چھٹا باب: وھابی مذھب كے نشر واشاعت كامركز
 

قارئین كرام! جیسا كہ ھم نے پھلے عرض كیا جن عقائد اور تعلیمات كو محمد بن عبد الوھاب نے ظاھر كیا ان سب كا اظھار ابن تیمیہ كرچكا تھا، لیكن ابن تیمیہ نے ان عقائد كا اظھار اس علاقہ میں كیا تھاجھاں پر ان عقائد اور نظریات كے قبول كرنے كا ماحول نھیںتھا، لیكن جس ماحول میں محمد بن عبد الوھاب نے انھیں عقائد كو بیان كیا وہ ماحول ان عقائد كو قبول كرنے كے لئے مختلف طریقوں سے آمادگی ركھتا تھا یعنی ان عقائد كو قبول كرنے كے لئے راستہ ھموار تھا اور اتفاقاً وھاں كے حكمراں افراد نے بھی اس كا ساتھ دینا شروع كردیا، اگرچہ شروع شروع میں بھت سی مخالفتوں كا سامنا كرنا پڑا لیكن حالات كے مناسب هونے كی وجہ سے بھت جلد مشكلات پر كامیاب هوا اور اسے اپنے كام میں كامیابی حاصل هوگئی۔
نجد كی سر زمین شیخ محمد بن عبد الوھاب كے لئے اتنی ھموار تھی كہ اس نے ان عقائد اور تعلیمات كو پھیلانا شروع كردیا اور اس میں كامیاب هوگیا لیكن اس كے بعد جو واقعات پیش آئے ان سے معلوم هوتا ھے كہ دوسرے علاقے اس كی باتوں كو قبول كرنے كے لئے آمادہ نھیں تھے، اسی وجہ سے دوسرے علاقوں میں وھابیت كی تبلیغ زیادہ كارآمد ثابت نھیں هوئی، جس كی بناپر اس كا دائرہ صرف حجاز تك محدود هوكر رہ گیا، اور اس كی تعلیمات دوسرے علاقوں میں زیادہ نھیں پھیلی، لیكن وھابیت كی طرفداری میں دوسرے لوگوں نے مختلف علاقوں میں وھابیت كو پھیلانے كا كام شروع كیا ۔
ان تمام چیزوں كے پیش نظر مناسب ھے كہ پھلے نجد كی سرزمین پر محمد بن عبد الوھاب كے نظریات پیش كرنے سے پھلے اور پیش كرنے كے بعد كے ماحول كی بررسی اور تحقیق كی جائے اور اس كے بعد ان دو طاقتوں كابھی ذكر كیا جائے جن كی وجہ سے نجد او رحجاز میں یہ نظریات پھیلائے گئے، یعنی خاندان آل سعود اور جمعیة الاخوان، اور اس كے بعد نجد وحجاز كے دوسرے علاقوں میں ان عقائد كا پھیلنا اور اس سلسلہ میں هونے والی كوششوںكو بیان كیا جائے، ھماری اس كتاب كے آئندہ صفحات انھیں چیزوں سے مخصوص ھیں۔

سرزمین نجد
”نجد“ جزیرہ نما عربستان كا وہ بڑا علاقہ ھے جوآج سعودی عرب كے علاقہ میں شمار كیا جاتا ھے، لفظ نجد كے معنی ”اونچی زمین“كے ھیں كیونكہ سر زمین نجد قرب وجوار كے علاقوں سے بلندی پر واقع ھے اس وجہ سے اس كو نجد كھا جاتا ھے، نجد كا مركز، شھر ریاض ھے جو عارض كے علاقہ میں ھے اور اس وقت سعودی عرب كا پائے تخت ھے، نجد كے دو ا ور مشهور شھر ”عنیزہ“ اور ”بریدہ“ قصیم علاقہ میںھیں، اسی طرح شھر” زلفیٰ“ ”سدیر“علاقہ میں، شھر ”شقراء“”وشم“ علاقہ میں اور شھر ”درعیہ“ عارض كے علاقہ میں نجد كے دوسرے شھر ھیں۔
نجد كی سرحد جنوب كی طرف سے یمامہ اور احقاف سے اور مشرق كی طرف سے عراق، احساء اور قطیف سے، شمال كی طرف سے صحرائے شام سے اور مغرب كی طرف سے حجاز كے علاقوں سے ملی هوئی ھے۔
