كو ملتی ھے، منجملہ محمد كردعلی كی كتاب خطط الشام میں” نامق كمال“ كے حوالہ سے نقل كیا گیا ھے كہ خلیفہ عباسی نے جامع ”ایاصوفیہ“ (اسلامبول) میں سب كے سامنے واضح طور پر خلافت كو اپنے سے آل عثمان پر منتقل كردی ھے۔ 625
ہ بات مسلم ھے كہ سلطان سلیم كواس كی آخری عمر تك (926ھ) خلیفہ كا عنوان نھیں دیا جاتا تھا اور نہ ھی اس كا نام خطبوں میں خلیفہ كے عنوان سے ذكر هوتا تھا، بلكہ محمد المتوكل علی اللہ خلیفہ تھا۔
قارئین كرام! اس سلسلہ میں ابن طولون926 ھ كے بارے میں كھتا ھے:
”محرم كا چاند نمودار هوا درحالیكہ محمد متوكل علی اللہ عباسی خلیفہ تھا۔ 626
ہ بات طے ھے كہ اگر مصر یا اسلامبول میں خلافت كی تفویض عمل میں آتی تو اس تاریخ سے پھلے هوتی ۔
سلطان سلیم كے چند صدی بعد یعنی بارهویں صدی ہجری سے اور سلطان عبد الحمید كے زمانہ سے عثمانی سلاطین بعض وجوھات كی بنا پر اپنے كو خلیفہ، امام المومنین وغیرہ جیسے القابوںسے نوازنے لگے، 627 اور ان كے خاتمہ تك یہ القاب كم وبیش ان كے لئے استعمال هوتے رھے، لیكن عرب ان كو خلافت كا غاصب كھتے رھے ۔

خلافت كی امانتیں اور دوسرے آثار جو ”توپ قاپی“ میوزیم میں موجود ھیں
دوسری مشهور بات یہ ھے كہ مصر كے عباسی خلیفہ نے خلافت كی امانتیں اور حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی كچھ چیزیں (یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب چیزیں) سلطان سلیم كے سپرد كردیں یا سلطان سلیم نے اس سے لے لیں، مذكورہ چیزوں كے بارے میں یہ وضاحت كردینا ضروری ھے كہ شام میں خلافت بنی امیہ اور بغداد میں بنی العباس اور مصر میں خلافت عباسی كے تمام خلفاء اس بات كا دعویٰ كرتے آئے ھیں كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خلفاء اربعہ سے متعلق كچھ چیزیں ان كے پاس ھیں ،اور اس وقت خلافت كی یھی پہچان تھی جو شخص بھی خلیفہ بنے یہ مذكورہ چیزیں اس كے پاس هونی چاہئیں۔
موٴلف كی نظر میں سب سے پھلی دلیل مسعودی كی وہ تحریر ھے جس میں بنی امیہ سے بنی عباس كی طرف خلافت جانے كے بارے میں بیان كیا گیا ھے اور وہ یہ كہ جب مروان (بنی امیہ كا آخری خلیفہ) قتل هوا، عامر بن اسماعیل جو مروان كا قاتل تھا، وھاں پهونچا جھاں مروان كی لڑكیاں اور عورتیں تھیں كیا دیكھا كہ وھاں پر ایك خادم تلوار لئے كھڑا ھے۔
اسماعیل كے ساتھیوں نے اس (خادم) كو گرفتار كرلیا، اور جب اس سے اس بات كی وجہ پوچھی گئی تو اس نے كھا كہ مجھے مروان نے حكم دے ركھا ھے كہ اگركبھی میرا قتل هوجائے تو اس كی بیویوں اور لڑكیوں كو قتل كردوں، اس كے بعد اس خادم نے كھا كہ اگر تم مجھے قتل كردو گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی میراث سے محروم هوجاؤ گے، اس كے بعدوہ خادم ان كو ایك جگہ لے كر آیا او روھاں سے مٹی (ریت) ہٹا كر پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا ”بُردَہ“628 (ایك خط دار عبا) اور عصا نكالا جس كو مروان نے دفن كر ركھا تھا،
عامر بن اسماعیل نے ان كو عبد اللہ بن علی كے سپرد كیا او راس نے سفاح كو دیدیا۔ 629
ان كے علاوہ كچھ دوسری چیزیں بھی تھیں جن كو عباسی خلفاء محفوظ ركھتے تھے منجملہ پیغمبر اكرمكی ریش مبارك كے بال، عثمان كا قرآن ،جن كے بارے میں مصر كے خلفائے عباسی یہ ادعا كرتے تھے كہ یہ چیزیں مغلوں كے حملوں سے محفوظ ر ھیں، اور انھیں چیزوںاور دیگر قیمتی اشیاء كو سلطان سلیم مصر سے اسلامبول لے گیا یا ایك قول كے مطابق 630 المتوكل علی اللہ نے ”بُردہ“ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی ریش مبارك كے چند بال اور عمر كی تلوار سلطان سلیم كو دئے، 631 اس سامان میں ایك شمشیر بھی تھی جس كو خلفاء حضرت رسول اللہ كی تلوار بتاتے تھے، چنانچہ اسی قول كے مطابق قاضی رشید بن الزبیر كھتے ھیں كہ خلیفة الراضی كے پاس مذكورہ سامان میں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی شمشیر بھی تھی632 پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بعض منسوب چیزیں غیر خلفاء كے پاس بھی پائی گئی ھیں، منجملہ یہ كہ (ابن طولون كی تحریر كے مطابق) 16 ربیع الآخر921ھ میں چند لوگ بیت المقدس سے دمشق میں داخل هوئے جن كے پاس رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب كچھ چیزیں تھی منجملہ ایك كاسہٴ آب، اور عصاء كا كچھ حصہ اور یہ دونوں چیزیں ٹوٹی هوئی تھیں، اور ایك شخص ان كو اپنے سر پر ركھے هوئے تھا، اور ان كے سامنے علم اٹھائے هوئے تھے اور طبل بجارھے تھے، ملك الامراء، قضات، صوفی لوگ اور دوسرے لوگ ان كے پیچھے پیچھے چل رھے تھے، اور بھت سے لوگ ان چیزوں كو دیكھنے كے لئے جمع هوجاتے تھے۔
میں (ابن طولون) نے ان چیزوں كے بارے میں سوال كیا تو انھوں نے جواب دیا كہ یہ پانی كا ظرف اور عصا كا ایك حصہ ابن ابی اللطف كے باپ كے پاس تھے اور یہ چیزیں قلقشندی خاندان سے ان كے پاس پهونچی تھیں، چنانچہ ملك الامراء نے ان چیزوں كوبطور عاریہ مانگا تاكہ ان كے ذریعہ متبرك هوسكے، لیكن بعد میں معلوم هوا كہ یہ سب چیزیں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی نھیں تھی بلكہ لیث بن سعد كی تھیں۔ 633
اسی طرح ابن ایاس كی تحریر كے مطابق جس وقت سلطان مصر ”حلب“ سے سلطان سلیم كا مقابلہ كرنے كے لئے نكلاتو خلیفہ اس كے داھنی طرف كھڑا تھا، اور اس كے چاروں طرف چالیس اھم شخصیات كھڑی تھیں جن كے پاس حریر كے كپڑے سے بنے غلاف میں ایك ایك قرآن مجید تھا، جس كو وہ اپنے سر پر ركھے هوئے تھے جن میں ایك قرآن مجید عثمان كے ھاتھ كا لكھا هوا بھی تھا۔ 634
اسی طرح ا بن طولون صاحب كھتے ھیں كہ سلطان سلیم جس وقت دمشق پهونچے اور ”جامع اموی“ میں اور ” مقصورہ“ (مسجد كی وہ جگہ جھاں پر سلطان یا امام نماز پڑھا كرتے تھے) میں جاكر نماز پڑھی توانھوں نے عثمان كے (ھاتھوں كے لكھے هوئے) قرآن كی بھی تلاوت كی۔ 635
خلاصہ یہ ھے كہ سلطان سلیم نے مذكورہ چیزوں كو جمع كیا چاھے وہ خلفاء كے پاس هوں یا دوسرے افراد كے پاس، اور اس كے بعد یہ چیزیں عثمانی سلاطین كے پاس موجود رھیں، اور جب عثمانی حكومت كا خاتمہ هوا اور ”تركی جمهوریت“ كا آغاز هواتو یہ تمام چیزیں شھر اسلامبول میں (بسفور كے كنارے جامع یاصوفیہ كے نزدیك) ” توپ قاپی قلعہ “ میں ركھ دی گئیں، جو شخص بھی ان كو دیكھناچاھے وہ دیكھ سكتا ھے۔ 636

شریف حسین كی حكومت
6 محرم الحرام 1353ھ مطابق 3 دسمبر1918ء بروز پنجشنبہ مكہ میں شریف حسین كی عرب كے بادشاہ كے عنوان سے بیعت كی جانے لگی، اور اس كے تین دن بعدانھوں نے اپنے تینوں بیٹوں كو درج ذیلعہدوںپر معین كیا:
امیر علی، رئیس الوزراء ۔
امیر فیصل، وزیر داخلہ ۔
امیر عبد اللہ، وزیر خارجہ ۔ 637
شریف حسین نے اپنی مرضی كے مطابق چند سال تك حكومت كی لیكن درج ذیل دلیلوں كی وجہ سے اس كی حكومت كی بنیاد متزلزل هوگئی:
1۔ انگلینڈ اور فرانس كی حكومتوں نے شریف حسین كی بادشاھت كو تسلیم نہ كیا بلكہ ایك مدت كے بعد اس كی حكومت كو فقط حجاز پر قابل قبول سمجھا۔
2۔ اس كے مد مقابل دشمن بھت قوی تھا مثلاً ابن سعود جو اپنی تمام تر طاقت حجاز كی حكومتچھیننے میں صرف كررھا تھا، جبكہ شریف اس كو كوئی اھمیت نھیں دے رھا تھا۔
3۔ ایك عربی حكومت بنانے كے سلسلے میں اس نے عرب كے شیوخ اور امراء سے كسی طرح كی كوئی گفتگو نھیں كی تھی اور خود ھی سب كچھ انجام دیدیا، اور ظاھر ھے اس صورت میں ان میں سے كوئی بھی اس كی اطاعت نھیں كرتا تھا۔
شریف حسین نے وزیروں كو معین كرنے میں جلد بازی سے كام لیا، جیسا كہ پھلے بھی انقلاب كے شروع میں جلدی بازی سے كام لیا تھا اور اس كے تمام مقدمات مكمل هونے سے پھلے كام شروع كردیا اور عثمانی فوج كے ساتھ جنگ شروع كردی۔ 638

شریف حسین اور مسئلہ خلافت
شریف حسین نے 1342ھ تك تقریباً اپنی مرضی كے مطابق حكومت كی اور اس مدت میں اس كے دو بیٹوں نے بھی حكومت كی، جن میں سے ایك ملك فیصل جس كو عراق كی حكومت ملی اور امیر عبد اللہ جس كو مشرقی اردن كی حكومت پر مقرر كیا گیا ۔
639
چنانچہ اسی سال (یعنی 1342ھ میں) شریف حسین نے خلافت بھی حاصل كرلی، اس طرح كہ مشرقی اردن میں اپنے بیٹے امیر عبد اللہ كے پاس سفر كیا وھاں كے مختلف قبیلوں كے لوگ اس كے دیدار كے لئے آتے رھے اور اس كو خلافت كے لئے انتخاب كرنے كا نظریہ پیش كرتے رھے، جس كے نتیجہ میں ان قبیلوں كے نمائندوں كا ایك جلسہ هوا، اور شریف حسین كو مسلمانوں كا خلیفہ منصوب كردیا گیا، اور مشرقی اردن كی حكومت نے یہ اعلان كردیا :” شریف حسین كی خلیفة المسلمین كے عنوان سے بیعت كی جائے، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مصطفی كمال” جدید تركی كابانی“(جو عثمانی خلیفہ بھی تھا) كو تركیہ سے نكال دیا گیا اور خلافت كے خاتمہ كا اعلان كردیا گیا۔
ابھی شریف حسین(جس كو ملك العرب كھا جاتا تھا) كے ساتھ امیر المومنین كا لقب اضافہ نھیں هوا تھا كہ تخت خلافت پر مسند نشین هونے كی غرض سے مكہ پلٹ آئے۔ 640
اس سلسلہ میں سید عبد الرزاق حسنی كھتے ھیں جس وقت تركوں نے خلافت كے عہدہ كو ختم كردیا، اور عثمانی خاندان كو تركی سے باھر نكالدیا،اس وقت ملك حسین كو خلافت كے لئے منتخب كرنے كی باتیں هونے لگی، اور جس وقت وہ اپنے دوسرے بیٹے امیر عبد اللہ كے پاس جدید اردن كی جانچ پڑتال كے لئے گیا اس وقت نوری سعید وزیر دفاع عراق كی سرپرستی میں ایك ھیئت اس كے دیدار كے لئے گئی۔
عراق كے لوگوں نے شریف كے بیٹے ملك فیصل جو جلد ھی عراق كے سلطان بنے تھے ٹیلیگرام كے ذریعہ شریف حسین كی خلافت كے بارے میں اپنے اعتماد كا اظھار كردیا، اس نے بھی عراقیوں كے حسن ظن كا شكریہ كا ٹیلیگرام كے ذریعہ كیا، ادھر ملك فیصل نے بھی 12 شعبان1342ھ ایك اعلان میں ان تمام لوگوں كا شكریہ ادا كیا جنھوں نے اس كے باپ ملك حسین كو خلفة المسلمین اور امیر المومنین كی حیثیت سے مباركباد اور تہنیت كے پیغام دئے تھے۔ 641

ابن سعود كا حجاز پر حملہ كرنا
شریف حسین كی بادشاھت تقریباً آٹھ سال تك باقی رھی، لیكن مختلف وجوھات كی بناپر جن میں سے بعض كو ھم نے بیان بھی كیا ھے، اس حكومت كی چولیں ھلنے لگیں اس مدت میں ابن سعود نے بھی كوئی روك ٹوك نھیں كی، جس كی وجہ سے یہ سمجھا جارھا تھا كہ وہ گوشہ نشین هوگیا ھے، لیكن ابن سعود دوراندریشی كررھا تھا اور حجاز پر حملہ كرنے كے لئے بھترین فرصت كا منتظر تھا۔
ابن سعود كی سب سے زیادہ توجہ دو چیزوں كی طرف تھی ایك یہ كہ اگر اس نے حجاز پر حملہ كیا تو كیا انگلینڈ كی حكومت خاموش رھے گی اور دوسری طرف اس كے دوبیٹے ملك فیصل عراقی حاكم اور ملك عبد اللہ اردن كا حاكم ھر حال میں اپنے باپ كی مدد كریں گے۔
انگلینڈ كے بارے میں جیسا كہ تاریخ مكہ كے موٴلف لكھتے ھیں كہ642 ”اس كی استعماری چال اس بات كا تقاضا كرتی تھی كہ ”عقبہ بندرگاہ“ حجاز سے جدا هوجائے اور مشرقی اردن سے ساتھ ملحق هو جائے جو امیر عبد اللہ بن شریف حسین كی حكومت كے زیر اثر ھے۔
لیكن اس سلسلہ میں شریف حسین انگریزوں كی سخت مخالفت كرتا تھا جس كی بناپر انھوں نے بھی اس كے ھمیشگی دشمن ابن سعود كے مقابلہ میں تنھا چھوڑ دیا، آخر كار ابن سعود نے حجاز پر حملہ كرنے كا منصوبہ بنالیا، اور اسی پروگرام كے تحت ماہ ذیقعدہ 1342ھ كے شروع میں اس نے اپنے باپ عبد الرحمن كی سرپرستی میں ریاض میں علماء اور روٴسا كی ایك انجمن تشكیل دی۔
عبد الرحمن نے سب سے پھلے گفتگو كا آغاز كیا كہ ھمارے پاس كچھ خطوط آئے ھیں جن میں ھم سے حج بجالانے كی درخواست كی گئی ھے، اور میں نے ان خطوط كو اپنے بیٹے عبد العزیز كے حوالے كردیا ھے اور وھی تمھارا امام ھے643 جو بھی چاھتے هو اس سے كهو۔
اس كے بعد ابن سعود نے خطاب كیا اور كھا تمھارے خطوط ھمارے پاس پهونچے اور میں تمھاری شكایتوں سے آگاہ هوا، ھر چیز كا ایك جگہ پر خاتمہ هوجاتا ھے، اور ھر كام بموقع انجام دیا جانا چاہئے، ابن سعود كی تقریر كے بعد آپس میں گفتگو هوئی جس كے نتیجہ میںحاضرین نے حجاز پر حملہ كرنا طے كیا، كیونكہ تین سال سے شریف حسین نے نجدیوں كو حج كرنے كی اجازت نھیں دی تھی۔
چنانچہ ابن سعود نے اپنے منصوبے كے تحت” سلطان بن بجاد“كی سرداری میں حملہ كے لئے ایك لشكرمكہ كی طرف روانہ كیا اس لشكر نے كئی حملوں كے بعد ماہ صفر 1343ھ میں طائف كو فتح كرلیا۔
صلاح الدین مختار كے بقول شریف حسین (شریف حسین كو سلطنت پر پهونچنے كے بعد ملك حسین كھا جانے لگا) نے جب اپنی حالت كمزور دیكھی، جدّہ میں برٹین كے سفیر سے مدد چاھی، چنانچہ اس سفیر نے وعدہ دیا كہ وہ اس كی درخواست كو انگلینڈ پهونچائے گا۔
شریف حسین جدّہ سے مكہ واپس چلا گیا اور انگلینڈ كی مدد كا انتظار كرتا رھا، ادھر انگلینڈ كی حكومت نے اپنے سفیر كو جواب دیا كہ ابن سعود اور شریف میں جنگ ایك مذھبی جنگ ھے او رھم اس میں مداخلت نھیں كرنا چاھتے، لیكن اگر حالات ان كے درمیان صلح كرانے كی اجازت دیں تو ھم اس چیز كے لئے تیار ھیں۔ 644

ملك علی كو سلطنت ملنا
اس وقت مكہ میں ”حزب وطنی“ كے نام سے ایك انجمن بنائی گئی جس كا اصل مقصد حجاز كو افرا تفری كے ماحول سے نكالكر امن وامان قائم كرنا، چنانچہ اس انجمن نے یہ طے كیا كہ ملك حسین حكومت سے ہٹ جائے اور اس كی جگہ اس كا بیٹا ملك علی حجاز كا بادشاہ بنے۔
چنانچہ” حزب وطنی“ انجمن نے چھار ربیع الاول 1343ھ میں تقریباً ایك سو چالیس علماء، اھم شخصیات اور تاجروں كے دستخط كراكے ملك حسین كو ٹیلیگرام كیا اور اپنی رائے كا اظھار كیا۔ ملك حسین نے مجبوراً اس پیشكش كو قبول كرلیا، اس كے دوسرے دن حزب وطنی انجمن نے ملك علی جو جدّہ میں تھا ٹیلیگرام بھیج كر مكہ بلالیا چنانچہ ملك علی نے 5ربیع الاول كو حكومت كی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لے لی، لیكن اس تبدیلی كا بھی كوئی اثر نھیں هوا، كیونكہ ابن سعود ملك علی كو بھی اسی نگاہ سے دیكھتا تھا جس نگاہ سے اس كے باپ ملك حسین كو دیكھتا تھا645 لہٰذا سر زمین حجاز كے حالات اسی طرح خراب رھے۔

شریف حسین كا انجام
شریف حسین حكومت چھوڑ كر مكہ سے جدّہ كی طرف روانہ هوئے اور دس ربیع الاول كو جدّہ پهونچ گئے ماہ ربیع الاول كی 16 ویں شب میں اپنے غلاموں كے ساتھ كشتی سے عقبہ بندرگاہ كے لئے روانہ هوئے، اور اپنے مقصد پر پهونچنے كے بعد بھی ملك علی كی ترقی اور پیشرفت كے لئے كوشش كرتے رھے، اس كی حكومت كو سر سبز دیكھنا چاھتے تھے۔
اسی مدت میں انگلینڈ كی حكومت نے اپنے امیر البحر كے ذریعہ ملك حسین كو اخطاریہ (اَلٹی میٹم) دیا كہ تین ہفتوں كی مدت میں عقبہ بندرگاہ كو چھوڑ دےں، اور جھاں جانا چاھیں وھاںچلے جائیں۔
شروع میں انھوں نے اس دھمكی كو نھیں مانا لیكن كچھ مدت گذرنے كے بعد اور كچھ واقعات كی بناپر جن كو ھم بیان نھیں كرسكتے مجبور هوگیا اور كشتی پر سوار هوكر جزیرہ ”قبرس“ كے لئے روانہ هوگیا۔
شریف حسین اس قدر انگلینڈ كی حكومت سے بدظن هوگئے تھے كہ اپنے مخصوص باورچی كے علاوہ كسی دوسرے كے ھاتھ كا كھانا نھیں كھاتے تھے تاكہ كوئی ان كو (انگلینڈ كی حكومت كے اشارہ پر) زھر نہ دیدے۔
شریف حسین1931ء تك قبرس میں رھے اور اسی سال بیمار هوئے اور جب ان كی بیماری بڑھتی گئی،وہ عَمّان (اپنے بیٹے امیر عبد اللہ كی حكومت كے پائے تخت) چلے گئے، اور اسی سال وھیں پر انتقال كیا اور بیت المقدس میں” قدس شریف قبرستان“ میں دفن كردئے گئے۔ 646

