چوتھا باب: وھابیوں كے عقائد
 

ھاں پر ھمارا مقصد وھابیوں كے تمام عقائد كو بیان كرنا نھیں ھے بلكہ ھم صرف ان عقائدوں كو بیان كریں گے جن كی وجہ سے یہ لوگ مشهور هوئے اور جن كی بناپر دوسروں سے جدا هوئے ھیں اور جن كی وجہ سے دوسرے فرقوں كے علماء نے ان كے جوابات لكھنے شروع كئے ھیں۔

1۔ توحید كے معنی اور كلمہٴ ”لا الہ الا اللّٰہ“ كا مفهوم
شیخ محمد بن عبد الوھاب اور اس كے پیرو كاروں نے توحید اور كلمہ ”لا الہ الا اللّٰہ “ كے معنی اس طرح بیان كئے ھیں جن كی روشنی میں كوئی دوسرا شخص موحّد (خدا كو ایك ماننے والا) موجود ھی نھیں ھے، چنانچہ محمد بن عبد الوھاب اس طرح كھتا ھے:
”لا الہ الا اللّٰہ “ میں ایك نفی ھے اور ایك اثبات، اس كا پھلا حصہ (لا الہ) تمام معبود كی نفی كرتا ھے 272 اور اس كا دوسرا حصہ (الا اللہ) خدائے وحدہ لاشریك كی عبادت كو ثابت كرتا ھے۔ 273
اسی طرح محمد بن عبد الوھاب كا كہنا ھے كہ توحید وہ مسئلہ ھے جس پر خداوند عالم نے بھت زیادہ تاكید كی ھے،اور اس كا مقصد، عبادت كو صرف خداوندكریم سے مخصوص كرنا ھے۔ سب سے بڑی چیز جس سے خداوندعالم نے نھی كی ھے وہ شرك ھے جس كا مقصد غیر خدا كو خدا كا شریك قرار دینا ھے۔ 274
اسی طرح وہ خداوندعالم كے صفات كی شرح كرتے هوئے كھتا ھے كہ خداوندعالم كسی بھی ایسے شخص كا محتاج نھیں ھے جو بندوں كی حاجتوں كو اس سے بتائے یا اس كی مدد كرے یا بندوں كی نسبت خدا كے لطف و مھربانی كو تحریك كرے۔ 275
اس بناپر وھابیوں نے قبور كی زیارتوں اور غیر خداكو پكارنے كو ممنوع قرار دیا مثلاً كوئی كھے ”یا محمد“276 اسی طرح غیر خدا كو خدا كی بارگاہ میں وسیلہ قرار دینا یا قبور كے پاس نمازیں پڑھنایا اس طرح كی دوسری چیزیں جن كو ھم بعد میں بیان كریں گے، ان سب كو شرك قرار دیدیاھے، اس سلسلہ میں وہ سنی اور شیعہ كے درمیان كسی فرق كے قائل نھیں ھیں۔
محمد بن عبد الوھاب كا نظریہ یہ تھا كہ جو لوگ عبد القادر،عروف كَرخی، زید بن الخطاب اور زُبیر كی قبروں سے متوسل هوتے ھیں وہ مشرك ھیں 277 اسی طرح جواھل سنت شیخ عبد القادر كو شفیع قرار دیتے ھیں ان پر بھی بھت سے اعتراضات كئے ھیں۔ 278
آلوسی كاكہنا ھے كہ جوشخص حضرات علی، حسین، موسیٰ كاظم، اور محمد جواد(علیهم السلام)كے روضوں پر اور اھل سنت عبدالقادر ،حسنِ بصری اور زبیر وغیرہ كی قبروں پر زیارت كرتے هوئے اور قبور كے نزدیك نماز پڑھتے هوئے اور ان سے حاجت طلب كرتے هوئے دیكھے تو اس كو یہ بات معلوم هوجائے گی كہ یہ لوگ سب سے زیادہ گمراہ ھیں اور كفر وشرك كے سب سے بلند درجے پر ھیں۔ 279
اس بات كا مطلب یہ ھے كہ چونكہ شیعہ اور سنی قبروں كی زیارت كے لئے جاتے ھیں اور وھاں پر نمازیں پڑھتے ھیں اور صاحب قبر كو وسیلہ قرار دیتے ھیں لہٰذا كافر ھیں، اسی عقیدہ كے تحت دوسرے وھابی تمام ممالك كو دار الكفر (كافر كے ممالك)كھتے ھیں اور اس ملك كے رہنے والوں كو اسلام كی طرف دعوت دیتے تھے۔
1218ھ میں سعود بن عبد العزیز امیر نجد اھل مكہ كے لئے ایك امان نامہ لكھتا ھے جس كے آخر میں لوگوں كے خطاب كرتے هوئے اس آیت كو لكھتا ھے:
<قُلْ یَا اَہْلَ الْكِتَابِ، تَعَالَوْا اِلٰی كَلِمَةٍ سَوَاء بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ اَلاّٰ نَعْبُدَ اِلاّٰ اللّٰہ وَلاٰ نُشْرِكَ بِہِ شَیْئاً وَلاٰ یَتَّخِذ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْااشْہِدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔ > 280
”اے پیغمبرآپ كہہ دیں كہ اے اھل كتاب آوٴ اور ایك منصفانہ كلمہ پر اتفاق كرلیں كہ خدا كے علاوہ كسی كی عبادت نہ كریں، كسی كو اس كا شریك نہ بنائیں، آپس میں ایك دوسرے كو خدا كا درجہ نہ دیں، او راگر اس كے بعد بھی یہ لوگ منھ موڑیں تو كہہ دیجئے كہ تم لوگ بھی گواہ رہنا كہ ھم لوگ حقیقی مسلمان اور اطاعت گذار ھیں“
اسی طرح وھابی علماء میں سے شیخ حَمَد بن عتیق نے اھل مكہ كے كافر هونے یا نہ هونہ كے بارے میں ایك رسالہ لكھا جس میں بعض استدلال كے بناپر ان كو كافر شمار كیا، 281 البتہ یہ اس زمانہ كی بات ھے جب وھابیوں نے مكہ شھر كو فتح نھیں كیا تھا۔
جن شھروں یاعلاقوں كے لوگوں میں جو نجدی حاكموں كے سامنے تسلیم هوجاتے تھے ،ان سے ”قبول توحید “ كے عنوان سے بیعت لی جاتی تھی۔ 282
كلّی طور پر وھابیوں نے اكثر مسلمانوں كے عقائد اور ان كے درمیان رائج معاملات كو دین اسلام كے مطابق نھیں جانتے تھے۔ گویا اسی طرح كے امور باعث بنے كہ بعض مستشرقین منجملہ ”نیبھر اھل ڈانمارك“نے گمان كیا كہ شیخ محمد بن عبد الوھاب پیغمبر تھا۔ 283
توحید سے متعلق وھابیوں كے نظریات كے بارے میں شیخ عبد الرحمن آل شیخ كی گفتگو كو بیان كرنامناسب ھے، موصوف كھتے ھیں كہ ”لا الہ الا اللّٰہ“ كے معنی خدا كی یگانیت كے ھیں یعنی انسان كو چاہئے كہ فقط اور فقط خدا كی عبادت كرے اور عبادت كو خدا كے لئے منحصر مانے اور غیر خدا سے بیزاری اختیار كرے۔ 284
اس سلسلہ میں حافظ وھبہ بھی كھتے ھیں كہ ”لا الہ الا اللّٰہ“كے معنی : خدا كے علاوہ تمام معبودوں كو ترك كرنا ھے، لہٰذا انسان كی توجہ صرف خدا پر هونا چاہئے اور اگر كسی غیر خدا كی عبادت كی جائے تو گویا اس نے غیر خدا كو خدا كے ساتھ شریك قرار دیا،چاھے اس كام كا كرنے والا اس طرح كا كوئی ارادہ بھی نہ ركھتا هو، تو ایسا شخص مشرك ھے خواہ وہ اپنے شرك كو شرك مانے یا اس كو توسل كانام دے۔
اس كے بعد حافظ وھبہ اپنی گفتگو كوجاری ركھتے هوئے كھتے ھیں كہ وھابیوں كو اس بات میں كوئی شك نھیں ھے كہ اگر كوئی كھے”یا رسول اللہ“،”یا ابن عباس“ ،”یا عبد القادر“وغیرہ اور ان كلمات كے كہنے سے اس كا قصدان كا فائدہ پهونچانایانقصان كو دور كرنا هو یا اس كے مدّ نظر ایسے امور هوں جن كو صرف خدا ھی انجام دے سكتا ھے، تو ایسا شخص مشرك ھے اور اس كا خون بھانا واجب ھے اور اس كا مال مباح ھے۔ 285
قارئین كرام ! ھماری گفتگو كا خلاصہ یہ ھے كہ محمد بن عبد الوھاب توحید كی طرف دعوت دیتا تھا اورجو (اس كی بتائی هوئی توحید كو)قبول كرلیتا تھا اس كی جان اور مال محفوظ هوجاتی تھی اور اگر كوئی اس كی بتائی هوئی توحید كو قبول نھیں كرتا تھا اس كی جان ومال مباح هوجاتے تھے، وھابیوں كی مختلف جنگیں، چاھے وہ حجاز كی هوں یا حجاز كے باھر مثلاً یمن، سوریہ اور عراق كی جنگیں،اسی بنیاد پر هوتی تھیں اور جنگ میں جس شھر پر غلبہ هوجاتا تھا وہ پورا شھر ان كے لئے حلال هوجاتا تھا ،ان كو اگر اپنے املاك اور تصرف شدہ چیزوں میں قرار دینا ممكن هوتا تو ان كو اپنی ملكیت میں لے لیتے تھے ورنہ جو مال ودولت اور غنائم جنگی ان كے ھاتھ آتاا سی پر اكتفا كرلیتے تھے۔ 286
اور جو لوگ اس كی اطاعت كو قبول كرلیتے تھے ان كے لئے ضروری تھا كہ دین خدا ورسول كو (جس طرح محمد بن عبد الوھاب كھتا تھا)قبول كرنے میں اس كی بیعت كریں، اور اگر كچھ لوگ اس كے مقابلے میں كھڑے هوتے تھے تو ان كو قتل كردیا جاتا تھا، اور ان كا تمام مال تقسیم كرلیا جاتا تھا، اسی پروگرام كے تحت مشرقی احساء كے علاقہ میں ایك دیھات بنام ”فَصول“ كے تین سو لوگوں كوقتل كردیا گیا او ران كے مال كو غنیمت میں لے لیاگیا، اسی طرح احساء كے قریب ”غُرَیْمِیْل“ میں بھی یھیكارنامے انجام دئے۔ 287
اس سلسلہ میں شوكانی صاحب كھتے ھیں كہ محمد بن عبد الوھاب كے پیروكار ھراس شخص كو كافر جانتے تھے جو حكومت نجد میں نہ هو یا اس حكومت كے حكام كی اطاعت نہ كرتا هو، اس كے بعد شوكانی صاحب كھتے ھیں كہ سید محمد بن حسین المُراجل(جو كہ یمن كے امیر حجاج ھیں) نے مجھ سے كھا كہ وھابیوں كے كچھ گروہمجھے اور یمن كے حجاج كو كافر كھتے ھیں اور یہ بھی كھتے ھیں كہ تمھارا كوئی عذر قابل قبول نھیں ھے مگر یہ كہ امیر نجد كی خدمت میں حاضر هو تاكہ وہ دیكھے كہ تم كس طرح كے مسلمان هو۔ 288
وھابیوں كی نظر میں وہ دوسرے امور جن كی وجہ سے مسلمان مشرك یا كافر هوجاتا ھے
وھابی لوگ توحید كے معنی اس طرح بیان كرتے ھیں كہ ان كے علاوہ كوئی دوسرا مسلمان باقی نھیں بچتا، وہ بھت سی چیزوں كو توحید كے خلاف تصور كرتے ھیں جن كی وجہ سے ایك مسلمان دین سے خارج او رمشرك یا كافر هوجاتا ھے،یھاں پر ان میں سے چند چیزوں كو بیان كیا جاتا ھے:
1۔ اگر كوئی شخص اپنے سے بلا دور هونے یا اپنے فائدہ كے لئے تعویذ باندھے یا بخار كے لئے اپنے گلے میں دھاگا باندھے، تو اس طرح كے كام شرك كا سبب بنتے ھیں اور توحید كے بر خلاف ھیں۔ 289
2۔ محمد بن عبد الوھاب نے عمر سے ایك حدیث نقل كی ھے جو اس بات پر دلالت كرتی ھے كہ اگر كوئی غیر خدا كی قسم كھائے تو اس نے شرك كیا، او رایك دوسری حدیث كے مطابق خدا كی جھوٹی قسم غیر خدا كی سچّی قسم سے بھتر ھے، لیكن صاحب فتح المجید اس بات كی تاویل كرتے هوئے كھتے ھیںكہ خدا كی جھوٹی قسم كھانا گناہ كبیرہ ھے، جبكہ غیر خدا كی سچی قسم شرك ھے جو گناہ كبیرہ سے زیادہ سنگین ھے۔ 290
3۔ اگر كسی شخص كو كوئی خیر یا شر پهونچا ھے، وہ اگر اسے زمانہ كانتیجہ جانے اور اس كو گالی وغیرہ دے تو گویا ا اس نے خدا كو گالی دی ھے كیونكہ خدا ھی تمام چیزوں كا حقیقی فاعل ھے۔ 291
4۔ ابو ھریرہ كی ایك حدیث كے مطابق یہ كہنا جائز نھیں ھے كہ اے خدا اگر تو چا ھے تو مجھے معاف كردے یا تو چاھے تو مجھ پر رحم كردے، كیونكہ خدا وندعالم اس بندے كی حاجت كو پورا كرنےكے سلسلہ میں كوئی مجبوری نھیں ركھتا۔
292
5۔ كسی كے لئے یہ جائز نھیں ھے كہ وہ اپنے غلام او ركنیز كو ”عبد“ اور ”امہ“ كھے اور یہ كھے ”عبدی“ یا ”اَ مَتی“كیونكہ خداوندعالم تمام لوگوں كا پروردگار ھے اور سب اسی كے بندے ھیں اور اگر كوئی اپنے كو غلام یا كنیز كا مالك جانے، اگرچہ اس كا ارادہ خدا كے ساتھ شركت نہ بھی هو، لیكن یھی ظاھری اور اسمی شراكت ایك قسم كا شرك ھے، بلكہ اسے چاہئے كہ عبد اور امہ كے بدلے” فتیٰ“ اور ”فتاة“یا غلام كھے۔ 293
6۔ جب انسان كو كوئی مشكل پیش آجائے تو اسے یہ نھیں كہنا چاہئے كہ اگر میں نے فلاں كام كیا هوتا تو ایسا نہ هوتا، كیونكہ ”لفظ اگر“ كے كہنے میں ایك قسم كا افسوس ھے اور ”لفظ اگر “ میں شیطان كے لئے ایك راستہ كُھل جاتا ھے اور یہ افسوس وحسرت اس صبر كے مخالف ھے جس كو خدا چاھتا ھے، جبكہ صبر كرنا واجب ھے اور قضا وقدر پر ایمان ركھنا بھی واجب ھے۔ 294
كسی پر كفر كا فتویٰ لگانے كے بارے میں چند صفحے بعد وضاحت كی جائے گی۔