علامہ آلوسی كھتے ھیں كہ نجد كا علاقہ عرب كے علاقوں میں سے بھترین علاقہ ھے اس كی آب وهوا معتدل اور سر سبز ھے، محصول (اناج) كی فراوانی، بھترین پانی اور صاف هوا اس سر زمین كی خصوصیات میں سے ھیں،نجد كے دَرّے (دو پھاڑوں كے درمیانی راستہ) پھلوں كے باغوں كی طرح ھیں اور یھاں كے گودال پانی سے بھرے حوض كی طرح ھیں. 478
قدیم اور جدید شعراء نے شھر نجد كی ھمیشہ توصیف كی ھے، 479 اور اس كے بعد جناب آلوسی نے نجد كی مدح میں كھے گئے اشعاربھی بیان كئے ھیں۔
”یاقوت حموی“ كھتے ھیں كہ جس قدر نجد كی توصیف اور اس كے شوق دیدار میں اشعار كھے گئے ھیں كسی علاقہ كے لئے اتنے شعر نھیں كھے گئے، 480 یاقوت حموی نے بھی ان اشعار میں سے چند نمونے پیش كئے ھیں، اور شایداس كی وجہ یہ هو كہ اكثر شعراء نجد كے رہنے والے نھیں تھے اور زمانہٴ جاھلیت كے اشعار میں شھر نجد كی توصیف سے متاٴثر هو كر اشعار كہہ ڈالے، سر زمین نجد كی یاد، در حقیقت اس زمانہ كی یاد ھے كہ جب وھاں كی زندگی خوش وخرم او رعیش وآرام اور وھاں كے علاقے سر سبز تھے، یھی نھیں بلكہ بعض فارسی شعراء نے بھی اس توصیف سے متاثر هوكر، نجد اور وھاں كے لوگوں كے بارے میں اشعار كھے ھیں۔

نجد كے عوام
جناب آلوسی صاحب نجد كے لوگوں كے بارے میں اس طرح كھتے ھیں :نجد كے لوگ دو گروہ میں تقسیم هوتے ھیں ”شھر نشین“481 ور ”بادیہ نشین“ (دیھاتی)، جبكہ اس علاقے میں شھر نشینكم ھیں اور دیھاتی علاقوں میں زیادہ لوگ رھتے ھیں، اسی طرح اكثر دوسرے عرب علاقے بھی ھیںجو دیھاتی زندگی كو شھری زندگی پر ترجیح دیتے ھیں، شھری افراد تجارت، كھیتی، خرمے كے باغات، اونٹ، گائیں اور بھیڑ بكریوں كو پالنے سے اپنی زندگی گذارتے ھیں، اور ان كی خوراك گھی، گوسفند گائے كا دودھ، گندم جَو، چاول، مكئی،تِل وغیرہ ھیں، اس طرف دیھاتیوں كا معاش زندگی بھیڑ بكریاں، گائے اور اونٹ پالنا تھاوہ اونٹ كا گوشت كھاتے اور اس كا دودھ پیتے تھے، اسی طرح جنگلی چوھے او رخرگوش كا بھی استعمال كرتے تھے۔
نجد كے اكثر لوگ ” ملخ“ (ٹڈّی) كھاتے ھیں اور ٹڈّی ھی ان كی وہ بھترین خوراك ھے جو اپنے لئے ذخیرہ كرتے ھیںاور یھی ان كے نزدیك بھترین، لذیذ ترین او رمنتخب غذا ھے، اسی طرح قهوہ كے بھت زیادہ شوقین ھیں، اور خوب بناتے بھی ھیں، نجدی لوگ دور دراز كے علاقوں مثلاً یورپ كے علاقوں میں سیر وسفر كو پسند نھیں كرتے، اسی وجہ سے ان كے یھاں تجارت كرنے والے كم پائے جاتے ھیں۔
اسی طرح آلوسی صاحب كھتے ھیں كہ نجدی لوگوں نے آثار تاریخی اور پرانے زمانہ كی تختیاں، وہ لكھے هوئے پتھر جن كے بارے میں ان كا گمان یہ ھے كہ یہ ”حِمیری“ (یمن كے قدیم باشاهوں كا سلسلہ) كے زمانہ كے ھیں، اور ”سدوس“ میں عارض كے علاقہ میں موجود ھیںان كو نابود كركے زمین كے برابر كردیا تاكہ كوئی یورپی سیّاح ان كو دیكھنے كے لئے ان كے ملك كا سفر نہ كرے۔ 482
خلاصہ یہ كہ اھل نجد كی (آلوسی كے زمانہ میں)یہ خصوصیت تھی كہ نہ تو جلدی سے كسی دوسری جگہ جانے كے لئے تیار هوتے تھے اور نہ ھی كسی غیر ملكی خصوصاً یورپین افراد كا اپنے ملك میں آنا پسند كرتے تھے۔