ابن سعود مكہ میں
اس وقت مدینہ، جدّہ اور بندرگاہ ینبع كے علاوہ تمام سر زمین ابن سعود كے اختیار میں تھی، اور دونوں طرف سے نمائندوں كی آمد ورفت هوتی رھی تاكہ آپس میں صلح اوردوستی هوجائے لیكن كوئی نتیجہ نھیں نكلا۔ ابن سعود 10ربیع الثانی 1343ھ كو ریاض سے عمرہ كے لئے مكہ كی طرف روانہ هوا، اور دوسرے حكّام منجملہ امام یحيٰ یمن كے بادشاہ كو خط لكھا كہ اپنی طرف سے مكہ میںكچھ نمائندے بھیجےں تاكہ عالم اسلام كے تمام نمائندے ایك جگہ جمع هوكر یہ طے كریں كہ مسجد الحرام اور خانہ كعبہ كو سیاسی معاملات سے كس طرح دور ركھا جائے۔
ابن سعود كے ساتھ بھت سے سپاھی، علمائے نجد، اور محمد بن عبد الوھاب كے خاندان والے نیز دوسرے قبیلوں كے سردار بھی تھے، چوبیس روز كی مدت میں مكہ كے قریب پهونچے اور جس وقت عرفات پھاڑ كے علاقہ میں پهونچے تو ”ابن لُوٴی“ نے جو مكہ میں اس كے لشكر كا سردار تھا تقریباً ایك ہزار اخوان لوگوں كے ساتھ اس كے استقبال كوگیا۔
ابن سعود گھوڑے سے نیچے اترا، اور مسجد الحرام كی طرف چلا، وھاں پهونچ كر طواف كیا اور جس وقت وہ مكہ میں پهونچا تو ماہ جمادی الاول كی ساتویں تاریخ تھی۔

علمائے مكہ اور علمائے نجد میں مناظرہ
دوسرے روز مكہ كے علماء جن میں سب سے اھم شخصیت شیخ عبد القادر شیبی كلید دار خانہ كعبہ647 تھے ابن سعود كے دیدار كے لئے آئے، ابن سعود نے علماء كو مخاطب كرتے هوئے ایك تقریر كی، جس میںمحمد بن عبد الوھاب كی دعوت كی طرف یاددھانی كرائی، اور كھا كہ ھمارے دینی احكام احمد بن حنبل كے اجتھاد كے مطابق ھیں، اور اگر آپ لوگ بھی اس بات كو مانتے ھیں تو آئےے آپس میں بیعت كریں كہ كتاب خدا اور سنت خلفائے راشدین پر عمل كریں۔
تمام لوگوں نے اس بیعت كی موافقت كی، اس كے بعد مكی علماء میں سے ایك عالم دین نے ابن سعود سے درخواست كی كہ كوئی ایسا جلسہ ترتیب دیں جس میں علمائے مكہ اور علمائے نجد اصول اور فروع كے بارے میں مباحثہ اور مناظرہ كریں، اس نے بھی اس پیش كش كو قبول كرلیا، اور 11 جمادی الاول كو پندرہ علمائے مكہ اور سات علمائے نجد ایك جگہ جمع هوئے اور كافی دیر تك بحث وگفتگو هوتی رھی اور آخر میں علمائے مكہ كی طرف سے ایك بیانیہ نشر كیا گیا جس میں یہ لكھا گیا تھا كہ اصول كے بارے میں ھم میں اور نجدی علماء میں كوئی فرق نھیں ھے منجملہ یہ كہ جو شخص اپنے او رخدا كے درمیان كسی كو واسطہ قرار دے كافر ھے، اور اس كو تین دفعہ توبہ كے لئے كھا جائے اگر توبہ نھیں كرتا تو اس كو قتل كردیا جائے، اسی طرح قبروں كے اوپر عمارت بنانا، وھاں چراغ جلانا قبور كے پاس نماز پڑھنا حرام ھے، اسی طرح اگر كوئی كسی غیر خدا كو اس كی جاہ ومنزلت كے ذریعہ پكارتا ھے تو وہ گویا بدعت كا مرتكب هوا ھے، اور شریعت اسلام میں بدعت حرام ھے۔ 648

جدّہ پر قبضہ
تقریباً ایك سال تك یعنی ماہ جمادی الاول 1344ھ تك ابن سعود اور ملك علی كے درمیان جدّہ میں جنگیں هوتی رھیں، لیكن ماہ جمادی الاول كے آخر میں ملك علی نے جدّہ چھوڑنے اور اس كو ابن سعود كو دینے كا فیصلہ كرلیا، اور اس كام كے بدلے جدّہ میں انگلینڈ كے سفیر ”گُورْدون“ كے ذریعہ ابن سعود كو كچھ پیش كش كی گئی، چنانچہ پھلی جمادی الثانی كو ابن سعود اور انگلینڈ كے سفیر میں ملاقات هوئی اور سفیر نے ملك علی كی سترہ شرائط پر مشتمل پیش كش كو ابن سعود كے حوالہ كیا، اور ابن سعود نے ان شرائط كو قبول كرلیا، اس كے بعد چھارم جمادی الثانی كو سفیر نے ابن سعود كو خبر دی كہ ملك علی انگلینڈ كی ”كورن فِلاوِر“ نامی كشتی پر سوار هوكر عَدَن كے لئے روانہ هورھے ھیں اور وھاں سے عراق جانے كا قصد كرلیا،
6 جمادی الثانی كو ملك علی مذكورہ كشتی پر سوار هوكر عدن كے لئے روانہ هوگئے اور ساتویں دن كی صبح كو ابن سعود جدّہ پهونچ گئے، اور جب شھر كے قریب پهونچے تو ”كَندرہ“ نامی محلہ میں بھت زبر دست استقبال هوا۔ 649

مدینہ پر قبضہ
جس وقت ابن سعود مكہ سے جدہ كے راستہ میں ”بَحرہ“ نامی مقام پر پهونچا تو امیر مدینہ ”شریف شحات“ كی طرف سے ایك مخصوص قاصد آیا اور ایك خط ابن سعود كو دیا جس میں امیر مدینہ نے اس كی اطاعت پر مبنی پیغام بھیجا تھا اور اس خط میں ابن سعود كو لكھا تھا كہ اپنی طرف سے كسی كو مدینہ كا والی اور امیر بناكر روانہ كردے، چنانچہ ابن سعود یہ خط دیكھ كر مكہ واپس پلٹ آیا اور اپنے تیسرے بیٹے امیر محمد كو مدینہ كا امیر بناكر روانہ كیا، اور 23 ربیع الثانی كو امیر محمد اپنے كچھ سپاھیوں كے ساتھ مدینہ میں وارد هوا، اور اھالی مدینہ كو اپنے آنے كا ہدف سنایا۔
لیكن ملك علی كی طرف سے معین كردہ سردارِ لشكر نے قبول نہ كیا لیكن غذا اور وسائل كی قلت ملك علی بھی اس كی مدد كرنے سے قاصر تھا دو مھینہ كی پائیداری كے بعدشھر مدینہ امیر محمد كے حوالہ كردیا، چنانچہ امیر محمد نے 19 جمادی الاول 1344ھ كی صبح كو مدینہ شھر پر قبضہ كرلیا۔ 650

قبروں اور روضوں كی ویرانی
ھم نے اس بات كی طرف پھلے بھی اشارہ كیا ھے كہ وھابیوں كے قدم جھاں بھی جاتے تھے وھاں پر موجود تمام روضوں اور مقبروں كو مسمار كردیا كرتے تھے، اور جب بھی حجاز كے شھروں پر قبضہ كیا ھے انھوں نے یہ كام انجام دیا ھے۔
مكہ كے بعض روضوں اور مقابر كو پھلی ھی دفعہ میں قبضہ هونے كے بعد مسمار كرچكے تھے، جیساكہ ھم نے پھلے عرض كیا ھے، اور اس وقت مكہ اور قرب وجوار میں باقی بچے تمام روضوں اور مقبروںكو مسمار كردیا، یھاں تك كہ حجاز كے جس علاقہ میں بھی مقبرے تھے سب كو گراكر خاك كردیا، سب سے پھلے طائف میں موجود عبد اللہ بن عباس كی گنبد كو گرادیا، اور اس كے بعد مكہ میں موجود حضرت عبد المطلب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے دادا، جناب ابوطالب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے چچا، جناب خدیجہ پیغمبر اكرم كی زوجہ كے روضوں كو مسمار كیا، اسی طرح پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور جناب فاطمہ زھرا (س) كی جائے ولادت پر بنی عمارتوں كو بھی مسمار كردیا۔
اسی طرح جدّہ میں جناب حوّا (یا جناب حوّا سے منسوب) كی قبر كو مسمار كردیا، خلاصہ یہ كہ مكہ اور جدہ كے علاقے میں موجود تمام مزاروں كو گرادیا، اسی طرح جب مدینہ پر ان كا قبضہ تھا جناب حمزہ كی مسجد اور ان كے مزار كو اور اسی طرح شھر سے باھر شہداء احد كے مقبروں كو بھی مسمار كردیا۔

قبرستان بقیع كی تخریب
جس وقت مدینہ منورہ وھابیوں كے قبضہ میں چلا گیا، مكہ معظمہ كا شیخ ”عبد اللّٰہ بِن بُلْیَہِدْ“ وھابیوں كا قاضی القضاة ماہ رمضان میں مدینہ منورہ آیا اور اھل مدینہ سے وھاں موجود قبروں كو منہدم كرنے كے بارے میں سوال كیا كہ تمھارا اس سلسلہ میں كیا نظریہ ھے؟ كچھ لوگوں نے تو ڈر كی وجہ سے كوئی جواب نہ دیا، لیكن بعض لوگوں نے ان كے گرانے كو ضروری كھا۔
اس سلسلہ میں مرحوم علامہ سید محسن امین كھتے ھیں كہ شیخ عبد اللہ كا سوال كرنے كا مقصد حقیقت میں سوال كرنا نھیں تھا كیونكہ وھابیوں كی نظر میں تمام روضوں كو یھاں تك پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے روضہ مبارك كو مسمار كرنے میں كوئی شك وتردید نھیں تھی اور یہ كام تو ان كے مذھب كی اصل بنیاد تھی، اس كا سوال اھل مدینہ كی تسكین كے لئے تھا۔
سوال كا جواب ملنے پر مدینہ اور قرب وجوار كے تمام روضوں، مزارات اور ضریحوں كو ویران كردیاگیا یھاں تك كہ بقیع میں دفن ائمہ علیهم السلامكی گنبد كو بھی ویران كردیاگیا جس میں جناب عباس عموئے پیغمبر اكرم بھی دفن تھے اور دیوار اور قبروں پر بنی ضریحوں كو بھی گرادیاگیا، اسی طرح پیغمبر اكرم كے پدر بزرگوار جناب عبد اللہ (ع) اور مادر گرامی جناب آمنہ كی گنبدوں كو بھی توڑ ڈالا، اسی طرح پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی ازواج كے گنبد، اور عثمان بن عفان اور اسماعیل بن جعفر الصادق ں كی گنبدوں، نیز امام مالك كی گنبد كو بھی منہدم اور مسمار كردیاگیا، خلاصہ یہ كہ مدینہ اور اس كے قرب وجوار اور ”ینبع“ میں كوئی بھی قبر باقی نھیں چھوڑی گئی۔ 651

قبروں كی ویرانی پر ایران اور دیگر اسلامی ملكوں كا ردّ عمل
جس وقت روضوں كی ویرانی بالخصوص ائمہ بقیع كی قبروں كے انہدام كی خبر دوسرے اسلامی ملكوں میں پهونچی، تو سب مسلمانوں كی نظر میں یہ ایك عظیم حادثہ تھا، چنانچہ ایران عراق اور دیگر ممالك سے ٹیلیگرام كے ذریعہ اعتراض هوئے، درس كے جلسے اور نماز جماعت تعطیل هوگئی، اور اس سلسلہ میں اعتراض كے طور پر عزاداری هونے لگی، ان میں سب سے اھم اور غمناك خبر یہ تھی كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی گنبد پر بھی گولیاں چلائی گئیں (یھاں تك كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر اقدس بھی مسمار كردی گئی) لیكن بعد میں معلوم هوا كہ آخری بات صحیح نھیں ھے جس كا انكار خود وھابیوں نے بھی كیا (یعنی پیغمبر اكرم كی قبر مسمار نھیں كی گئی)۔ 652
ایران كی حكومت نے اس سلسلہ میں بھت زیادہ اھتمام كیااور علماء كی موافقت سے یہ بات طے هوئی كہ ایران سے كچھ نمائندے باقاعدہ طور پر حجاز جائیں اور وھاں جاكر نزدیك سے حقیقت كا پتہ لگائیں اور یہ نمائندے حجاز میں وھابیوں كے اس كارنامہ كی تفصیلی رپورٹ پیش كریں۔
مرحوم علامہ عاملی مذكورہ مطلب كی شرح میں اس طرح فرماتے ھیں كہ ایران كے علماء نے ایك اجتماع كیا اور انہدام بقیع كو ایك عظیم حادثہ شمار كیامیں اس وقت دمشق میں تھا لہٰذا خراسان كے ایك عالی قدر عالم نے مجھے ٹیلیگرام كے ذریعہ اس حقیقت سے باخبر كیا۔ 653

بقیع، انہدام سے پھلے
ھم نے اپنے حج كے سفر نامے میں قبور ائمہعلیهم السلامكو منہدم هونے سے پھلے كی وضعیت كو تفصیل كے ساتھ ذكر كیا ھے، اور منہدم هونے سے پھلے اوربعد كی فوٹو بھی پیش كی ھے، یھاں پر موضوع كی مناسبت سے اس بارے میں كچھ تفصیل بیان كرتے ھیں:
1344ھ سے پھلے بقیع میں دفن ائمہعلیهم السلام اور دیگر قبور پر گنبد تھے جن میں فرش، پرد ے چراغ، شمعدان اور قندیلیں بھی تھیں، جو حضرات اس تاریخ سے پھلے وھاں گئے ھیں انھوں نے وھاں پر موجود تمام روضوں كی تفصیلات اپنے سفر ناموں میں بیان كی ھے، اور اس سلسلہ میں بعض حضرات نے وھاں كی گنبدوں اور قبور سے متعلق فوٹو بھی دئے ھیں۔
ان موٴلفین میں میرزا حسین فراھانی بھی ھیں جو 1302ھ میں سفر حج كے لئے گئے، موصوف قبور بقیع كے بارے میں اس طرح رقمطراز ھیں:
بقیع كا قبرستان ایك وسیع قبرستان ھے، جو مدینہ كی مشرقی دیوار سے متصل ھے اور اس كے چاروں طرف پتھرسے تین گز اونچی دیواربنی هوئی ھے، جس كے چار دروازے ھیں اس كے دو دروازے مغرب كی طرف ھیں اور ایك دروازہ جنوب كی طرف اور چوتھا دروازہ مشرق كی طرف ھے جو شھر كے باھر باغ كی گلی میں ھے، اور اس قبرستان میں اتنے لوگوں كو دفن كیا گیا ھے كہ یہ قبرستان زمین سے ایك گز اونچا هوگیا ھے، اور جس وقت حجاج آتے ھیں اس زمانہ میں قبرستان كے دروازے مغرب كے وقت تك كھلے رھتے ھیں جو بھی جانا چاھے جاسكتا ھے، لیكن حج كے دنوں كے علاوہ پنجشنبہ كی ظھر كے وقت كھلتا ھے اور جمعہ كے دن غروب تك كھلا رھتا ھے، اور اس كے علاوہ بند رھتا ھے، مگر یہ كہ كوئی مرجائے اور اس كو وھاں دفن كرنا هو۔
اس قبرستان میں شیعہ اثنا عشر ی كے چار ائمہعلیهم السلامكی قبریں ھیں جو 8 گوشوں كی ایك بڑی گنبد كے نیچے دفن ھیں، اور یہ گنبد اندرسے سفیدھے، معلوم نھیں كہ یہ گنبد كب سے بنی هوئی ھے لیكن محمد علی پاشا مصری نے 1334ھ میںعثمانی سلطان محمود خان كے حكم سے ان كی مرمت كرائی تھی، اور اس كے بعد سے ھر سال عثمانی سلاطین كی طرف سے بقیع میں موجود تمام بقعوں كی مرمت هوتی ھے۔
اس بقعہ كے بیچ میں ایك بڑی ضریح ھے جو بھترین لكڑی سے بنی ھے اور اس بڑی ضریح كی وسط میں لكڑی كی دو دوسر ی ضریح بھی ھیں ان دونوں ضریحوںمیں پانچ حضرات دفن ھیں :
1۔ حضرت امام حسن مجتبیٰں، 2۔ حضرت امام سجادں، 3۔ حضرت امام محمد باقر ں 4۔ حضرت امام جعفر صادق ں، 5۔ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے چچا جناب عباس ں، (بنی عباس انھیں كی اولادھیں) اس بقعہ مبارك كے وسط میں دیوار كی طرف ایك اور قبر ھے جس كے بارے میں كھا جاتا ھے كہ یہ جناب فاطمہ زھرا = كی قبر ھے۔
جناب فاطمہ زھرا = كی قبر تین مقامات پر مشهور ھے:
1۔ بقیع كے اس حجرے میں جس كو بیت الاحزان كھا جاتا ھے، اور اسی وجہ سے بیت الاحزان میں جناب فاطمہ زھرا = كی زیارت پڑھی جاتی ھے۔
2۔ دوسرے یھی بقعہ كہ جھاں پر شیعہ سنی زیارت پڑھتے ھیں، اسی قبر كے سامنے ایك گنبد پر زرگری سے تیار كردہ پردہ لگا هوا جس پر لكھا ھے سلطان احمد بن سلطان محمد بن سلطان ابراھیم ،1131ھ ۔
اس روضہ میں او ركوئی زینت نھیں ھے مگر یہ كہ دو عدد چھوٹے ”چھل چراغ“، چند دھات كی شمعدان، اور وھاں كا فرش چٹائی كا ھے اور چار پانچ افراد متولی اور خدام ھیں ،جو موروثی پوسٹ پر قابض ھیں اور كوئی خاص كام نھیں كرتے بلكہ ان كا كام حجاج سے پیسے لینا ھے۔
اھل سنت حجاج بھت كم وھاں زیارت كے لئے جاتے ھیںلیكن ان كے لئے زیارت كرنے میں كوئی ممانعت نھیں ھے اور ان سے پیسہ بھی نھیں لیا جاتا، لیكن شیعہ حضرات سے پیسہ لے كر تب اندر جانے دیا جاتا ھے، شیعہ زائرین كو تقریباً ایك ”قران“ سے پانچ ”شاھی“654 تك خادموں كو دینا پڑتا ھے، زائرین سے لئے گئے پیسہ میں سے نائب الحرم اور سید حسن پسر سید مصطفی كا بھی حصہ هوتا تھا، البتہ پیسہ دینے كے بعد زیارت اور نماز میںكوئی تقیہ نھیں هوتا تھا، زیارت كو كھلے عام پڑھا جاسكتا تھا، اور شیعہ زائرین كو پھر كسی كا كوئی خوف نھیں هوتا تھا، اس روضہ كے پیچھے ایك چھوٹا سا روضہ ھے جو حضرت فاطمہ زھرا=كا بیت الاحزان ھے۔
اس كے بعد مرحوم فراھانی بقیع كی دیگر قبروں كی توصیف كرتے ھیں جن پر عمارت بنی هوئی ھے۔ 655
اسی طرح میر زا فرھاد جو1292ھ میں حج كے لئے سفر كرچكے ھیں اپنے سفر نامہ ”ہدایة السبیل“ میں كھتے ھیں:
”میں(پیغمبر كی زیارت كے بعد)باب جبرئیل سے باھر نكلا اور ائمہ بقیع علیهم السلامكی زیارت كے لئے مشرف هوا كہ ائمہ اربعہ كی ضریح بڑی ضریح كے درمیان ھے، اور جناب عباس پیغمبر اكرمكے چچا كی قبر اسی ضریح میں ھے، لیكن ائمہ كی ضریح دوسری ضریحوں سے جدا ھے۔
وھاں كے متولی نے روضہ كے دروازہ كو كھولا اور میں نے اس ضریح كا طواف كیا، پیروں كی طرف صندوق او رضریح كے درمیان بھت كم جگہ ھے جس كی وجہ سے انسان بمشكل وھاں سے نكل سكتا ھے۔ 656
نائب الصدر شیرازی جو1305ھ میں حج سے مشرف هوئے ھیں، اپنے سفر نامہ ”تحفة الحرمین“ میں اس طرح كھتے ھیں :بقیع میں داھنی طرف ایك مسجد ھے جس كے اوپر یہ لكھا ھے:
”ہٰذٰا مَسْجِدُ اُبَیّ بِنْ كَعْبَ وَصَلیّٰ فِیْہِ النَّبِیّ غَیْرَ مَرَّةٍ“
(یہ مسجد ابی بن كعب ھے جس میں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے متعدد بار نماز پڑھی ھے،)
بقیع میں چار ائمہ:امام حسن مجتبیٰ ں، امام زین العابدین ں، امام محمد باقر ں، امام جعفر صادق ں كی قبر ایك ھی ضریح میں ھے۔
كھا یہ جاتا ھے جناب عباس بن عبد المطلب بھی وھیں دفن ھیں، اسی طرح دیوار كی طرف ایك پردہ دار قبرھے جس كے بارے میں كھا جاتا ھے كہ یہ جناب فاطمہ زھرا (س) كی قبر ھے۔ 657
ابراھیم رفعت پاشا جو1320ھ، 1321ھ اور 1325ھ میں مصر كے رئیس حجاج تھے انھوں نے اپنے سفر نامہ ”مرآة الحرمین“ میں بقیع میں دفن مشهور ومعروف حضرات مثلاً پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے صحابہ وغیرہ كی تفصیل بیان كی ھے، وہ كھتے ھیں كہ اھل بیت (بقیع میں مدفون ائمہ مراد ھیں) كا قبہ دوسرے قبوں سے بلند ھے۔
رفعت پاشا نے ان تمام روضوں كے فوٹو بھی دئے ھیں اور یہ بھی دكھایا ھے كہ ائمہ اھل بیت كا روضہ دوسرے روضوں سے بلند تر اور خوبصورت بنا هوا ھے۔ 658
بقیع میں ائمہ علیهم السلامكی قبروں كے انہدام كے سلسلہ میں یہ بات بیان كرنا بھت ضروری ھے كہ ان قبروں پر قدیم زمانہ (پھلی صدی) سے گنبد، بارگاہ اور سنگ قبر موجود تھے، ھم نے پھلے بھی قبور پر عمارتوں كے سلسلہ میں مسعودی صاحب مروج الذھب اور سمهودی صاحب وفاء الوفاء كی عبارتوں كو ذكر كیا كہ حضرت فاطمہ زھرا = اور بقیع میں دفن ائمہ علیهم السلامكی قبور پرتحریر موجود تھی، اور اس بات كی تائید كہ پھلی صدیوں میں ائمہ علیهم السلامكی قبروں پر گنبد تھے ابن اثیر كی وہ تفصیل ھے جو انھوں نے 495ھ كے واقعات میں ذكر كی ھے كہ اس سال قم سے ایك معمار مجد الملك بلاسانی (براوستانی صحیح ھے) نامی كو حضرت امام حسن مجتبیٰ ں اور عباس بن عبد المطلبۻ كے قبہ كی مرمت كے لئے بھیجا گیا، اور یہ شخص منظور بن عمارہ والی مدینہ كے ھاتھوں قتل هوا۔ 659
اس بات سے معلوم هوتا ھے كہ پانچویں صدی سے ائمہ بقیع اور جناب عباس عموئے پیغمبر اكرمكی قبروں پر گنبد تھے، اور ان كی مرمّت كرانے كا مطلب یہ ھے كہ ایك طویل زمانہ سے یہ عمارتیں موجود تھیں اور خراب هونے كی وجہ سے ان كی مرمت كی ضرورت پیدا هوئی۔
سمهودی متوفی911ھ نے بھی بقیع كی قبور كے بارے میں پھلی صدی سے دسویں صدی تك كی تفصیل بیان كی ھے۔
وہ كھتے ھیں كہ جناب عباس پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حسن بن علی (ع) اور بقیع میں دیگر دفن شدہ حضرات كی قبروں پر بھت اونچی گنبد ھے۔
اسی طرح ابن نجار كھتے ھیں كہ اس گنبد (قبور ائمہعلیهم السلام) كی عمارت بھت قدیمی اور بلند ھے، اس عمارت كے دو دروازے ھیں كہ ان میں ایك دروازہ ھر روز كھلتا ھے، ابن نجار نے اس عمارت كے بانی كا نام ذكر نھیں كیا ھے لیكن ”مطری“ صاحب كھتے ھیں كہ اس عمارت كا بانی ”خلیفة الناصر احمد بن المستضی“ ھے۔
قارئین كرام! ”مطری“ صاحب كا یہ نظریہ صحیح نھیں دكھائی دیتا، كیونكہ ابن نجار اورخلیفہ ناصر دونوں ھمعصر تھے اور ابن نجار نے اس عمارت كو قدیمی بتایا ھے لیكن میں (سمهودی) نے اس بقعہ كی محراب میں لكھا دیكھا كہ یہ عمارت منصور مستنصر باللہ كے حكم سے بنائی گئی ھے، لیكن نہ تو اس كا نام اور نہ ھی عمارت كی تاریخ لكھی هوئی ھے۔
سمهودی صاحب اس كے بعد كھتے ھیں كہ قبر عباس اور حسن ں زمین سے اونچی ھے اور ان كا مقبرہ وسیع ھے اور اس كی دیواروں میں خوبصورت لوح اور تختی بھترین طریقہ سے لگائی گئی ھیں، اور آخر میںسمهودی صاحب نے بقیع میں موجود دوسری عمارتوں كا بھی ذكر كیا ھے۔ 660
اسی طرح ابن جبَیر چھٹی صدی كے مشهور ومعروف سیاح نے بھی جناب عباس اور حضرت امام حسن ں كی قبراور ان پر موجود بلند گنبد اور اس كے اندر كی خوبصورتی كی توصیف كی ھے۔ 661