تو پھر موحّد كون ھے؟
جناب آقائے مغنیہ، محمد بن عبد الوھاب كی كتابوں اور دوسرے وھابیوں كی كتابوں سے یہ نتیجہ حاصل كرتے ھیں كہ وھابیوں كے لحاظ سے كوئی بھی انسان نہ موحد ھے او رنہ مسلمان ! مگر یہ كہ چند چیزوں كو ترك كرے، ان میں سے چند چیزیں یہ ھیں: 295
1۔ انبیاء اور اولیا ء اللہ كے ذریعہ خدا سے توسل نہ كرے او رجب ایسا كام كرے مثلاً یہ كھے كہ اے خدا تجھ سے تیرے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے وسیلہ سے توسل كرتا هوں مجھ پر رحمت نازل فرما، تو ایسے شخص نے مشركوں كا راستہ اپنایاھے، او راس كا عقیدہ مشركوں كے عقیدہ كی طرح ھے۔ 296
2۔ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كی غرض سے سفر نہ كرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر پر ھاتھ نہ ركھے اور آپ كی قبر كے پاس دعانہ مانگے نمازنہ پڑھے، اسی طرح آنحضرت كی قبر كے اوپر عمارت وغیرہ نہ بنائے، اور اس كے لئے كچھ نذر وغیرہ نہ كرے۔ 297
3۔ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شفاعت طلب نہ كرے، اگرچہ خدا وندعالم نے آنحضرتاور دوسرے انبیاءعلیهم السلامكو شفاعت كا حق عطا كیا ھے لیكن ھمیں ا ن سے شفاعت طلب كرنے كا كوئی حق نھیں ھے۔
چنانچہ ایك مسلمان كے لئے یہ كہنا جائز ھے :”یَا اَللّٰہُ، شَفِّعْ لی مُحَمَّداً“ (اے خدامحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كو میرا شفیع قرار دے، لیكن یہ كہنا جائز نھیں ھے ”یَا مُحَمَّد اِشْفَعْ لی عِنْدَ اللّٰہ“ (اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدا كے نزدیك ھماری شفاعت كریں۔ 298
اور اگر كوئی شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شفاعت طلب كرتا ھے تو ایسا شخص بالكل ان بت پرستوں كی طرح ھے جو بتوں سے شفاعت طلب كرتے تھے۔ 299
4۔ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قسم نہ كھائے اور آپ كو نہ پكارے،آپ كو لفظ ”سیدنا“كہہ كر نہ پكارے، اپنی زبان پر اس طرح كے كلمات جاری نہ كرے كہ ”یا محمد وسیدنا محمد“ كیونكہ آنحضرت اور دیگر مخلوق كی قسم كھانا شرك اكبر اور ھمیشہ جہنم میں رہنے كا باعث ھے۔ 300
اسی طرح شیخ محمد بن عبد الوھاب كاكہنا ھے كہ غیر خدا كے لئے نذر كرنا اورغیر خدا سے پناہ مانگنا یااستغاثہ كرنا شرك ھے۔ 301

2۔ صرف شھادتین كا اقرار كرنا مسلمان بننے كا سبب نھیں
شیخ عبد الرحمن آل شیخ (محمد بن عبد الوھاب كا پوتا) اس طرح كھتا ھے كہ” عُبّاد قبور“(اس سے مراد قبور كی زیارت كرنے والے ھیں) در حالیكہ كلمہ ”لا الہ الا اللّٰہ“ كو زبان پر جاری كرتے ھیں نماز پڑھتے اور روزہ ركھتے ھیں لیكن چونكہ محبت اور عبادت میں دوسروں كو خدا كا شریك قرار دیتے ھیں،لہٰذا یہ لوگ كوئی بھی عمل انجام دیں اور كوئی بھی گفتگو كریں باطل ھے اور چونكہ یہ مشرك ھیںلہٰذا ان كا كوئی بھی كام قبول اور صحیح نھیں ھے۔ 302
اس سلسلہ میں حافظ وھبہ كھتے ھیں :وھابیوں كے علاوہ دوسرے فرقے معتقد ھیں كہ جس شخص نے بھی كلمہ ”لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ “كا اقرار كرلیا اس كی جان ومال محفوظ اور محترم ھے، لیكن ھمارا عقیدہ یہ ھے كہ عمل كے بغیراس اقرار كا كوئی فائدہ نھیں اور نہ اس كا كوئی اعتبار ھے، لہٰذا اگر كوئی شھادتین كا اقرار كرے لیكن مردوں كو پكارے یا ان سے استغاثہ كرے یا ان سے حاجت طلب كرے یا ان سے یہ تقاضا كرے كہ ان سے مشكلات كو برطرف كرے توایسا شخص كافر اور مشرك ھے اور اس كی جان ومال حلال او رمباح ھے۔ 303
اس سلسلہ میں آلوسی بھی اپنا نظریہ پیش كرتے ھیں كہ اگر كوئی شخص كلمہ لا الہ الا اللّٰہ كی شھادت دے لیكن غیر خدا كی عبادت كرے (یعنی زیارت قبور كرے) اگرچہ وہ نماز پڑھتا هو روزہ ركھتا هو اور اسلام كے دوسرے اعمال بجالاتا هو، لیكن ایسے شخص كی شھادت قبول نھیں ھے۔
اس كے بعد آلوسی كابیان ھے : كفر كی دو قسمیں ھیں اول كفر مطلق، یعنی ان تمام چیزوں كا انكار كرنا جو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لے كر آئے ھیں، دوسرے كفر مقید یعنی ان میں سے بعض چیزوں كا انكار كرنا۔ وہ كفر مقیّد كے اثبات كے لئے اصحاب كے عمل كو دلیل كے عنوان سے پیش كرتا ھے، كہ جو لوگ زكوٰة ادا نھیں كرتے تھے جبكہ كلمہ شھادتین كا اقرار كرتے تھے او رنماز و روزہ اور حج بجالاتے تھے پھر بھی اصحاب ان كو كافر سمجھتے تھے۔ 304
آلو سی اپنی باتوں سے اس طرح نتیجہ نكالتے ھیں كہ قبور كی عبادت كرنے والوں(یعنی زائرین قبور) كو صرف اس وجہ سے كہ وہ نماز پڑھتے ھیں روزہ ركھتے ھیں اور بعث وقیامت پر ایمان ركھتے ھیں، مسلمان نھیں كھا جاسكتابلكہ وہ مشرك ھیں۔
یہ بات طے ھے كہ یہ باتیں محمد بن عبد الوھاب كی كتابوں سے اخذ شدہ ھیں اور محمد بن عبد الوھاب كی كتابوں اور رسالوں میں تفصیل كے ساتھ بیان هوئی ھیں۔ 305

اس سلسلہ میں وضاحت
غیر وھابیوں كا اس بات پر عقیدہ ھے كہ جو شخص زبان پر شھادتین جاری كرے اور نماز روزہ بجالائے زكوٰة ادا كرے اور دین اسلام كے ضروریات كا معتقد هو تو اس كا شمار مسلمانوں كی فھرست میں هوگا، اور اس كی جان ومال محفوظ ھے، اور ان كا یہ عقیدہ سیرت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے عین مطابق اور اسلام كے مسلمات میں سے ھے،اس سلسلہ میں صحیح بخاری، مسند احمد ابن حنبل او ردوسری معتبر كتابوں میں متعدد احادیث بیان هوئی ھیں، گذشتہ زمانہ سے آج تك تمام مسلمانوں كے فرقوں كی سیرت بھی یھی رھی ھے، اور مختلف مذاھب كے علمائے اسلام كا اس سلسلہ میں اتفاق اور اجماع ھے:
احمد ابن حنبل عمر اور پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت كرتے ھیں:
”اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتلَ النَّاْسَ حَتّٰی یَقُوْلُوا : لاٰ اِٰلہَ اِلاّٰ اللّٰہ ۔ فَمَنْ قاَلَ لاٰ اِلٰہَ اِلاّٰ اللّٰہ فَقَدْ عَصُُمَ مِنِّی مَالُہُ وَنَفْسُہُ اِلاّٰ بِحَقِّہِ وَحِسَابُہُ عَلٰی اللّٰہِ تَعَالیٰ“306
”خدا وندعالم نے مجھے حكم فرمایا ھے كہ لوگوں سے جنگ كروں یھاں تك كہ كلمہ” لا الہ الا اللّٰہ“ زبان پر جاری كریں اور جس شخص نے بھی كلمہ لا الہ الا اللّٰہكا اقرار كرلیا اس كی جان ومال محفوظ ھے مگر یہ كہ كوئی دوسرا حق درمیان میں هو، اور اس كا حساب خدا كے ھاتھ میں ھے۔
شیخ محمود شَلتُوت (جامع الازھر كے سابق سربراہ) كھتے ھیں كہ خدائے وحدہ لاشریك اورپیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی نبوت كا اقرار (اَشْہَدُ اَنْ لاٰ اِلَہَ اِلاّٰ اللّٰہَ وَاَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللّٰہِ) انسان كے لئے ایك كلید ھے وہ جس سے اسلام میںداخل هوسكتا ھے اور اس پر اسلامی احكام جاری هونگے۔ 307

كسی كے بارے میں كفر كا فتویٰ لگانا
وھابیوں اور ابن تیمیہ كے عقائد كی بحث میں یہ بات بیان هوچكی كہ یہ لوگ اپنے علاوہ سبھی دوسرے مسلمانوں كو كافر اورمشرك كھتے ھیں، اور دوسروں پر بھت جلد كفر كا فتویٰ لگا دیتے ھیں، جبكہ خود رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب اور مختلف فرقوں كے بڑے بڑے علماء كا طریقہ یہ نھیں تھا، جن چیزوں كو یہ لوگ كفر وشرك كا باعث سمجھتے ھیں، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ كے اصحاب اور دینی رھبروں كی نظر میں وہ امور موجب كفر وشرك نھیں تھے۔
اگر مسلمان هونے كے لئے شھادتین كا اقرار كرنا كافی نہ هواورتوحید كا مفهوم ابن تیمیہ اور اس كے ھمنواوٴں نے ھی صحیح سمجھا ھے، تو پھر پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے زمانہ كے زمانہٴ جاھلیت كے اكثرعرب تھے جن میں سے بعض لوگ موٴلفة القلوب تھے، ان كے اسلام كو كس طرح قبول كیا جاسكتا ھے، جبكہ صحاح ستہ اور اھل سنت كی دوسری معتبر كتابوں اور دوسرے فرقوں كی كتابوں كے لحاظ سے وہ لوگ جو صرف زبان سے شھادتین كا اقرار كرتے تھے، ان كومسلمان تصور كیا جاتا تھا، جبكہ صدر اسلام میں اكثر لوگ یھاں تك كہ خود اصحاب كرام اسلام كے صحیح معنی سے آگاہ نھیں تھے اور صرف زبان سے كلمہ شھادتین كہنے پر ان كی جان ومال محفوظ هوجاتا تھا اور ان كو مسلمان حساب كیا جاتا تھا، لیكن وھابیوں كا كہنا یہ ھے كہ جو شخص كلمہ شھادتین كا اقرار كرے اور نماز پڑھے، روزہ ركھے، حج بجالائے اور اسلام كی دوسری ضروریات كو قبول كرتے هوئے ان پربھی عمل كرے لیكن اگردینی بزرگوں كی قبور كی زیارت كے لئے جائے تو ایسا شخص مشرك ھے كیونكہ اس نے غیر خدا كو خدا كی عبادت میں شریك قرار دیا ھے، جبكہ اگر كسی بھی زائر سے چاھے وہ شیعہ هو یا سنی ،یہ سوال كریں كہ تم كس لئے زیارت كے لئے جاتے هو؟ تو اس كا جواب یہ هوگا : وہ خدا كا خاص بندہ ھے اور اس نے خدا كے وظائف دوسروں سے بھتر انجام دئے ھیں اور ھم خدا كی خوشنوی كے لئے اس كی قبر كی زیارت كے لئے جاتے ھیں۔ اس كے لئے دعا كرتے ھیں اور اس كی تعظیم كی كوشش كرتے ھیں۔
یہ بات واضح ھے كہ كسی ایسے شخص كے بارے میں كفر و شرك كا فتویٰ لگانا حقیقت اسلام كے مخالف اور سیرت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نیز سلف صالح اور دینی رھبروں كی سیرت كے خلاف ھے۔
اس موقع پر مناسب ھے كہ كسی كے بارے میں كفر و شرك كے فتوے لگانے كے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اصحاب اوردینی رھبروں كی سیرت كی روشنی میں كتاب”الاسلام بین السنة والشیعہ“ سے كچھ چیزیں بیان كردی جائیں تاكہ معلوم هوجائے كہ كسی موحد اور مسلمان كے كفر كا فتویٰ اتنی آسانی سے نھیں لگایا جاسكتا، اور كروڑوں مسلمانوں كو ایسی چیزوں كی وجہ سے جو كبھی بھی توحید اور عبادت خدا كے منافی نھیں ھیں، بڑی آسانی سے كافر نھیں كھا جا سكتا ۔