نجدی شھریوں كا لباس معمولی كپڑے او رعباوقبا هوتی ھے اھل علم حضرات عمامہ (جس كا تحت الحنك ظاھر رھتا ھے) باندھتے ھیں اور عوام الناس عقال (سر پر باندھی جانے والی ڈوری) سر پر باندھتے ھیں اور جوتے بھی پہنتے ھیں اور ایك عصا ھاتھ میں ركھتے ھیں اور بھترین عطریات خصوصاً مشك وعنبر استعمال كرتے ھیں۔
آلوسی صاحب نجدیوں كے اخلاق كے بارے میں كھتے ھیں:
ان لوگوں كا اخلاق قدیم عربوں كی طرح ھے یعنی اپنے وعدہ كو وفا كرتے ھیں اور غیرت اور حفظ ناموس كا بھت زیادہ خیال ركھتے ھیں، شریف بھی هوتے ھیں اور مھمانوں كی حمایت كرتے ھیں سچائی اور شجاعت نیز حسن خلق میں بھی مشهور ھیں۔
نجدی لوگوں كی شكل وصورت بھی خوبصورت هوتی ھے اور عام طور پر ان كا رنگ گندمی هوتا ھے۔ 483
وھابیت كی دعوت كے وقت نجدی شھریوں اور خانہ بدوشوں كی حالت
حافظ وھبہ، وھابیت كی دعوت كے وقت نجدیوں كی حالت كو اس طرح بیان كرتے ھیں:
”خانہ بدوشوں كا كام غارت گری، رہزنی كے علاوہ كچھ اور نھیں تھا اور ان كاموں كو اپنے لئے فخر ومباحات كاباعث سمجھتے تھے اگر كوئی خانہ بدوش كمزور هوتا تھا تواس كی زبان حال یہ هوتی تھی كہ مال خدا كا مال ھے ایك دن میرا ھے، تو دوسرے دن كسی دوسرے كا، صبح كے وقت غریب و فقیر ھے تو شام كے وقت مالدار اور صاحب ثروت۔
تجارتی لوگ ان كو ٹیكس ادا كرنے كی صورت میں ان كے علاقے سے صحیح وسالم گذر سكتے تھے، یا اس كاروان كا خانہ بدوشوں میں كوئی آشنا اور دوست هو، خانہ بدوشوں كا یہ وطیرہ تھا كہ اپنے كو خطرہ میں نھیں ڈالتے تھے اور جب انھیں یہ احساس هوجاتا تھا كہ سامنے خطرہ ھے یا ان كے مقابلہ میں دفاع كرنے والے طاقتور ھیں تو اس كو لوٹنے سے باز رھتے تھے، ان كو سچائی اوردوستی سے كوئی واسطہ نھیں تھا ریا كاری اور نفاق ان كی فطرت كا ایك حصہ تھا، كبھی كبھی بدو عرب ان لوگوں كے لئے بھی مصیبت بن جاتے تھے جن سے دوستی كا دم بھرتے تھے، یعنی جب ان كو اپنے امیر یا حاكم كی شكست دكھائی دینے لگتی تھی توسب سے پھلے یھی لوگ اس كے مال ودولت كو غارت كردیتے تھے اور كھتے تھے كہ اگر اس كے مال ودولت كا غارت هونا یا اس كا گرفتار هونا معلوم ھے تو خود ھم ھی اس كام كے سب سے زیادہ مستحق ھیں۔ 484
نجد كا علاقہ عرب كے دوسرے علاقوں كی طرح خرافات اور غلط عقائد كا مركز تھا جو صحیح اصول دین كے مخالف تھے اس علاقہ میں بعض اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبریں تھیں وھاں كے لوگ ان كی زیارت كے لئے جایا كرتے تھے، ان سے حاجت طلب كیا كرتے تھے، اپنی مشكلات كے دور هونے كے لئے ان كو وسیلہ بناتے تھے، مثلاً ”جُبَیْلَہ“ نامی علاقہ میں زید بن الخطاب كی قبر تھی وھاں لوگ جایا كرتے تھے تاكہ ان كے حالات اچھے هوجائےں اور ان كی حاجتیں پوری هوجائیں۔
اس كے علاوہ ”منفوحہ“ شھر میں ایسا هوتا تھا كہ جن لڑكیوں كی اس وقت تك شادی نھیں هوئی هوتی تھی وہ ایك خرمے كی نر درخت سے اس عقیدہ كے ساتھ متوسل هوتی تھیں كہ اسی سال ان كی شادی هوجائے اور اسی عقیدہ كے تحت لڑكیاں اس درخت كے سامنے كھڑی هوكر كھا كرتی تھیں:
”یَا فَحْلَ الْفَحُوْلِ اُرِیْدُ زَوْجاً قَبْلَ الْحُلُوْلِ“
(اے سب نروں سے بھتر وبرترنر !میں سال تمام هونے سے پھلے پھلے اپنے لئے شوھر چاھتی هوں)
”درعیہ“ شھر میں ایك غار تھاجس كو مقدس مانا جاتا تھا، اس كے بارے میں یہ كھا جاتاھے كہاس پھاڑ پر ایك لڑكی كو پناہ ملی ھے جو ایك ستمگر حاكم كے شكنجہ میں گرفتار هوگئی تھی اور اس پھاڑ نے پھٹ كر اپنے دامن میں اس لڑكی كو پناہ دی تھی۔
نجد كے علاقہ میں كسی قسم كاقاعدہ اور قانون نھیںتھا، حكّام اور ان كے كارندے جو كچھ بھی چاھتے تھے كر گذرتے تھے، كسی كے پاس اگر كوئی حكومت هوتی تھی تو اس كو دوسری حكومتوں سے كوئی تعلق نھیں رھتا تھا۔
ادھر شھری افراد، خانہ بدوشوں سے ھمیشہ جنگ وجدال كرتے رھتے تھے مالدار لوگ جب یہ احساس كرلیتے تھے كہ ان كے مقابلہ میں ضعیف لوگ ھیں تو ان پر ظلم وستم كر نا شروع كردیتے تھے۔ 485

نجدیوں كے اخلاقی و معاشرتی حالات كا خلاصہ
حافظ وھبہ صاحب نے (تقریباً چالس سال پھلے) نجدیوں كے اخلاق كو مورد بحث قرار دیا ھے، یھاں پر اس كا بیان كرنا مناسب ھے ۔
”جزیرة العرب كے اكثر لوگ خصوصاً خانہ بدوش قبیلوں كو دوسرے علاقوں میں رائج القاب اور آداب كا علم نھیں هوتا تھا اسی وجہ سے دوسروں سے ھم كلام هوتے وقت یھاں تك كہ بادشاهوں اور حكّام سے گفتگو كے دوران بھی ان كا نام لے كر پكارتے تھے یا ان كے معمولی لقب سے مخاطب كیا كرتے تھے۔
آقا اپنے نوكر یا خادم كو ” لونڈے“ كہہ كر خطاب كرتے تھے اور جس وقت كسی گھر كے بزرگ كو قهوہ كی طلب هوتی تھی تو وہ چلا كر كھا كرتا تھا: قهوہ لاؤ، ان كا خادم جب اس جملے كو سنتا تھا تو وہ بھی اس جملے كو بلند آواز سے كھا كرتا تھا اور اسی طرح دوسرے لوگ بھی بعینہ اسی جملے كی تكرار كیا كرتے تھے یھاں تك كہ جو قهوہ اور چائے بنانے اور لانے والا هوتا تھا اس تك یہ آواز پهونچ جاتی تھی، وہ چائے لیكر حاضر هوجاتا تھا، البتہ ابن سعود بادشاہ مذكورہ آواز لگانے كے بجائے بجلی كی گھنٹی استعمال كیا كرتا تھا لیكن یھی جناب جب شكار كے وقت ان كو كسی چیز كی ضرورت هوتی تھی تو اپنے خادموں كو بلند آوازسے پكارتے تھے اور جب دوسرے لوگ اس آواز كو سنتے تھے تو وہ بھی اسی نام كو پكارتے تھے یھاں تك كہ یہ آواز خادم كے كانوں تك پهونچ جاتی تھی۔
غلام او رنوكر اپنے آقا كو عمّو او رآقا كی بیوی كو عمہ (چچی) كہہ كر خطاب كیا كرتے تھے، اور جب دسترخوان لگایا جاتا تھا تو سب كے سب چاروں طرف بیٹھ جاتے تھے او رخادم اونچی آواز میں كھتا تھا كہ ”سَمِّ“یعنی بسم اللہ كریں، اور اگر كوئی مھمان آتا تھا تو حسب مراتب اس كو قهوہ پیش كیا جاتا تھااگر كوئی عظیم ہستی هوتی تھی تو اس كو كئی كئی مرتبہ قهوہ پیش كیا جاتا تھا، عجیب بات تو یہ ھے كہ كوئی بھی قهوہ پینے سے انكار نھیں كرسكتا تھا۔
بیس سال پھلے (اس بات كو حافظ وھبہ نے تقریباً چالیس سال پھلے لكھا ھے لہٰذا تقریباً ساٹھ سال پھلے)شھریوں اور خانہ بدوشوں كے درمیان چائے كا رواج هوچكا تھا اور خانہ بدوش چائے كو بھت زیادہ كھولاتے تھے تاكہ اس كا رنگ تیز اورمزہ كڑوا هوجائے۔