مقدس مقامات كے لئے ایك اسلامی انجمن كی تشكیل
ابن سعود نے مكہ اور مدینہ پر قبضہ كرنے كے بعد یہ سوچا كہ ان دونوں شھروں پر حكمرانی كرنے كے لئے عالم اسلام كے مشورے سے كوئی قدم اٹھائے۔
اسی منصوبہ كے تحت مختلف اسلامی ملكوں سے مثلاً تركی، ایران، افغانستان اور یمن سے اسی طرح دیگر سر زمینوں كے روساٴ مثلاً مصر، عراق، مشرقی اردن سے نیز امیر عبد الكریم ریفی، حاج امین الحسینی مفتی بزرگ فلسطین، ٹونس، دمشق اور بیروت كے والیوں كو دعوت دی تاكہ اس عظیم كانفرس میں شركت كریں یا اپنے نمائندے بھیجیں، (تاكہ ان دونوں شھروں كی حكومت كے بارے میں غور وفكر كیا جاسكے) اور یہ دعوت 10ربیع الثانی 1344ھ میں دی گئی۔
لیكن اكثر لوگوں نے اس دعوت كو قبول نھیں كیااور صرف چند ملكوں نے اس كو قبول كیا اور مذكورہ انجمن كی تشكیل میں شركت كی، شركت كرنے والوں میں ہندوستان كے مسلمان بھی تھے،662 سب نے مل كر یہ طے كیا كہ حجاز میں ایك ایسی جمهوری حكومت تشكیل دی جانی چاہئے جس میں تمام مسلمانوں كو شریك كیا جائے، اور یہ بھی طے هوا كہ اس كا اھم خرچ بھی ھم خود قبول كریں گے،663 لیكن یہ پیش كش مختلف وجوھات كی بناپر عملی نہ هو سكی۔

ایران كے شركت نہ كرنے كی وجہ
مرحوم علامہ عاملی كی تحریر كے مطابق ایران نے مذكورہ كانفرس میں اپنا نمائندہ بھیجنے كا منصوبہ بنالیا تھا لیكن جیسے ھی بقیع میں قبور ائمہ علیهم السلامكی ویرانی كی اطلاع پهونچی، تواعتراض كے طور پر ایران نے اپنا نمائندہ نہ بھیجنے كا فیصلہ كرلیا، اور اپنے حاجیوں كو بھی حج كے لئے نھیں بھیجا تاكہ كھیں ان كے لئے كوئی خطرہ درپیش نہ هو، اور جب1346ھ میں كوئی خطرہ نہ دكھائی دیا تو حاجیوں كو حج كرنے كی اجازت دے دی گئی۔ 664

حجاز میں ابن سعود كی سلطنت
مذكورہ انجمن كا كوئی نتیجہ حاصل نہ هواتو مكہ معظمہ كے تیس علماء جدّہ پهونچے اور ان كے حضور میں ایك انجمن تشكیل دی گئی، اور 22جمادی الثانیہ1344ھ كو اتفاق رائے سے یہ طے هوا كہ سلطان عبد العزیز آل سعود كی حجاز كے بادشاہ كے عنوان سے بیعت كی جائے، اور اس كو یہ اطلاع دی كہ وہ بیعت كے لئے كوئی وقت معین كرے۔
25ربیع الثانی بروز جمعہ نماز جمعہ كے بعد باب الصفا (مسجد الحرام كے ایك دروازے) كے پاس جمع هوئے اور ابن سعود بھی تشریف لائے اور ایك پروگرام كے ضمن میں سید عبد اللہ دملوجی نے جو ابن سعود كے مشاورین میں سے تھا، بیعت كے طریقہٴ كار كو لوگوں كے سامنے بیان كیا،665 (خوشی كا یہ عالم تھا كہ) اس موقع پر توپ كے ایك سو ایك گولے داغے گئے۔
اس طریقہ سے ابن سعود نجد وحجاز كا بادشاہ بن گیا اور سب سے پھلے اس كو رسمی طور پر قبول كرنے والا” روس“ تھا، اس كے بعد انگلینڈ، فرانس، هولینڈ، تركی اور اس كے بعد دوسری حكومتوں نے قبول كرنا شروع كیا۔
سلطان عبد العزیز بن سعود نے اپنی حكومت كو مضبوط بنانے كے لئے بھت زیادہ كوشش كی، اور اس سلسلہ میں بھت سی حكومتوں سے معاہدے كئے، اور بھت سی شورش اور بلووں كو منجملہ فیصل الدرویش كی شورش كو ختم كیا اور اپنے تمام مخالفوں كو نیست ونابودكردیا، ایك دفعہ اس پر مسجد الحرام میں طواف كے وقت چار یمنیوں (زیدی مذھب) نے حملہ كردیا لیكن وہ زندہ بچ گیا، اور آخر كار ملك میں امن وامان قائم هوگیا جو اس ملك میں بے نظیر تھا۔ 666

ابن سعود اور ادریسی حكمراں
جس وقت ابن سعود نے حجاز كو اپنے تصرف اور قبضہ میں كرلیا، اس وقت امام یحيٰ (امام یمن) نے سید حسن ادریسی كے زیر ولایت عسیر نامی جگہ(جو نجدكے علاقہ میںتھا) پر حملہ كردیا اور وھاں كی اكثر چیزوں كو نابود كردیا، یہ دیكھ كر ادریسی افراد خوف زدہ هوگئے كہ كھیں ایسا نہ هو كہ امام یحيٰ كے حملوں سے آل ادریس كی ولایت خطرے میں پڑجائے، اس وجہ سے ابن سعود كو خطوط لكھے اور اپنی طرف سے اس كے پاس نمائندے بھیجے، جس كے نتیجے میں 14 ربیع الثانی 1345ھ كو دونوں كے درمیان معاہدہ هوا جس میں یہ طے هوا كہ عسیر كی امارت ابن سعود كی حمایت میں ھے، اس معاہدہ میں 14بند تھے جس كے دوسرے بند میں امیر ادریس كو ابن سعود كی اجازت كے بغیر كسی بھی ملك سے گفتگو كرنے كی اجازت نھیں تھی اور تیسرے بند كے مطابق امیر ادریس كو یہ بھی حق حاصل نھیں تھا كہ كسی كے ساتھ اعلان جنگ كرے یا كسی كے ساتھ صلح كرے، مگر یہ كہ آل سعود كی اجازت سے هو، اور اس كے چھٹے بند كے مطابق امیر ادریس كو عسیركے داخلی امور میں تصرف كرنے كا حق دیا گیا تھا۔
لیكن ماہ رجب 1351ھ میں ادریسیوں نے ابن سعود كے خلاف شورش كردی، چنانچہ ابن سعود نے حجاز اور نجد سے لشكر تیار كركے عسیر كی طرف روانہ كیا، جس كے نتیجہ میں وھاں كے حالات صحیح هوگئے، اس وقت ابن سعود نے موقع كو غنیمت شمار كیا اور عسیر میں ادریسیوں كی فرمان روائی كے خاتمہ كا اعلان كردیا، اور اس كے بعد عسیر بھی سعودی عرب كا ایك استان (اسٹیٹ) بن گیا، اور سیدحسن ادریسی كے لئے عسیر میں قیام نہ كرنے كی شرط پر ماھانہ دوہزار سعودی ریال مقرر كئے ۔ 667

تیل نكالنے كا معاہدہ
ابن سعود كے سب سے اھم كاموں میں سے ایك كام مشرقی علاقہ احساء (ظھران) میں تیل نكالنے كا معاہدہ ھے۔
سب سے پھلا معاہدہ مئی 1933ء میں سعودی كی عربی تیل كمپنی اور امریكی كی ”آرامكو“ نامی كمپنی كے درمیان هوا، جس پر سعودیہ كی طرف سے شیخ عبد اللہ سلیمان اور مذكورہ كمپنی كی طرف سے ”ھاملٹن“ نے دستخط كئے۔ 668

اسم گذاری
17 جمادی اول1351ھ میں سلطان عبد العزیز آل سعود نے ایك فرمان بشمارہ 2716صادر كیا كہ 21 جمادی الاول سے ھمارا ملك ”المملكة العربیة السعودیة“ كے نام سے پكارا جائے اور جب ملك كا نام تبدیل هوگیا تو حكومت كے وزیروں اور اركان نے یہ طے كیا كہ سلطان عبد العزیز كے سب سے بڑے بیٹے امیر سعود كو ولی عہدی كے لئے منصوب كردیا جائے۔
16محرم1352ھ كو بادشاہ نے فرمان صادر كردیا اور وزراء كابینہ اور مجلس شوریٰ نے امیر سعودكی ولی عہدی كی بیعت كرنے كا وقت معین كردیا۔

ابو طالب یزدی كا واقعہ
ذی الحجہ 1362ھ میں ابو طالب یزدی كومكہ میں قتل كردیا گیا ،اور مكہ میں رونما هونے والے دوسرے واقعات جو قارئین كرام كے لئے بھت مفید ھیں تفصیل اور اس كی اصلی وجہ بیان كی جاتی ھے :
چنانچہ 14ذی الحجہ 1362ھ كو مكہ معظمہ میں یہ اعلان منتشر هوا:
”بلاغ رسمی رقم 82 ۔ جریمة منكرة:
القتالشرطة القبض فی بیت اللّٰہ الحرام فی یوم 12 ذی الحجة1362 علی المدعو عبدہ طالب بن حسین الایرانی من المنتسبین الی الشیعةفی ایران وهو متلبس باقذر الجرائم واقبحھا وھی حمل القاذورات وهو یلقیھا فی المطاف حول الكعبة المشرفة بقصد ایذاء الطائفین واھانة ہذا المكان المقدس وبعد اجراء التحقیق بشاٴنہ وثبوت ہذا الجرم القبیح منہ فقد صدر الحكم الشرعی بقتلہ وقد نفذ حكم القتل فیہ فی یوم السبت 14 ذی الحجة 1362 ولذا حرر۔

ایك رسمی اعلان شمارہ 82 بھیانك جرم۔
12 ذی الحجہ 1362ھ كو پولیس نے بیت اللہ الحرام میں شیعہ مذھب سے تعلق ركھنے والے ایك ایرانی بنام طالب بن حسین كو گرفتار كیاھے، جس نے بھت برا كام انجام دیاھے، اس نے كچھ كوڑا كركٹ اپنے ساتھ لیا اور طواف كرنے والوں كی اذیت كے لئے مطاف (طواف كرنے كی جگہ) میں ڈالدیا،تحقیقات اور گناہ ثابت هوجانے كے بعد شرعی طور پر 14 ربیع الاول كو اس كے قتل كے حكم پر عمل هو گیا۔ 669
جب یہ خبر ایران پهونچی تو اس سے لوگ بھت ناراض هوئے اور سب لوگ تعجب كرنے لگے۔
كسی كو بھی حقیقت كا پتہ نھیں تھا یھاں تك كہ اس سال گئے هوئے ایرانی حجاج بھی حج سے واپس پلٹ آئے، انھوںنے حقیقت كو اس طرح بیان كیا :
” ابو طالب یزدی كا طواف كے وقت سر چكرانے لگا، اور قے آنے لگی، تو انھوں نے طواف كرنے والوں كے راستہ میں گندگی نہ پھیلنے كی وجہ سے اس كو اپنے دامن میں لے لیا، جس كی وجہ سے ان كا لباس احرام گندہ هوگیا“۔ 670
چند مصری اور سعودی حاجیوں نے ان كو پكڑ كر وھاں كی پولیس كے حوالہ كردیا اور انھیں لوگوں نے عدالت میں گواھی بھی دی، كہ یہ شخص اپنے ساتھ میں گندگی اٹھائے هوئے تھا اور مطاف كو گندا كررھا تھا۔
سوال یہ پید اهوتا ھے كہ جن لوگوں نے ابو طالب یزدی كو اس طریقہ سے دیكھا ان كے ذہن میں فوراً یہ بات كیسے آئی كہ ابو طالب مطاف كو گندا كرنا چاھتا ھے، اور بیت اللہ الحرام كی توھین كرنا چاھتا ھے، اس تصور كی اصل وجہ كیا تھی؟!
اور كیا یہ فقط ان كا تصور تھا، یا ان چند لوگوں نے عمداً كسی خاص مقصد كے تحت یہ الزام اور تھمت لگائی؟!
ہ موضوع واقعاً پیچیدہ او رمبھم دكھائی دیتا ھے اور یہ بات روشن نھیں ھے كہ یہ واقعہ ایك اتفاق ھے یا اس كے پیچھے كسی كا ھاتھ ھے؟ اور دوسری تعجب خیز بات یہ ھے كہ كون شخص عاقل ایسا هوسكتا ھے كہ مسلمان هوكراتنی مشكلات كے ساتھ كتنی آرزوں اور تمناوں كے بعد حج سے مشرف هونے كے لئے وھاں جاتا ھے، او راس زمانہ میں سفر حج میں كتنی مشكلات تھیں671 ان تمام مشكلات كو برداشت كرنے كے بعد حج كے لئے پهونچے اور اتنے شرمناك كام انجام دے، ؟!
اس كے بعد یہ سوال پیدا هوتا ھے كہ عدالت پر یہ كیسے ثابت هوا كہ یہ شخص ایسا ارادہ ركھتا تھا؟ كیونكہ نہ عدالت اس كی زبان كو سمجھتی تھی اور نہ ھی وہ عدالت كی زبان سمجھتے تھے، كس نے ان كا دفاع كیا، كیا كوئی فارسی جاننے والا وكیل ان كا دفاع كررھا تھا؟ ان تمام باتوں كے علاوہ الزام اور فیصلہ میں صرف دو دن كا وقت لگا، در حالیكہ اسلامی نظریہ كے مطابق قتل كے سلسلہ میں ھر طرح كی احتیاط كرنی چاہئے، كہ كھیں غلطی كے سبب كسی بے گناہ شخص كی جان نہ چلی جائے ۔
قارئین كرام! حقیقت تویہ ھے كہ ابوطالب كے قتل كی اصل وجہ معلوم نہ هوسكی، یھاں تك كہ چند سال پھلے شیخ حر ّ عاملی صفویہ دور كے عظیم الشان عالم دین كی سوانح حیات كا مطالعہ كیااور كتاب ”خلاصة الاٴثر“ كے مطالعہ میںابو طالب كے واقعہ كی طرح ایك اور واقعہ ملا اور یہ بات سمجھ میں آئی كہ یہ واقعہ ابوطالب كے واقعہ سے بڑاگھرا تعلق ركھتا ھے او راگر غور وفكر كی جائے تو كسی نتیجہ پر پهونچا جاسكتا ھے۔