كسی پر كفر كا حكم لگانا خدا كا كام ھے
اسلام قول اور فعل كے ذریعہ ظاھر هوتا ھے اور انھیں اقوال اور افعال كی وجہ سے میراث كا مسئلہ بھی جاری هوتا ھے، اور لوگوں كا نماز پڑھنا زكوٰة دینا حج بجالانا وغیرہ ایسے امور ھیں جن كے ذریعہ انسان كفر سے نكل كر ایمان كی منزل میں آجاتا ھے۔ 308
ھاں پر چند دینی رھبروں كے اقوال آپ كی خدمت میں پیش كرتے ھیں:
”میں كسی اھل قبلہ كو كافر نھیں جانتا“309
”پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے بعد لوگوں میں بھت سے مسائل میں اختلاف پیدا هوگیا اور مختلف فرقے پیدا هوگئے، اسلام ان سب كو ایك جگہ جمع كردیتا ھے اور سب پر مسلمان كا اطلاقهوتا ھے“310
”میں كسی اھل قبلہ كے كفر كا فتویٰ نھیں دیتا“311
”میں كسی بھی عنوان شھادتین كہنے والوں كو كافر نھیں كھتا“312
”اگر میرے بدن كا گوشت درندے كھالےں، میں اس كو اس چیز سے بھتر سمجھتا هوں كہ خدا سے اس حال میں ملاقات كروں كہ كسی ایسے شخص سے دشمنی ركھوں جو خدائے وحدہ لاشریك اور نبوت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اعتقاد ركھتا هو“313
”میں كسی بھی اسلامی مذھب سے تعلق ركھنے والوں كو كافر نھیں كہہ سكتا“314
”كسی بھی موحد انسان سے دشمنی جائز نھیں ھے اگرچہ اس كو هوا وهوس نے حق سے منحرف ھی كیوں نہ كر دیا هو“315
آخر كلام میں ھم حضرت امام صادق ںكے كلام كو پیش كرتے ھیں، چنانچہ آپ نے فرمایا: ”مسلمان،مسلمان كا بھائی ھے اور ھر مسلمان اپنے مسلمان بھائی كی آنكھ، آئینہ ،اور راہنما ھے جس سے وہ خیانت نھیں كرتا اور نہ ھی اس كو دھوكہ دیتا، اور نہ ھی اس كی غیبت كے لئے اپنا منھ كھولتا ھے۔
اس سلسلہ میں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی سیرت اور آنحضرت كا فرمان كہ آپ نے فرمایا كہ جو شخص اس حال میں مرے كہ خدا كے علاوہ كسی كو خدا نہ جانے تو ایسا شخص بہشت میں داخل هوگا۔ 316
ھم دیكھتے ھیں كہ جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مُعاذ بن جَبَل كو یمن میں تبلیغ كے لئے بھیجا تاكہ لوگوں كو خدا كی طرف بلائےں تو آپ نے ان سے تاكید كی كہ خدا پر ایمان كی حقیقت اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی رسالت كے اعتراف پر اكتفاء كرنا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے كھا: تم اس قوم كے پاس جارھے هو جو اھل كتاب ھیں، ان كو یہ بتانا كہ تم پر خداوندعالم نے روزانہ پانچ وقت كی نمازیں واجب كی ھیں اور اگر وہ لوگ قبول كرتے ھیں تو پھر ان كے مالداروں سے كہنا كہ تم پر زكوٰة واجب ھے تاكہ وہ فقیروں میں تقسیم كی جائے۔
جو شخص اپنے دل میں اس بات كا معتقد هو كہ جنت ودوزخ خدا كے حكم اور اس كے فرمان كے تحت ھے اور كسی پر كفر اور ایمان كا حكم لگانا اور انسان كے دل كی گھرائیوں كا حال جانناخدا سے مخصوصھے، ایسے شخص نے چاھے وہ كتنا بڑا هو،عالم هو یامعجز نما هو اس نے ان اعتقادات كے باوجود خدا كے سامنے بزرگی وبڑائی كی جراٴت كی ھے ۔
اسی طرح جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سنا كہ ان كے ربیب اُسامہ بن زید نے میدان جنگ میں اس شخص كو قتل كردیا جس نے زبان پركلمہ توحید جاری كیا تھا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھت ناراض هوئے اور جب اُسامہ بن زید نے یہ عذر پیش كیا كہ اس نے جان كے خوف سے یہ كلمہ زبان پر جاری كیا تھا (یعنی صرف اپنی جان بچانے كے لئے كلمہ پڑھا تھا) تو آپ نے اُسامہ كے عذر كو قبول نھیں كیا اور فرمایا كہ كیا تم نے اس كا دل چیر كر دیكھ لیا تھا كہ اس كا یہ شھادتین كا اقرار اعتقاد سے تھا یا خوف سے؟ اور یہ بات معلوم ھے كہ ایمان كی جگہ انسان كا دل هوتا ھے اور دل كے اسرار سے صرف خدا ھی واقف هوتا ھے كوئی دوسرا ان سے واقف نھیں هوسكتا۔
اسی طرح جب عمر نے حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عبد اللہ ابن اُبیّ (جو منافقوں كا سردار تھا) كے قتل كی اجازت مانگی، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا كہ اگر تم یہ كام كروگے تو لوگ یہ كھیں گے كہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ھی اصحاب كو قتل كررھے ھیں، گویا پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی اس بات سے عمر اور دوسرے لوگوں كو یہ سمجھانا چاھتے تھے كہ اسلام فقط ظاھر پر حكم كرتا ھے چاھے شك اور تردید كے ساتھ هو۔ 317
شیخ سلیمان جو محمد بن عبد الوھاب كے بھائی تھے اور محمد بن عبد الوھاب كے سخت مخالفین میں شمار هوتے تھے، انھوں نے اپنے بھائی محمد بن عبد الوھاب جو تمام مسلمانوں كو كافر و مرتد كھتا تھا كی ردّ میںایك كتاب ”الصواعق الالٰھیہ“لكھی جس میں 52 حدیثیں ایسی لكھی ھیں جس میں ھر اس شخص كو مسلمان كھا گیا ھے جس نے زبان پركلمہ لا الہ اللہ كو جاری كیا اور بھت سی ایسی حدیثیں لكھیں جس میں ھر اس شخص كو كافر كھا گیا ھے جو كسی مسلمان كو كافر كھے۔ 318

3۔ خداوند عالم كے لئے جھت كا ثابت كرنا
وھابی، ابن تیمیہ كی پیروی كرتے هوئے كیونكہ وہ قرآن اور احادیث كے ظاھر پر عمل كرتے ھیں اور تاویل و تفسیر كے قائل نھیں ھیں بعض آیات اور احادیث كے ظاھر سے تمسك كرتے هوئے خداوندعالم كے لئے جھت كو ثابت كرتے ھیں اور اس كو اعضاء وجوارح والا مانتے ھیں۔
اس سلسلہ میں آلوسی كاكہنا ھے : وھابی ان احادیث كی تصدیق كرتے ھیںجن میں خداوند عالم كے آسمانِ دنیا (آسمان اول) پر نازل هونے كا تذكرہ ھے، وہ كھتے ھیں كہ خداوندعالم عرش سے آسمان دنیا پر نازل هوتا ھے اور یہ كھتا ھے: ہَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ؟كیا كوئی استغفار كرنے والا ھے كہ میں اس كے استغفار كو قبول كروں۔
اسی طرح وہ یہ بھی اقرار كرتے ھیں كہ خداوندعالم روز قیامت عالم محشر میں آئے گا كیونكہ خود اس نے فرمایا ھے:
<وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفّاً صَفّاً>319
”اور تمھارا پرور دگار اور فرشتے صف در صف آجائیں گے“۔
خدا اپنی مخلوق سے جس طرح بھی چاھے قریب هوسكتا ھے جیسا كہ ارشاد هوتا ھے:
<وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ>320
”اور ھم اس كی رگ گردن سے زیادہ قریب ھیں۔ “
آلوسی ایك دوسری جگہ كھتے ھیں كہ اگرچہ وھابی خداوندعالم كے لئے جھت كوثابت كرتے ھیں لیكن مُجسِمّہ نھیں ھیں321 (یعنی خدا كو جسم والانھیں مانتے) اور كھتے ھیں كہ روز قیامت مومنین بغیر كسی كیفیت اور احاطہ كے خداوندعالم كا دیدار كریں گے ۔ 322
اسی طرح وھابی لوگ بعض آیات كے ظاھر كو دیكھتے هوئے خداوند عالم كے لئے اعضاء وجوارح ثابت كرتے ھیں مثلاً اس آیہ شریفہ
<بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتَاْنِ> 323
(خدا كے دونوں ھاتھ تو كھلے ھیں)سے خداوندعالم كے لئے دو ھاتھ ثابت كرتے ھیں اور اسی طرح اس آیہ شریفہ <وَاْصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا>324 كے ظاھر سے خدا كے لئے دو آنكھیں اور اس آیہ كریمہ <فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ>325
كے ذریعہ خدا كے لئے چھرہ اور صورت ثابت كرتے ھیں۔
اور خدا كے لئے انگلیوں كو ثابت كرنے كے لئے ان كے پاس ایك روایت ھے جس كو محمد بن عبد الوھاب نے كتاب توحید كے آخر میں بیان كیا ھے:
”اِنَّ اللّٰہَ جَعَلَ السَّمَوٰاتِ عَلٰی اِصْبَعٍ مِنْ اَصَابِعِہ وَالاَرْضَ عَلٰی اِصْبَعٍ وَالشَّجَرَ عَلٰی اِصْبِعٍ… اِلٰی آخِرِہ“326
خداوندعالم نے آسمانوں كو اپنی ایك انگلی پر اور زمین كو ایك انگلی پر اسی طرح درختوں كو ایك انگلی پر اٹھا ركھا ھے۔

خداوند عالم كی صفات كے بارے میں
صاحب فتح المجید كھتے ھیں: تمام اھل سنت والجماعت چاھے متقدمین هوں یا متاخرین، ان كا عقیدہ یہ ھے كہ خدا كے وہ صفات جن كو خود خدانے قرآن مجید میں بیان كیا ھے یا پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدا كو ان صفات سے متصف كیا ھے،وہ خداوندعالم كے لئے ثابت اور مسلّم ھیں لیكن خداوندعالم كو ان صفات میں كسی مخلوق كے مانند قرار نھیں دیا جاسكتا۔
كیونكہ خداوندعالم اپنے صفات میں مانند اورشبیہ ركھنے سے پاك ومنزہ ھے، جیسا كہ ارشاد هوتا ھے:
<لَیْسَ كَمِثْلِہِ شَئْيٌ وَهو السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ> 327
”اس كا جیسا كوئی نھیں وہ سب كی سننے والا اور ھر چیز كا دیكھنے والا ھے“۔
جس طرح خداوندعالم ایك حقیقی ذات ھے جس كی كوئی شبیہ نھیں، اسی طرح خداوندعالم كے حقیقی صفات بھی ھیں جن سے مخلوق كی كوئی صفت شباھت نھیں ركھتی، اگر كوئی شخص ان چیزوں كا منكر هوجائے جن كو خداوندعالم نے خود سے متصف كیا ھے یا اس كے ظاھری معنی كی تاویل اور تفسیر كرے (مثلاً یہ كھے كہ اس آیت میں<یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْهم۔ >میں ھاتھ سے مراد خدا كی قدرت ھے) ایسے شخص كا مذھب جھمی328 ھے، اور اس كا راستہ مومنین كے راستہ سے الگ ھے۔ 329

4۔ گذشتہ انبیاء كے بارے میں
شیخ محمد بن عبد الوھاب اپنی كتابوں اور رسالوں میں نبوت كی گفتگو كرتے هوئے جناب نوح كو پھلا نبی كھتا ھے:
”اَوَّلُهم (اَوَّلُ الاَنْبِیَاءْ) نُوْحٌ وَآخِرُهم مُحَمَّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم “
”انبیاء میں سب سے پھلے جناب نوحںاور آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ھیں“
اور اس سلسلہ میں قرآن مجید كی آیت كو دلیل كے طورپر بیان كیا ھے مثلاً یہ آیہ كریمہ:
<اِنَّا اَوْحَیْنَا اِلَیْكَ كَمَا اَوْحَیْنَا اِلٰی نُوْحٍ وَالنَّبِیِّیّْنَ مِنْ َبعْدِہ>330
”ھم نے آپ پر وحی نازل كی جس طرح نوح اور ان كے بعد كے انبیاء كی طرف وحی كی تھی“۔