نجد او رصحرائے عربستان میں رسم ھے كہ جب كوئی سفر سے واپس پلٹتا ھے تو چھوٹے اپنے بڑے كی ناك اور پیشانی یا شانوں كو بوسہ دیتے ھیں، اسی طرح حجاز میں ایك دوسرے كے ھاتھوں كو بوسہ دینے كی رسم تھی لیكن جس وقت سے ”اخوان اور نجد كے علماء“ (بعد میں تفصیل بیان هوگی) حجاز میں وارد هوئے ،تو انھوں نے ھاتھ چومنے پر پابندی لگادی لیكن چند سال بعد اسی كام كو جائز قرار دیدیا، اور اس وقت (كتاب جزیرة العرب فی القرن العشرین كی تالیف كا زمانہ) سے حجاز كے لوگ بادشاهوں او رقضات كے ھاتھوں كا بوسہ لیتے ھیں او راس كام كو عیب شمار نھیں كرتے۔ 486
مكہ كے اشراف اپنے كو اس سے كھیں بلند سمجھتے تھے كہ وہ لوگوں كی طرف اپنے ھاتھوں كوچومنے كے لئے بڑھائیں بلكہ اكثر لوگ ان كے كپڑوں كے كسی ایك حصہ كو چوم لینے پر ھی اكتفاء كیا كرتے تھے ۔ 487
ان كے درمیان مھمان كے احترام كا ایك طریقہ یہ تھا كہ اس كے سامنے قهوہ پیش كیا جاتا تھا اور نجد كے علاقہ میں مھمان كے لئے چار پانچ قطرے كپ میں ڈالے جاتے تھے یہ عمل كئی مرتبہ انجام دیتے یھاں تك كہ خود مھمان منع كردے، قهوہ كو بھت كڑوا بنایا جاتا تھا اور مھمان كے لئے سادہ قهوہ لایا جاتا تھا اور سب سے پھلے میزبان یا اس كا خادم اسے خود پی كر دیكھتا تھا تاكہ اس بات كا اندازہ لگالیا جائے كہ قهوہ ٹھیك بنا ھے یا نھیں۔
مھمانداری میں گلاب یا” عُود“(ایك خوشبو دار لكڑی جس كے جلانے پر بھترین خوشبو هوتی ھے) كا دھواں اس بات كی نشانی سمجھی جاتی تھی كہ اب مھمان كے لئے یھاں ٹھھرناجائز نھیں ھے بلكہ رخصت هونا بھتر ھے۔
ان كے درمیان كھانا كھانے كا طریقہ یہ ھے كہ ایك بڑا ظرف دسترخوان پر لاكر ركھا جاتا ھے اور اگر مھمان زیادہ هوں تو چند برتن لائے جاتے ھیں اور سب لوگ اپنے اپنے ظرف كو اٹھاكر چمچہ كے بغیر ھاتھوں سے ھی كھانا شروع كردیتے ھیں اور یہ بھی ممكن ھے كہ ایك ھی ظرف میں بادشاہ، شیخ، وزیر اور خادم ایك ساتھ كھانا كھالیں، اور اگر كوئی دوسروں سے پھلے ھی سیر هوجاتا ھے تو وہ دسترخوان سے اس وقت تك نھیں اٹھتا جب تك دوسرے سبھی لوگ كھانے سے فارغ نہ هوجائیں، اور جب سب لوگ كھانا كھالیتے ھیں تو سب ایك ساتھ اٹھ كھڑے هوتے ھیں او راگركوئی نادانی یا غلطی كی وجہ سے اچانك پھلے ھی اٹھ جاتا ھے تو دوسرے لوگ بھی اس كے ساتھ كھڑے هوجاتے ھیں چاھے وہ سیر هوئے هوںیا نہ، لیكن عبد العزیز نے اس عادت كو ختم كردیا او ر انھیں اس بات كی اجازت دی كہ جو شخص بھی سیر هوجائے وہ دسترخوان سے اٹھ سكتا ھے، لیكن یہ عادت نجد میں اب بھی جاری ھے۔
نجد میں عام طور پر عورتیں مردوں كے ساتھ بیٹھ كر ایك دسترخوان پر كھانا نھیں كھاتیں اور اگر كوئی عورت اپنے شوھر كے ساتھ یا بڑے بچوں كے ساتھ بیٹھ كر كھانا كھالے تو اس كو بھت بڑا عیب سمجھا جاتا ھے، البتہ چھوٹے بچے اپنے ماں باپ كے ساتھ كھانا كھاسكتے ھیں لیكن لڑكیا ں اگر بڑی هوجاتی ھیں تو وہ اپنی ماں كے ساتھ كھانا كھائیں گی، یہ عادت نجد میں اب بھی جاری ھے اور حجاز میں صرف ان گھرانوں میں یہ عادت پائی جاتی ھے جن كی نجد میں رشتہ داریاں ھیں۔
