پانچواں باب: قدیم ایرانی كتابوں میں وھابیت كا ذكر | |||||
وھابیت كے آغاز سے آج تك، ایرانی لوگوں نے وھابیوں كے عقائد اور ان كی تاریخ كی شناخت كے بارے میں تین وجوھات كی بنا پر توجہ كی ھے: اول) 1216ھ میںجب وھابیوں نے نجف اور كربلا پر حملہ كیا (جس كی تفصیل وھابیوں كی تاریخ كے عنوان میں پیش كی جائے گی)جس سے صرف خاص حضرات ھی مطلع هوپائے عوام كو اس كی خبر تك نہ هوئی، كیونكہ اس زمانہ میں اخبار، ٹیلی فون، ٹیلیگراف یا اس طرح كے ذرائع ابلاغ نھیں تھے اور اس وقت كے لوگ بڑی بے خبری كے عالم میں زندگی گذاررھے تھے۔ دوم) 1344ھ میں قبرستان بقیع كی قبروں كا مسمار كرنا، اور مرقد مطھر پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے مسمار كر دئے جانے كی بے بنیاد خبر مشهور هوگئی تھی، چونكہ اس زمانہ میں اخبار وغیرہ موجود تھے جس كی وجہ سے بھت جلد ھی عوام كو اطلاع هوگئی، اورعوام نے مختلف صورتوں میں اعتراضات اور مظاھرے كئے، (جس كی تفصیل وھابیوں كی تاریخ كے عنوان میں بیان هوگی) سوم) 1362ھ میں ابو طالب یزدی كے قتل كاواقعہ، اس واقعہ كی تفصیل بھی بعد میں بیان كی جائے گی۔ لیكن وھابیوں كے عقائد كا سب سے قدیم تذكرہ ایرانی كتابوں (فارسی زبان میں) موٴلف كی اطلاع كے مطابق عبد اللطیف شوشتری صاحب كی كتاب تحفة العالم میں ھے، كیونكہ موصوف نے تحفة العالم كو 1216ھ میں (یعنی محمد بن عبد الوھاب كے مرنے كے تقریباً دس سال كے بعد) جس سال وھابیوں نے نجف پر حملہ كیا ھے، لكھی ھے، اور اس كے بعد موصوف نے اس كتاب پر تتمہ ”ذیل التحفہ“ كے نام سے اضافہ كیا ھے، اس تتمہ میں وھابیوں كے بارے میں تفصیل دی گئی ھیں جسے ھم اس كو لفظ بلفظ نقل كرتے ھیں: 463 ”مجھے عبد العزیز خان 464 كے كٹّرپن كی اطلاع ملی تو اس وقت میں بمبئی میں تھا كہ اس نے 18ذی الحجہ كو عرب لشكر كے ساتھ كربلائے معلیٰ پر حملہ كردیا، (ھم وھابیوں كی تاریخ میں اس بات كو تفصیل سے بیان كریں گے كہ خود عبد العزیز نے كربلا پر حملہ نھیں كیا تھا بلكہ اس نے اپنے بیٹے سعود كو حملہ كے لئے بھیجا تھا) اور تقریباً چار پانچ ہزار شیعہ مومنین كو قتل كردیا، اور وھاں پر ایسے ایسے كارنامے انجام دئے جن كو لكھنے سے قلم كو شرم آتی ھے، شھر كو بالكل غارت كردیا اور مال ودولت كو غنیمت كے طور پر لوٹ لیا، اور اپنی ریاست شھر ”درعیہ“ واپس لوٹ گئے، جب بات یھاں تك پهونچ گئی تو كیا وھابیوں كے بارے میں قلم اٹھایا جانا اور وھابیوں كے بارے میں لكھا جانا مناسب نھیں ھے تاكہ قارئین كرام ان كے مذھب اور ان كے عقائد سے مكمل طور پر آگاہ هوجائیں: اپنے وطن میں كچھ عربی علوم حاصل كرنے اور ایك حد تك حنفی فقہ (حنبلی فقہ صحیح ھے) حاصل كرنے كے بعد اصفھان آیا اور وھاں فلسفہ اور حكمت كے نامور علماء سے ”یونانكدہ“ میں حكمت كی تعلیم حاصل كی، اور بعض مسائل میں جھاں عوام الناس كے قدم بھر حال لڑكھڑا جاتے ھیں كچھ بصیرت حاصل كرلی1171ھ (1153ھ صحیح ھے) میںاپنے وطن واپس چلا گیایا اس تاریخ سے ایك دوسال پھلے یا بعد میں كیونكہ اس كی واپسی كی صحیح تاریخ معلوم نھیں ھے،وھاں پہنچنے كے بعد اپنی ھی طرف دعوت دینی شروع كردی، اس كا طریقہ حنفی (حنبلی صحیح ھے) تھا اصول میں امام اعظم ابوحنیفہ كا مقلد تھا (صحیح احمد بن حنبل ھے) اور فروع میں خود اپنی رائے پر عمل كرتا تھا۔ آخر كار بعض اصول میں بھی امام اعظم كی تقلید كرنا چھوڑ دی اور جو كچھ اس كی نظر میں صحیح نظر آتا وھی كرتا اور كھتا تھا اسی بناپر عوام كو عمل كرنے كی دعوت دیتا تھا، اور اس وقت كے تمام اسلامی فرقوں اور یهود ونصاریٰ كو مشرك، كافر اور بت پرست كھتا تھا، اس كی دلیل یہ تھی كہ چونكہ مسلمان قبر پیغمبر اكرمكی تعظیم كرتے ھیں اور آنحضرت كی طرح دیگر ائمہ ہدیٰ كی قبروں كی تعظیم وتكریم كرتے ھیں، ان كے روضوں پر (جو كہ پتھر او رمٹی سے بنے ھیں) جاكر ان سے دنیاوی اور اخروی حاجتیں طلب كرتے ھیں،صاحب قبر سے توسل كرتے ھیں ان كی قبروں كے سامنے سجدے كرتے ھیں، ان كے روضوں میں جاكر اپنا سر نیاز خم كرتے ھیں، یہ لوگ در حقیقت بتوں كی پوجا اور بت پرستی كرتے ھیں، گرچہ وہ اس كام كو بت پرستی نھیں كھتے بلكہ ان حضرات كو اپنا قبلہ كھتے ھیں جو خدا او ران كے درمیان ایك واسطہ اور وسیلہ ھیں جس طرح یهود ونصاریٰ بھی اپنے معابد اور كلیسا میں جناب موسیٰںاور جناب عیسیٰ ں كی تصویریں لگاتے ھیں اور ان كی پوجا كرتے ھیں اور ان كو اپنا شفیع قرار دیتے ھیں، لیكن خدا پرستی (مسلمان هونا) یہ ھے كہ فقط ذات واجب (خداوندعالم) كو سجدہ كیا جائے اور صرف اسی كی عبادت كی جائے اور اس كے ساتھ كسی كو شریك قرار نہ دیا جائے۔ خلاصہ یہ كہ بعض قبیلوں كے جاھل افراد نے اس كی اطاعت كی اور نجد میں یہ شخص مشهور هوگیا، اور اس كا ھمیشہ یہ نعرہ هوتا تھا كہ رسول كے روضہ كو، اسی طرح ائمہ كرام كے روضوں كو مسمار كردیا جائے، اور جب بھی موقع مل جائے ان سب كو گراكر زمین كے برابر كردیا جائے یھاں تك كہ ان كے نام ونشاں بھی باقی نہ رھیں، لیكن اجل نے اس كو فرصت نہ دی اور وہ اس دنیا سے چل بسا۔ اس كا وصی عبد العزیز 465 یا اس كا بیٹا مسعود (سعود صحیح ھے)جو اس وقت (تحفة العالم كی تالیف كے وقت) خلیفہ اور اس كا جانشین هوا، اور اس كو امیر المسلمین كھا جانے لگا، اس نے صرف نجد كے علاقہ پر اكتفاء نھیں كی بلكہ دور دراز كے علاقوں میں اپنی اس دعوت كو پیش كیا اور اس كو پھیلانے كی بھر پور كوشش كی، اور اپنی اتباع كرنے والوں كو حكم د ے دیا كہ دوسرے تمام فرقوں كی جان ومال حلال ھے اور جھاںجھاں سے بھی ان كا گذر هو وھاں كے لوگوں كو قتل كركے ان كے مال ودولت كو غنیمت سمجھ كر لوٹ لو، لیكن ان كی عورتوں كو ھاتھ نہ لگاؤ بلكہ ان كی طرف آنكھ اٹھاكر بھی نہ دیكھو، او ر جنگ كے وقت اپنے مجاہدوں كے لئے ایك رقعہ خازن جنت كے نام لكھ كر مجاہدوں كی گردن میں ڈال دیا جاتا تھا ،كہ اس كی روح نكلتے ھی فوراً اس كو جنت میں بھیج دیا جائے اور مرنے كے بعد وھی اس كے اھل خانہ كا كفیل هوتا تھا ،چنانچہ مجاہدین پروانہٴ جنت كو دیكھ كر بہشت كے لالچ میں میدان جنگ میں ڈٹ كر مقابلہ كیا كرتے تھے كیونكہ اگر ان كو فتح حاصل هوگی تو مال غنیمت ھاتھ آئے گا او راگر قتل هوجائیں گے تو اس رقعہ كے ذریعہ فوراً داخل بہشت هوجائیں گے۔ اس سے قبل نجد،ا لحسا، قطیف اور بصرہ كے چار فرسخ تك عُمان كے نزدیك اور بنی عُتبہ تك غلبہ اس نے حاصل كیا اور لوگوں كا قتل عام كیا ،پھركیاتھا لوگوں نے (مجبوراً) اس كے عقیدہ كو مان لیا، یھاں تك كہ اس كی شان وشوكت اور شھرت دنیا بھر میں پھیل گئی، اس كی فتح كو سلطان روم (عثمانی بادشاہ) اور بادشاہ عجم (فتح علی شاہ) كے گوش زدكیا گیا لیكن كسی نے توجہ نہ كی اور اس كے فتنہ وفساد كو ختم كرنے كی كوشش نہ كی۔ 466 اس كے فتووٴں كے ایك رسالے كو ھم نے اس كے ایك مرید كے پاس دیكھا ھے“ پھر صاحب تحفة العالم نے مذكورہ عربی رسالے كی عبارت كو تحریر كیا ھے۔ 467 قارئین كرام كی معلومات كے لئے عرض ھے كہ سید عبد اللطیف شوشتری صاحب كتاب تحفة العالم مدتوں تك ہندوستان میں رھے اور محمد بن عبد الوھاب بانی وھابیت كے ھم عصر تھے۔ وھابیت كے موضوع پر گفتگو كرنے والوں میں مرحوم میرزا ابو القاسم قمی معروف بہ میرزائے قمی (متولد1150ھ متوفی1231ھ) ایران كے عظیم الشان عالم ھیں آپ بھی محمد بن عبد الوھاب كے ھم عصر تھے اور جس وقت وھابیوں نے كربلا پر حملہ كیا اس وقت آپ بڑھاپے كی منزلیں طے كر رھےتھے ۔ مرحوم میرزائے قمی نے ایك خط كے ضمن میں لكھا ھے (جو آج بھی باقی ھے) جس میں وھابیوں كے بارے میں اس طرح بیان كیا گیا ھے: یہ لوگ اھل سنت او رحنبلی فرقہ سے تعلق ركھتے ھیں میں نے (وھابیت) كے بارے میں اس وقت سنا جب كہ میری عمر 22 سال كی تھی،اور میں نجف اشرف میں تھا مجھے یہ خبر دی گئی كہ عیینہ شھر كے نزدیك شھر درعیہ میں ایك شخص جس كا نام محمد بن عبد الوھاب ھے اور اس نے عراق عرب كا (اور عراق عجم كا بھی) سفر كیا اور وھاں پر موجود عتبات عالیہ میں شیعوں كو دیكھا اور ان كو وھاں روضوں میں ضریحوں كو بوسہ لیتے هوئے ان كی تعظیم وتكریم كرتے هوئے ھیں اور وھاں نماز بھی پڑھتے هوئے دیكھا، اس (محمد بن عبد الوھاب) نے ان كو مشرك كھااوركھاكہ شیعہ لوگ اپنے اماموں كی پرستش كرتے ھیں ان كے سامنے ركوع اور سجدے كرتے ھیں، نماز پڑھتے ھیں، اس نے اس ڈر سے كہ كھیں اس پر اھل بیتعلیهم السلامكی عداوت كی تھمت نہ لگ جائے اور یہ كہ اس كی باتیں شیعوں سے مخصوص نھیں ھیں بلكہ اس نے ایك قاعدہ كلی قرار دیتے هوئے كھا ”كسی شخص كے لئے یہ جائز نھیں ھے كہ كسی غیر خدا كو خدا كا شریك قرار دے، عبادت هو یا استعانت طلب حاجت هو یا قربانی كرنا، جو شخص بھی غیر خدا سے حاجت طلب كرے یا غیر خدا كے لئے قربانی كرے وغیرہ تو ایسا شخص مشرك ھے، سعود پدر عبد العزیز (سعود پسر عبد العزیز صحیح ھے) اس كا ناصر ومدد گار بن گیا اور عبد العزیز كے بعد سعود كی باری آئی اس نے بر سر حكومت آتے ھی اعلان كردیا كہ جس كا مذھب بھی ھمارے مذھب كے علاوہ هوگا اس كا قتل واجب ھے، چنانچہ اس نے ہزاروں شیعہ علماء اور عوام الناس كو حضرت امام حسین ں (روحی فداہ) كے جوار میں قتل كر ڈالا، اس وقت میری عمر تقریباً اسّی سال كو پهونچ رھی ھے۔ …الخ۔ 468 اس آخری جملے سے یہ معلوم هوتا ھے كہ مرحوم میرزای قمی نے یہ خط اپنی عمر كے آخری حصے میں لكھا ھے۔ میرزا عبد الرزاق دُنبُلی (1167- ۔ 1142ھ) بھی ان حضرات میں سے ھیں جن كی پیدائش بھی اسی وقت كی ھے كہ جب فرقہ وھابیت وجود میں آیا، او رجس وقت وھابیوں نے كربلائے معلی اور نجف اشرف پر حملہ كیا تو ان كی كافی عمر گذر چكی تھی موصوف نے اپنی كتاب ”مآثر سلطانیہ میں ص 82 پر)1216ھ كے واقعات كے ضمن میں وھابیوں كے بارے میں تفصیلی بحث كی ھے اور كربلا ئے معلی پر ان كے حملے كا بھی ذكر كیا ھے، ھم یھاں پر ان كی باتوں كا خلاصہ پیش كرتے ھیں: عبد العزیز كے مختصر حالات زندگی
عبد العزیز اپنے قبیلہ كا سردار تھا اس كے مختصر حالات اس طرح ھیں كہ وہ اپنے قبیلہ كا رئیس تھا اور اس كا استاد عبد الوھاب (محمد بن عبد الوھاب صحیح ھے) اسی قبیلہ سے تھا جس نے شیخ محمد بصری(مراد شیخ محمد مجموعی ھے جس كے بارے میں ھم نے پھلے بیان كیا ھے) سے تعلیم حاصل كی اور اس كے بعد مزیدتعلیم حاصل كرنے كی غرض سے اصفھان گیا وھاں رہ كر اس نے فقہ واصول، نحو وصرف میں چند سال اپنی عمر گذاری اور اپنے خیال خام میں یہ سوچ لیا كہ میں تمام مذاھب كے عقائد سے آگاہ هوگیا هوں۔
اس كا اعتقاد یہ تھا كہ واجب تعالیٰ (خدا وندعالم كی ذات گرامی) ایك ھے، ان نے انبیاءعلیهم السلام كو بھیجا كتابیں نازل كیں، اور ان میں كوئی شك نھیں ھے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی وفات كے بعد صرف قرآن مجید كافی ھے اور ھر زمانہ میں مذھب وملت كی مشكلات كو دور كرنے كے لئے مجتہدین موجود تھے، مثلاً حضرت ابو بكر، عمر اور عثمان اور ان كے بعد امیر المومنین حیدر كرار ں، اور جب شافعی، ابوحنیفہ اور حضرت امام صادق ںجیسی شخصیات مجتہد هوں تو یہ حضرات كتاب خدا سے مسائل كو استنباط كرتے ھیں تاكہ عوام الناس ان پر عمل كرسكے۔ اسی طرح اس كا عقیدہ یہ بھی تھا كہ قبور پر گنبد بنانا اور ان كے لئے ہدیہ لانا اور نذر كرنا اوران كی ضریحوں كو سونے چاندی سے زینت كرنا اور اسی طرح ان كی زیارت كرنا ان كو بوسہ دینا، یا ان كی تربت سے سجدہ گاہ بنانا اور ان پر نماز پڑھنا، یہ سب شریعت اسلام میں بدعت اور شرك ھے اور ان كاموں كا كرنے والا شخص كفار كی طرح ھے، اور ایسے لوگ اس گروہ كی طرح ھیں جن كو خداوندعالم نے قرآن مجید میں مشرك كھا ھے جو كہ اپنے ھی ھاتھوں سے بت بناتے تھے اور ان كو خدا كی بارگاہ میں وسیلہ مانتے تھے اور ان كی عبادت و پرستش كیا كرتے تھے، اگرچہ وہ لوگ خدا كی وحدانیت كو قبول كرتے تھے، لیكن ان بتوں كواللہ كی بارگاہ میں اپنا شفیع او روسیلہ قرار دیتے تھے، ان بتوں كو مستقل طور پر خدا تصور نھیں كرتے تھے،اور اسی طرح كے دوسرے مسائل میں اپنا اجتھاد دكھانا شروع كیا، اصفھان سے وہ اپنے قبیلہ میں چلا گیا، اور اپنے شیخ سے اسی طرح كی باتیں كہہ ڈالیں۔ اُدھرعبد العزیز چونكہ اس كے ذہن میں ریاست بسی هوئی تھی اوریہ طے ھے كہ جس كے ذہن میں ریاست اور برتری سما جائے تو اس كے لئے یہ چیز نئے دین او رنئے مذھب كے ذریعہ جلد سے جلد حاصل هوسكتی ھے، چنانچہ اس كی باتیں قبول هونے لگی اور اس نے مذھب اور سنت كو ترك كردیا اور عربوں كو اپنے اس نئے دین كی طرف دعوت دینا شروع كردیا۔ 469 اوروہ چونكہ ائمہعلیهم السلامكے روضوں كی زیارت كو بد ترین بدعت شمار كرتا تھا اس وجہ سے اس نے تمام روضوں كو مسمار كرادیا اور چونكہ زائرین كو مشرك اوربت پرست سمجھتا تھااس لئے ان كو قتل كرادیتا تھا، اس نے كئی مرتبہ نجف اشرف پر بھی حملہ كا ارادہ كیا اور خیال كیا كہ نور حق (حضرت علی ں) كو خاموش كردیگا لیكن خدا كی قدرت اور قبیلہ خزاعہ (خزاعل) كے لوگوں كو اطلاع ملنے نیز قلعہ كے سنگین هونے كی بنا پر وہ ناكام رہ گیا، كیونكہ نادر شاہ افشار كے دورسے اس شہنشاہ ذی وقار (مراد فتح علی شاہ ھے) كے زمانہ تك ایرانیوں كو راحت ملی اور جن لوگوں كو شھر بدر كردیا گیا تھا وہ واپس لوٹ آئے اور انھوں نے بھی شھر كا دفاع كیا۔ تقریباً 60 سال كے عرصے سے سرمایہ دار اور مالدار افراد نے ایران اور ہندوستان سے (فتنہ وفساد كی خاطر) اپنے وطن كو چھوڑ كر ائمہ معصومینعلیهم السلامكے روضوں كو اپنے لئے پناہ گاہ بنالیا تھا، تاكہ ان روضوں كی بركت سے ان كی جان ومال محفوظ رھے، ایسے لوگوں كی اكثریت نجف، كاظمین اور كربلا ئے معلی میں رہنے لگی، اور انھوں نے ان مقامات كو اپنا وطن قرار دید یا جو عبادت او رزہد وتقویٰ كی جگہ تھی اور عالم آخرت پر توجہ كرنے كا مقام تھا نہ كہ مال دنیا جمع كرنے كی جگہ، اور نہ ھی وہ عیش وآرام كی جگہ جس كی فطرت انسان تقاضا كرتی ھے، اس طرح رباخوری كا لالچ اور بری بری بدعتوں كا ایجاد كرنا اور اس طرح كے برے برے اعمال وافعال كا انجام دینا كہ اگر كسی دوسرے اسلامی ملك میں انجام دئے جاتے تو ان پر بھت ملامتیں پڑتیں بلكہ ان كو سزا دی جاتی، آہستہ آہستہ تمام عتبات عالیہ خصوصاً كربلائے معلی میں لاپرواھی اس حد تك پهونچ گئی كہ شریعت كی حرام كردہ چیزیں، حلال اور وہ گناہ جو چوری چپے روا نہ تھے ان كو برملا اور كھلے عام انجام دیا جانے لگا، نہ ھی خدا سے شرم اور نہ ھی حجت اللہ(ائمہ (ع))سے حیا جو مخفی چیزوںاور دلوں كے اسرار سے بھی آگاہ ھیں، كتنی عظیم خطا اور غلطی اور كیاكیا فحشا ومنكر،مال دنیا كو جمع كرنے میں مشغول افراد نے جوار ائمہ (ع)میں نھیں انجام دی ،یہ لوگ سال میں ایك دفعہ بھی روضہ مبارك كی زیارت كے لئے نھیں جاتے تھے۔ عبد العزیز نجف اشرف پر حملہ كرنے سے ناكام رھا اس نے كربلائے معلی میں قتل وغارت كا پروگرام بنالیا، اور چونكہ كربلا میں كوئی قلعہ نھیں تھا چنانچہ اس نے سعود كو بارہ ہزار كا لشكر دیكر كربلا كے لئے روانہ كیا، سعود نے1216ھ میںعید غدیر كی صبح كربلا پر حملہ كردیا، اور تمام پیرو جوان كو تہہ تیغ كردیا كثیر تعداد میں لوگ زخمی بھی هوئے اور تمام عورتوں كو بھت ستایاالبتہ ان كی آبرو ریزی نھیں كی، حضرت امام حسینںكی ضریح مطھر اور صندوق منور كو توڑ ڈالا، اور وھاں كی ساری قیمتی قندیلوں، اور گرانبھا فرش نیز دیگر تمام اسباب كو غارت كرادیا، روضوںكے آئینوں كو توڑ ڈالا، یھاں تك كہ در ودیوار كو بھی ویران كردیا، زر وجواھرات جوخزانہ خانہ میں موجودتھے سب كو لوٹ لیا، گلی كوچوں سے خون كی ندی بہہ رھی تھی، اور ایك بار پھر وھاں روز عاشور كاسا واقعہ رونما هوگیا،اس حادثے میں قتل هونے والوں كی تعداد معتبر ذرایع كے مطابق پانچ ہزار اور كس قدر مال واسباب غارت كیا گیا خدا كے علاوہ كوئی نھیں جانتا۔ قتل وغارت كے سات آٹھ گھنٹے بعد تمام لوٹا هواسامان اونٹوں پر لادكر درعیہ شھر كی طرف لوٹ گئے۔ 470 میرزا ابو طالب خان اصفھانی صاحب بھی اسی زمانہ میں موجود تھے اور كربلاپر حملے كے گیارہ مھینے بعد وہ كربلائے معلی پهونچے انھوں نے اس حادثہ كی روداد ان لوگوں سے سنی ھے جو اس حادثہ كے عینی شاہد تھے، چنانچہ موصوف نے اس واقعہ كی تفصیل اپنے سفر نامہ میں لكھی ھے نیز مختصر طور پر وھابیوں كی تاریخ بھی ذكر كی ھے، موصوف فرماتے ھیں : 471 ”اس فرقہ كا بانی عبد الوھاب (محمد بن عبد الوھاب) جو دجلہ (نجد صحیح ھے) كا رہنے والا تھا، ابراھیم نامی شخص كے پاس جو كہ درعیہ كے ایك دیھات میں بنی حرب سے تھا ،منھ بولے بیٹے كی طرح پرورش پائی، اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں ذھین اور عقلمندی میں معروف تھا، اور بھت زیادہ سخی تھا اس كے ھاتھ میں جو كچھ بھی آتا تھا اس كو اپنے ساتھیوں كو دیدیتا تھا،اس نے اپنے وطن میں عربی اور فقہ حنفی (حنبلی صحیح ھے) كو پڑھا، اور اس كے بعد اصفھان كا سفر كیا اور وھاں كے مشهور ومعروف حكمت كے اساتید سے كچھ تعلیم حاصل كی، اس كے بعد عراق، خراسان اورغزنین كی سرحد تك سیر كی اور اپنے وطن واپس چلا گیا۔ 1171ھ (1153ھ صحیح ھے) سے اس نے اپنے عقائد لوگوں كے سامنے پیش كرنا شروع كیا، شروع شروع وہ اصول میں امام اعظم ابوحنیفہ (احمد ابن حنبل صحیح ھے) كا مقلد تھا اور فروع میں اپنے نظریہ كے مطابق عمل كرتا تھا لیكن بعد میںاس نے اصول میں بھی تقلید كرنا چھوڑ دی اوراپنی من پسند چیز پر عمل كرتا تھا اور اسی كی طرف لوگوں كو دعوت بھی دیتا تھا جن میں سے ایك یہ ھے كہ وہ دوسرے تمام اسلامی فرقوں كو مشرك او ر بت پرستوں كے دائرے میں مانتا تھا، بلكہ انھیں وہ عزّیٰ اور هبل كی عبادت كرنے والے كفار سے بھی بدتر كھتا تھا، كیونكہ كفار پر جب مصیبت اور بلا نازل هوتی ھے تو وہ بے اختیار خالق كی طرف رجو ع كرتے ھیں، اور مسلمان مشكلات كے وقت صرف حضرت محمدمصطفی اور حضرت علیںاور دیگر ائمہ (ع)اور صحابہ كو پكارتے ھیں،اور عام مسلمان جوتعظیم پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ كی قبر كی زیارت كرتے ھیں اور خدا كی بارگاہ میں ان حضرات سے توسل كو بت پرستی كا نام دیتا ھے اور كھتا ھے:۔ ان كا یہ كام بتوں كی عبادت سے كوئی فرق نھیں كرتا كیونكہ بت پرست بھی مثلاً چین اور ہندوستان میں بتوں كے مجسمہ كو خالق نھیں كھتے بلكہ ان كو اپنا قبلہ مانتے ھیں اور كھتے ھیں كہ یہ خدا كے نزدیك ھمارے شفیع ھیں۔ ھی حال یهود ونصاریٰ كا بھی ھے جو حضرت موسیٰںاور حضرت عیسیٰںكی تصویروں كی پرستش كرتے ھیں، خدا پرستی تو یہ ھے كہ كسی كی شركت كے بغیر خدا وندعالم كی عبادت كی جائے اور اس كے ساتھ كسی كو شریك قرار نہ دیا جائے۔ خلاصہ یہ ھے كہ نجد كے بعض قبیلے اس كے مرید هوگئے اور آہستہ آہستہ اس كا مذھب دوسرے علاقوں میں شھرت پانے لگا۔ اس كا نظریہ تھا كہ روضہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیهم السلام كی قبروں كو گرادیا جائے اور جب بھی موقع ملے اس كام كو ضرور انجام دیا جائے لیكن موت نے اس كو فرصت نہ دی اوروہ یہ حسرت لے كر ھی اس دنیا سے رخصت هوا۔ اس كی موت كے بعد اس كا بیٹا محمد اس كے دین كا امام اور مفتی قرار پایا محمد دونوں آنكھوں سے اندھا ابھی تك زندہ ھے او راپنے گھر میں گوشہ نشین ھے۔ 