شیخ حرّ عاملی كا مكہ معظمہ میں ایك واقعہ اور اس سے متعلق فریب كاری
جب 1087ھ یا 1088ھ میں شیخ محمد بن الحسن معروف بہ حرّ عاملی مكہ معظمہ پهونچے، تو عثمانی تُركوں نے بعض ایرانیوں كو خانہ كعبہ میں گندگی پھیلانے كے جرم میں قتل كردیا، چنانچہ شیخ حرّ عاملی، سیدموسیٰ (مكہ كے حسینی اشراف میں سے) كی پناہ میں چلے گئے، اور سید موسیٰ نے ان كو كسی اپنے مورد اعتماد شخص كے ساتھ یمن بھجوادیا۔
صاحب خلاصة الاثر اس واقعہ كے ضمن میں اس طرح ذكر كرتے ھیں كہ یہ بھت بڑی ذلت اور رسوائی ھے، میں یہ تصور كرسكتا كہ اگر كسی شخص نے اسلام كی بُو یا عقل كی بُو بھی سونگھی هو تو وہ ایسا برا كام كرسكتاھے۔
واقعہ اس طرح ھے كہ خانہ كعبہ كے بعض خادموں نے دیكھا كہ كعبہ شریف ایك جگہ سے گندا هوگیا ھے اور یہ خبر مشهور هوگئی، اور اس كا ھر طرف چرچا هونے لگا، چنانچہ مكہ كی اھم شخصیات شریف بركات اور شریف مكہ، اور محمد میرزا قاضیٴ مكہ كے پاس گئے اور مذكورہ واقعہ كے بارے میں گفتگو هونے لگی، آخر كار ان كے ذہن میں یہ بات آئی كہ یہ كام رافضیوں كا ھے، اور یہ طے كرلیاكہ جو لوگ رافضی مشهور ھیں ان كو قتل كردیا جائے، چنانچہ اس سلسلہ میں فرمان صادر كردیاگیا۔
عثمانی تُرك اور بعض اھل مكہ مسجد الحرام میں آئے، اور پانچ شیعہ منجملہ ایك بوڑھے اور زاہد وعابد انسان سید محمد مومن كو قتل كردیا ۔ 672
صاحب تاریخ مكہ مذكورہ واقعہ كے بارے میں اس طرح لكھتے ھیں كہ شوال1088ھ میں صبح كے وقت لوگوں نے خانہ كعبہ كو (پاخانہ مانندكسی چیز سے) گندا پایا، اور لوگوں نے ایك قدیمی عقیدہ كے تحت ”میں نھیں جانتا كہ كس طرح ان كی عقل اس طرح كے عقید ہ كی اجازت دیتی ھے“ شیعوں پر اس كام كا الزام لگادیا، چنانچہ عثمانی تُركوں اور بعض اھل مكہ نے مل كر شیعوں پر حملہ كردیا بھت سے لوگوں پر پتھراوٴ كیا اور چند لوگوں كو تہہ تیغ كر ڈالا۔
اسی طرح سید دحلان، تاریخ عصامی سے نقل كرتے ھیں كہ موصوف نے خود اپنی آنكھوں سے دیكھا ھے كہ جس چیز سے خانہ كعبہ كو گندا كیا گیا تھا وہ پاخانہ نھیں تھا بلكہ وہ دال كا سالن تھا لیكن اس سے بدبو آرھی تھی۔ 673
سید دحلان لكھتے ھیں :چاھے یہ بات صحیح هو یا نہ هو، حقیقت یہ ھے كہ اسلام سب مسلمانوں كو اگرچہ اعتقادی لحاظ سے ایك دوسرے میں اختلاف ھے، لیكن سب كو اتحاد اور دوستی كی دعوت دیتا ھے، تاكہ ایك راستہ پر چلیں، اس دین مبین كے ماننے والوں كو یہ بات زیبا نھیں دیتی كہ اپنے مخالفوں پر بعض وھم وخیال كی بناپر تھمتیں لگائیں۔
موٴلف تاریخ مكہ مذكورہ واقعہ كو ذكر كرنے كے بعد كھتے ھیں كہ میں (اس علاقہ كی) عوام الناس سے بھت ناراض هوں كہ وہ ایسا عقیدہ ركھتے ھیں كہ شیعہ عجم (ایرانیوں) نے خانہ كعبہ كو گندا كیا جبكہ وہ اپنے حج كو مقبول سمجھتے ھیں۔
اس كے بعد اپنی بات كو آگے بڑھاتے هوئے كھتے ھیں كہ اگر ھم عقل ومنطق سے كام لیں اور صحیح طریقہ سے غور وفكر كریں تو اس نتیجہ پر پهونچ سكتے ھیں كہ اگر ان تھمتوں كو صحیح مانا جائے تو اس طرح توھر سال ایرانی حجاج كی تعداد كے برابر كعبہ گندا هوجانا چاہئے تھا، جبكہ حقیقت اور واقعیت اس كے برخلاف ھے لیكن كیا كریں كہ دشمنی كی وجہ سے اپنی عقل بھی كھوبیٹھتے ھیں۔ 674

ایك دوسرا واقعہ
صاحب تاریخ مكہ كھتے ھیں كہ شریف محمد بن عبداللہ كے زمانہ1143ھ میں شیعوں پر ایك اور مصیبت آپڑی، جوھماری نظر میں مسلمانوں كی ان مصیبتوں میں سے ھیں جن كی وجہ سے مسلمان آگ میںجل رھے ھیں اور جس كی بناپر مسلمانوں میں اختلاف اور تفرقہ هو رھا ھے۔
گذشتہ سال شیعہ حاجیوں كے قافلے بعض وجوھات كی بنا پر حج كے ایام كے بعد مكہ پهونچے، اورمجبورا ً اگلے سال یعنی1144ھ كے حج كے زمانہ تك وہ وھاں ركے رھے تاكہ حج كركے ھی واپس جائیں، (اس مدت میں) بعض عوام الناس نے یہ وھم كیا كہ شیعوں نے خانہ كعبہ كو گندا كیا ھے لہٰذا ان پر حملہ كردیا اور عوام الناس كے حملہ كی وجہ سے پولیس نے بھی حملہ كیا، اور سب ساتھ میں قاضی كے گھر پر پهونچے، فتنہ گروں كی بھیڑ كو دیكھ كر قاضی صاحب اپنے گھر سے فرار هوگئے كہ كھیں یہ بھیڑ مجھ پر بھی حملہ نہ كردے، اس كے بعد وھاں كے مفتی كے گھر پر پهونچے اور اس كو گھر سے باھر نكال لیا اسی طرح دوسرے علماء كو ان كے گھروں سے نكال كر وزیر كے پاس لے گئے اور اس سے درخواست كی كہ آپ فیصلہ كریں، جب كہ یہ بھی معلوم نھیں تھا كہ فیصلہ كا مد مقابل كون ھے؟مذكورہ وزیر نے یہ حكم صادر كردیا كہ مذكورہ شیعوں كو مكہ معظمہ سے باھر نكال دیا جائے، اور اس كے بعد اس بازار میں آئے، جھاں پر شیعہ مقیم تھے اور ان كو نكالنے اور ان كے گھروں كو ویران كرنے كا شور كرنے لگے، اور دوسرے روز امیر مكہ كے پاس گئے تاكہ وہ شیعوں كے بارے میں مذكورہ وزیر كے حكم كی تائید كرے، پھلے تو امیر مكہ نے اس كام سے پرھیز كیا لیكن عوام الناس كے فتنہ وفساد كے ڈر سے مذكورہ حكم كی تائید كردی۔
ان شیعوں میں سے بعض لوگ طائف اور بعض لوگ جدّہ چلے گئے تاكہ فتنہ وفساد خاموش هوجائے، ادھر فتنہ وفساد پھیلانے والے سرغنوں كو گرفتار كر لیاگیا، اورپھر شیعوں كو اجازت دی گئی كہ وہ مكہ میں لوٹ آئیں ۔
سید دحلان صاحب تاریخ رضی سے نقل كرتے ھیں كہ مذكورہ واقعہ میں جو كچھ بھی هوا وہ سب كچھ متعصب بدمعاشوں اور عثمانی تُركوں كا كام تھا اور اھل مكہ اس كام سے راضی نھیں تھے، اور عوام كی یھی نادانی ھمیشہ سے مسلمانوں كے درمیان اختلاف اور تفرقہ كا باعث بنی ھے۔ 675

ان حادثات كی اصل وجہ
حكومت صفویہ كے آغاز سے ایران اور عثمانی حكومت كے درمیان هوئی جنگوں كی چھان بیناور تحقیق كے نتائج سے اس روش اور طریقہ كا پتہ چلتا ھے جو عثمانی علماء نے ایران كے مقابلہ میں اختیاركر ركھی تھی، كیونكہ وہ لوگ دشمنی میں ایرانیوں پر كسی بھی طرح كی تھمت لگانے سے پرھیز نھیں كرتے تھے، یھاں تك كہ ایران سے هونے والی جنگ كو جھاد كا درجہ دیتے تھے، اورایرانی شیعوں كے قتل كو مباح اور جائز جانتے تھے بلكہ غیر شیعہ ایرانیوں كے بارے میں بھی ان كا یھی نظریہ تھا اور ان كو اسیر كرنے، ان كی عورتوں اور بچوں كو فروخت كرنے كے بارے میں فتویٰ دیتے رھتے تھے۔
شاہ اسماعیل،حكومتِ صفوی كے بانی كے زمانہ میں جب عثمانیوں اور ایرانیوں كے درمیان جنگ وغیرہ هوتی رھتی تھی تو اس وقت عثمانی علماء اپنی مساجد میں دعا كے لئے جلسہ ركھتے تھے اور شاہ اسماعیل پر لعنت كرتے تھے۔
عثمانی موٴلف ”ابن طولون” شاہ اسماعیل اور سلطان سلیم عثمانی كے ھم عصر بھی ھیں، كھتے ھیں كہ923ھ میںھم 360 قاریوں كے ساتھ مسجد اموی دمشق (جو عثمانیوں كے تحت اثر تھی) میںچالیس دن تك سورہٴ انعام كی تلاوت كیاكرتے تھے، اور جب اللہ كے دو ناموں كے درمیان پهونچتے تھے تو صوفی اسماعیل (مراد شاہ اسماعیل ھے) پر لعنت كیا كرتے تھے۔ 676
اس كے بعد قاھرہ كے آٹھ علاقوں مثلاً مقبرہ شافعی، لیث، سیدة نفیسہ، شیخ عمر بن فارض،ابو الحسن دینوری، شیخ ابو الخیر كلیباتی،مقیاس، جامع الازھر میں سلطان سلیم كی كامیابی كے لئے قرآن مجیدختم كیاكرتے تھے ۔ 677
اور جب شاہ اسماعیل پر بدد عا كرنے اور سلطان سلیم كی كامیابی كے دعا كرنے سے كوئی نتیجہ نہ نكلا، تو اپنے مقاصد كے پیش نظر ایران كو دار الحرب هونے كا اعلان كردیا، اور اس كام سے عثمانی سپاھیوں كو صفویہ بادشاهوں سے لڑنے كا جذبہ اور لالچ بڑھ گیا، اسی زمانہ میں سلطان سلیم نے اپنے علماء سے ایك فتویٰ لیا جس میں یہ بات تحریر تھی كہ شرعی لحاظ سے شاہ اسماعیل كا قتل جائز ھے،678 اس كے علاوہ خود سلطان سلیم نے اپنے ایك خط كے میں جواس نے تبریز سے لكھا اور ایران پر حملے اور شاہ اسماعیل كو قتل كرنے كے بارے میں تھا ،لكھا كہ ھم نے مشهور فقھاء اور علماء كو دعوت دی اور ان سے شاہ اسماعیل سے جنگ كے بارے میں فتویٰ لیا، سبھی فقھاء اورعلماء نے فتویٰ دیاھے كہ جو شخص بھی اس كے سپاھیوں (یعنی شاہ اسماعیل كے سپاھیوں) كے مقابلہ میں كوشش كرے تو اس كی یہ سعی و كوشش مشكور ھے اور ان كے مقابلہ میں جھاد كرے تو اس كا یہ عمل مبرور ھے، كیونكہ علماء نے ان كے كفر، الحاد اور ارتداد كا فتویٰ صادر كیاھے۔ 679
شاہ تھماسب صفوی اپنے تذكرہ میں اس بات كی طرف اس طرح اشارہ كرتے هوئے كھتے ھیں كہ ھم نے سیادت پناہ امیر شمس الدین كو ایلچی بنا كر استانبول بھیجا تاكہ رستم پاشا اور وھاں كے دیگر سرداروں سے گفتگو كرےں، لیكن تمام علمائے روم 680 نے فتویٰ دیدیا كہ ایران كے تمام لوگوں
كی جان ومال حلال ھے چاھے وہ سپاہ هو، یا عوام الناس، مسلمان هو یا یهودی اور ارمنی، اور ان سے جنگ كرنا ”غزّ“ ھے۔ 681
ھم نے كھا یہ فتویٰ تو بھت اچھا ھے !! ھم تو نماز وروزہ اور حج وزكات اور دیگر ضروریات دین كو قبول كرتے ھیں اور ان پر عمل كرتے ھیں، لیكن پھر بھی یہ لوگ ھمیں كافر كھتے ھیں، خدا یا توھی ان كے اور ھمارے درمیان فیصلہ كر۔ 682
ہ سلسلہ نادر شاہ افشار كے زمانہ تك جاری رھا، اور اس سوال كی تحریر جو افغانیوںكے ایران پر حملے كے بعد شیخ عبد اللہ مفتی قسطنطنیہ سے1135ھ میں اسلامبولی تركی زبان میں لیا گیا تھا، اور اس كے جواب میں دیا گیا فتویٰ بھی موجود ھے۔ 683
مذكورہ فتوے كا خلاصہ یہ ھے كہ ایران دار الحرب ھے اور وھاں رہنے والے افراد مرتد ھیں۔
ہ فتویٰ اس وقت كا ھے كہ جب ایران پر محمود افغان فرمانروائی كررھا تھا اور حالات بھت خراب تھے، عثمانی بادشاہ نے اپنے مقاصد میںكامیاب هوجانے كے لئے اس وقت كو غنیمت سمجھ كر ایران پر حملہ كے لئے ایك عظیم لشكر روانہ كیا اور اپنے لشكر كے سردار كو یہ حكم دیا كہ محمود افغان سے كچھ نہ كہنا۔ 684
قارئین كرام توجہ كریں كہ یہ فتویٰ صرف سپاھیوں كو گمراہ كرنے كے لئے صادر كیا گیا تھا۔
ہ بات قابل توجہ ھے كہ یہ فتویٰ كتنا غیر اصولی، بے بنیاد اور دینی اور انسانی لحاظ سے كس قدر دور تھا عثمانی سپاھی اپنے علماء اور مفتیوں پر اعتقاد ركھتے تھے ،لیكن جب مقام عمل میں آئے تو پھر ان میں خود اس فتوے پر عمل كرنے كی طاقت نھیں تھی یعنی جس وقت ایرانی لوگوں اور ان كے اھل خاندان كو دیكھا تو ان میں كسی بھی ایسی چیز كو نہ پایا جس كی بنا پر اس فتوے میں اتنا شدید ردّ عمل دكھایا گیا تھا، جس كا نتیجہ یہ هوا كہ انھوں نے ان ایرانیوں كو مرتد اور دین سے خارج شمار نھیں كیا۔
مندرجہ ذیل عثمانی مولف كے واقعہ سے ھماری بات كی تائید هوتی ھے :
”عثمانی سپاھیوں نے راستہ میں ایك اصفھانی كاروان پر حملہ كردیااور شیخ الاسلام كے فتوے كے مطابق ان كے مردوں كو قتل كردیا اور ان كی علوی سادات سے اور شریف خاندانوں سے تعلق ركھنے والی عورتوں كو اسیر كرلیا، لیكن مذكورہ فتوے كے برخلاف ان عورتوں كو بھت پاك او ردیندار پایا یھاں تك كہ وہ اپنی حفاظت كے سلسلہ میں نامحرم پر نظر كرنے سے بھی سخت پرھیز كرتی تھیں، ان میں نجابت او رشرافت كی تمام نشانیاں واضح او رآشكار تھیں، ان تمام چیزوں كو دیكھنے كے بعد وہ شش وپنچ میں پڑگئے كہ ایسی عورتوں كو كیسے اسیر كریں اور ان كو غلامی میں كیسے لے لیں، آخر كار ان كو بڑے احترام كے ساتھ كرمانشاہ میں پهونچادیا، اور وھاں كی ایك عظیم ہستی میرزا عبد الرحیم كے حوالے كردیا۔ 685
اس طرح كے فتووں كا اثر عثمانی حدود سے باھر تك پهونچا اور ماوراء النھر (تاجكستان اور ازبكستان) تك پهونچ گیا، یھاں تك كہ قاچاریہ بادشاهوں كے زمانہ تك اس كا اثر باقی رھااور ماوراء النھر كے لوگوں نے بادشاہ عثمانی سے جس كو خلیفة الخلفاء كھا جاتا تھا یہ سوال كیا كہ كیا شیعہ لوگوں كو اسیر كركے ان كی خرید وفروخت كرنا جائز ھے ؟
اس بات میں كوئی شك نھیں كہ اگر عثمانی اور ازبك سپاہ اور عوام الناس ایران كے لوگوں كو قریب سے دیكھتے تو اس كے برخلاف پاتے جو غلط پروپیگنڈے كی وجہ سے ان كے ذہنوں میں نقش تھا۔

ایرانیوں كو حج سے روكنا
عثمانی بادشاهوں نے گذشتہ فتوے كے علاوہ بھی ایران كی دشمنی میںدوسرے كارنامے انجام دئے ھیں منجملہ یہ كہ1042ھ میں عثمانی بادشاہ نے ایرانیوں كو حج سے روكنے كا حكم صادر كردیا۔ 686
اس حكم كو جاری كرنے كے لئے مكہ كے بازاروں میں یہ اعلان كرادیا گیا كہ اس سال آئے هوئے ایرانی حجاج واپسی كے وقت اپنے برادران كو یہ اطلاع دیدیں كہ وہ آئندہ سال حج كے لئے سفر نہ كریں۔
صاحب تاریخ مكہ اس واقعہ كو نقل كرنے كے بعد كھتے ھیں، كہ مجھے ایرانیوں كو حج سے روكنے كی وجہ معلوم نہ هوسكی مگر وہ تاریخی واقعات جو اس زمانہ میں رونما هورھے تھے، ایرانیوں نے 1033ھ میں بغداد كو عثمانی قبضہ سے آزاد كرالیا تھا اور ان كو شھر سے باھر نكال دیا تھا، یھاں تك كہ1042ھ میں سلطان مراد عثمانی نے پھر دوبارہ قبضہ كرلیا۔
شاید اس كی وجہ عثمانی بادشاہ اور ایرانیوں كے درمیان شدید اختلافات هوں اور اسی وجہ سے ایرانی حجاج كو حج سے روكا گیا هو۔ 687

نادر شاہ اور شریف مكہ
1157ھ میں جس وقت ایران كے بادشاہ نادر شاہ افشارنے عثمانی سپاہ پر غلبہ پانے كے بعد عراق كو اپنے قبضہ میں لے لیا،تواس نے ایك عظیم الشان عالم دین كو اپنا خط دے كر امیر مسعود ،شریف مكہ كے پاس بھیجا، خط كا مضمون یہ تھا كہ عثمانی خلیفہ 688 نے اس بات كی موافقت كردی ھے كہ مكہ (مسجد الحرام) كے منبر سے ھمارے لئے دعا كی جائے اور وھاں پر ھمارے رسمی مذھب”جعفری“ كو مكہ میں آشكاركیا جائے، (یعنی تقیہ وغیرہ نہ كرنا پڑے) اور ھمارے امام جماعت مذاھب اربعہ كے برابر كھڑے هوں۔ نادر شاہ نے اس خط میں شریف مكہ كو ڈرایا اوردھمكایا بھی تھا، شریف كو یہ بات بری لگی اور مكہ كے حالات خراب هوگئے۔
جدّہ میں (عثمانیوں كی طرف سے) تُرك گورنر نے شریف مسعود سے درخواست كی كہ نادر شاہ كے نامہ بر كو اس كے پاس بھیج دے تاكہ اس كو قتل كردیا جائے، لیكن شریف نے یہ كام نھیں كیا، اور كھا كہ میں اس كو اپنے پاس ركھوں گا اور واقعہ كی تفصیل دار الخلافہ (اسلامبول) لكھوں گا، اور جیسا وہ حكم دیں گے ویسا ھی عمل كروں گا۔
شریف كے اس كام سے والی جدّہ راضی نھیں تھا اور اس كا گمان یہ تھا كہ شاید شریف شیعہ مذھب كی طرف رغبت ركھتا ھے، اور جیسے ھی شریف مسعود ،والی كے اس گمان سے باخبر هوئے توالزامدور كرنے كے لئے حكم صادر كردیا كہ مسجد الحرام كے منبرسے شیعوں پر لعنت كی جائے۔ 689