عرب كے شیخ اپنے بچوں كو تیر اندازی، گھوڑسواری اور شكار كے علاوہ كچھ سكھاتے ھی نھیں، یھاں تك كہ بعض لوگوں كا نظریہ تو یہ ھے كہ بچوں كو پڑھانا معیوب ھے۔ 488
چنانچہ جب ایك امیر نے دیكھا كہ اس كا لڑكا پڑھنے جانے لگا تو اس نے كھا كہ یہ لڑكا دیوانہ هوگیا ھے كیونكہ حكومت اورتعلیم ایك دوسرے سے ھم آہنگ نھیں ھیں۔ 489
عربوں میں صنعت كچھ اس طرح ھے: زرگری، نجاری، آہنگری (لوھاركا كام) بُنائی، بندوقوں كی مرمت كرنااور حیوانوں كی ڈاكٹری اور بعض وہ چیزیں جو طبّ كا حصہ ھیں مثلاً حجامت (بدن كا خراب خون نكالنا) اور زخموں كی مرھم پٹّی كرنا وغیرہ، لیكن صنعت گری عربوں میں اچھے كام نھیں سمجھے جاتے تھے اسی وجہ سے یہ كام كرنے والے یا تو عرب نھیں هوتے تھے یا پھر عرب كے غیر مشهور قبیلوں سے تعلق ركھتے تھے، اور وہ جب كسی كو برا بھلا كھتے تھے تو اس كو ”ابن الصانع“(صنعت گر زادہ) كھتے تھے او راس لفظ كو اس طرح ادا كرتے تھے كہ ان تمام معنی كو شامل هو۔
اس كے بعد حافظ وھبہ صاحب كھتے ھیں كہ عجیب بات تو یہ ھے كہ عرب اب بھی اونٹ، گوسفند چَرانے اور گدھوں كی پرورش كو، خرید وفروخت اور دیگر صنعت گری اور تجارت پر ترجیح دیتے ھیں۔ 490 یہ تھی عرب كے امیر طبقہ كی زندگی، جس كے ضمن میں معمولی افراداور خانہ بدوشوں كی زندگی كے حالات بھی معلوم هوگئے۔
نجد كے عربوں كی عادات و اطوار كے پیش نظر وھابیت كی ترقی اور پیشرفت كا كافی تك اندازہ لگایا جاسكتا ھے، نجدی اپنے حاكم كے تابع هوتے تھے اور ان كے حكّام ھمیشہ دوسروں پر غلبہ پانے كی فكر میں رھتے تھے، اور جیسا كہ آپ نے ملاحظہ فرمایا كہ شیخ محمد بن عبد الوھاب كو شروع میں بھت سی مشكلات اور دشواریوں كا سامنا كرنا پڑا، لیكن جس وقت محمد ابن سعود (نجد ی حاكم) اس كی مدد كے لئے تیار هوگیا تو اس كی ترقی كے راستے ھموار هونے لگے اور اس كے بھت سے لوگ مرید بن گئے ۔
دوسری بات یہ ھے كہ شیخ محمد بن عبد الوھاب اپنے مخالفین سے جنگ كو جھاد كا نام دیتا تھا اسے اپنا بنیادی مقصد قرار دے ركھا تھاكہ جب وہ دوسرے علاقوں اور قبیلوں پر غلبہ كرلیتے تھے تو ان كے مال كو لوٹ لیا كرتے تھے او ران كی زمینوں پر قبضہ كرلیا كرتے تھے، اور چونكہ بادنشین (خانہ بدوشوں) كی عادت ھی یھی تھی اسی وجہ سے فوراً اس كے پیچھے پیچھے هوجایا كرتے تھے خصوصاً ان میں سے اكثر ایك دوسرے كے دشمن هوا كرتےتھے اور ایك قبیلہ دوسرے قبیلہ پر حملہ كرنے كے لئے تیار رھتا تھا۔ 491