472 عبد العزیز سلسلہ وھابیت كا پھلا خلیفہ اور اس كا بیٹا سعود (ابو طالب خان اصفھانی كی نقل كے مطابق) عبد العزیز بن سعود بھی مذكورہ ابراھیم كا پرورش كردہ تھا جب وہ مسند خلافت پر بیٹھااور اسے امیر المسلمین كھا جانے لگا نیز وھی صاحب لشكر اور صاحب حكم بن گیا، عبد العزیز لمبے قد اور بھاری جسم كا انسان تھا، 70 سال كی عمر هوچكی تھی لیكن كمزوری نھیں آئی تھی، بلكہ چالیس سال سے اس كے خاندان میں سے كوئی نھیں مرا تھا اور یہ كھتے تھے كہ جب تك یہ دین مستحكم نھیں هوگا ھم میں سے كوئی نھیں مرے گا، اور اس بات پر لوگوں كا عقیدہ راسخ هوگیا تھا، اس كا ایك بیٹا ھے جو بھت بھادر اور عقلمند ھے اس كا نام سعود بن عبد العزیز ھے جو بڑا جنگجو اور اس كا قائم مقام ھے۔ خلاصہ یہ كہ عبد العزیز ہفتہ میں دو دفعہ محمد بن عبد الوھاب كی خدمت میں حاضر هوتا تھا اور اس سے دینی مسائل معلوم كرتا تھا اور اس كے فتووٴں كی بدولت اس نے دیگر ملكوں پر چڑھائی كی اور نماز اور دوسرے احكام میں اس كی اقتدا كرتا تھا، اور اس طریقہ میں وہ (ابن) عبد الوھاب سے بھی زیادہ سخت ثابت هواھے لہٰذا اس نے بھی نجد پر اكتفاء نہ كی بلكہ دور دراز كے علاقوں میں بھی اس فرقہ كو پھیلانے كی كوشش كی اور اس راستہ میں اپنے پیروكاروں كے لئے دوسرے فرقوں كی جان ومال اور ناموس كو بھی حلال اور مباح كردیا، اور ان سے یہ قول وقرار كیا كہ اگر وہ اس راستہ میں قتل هوجائیں تو وہ خود ان كی بیوی بچوں كا كفیل هوگا اور جنت میں جانے كی ضمانت بھی لیتاتھا اسی لئے جب مجاہدین كو رخصت كرتا تھا تو خازن جنت كے نام ایك رقعہ لكھ كر دیتا تھا جو اس مجاہد كے گلے میں ڈال دیا جاتا تھا، تاكہ مرنے كے فوراً بعدبغیر سوال وجواب كے سیدھے جنت الفردوس میں بھیج دیا جائے، اس كے احكام اس طرح سے نافذ هوتے تھے كہ واقعاً تعجب هوتا ھے، وہ زمین پر بیٹھ كر لوگوں كے درمیان فیصلہ كرتا تھا، تمام ملك كی درآمد كو صرف فوجی ضروریات پر خرچ كرتا تھا اس كے پاس صدر اسلام كی طرح عرب كے مختلف قبیلوں پر مشتمل ایك عظیم لشكر تھا جب بھی وہ فرمان جاری كرتاتھا سارا لشكر ثواب اور مال غنیمتحاصل كرنے كے لئے فوراً تیار هوجاتا تھا۔ خمس اس كا حصہ هوتا تھا اور باقی تمام مال،مال غنیمت شمار كیا جاتا تھا، سبھی كم كھانے والے اور ھلكے جسم والے زحمت كش لوگ ھیں، صرف چند خرموں پر اپنا پورا دن گذار دیتے ھیں اور ایك عبامیں سالوں گذار دیتے ھیں،ان كے سب كے سب گھوڑے نجدی اور معروف ومشهور نسل كے هوتے ھیں بلكہ نجدی گھوڑوں كو كھیں باھر نھیں جانے دیتے، وہ اب تك مكہ ومدینہ اور مسقط كے علاوہ جزیرة العرب كے تمام شھروں كو فتح كرچكا ھے، حرمین (مكہ ومدینہ) كو چھوڑنے كا سبب یہ ھے كہ چونكہ وہ خانہٴ كعبہ كا بھت زیادہ احترام كرتا ھے اور كسی بھی قبیلہ كے حجاج هوں سب كو كھانا كھلاتا ھے اوران كی رخصتی كے وقت بدرقہ 473 كرتا ھے۔ حجاج كے قافلوں كے لئے شرط یہ ھے كہ اس كی ولایت سے گذریں ورنہ جو لوگ جاچكے ھیں ان كو واپس لوٹا لیا جائے گا اور دوسری بات یہ ھے كہ شریف ِمكہ بھی اسی كے افراد میں سے ھے، اور اس نے استانبول كے امراء كے دباوٴ میں موجودیت كا اظھار كر دیا ھے ۔ اسی وجہ سے ان علاقوں پر بھی عبد العزیز نے فتح حاصل كرنے كی ٹھا ن لی اور اپنے بیٹے سعود كو بے شما رلشكر كے ساتھ وھاں بھیجا اس نے پھلے تو طائف كے لوگوں كا قتل عام كیا اور ان كے گھروں میں آگ لگادی اور ایك كثیر تعداد كو اسیر كرلیا، اورچونكہ اس وقت حج كا زمانہ تھا وھاں ركا، لیكن ایك ناگھانی بلا كی طرح مكہ كو بھی فتح كرلیا، اور وھاں كے بعض متبركہ چیزوں كو نابود كرڈالا، اور اس كے بعد ”جدّہ“ پهونچا، وھاں پهونچتے ھی اس كا محاصرہ كرلیا،لیكن شریف ِ مكہ مخفی طریقہ سے ایك جھاز پر سوار هو كر ”بحرقلزم“474 بھاگ گیا۔ چنانچہ وھاں كے لوگوں نے كچھ مال دیكراس سے صلح كرلی ،اور چونكہ سعود عُمّان كا ارادہ ركھتا تھا اسی وجہ سے اس نے اسی كو غنیمت جانا او رپھر وھاں سے عمان كی طرف چلا گیا، اسی دوران شریف دوبارہ جدّہ اور مكّہ واپس چلاآیا، تھوڑے لوگ جو اس كی ولایت میں تھے انھوں نے اس كو قتل كردیا اور بھاگ نكلے، اس وقت سعود مسقط كی طرف بڑھا، او روھاں كے بادشاہ سے جنگ كی، چنانچہ وھاں كی عوام الناس نے بھی اس كے مذھب كو قبول كرلیا اور اپنے بادشاہ سے بغاوت كی اور وھاں كے سلطان كا بھائی بھی وھابی هوگیا اور اس كو امام المسلمین كا لقب دیا گیا، اور جب بادشاہ كے پاس اپنے قلعہ اور شھر كے اطراف كے علاوہ كچھ باقی نہ بچا، یہ دیكھ كر سعود نے یقین كرلیا كہ یہ بادشاہ اب خود بخود تسلیم هوجائے گا لہٰذا مزید كوئی حملہ نہ كیا، اسی طرح بصرہ اور حلّہ كے لوگوں میں وھابیوں كے خوف ووحشت كی وجہ سے رات كی نیند حرام هوگئی اسی طرح كربلا اورنجف میں راتوں كو لوگ پھرہ دینے لگے، اورنجف كے روضہ كی قیمتی چیزوں كو كاظمین میں لے جاكر محفوظ كر دیا گیا ۔ ایسا معلوم هوتا تھا كہ عنقریب بصرہ بھی فتح هوجائے گا كیونكہ بصرہ سے تین فرسخ پھلے تك اس كا قبضہ هوچكا تھا اور ”عتوب“ نامی قبیلہ پر دوسال پھلے ھی سے قبضہ تھا یہ لوگ پانی كے جھاز چلانے والے تھے اور ان كی زمینی طاقت، دریائی طاقت كی وجہ سے بڑھ گئی تھی، چنانچہ بصرہ كو فتح كرنے كے بعد بغدا د اوراس كے بعد استانبول كا علاقہ فتح هونا آسان تھا۔ 475 ایك اور قدیم ایرانی آثار جس میں وھابیوں كے عقائد كے بارے میں گفتگو هوئی ھےكتاب ”بستان السیاحہ“ تالیف حاج زین العابدین شیروانی (متولد1194ھ، متوفی1253ھ)ھے جو فتح علی شاہ كے زمانہ كے مشهور ومعروف صوفی تھے، موصوف نے امیر سعود ابن عبد العزیز سے نجد میں ملاقات بھی كی ھے، (سعود بن عبد العزیز كے حالات زندگی آل سعود كی تاریخ میں بیان هوں گے، انشاء اللہ) موصوف نے اپنی ملاقات میں اس سے وھابی مذھب كے بارے میں سوالات كئے اورسعود نے اس كے سوالوں كا جواب دیا، ھم یھاں پر بستان السیاحہ كی اصل عبارت نقل كرتے ھیں: ”راقم (زین العابدین شیروانی) نے امیر سے سوال كیا كہ وھابی مذھب كی حقیقت كیا ھے؟ اور اس فرقہ كا مُحدِّث (ایجاد كرنے والا) كون ھے؟ امیر نے جواب میں كھا كہ وھابی مذھب كوئی نئی ایجاد نھیں ھے لیكن چونكہ محمد بن عبد الوھاب نے اس مذھب كو رائج كیا ھے اس وجہ سے لوگوں كی زبان پر یہ بات ھے (كہ اس مذھب كا بانی محمد بن عبد الوھاب ھے) ورنہ یہ كوئی نیامذھب نھیں ھے بلكہ وھی سلف كا مذھب ھے، اس كا اعتقاد یہ ھے كہ خداوندعالم كے علاوہ كوئی مستحق عبادت نھیں ھے،اور انبیاءعلیهم السلاماو راولیاء اللہ كی شفاعت كا عقیدہ بے معنی ھے اور اسی طرح انبیاءعلیهم السلام اور اولیاء اللہ كی قبروں پر گنبد بنانا بدعت ھے اور وہ چیزیں جو حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے زمانہ میں نھیں تھیں وہ بدعت او رگمراھی ھیں۔ اسی طرح انبیاء، ملائكہ اور اولیاء اللہ سے شفاعت طلب كرنا شرك ھے اور جو چیز حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے زمانہ میں نھیں تھی وہ بدعت ھے اور بدعت گمراھی ھے مثلاً حقّہ پینا یا مردوں كو عورتوں كا لباس پہننا اور مساجد او رمعابد كی زینت كرنا اسی طرح قرآن اور دوسری كتابوں كو (سونے كے پانی سے) تذھیب كرنا، انبیاء اور اولیاء اللہعلیهم السلام كی قبروں كو مزین كرنا، لمبی داڑھی ركھنااور كپڑوں میں عورتوں كی شبیہ بنانا، اور كسی كے سامنے اپنے سر كو جھكانا یا روضوں كو بوسہ دینا، اسی طرح ٹیكس وغیرہ لینا، بھت زیادہ لمبے یا چھوٹے كپڑے پہننا اور اسی طرح عورتوں كو زیندار گھوڑے پر سوار كرنا، یہ تمام كی تمام چیزیں بدعت ھیں۔ حقیر (زین العابدین شیروانی) نے ایك كتاب دیكھی ھے جس میں وھابیوں نے اپنے مذھب كو قرآن اور احادیث كے ذریعہ ثابت كیا ھے۔ 476 وھابیوں كا تذكرہ دوسری قدیم ایرانی كتابوںمثلاً ناسخ التواریخ، روضة الصفا، ناصری اور منتظم ناصری میں بھی موجود ھے جس كو ھم وھابیوں كے كربلائے معلی اور نجف اشرف پر حملہ كی بحث میں بیان كریں گے۔ قارئین كرام !