نجف میں نادر شاہ كے حكم سے مسلمانوں میں اتحاد كے لئے ایك عہد نامہ
تاریخ مكہ سے جو باتیں نقل هوئیں ھیں ان كو مكمل كرنے كے لئے اور موقع كے لحاظ سے یھی مناسب ھے كہ سنی شیعہ اتحاد كے لئے نادر شاہ كے اس عہد نامہ كو بیان كیا جائے جو مذكورہ مقصد كے تحت نجف اشرف میں لكھا گیا اور سنی شیعہ علماء نے اس پر دستخط كئے، ھم نے اس مطلب كو ”یادگار“ نامی مجلہ شمارہ 6 سال چھارم سے نقل كیا ھے:
نادر شاہ چونكہ صفویہ سلسلہ سے كینہ ركھتا تھا یا اس وجہ سے كہ ایرانی لوگ سنی مذھب قبول كرلیں، لہٰذا ایرانیوں،تركیوں، افغانیوں میں مذھبی اتحاد قائم كرنا چاھتا تھا، چنانچہ اس نے ایرانیوں كو اھل سنت والجماعت سے قریب كرنے كی بھت كوشش كی، لہٰذا اس نے ماہ اسفند1148ھ ش، میں ایك جلسہ طلب كیا اور خود ھی اس كا صدر بھی بن گیا، اس جلسہ میں تمام ممالك سے آئے هوئے نمائندوں كو خطاب كرتے هوئے كھتا ھے:
” پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے زمانہ سے چاروں خلیفہ ،خلافت كرتے رھے، اور ہند وروم (عثمانی) اور تركستان سب ان كی خلافت كے قائل ھیں، اور جس وقت اھل ایران آرام وآسائش كی خاطر ھماری سلطنت كی طرف رغبت كریں تو ان كو اھل سنت والجماعت كا مذھب قبول كرنا هوگا “۔690
اس جلسہ میں موجود تمام نمائندوں نے خوف كی وجہ سے اس حكم كو قبول كرلیا، اور اس مسئلہ كے بارے میں ایك عہد نامہ پر سب لوگوں نے دستخط كر دئے، اور یہ عہد نامہ نادری خزانہ كے سپرد كردیا گیا۔
نادر شاہ نے اس عہد نامے كو اپنے سفیر كے ذریعہ سلطان عثمانی كے پاس بھیجا، اور اس كو پانچ پیش كش كیں، كہ اگر اس نے قبول كرلیا تواس سے صلح هوجائے گی:
1۔ قضاة، علماء اور دربار ی حضرات، حضرت امام جعفر صادق ں كی تقلید كو پانچویں مذھب میں شمار كریں (یعنی شیعہ مذھب كو بھی مذاھب اربعہ كے ساتھ شامل كریں اور مذاھب خمسہ كھیں)
2۔ مسجد الحرام میں اركان اربعہ، مذاھب اربعہ كے اماموں سے مخصوص ھیں، شیعہ مذھب كو بھی كسی ایك ركن میں شریك كیا جائے اور اس مذھب كا امام بھی وھاں نماز پڑھائے۔
3۔ ھر سال ایران كی طرف سے امیر حج معین هو جو مصر اور شام كے طریقہ سے ایرانی حجاج كو مكہ پهونچائے اور عثمانی حكومت، ایرانی امیر حاج كے ساتھ مصر او رشام كے امیر حاج جیسا سلوك كرے۔
4۔ دونوں حكومتوں كے اسیر مكمل طریقہ سے آزاد كئے جائےں اور ان كی خرید وفروخت ممنوع قرار دی جائے۔
5۔ دونوں حكومتوں كا ایك ایك نمائندہ ایك دوسرے كے پائے تخت میں هونا چاہئے تاكہ دونوں مملكت كے مسائل مصلحت كے تحت انجام پائےں۔
عبد الباقی خان زنگنہ كے ذریعہ یہ پیش كش ربیع الاول1149ھ استامبول پهونچی عثمانی درباریوں نے جعفری مذھب كو پانچواں مذھب ماننے اور خانہ كعبہ كے اركان اربعہ میں ان كے امام كو نماز پڑھانے كی اجازت دینے سے انكار كردیا، تو نادر شاہ نے یہ فیصلہ كیا كہ وہ خود زبردستی ان كو قبول كروائے گا، اور عثمانی حكومت پر حملہ كی غرض سے اپنے توپ خانہ كو كرمانشاہ كے لئے روانہ كردیا۔
اسی زمانہ میں احمد پاشا، والی بغداد (عثمانیوں كی طرف سے) نے اطاعت كا اظھار كیا اسی بناپر نادر شاہ نے نجف، كربلا او رحلہ پر قبضہ كرنے كے لئے اپنے لشكر كو روانہ كیا جس نے آسانی سے ان شھروں پر قبضہ كرلیا، اسی طرح كركوك اور موصل شھروں كو بھی اپنے قبضہ میں لے لیا، یہ دیكھ كر عثمانی حكومت كو بھی صلح كے لئے تیار هونا پڑا، اور طے یہ هوا كہ مذھبی مسائل اور ان كے اختلافات كو دور كرنے كے لئے دوبارہ گفتگو كی جائے، اس كے بعد نادر شاہ شوال 1156ھ میں عتبات عالیہ كی زیارت كرنے كے لئے آمادہ هوا اور نجف ،كربلا اور كاظمین كی زیارت كی اور بغداد میں ابوحنیفہ كی قبر كی بھی زیارت كی، اس كے بعد كربلا، نجف، حلّہ، بغداد اور كاظمین كے شیعہ سنی علماء كو نجف میں بلایا، تاكہ اپنے ساتھ لائے هوئے ایران، بلخ، بخارا اور افغانستان كے علماء كے ساتھ بحث وگفتگو اور اختلافی مسائل كو حل كریں۔
ہ گفتگو 24 شوال1156ھ كو تمام هوئی، اور ایك عہد نامہ لكھا گیا جس كو میرزا مہدی خان منشی الممالك نادر (موٴلف درہٴ نادرہ، اور جھان گشائے نادری)نے لكھا اور اس پر دونوں فریقین كے علماء نے دستخط كیا۔
اس عہد نامے كی ترتیب اور تصدیق اس طرح تھی كہ پھلے علمائے ایران نے اس تحریر پر مھر لگائی اس كے بعد عتبات عالیہ كے (شیعہ سنی) علمائے نے مھر لگائی، اس كے بعد علمائے ماوراء النھر اور اس كے بعد علمائے افغان نے مھر لگائی اور سب سے آخر میں بغداد كے مفتی نے ایرانیوں كے اسلام كی تصدیق كی۔
عہد نامہ كی پوری تحریر ”جھان گشائے نادری “میں موجود ھے، لیكن اس عہد نامہ كی تفصیل عبد اللہ بن حسین سویدی بغدادی جو خود مذكورہ شیعہ سنی مناظرہ میں شریك تھے اور اس عہد نامہ پر دستخط بھی كئے تھے، انھوں نے اپنی دو كتابوں میں اس عہد نامے كی تفصیل بیان كی ھے، پھلی كتاب ”النفحہ المسكیة فی الرحلة المكیہ“ او ردوسری كتاب ”الحجج القطعیة لا تفاق الفرق الاسلامیہ“ یہ دونوں كتابیں مصرمیں چھپ چكی ھیں۔
اس عہد نامہ كی ایك كاپی حضرت امیر المومنین ں كی ضریح میں ركھ دی گئی، اور اس كی دوسری كاپیاں اسلامی ممالك بھیج دی گئیں، لیكن اس وقت كے چاپ شدہ نسخوں اور اس كتاب (جھان گشائے نادری) كے قلمی نسخے كے درمیان اختلاف پایا جاتا ھے اور ھم (مدیر مجلہ یادگار اور صاحب مقالہ مرحوم عباس اقبال) نے ان دونوں نسخوں میں فرق پایا ھے یعنی چاپ شدہ مقالہ میں بھت سی چیزیں كم ھیں، مثلاً ایران، عراق، عرب، افغانستان اور تركستان علماء كے نام اس كتاب (جھان گشائے نادری) میں نھیں ھے، دوسرے یہ كہ علمائے عراق كی تصدیق اصل عہد نامے سے مخلوط هوگئی ھے، تیسرے یہ كہ افغانی علماء كی تصدیق اس میں نھیں ھے اسی طرح احمد پاشا ،والی بغداد كی تصدیق اور مفتی بغداد آفندی یاسین كی مھر اور دستخط بھی اس میں موجود نھیں ھے۔
ھمارے (عباس اقبال) فاضل دوست آقای حاج” محمد آقا نَخْجَوانی“ جن كو طلب علم كا بھت شوق تھا انھوں نے اس عہد نامہ كو مكمل طور پر نقل كیا اور نشر كے لئے ھمارے مجلہ یادگار كو دے دیا۔
مذكورہ عہدنامہ كا مكمل نسخہ، حاج محمد آقا نخجوانی كے نسخہ سے ان علماء كے نام ،عہدہ ومنصب اور مھر كے ساتھ ھمارے مجلہ یادگار میں تقریباً 8 صفحات پر مشتمل چھپ چكا ھے، علماء كے نام اس طرح لكھے گئے ھیں، جائے مھر میرزا بھاء الدین محمد، كرمان كے شیخ الاسلام، یا جائے مھر سید حسینی، پیشنماز كاشان، جائے مھر میرزا ابوالفضل ،شیخ الاسلام قم، جائے مھر دخیل علی، قاضی كربلا، جائے مھر ملا حمزہ، شیخ الاسلام افغانستان، جائے مھر محمد باقر، عالمِ بخارا…تاآخر۔
قارئین كرام!آپ نے ملاحظہ فرمایا كہ اكثر علماء كا عہدہ شیخ الاسلام ھے اور بھت ھی كم ایسے علماء ھیں جو پیشنماز یا قاضی رھیں۔ 691
لیكن عثمانی مولفین نے اس واقعہ كی تفصیل دوسرے طریقہ سے بیان كی ھے، چنانچہ شیخ رسول كركوكلی كھتے ھیں كہ نادر شاہ نے ”دشت مغان“ میں ایك بھت بڑی انجمن تشكیل دی، جس میںشیعوں كی حمایت كی اور اپنے كو شیعوں كا مدافع (دفاع كرنے والا) كھا، لیكن كرد، داغستان، ساكنان كوہستان (كوہستان سے كیا مراد ھے یہ معلوم نھیں هوسكا) اور افغانستان كے سبھی لوگ اس سے ناراض تھے، جس كے نتیجہ میں اس سے جنگ كرنے كا فیصلہ كرلیا، اور اس گھمسان كی لڑائی میں جو نادر شاہ سے هوئی نادر شاہ كے سپاھیوں كو شكست هوئی اور بھت نقصان هوا، نادر شاہ نے فریقین كا دل ركھنے كے لئے مرقد ابوحنیفہ، علی مرتضی (ں) امام حسین (ں) امام موسیٰ كاظم (ں) كے لئے بڑے قیمتی ہدایا اور تحائف بھیجے، اور یہ بھی اعلان كیا كہ اذان پانچ مرتبہ كھی جائے، اور جملہ ”حی علی خیر العمل“اذان سے نكال دیا جائے،ایساكُردیوںاور افغانیوں كا دل ركھنے كے لئے كیا، اور اس نے عثمانی سلطان كے لئے بھت سے ہد ایا اور تحائف بھی بھیجے۔
اس كے بعد كر كوكلی صاحب كھتے ھیں كہ نادر شاہ نے جنگ كے بعد ایك بار پھر دشت دمغان میں علماء كو جمع كیا تاكہ ان میں موجود اختلافات كو حل كیا جاسكے، جس كے نتیجے میں بادشاہ كی حقیقی طور پر بیعت اور اس كی حمایت هوئی۔
اس كے بعد نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ كیا اور سلطان محمد (تیموری خاندان كا حاكم) پر غلبہ حاصل كیا اور اس سے خراج لینا طے كیا، اس كے بعد تركستان، افغانستان، بلخ اور بخارے پر قبضہ كیا، اور ان لوگوں نے عثمانی سلطان سے جو عہد وپیمان كیا تھا اس كو توڑوا ڈالا، اور یہ ظاھر كیا كہ روم (یعنی حكومت عثمانی) پر بغداد كی طرف سے حملہ كرنے والا ھے چند افراد كو احمد پاشا والی بغداد كے پاس بھیجا، تاكہ اس كو اطلاع دے، اور احمد پاشا نے اس لحاظ سے كہ وہ اس كا مھمان ھے اس كے گذرنے اور وھاں توقف كرنے كی اجازت دیدی، اس وقت نادر شاہ نے كئی ہزار سپاھیوں كو كھانے پینے كا سامان لانے كے لئے بھیجا، اور اس طرح بغداد كا محاصرہ كرلیا، خلاصہ یہ كہ اس نے متعدد حملوں كے بعد پورے عراق پر قبضہ كرلیا، اور اس كے بعد عتبات عالیہ كی زیارت كرنے كے لئے گیا اور حضرت علی كے روضہ كی مرمت اور گنبد پر سونے كے پانی سے زینت كرنے كا حكم دے دیا اور اس كے بعد كربلائے معلی پهونچا اور یہ ظاھر كیا كہ میں تو اھل سنت سے تعلق ركھتا هوں، اور احمد پاشا كو خط لكھا كہ كسی اھل سنت عالم دین كو بھیج تاكہ شیعہ علماء سے مناظرہ كرے، اور دونوں فرقوں كے درمیان موجود اختلافات ختم هوجائیں، لہٰذا احمد پاشا نے عبد اللہ سویدی جو ان مسائل میں مھارت ركھتے تھے اور اس كے مورد اعتماد بھی تھے اس كام كے لئے انتخاب كیا۔
سویدی صاحب نے اپنے سفر كی تفصیل كتاب ” النفحة المكیہ والرحلة الملكیہ“692 میں لكھی ھے ،او ركركوكلی نے اسی كتاب سے نقل كیا ھے، منجملہ یہ كہ جس وقت میں نجف میں نادر شاہ كے حضور پهونچا تو اس نے مجھے خوش آمدید كھا، مجھے اس كی عمر 80سال كی لگی، اور پروگرام كے مطابق یہ اجتماع حضرت علیں كے روضہ میں هو، اس كے بعد كركوكلی نے سویدی سے ذكر هوئے ناموں كو اس طرح لكھا كہ ایرانی علماء میںسے علی اكبر ملا باشی ،وغیرہ وغیرہ تھے۔
افغانستان كے علماء میں سے شیخ فاضل ملا حمزہ قلی جائی، جوافغانستان میں حنفی مفتی تھے، اور وھاں كے دیگر علماء كے نام اور ان كے عہدے بھی لكھے ھیں۔
اس كے بعد علمائے ماوارء النھر كے نام ھیں جن كی تعداد سات تھی اور یہ لوگ سویدی كے داھنی طرف بیٹھے تھے اور اس كے بائیں طرف 15 شیعہ علماء تشریف فرما تھے۔
اس وقت ملا باشی نے ایك تقریر كی اور سویدی كی طرف اشارہ كرتے هوئے كھا: یہ علمائے اھل سنت كے فاضل علماء میں سے ھیں، اور نادر شاہ نے احمد پاشا سے یہ چاھا كہ انھیںھمارے درمیان فیصلہ كرنے كے لئے بھیجے اور شاہ كی طرف سے وكیل بنا یا گیا كہ جو بھی اس اجتماع میں طے پائے اس پر عمل كیا جائے، كركوكلی صاحب نے سویدی سے نقل كرتے هوئے علماء كے درمیان هونے والی گفتگو كی تفصیل بھی بیان كی ھے، چنانچہ اس گفتگو كا نتیجہ اس طرح بیان كرتے ھیں كہ اھل سنت علماء نے اس بات كی تصدیق كی كہ شیعہ لوگ، مسلمان ھیں، اور ان كا نفع ونقصان ھمارا نفع ونقصان ھے، یہ طے كرنے كے بعد سب لوگ اپنی جگہ پر كھڑے هوگئے اور ایك دوسرے سے مصافحہ كرنے لگے اور یہ كھتے جاتے تھے: ”اھلاً باخی“(میرے بھائی خوش آمدید)۔
اس كے دوسرے دن بھی مذكورہ جگہ پر جمع هوئے اور ایك جریدہ تیار كیا گیاجس كی لمبائی 7 بالشت سے زیادہ تھی اور اس كے دو حصوں پر عہد نامہ لكھا گیا، ملا باشی نے آقا حسن مفتی سے كھا كہ كوئیایسا شخص اس كو پڑھے جو فارسی زبان جانتا هو۔
كركوكلی صاحب نے اس عہد نامے كو عربی زبان میں لكھا ھے اور سویدی كے بعض اعتراض بھی لكھے ھیں، نیز اس كے قول كو نقل كرتے ھیں كہ ان لوگوں كے نام اس میں لكھے ھیں جنھوں نے اس پر اپنی مھر لگائی ھے، او راس كے بعد سونے كے ظروف میں جو جواھرات سے مزین تھے، مٹھائی لائی گئی، اس كے بعد مجھے شاہ كے پاس لے گئے (سویدی نے اپنی كتاب میں ان باتوں كو ذكر كیا ھے جو اس كے اور شاہ كے درمیان هوئی ھیں)اور اس نے احوال پرسی، كے بعد كھا:
”كل جمعہ ھے اور میں یہ چاھتا هوں كہ نماز جمعہ كو مسجد كوفہ میں پڑھوں، اور میں نے فرمان دیدیا ھے كہ صحابہ كے نام بڑے ادب واحترام كے ساتھ اسی ترتیب سے ذكر كئے جائیں جس طرح كہ طے هوا ھے، اور میں نے یہ حكم بھی دیا ھے كہ بھائی سلطان آل عثمان كے لئے دعا كی جائے او راس كے بعد مختصر طور پر ھمارے لئے بھی دعا كی جائے، او رگویا یہ سلطان عثمانی كے احترام كی وجہ سے ھے كیونكہ وہ سلطان بن سلطان ھے، جبكہ میرے باپ دادا میں كوئی سلطان نھیں تھا،693 قارئین كرام!ھم نے جو كچھ كركوكلی كی باتوں كو خلاصہ كے طور پر نقل كیا ھے اگرچہ بعض تاریخی چیزیں غلط اور اشتباہ ھیں لیكن پھر بھی بھت سے اھم تاریخی نكات اس بیان میں موجود ھیں، خصوصاً اگر ان تمام باتوں كی تحقیق كی جائے۔

مذكورہ مطلب سے متعلق چند نكات
ہ بات تاریخی اعتبار سے مسلم ھے كہ نادر شاہ نے شیعہ اور سنی كے درمیان اتحاد اور دوستی قائم كرنے كے لئے بھت كوشش كی، لیكن سلاطین عثمانی كی دشمنی اور عناد اس قدر زیادہ تھی (جیسا كہ بعض نمونے بیان بھی هوئے ھیں) كہ نادر شاہ كی كوشش ثمر بخش نہ هوسكی۔
چنانچہ یھاں پر چند نكات كی طرف اشارہ كرنا مناسب ھے:
پھلا نكتہ یہ كہ تاریخ شیعہ میں چاھے صفویہ زمانہ هو یا دیگر زمانہ، كوئی بھی ایسا شیعہ عالم نھیں مل پائے گا جس نے اسلامی فرقہ سے جنگ كو جھاد كا نام دیا هو، یا كسی ایك اسلامی سر زمین كو دار الحرب كا نام دیا هو، یا اسلامی مذاھب كے پیروكاروں كو كافر كھا هو۔
دوسرا نكتہ یہ ھے كہ عثمانی علماء جو بھی فتویٰ دیتے تھے وہ حكومت كے اشارہ اور اس كے حكم سے هوتا تھا جبكہ شیعہ تاریخ میںكبھی كوئی ایسا موقع نھیں آیا كہ كسی بادشاہ كے اشارے پر كسی عالم دین نے كوئی فتویٰ دیا هو، یا كسی شیعہ عالم دین نے بغیر سوچے سمجھے یا صرف تعصب اور اپنے احساسات یا قومی جذبات كی بناپر كوئی فتویٰ دیا هو۔
تیسرا نكتہ یہ ھے كہ عثمانی حكومت كے علماء اور طلاب، شیعوں كی معتبر كتابوں، تفسیر، فقہ وحدیث، اور كلام وغیرہ سے بھت كم آشنائی ركھتے تھے، اور شاید ان میں سے بھت سے لوگ یہ بھی نہ جانتے هوں كہ شیعوں كی فقہ كتنی وسیع اور اصیل (خالص) ھے،694 جب كہ اس كے برعكس قضیہ صادق ھے یعنی شیعہ علماء اور طلاب عمومی طور پر دیگر اسلامی مذاھب كی كتابوں سے بخوبی اطلاع ركھتے ھیں، ایران مذھب شیعہ كا مركز ھے،لیكن كبھی بھی دیگر مذاھب كی كتابوں كے مطالعہ پر كوئی پابندی نھیں ھے۔
آج یہ بات سب پر واضح اورآشكار ھے كہ ایران كی كتابفروشی (بك ایجنسی) اور كتب خانوں میں تمام اسلامی مذاھب كی كتابیں موجود ھیں اور كوئی بھی ان كا مطالعہ كرسكتا ھے، اس كے علاوہ تھران یونیورسٹی میں حنفی اور شافعی فقہ پڑھائی جاتی ھے كیونكہ ایران میں یہ دو مذھب موجود ھیں، مطلب یہ ھے كہ اگر عثمانیوں كے پاس شیعہ كتابیں هوتیں اورصرف حقیقت حال سے اطلاع كے لئے ان كی تحقیق كرتے تو پھر شیعہ مذھب كی حقیقت سے باخبر هوجاتے، نہ یہ كہ بعض اھل غرض كی تھمتوں اور گمان كی بنا پر شیعوں كے بارے میں كچھ كھتے۔

نتیجہ
مذكورہ مطلب كو بیان كرنے كا نھائی (آخری) مقصد یہ ھے كہ 1088ھ میں ایرانی حجاج كا قتل عام اور اسی طرح دوسرے واقعات كے پیش نظر، یہ بات مسلّم ھے كہ صفویہ سلطنت كے شروع میں حكومت عثمانی كے وسیع علاقوں میں خصوصاً حرمین شریفین میں ایرانیوں سے دشمنی كو هوا دی جاتی تھی اور طرح طرح كی ناروا اور جھوٹی تھمتیں لگاكر عثمانیوں كو دشمنی كے لئے ابھارا جاتا تھا، ان تھمتوں میں سے ایك نمونہ ابو طالب یزدی كا واقعہ تھا اور اس تھمت كی وجہ سے بھت سے ایرانی حجاج كا خون بھایاگیاھے۔

عبد العزیز كی موت
سلطان عبد العزیز اپنی عمر كے آخری دس سالوں میں بالكل اپاہج هوگیا تھا (یعنی چلنے پھرنے كی بھی طاقت نہ تھی)اور ویلچر كے ذریعہ ادھر ادھر جاتا تھا اور قلبی اور مغزی بیماری میں بھی مبتلا هوگیا تھا، 1953ء میں گرمی كا زمانہ طائف میں گذارنا چاھا، طائف كی آب وهوا معتدل اور بھت اچھی ھے لیكندریا سے اس كی اونچائی 1200 میٹر ھے اس وجہ سے یہ بات اس كے مزاج سے ھم آہنگ نھیں تھی اس كی حالت اور بگڑتی گئی اس كے مخصوص ڈاكٹر كے علاوہ جرمنی كے كئی ڈاكٹر بھی اس كے علاج میں لگے هوئے تھے لیكن كسی كا بھی علاج كارگر نہ هوا، اور دوم ربیع الثانی 1373ھ كواس دنیا سے رخت سفر باندھ لیا، اس كے جنازے كو هوائی جھاز كے ذریعہ ریاض لایا گیا اور وھیں پر دفن كر دیاگیا۔ 695