5۔ شفاعت اور استغاثہ
شیخ محمد بن عبد الوھاب كھتا ھے:خداوندعالم نے جن عبادتوں كا حكم كیا ھے وہ یہ ھیں: اسلام، ایمان، احسان، دعا، خوف ورجا، توكل، رغبت، زہد،استقامت، استغاثہ، قربانی اور نذر، یہ تمام چیزیں صرف خدا وندعالم كے لئے ھیں۔ 331
شفاعت كے بارے میں حافظ وھبہ كھتے ھیں كہ وھابی روز قیامت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی شفاعت كے منكر نھیں ھیں اور جیسا كہ بھت سی روایات میں وارد هوا ھے ،وہ شفاعت كو دوسرے انبیاء،
فرشتوں، اولیاء اللہ اور(معصوم) بچوںكے لئے بھی مانتے ھیں، لیكن شفاعت كو اس طرح طلب كیا جائے كہ بندہ خدا سے درخواست كرے كہ پیغمبر كو اس كا شفیع قرار دے مثلا ًیوںكھے:
”اَللّٰهم شَفِّعْ نَبِیِّنَا مُحَمَّداً فِیْنَا یَوْمَ الْقِیَامَة، اَللّٰهم شَفِّعْ فِیْنَا عِبَادَكَ الصَّاْلِحِیْنَ“
”خداوندا ! ھمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كو روز قیامت ھمارا شفیع قرار دے، خداوندا ! اپنے صالح بندوں كو ھمارا شفیع قرار دے“۔
لیكن ” یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، یَا وَلِیّ اللّٰہِ اَسْاٴَلُكَ الشَّفَاعَةَ“ یا اسی طرح كے دوسرے الفاظ مثلاً ”یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَدْرِكْنِی، یَا اَغِثْنِی“زبان پر جاری كرنا خدا كے ساتھ شركھے۔ 332
ابن قیم كھتا ھے كہ شرك كے اقسام میں سے ایك قسم مُردوں سے استغاثہ كرنا یا ان كی طرف توجہ كرنا بھی ھے، مُردے كسی كام پر قادر نھیں ھیں، وہ خود تو اپنے لئے نفع ونقصان كے مالك ھیں نھیں، پھركس طرح استغاثہ كرنے والوں كی فریاد كو پهونچ سكتے ھیں، یا خدا كی بارگاہ میں شفاعت كرسكتے ھیں؟۔
شیخ صُنعُ اللہ حنفی كھتا ھے كہ آج كل مسلمانوں كے درمیان ایسے گروہ پیدا هوگئے ھیں جو اس بات كا دعویٰ كرتے ھیں كہ اولیاء اللہ كی كرامتوں میں سے ایك كرامت یہ بھی ھے كہ وہ اپنی زندگی یا موت كے بعد بھی بعض تصرفات كرسكتے ھیں مثلاً جو لوگ مشكلات اور پریشانیوں كے وقت ان سے استغاثہ كرتے ھیں وہ ان كی مشكلات كو دور كردیتے ھیں، یہ لوگ قبور كی زیارتوں كے لئے جاتے ھیں، اور وھاںطلب حاجت كرتے ھیں، اور ثواب كی غرض سے وھاں پر قربانی و نذر وغیرہ كرتے ھیں۔
شیخ صنع اللہ یھاں پر اس طرح اپنا عقیدہ بیان كرتا ھے كہ ان باتوں میں افراط وتفریط بلكہ ھمیشگی عذاب ھے اور ان سے شرك كی بو آتی ھے۔ 333
ابن سعود ذی الحجہ 1362ھ میں مكہ معظمہ میں كی جانے والی اپنی تقریر میںكھتا ھے كہ ”عظمت اور كبریائی خداوندعالم سے مخصوص ھے اور اس كے علاوہ كوئی معبود نھیں، اور یہ باتیں ان لوگوں كی ردّ میں ھیں جو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كو پكارتے ھیں اور ان سے حاجت طلب كرتے ھیں۔
جبكہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كو كچھ بھی اختیار اور قدرت نھیں ھے اور توحید خداوندعالم سے مخصوص ھے، اور اسی كی عبادت هونا چاہئے اور امید اور خوف اور تمنا خدا وندعالم سے هونی چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی بعثت اسی طرح دیگر انبیاءعلیهم السلامكی نبوت، صرف لوگوں كو توحید كا سبق پڑھانے كے لئے تھی۔ 334
شیخ صنع اللہ كھتے ھیں كہ ظاھری اور معمولی كاموں میں استغاثہ جائز ھے،مثلاً جنگ، یا دشمن اور درندہ كے سامنے كسی سے مدد طلب كی جاسكتی ھے، لیكن معنوی امور میں كسی سے استغاثہ كرنا مثلاً انسان پر یشانیوں كے عالم میں، بیماری كے، یا غرق هونے كے خوف سے یا روزی طلب كرنے میں كسی دوسرے سے استغاثہ نھیں كرسكتا بلكہ ان چیزوں میں صرف خدا سے استغاثہ كرنا چاہئے اور كسی غیرخدا سے استغاثہ جائز نھیں ھے۔ 335
زینی دحلان محمد بن عبد الوھاب كا قول نقل كرتے ھیں كہ اگر كوئی شخص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا دوسرے انبیاءعلیهم السلامسے استغاثہ كرے یا ان میں سے كسی ایك كو پكارے، یا ان سے شفاعت طلب كرے تو ایسا شخص مشركوں كی طرح ھے، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر انبیاء كی قبروںكی زیارت بھی خدا كے ساتھ شرك ھے، اور زیارت كرنے والے مشركوں كی طرح ھیں جو بتوں كے بارے میں كھتے تھے:
<مَانَعْبُدُهم اِلاّٰ لِیُقَرِّبُونَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی >336
”ھم ان كی پرستش صرف اس لئے كرتے ھیں كہ یہ ھمیں اللہ سے قریب كردیں گے“۔
محمد بن عبد الوھاب اس بارے میں مزید كھتے ھیں كہ جو لوگ اھل قبور سے شفاعت طلب كرتے ھیں ان كا شرك زمان جاھلیت كے بت پرستوں كے شرك سے بھی زیادہ ھے۔ 337

استغاثہ كے بارے میں وضاحت
سید احمد زینی دحلان (مكہ معظمہ كے مفتی) گذشتہ مطلب كے بعد اس طرح كھتے ھیں:ان عقائد كی ردّ میں لكھی گئی كتابوں میں مذكورہ استدلال كو باطل اور غیر صحیح قرار دیاگیا، كیونكہ جو مومنین پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم او ردیگر اولیاء اللہ سے استغاثہ كرتے ھیں وہ نہ ان كو خدا سمجھتے ھیں او رنہ ھی خدا كا شریك، بلكہ ان كا تو اعتقاد یہ هوتا ھے كہ یہ سب خدا كی مخلوق ھیں اور ان كو كسی بھی صورت میں مستحق عبادت نھیں مانتے، برخلاف مشركین كے جن كے بارے میں مذكورہ اور دیگر آیات نازل هوئیں ھیں كہ وہ خود بتوں كو مستحق عبادت سمجھتے تھے، اور ان بتوں كے لئے ایسی عظمت كے قائل تھے جس طرح خدا كی عظمت كے قائل هوتے ھیں، لیكن مومنین كرام انبیاءعلیهم السلامكو مستحق عبادت نھیں جانتے اور ان كے لئے خدا سے مخصوص عظمت كے بھی قائل نھیں ھیں، بلكہ ان كا عقیدہ تو صرف یہ ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر انبیاء كرام خدا كے ولی اور اس كے منتخب بندے ھیں، اور خود خداوندعالم ان كے وجود سے اپنے دیگر بندوں پر رحم كرتا ھے، لہٰذا ابنیاءعلیهم السلام اور اولیاء اللہ كی قبروں كی زیارت صرف ان حضرات سے تبرك حاصل كرنے كے لئے هوتی ھے۔ 338
پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كو پكارنے اور آنحضرت سے استغاثہ كرنے كے بارے میں مرحوم علامہ الحاج سید محسن امین صاحب كتاب ”خلاصة الكلام“ سے نقل كرتے ھیں كہ مسیلمہ كذاب سے جنگ كے دوران اصحاب رسول كا نعرہ ”وامحمداہ، وامحمداہ“ تھا اور جس وقت عبد اللہ ابن عمر كے پیر میں درد هوا تو اس سے كھا گیا كہ جس كو تم سب سے زیادہ چاھتے هو اس كو یاد كرو، تو اس نے ”وامحمداہ“ كھا اور اس كے پیر كا درد ختم هوگیا، اسی طرح دوسرے واقعات ھیں جن میں آنحضرت سے استغاثہ كو بیان كیا گیا ھے، 339
شفاعت كے سلسلہ میں انس بن مالك اس طرح روایت كرتے ھیں:
”لِكُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَةٌ قَدْ دَعَا بِها فَاسْتُجِیْبَ، فَجَعَلْتُ دَعْوَتِی شَفَاعَةً لِاُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ“
”ھر نبی كے لئے خداوندعالم نے كچھ مستجاب دعائیں معین كی تھیں اور ان كی وہ دعائیں قبول هوگئیں لیكن میں نے اپنی دعا كو روز قیامت میں اپنی امت كی شفاعت كے لئے باقی ركھا ھے“
اسی طرح ابوھریرہ سے ایك دوسری روایت ھے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ھیں:
”لِكُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَةٌ یَدْعُوْ بِها وَاُرِیْدُ اَنْ اَخْتَبِیَ دَعْوَتِی شَفَاعَةً لِاُمَّتِی فِیْ الآخِرَةِ“340
”ھر پیغمبر نے خداوندعالم سے كچھ نہ كچھ دعائیں كی ھیں اور میں نے اپنی دعا كو روز قیامت میں اپنی امت كی شفاعت كے لئے باقی ركھا ھے“۔
شیخ عبد الرحمن آل شیخ كی تحریر كے مطابق قیامت كے دن مخلوق خدا، انبیاءعلیهم السلام كے پاس جمع هوكر عرض كریں گی كہ آپ خدا كے نزدیك ھماری شفاعت كریں، تاكہ روز محشر كی مشكلات سے نجات حاصل هوجائے۔ 341

7۔ غیر خدا كو ”سید“ یا ”مولا “ كہہ كر خطاب كرنا شرك ھے
مرحوم علامہ امین ۺ، ہدیة السنیہ رسالہ سے نقل كرتے ھیں كہ صاحب رسالہ نے زیارت قبور كی حرمت بیان كرنے كے بعد اس طرح كھا ھے كہ قبروں میں دفن شدہ لوگوں كو پكارنا اور ان سے استغاثہ كرنا یا ”یَا سَیّدی وَمَولای اِفْعَل كَذَا وَكذَا“ (اے میرے سید ومولا میری فلاں حاجت روا كریں) جیسےالفاظ سے پكارنا، اور اس طرح كی چیزوں كو زبان پر جاری كرنا گویا ”لات وعزّیٰ“ كی پرستش ھے۔ 342
اس سلسلہ میں محمد بن عبد الوھاب كھتا ھے كہ مشركین كا لفظ ”الہ“ سے وھی مطلب هوتا تھا جو ھمارے زمانہ كے مشركین لفظ ”سید “ سے مرادلیتے ھیں۔ 343
خلاصة الكلام میں اس طرح وارد هوا ھے كہ محمد بن عبد الوھاب كے گمان كے مطابق اگر كوئی شخص كسی دوسرے كو ”مولانا“ یا ”سیدنا“ كھے تو ان الفاظ كا كہنے والا كافر ھے۔ 344

مذكورہ مطلب كی وضاحت
مرحوم علامہ امین ۺ مذكورہ گفتگو كو آگے بڑھاتے هوئے فرماتے ھیں كہ كسی غیر خدا كو ”سید“ كہہ كر خطاب كرنا صحیح ھے اور اس میں كوئی ممانعت بھی نھیں ھے كیونكہ اس طرح كی گفتگو میں كوئی شخص بھی اس شخص كے لئے مالكیت حقیقی كا ارادہ نھیں كرتا، اس كے علاوہ قرآن مجید میں چند مقامات پر غیر خدا كے لئے لفظ سید استعمال هوا ھے، مثلاً جناب یحییٰ ابن زكریاں كے بارے میں ارشاد هوتا ھے:
<وَسَیّداً وَحَصُوْرا۔ >345
(سردار اور پاكیزہ كرداروالے جناب یحییٰ تھے) اسی طرح دوسری آیت میں <وَاَلْفِیَا سَیِّدَها لَدیَ الْبَابِ۔ >346
(اور ان دونوں نے اس كے سردار كو دروازے پر ھی دیكھ لیا)
احادیث رسول(ص) میں بھی غیر خدا كے لئے لفظ ”سید“بھت زیادہ استعمال هوا،یھاں تك كہ تواتر كی حدتك بیان هوا ھے۔
ان احادیث كے چند نمونے یھاںذكر كئے جاتے ھیں:
اس روایت كو بخاری نے جناب جابر سے نقل كیا ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”مَنْ سَیّدُكُمْ یَا بَنِی سَلْمَة؟“
اے بنی سلمہ تمھارا سید وسردار كون ھے؟
اسی طرح ابوھریرہ سے ایك روایت میں وارد هوا ھے:
”اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَم یَومَ القِیَامَةِ“
میں تمام اولاد آدم كا سید وسردار هوں۔
اسی طرح ایك دوسری روایت میں حضرت نے فرمایا:
”اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَعَلِیّ سَیِّدُ الْعَرَبْ“
میں تمام اولاد آدم كا سید وسردار هوں اور علی ںتمام عرب كے سید وسردار ھیں۔
ابو سعید خدری پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت كی ھے جس میں آپ نے فرمایا:
”اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ اَہْلِ الْجَنَّةِ“
حسن اور حسین جنت كے جوانوں كے سردار ھیں۔ اور اسی طرح دوسری روایتیں۔
اس كے بعد علامہ امین صاحب فرماتے ھیں كہ وہ روایات جن سے اس چیز كا وھم وگمان هوتا ھے كہ لفظ سید كو كسی غیر خدا پر اطلاق كرنا صحیح نھیں ھے ان روایات كا مقصد ”سید حقیقی“ ھے جیسا كہ ھم نے پھلے بھی بیان كیا ھے۔ 347
اس بات پر توجہ ركھنا ضروری ھے كہ اس حدیث”اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ اَہْلِ الْجَنَّةِ“ كو ابن تیمیہ نے نقل كیا ھے اور اس حدیث كے ذےل میں یہ بھی كھا كہ صحیح احادیث پیغمبر اكرممیں وارد هوا ھے كہ آپ نے امام حسن ں كے بارے میں فرمایا: ”اِنَّ ابْنِی ہَذَا سَیِّدٌ“348 (بے شك یہ میرا بیٹا سید و سردار ھے) اسی طرح شرح مناوی بر جامع صغیر سیوطی میں چند روایتیں نقل هوئیں ھیں جن میں غیر خدا پر سید كا لفظ استعمال هوا ھے، منجملہ یہ جملہ:
”سَیِّدُ الشُّہْدَاءِ عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ القِیَامَةِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبْ“
”جناب حمزہ بن عبد المطلب قیامت كے دن خدا كے نزدیك سید الشہداء ھیں“
اسی طرح یہ حدیث بھی بیان هوئی ھے:
”سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهم، وَسَیِّدُ النَّاسِ آدَمُ وَسَیِّدُ الْعَرَبِ مُحَمَّدٌ وَسَیِّدُ الرُّوْمِصُہَیْبٌ وَسَیِّدُ الْفُرْسِ سَلْمَانٌ وَسَیِّدُ الْحَبَشَةِ بَلاٰلٌ، وَسَیِّدُ الْجِبَالِ طُوْرِ سِیْنَا… وَسَیِّدَاتُ نِسَاءِ اَہْلِ الْجَنَّةِ اَرْبَع مَرْیَمْ وَفاَطِمَةُ وَخَدِیْجَةُ وَآسِیّة“349
(كسی قوم كا سردار اس كا خادم ھے، انسانوں كے سردار جناب آدم ںعربوں كے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اھل روم كے سردار صھیب، اھل فارس كے سردار جناب سلمان، افریقہ كے سردار جناب بلال، اور پھاڑوں كا سردار طور سینا، اور جنت میں عورتوں كی سردار چارھیں جناب مریم، جناب فاطمہ زھرا، جناب خدیجہ اور جناب آسیہ ھیں۔ )
اس سلسلہ میں دوسری بات یہ ھے كہ سعودی بادشاهوں كے لئے متعدد بار لفظ” مولای “ نثر ونظم دونوں میں استعمال هوا ھے منجملہ ”ام القریٰ“ نامی اخبار مطبوعہ مكہ 350 میں عبد العزیز كو كئی بار”مولای“ كھا گیا ھے اس قصیدہ كے ضمن میں جو عید قربان كے موقع پر تبریك وتہنیت پیش كرنے كے لئے كھا گیا جس میں دو مقام پر ”اَمولای“ (اے میرے مولا) كھا گیا ھے، اور وھاں كے اخباروں اور مجلوں میں یہ بات عام ھے۔
لیكن انبیاءعلیهم السلام، اولیاء اور صالحین كو اس طرح خطاب كرنا در حقیقت ان سے حاجت طلب كرنا نھیں ھے بلكہ ان سے یہ چاھتے ھیں كہ ان كی درخواست كو وہ حضرات خدا وندكریم سے طلب كریں، مثلاً جس وقت ان سے یہ كھا جاتا ھے كہ میری مدد كریں یعنی آپ خدا سے یہ چاھیں كہ وہ میری مدد كرے، اس طرح كی تفسیروں كو خود وھابی تسلیم كرتے ھیں، مثلاً ان آیات كے بارے میں جن میں خداوندعالم نے بھت سی مخلوقات كی قسم كھائی ھے كھتے ھیں ان مخلوق سے مراد ” مخلوقات كا خدا“ ھے نہ كہ خود وہ مخلوقات۔