ایك دوسری بات یہ كہ شیخ محمد بن عبد الوھاب رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے زمانہ كے اسلام اور سلف صالح كی سیرت پر عمل كرنے كی دعوت دیتا تھا اور اس طرح كی باتیں كرتا تھا كہ سننے والوں كا عقیدہ یہ هوجاتا تھا كہ اگر ھم لوگ اس كی اطاعت كریں تو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے اصحاب او رتابعین كی طرح هوجائیں گے اور عربوں كے درمیان اس طرح كی تقریروں كے ذریعہ یہ بات ان كے ذہن نشین كرادی كہ صرف وھی حقیقی مسلمان اور اھل بہشت ھیں، اور اگر اس كے ساتھ رہكر قتل هوجائیں یا كسی كو قتل كردیں تو دونوں صورتوں میں ان كی ھی كامیابی ھے۔
اس زمانہ میں نجد كا علاقہ ایك بیك ورڈ علاقہ تھا او ربمشكل كوئی وھاں جاتا تھا یانجدیوں میں سے كوئی باھر سفر كے لئے نكلتا تھا، نجد كے لوگ سادہ تھے اور تمام دوسری جگهوں سے بے خبر، دنیا میں جو كچھ بھی هوتا تھا ان كو اس كی خبر نھیں هوتی تھی، ان كو بھت ھی كم اعتقادی مسائل كی تعلیم دی گئی تھی، ظاھر سی بات ھے كہ اس طرح كے لوگوں میں محمد بن عبد الوھاب كی باتیں بھت جلدی موثر هوگئیں، اور بھت ھی كٹّر پن سے اس كا دفاع كرنے لگے، یھاں تك كہ اس كے اس راستہ میں اپنی جان كی بھی پرواہ نھیں كرتے تھے۔
قارئین كرام!اگر یہ فرض كرلیں كہ وھابیت كی داغ بیل نجدیوں كے ماحول كے علاوہ كسی دوسری جگہ پر ڈالی جاتی تو كیا پھر بھی اتنی ترقی حاصل هوسكتی تھی؟! ظاھراً اس كا جواب” نھیں“ ھے، كیونكہ جس طرح سے ھم كتاب كے آخر میں بیان كریں گے كہ وھابیوں كی یہ دعوت نجد كے علاوہ صرف چند علاقوں میں محدود رھی، اور گھٹیا قسم كے لوگوں نے اس كو پھیلانے كی كوشش كی،یھاں تك كہ پنجاب (ہندوستان) میں بھی وھی طریقہٴ كار اپنایا گیا جونجد میں شیخ محمد بن عبد الوھاب اور اس كے مریدوں كا تھا، لیكن ان میں سے كسی كی كوشش كامیاب نہ هوسكی۔ 492

--------------------------------------------------------------------------------

478. گویا نجد كے علاقہ كی توصیف دوسرے خشك علاقوں كو مدّ نظر ركھتے هوئے كی گئی ھے۔
479. تاریخ نجد ص 9۔
481. شھر نشین سے یھاں مراد وہ لوگ ھیں جو اپنی زندگی ایك معین جگہ گذار تے ھیں او ران كے مقابلہ میں وہ لوگ ھیں جو خانہ بدوش ھیں۔
482. تاریخ نجد ص 28، اس كے باوجود بھی تقریباً اسّی سال پھلے چند یورپی سیّاح ”ڈوٹی“ اور ”بارُننلدہ“ ،” شَمّر“نامی پھاڑ پر گئے جو كہ آل رشید (نجد كا حاكم) كی قیام گاہ تھی (جو بعد میں آل سعود كے ھاتھوں میں چلی گئی) اور اس سر زمین كا مشاہدہ كیا، اسی طرح1879ء میں ”لیڈی آن بلینٹ“ نے اپنے شوھر ”ولفر“ كے ساتھ جو انگریزی كا مشهور شاعر تھا مذكورہ پھاڑ، اور نجد وحجاز كے بعض دوسرے علاقوں كا سفر كیا اور اپنے مشاہدات كو اپنے سفر نامے میں لكھا جس كی كئی جلدیں ھیں،انھوں نے اپنے سفر نامے میں بھت سے آثار قدیمہ كا ذكر كیا ھے، مذكورہ سفر نامہ كی بھترین تو صیف وہ ھےجس كو موٴلف نے ایرانی كاروان كے ایك حاجی سے بیان كی ھے (ص249، اور اس كے بعد جس كا عربی میں بھی ترجمہ ھے) ضمیمہ نمبر 40 ،مجلہ كا گیارهواں سال،صفحہ 75 كا حاشیہ، جس میں ایران او رنجد كی مستقل حكومت كے رابطے كے بارے میں تحقیق كی گئی ھے (البتہ یہ اقتباس ”احمد جائسی عرب كا مشهور ومعروف موٴلف“ كی كتاب سے ھے، وہ اپنی كتاب