ابن سعود كا اخلاق اور اس كی بعض عادتیں
”امین محمد سعید” جو ابن سعود سے آشنا افراد میںسے تھے اور اس كے اخلاق او رعادتوں سے بڑی حد تك آشنائی ركھتے تھے، انھوںنے ابن سعود كے اخلاق صفات اور روزانہ كے پروگرام كے بارے میں تفصیل سے بیان كیا ھے۔ 696
ابن سعود ایك بلند قامت اور صحت مند انسان تھا منھ بھی بھت بڑا تھا اور جب غصے میں بولتے تھے تو ان كے منھ سے كف(جھاگ) نكلتا تھا، چھرہ كا رنگ گندمی اورتھوڑاكالا تھا، اس كی داڑھی كم اور ھلكی تھی اس كی ایك آنكھ میں تكلیف تھی اسی لئے خط یا كتاب پڑھتے وقت چشمہ كا استعمال كرتا تھا، یا اس خط كو آنكھوں سے بھت قریب كركے پڑھتا تھا، ابن سعود كے لئے خط پڑھنا بھت مشكل تھا، اس كے بدن میں بھت سے زخموں كے نشان پائے جاتے تھے، اور اس كی ایك انگلی فلج تھی۔
اپنے سر پر كوفیہ اور عقال باندھتا تھا اور سفید اور لمبا لباس پہنتا تھا، اور اس كے نیچے ایك پاجامہ بھی هوتا تھا اور ان كپڑوں كے اوپر ایك عبا بھی هوتی تھی۔
اسے اعتراف تھا كہ ھم نے علوم (دنیاوی تعلیم) نھیں حاصل كی ھے جو لوگ دنیاوی تعلیم یافتہ ھیں ان كو چاہئے كہ اس سلسلہ میں ھماری راہنمائی كریں۔
اور كبھی بھی كوئی تقریر كرنا هوتی تھی توخطباء كی روش اور عربی كے قواعد كی رعایت نھیں كرتاتھا، نجدی لہجہ میں گفتگو كرتا تھا اور اكثر اس كی تقریریں مذھبی پھلو ركھتی تھیں اور اپنی تقریروں میں احادیث نبوی اور قرآنی آیات كو شاہد كے طور پر پڑھا كرتا تھا، بیٹھ كر تقریر كیا كرتا تھا، انگشت شھادت اور اس كے ھاتھ میں موجود چھوٹے سے عصا كے ذریعہ اپنے مفهوم كو سمجھانے كے لئے اشارہ كیا كرتا تھا۔
ابن سعود غصہ كے عالم میں بھی ملائم اور نرم مزاج تھا، اور ضرورت كے وقت سنگدل اور غصہ ور تھا، وہ جانتاتھا كہ كھاں پر تلوار كا كام ھے او ركھاں پر بخشش اور احسان كا۔
جس وقت دشمن پشیمانی كا اظھار كرتے تھے وہ ان كو بخش دیتا تھا اور پھر ان كو بھت سا مال دے كر اس كو بلند مقام عطا كرتا تھا، اس كی دور اندیشی اور شدت عمل كا نتیجہ یہ تھا كہ ملك میں بے مثل امن امان قائم هوگیا كہ ھر شخص اپنی جان ومال كو محفوظ سمجھتا ھے اور اطمینان سے رھتا ھے، اس كی سب سے بڑی وجہ اس كی بیداری اور مجرمین ،راہزنوں اور ظلم وستم كرنے والوں كے بارے میں بھت سخت مزاجی تھی اور ان پر كسی طرح كا كوئی رحم نھیں كرتا تھا اور ان كے بارے میں كسی كی كوئی سفارش بھی قبول نھیں كرتا تھا۔ 697 (لہٰذا ان سب كا خاتمہ كركے امن وامان قائم كردیا)
ابن سعود عربی اخبار خصوصاً مصری اخبار پر بھت زیادہ توجہ ركھتا تھا اور جو كچھ مصری اخباروں میں اس كے ملك كے سلسلہ میں لكھا هوتا تھا اس كو غور سے پڑھا كرتا تھا، وہ اكثر عربی اخباروں اور مجلوں اور لندن سے منتشر ”ٹائمز“ اخبار كا ممبر تھا، اور اس كے پاس كئی ایسے مترجم تھے جو انگریزی اور ہندی اخباروں میں سے ان خبروں كا ترجمہ كركے پیش كرتے تھے جو ان كے عرب ممالك اور حجاز كے بارے میں هوتی تھی۔
ابن سعود كے زمانہ میں ھی نجد اور حجاز كے جوانوں كا سب سے پھلا گروہ دنیاوی تعلیم كے لئے مصر اور یورپ كے لئے گیا، 1927ء میں ان افراد كی تعداد 16 تھی۔
اسی طرح اس كے زمانہ میں لوگوں كو گاڑیوں (موٹرس) پر چلنے كی اجازت ملی جبكہ اس سے پھلے ممنوع تھی۔

ابن سعود كے بعد آل سعود كی حكومت
عبد العزیز كے مرنے كے بعد اس كے بیٹے جمع هوئے اور اس كے ولیعہد ملك سعود كی سعودیہ كے بادشاہ كے عنوان سے بیعت كی، بیعت كے بعد ملك سعود نے اپنے بھائی امیر فیصل كو اپنا ولیعہد مقرر كیا۔
ملك سعود كی بیعت كا پروگرام مكہ معظمہ میں ركھا گیا اور اس نئے بادشاہ سے بیعت كرنے كے لئے مختلف علاقوں سے تقریباً ہزاروں لوگ جمع هوئے، چنانچہ اھل مكہ نے علماء اور قضات اور اھم شخصیات كے ساتھ ایك تاریخی عہد نامہ لكھا جس میں شرعی طور پر بیعت كی گئی تھی۔
مذكورہ عہد نامہ كی تحریر اس طرح ھے:
”یا امام المسلمین 698 الملك سعود بن عبد العزیز بن عبد الرحمٰن الفیصل آل سعود المتوفی یوم الاثنین 2 ربیع الاول سنة1373۔
قد عہد الامانة من بعدہ الیكم واخذت لكم البیعة فی عام 1352 فان امامتكم بذالك منعقدة وثابتة شرعاً، واننا بمناسبة وفاة والدكم عبد العزیز وتولیكم امامة المسلمین من بعدہ نجدد ونوكد بیعتكم اللتی فی اعناقنا علی العمل بكتاب اللّٰہ وسنة رسولہ، واقامة العدل فی كل شئي وتحكیم الشریعة الاسلامیہ ولكم علینا السمع والطاعة فی العسر والیسر والمنشط والمكرہ، ونسال اللّٰہ لكم العون والتوفیقفیما حملتم من امور المسلیمن وان یحقق علی ایدیكم ما ترجوہ الامة الاسلامیة من مجد وتمكینٍ“۔
چنانچہ ان تمام باتوں كے بعد مفتی بزرگ كی ریاست میں ریاض اور دیگر شھر و دیھات كے علماء نے ابن سعود كے ھاتھوں پر بیعت كی اور اس كی اطاعت كرنے كے بارے میں اقرار كیا۔
5ربیع الاول 1373ھ پنجشنبہ كو غروب كے وقت ابن سعود مسجد الحرام گیا اور نماز مغرب كی نماز جماعت قائم كرنے كو اپنے ذمہ لیا، اور اس كے بعد خانہ كعبہ كا طواف بجالایا، او ردعا كی، نیز ایك تقریر كی جس میں اپنی حكومت كے منصوبوں كو چاھے وہ اندرونی هوں یا بیرونی سب لوگوں كے سامنے بیان كئے۔ 699 ملك سعود نے اپنی سلطنت كے زمانہ میں اپنے ملك كی ترقی كے لئے بھت كوششیں كیں، بھت سے مدرسے اور ھاسپیٹل، بھت سی سڑكیں اور پل وغیرہ بنائے۔
ابن سعود كے اھم كاموں میں سے مسجد الحرام اور مسجد النبی میں توسیع كرنا ھے جس میں ان دونوں مسجدوں كے قرب وجوار كی زمینیں خرید كر مسجدوں سے ملحق كردی، اور دونوں مساجد كے چاروں طرف بڑی بڑی سڑكیں بنوادیں، اس طرح سے كہ اب كوئی بھی عمارت مسجد كی دیوار سے ملی هوئینھیں ھے ۔
مسجد النبی كی توسیع شوال 1370ھ میں شروع هوئی اور ابن سعود كے زمانہ میں مكمل هوئی، چنانچہ اس توسیع اور مرمت كے بعد اس مسجد كی وسعت 16327 میٹر هوگئی ھے۔ 700
اسی طریقہ سے ابن سعود كے زمانہ میں ڈرائیورنگ كے قوانین كا بنانا بھی ھے، او روہ بھی اس طرح كہ اگر كوئی ان قوانین كی خلاف ورزی كرے تو اس كو ایك سال قید كی سزا ھے، اور اگر كسی ڈرائیور كی غلطی كی وجہ سے كوئی شخص مرجائے تو اس كو پھانسی پر لٹكایا جاتا ھے، چنانچہ ان سخت قوانین نے تمام سیاسی لوگوں اور ڈپلومیٹ كو خوف ووحشت میں ڈال دیا تھا۔ 701
1961ء مطابق1381ھ ملك فیصل جو ابن سعود كا ولیعہد اور رئیس الوزراء بھی تھا وہ بادشاہ كا قائم مقام هوگیا اور ایك مدت كے بعد شورائے مشایخ اور مختلف قبیلوں كے سردار اورعلماء كی پیشكش پر بادشاھت كے تمام اختیارات اس كو دیدئے گئے۔
نومبر 1964ء وزیروں كی كابینہ اور قبائل كے روٴسا اور شیوخ كی پیش كش اور علماء كے فتاویٰ كے مطابق سعودیہ كے بادشاہ كے عنوان سے اس كی بیعت كی گئی۔ 702