8۔ قبور كے اوپر عمارت بنانا، وھاں پر نذر اورقربانی كرنا وغیرہ
شیخ عبد الرحمن آل شیخ كاكہناھے كہ احادیث پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ھر اس شخص كے لئے لعنت كی گئی ھے جو قبروں پر چراغ جلائے یا قبروں پر كوئی چیز لكھے یا ان كے اوپر كوئی عمارت بنائے۔ 351
حافظ وھبہ كا كہنا ھے كہ قبروں كے بارے میں چار چیزوں پر توجہ كرنا ضروری ھے:
1۔ قبروں پر عمارت وغیر ہ بنانا اوران كی زیارت كرنا۔
2۔ وہ اعمال جو بعض لوگ قبروں كے پاس انجام دیتے ھیں مثلاً دعا كرنا نماز پڑھنا وغیرہ۔
3۔ قبروں پر گنبد اور ان كے نزدیك مساجد بنانا۔
4۔ قبروں كی زیارت كے لئے سفر كرنا۔
قبروں كی زیارت، ان سے عبرت حاصل كرنا یا میت كے لئے دعا كرنا اور ان كے ذریعہ آخرت كی یاد كرنا، اگر سنت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے مطابق هو تو مستحب ھے، لیكن قبور كے لئے سجدہ كرنا یا ان كے لئے جانور ذبح كرنا یا ان سے استغاثہ كرنا شرك ھے، اسی طرح ان پر اور وھاں موجود عمارت پر رنگ وروغن كرنا یہ تمام چیزیں بدعت ھیں جن سے منع كیا گیاھے، اسی وجہ سے وھابیوں نے مكہ اور مدینہ میں موجود قبروں كی عمارتوں كو مسمار كردیا ھے، جیسا كہ ایك صدی پھلے (حافظ وھبہ كی كتاب لكھنے سے ایك صدی قبل جو تقریباً 140سال پھلے كا واقعہ ھے) مكہ او رمدینہ كی قبروں پر موجود تمام گنبدوںكو مسماركردیاگیا، اسی طرح حافظ صاحب كھتے ھیں كہ قبروں كی زیارت كے لئے سفر كرنا بھی بدعت ھے۔ 352
قبروں كے پاس اعتكاف كرنابھی شرك كے اسباب میں سے ھے بلكہ خود یہ كام شرك ھے،353 سب سے پھلے رافضی لوگ شرك اور قبور كی عبادت كے باعث هوئے ھیں، اور یھی وہ لوگ ھیں جنھوں نے سب سے پھلے قبروں كے اوپر مسجدیں بنانا شروع كی ھیں۔ 354
وھابیوں كے نزدیك نہ یہ كہ صرف قبور كی زیارتوں كے لئے سفر كرنا حرام ھے بلكہ یہ لوگصاحب قبر كے لئے فاتحہ پڑھنے كو بھی حرام جانتے ھیں، (اور جس وقت انھوں نے حجاز كو فتح كرلیا جس كی شرح بعد میں بیان هوگی)جب بھی كسی شخص كو قبروں پر فاتحہ پڑھتے دیكھتے تھے اس كو تازیانے لگاتے تھے، 1344ھ میں جس وقت حجاز پرتازہ تازہ غلبہ هوا تھا تو اس وقت سید احمد شریف سنوسی كو (جوكہ مشهورومعروف اسلامی شخصیت تھیں) حجاز سے باھر كردیا كیونكہ ان كو مكہ معظمہ میں جناب خدیجہ كی قبر پر كھڑے هوكرفاتحہ پڑھتے دیكھ لیا تھا۔ 355
اسی طرح وھابی حضرات ایك روایت كے مطابق قبروں پر چراغ اور شمع جلانے كو بھی جائز نھیں جانتے، اسی وجہ سے جس وقت سے انھوں نے مدینہ منورہ پر غلبہ پایا اس وقت سے روضہ نبویپر چراغ جلانے كو منع كردیا۔ 356
شیخ محمد بن عبد الوھاب كا كہنا ھے كہ جو شخص كسی غیر خدا سے مدد طلب كرے یا كسی غیر خدا كے لئے قربانی كرے یا اس طرح كے دوسرے كام انجام دے تو ایسا شخص كافر ھے۔ 357
اسی طرح اس نے قبروں پر چراغ جلانا وھاں پر نماز پڑھنا یا قربانی كرنا وغیرہ جیسے مسائل كو زمان جاھلیت كے مسائل میں شمار كیا ھے۔ 358
شیخ عبد الرحمن آل شیخ (شیخ محمد بن عبد الوھاب كا پوتا)كھتا ھے كہ مشرك لوگ جو نام بھی اپنے شرك كے اوپر ركھیں ،وہ بھر حال شرك ھے، مثلاً مُردوں كا پكارنے، یا ان كے لئے قربانی یا نذر كرنے كو محبت وتعظیم كانام دیں ،یا وہ نذر جو قبروں كے مجاروں اور خادموں كے لئے كی جاتی ھے یہ كام بھی ہندوستان كے بت خانوں كی طرح ھے، اسی طرح قبروں پر شمع جلانے كی نذر یا چراغ كے تیل كی نذر كرنا بھی باطل ھے مثلاً خلیل الرحمن ،دیگر انبیاء اوراولیاء اللہ كی قبروں پرشمع اورچراغ جلانے كی نذر كرنے كے باطل هونے میں كوئی شك وشبہ نھیں ھے، اور اس طرح كی شمع جلانا حرام ھے چاھے كوئی ان كی روشنائی سے فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے. 359