جیسا كہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا كہ وھابیوں كے بارے میں اس وقت كے ایرانی علماء كی معلومات بھت كم تھی اور ایك حد تك نادرست تھی، شاید اس كی وجہ یہ هو كہ اس زمانہ میں وھابیوں كا دور دراز كے علاقوں سے اتنا زیادہ واسطہ نھیں تھا، اور دوسری بات جو میرزا ابوطالب صاحب نے بھی لكھا ھے كہ عثمانی حكّام كے بہكانے كی وجہ سے لوگ وھابیوں كے امور كو قابل حفظ و ضبط نھیں جانتے تھے477 درحالیكہ وھابیوں كی خبریں عثمانی سر زمین (تركی) سے گذر كر ایران پهونچتی تھیں۔ سب سے اھم بات یہ ھے كہ اس وقت مواصلاتی نظام (اخبار وغیرہ) كے وسائل بھت محدود اور كم تھے اور ان پر اعتماد بھی نھیں كیا جاسكتا تھا، او ر خبروں كو ایك طرف سے دوسری طرف صرف مسافروں كے ذریعہ پهونچایا جاتا تھا، اور مسافرین بھی جو چیزیں مشهور هوتی تھیں اسی پر اكتفاء كرتے تھے اور كبھی ایسا هوتا تھا كہ وہ خود بعض چیزوں كا اپنی طرف سے اضافہ كردیا كرتے تھے، ان تمام چیزوں كے باوجود ابو طالب كی تحریر كے مطابق بعض نئی چیزیں واضح هوتی ھیں جو وھابیوں كی تاریخ كی تحقیق میں موثر ثابت هوسكتی ھیںخاص طور سے اس لئے بھی كہ یہ چیزیں ان لوگوں كے قلم سے ھیں جو وھابیت كی پیدائش كے زمانہ میں زندگی بسركرتے تھے، اور مذكورہ واقعات انھیں كے زمانہ میں رونما هوئے لہٰذا تاریخی اعتبار سے ان كی ایك خاص اھمیت ھے۔ -------------------------------------------------------------------------------- 463. مذكورہ عبارت قدیم فارسی كا ترجمہ ھے لہٰذا جسے ذرا سا دخل وتصرف كے ساتھ انجام دیا گیا ھے، مترجم۔ 464 .عبد العزیز كو خان كا لقب دینے كی وجہ یہ ھے كہ موٴلف كتاب تحفة العالم اس علاقہ كے تحت تاثیر واقع هوگئے تھے كیونكہ خان كا لقب اس زمانہ میں ہندوستان اور ایران میں رائج تھا جبكہ نجد میں اس كا نام ونشان بھی نھیں تھا۔ 466. وھابیوں كی تاریخ كی تفصیل كے دوران،ان كے مقابل سلطان عثمانی كے اقدامات اور فتح علی شاہ كی كوششوں كے بارے میں بیان كیا جائے گا۔ 467. ذیل التحفة ص 8 سے ۔ 468. ھم یہ ضروی سمجھتے ھیں كہ جناب آقای مدرسی طباطبائی كا شكریہ ادا كریں جنھوں نے مذكورہ خط سے آگاہ كیا اور مجھے وہ كتاب دكھائی جس میں اصلی خط كا عكس موجود ھے۔ 469. ھم نے پھلے یہ بات عرض كی ھے كہ سب سے پھلے محمد بن عبد الوھاب اور محمد بن سعود (جو كہ عبد العزیز كا باپ تھا) میں بھت زیادہ رابطہ پیدا هوا، نہ كہ عبد العزیز اور محمد بن عبد الوھاب میں۔ 470. مآثر سلطانیہ، ص 82 سے 85تك۔ كربلا و نجف پروھابیوںكے حملہ كے بارے میں بیان كیا جائے گاكہ پھلے كربلاپر حملہ كیا اور ان كا سردار امیر سعود ابن عبد العزیز تھا۔ 471. كربلا پر وھابیوں كے حملہ كی شرح جس طرح كے میرزا ابو طالب نے لكھی ھے بعد میں بیان هوگی. 472. موصوف كی یہ بات بالكل غلط ھے كیونكہ مسلّم یہ ھے كہ اس مذھب كا بانی محمد بن عبد الوھاب ھے نہ كہ عبد الوھاب، اور جیسا كہ ھم نے عرض كیا كہ خود عبد الوھاب اپنے بیٹے كا شدید مخالف تھا، اسی طرح محمد كا نابینا هونا اور اس كی اور عبد العزیز كی پرورش ابراھیم نامی شخص (قبیلہ بنی حرب) كے گھر میں یہ بھی ایسی بات ھے كہ موٴلف كی نظر میں اس كا كوئی دوسرا ثبوت نھیں ملتا، اور جیسا كہ معلوم هوتا ھے كہ میرزا ابوطالب كی بعض باتیں وھی ھیں جن كو سید عبد اللطیف شوشتری نے بیان كیا ھے اور چونكہ یہ دونوں موٴلف ھم عصر تھے ظاھراً یہ مطالب ابو طالب صاحب نے شوشتری صاحب كی كتاب سے لئے ھیں۔ 473. بدرقہ سے یھاں مراد یہ ھے كہ ان كے ساتھ كچھ سپاھی بھیجا وہ راستہ میں رہزنوں كے شر سے محفوظ رھیں۔ 474. بحر قلزم دریائے سرخ كو كھا جاتا ھے۔ 475. سفر نامہ میرزا ابو طالب (مسیر طالبی) ص 409 476. بستان السیاحہ ص 602، لفظ نجد كے ذیل میں، شیروانی حدائق السیاحہ (545)میں انھیں چیزوں كو تھوڑے سے فرق كے ساتھ لكھتے ھیں مثلاً سعود بن عبد العزیز سے ملاقات كرنے كے بجائے شیخ عبد اللہ بن سعود سے ملاقات كو ذكر كیا ھے۔ 477. سفر نامہ میرزا ابو طالب ص 409۔ |