--------------------------------------------------------------------------------

520. المختار من تاریخ الجبرتی، ص 667، ھم نے مذكورہ تمام چیزوں كے بارے میں وضاحت كردی ھے۔
493.دائرة المعارف اسلامی جلد اول ص 191، عربی ترجمہ۔
494. سب سے پھلا شخص جس نے درعیہ شھر پر حملہ كیا او رمحمد بن سعود كے دو بیٹوں فیصل اور سعود كو قتل كرڈالا ”دھام بن دواس تھا، (رسالہٴ شیخ عبد الرحمن آل شیخ ص 24، جلد 2 ۔ ابن بشر)
495. جزیرة العرب فی القرن العشرین، 244۔
496. اشراف مكہ سے مراد وھاں كے امیر اور حكّام ھیں جو اس زمانہ میں عثمانی بادشاهوں كی طرف سے معین هوتے تھے، انشاء اللہ بعد میں ان كے بارے میں گفتگو كی جائے گی۔
497. الدرر السنیہ ص 43،44۔
498. دائرة المعارف اسلامی جلد اول ص 191۔
499. الدرر السنیہ ص 44۔
500. تاریخ مكہ ج 2 ص124۔
501. تاریخ المملكةالعربیة السعودیہ جلد اول ص 52،شوكانی صاحب جن كے زمانہ میں یہ واقعات نمودار هوئے ھیں، انھوں نے بھی شریف غالب كے حالات میں ان باتوں كی طرف اشارہ كیا ھے، اور اس طرح كھا كہ اگر شریف غالب نجدیوں سے جنگ كرنے كے بجائے كوئی دوسرا كام انجام دیتا تو بھتر هوتا، كیونكہ جس میں جنگ كرنے كی طاقت نہ هو تو اس كو جنگ میں بھت سی پریشانیوں كا سامنا كرنا پڑتا ھے اور اس كے نتائج بھی خراب هوتے ھیں۔ (البد ر الطالع ج2 ص5)
502. تاریخ المملكة العربیة السعودیہ، جلد اول ص 73۔
504. الفجر الصادق ص 22۔
505. فتنة الوھابیة ص 71۔
506. سیف الجبار ص 2 سے، اور اس آخری حصے كو ستون 88 تا 91 وضاحت دی گئی ھے كہ مكہ كے چاروں طرف كے ایك معین فاصلہ كو حدود حرم كھا جاتا ھے، اور ان حدود میں جنگ اور دوسری بعض چیزیں حرام ھیں۔
507. اغاوات كے معنی خواجگان ھیں(جو ظاھراً آغا سے لیاگیا ھے، قدیم زمانہ میں ایران كے خواجہ لوگوں كے لئے لگایا جاتا تھا) اور خواجہ ان لوگوں كو كھا جاتا تھا جو مسجد الحرام (خانہ كعبہ) اور مسجد النبوی كے نظم وضبط كے لئے متعین رھتے ھیںاس طرح كے افراد اب بھی دونوں مسجدوں میں باقی ھیں، قدیم زمانہ میں بعض مالدار افراد (بخارا، سمرقند، سوڈان اور دوسرے علاقوں كے لوگ) نذر كرتے تھے كہ ھم ان مسجدوں میں خدمت كے لئے خواجہ معین كریں گے، اسی بناپر كبھی كبھی ان لوگوں كی تعداد مسجد النبوی میں دو سو سے زیادہ هوجاتی تھی، اور كبھی كھبی ان لوگوں میں نااتفاقی بھی هوجاتی تھی اور فتنہ وفساد بھی هوتا جاتا تھا، جیسا كہ مكہ ومدینہ سے متعلق تاریخوں میں ذكر هوا ھے، اسی طرح بعض بادشاہ اور مالدار حضرات كچھ زمینوں كو وقف كرتے تھے تاكہ ان كی درآمد سے خواجگان كا خرچ چلتا رھے، انشاء اللہ بعد میں خواجہ لوگوں كے بارے میں مزید وضاحت كی جائے گی۔
508. تاریخ مكہ ج 2 ص 131 سے۔
509. المختار من تاریخ الجبرتی ص 533۔
510. فتنة الوھابیہ ص 72۔
511. قبرستان معلی یا معلاة مكہ معظمہ كا سب سے قدیمی قبرستان ھے، اور اس وقت تقریباً شھر كے بیچ میں واقع ھے اور اس كے درمیان سے ایك سڑك نكلی ھے جس نے اس كو دو حصوں میں تقسیم كردیا ھے،جس كے ایك حصّے كو مقبرہ معلاة اور دوسرے حصے كو مقبرہ ابوطالب (پدر گرامی حضرت علی ں) كھا جاتا ھے۔
512. كشف الارتیاب ص 22، 23، اس سلسلہ میں ”عمر رضا كحالہ“ كھتا ھے كہ مكہ معظمہ میں بھت سے تاریخی آثار موجود تھے، مثلاً پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی جائے ولادت اور جناب خدیجہ، حضرت ابو بكركا گھر وغیرہ جن كو اور دیگر قبور اور گنبدوں كو وھابیوں نے مسمار كردیا، (جغرافیة شبہ جزیرة العرب ص161)
513. عنوان المجد فی تاریخ نجد جلد اول ص 124۔
514. اس سے پھلے كا دستور یہ تھا كہ خانہ كعبہ كے ھر ركن میں مذاھب اربعہ كی اپنی نماز جماعت هوتی تھی۔
515. تاریخ مكہ ج 2 ص 131، 132 كا خلاصہ۔
516. تاریخ المملكة العربیة السعودیہ جلد اول ص 91۔
517. المختار من تاریخ الجبرتی، ص 667، جبرتی نے شریف غالب كے ذریعہ وھابی مذھب قبول كرنے كی وجھیںبڑی تفصیل سے لكھی ھیں، (تاریخ جبرتی ج3 ص116)
518. تاریخ المملكة العربیة السعودیہ جلد اول ص 91۔
519. تاریخ المملكة العربیة السعودیہ جلد اول ص 92، جبرتی صاحب1220ھ كے واقعات بیان كرتے هوئے كھتے ھیں كہ تقریباً ڈیڑھ سال تك وھابیوں نے مدینہ كو گھیر ركھا تھا اور شھر میں كھانے پینے كی چیزوں كو نھیں جانے دیا، چنانچہ مدینہ كے افراد مجبوراً ان كے سامنے تسلیم هوگئے مدینہ پر وھابیوں كا قبضہ هوگیا، تمباكو نوشی كو شھر میں ممنوع قرار دیدیا، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی گنبد كے علاوہ تمام گنبدوں اور مقبروں كو مسمار كردیا، (تاریخ جبرتی ج3 ص 91)
521. تاریخ المملكة العربیة السعودیہ جلد اول ص 73۔
522. تیرهویں صدی ہجری كے وھابی مورخ وموٴلف ۔
523. تاریخ المملكہ العربیة السعودیہ جلد اول ص 77، 78۔
524. عنوان المجد فی تاریخ نجد جلد اول ص 121، 122۔
525. مفتاح الكرامة، خاتمہٴ جلد پنجم ص 512، طبع مصر۔
526. روضات الجنات ج4 ص 198۔
527. كتاب ”نزہة الغری“ كے موٴلف شیخ خضر ثانی سے نقل كرتے ھیں كہ وھابیوں نے حبیب ابن مظاھر كی قبركی ضریح جو لكڑی سے بنی هوئی تھی توڑ كر اس میں آگ لگادی، اور اس سے حرم مطھر كے قبلہ كی طرف دالان میں قهوہ (چائے) بنایا، اس كے بعد حضرت امام حسینں كی قبر كی ضریح كو بھی توڑنا چاھتے تھے لیكن چونكہ اس میں لوھا لگا هوا تھا جس كی بناپر اس كو نہ توڑ سكے۔ (ص52)
528. تاریخ كربلا وحائر حسین ص 174۔
529. تاریخ كربلا وحائر حسین ص 172۔
530. العراق قدیماً وحدیثاً ص 127۔
531. حدائق السیاحہ ص 427۔
532. حضرت امام حسین ں كے خزانہ كے غارت هونے پر دوسری دلیل یہ ھے كہ شیخ خضر نے بھت سی ان چیزوں كو وھابیوں كے پاس دیكھا ھے جو غارت كرنے كربلا میں آئے تھے، جیسے ایك بڑا قرآن بھت خوبصورت تحریر میںجس پر سونے سے جدول بنے هوئے تھے، اور حضرت امام حسین (ع)كے خزانہ سے متعلق ھیرے وجواھرات سے مزین تلواریںوغیرہبھی تھیں۔ (نزہة الغریٰ ص52)
533. 1213ھ میں علی پاشا والی بغدادكے حكم سے نجد پر حملہ كیا گیا اور اس كے بعد هوئے واقعات كو دوحة الوزرا میں تفصیل كے ساتھ نقل كیا گیا ھے (ص 204 سے) اس كے بعد علی پاشا اور سعود بن عبد العزیز كے درمیان ایك صلح هوئی جس میں ایك بات یہ تھی كہ عراق سے جانے والے حجاج كو وھابی حضرات كچھ نہ كھیں اور دوسری بات یہ تھی كہ عراق پر حملہ كرنے سے باز رھیں، چنانچہ عبد العزیز نے اپنے خط میں اسی صلح كی طرف اشارہ كیا ھے۔
534. دوحة الوزرا، ص 213 سے 217 تك كا خلاصہ۔
535. میرزا ابو طالب اپنے سفر نامے میں(جس كے بعض حصہ كو بعد میں ذكركیا جائے گا) اس طرح لكھتے ھیںكہ عمر آقا كربلا كا حاكم وھابیوں كا ھم زبان او رھم قول تھا جب وھابیوں نے حملہ شروع كیا اور یہ نعرہ ”اقتلوا المشركین“ و”اذبحوا الكافرین“ بلند كیا اس وقت عمر آقا ایك دیھات میں جا چھپا، اور آخر كار سلیمان پاشا كے ھاتھوں قتل هوا۔ (ص408)
536. میرزا ابو طالب صاحب وھابیوں كے حملہ كے گیارہ مھینہ بعد كربلا پہنچے ،وہ فرماتے ھیں كہ شھر كربلا كی دیوار مٹی كی تھی جس كا عرض بھی كم تھا اور مضبوط بھی نھیں تھی جس كی بناپر وھابی لوگ اس كو گراكر شھر میں داخل هوگئے تھے۔ (سفر نامہ ص 408)
537. مفتا ح الكرامة جلد 7 ص 653، گذشتہ چار وجوھات كے علاوہ ایك دوسری وجہ یہ بھی بیان كی جاسكتی ھے كہبغداد اور اس كے قرب وجوار میں طاعون كی بیماری پھیل چكی تھی، (دوحة الوزرا ص 216) جس كی بنا پر شھر كے ذمہ دار افراد اپنی جان بچانے كی فكر میں تھے لہٰذا وہ شھر كربلا سے دفاع نہ كرسكے۔
538. تاریخ المملكة العربیة السعودیہ جلد اول ص 97، 98۔
539. عنوان المجد جلد اول ص 142۔
540. مفتاح الكرامة ج 7 ص 653۔
541. تاریخ نجد ص 99۔
542. ان تحریروں میں اگرچہ بعض غلطیاں بھی ھیں لیكن اس كے ساتھ بھت سے دقیق اور باریك نكات بھی ملتے ھیں۔
543. مسیر طالبی ص 408، 409۔
544. روضة الصفاء، ناصری ج 9 ص 381۔
545. ناسخ التواریخ جلد اول ص 119، 120۔
546. مسیر طالبی یا سفر نامہ میرزا ابو طالب ص 412، تاریخ كے مطالعہ سے یہ بات ثابت ھے كہ عبد العزیز نے فتح علی شاہ كے پاس كئی مرتبہ اپنا نمائندہ بھیجا ھے، چنانچہ عبد اللہ بن سعود جس كانام محمد تھا اس كا ایك فوٹو (دیوار پر نقش)فتح علی شاہ كے ساتھ سلام كے باغ گلستان میں اب بھی موجود ھے، (زنبیل حاج فرھاد ص 143)
547. مآثر سلطانیہ ص 86۔
548. دوحة الوزرا كے موٴلف كھتے ھیں كہ كربلا اور نجف كے حادثات كی اطلاع ایران كی حكومت كو دی گئی۔ (ص 217)۔
549. منتظم ناصری ج 3 ص 78۔
550. روضة الصفای ناصری ج 9 ص 585، 586 كا خلاصہ۔
551. ابن بشر جلد اول ص 125، وصلاح الدین مختار جلد اول ص 78۔
552. عنوان المجد جلد اول ص 126۔
553. جلد اول ص 192، كركوكلی كھتا ھے (دوحة الوزرا ص 227) عبد العزیز كا قاتل اصل افغانی تھا اور وہ بغداد میں رھتا تھا جس كا نام ملا عثمان تھا اس نے دین اسلام اور مسلمانوں كا دفاع كرنے كے لئے نذر كی تھی اورپروگرام كے تحت عبد العزیز كے قتل كا ارادہ كیا تھا او روہ وھاں جاكر وھابیوں كے بھیس میں رہنے لگاتھا۔
554. ابن بشر جلد اول ص 172۔
555. ماضی النجف وحاضرھا، جلد اول ص 324، مولف نُزہة الغری كھتے ھیں كہ وھابیوں نے نجف كے لوگوں پر پانی بند كردیا تھا، (ص53)
556. عراق سے نجد اورحجاز كے لئے ایك راستہ ھے جو ایسے جنگل سے گذر تا ھے جھاں پر آب ودانہ كم هوتا ھے، اور قدیم زمانہ میں ایران اور عراق سے اكثر حجاجاسی راستہ سے جایا كرتے تھے،یہ راستہ” جبل معروف“(اس وجہ سے كہ بلاد الجبل نامی علاقہ سے جو ایران اور عراق كے مركزی علاقہ میں ھے اسی راستہ سے حجاج حج كے لئے جایا كرتے تھے) كے نام سے مشهور تھا، لیكن آج كل اس سے كوئی نھیں جاتا۔
557. ماضی النجف وحاضرھا، جلد اول ص 325، یہ واقعہ كتاب ”غرائب الاثر“كے قلمی نسخہ سے نقل هوا ھے، كركوكلی كھتا ھے (دوحة الوزراء ص 212) وھابیوں نے1214ھ میں نجف اشرف پر حملہ كیا لیكن قبیلہ خزاعل نے اس كا مقابلہ كیا او ر وھابیوں كے تین سو لوگوں كو قتل كردیا۔
558. ماضی النجف وحاضرھا، ص325، 326۔
559. ”كركوكلی“ (دوحہ الوزراء ص 217 میں) كھتا ھے كہ حضرت علی ں كے خزانہ كو حضرت امام موسیٰ كاظم ں كے خزانہ میں منتقل كردیا گیا، اسی طرح كتاب ”موسوعة العتبات المقدسہ“ج اول بخش نجف اشرف ،ص 166، میں كتاب ” تاریخ العراق بین احتلالین“ سے نقل كرتے هوئے لكھا ھے كہ1216ھ میں خزانہ امیر المومنین ں كو وھابیوں كے ڈر سے كاظمین میں ركھوادیا گیا، اور اس خزانہ كو لے جانے والے حاج محمد سعید بك دفتری تھے۔
560. عنوان المجد فی تاریخ نجد جلد اول ص 137۔
561. ماضی النجف وحاضرھا، جلد اول ص 326۔
562. جلد 5 ص 512۔
563. مفتاح الكرامہ ج 7 ص 653، ایك بھت ظریف نكتہ یہ ھے جس وقت علامہ مرحوم سید محمد جواد عاملی اسلحہ لئے نجف اشرف سے دفاع كررھے تھے او رھر وقت یہ لگ رھا تھا كہ دشمن اب شھر پر قبضہ كرلے گا اور سب كو قتل كردیگا مال ودولت كو غارت كردے گا، اس وقت بھی موصوف كتاب لكھنے میں مشغول تھے، وہ بھی مفتاح الكرامہ جیسی كتاب جو فقہ شیعہ كی اھم كتابوں میں مانی جاتی ھے، چنانچہ آدھی رات بلكہ صبح تك ان دونوں كاموں میں مشغول رھے، یعنی شھر كا دفاع بھی كیا اور كتاب بھی لكھتے رھے۔
564. ماضی النجف وحاضرھا ج1ص330۔
565. كانون اول روم كے قدیم مھینوں میں سے ھے جو دسمبر اور جنوری كے مطابق هوتا ھے، اور بعض عربی ممالك میں آج بھی یہ مھینے انگریزی مھینوں كی جگہ رائج ھیں۔
566. كتاب تاریخ الوزرات العراقیہ سے اقتباس، اس كتاب كی پھلی جلد میں مختلف مقامات پر اس طرح كے دوسرے واقعات تفصیل كے ساتھ بیان كئے گئے ھیں، ھم اپنے قارئین كرام كو یھیں پر یہ بتادیں كہ اسی كتاب كے باب ہشتم میں ” جمعیة الاخوان“ كے بارے میں تفصیل بیان كی جائے گی۔
569. طبقات اعلام الشیعہ ،جلد اول كا دوسرا حصہ ص 594۔
570. سوال وجواب دونوں كتاب ”تراث كربلا“ ص 285، پر موجود ھیں۔
571. موسوعة عتبات المقدسہ بخش كربلا جلد اول ص 336۔
572. سریانی مھینوں كا ساتواں مھینہ، جو اپریل سے مطابقت ركھتا ھے، (مترجم)
573. موسوعة عتبات المقدسہ بخش كربلا جلد اول ص356، وفی بلا دالرافدین ص 69۔
574. موسوعة عتبات المقدسہ بخش كربلا جلد اول ص358۔
575. سریانی سال كا چوتھا مھینہ،جوجولائی سے مطابقت ركھتا ھے، (مترجم)
576. تاریخ بیست سالہ ایران، تالیف آقای حسین مكی جلد 2 ص 342 تا 353 كا خلاصہ۔
577. تاریخ المملكة العربیة السعودیہ، جلد اول ص 86۔
578. دائرة المعارف اسلامی جلد اول ص 192۔
579. تاریخ مكہ جلد 2 ص 135، 136۔
580. عنوان المجد جلد اول ص 153 كاخلاصہ۔
581. تاریخ المملكة العربیة السعودیہ جلد اول ص 118، عثمانی موٴلفین میں سے جناب سلیمان فائق بك لكھتے ھیں كہ سعود چاھتا تھا كہ ایك ایسی عربی حكومت بنائے جس میں عراق، حجاز اور شام شامل هو اور خود اس كا بادشاہ هو، (ص37)
582. دائرة المعارف اسلامی جلد اول ص 192، 193۔
583. سر زمین مصر، سلطان سلیم عثمانی كے زمانہ سے عثمانیوں كے تحت تھی اور جس وقت كی ھم بات كررھے ھیں اس وقت محمد علی پاشا عثمانی سلطان كی طرف سے والی تھا، لیكن آہستہ آہستہ خود وہ اور اس كی اولاد عثمانی سلطنت سے نكلتے چلے گئے ”جرج آنتونیوس“كھتا ھے كہ محمد علی پاشا كے دل میں بادشاھت كا جذبہ تھا اور اتریش كی حكومت پر نگاہ جمائے هوئے تھا، (یقظة العرب ص 86)
584. تاریخ المملكة العربیة السعودیہ جلد اول ص 119 كا خلاصہ۔
585. عنوان المجد جلد اول ص 158۔
586. تاریخ المملكة العربیة السعودیہ جلد اول ص 23ا سے 129 تك كا خلاصہ۔
587. ناسخ التواریخ قاجاریہ جلداول ص 206۔
588. المختار من تاریخ الجبرتی ص 539۔
589. مرحوم شمس العلماء گرگانی اپنی كتاب میں جو وھابیوں كے بارے میں لكھی ھے اس میں موصوف نے وھابیوں اور صادق خان كی ریاست میں ایرانی لشكر كے درمیان هوئی لڑائی جھگڑوں كے بارے میں، یھاں تك كہ وھابیوں كے ایران پر حملے اور وھابیوں كے فتح علی شاہ كے نام خط اور اس كے جواب كو بھی ذكر كیا ھے، لیكن اس كا مدرك اور ثبوت پیش نھیں كیاھے۔
590. تاریخ المملكة العربیة السعودیہ جلد اول ص 133۔
591. ممكن ھے مغرب سے مراد مراكش هو یا الجزائر او ر ٹیونس كو بھی شامل هو۔
592. اس وقت شام میں، سوریہ، لبنان، اردن او رفلسطین سب شامل هوتے تھے،چنانچہ اس وقت كی یہ فعلی تقسیم دوسری عالمی جنگ كے بعد كی ھے۔
593. یہ اس وقت كا واقعہ تھا كہ جب ابراھیم پاشا حناكیہ میں موجود تھے۔
594. ابن بشر صاحب كھتے ھیں كہ اس وقت توپ كے ھر گولے كو مصر سے درعیہ لے جانے كا كرایہ 8ریال سعودی هوتا تھا اور وہ گولہ اتنے وزنی هوتی تھی كہ ایك اونٹ صرف چھ گولوں كو لے جاسكتا تھا۔ (جلد اول ص 218)
595. عنوان المجد جلد اول ص 210۔
596. زینی دحلان، الفتوحات الاسلامیہ ج2 ص 267، 268۔
597. ابن بشر صاحب كھتے ھیں كہ شھر درعیہ كی اس وقت كی عمارتوں كی عظمت وثروت اور قوت اور وھاں كی جمعیت كی كثرت كی توصیف بیان كرنا مشكل ھے، اس شھر میں ھمیشہ قافلے آتے رھتے تھے او روھاں كوئی گھرھی ایسا هوگا جو فروخت كیا جاتا تھا، اس وقت وھاں پر مكانوں كی قیمت سات ہزار ریال، پانچ ہزار ریال، اور چھوٹے چھوٹے مكانوں كی قیمت ایك ہزار ریال هوتی تھی اسی طرح ایك دكان كا ماھانہ كرایہ 45 ریال هوتا تھا ۔ (ج اول ص216)
598. ھم نے محمد علی پاشا اور ابراھیم پاشا كے وھابیوں پر حملوں كی تفصیل، كتاب عنوان المجد ابن بشر نجدی (جلد اول ص 157) سے اور تاریخ المملكة العربیة السعودیہ جلد اول ص 143 سے 193 تك كا خلاصہ نقل كیاھے، ان كے علاوہ كتاب فتوحات الاسلامیہ سید احمد زینی دحلان مفتی مكہ اور كتاب عجائب الآثار جبرتی سے استفادہ كیا ھے۔
599. مصر سے مراد شھر قاھرہ ھے جس كے قدیم اور جدید دو حصے تھے۔
600. المختار من تاریخ الجبرتی ص1012، 1013۔
601. المختار من تاریخ الجبرتی ص1012، 1013۔
602. المختار من تاریخ الجبرتی ص 823، ابن ایاس نے عثمانی سپاھیوں كے فساد اور برے اعمال كے بارے میں بھت سی داستانیں لكھی ھیں یھاں تك كہ سلطان سلیم كے مصر میں قیام كے وقت نوبت یہ پهونچی كہ قاھرہ شھر میں یہ اعلان كرادیا گیا كہ جب تك عثمانی سپاھی شھر سے خارج نہ هوجائیں كوئی غلام، كنیز، عورتیں اور ”اَمرد“ (وہ لڑكے جن كے ابھی داڑھی مونچھ نھیں نكلی هو) لڑكے اپنے گھروں سے باھر نہ نكلےں۔ (بدایع الزهور، جلد 5 ص 188)
603. المختار من تاریخ الجبرتی ص823۔
604. تاریخ المملكة العربیة السعودیہ جلد اول ص 194۔
605. تاریخ المملكة العربیة السعودیہ جلد اول ص 198 سے 207 تك كا خلاصہ۔
606. غیر عرب مولٴفوں كے علاوہ انگلینڈ كی” لیڈی بلنٹ“نے اپنے شوھر كے ساتھ شمر اور حائل كی پھاڑیوں كا سفر كیا ھے اس نے اپنے سفر نامہ میں آل رشید كے كارناموں كے بارے میں ایك دقیق تفصیل بیان كی ھے۔ (ص 156 سے بعد تك)
607. مذكورہ ”بِلنٹ“ نے آج سے تقریباً سو سال پھلے اس علاقہ كا سفر كیا تھا جس وقت نجد پر عثمانیوں كے حملے جاری تھے، چنانچہ وہ اس طرح رقمطراز ھیں كہ عثمانیوں كے پاس اتنا سب كچھ اسلحہ، لشكر اور بھت ساری دولت هونے كے باوجود بھی وہ جنگلوں میں مسافروں كی جان ومال كو محفوظ نہ ركھ سكے، اور جس مدت میں وہ لو گ وھاں رھے ھیں ان كا نفوذ فقط شھروں میں تھا، یھاں تك كہ دمشق سے حج كے لئے جانے والا راستہ بھی بغیر سپاہ كے یا خطروں كو مول لئے بغیرطے نھیں كیا جاسكتا تھا، (سفری بہ بلاد نجد ص 220)
608. تاریخ المملكة العربیہ السعودیہ، جلد اول ص 318۔
609. تاریخ المملكة العربیة السعودیہ جلد اول ص 388۔
610. تاریخ المملكة العربیة السعودیہ، جلد دوم، ص 25 تا 29 كا خلاصہ۔
611. اس واقعہ كی تفصیل كتاب تاریخ المملكة العربیة السعودیہ، جلد دوم از ص 30 تا43، اور كتاب جزیرة العرب فی القرن العشرین از ص 272 سے 275 تك بیان
612. حافظ وھبہ صاحب اس سلسلہ میں كھتے ھیں (ص 275، 276) كہ انگلینڈ نے ایك سال پھلے یعنی1216ھ میں جدّہ میں اپنی نمایندگی (سفارت) قائم كرلی تھی (تاریخ مكہ ج2 ص101) لیكن امین ریحانی كے بقول :ابن سعود نے اپنی حكومت كے آغاز میں كسی دوسرے ملك كی قونصل اور نمایندگی كو قبول نھیں كیا اور خود انگلینڈ كی نمایندگی بھی (جو اس كے اور انگلینڈ كے وزارت خارجہ كے درمیان واسطہ تھا)بحرین میں تھی۔
613. جزیرة العرب فی القرن العشرین ص 276، 277، انگلینڈ اور سعودی عرب كی حكومت میں رابطہ كا آغاز 1914ء سے هو چكا تھا جیسا كہ ھم نے اس بات كو پھلے بھی عرض كیا لیكن پھلی عالمی جنگ كے شروع هوتے ھی یہ رابطہ مستحكم اور مضبوط هوتا گیااور انگلینڈ كی حكومت كے نمائندہ ھمیشہ ابن سعود كے پاس آتے رھے اور آپس میں گفتگو هوتی رھی، اور اسی زمانہ میں انگلینڈ كے شریف حسین سے بھی اچھے تعلقات تھے او رانھوں نے حجاز كے انقلاب میں (جس كی شرح بعد میں آئے گی) اس كی مدد كی، جس كی بعض تفصیل تاریخ نجد (تالیف سنٹ جَون فیلبی) ص 315 میںذكر كی گئی ھے۔