قبور كے اوپر عمارت بنانا، وھاں پر نذر اور قربانی كرنا وغیرہ كے بارے میں وضاحت
جیسا كہ معلوم ھے كہ صدر اسلام كے بعد سے قبروں كے اوپر عمارتیں بنانا اور قبروں پر تختی لكھ كر لگانا رائج تھا، چنانچہ علامہ امین ۺ اس سلسلہ میں كھتے ھیں كہ حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے جسد مبارك كو ایك حجرے میں دفن كیا گیا اور اگر قبركے اوپر عمارت كا وجود جائز نھیں تھا تو پھراصحاب رسول اور سلف صالح نے اس حجرے كو كیوں نہ گرایا ،جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر تھی،اور نہ صرف یہ كہ اس حجرے كو نھیں گرایا بلكہ چند بار اس حجرے كو دوبارہ تعمیر كیا گیا۔ 360
اسی طرح ھارون الرشید نے حضرت امیر الموٴمنین علی ں كی قبر مبارك پر گنبد بنوایا، اور ایسی ھی دوسری عمارتیں مختلف قبروں پر بنائی گئیں، اور كسی نے بھی اعتراض نہ كیاجن كا تذكرہ تاریخی كتب میں موجود ھے ۔
مجموعی طورپر قبروں گنبد وبارگاہ بنوانا تمام اسلامی فرقوں كی سیرت رھی ھے اور ابن تیمیہ اور اس كے مریدوں كے علاوہ كسی نے بھی اس كی مخالفت نھیں كی، خود ابن تیمیہ نے بھت سی قبروں كے گنبد كی طرف اشارہ كیا ھے جو اس كے زمانہ میں لوگوں كی نظر میں محترم او رمشخص تھے، مثلاً مدینہ منورہ میں وہ گنبد جوجناب عباس (پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے چچاكی قبر)پر تھا اس كے نیچے سات افراد یعنی، جناب عباس،امام حسن، علی ابن الحسین (امام زین العابدین)، ابو جعفر محمد ابن علی (امام باقر) اور جعفر بن محمد (امام صادق) علیهم السلام دفن ھیں، كھتے ھیں كہ فاطمہ زھرا = كی قبر بھی اسی گنبد كے نیچے ھے اور امام حسین ں كا سر بھی یھیں دفن هوا ھے۔ 361
ابن تیمیہ اور اس كے اصحاب كھتے ھیں كہ قبروں پر عمارت بنانے كی بدعت پانچویں صدی كے بعد پیدا هوئی ھے اور جس وقت بھی ان كو مسمار كرنے كا موقع آجائے اس كام میں ایك دن كی بھی تاخیر كرنا جائز نھیں ھے، كیونكہ یہ عمارتیں لات وعزّیٰ كی طرح ھیں بلكہ شرك كے لحاظ سے لات و عزّیٰ سے بھی كھیں زیادہ ھیں۔ 362
قبروں پر صاحب قبر كے نام كی تختی لگانا آج تك رائج ھے، كیونكہ ایسے شواہد موجود ھیں جن سے یہ ثابت هوتا ھے كہ سن ہجری كی ابتدائی صدیوں میں قبروں پر پتھر اور تختیاں لگائی جاتی تھیں۔
مثلاً مسعودی حضرت امام جعفر صادق ںكی وفات كا تذكرہ كرتے هوئے لكھتا ھے كہ آپ بقیع میں دفن ھیں جھاں آپ كے پدر بزرگوار اور جد امجد بھی دفن ھیں اور آپ كی قبر پر مرمر كا ایك پتھر ھے جس پر یہ عبارت لكھی ھے:
”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ مِبُیْدِ الاُمَمِ وَمُحْیِ الرَّمَمِ، ہَذَاقَبْرُفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللّٰہِ (ص) سَیِّدَةِ نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ، وَقَبْرُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ وَعَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ وَقَبْرُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ وَجَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَلَیْهم السَّلاٰمُ“363
ابن جبیر (چھٹی صدی ہجری كا مشهور ومعروف سیّاح)كھتا ھے كہ بقیع میں جناب فاطمہ بنت اسد كی قبر پر اس طرح لكھا هوا ھے:
”مَاضَمّ قَبْرُ اَحَدٍ كَفَاطِمَةَ بِنْتِ اَسَد رَضِی اللّٰہُ عَنْها وَعَنْ بَنِیْها“
(فاطمہ بنت اسد كی قبر كے مانند كسی دوسرے كو ایسی قبر نصیب نھیں هوئی)
اسی طرح وہ لكھتا ھے كہ جناب بلال (حضرت پیغمبراكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے موذن) كی قبر جو كہ دمشق میں واقع ھے، ان كی قبر پر جناب بلال كے نام كی تاریخ لكھی هوئی ھے اور ایك دوسری تاریخ لكھی هوئی ھے جس كی عبارت اس طرح سے ھے:
”ہَذَا قَبْرُ اَوْسِ بْنِ اَوْسِ الثَّقَفِیّ“
اور اسی طرح شہداء دمشق كی قبور پرقدیمی تاریخ لكھی هوئی ھے (ظاھراً اس كا مقصد تاریخ كا پتھر ھے) جس میں اس طرح لكھا هوا ھے:
”فِی ہَذَا الْمَوْضِع قَبْرُ جَمَاعَةٍ مِنَ الصَّحَابَةِ“
ان كے نام بھی لكھے هوئے ھیں۔ 364
اسی طرح سمهودی روایت كرتے ھیں كہ عقیل ابن ابی طالب نے گھر میں ایك كنواںكھودا، اس كے دوران اس میں سے ایك پتھر نكلا جس پر اس طرح لكھا هوا تھا: ”قَبْرُ اُمِّ حَبِیْبَةِ بِنْتِ صَخْرِ بْنِ حَرْبٍ“جب جناب عقیل نے اس پتھر كو دیكھا تو انھوں نے اس كنویں كو بند كردیا اور اس كے اوپر ایك عمارت بنادی اسی طرح ایك اور پتھر دریا فت هوا جس پر لكھا هوا تھا: ”اُمِّ سَلْمَةٍ زَوْجِ النَّبِیِّصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم “ اور ایك قول كے مطابق بقیع سے ایك پتھر نكلا جس كے اوپر اس طرح لكھا هوا تھا : ”ہَذَا قَبْرُ اُمِّ سَلْمَةٍ زَوْجِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم “365
سنن ابن ماجہ میں حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی یہ حدیث ”نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اَنْ یُكْتَبَ عَلَی الْقُبُوْرِ“ ذكر كرنے كے بعد اس طرح تحریر ھے كہ سِندی نے حاكم كا قول نقل كرتے هوئے كھا كہ اس نے اپنی كتاب مستدرك میں مذكورہ حدیث بیان كرنے كے بعد كھا كہ اس حدیث كی سند صحیح ھے لیكن اس پر عمل نھیں هو ا ھے اور تمام ائمہ كی قبور پر لكھا جاتا ھے اور یہ وہ كام ھے جس كو خلف (بعد والوں) نے سلف (اصحاب وتابعین) سے لیا ھے366 اور قبروں كے پتھروں پر لكھنے كے علاوہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے زمانہ كے بعد سے قبروںپر نشانی لگائی جاتی تھی جس طرح كہ خود پیغمبر اكرمنے عثمان بن مظعون كی قبر پر ایك پتھر كے عنوا ن سے نشانی لگایا۔ 367
اسی طرح پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراھیم كی قبر پر پانی چھڑكا اور ایك نشانی بنائی۔ 368
اب رھی بات كسی كے لئے گوسفند ذبح كرنا تو اس سلسلہ میں بھی علامہ امین ۺفرماتے ھیں كہ كسی غیر خدا كے لئے اس نیت سے قربانی یا نحر كرنا كہ اس قربانی سے غیر خدا كا تقرب حاصل هو369 اور قربانی كرتے وقت خدا كے نام كے بجائے غیر خدا كا نام لیا جائے اور اس غیر خدا كو خدا كی طرح قرار دیا جائے، تو یہ كام كفر اور شرك ھے، اور یہ اسی قسم كی قربانی ھے جس كو وھابیوں نے گمان كیا ھے كہ دوسرے اسلامی فرقے اسی كو انجام دےتے ھیں،جبكہ اس كا یہ گمان صحیح نھیں ھے اور حقیقت سے دور ھے، كیونكہ وہ قربانی جس كو مسلمان قبور كے نزدیك انجام دیتے ھیں وہ خدا كے لئے هوتی ھے اور اس قربانی كا قصد اس كے علاوہ كچھ اور نھیں هوتا كہ میں اس ذبح كو خدا كی خوشنودی كے لئے انجام دیتا هوں اور اس كے گوشت كو فقراء اور خدا كے بندوں پر تصدق كرونگا اور اس كا ثواب صاحب قبر كے لئے ہدیہ كروں گا، اور اس طریقہ پر كی جانے والی قربانی صحیح اور بھتر ھے اور یھی قربانی خدا كی اطاعت شمار هوگی، چاھے اس كا ثواب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا دیگر انبیاءعلیهم السلامیا اپنے ماں باپ یا كسی دوسرے كو ہدیہ كرے، كیونكہ قربانی سے كسی مسلمان كا قصد بت پرستوں كی طرح نھیں ھے كہ وہ لوگ قربانی كو تقرب كا وسیلہ جانتے ھیں۔
اور نذر كے سلسلہ میں جواب بھی بالكل اسی طرح ھے جس كا ھم نے ابھی ذكر كیا ھے۔
قبور كے پاس چراغ اور شمع جلانے كے مسئلہ میںعرض ھے كہ جن روایات كے ذریعہ وھابی یہ ثابت كرتے ھیں كہ قبور پر چراغ جلانا حرام ھے، پھلی بات تو یہ ھے كہ ان روایات كی سند ضعیف ھے، اور اگر بالفرض ان كی سند كو صحیح مان بھی لیں كہ تو اس كا جائز نہ هونا یا اس وجہ سے ھے كہ قبروں پر شمع جلانے میں كوئی فائدہ تصور نھیں كیا جاسكتا، لہٰذا گویا شمع جلانا یعنی مال كو ضایع كرنا ھے، یا ان روایات كا مقصد غیر انبیاء اور اولیاء اللہ كی قبروں پر شمع جلانے كی ممانعت ھے۔
لیكن قبروں پر قرآن یادعا پڑھنے والوں كے لئے یا زائرین كی سهولت كے لئے یا ان لوگوں كے لئے جو پوری پوری رات قبروں كے پاس رھتے ھیں تو ایسے موارد كے لئے شمع جلانا نہ مكروہ ھے اور نہ حرام، بلكہ نیك كام میں مدد كے عنوان سے ھے كیونكہ خداوندعالم نیكیوں میں مدد كرنے كا حكم دیتا ھے:” تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ“
دوسری بات یہ ھے كہ تِرمذی جناب ابن عباس سے نقل كرتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایك رات كسی قبر پرگئے تو آپ كے لئے وھاں چراغ روشن كیا گیا، اور عزیزی (شرح جامع صغیر) كے بقولقبروں پر چراغ جلانے كی ممانعت وھاں كے لئے ھے كہ جھاںكو ئی زندہ اس سے كوئی فائدہ اٹھانے والا نہ هو۔ 370
اس كی وضا حت كہ رافضیوں نے ھی قبور كی عبادت اور شرك كی ابتداء كی ھے اور قبروں پر مسجد كے بانی بھی یھی ھیں
افسوس كی بات تو یہ ھے كہ كبھی كبھی عقیدہ ،سلیقہ یا احادیث كے سمجھنے میں اختلاف ،تفرقہ، دشمنی اور تعصب كا سبب بن جاتا ھے اور اس صورت میںچا ھے مخالف كی دلیل كتنی ھی منطقی كیوں نہ هو، اس كو قبول نھیں كیا جاتا، اور جو كچھ بھی وہ كھے اس كو غلط تصور كیا جاتا ھے، جس وقت سے شیعہ مذھب بعض وجوھات كی بناپر بھت سے اسلامی فرقوں كی نظر اعتراض كا نشانہ قرار پایا ھے، (جیسا كہ ھم نے اس كتاب میں چند مرتبہ بیان بھی كیا ھے) شیعوں كے معمولی سے كام كو بھی الٹا پیش كیا جا تاھے، اور اس كے علاوہ مختلف تھمتیں لگانے میں بھی كوئی كمی نھیں كی جا تی۔
منجملہ زیارت كا مسئلہ جس پر ابن تیمیہ اور وھابیوں نے نامعلوم كتنے اعتراضات كر ڈالے، جبكہ قبور كی زیارت مختلف اسلامی فرقے انجام دیتے آئے ھیں اور انجام دے رھے ھیں، اور مذاھب اربعہ كے بزرگوں كی بھت سی قبروں كا دوسری صدی كے بعد سے عام وخاص كی طرف سے احترام كیا جارھاھے اور ان كی زیارت هوتی آئی ھے۔
ھاں تك كہ آج بھی مسجد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں آنحضرت كے روضہ مطھر اور ضریح كے سامنے بھت سے لوگ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ابوبكر وعمر كی زیارت پڑھتے ھیں اور ان زیارتوں كے وھی جملے ھیں جن كو شیعہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ كی ضریحوں كے پاس پڑھتے ھیں، عجیب بات ھے كہ یھی كام اگر دوسرے اسلامی فرقے انجام دیں تو ان پر اعتراض نھیں هوتا لیكن اگر یھی كام ھم انجام دیں تو كیونكہ شیعہ ھیں اس وجہ سے زیارت كو عبادت كہہ دیا جاتا ھے، اور اس زیارت كا كرنے والا مشرك كھلاتا ھے، معلوم نھیںشیعہ زیارتوں میں كیا كھتے ھیں جو دوسرے نھیں كھتے، یا كیا نھیں كھتے جو دوسرے كھتے ھیں۔ 371 اب رھی یہ بات كہ شیعہ حضرات نے ھی قبروں كی عبادت اور شرك كی بنیاد ڈالی ھے، اور قبروں پر مساجد بنانا شروع كی ھیں، جیسا كہ یہ بات شیخ عبد الرحمن محمد بن عبد الوھاب كے پوتے سے نقل هوئی ھے، موصوف فتح المجید كے حاشیے میں اس طرح كھتے ھیں كہ عبیدیوں (جو خود كو جھوٹ موٹ فاطمی كھتے ھیں) نے ھی سب سے پھلے قبروں كے پاس مسجدیں بنانا شروع كی، جیسا كہ قاھرہ شھر میں امام حسینںكے لئے ایك عظیم گنبد، عمارت اور اس كے برابر میں ایك عظیم الشان مسجد بنائی۔
مذكورہ مطلب كے بارے میں اس بات كی طرف اشارہ كرنا ضروری ھے كہ قبور كی زیارت، اسی طرح قبروں پر عمارت یا گنبد بنانا، یہ كام شیعوں سے مخصوص نھیں ھے بلكہ شروع ھی سے اسلامی فرقے اپنے بزرگوں كی قبروں پر بھترین عمارتیں بنایا كرتے تھے ان كے لئے بھت سی چیزیں وقف بھی كیا كرتے تھے اور ان كی زیارت كے لئے بھی جایا كرتے تھے اب بھی یہ سلسلہ جاری وساری ھے۔
بغداد میں ابوحنیفہ كی قبر پر ایك قدیمی بڑا اور سفید گنبد اب بھی موجود ھے، جس كی ابن جُبیر نے توصیف بھی كی ھے،372 اور آج بھی ابو حنیفہ كی قبر كا گنبدبھت خوبصورت ھے جس كی دور اور نزدیك سے ہزاروں لوگ زیارت كے لئے جاتے ھیں، اسی طرح احمد ابن حنبل كی قبر 373 اوربغداد میں شیخ عبد القادر جیلانی كی قبر، اسی طرح مصر كے قرافہ شھر میں امام شافعی كی قبرمذاھب اربعہ كے بزرگوں كی بھت سی قبریں مختلف اسلامی ملكوں میں زیارتگاھیں بنی هوئی ھیں۔
نجد اور حجاز میں وھابیوں كے غلبہ سے پھلے بھی بھت سے گنبداور عمارتیں موجود تھیں جن كی زیارت كے لئے لوگ جایا كرتے تھے اور ان كے اوپر بھت زیادہ عقیدہ ركھتے تھے، لہٰذا یہ دعویٰ كرنا كہ قبروں كی زیارت كی ابتداء كرنے والے شیعہ ھیں باطل اور بے بنیاد ھے۔
اسی طرح قبروں پر اور ان كے اطراف میں عمارتیں بنانا بھی شیعوں سے مخصوص نھیں ھے، بلكہ شروع ھی سے یہ كام مختلف اسلامی فرقوں سے چلا آرھا ھے، اور قبروں پر عمارتوں كا رواج تھا:
ابن خلكان كھتا ھے:459ھ میں شرف الملك ابو سعد خوارزمی ،ملك شاہ سلجوقی كے مستوفی (حساب دار) نے ابو حنیفہ كی قبر پر ایك گنبد بنوایا، اور اس كے برابر میں حنفیوں كے لئے ایك مدرسہ بھی بنوایا، ظاھراً ابو سعد نے مذكورہ عمارت ”آلُپ ارسلان سلجوقی“ كی طرف سے بنوائی ھے374
اسی طرح ”ابن عبد البِرّ“ (متوفی463ھ)كی تحریر كے مطابق، جناب ابو ایوب انصاری كی قبر قسطنطیہ (اسلامبول) كی دیوار كے باھر ظا ھرھے اور لوگوں كی تعظیم كا مر كزھے اور جب بارش نھیں هوتی تو وھاں كے مسلمان ان سے متوسل هوتے ھیں۔ 375
ابن الجوزی389ھ كے واقعات كو قلمبند كرتے هوئے كھتا ھے كہ اھل سنت مُصعب بن الزبیر كی قبر كی زیارت كے لئے جاتے ھیں جس طرح شیعہ حضرات امام حسین ں كی قبر كی زیارت كے لئے جاتے ھیں۔ 376
ابن جُبیر، چھٹی صدی كا مشهور ومعروف سیاح اس طرح كھتا ھے كہ مالكی فرقہ كے امام، امام مالك كی قبر قبرستان بقیع میں ھے، جس كی مختصر سی عمارت اور چھوٹا ساگنبد ھے اور اس كے سامنے جناب ابراھیم فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر ھے جس پر سفید رنگ كا گنبد ھے۔ 377
مذاھب اربعہ كے بزرگوں كی قبروں پر گنبدهونا، ان پر عمارتیں بنانا،ان كے لئے نذر كرنا، وھاں پر اعتكاف كرنا ،ان سے توسل كرنا ،صاحب قبر كی تعظیم وتكریم كرنا او روھاں دعا كے قبول هونے كا اعتقاد ركھنا بھت سی تاریخی كتابوں میں موجود ھے اور اس وقت بھی قاھرہ، دمشق اور بغداد اور دوسرے اسلامی علاقوں میں ان كے بھت سے نمونے اور قبروں پر مراسم هوتے ھیں جنھیںآج بھی دیكھاجاسكتا ھے۔
لیكن یہ كہنا كہ شیعوں نے سب سے پھلے قبروں پرمسجدیں بنائی ھیں، یعنی قبروں كو مسجد قرار دیا ھے تو اس سلسلہ میں چند چیزوں كی طرف اشارہ كرنا ضروری ھے:
1۔ شیعہ عقیدہ كے مطابق قبرستان میں نماز پڑھنا مكروہ ھے لہٰذا مقبروں كو مسجد كے حكم میں جاننا ان كے عقیدوں كے مطابق نھیں ھے، (جبكہ ھم نے ابن تیمیہ كے عقائد میں اس بات كو بیان كیا ھے كہ امام مالك مقبروں میں نماز كو جائز جانتے تھے اور ابوحنیفہ اور دوسرے لوگ قبرستان میں نماز پڑھنے كو مكروہ جانتے تھے)
2۔ شیعہ حضرات جو مسجدیں قبروں كے پاس بناتے ھیں وہ مقبروں سے كچھ فاصلہ پر اور مقبروں سے جدا هوتی ھیں، وہ مسجد راٴس الحسینںجس پر بعض حضرات خصوصاً صاحب فتح المجید، شدت سے اعتراضات كرتے ھیں مقبرہ سے بالكل جدا ھے اور صرف مقبرہ كے ایك در سے مسجد میں وارد هوا جاسكتا ھے، یعنی نماز پڑھنے كی جگہ جدا ھے اور زیارت گاہ جدا ھے، خلاصہ یہ كہ جو مسجدیں شیعوں نے مقبروں كے پاس بنائی ھیں ان كا فاصلہ مسجد النبوی اور قبر پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے فاصلے سے زیادہ ھے۔
3۔ قبروں كے پاس مسجدیں بنانا شیعوں سے مخصوص نھیں ھے بلكہ مختلف فرقے قدیم زمانہ سے قبروں كے پاس مسجدیں بناتے آئے ھیں، منجملہ ابن جوزی كی تحریر كے مطابق (محرم386ھ كے واقعات كے ضمن میں) اھل بصرہ نے یہ دعویٰ كیا كہ ایك تازہ مردہ (ان كے عقیدے كے مطابق زُبیر بن العَوّام) كو قبر سے نكالا اور اس كے بعد اس كو كفن پہنایا اور زمین میں دفن كردیا، اور ابوالمِسك نے اس كی قبر پر ایك عمارت بنائی اور اس كو مسجد قرار دیدیا۔ 378 اسی طرح بصرہ میں بھی طلحہ (جو كہ جنگ جمل میں قتل هوئے) كی قبر پر ایك گنبد بنایااور اس كے پاس ایك مسجد اورعبادتگاہ بھی بنائی گئی۔ 379
لیكن یہ كہنا كہ سب سے پھلے فا طمیوں نے قبر كے پاس (راٴس الحسینں) مسجد بنائی اس سلسلہ میں بھی دو چیزوں كی طرف توجہ كرنا ضروری ھے:
1۔ مَقریزی كی تحریر كے مطابق، حضرت امام حسینںكا سر عسقلان سے شام لانا 8جمادی الآخر548ھ بروز یكشنبہ ھے اور وھاں پر عمارت كا بننا549ھ میں تھا۔ 380
اور یہ بات طے ھے كہ اس زمانہ میں فاطمی ختم هوتے جارھے تھے اور اس وقت كی باگ ڈور ان كے وزیروں كے ھاتھوں میں تھی اور اس زمانہ كا صاحب اقتداروزیر ”طلایع بن رُزّیك “ معروف تھا كہ خلیفہ وقت اس كی قید میں اسیر تھا، اور ان دونوں كے درمیان اس قدر جنگ وجدال تھی كہ خلیفہ طلایع كو قتل كرنے كے مختلف پروگرام بناتا رھا یھاں تك كہ ایك پروگرام كے تحت اس كو قتل كردیا۔ 381
اور یہ طلایع وھی ھے جو حضرت امام حسین ںكا سر قاھر ہ لے كر آیا اور موجودہ جگہ لاكر دفن كیا۔ 382
2۔ لیكن جومسجد ”راس الحسین ںسے متصل ھے وہ كسی بھی وقت فا طمیوں سے مربوط نھیں رھی بلكہ سلسلہ فاطمی كے خا تمہ كے بر سوں بعد اور صلاح الدین ایوبی جو سادات كو نیست و نابود كرنے والا تھا اسی كے زمانہ میں اس كے وزیر قاضی فاضل عبد الرحیم (متوفی596ھ) كے ھا تھوں بنائی گئی اورمسجد كے برابر میں ایك وضو خانہ بنایا اور ایك سقاخانہ بھی بنوایا، اور بھت سی چیزوں كو وقف كیا۔ 383