میں اس طرح لكھتا ھے كہ ”شارل ھویر“ فرانس كا مشهور ومعروف سیّاح جب انیسویں صدی میں آثار قدیمہ كی اپنی ریسرچ كے لئے دوسری مرتبہ نجد میں آتا ھے ”توحائل شھر میں محمد رشید سے ملاقات كے لئے جاتا ھے محمد رشید نے ایك شخص كو اس كے ساتھ بھیجا، لیكن جب وہ امارت كی سرحد سے باھر نكلا تو اس كو قتل كردیا گیا، اور اس كی ساری لكھی هوئی چیزوں كو آگ لگادی گئی اور اس كا سامان لوٹ لیا گیا۔
483. تاریخ نجد ص 41، آلوسی صاحب نے جس طرح نجدیوں كی توصیف كی ھے وہ ان كے زمانہ تك كی ھے ورنہاس وقت نجدیوں كے طریقہ زندگی اور مال ودولت میں بھت زیادہ فرق آگیا ھے، صرف خانہ بدوش افراد میں تقریباً وھی صفات باقی ھیں چنانچہ حج كے زمانہ میں ان میں سے بعض لوگ اسی حالت میں آتے ھیں او ران كو بدُو كھا جاتا ھے۔
484. جزیرة العرب فی القرن العشرین ص 313، چنانچہ وھابیوں كی حكومت آنے كے بعد بھی یہ لوگ عہد شكنی كرتے رھتے تھے اور وھابیوں كے دشمنوں كے ساتھ مل جاتے تھے، اور ایك دوسرے كے سامنے برائیاں اور فتنہ وفسادبرپا كرتے رھتے تھے، (تاریخ نجد ابن بشر جلد اول ص 19، 212 پر رجوع فرمائیں)
485. جزیرة العرب فی القرن العشرین ص 336، 337۔
486. بھت سی وہ چیزیں جن كو اخوان اور علمائے نجد نے حرام قرار دیا تھا مثلاً تمباكو نوشی یا نئی نئی اختراعات سے استفادہ كرنا، چنانچہ زمانہ كے ساتھ ساتھ جائز هوگئیں۔
487. شرفائے مكہ نے اس خصلت كو عباسی خلفاء سے سیكھا ھے جن كا كہنا یہ تھا كہ ایك معمولی انسان ھمارے ھاتھوں كو چومنے كی صلاحیت نھیں ركھتا اور ان كے وزیروں كو اتنا تكبر هوتا تھا كہ كھتے تھے كہ ایك معمولی انسان یھاں تك كہ كتابوں كے موٴلفین اس لائق نھیں كہ ھمارے احترام كے لئے ھمارے پیروں كے سامنے كھڑے هوں، ان تمام تفصیلات كے لئے موٴلف كی كتاب ”تاریخ عضد الدولہ دیلمی“ میں چوتھی صدی كے حالات ملاحظہ فرمائیں۔
488. بنی امیہ كے خلیفہ كھتے تھے كہ علم حاصل كرنا غلاموں او رنوكروں كا وظیفہ ھے او روہ اس سے كھیں بلند وبالا ھیں كہ علم حاصل كرنے جائیں، ھمارے لئے تو حكومت اور فرمان صادر كرنا مخصوص ھے، ھم نے ظاھراً آقای ذبیح اللہ كی كتاب میں پڑھا ھے كہ قرون وسطیٰ میں یورپ كے ا شراف بھی اس بات پر فخر كرتے تھے كہ ھم جاھل ھیں۔
489. حافظ وھبہ صاحب اس جگہ كھتے ھیں كہ ھم بھت خوش ھیں كہ اس زمانہ میں بعض شیخ اپنے لڑكوں كو تعلیم كے لئے بیروت اور اسكندریہ بھیجنے لگے ھیں۔
491. نجدیوں كا اپنے مخالفوں منجملہ عثمانیوں سے جنگ كی تاریخ سے یہ معلوم هوتا ھے كہ یہ سب لوگ ایمان اور عقیدے كے تحت جنگ نھیں كرتے تھے كیونكہ بارھا ایسا اتفاق هوا ھے كہ جب لشكر والوں نے دیكھا كہ ان كا سردار كمزور پڑگیا تو دشمن كے لشكر سے جاملتے تھے، چنانچہ كتاب ”تاریخ مكہ“ اور ”تاریخ المملكة العربیة السعودیہ“ میں ایسے بھت سے واقعات بیان كئے گئے ھیں۔
492. اس موضوع كو سمجھنے كے لئے شیخ محمد بن عبد الوھاب او رابن تیمیہ كی حالات زندگی كی آخری بحث كی طرف رجوع فرمائیں۔