614. قارئین كرام مزید تفصیل كے لئے شفاء الغرام فاسی جلد 2 ص 162، تا 193 پر رجوع فرمائیں۔
615. اس زمانہ میں شریف كا اطلاق صرف سید پر هوتاتھا، اور آل علی ں كے علاوہ كسی كو شریف نھیں كھا جاتا تھا۔
616. حافظ وھبہ ص 166 سے۔
617. تاریخ مكہ كے مطابق شریف عون كے زمانہ میں مسجد الحرام میں كچھ تغیر او رتبدیلی بھی دی گئی منجملہ یہ كہ اس سے پھلے تك عورتوں كے نماز پڑھنے كے لئے ایك مخصوص جگہ تھی اور اس حصے میں ایك دیوار تھی، جس كی وجہ سے عورتوں كی نماز كی جگہ الگ هوجاتی تھی، لیكن1301ھ میں شریف عون نے اس دیوار كو ختم كردیا۔
618. حافظ وھبہ صاحب كھتے ھیں كہ (ص 169، 170) لیكن صلاح الدین مختار نے شریف حسین كو ایك خود خواہ اور خود پسند انسان بتایا ھے اور كھا ھے كہ جس وقت اس كو ”عقبہ“میں تبعید (جلا وطن) كیا گیا میں اس كے دیدار كے لئے گیا اور جب میں نے اس سے مصافحہ كیا تو اپنی بڑی بڑی آنكھوں سے مجھے گھور كر دیكھا اور اشارہ كیا كہ میرا ھاتھ چومو، لیكن میں نے نہ چوما، موصوف عقبہ میں موجود بندرگاہ كے منتظمین اور وھاں پر موجود سپاہ كے سردار كے كاموں میں مداخلت كیا كرتے تھے اور اپنے بیٹے كو جو جدّہ میں تھا اس كے لئے فرمان بھیجتے رھتے تھے۔ (ج 2 ص 295)
619. جزیرة العرب فی القرن العشرین، ص 171، 175۔
620. حافظ وھبہ ص176
621. لورنس نے اپنے تمام خاطرات كواپنی كتاب میں جس كا فارسی میں ترجمہ بنام”ہفت ركن حكمت “ كے نام سے هوا ھے، تفصیل سے لكھا ھے، جس میں حجاز ونجد اور شریف حسین كے واقعات اور انگلینڈ اور عثمانی حكومتوں كی اس علاقہ میں دخالت، اور انگلینڈ نے ان سے كس طرح دوستی كا اظھار كیا اور عثمانی حكومت نے ان سے كس طرح دشمنی اختیار كی، نیز عربوں كے رسم ورواج، وغیرہ كو بھی تفصیل سے لكھاھے۔
622. تاریخ مكہ ج2 ص 227،” امین المُمَیّزْ“جو كہ ملك سعود كے زمانہ میں عربستان میں عراق كا سفیر تھا یوں رقمطراز ھے كہ میں نے مسٹر فیلبی (حاج عبد اللہ) سے لورنس كے بارے میں سوال كیا چنانچہ انھوں نے جواب دیا كہ اس كا باپ ایر لینڈ كا لرد تھا اور اس نے انگلینڈ میں كسی عورت سے شادی كی جس سے چار بچے پیدا هوئے ان میں سے ایك لورنس ھے، اس نے آكسفورڈ میں اپنی تعلیم مكمل كی، اور برٹین كی فوج سے منسلك هوگیا اور پھلی عالمی جنگ كے زمانہ میں مشرق وسطیٰ آیا، میں نے سب سے پھلے اس سے اردن میں ملاقات كی، اس كو انگلینڈكی طرف سے شریف حسین كی مدد كے لئے بھیجا گیا اور میں تو اس امید میں تھا كہ سعود كا ستارہ اقبال چمكے گا لہٰذا میں ابن سعود سے ملحق رھا۔ Fفیلبی نے لورنس كے اخلاق اور صفات كے بارے میں بتایا كہ اس طرح كاكوئی شخص ملنا مشكل ھے، كیونكہ یہ شخص بھوك اور پیاس كے عالم میں اونٹ كی طرح اور مشكلات كو برداشت كرنے میں گدھے كی طرح ھے، یہ شخص خشك زمین پر سوجاتا ھے پتھروں كو اپنا تكیہ بنا لیتا ھے، گرمی سردی اور بھوك وپیاس كی اس كی نظر میں كوئی اھمیت نھیں ھے، میں اس كی طرح نھیں هوسكتا، اس نے عربستان میں بھت سے كام انجام دئے منجملہ عمارتیں، پل اور سڑكیں بنوائیں، بادشاہ كو تخت خلافت پر بٹھایا اور اس كے بعد یہ شخص برٹین چلاگیا، یہ شخص اپنی عرفیت كے نام سے هوائی فوج میں بھرتی هوا، اور آخر كار ایك گاڑیایكسیڈینٹ میں مرگیا، (المملكة العربیة السعودیہ كما عرفتھا ص 277)
623. اقتباس از رحلات رشید رضا، ص 173 سے۔
624. بدایع الزهور ج 5 ص 125۔
625. خطط الشام، ج 2 ص 221۔
626. مفاكہة الخلان ج 2 ص 90۔
627. یھاں تك كہ ”فلیب“ كھتا ھے كہ اگرچہ سلیم كے بعض جانشین كو خلیفہ كا لقب دیا جاتا تھا یھاں تك كہ وھاں كے افراد بھی اس كو اسی عنوان سے پكارتے تھے، لیكن حقیقت یہ ھے كہ یہ لقب صرف بناوٹی تھے، اور ان كی حدود سے باھر ان كی كوئی حیثیت نھیں تھی، سب سے پھلے جس عثمانی بادشاہ كو یہ لقب دیا گیا اور ان كا دینی نفوذ عثمانی حكومت كے باھر علاقوں میں رسمی طور پر پہچنوایا گیا وہ ھے روس اور تُرك كا معاہدہ تھا جو ”پیمان كوچوك كینارجی“ كے نام سے مشهور تھا، جس پر1188ھ مطابق 1774ء میں دستخط هوئے تھے۔ (تاریخ عرب ص 877)
628. ثعالبی صاحب كھتے ھیں كہ یہ مذكورہ بردہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے كعب بن زھیر كو (ان كے مشهور ومعروف قصیدہ لامیہ كے موقع پر) عطا فرمایا تھا، او رمعاویہ نے اس كو كعب سے چھ سو دینار میں خریدا تھا اور اس كے بعد سے تمام خلفاء اس كو تبرك كے طور پر ركھتے چلے آئے ھیں، (ثمار القلوب ص 61)
629. مروج الذھب ج3 ص 246۔
630. الاسلام والخلافہ ص257، بہ نقل از ابن ایاس۔
631. خلافت كا اصل منشاء اور ان كے شعار كے بارے میں درج ذیل كتابوں میں تفصیل سے بیان هوا ھے : 1صبح الاعشیٰ ج 3، 2۔ مآثر الانافة ج2 (یہ دونوں كتابیں قلقشندی كی ھیں) اسی طرح مذكورہ چیزوں كے بارے میں مخصوصاً ”بُردہ“ كے سلسلہ میں كتاب احكام السطانیہ، تالیف ماوردی، اور نھایہ ابن اثیر میں تفصیل بیان كی گئی ھے۔
632. الذخائر والتحف ص 190۔
633. مفاكہة الخلان جلد اول ص 383، ظاھراً لیث بن سعد كا مقبرہ مراد ھے جو مصر كے اھل سنت كی زیارتگاہ ھے، اور یہ لیث، مالك بن انس (مالكی مذھب امام) كے قریبی دوستوں اور ان كے روایوں میں سے تھے۔
634. المختار من بدایع الزهور، ص 1028۔
635. مفاكہة الخلان ج 2 ص 36۔
636. ”توپ قاپی“ میوزیم جو پھلے عثمانی بادشاهوں كا اھم محل تھا اس میں كئی حصے ھیں، جس كے ایك حصے میں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خلفاء سے منسوب چیزوں كو ركھا گیا ھے، او ران چیزوں كے علاوہ جو بیان هوچكی ھیں دوسری چیزیں بھی پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خلفاء سے منسوب موجود ھیں، ان میں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی ٹوپی اور آپ كا دندان مبارك، اور وہ قرآن بھی وھاں موجود ھے جس پر عثمان كا خون گرا تھا، اسی طرح وھاں ایك دو منھ والی اوربھت چوڑی شمشیر بھی ھے جس كے بارے میں یہ كھا جاتا ھے كہ یہ حضرت علی ں كی تلوار ھے، اور اسی طرح كی دوسری چیزیں بھی اس میوزیم میں موجود ھیں، قارئین كرام كی خدمت میں مزید آگاھی كے لئے عرض ھے كہ پیغمبراكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب چیزیں خصوصاً آنحضرت كی داڑھی كے بال دنیا كے مختلف ممالك میں موجود ھیں مثلاً دھلی كی جامع مسجد میں، قاھرہ میں مشہد راٴس الحسین ں میں ۔
637. تاریخ مكہ ج2 ص 230، چنانچہ صاحب تاریخ مكہ كھتے ھیں :
638. شریف حسین گویا انگریزوں كے دھوكہ میں آگئے كیونكہ انھوں نے اس كو كچھ وعدے دئے تھے لیكن بعد میں ان پر عمل نہ كیا، اور ٹھیك كارزار كے وقت اس سے جدا هو كر دوسروں سے ملحق هوگئے، (قارئین كرام اس سلسلہ میں مزید آگاھی كے لئے كتاب المملكة العربیة السعودیہ اور كتاب موسوعة العتبات المقدسہ بحث مكہ میں رجوع فرمائیں)
639. دوسری عالمی جنگ كے بعد عراق كی حكومت مستقل هوگئی اور مشرقی اردن (یا ماوراء اردن) بادشاھت میں تبدیل هوگیا اور عبد اللہ كے نام كی جگہ ملك عبد اللہ كے نام سے پكارا جانے لگا۔
640. تاریخ مكہ ج2 ص232، اس سے پھلے بھی چند سال پھلے شریف حسین كی خلافت كی باتیں هوا كرتی تھیں، اور انگریزوں نے بھی اس بات كی موافقت كردی تھی جیسا كہ ھم نے پھلے بھی اشارہ كیا ھے، اور اس كے بعد بھی دوبارہ خلافت كے بارے میں گفتگو هوئی جیسا كہ ”مجلہ المنھل چاپ مكہ (شمارہ ذی الحجہ 1373ھ) اور مجلہ جمهوریہ مطبوعہ، بمبئی ضمن سلسلہ وار مقالات میں، بیان هوا ھے۔
641. تاریخ الوزارات العراقیہ جلد اول ص 153، 154 كا خلاصہ۔
642. تاریخ مكہ ج2 ص 236۔
643. وھابی لوگ اپنے حاكم كو اپنا امام كھتے تھے۔
644. المملكہ العربیة السعودیہ ج2 ص 299، 300، ”جرج آنتونیوس“ كے قول كے مطابق انگلینڈ كی حكومت نے كھا تھا كہ اگر دونوں حكومتیں ھم سے یہ درخواست كریں كہ ان دونوں كے درمیان فیصلہ كرادیں تو اس وقت ھم ان كے كام میں مداخلت كرسكتے ھیں۔ (یقظة العرب ص 455)
645. صلاح الدین مختار ج2 ص300 سے۔
646. صلاح الدین مختار، ج2 ص 306، اور314 سے 316 تك۔
647. ازرقی صاحب كی تحریر كے مطابق (اخبار مكہ جلد اول ص 110) زمانہٴ جاھلیت سے ھی خانہ كعبہ كی كلید داری كا اعزاز ”بنی عبد الدار“ كو تھا اور جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مكہ كرلیا تو آپ نے اسی خاندان كے لئے اس افتخار كو باقی ركھا اس طرح كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عثمان بن ابی طلحہ (قبیلہ بنی عبد الدار) كو خانہ كعبہ كی كلید (چابی) عطا فرمائی اور فرمایا كہ خدا كی یہ امانت تمھارے پاس ھے اور اگر كوئی اس كو تم سے چھینتا ھے تو وہ ظالم ھے، عثمان پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے حضور میں مدینہ منورہ پهونچا اور كلید اپنے پسر عمہ ”شیبہ“ كو دیدی، اس طرح یہ افتخار بنی شیبہ میں باقی ر ھا اور اس وقت سے خانہ كعبہ كی كلیدداری اسی خاندان میں ھے، اور شیبی كے نام سے مشهور ھے، اس سلسلہ میں ابن تیمیہ كھتا ھے (السیاسة الشرعیہ ص 6) جب جناب عباس نے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خانہ كعبہ كی كلید كی درخواست كی تو بنی شیبہ كو لوٹانے كے لئے یہ آیت نازل هوئی:< اِنَّ اللّٰہَ یَامُرُكُمْ اَنْ تُوَدُّوْا الاٴمَانَاتِ اِلٰی اَہْلِہٰا۔ > (بے شك اللہ تمھیں حكم دیتا ھے كہ امانتوں كو ان كے اھل تك پهونچا دو) (سورہ نساء آیت 58)
648. صلاح الدین مختار، ج2، ص343، 344۔
649. تاریخ المملكة العربیة السعودیہ، ج2، ص 357، 363۔
650. صلاح الدین مختار ج2 ص380 تا 382 تك كا خلاصہ، اگرچہ عبارت میں جمادی الاول لكھا ھے لیكن ظاھراً جمادی الثانی صحیح هونا چاہئے كیونكہ امیر محمد 23 ربیع الثانی كو مدینہ میں وارد هوا ھے اور مدینہ كی سپاہ كے لشكر نے دو مھینہ كے بعد مدینہ كو سپرد كیاھے، لہٰذا دو مھینہ جمادی الثانی میں پورے هوتے ھیں نہ كہ جمادی الاول میں۔
651. كشف الارتیاب ص 59 تا 61۔
652. مرحوم علامہ عاملی كے نظریہ كے مطابق وھابیوں كو اس بات كا ڈر تھا كہ عالم اسلام ان كے مقابلہ كے لئے اٹھ كھڑا هوگااور اگر یہ ڈر نہ هوتا تو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كو بھی مسمار كرنے میں بھی كوئی كمی نہ كرتے۔ جابری انصاری اپنی كتاب تاریخ اصفھان (ص 392) میں 1343ھ كے واقعات كے ضمن میں وھابیوں كے حجاز میںقبور كے ویران كرنے كے بارے میں كھتے ھیں كہ حاج امین السلطنہ نے1312ھ میں (ائمہ بقیع علیهم السلام كی لوھے كی ضریح) كو اصفھان میں بنوایا یہ ضریح دوسال میں تیار هوئی، اور جب وھابی لوگ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كو منہدم كرنے كے لئے آگے بڑھے تو ان میں سے كسی نے یہ آیت پڑھی:<یَا اَیُّها الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاٰ تَدْخُلُوا بُیُوْتَ النَّبِی۔ > (اے ایمان لانے والوں خبر دار پیغمبر كے گھروں میںبغیر اجازت داخل نہ هو)(سورہ احزاب آیت 53) یہ آیت سن كر انھوں نے اس جسارت سے صرف نظر كرلی۔
653. كشف الارتیاب ص 60، ایران كے نمائندے موضوع كی تحقیق كے لئے حجاز گئے، یہ حضرات مصر میں ایران كے سفیر اور شام میں ایران كے سفیر كی صدرات میں حجاز گئے۔ (كشف الارتیاب ص 65)
654. ” قران “ ایران میںقاچاریہ حكومت كا پیسہ تھا جو چاندی كا هوتا تھا اور اس كا وزن 24چنوں كے برابر هوتا تھا، اور” شاھی“قاجاریہ حكومت كے زمانہ میں 50 دینار كے برابر هوتا تھا۔ (مترجم)
655. سفر نامہ فراھانی، ص 281 ۔
656. ہدایة السبیل ص 127۔
657. تحفة الحرمین ص 227۔
658. مرآة الحرمین جلد اول ص 426۔
659. الكامل ج8 ص 214۔
660. وفاء الوفاء بہ اخبار دار المصطفیٰ ج3 ص916۔
661. رحلة ابن جبیر ص 154۔
662. كیونكہ اس وقت ہندوستان پاكستان الگ الگ نھیں هوئے تھے اور ہندوستان میں مسلمانوں كی تعداد بھت زیادہ تھی۔
663. صلاح الدین مختار ج2 ص 385، 386۔
664. كشف الارتیاب ص 61، 62 ،1308ھ شمسی میں سعودیہ سے ایران ایك ھیئت آئی اور دونوں ملكوں میں سیاسی تعلقات برقرار هوئے۔
665. ابن سعود سے بیعت كے طریقہ كار كو ”سلطنت ملك سعود“ كی گفتگو میں بیان كیا جائے گا، اسی طرح حجاز كے لوگوں كا خط ابن سعود كے نام اور ابن سعود كا جواب، یہ دونوں ”ملوك المسلمین المعاصرون“ نامی كتاب میں موجود ھے۔ (جلد اول ص 136)
666. ابن سعود كی بادشاھت كے پھلے سال جو واقعات اور حادثات رونما هوئے ھیں ان كو كتاب المملكة العربیة السعودیہ، ج2 ص 386 كے بعد سے دیكھا جاسكتا ھے۔
667. ملكوك المسلمین المعاصرون، جلد اول ص 136 سے 138 تك، اس كتاب میں دونوںكے درمیان هوئے معاہدہ كی عبارت موجود ھے۔
668. تاریخ المملكة العربیة السعودیہ ج2 ص 477، 1935ء میں ظھران كے علاقہ میں جب یہ دیكھ لیا گیا كہ تیل كی مقدار بھت ھے اور اس كو فروخت بھی كیا جاسكتا ھے، اور وھاں پر ایك كنویں میں تیل بھت ابلنے لگا، سعودی حكومت1938ء میںتیل نكالنے میں كامیابی حاصل هوئی، اور اس كے ایك سال بعد اس تیل كی مقدار ایك ملین ٹن تك پهونچ گئی، (تاریخ نجد فیلبی ص 389) اسی طرح فیلبی كی تحریر (تاریخ نجد ص 385) كے مطابق 1923ء میں ابن سعود كی ”كاكس“ (انگلینڈ كا مشهور ومعروف سیاستمدار) كی سرپرستی میں تیل نكالنے میں تشویق هوئی تو اس نے مشرقی علاقوں میں تیل كی تلاش كا كام مشرقی كمپنی كے حوالے كیا جبكہ كاكس اس بات پر ترجیح دیتا تھا كہ یہ كام انگلینڈ اور ایران كی حكومت كے حوالے كرے، لیكن بعض وجوھات كی بناپر مذكورہ منصوبہ فیل هوگیا۔
669. عربی اعلان كی عبارت ”ام القریٰ“ نامی اخبار مطبع مكہ بتاریخ 20 ذی الحجہ 1362ھ نمبر 990، سال 20 سے نقل كی گئی ھے۔
670. جیسا كہ مشهور هوگیا كہ ابو طالب نے اپنے احرام كے كپڑوں میں قے كو لے لیا، لیكن یہ بات بھت بعید دكھائی دیتی ھے كیونكہ 12ذی الحجہ كو تمام حاجی لباس احرام كو نكال دیتے ھیں۔
671. ابوطالب یزدی كا واقعہ دوسری عالمی جنگ كے زمانہ كا واقعہ ھے، اس موقع پر زندگی بسر كرنا بھت مشكل كام تھا خصوصاً حج كے لئے سفر كرنا، اكثر وہ ایرانی جو حج سے مشرف هونا چاھتے تھے كتنی مشكلات كے بعد كویت پهونچتے تھے اور وھاں سے كسی ٹرك وغیرہ كے ذریعہ وہ بھی خطرناك راستوں سے سعودیہ پهونچتے تھے، مقصد یہ ھے كہ ابو طالب كتنی مشكلات اور زحمات كو برداشت كركے مكہ معظمہ پهونچے اور ان كے لئے یہ عجیب واقعہ پیش آیا۔
672. خلاصة الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر، ج3 ص 432، 433، سید مومن سے مراد: میر محمد مومن بن دوست محمد حسینی استرابادی ھیں جو ایران سے حجاز پهونچے اور بیت اللہ الحرام كے مجاور هوگئے تھے، خاتون آبادی اپنی كتاب ”وقائع السنن“ (ص533) میں كھتے ھیں كہ میں1086ھ میں(سید مومن كی شھادت سے دو یا تین سال پھلے) مكہ معظمہ حج كے لئے گیا او رمیں نے سید مومن سے ”اجازہٴ حدیث“ لیا۔
673. مذكورہ موضوع اس بات كی تائید كرتا ھے كہ یہ چیز مسلمانوں میں اختلاف ایجاد كرنے كے سلسلہ میں بھت پھلے سے مشهور ھے ،اس كے پیچھے كوئی نہ كوئی ھاتھ ضرور هوتا ھے، جیساكہ ابو طالب كے واقعہ میں بھی كھا گیا ھے۔
674. تاریخ مكہ تالیف احمد السباعی ج2 ص 40۔
675. تاریخ مكہ ج2 ص 71۔
676. مفاكہة الخلان ابن طولون ج2 ص 74، عبارت یہ ھے”واذا وصلوا ابی بین الجلالتین دعوا علی الصوفی المذكور“ مراد یہ ھے كہ جب سورہ انعام كی آیت 124 پر پهونچتے تھے اس آیت میں ایك جگہ دو بار كلمہ اللہ آیا ھے <واذا جائتھم آیة قالوا لن نومن حتی نوتی مثل ما اوتی رسل اللّٰہ، اللّٰہ اعلم حیث یجعل رسالتہ> پھلے والے كلمہ اللہ كے بعد لعنت كرتے تھے اور اگر كسی كے لئے دعا كرنا منظور هوتا تھا تو دعا كرتے تھے، اور پھر دوسرے كلمہ اللہ سے آیت كو شروع كرتے تھے اور پورا سورہ مكمل كرتے تھے۔
677. ابن ایاس ج5 ص 258، 259۔
678. المختار من بدیع الزهور ص 1023۔
679. ابن طولون ج2 ص 50، ھم انشاء اللہ بعد میں اشارہ كریں گے یہ سب فتویٰ بادشاہ كے حكم(بزور) سے صادر هوتے تھے، اور اس طرح كے فتوے صادر هونا عثمانی بادشاهوں كے زمانہ میںرائج تھے۔
680. روم سے مراد وھاں كے عثمانی ھیں ۔
681. یعنی جھاد راہ خدا كا درجہ ركھتا ھے۔
682. تذكرہ شاہ تھماسب ص 64۔
683. سوال اور فتویٰ دونوں كتاب حدیقة الزوراء ابن سویدی ص95 پر موجود ھے۔
684. كتاب حدیقة الزوراء ص 94، لیكن یہ سب منصوبے نادر شاہ كے آنے سے نقش بر آب هوگئے، اور شیخ الاسلام كے فتوے نے مسلمانوں میں اختلاف ایجاد كرنے كے علاوہ كچھ اثر نہ دكھایا۔
685. ابن السویدی ص 96۔
686. كیونكہ اس وقت حجاز عثمانی بادشاهوں كے قبضے میں تھا۔
687. تاریخ مكہ ج 2 ص 28۔
688. سلاطین عثمانی كی خلافت كے بارے میں تفصیل گذر چكی ھے۔
689. تاریخ مكہ ج2 ص77۔
690. نقل از جھان گشای نادری۔
691. مجلہ یادگار شمارہ ششم، سال چھارم ،ص 43 تا 55 تك كا خلاصہ۔
692. مجلہ یاد گار میں اس كتاب كا نام دوسرے طریقہ سے بیان كیا گیا ھے۔
693. دوحة الوزرا،كركوكلی ص 46 تا 63 تك كا خلاصہ، اس كتاب میں تمام جگہ پر مغان كی بجائے صفان لكھا ھے۔
694. تاریخ المملكة العربیہ السعودیہ ج2ص535 كا خلاصہ۔
695. عثمانی حدود میں شیعہ كتب كا وجود ممنوع تھا، اسی بنا پر بھت كم ایسا هوتا تھا كہ عثمانی علماء یا طلباء، شیعہ كتابوں كا مطالعہ كریں، اور افسوس كا مقام تو یہ ھے كہ آج بھی بعض اسلامی ممالك میں یہ ممنوعیت جاری ھے۔
696. ملوك المسلمین المعاصرون جلد اول ص 120 كاخلاصہ۔
697. نجدی مورخ ابن بشر نے بھی اسی طرح كی خصوصیات اور صفات عبد العزیز بن محمد بن سعود (مقتول1228ھ، اور عبد العزیز بن سعود كے دادا)كے لئے بیان كئے ھیں، خصوصاً شدت عمل اور اس كے نتیجہ میں پیدا هونے والے امن وامان، اور اعراب كا چوری اور رہزنی كے عادتو ںكا چھڑوانا، (عنوان المجد، جلد اول ص 126، اور اس كے بعد تك)
698. مسلمین سے مراد وھابی ھیں۔
699. مجلہ البلاد السعودیہ مطبوعہ مكہ مورخہ 16 ربیع الاول1374ھ۔
700. اس وقت مسجد النبی كی توسیع كا كام ختم هوگیا لیكن مسجد الحرام كی نئی عمارتیں بننا ابھی بھی جاری ھے، البتہ تمام هونے والی ھے، اور اس جدید عمارت میں صفا ومروہ كے درمیان سعی كرنے كی جگہ جو پھلے ایك تنگ بازار تھا آج وھاں دو طبقہ خوبصورت عمارت بن گئی ھے، جس كا عرض بھی كافی ھے، اس وقت توسیع كے بعد مسجد الحرام كی تمام جگہ برانڈوں اور دوسری منزل سمیت ایك لاكھ میٹرمربع سے بھی زیادہ ھے۔
701. المملكة العربیة السعودیہ كما عرفتھا، ص 135، 136۔
702. ملك فیصل 1975ء میں اپنے ایك رشتہ داركے ھاتھوں شھر ریاض میں قتل كردیا گیا، اور اس كا بھائی ملك خالد اس كا جانشین مقرر هوا، چند سال پھلے بھی ملك خالد اپنے دوسرے بھائی ملك فہد كی موت كے وقت سعودیہ كی بادشاھت كے لئے مقرر هوا تھا، اور سعود نے اپنے بھائی فیصل كے حكم سے استعفاء دیا اور ملك سے باھر چلا گیا اور1969ء میں یونان میں انتقال كیا۔