9۔ قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت
اس سے قبل ابن تیمیہ كے عقائد میں بیان هوچكا ھے كہ وہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے بارے میں كھتا ھے كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے مستحب هونے كے بارے میں كوئی حدیث وارد نھیں هوئی ھے، اور زیارت كے بارے میں جو احادیث وارد هوئی ھیں وہ سب غیر صحیح اور جعلی ھیں، اور اگر كوئی یہ عقیدہ ركھے كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا وجود ان كی زندگی كی طرح ان كی وفات كے بعد بھی ھے تو گویا اس نے بھت بڑی غلطی كی ھے۔
چنانچہ وھابی حضرات بھی اسی طرح كا عقیدہ ركھتے ھیں بلكہ ابن تیمیہ سے بھی ایك قدمآگے ھیں۔
خلاصہ یہ كہ وھابیوں كے یھاں زیارت نام كا كوئی عمل نھیں ھے، چنانچہ اسی نظریہ كے تحت تمام قبریں مسمار كردی گئیں اور روضہ رسول كو بھی اس كی حالت پر چھوڑ دیا گیا، اور اس وقت اس طرح ھے كہ كوئی بھی آپ كی قبر مطھر كے نزدیك نھیں هوسكتا ھے اور آپ كی قبر مطھر ھر گز دكھا ئی نھیں دیتی ۔
روضہ منورہ كے چاروں طرف دیوار ھے اور ھر طرف ایك حصے میں جالی لگی هوئی ھے اور ان جالیوں كے پاس وھاں كے شرطے (محافظ) كھڑے رھتے ھیں او راگر كوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے روضہ كی جالی كے نزدیك هونا یا ھاتھ لگانا چاھتا ھے تو وہ روك دیتے ھیں، اور اگر كوئی شرطوں كی غفلت كی وجہ سے جالیوں كے اندر سے جھانك كر دیكھتا بھی ھے تو پھلے تو وھاں تاریكی نظر آتی ھے اور جب اس كی آنكھیں كام كرنا شروع كرتی ھیں تواندر دكھائی دیتا ھے كہ ایك ضخیم پردہ ھے جو قبر كے چاروں طرف زمین سے چھت تك موجود ھے لہٰذا قبر مطھر كو بالكل دیكھا نھیں جاسكتا۔
ابن تیمیہ اور اس كے پیرو كاروں كا عقیدہ ھے كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كرنا حرام ھے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم او ردوسروںكی قبر میں فرق كے قائل هونے كے بارے میں ابن تیمیہ كے عقائد كی بحث میں تفصیل سے بیان هوچكا ھے لہٰذا تكرار كی ضرورت نھیں ھے۔
مرقد مطھر حضرت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے استحباب كے بارے میں وضاحت
ھاں پر ان چند حدیثوں كو بیان كرنا ضروری ھے جو قبر پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے مستحب هونے پر دلالت كرتی ھیں اور وہ احادیث بھی جو دلالت كرتی ھیں كہ جو لوگ حضرت كو سلام كرتے ھیںآنحضرت ان كے سلام كا جواب دیتے ھیں، تاكہ معلوم هوجائے كہ ابن تیمیہ اور اس كے پیروكاروں كا حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت سے متعلق عقیدہ ان تمام احادیث كے مخالف ھے جو خود اھل سنت كے طریقوں سے بیان هوئی ھیں۔
تقی الدین سُبكی (متوفی756ھ) نے كتاب ”شفاء السُقام فی زیارة خیر الانام “كے باب اول میں تقریباً پندرہ حدیثیں زیارت قبر پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے بارے میںبیان كی ھیں، مثلاً:
1۔ ”مَنْ زَارَنِی مُتَعَمِّداً كَانَ فِیْ جَوَارِیْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ“
(جو شخص اپنے ارادے اور قصد سے میری زیارت كرے، ایسا شخص روز قیامت میرا پڑوسی اور میری پناہ میں هوگا)
2۔ ”مَا مِنْ اَحَدٍ مِنْ اُمَّتِی لَہُ سَعَةٌ ثُمَّ لَمْ یَزُرْنِی فَلَیْسَ لَہُ عُذْرٌ“
(جو شخص قدرت ركھتے هوئے بھی میری زیارت نہ كرے تو اس كا كوئی عذر بھی قابل قبول نھیں ھے۔ ) 384
اسی طرح جناب نور الدین سَمُهودی نے اپنی معروف كتاب ”وفاء الوفاء باخبار المصطفیٰ میں پیغمبر اكرمكی زیارت سے مربوط فصل میں تقریباً 17 حدیثیں بیان كی ھیں منجملہ ان كی دار قطنی اور بیہقی سے ابن عمر كی پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حدیث كہ آپ نے فرمایا:
3۔ ”مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَہُ شَفَاعَتِیْ“
(جس شخص نے میری قبر كی زیارت كی مجھ پراس كی شفاعت واجب ھے)
سمهودی نے مذكورہ حدیث كی مختلف اسناد بیان كی ھیں۔
اسی طرح ایك دوسری حدیث جس كو بزّازنے عبد اللہ بن ابراھیم غفاری سے اور انھوں نے عبداللہ ابن عمر سے اور انھوں نے رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل كیاھے :
4۔ ”مَنْ زَارَ قَبْرِیْ حَلَّتْ لَہُ شَفَاعَتِی“
(جس شخص نے میری قبر كی زیارت كی تو اس پرمیری شفاعت جائز ھے)
اسی طرح ابن عمر سے طبرانی كی روایت كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
5۔ ”مَنْ جَاءَ نِی زَائِراً لاٰ تَحْمِلُہُ حَاجَةٌ اِلاّٰ زِیَارَتِی كَانَ حَقّاً عَلَیَّ اَنْ اَكُوْنَ لَہُ شَفِیْعاً یَوْمَ الْقِیَامَةِ“
(جو شخص میری زیارت كے لئے آئے او ركوئی دوسری غرض نہ ركھتا هو، تو مجھ پر روز قیامت اس كی شفاعت كرنا واجب ھے)
اسی طرح دار قطنی اور طبرانی ابن عمر سے روایت كرتے ھیں كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
6۔ ”مَنْ حَجَّ فَزَارَ قَبْرِیْ بَعْدَ وَفَاتِیْ كَانَ كَمَنْ زَارَنِیْ فِی حَیَاتِیْ“
(جو شخص میری وفات كے بعد حج كرے اور اس كے بعد میری زیارت كرے تو گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت كی ھے)
اسی طرح ابن عدی ابن عمر كے ذریعہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی یہ حدیث نقل كرتے ھیں :
7۔ ”مَنْ حَجَّ الْبَیْتَ وَلَمْ یَزُرْنِی فَقَدْ جَفَانی “
(جو شخص حج بجالایا اور میریزیارت كے لئے نھیں آیا تو بتحقیق اس نے مجھ پر جفا كی)
اسی طرح دار قطنی نے حاطب سے روایت كی ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
8۔ ”مَنْ زَارَنِیْ بَعْدَ مَوْتِیْ فَكَانَّمَا زَارَنِی فِیْ حَیَاتِی“
(جس نے میری وفات كے بعد میری زیارت كی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت كی)
اسی طرح ابو الفتوح سعید بن محمد الیعقوبی نے ابوھریرہ سے روایت كی ھے كہ آنحضرت نے فرمایا :
9۔ ”مَنْ زَارَنِیْ بَعْدَ مَوْتِی فَكَاَنَّمَا زَارَنِی وَاَنَا حَیٌّ وَمَنْ زَارَنِی كُنْتُ لَہُ شَہِیْداً اَوْ شَفِیْعاً یَوْمَ الْقِیَامَةِ“
(جس شخص نے میری وفات كے بعد میری زیارت كی، گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت كی، اور جس شخص نے میری زیارت كی میں روز قیامت اس كا گواہ یا اس كا شفیع بنوں گا)
اسی طرح ابن ابی الدنیا نے انس بن مالك سے روایت كی ھے كہ رسول اللہ نے فرمایا:
10۔ ” مَنْ زَارَنِیْ بِالْمَدِیْنَةِ كُنْتُ لَہُ شَہِیْداً وَ شَفِیْعاً یَوْمَ الْقِیَامَة“385
(جو شخص مدینہ میں میری زیارت كرے، روز قیامت میں اس كا گواہ اور شفیع هونگا)
11۔ ” مَنْ زَارَنِیْ بِالْمَدِیْنَةِ مُحْتَسِباً كُنْتُ لَہُ شَہِیْداً وَ شَفِیْعاً یَوْمَ الْقِیَامَة“386
(جو شخص ثواب كی خاطر مدینہ میں میری زیارت كرے تو روز قیامت میں اس كے نیك عمل كی شھادت او رگواھی دوں گا اور اس كی شفاعت كروں گا)
نیز اسی طرح وہ دوسری روایتیں جن كو سمهودی نے حضرت امیر المومنین اور ابن عباس اور بكر بن عبد اللہ سے نقل كیا ھے۔
صاحب كتاب” عمدة الاخبار“ وھابیوں كی معتبر كتابوں سے نقل كرتے ھیں كہ سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت ان نیكیوں میں سے ھے كہ اگر كوئی فطرت سلیم ركھتا هو، اس میں شك نھیں كرسكتا، وہ بھی پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت جن كیعظمت اور بزرگیقرآن مجید میں چند مرتبہ بیان كی ھے۔
اور اس كے بعد موصوف نے قرآن مجید كی وہ آیات ذكر كی ھیں جن میں آنحضرت كی عظمت بیان كی گئی اور اسی طرح چند وہ احادیث بھی بیان كی ھیںجو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مربوط تھیں اور اس كے بعد كھتے ھیں:
وہ دلیلیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر شریف كی زیارت كے جائز هونے پر دلالت كرتی ھیں بھت زیادہ ھیں، جیساكہ ھم نے بعض كی طرف اشارہ كیا اور ابوھریرہ سے مروی ھے كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
” قبروں كی زیارت كیا كرو، كیونكہ قبروں كی زیارت تمھیں آخرت كی یاد دلاتی ھے“۔
فضیلت زیارت قبور كی بحث كرتے هوئے موصوف كھتے ھیں كہ صالحین كے برابر میں دفن هونا مستحب ھے ۔
اسی طرح شب میں قبروں كی زیارت مستحب ھے، كیونكہ جناب مُسلِم نے جناب عائشہ سے روایت كی ھے كہ حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رات كے وقت قبرستان بقیع میں جایا كرتے تھے۔ 387
آنحضرت كی وفات كے بعد آپ پر سلام بھیجنے كے بارے میں ابو داؤدصحیح سند كے ساتھ ابوھریرہ سے روایت كی ھے كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”مَا مِنْ اَحَدٍ یُسَلِّمُ عَلَیَّ اِلاّٰ رَدَّ اللّٰہُ رُوْحِی حَتّٰی اَرِدَ عَلَیْہِ السَّلاٰمَ“
(اگر كو ئی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ھے،تو خداوندعالم میری روح پلٹا دیتا ھے تاكہ میں سلام كرنے والوں كو سلام كا جواب دوں) 388
مُنذری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی وفات كے بعد آپ كے علم كے بارے میں روایت كی ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”عِلْمِیْ بَعْدَ وَفَاتِی كَعِلْمِیْ فِی حَیَاتِیْ “
(میرا علم میری وفات كے بعد بھی ایسا ھی ھے جیسا میری زندگی میں ھے)
بیہقی كھتے ھیں كہ انبیاءعلیهم السلامكی وفات كے بعد ان كی حیات كے ثبوت پر بھی بھت سی صحیح روایات موجود ھیں۔ 389

10۔ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی عظمت
آلوسی، اگرچہ وھابیوں كی بھت زیادہ حمایت كرنے والے اور طرفدار ھیں، لیكن انھوں نے حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی عظمت كے سلسلہ میں تفصیل سے گفتگو كی ھے، چنانچہ موصوف فرماتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی عظمت دوسرے تمام لوگوں سے مطلق طور پر بلند و بالاھے اور یہ كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی قبر میں بھی زندہ ھیں، اور جو شخص بھی حضرت كو سلام كرتا ھے آنحضرت اس كے سلام كو سنتے ھیں، اور آپ كی وفات كے بعد كی زندگی شہداء كی زندگی سے روشن ترھے كیونكہ خداوندعالم قرآن مجید میں ان كی بھترین زندگی كے بار ے میں ارشاد فرماتا ھے:
< وَلاٰ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهم یُرْزَقُوْنَ>390
” اور خبر دار راہ خدا میں قتل هونے والوں كو مردہ خیال نہ كرو، وہ زندہ ھیں اور اپنے پرور دگار كے یھاں سے رزق پارھے ھیں“۔
اگرچہ ابن تیمیہ اپنے فتووں كے ضمن میں كھتے ھیں كہ قبر میں مردے بھی گفتگو كرتے ھیں اور دوسروں كی باتوں كو سنتے ھیں اور قبر میں ا ن سے سوال وجواب بھی هوتےھیں۔ 391 لیكن اس كے باوجود جیسا كہ ھم نے ان كی كتاب ”الرد علی الاخنائی“سے یہ بات نقل كی تھی كہ وہ زیارت سے متعلق تمام حدیثوں كو جعلی اور ضعیف بتاتے ھیں، یھی نھیں بلكہ اس كے ساتھ ساتھ یہ بھی كھا كہ اگر كوئی یہ اعتقاد ركھے كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی وفات كے بعد ان كا وجود ان كی زندگی كے مثل ھے تو اس نے بھت بڑی غلطی كا ارتكاب كیا ھے۔ اور اسی كے مثل بلكہ اس سے زیادہ سخت بات محمد بن عبد الوھاب اور اس كے پیروكاروں نے كھی، لہٰذا یھاں پر یہ بات كھی جاسكتی ھے كہ آلوسی صاحب كا نظریہ ابن تیمیہ اور اس كے پیروكاروں كے نظریہ كے مخالف ھے۔
حافظ وھبہ صاحب وھابیوں كے عقائد كے بارے میں ان كی طرف سے دفاع كرتے هوئے آنحضرت كی عظمت كے بارے میںكھتے ھیں، كہ شیخ محمد بن عبد الوھاب اور اس كے تابع افراد كی طرف نسبت دی گئی كہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی طرف كراھت كی نگاہ سے دیكھتے تھے اور آپ كی اور دیگر انبیاء كی عظمت گھٹاتے رھتے تھے، جس طرح كہ یہ نسبت ابن تیمیہ اور اس كے تابع افراد كی طرف بھی دی گئی ھے، اس نسبت كی وجہ یہ ھے كہ اھل نجد (وھابی) اس حدیث رسول پر اعتقاد ركھتے ھیں كہ آپ نے فرمایا:
”لاٰ تَشُدُّوْا الرِّحَالَ اِلاّٰ اِلٰی ثَلاَثةَ مَسَاجِدَ، اَلْمَسْجِدُ الْحَرَامُ وَمَسْجِدِیْ ہَذَا، وَالْمَسْجِدُ الاَ قْصیٰ“
عنی تین مسجدوں كے علاوہ سفر كرنا جائز نھیں : مسجد الحرام خانہ كعبہ، مسجد النبی، اور مسجد الاقصی بیت المقدس۔
اسی حدیث كی بناپروہ انبیاءعلیهم السلاماور صالحین كی قبور كی زیارت كو بدعت كھتے ھیں اور كسی بھی صحابی اور تابعین نے یہ كام انجام نھیں دیا، او رپیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی اس كام كا حكم نھیں دیا ھے۔
اسی طرح اھل نجد (وھابی حضرات)نے قبر پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دوسروں كی قبروں كے سامنے دعا كرنے، یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی یا دوسروں كی قبر كے پاس سجدہ كرنے، ان كی قبروں پر ھاتھ پھیرنے، او راپنے اوپر قبر كے اطراف كی مٹی ملنے، خلاصہ یہ كہ ھر اس كام كو جس میں استغاثہ كی بو آتی هو، ممنوع قرار دیدیا۔
تیسری بات یہ ھے كہ وہ قبروں كے اوپر بنے گنبدوں كے مسمار كرنے كا فتویٰ دیتے ھیں اور ان كے نزدیك قبر كے لئے كوئی چیز وقف كرنا بھی باطل ھے۔
چوتھے یہ كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی شان میں بُوصِیری كے ” قصیدہٴ بردہ“ پر اعتراض كرتے ھیں اور اس كا انكار كرتے ھیں، مثلاً یہ شعر:
”یَا اَكْرَمَ الْخَلْقِ مَالِی مَنْ اَلُوذُبِہِ سِوَاكَ عِنْدَ حُلُوْلِ الْحَادِثِ الْعَمَمِ“
(اے مخلوق خدا میں سب سے كریم، میں بڑی اور عظیم مشكلات كے وقت آپ كی پناہ گاہ كے علاوہ كوئی پناگاہ نھیں ركھتا)
اسی طرح یہ مصرع: ” وَمِنْ عُلُوْمِكَ عِلْمُ اللَّوْحِ وَالْقَلِمِ“
(اے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ كے علوم میں سے، علم لوح وقلم بھی ھے)

اور یہ شعر:
”اِنْ لَمْ تَكُنْ فِیْ مَعَادِیْ آخِذاً بِیَدِیْ فَضْلاً وَاِلاّٰ فَقُلْ یَا زَلَّةَ الْقَدَمِ “392
(اگر آپ نے روز قیامت اپنے فضل وكرم سے میراھاتھ نہ تھاما تو میرے پاوٴں لڑكھڑائیں گے۔ )
كیونكہ یہ باتیں غلو اور بے هودہ ھیں جو قرآن اور احادیث صحیح كے خلاف ھیں، حافظ وھبہ اس كے بعد اس طرح كھتے ھیں كہ وھابیوں كا یہ بھی اعتقاد ھے كہ ان باتوں پر اعتقاد ركھنے والا شخص مشرك اور كافر ھے۔
یہ تھیں وہ چند چیزیں جن كی وجہ سے وھابیوں كے دشمنوں نے ا ن پر یہ تھمت لگائی كہ یہ لوگ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كو كراھت كی نگاہ سے دیكھتے ھیں، اسی طرح دوسری نسبتیں بھی دیں مثلاً وھابی یہ كھتے ھیں كہ ھمارا عصا پیغمبر سے بھتر ھے۔
حافظ وھبہ مذكورہ بحث كو آگے بڑھاتے هوئے كھتے ھیںكہ حقیقت یہ ھے كہ اھل نجد (وھابی حضرات) سب سے زیادہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت كرتے ھیں لیكن غلو كو برا سمجھتے ھیں اور ھر طرح كی بدعت سے مقابلہ كرتے ھیں، اور كھتے ھیں كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت یہ ھے كہ انسان آپ كی بتائی هوئی ہدایتوں اور راہنمائیوں پر عمل كرے، لیكن بدعتوں كا انجام دینا اور دینی امور كوترك كرنا یا هوا وهوس كا پیچھا كرنا پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دین اسلام كی توھین ھے نہ یہ كہ اس كو پیغمبراكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت كا نام دیا جائے۔ 393
گویا حافظ وھبہ جیسے مشهور ومعروف اور جھاندیدہ شخص بعض افراطی اور متعصب وھابیوں كے غیر منطقی اور ناپسند عقائد كا دفاع كرنا چاھتے ھیں اور ان كو اس طرح بیان كرتے ھیں تاكہ سامنے والا ان كو اچھا سمجھے، اور لوگوں كو یہ بتائے كہ وھابیوں كی طرف یہ نسبتیں ان كے دشمنوں كی طرف سے دی گئی ھیں۔

11۔ سَلف صالح كے بارے میں وھابیوں كا عقیدہ
سلطان عبد العزیز بن سعود ،كا بادشاہ هونے كے ساتھ ساتھ اس وقت كے وھابی علماء میں بھی شمار هوتا تھا، چنانچہ مكہ معظمہ میں اس نے ذی الحجہ 1362ھ میں لوگوں كے سامنے ایك مفصل تقریر كی جس میں كھا كہ حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا كہ بھت جلد ھی میری امت كے 73 فرقے هوجائیں گے اور ایك فرقہ كے علاوہ سب جہنمی هونگے، تو اس پر اصحاب نے سوال كیا وہ فرقہ كونسا ھے؟تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب میں فرمایا: وہ لوگ جو میرے اور میرے اصحاب كے راستہ پر چلیں گے“ اس كے بعد ابن سعود كھتے ھیں كہ خداوندعالم نے اپنے دین كی خلفائے اربعہ اور دوسرے سلف صالح كے ذریعہ تائید كی ھے۔ 394
وھابی حضرات، خلفائے اربعہ كے بارے میں یہ عقیدہ ركھتے ھیں كہ یہ حضرات سلف صالح كے منتخب افراد ھیں، اور ان كی فضیلت بھی خلافت كی ترتیب كے لحاظ سے ھے (یعنی سب سے افضل ابوبكر ان كے بعد عمر…) او رخلفاء اربعہ كے بعد ”عشرہ مبشرہ“395 كے باقی لوگ افضل ھیں،اور ان كے بعد اھل بدر (جنگ بدر میں شركت كرنے والے حضرات) اور ان كے بعد ”اھل بیعت شجرہ“396 افضل ھیں۔
تعجب كی بات تو یہ ھے كہ وھابی حضرات جس طرح كے فضائل اور مناقب حضرت علی ں كے بارے میں بیان كرتے ھیں كسی ایك صحابی حتیٰ خلیفہ اول كے بارے میں بھی بیان نھیں كرتے۔ 397
محمد بن عبد الوھاب نے، اپنی كتاب توحید میں كسی صحابی یا خلیفہ كے لئے كوئی منقبت بیان نھیں كی مگر یہ كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ خیبر میں حضرت علی ں كے لئے فرمایا تھا:
”كل میں علم اس كو دوںگا جو خدا ورسول كو دوست ركھتا هوگا او رخدا ورسول بھی اس كو دوست ركھتے هونگے، اور خداوندعالم نے فتح خیبر كو بھی اس سے مخصوص قرار دیا ھے“۔398
اس حدیث كو ابن تیمیہ نے بھی ذكر كیا ھے، 399 اور موصوف یہ بھی كھتے ھیں كہ یہ حدیث پیغمبر حضرت علیںكے ظاھری اور باطنی ایمان پر شھادت دیتی ھے اور اسی طرح اس سے خدا ورسول سے آپ كی دوستی ثابت هوتی ھے اور مومنین پر واجب ھے كہ حضرت علیںكو دوست ركھیں۔ 400

12۔ اھل بیت پیغمبر علیهم السلام كے بارے میں
ابن تیمیہ اپنے فتووں میں كھتے ھیں كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی چادر علی، فاطمہ حسن، اور حسینعلیهم السلامپر اڑھائی او رفرمایا:
”اَللّٰهم ہٰوٴُلاٰءِ اَہْلُ بَیْتِی فَاْذهب الرِّجْسَ عَنْهم وَطَہِّرْهم تَطْہِیْراً “401
(اے خدا یہ میرے اھل بیت ھیں ان سے تمام برائیوں كو دور كركے پاك وپاكیزہ قرار دے جیسا كہ پاك ركھنے كا حق ھے)
ابن تیمیہ ایك دوسری جگہ كھتے ھیں:كہ ھم ان لوگوں میں سے ھیں جو اھل بیت پیغمبرعلیهم السلامكو دوست ركھتے ھیں اور روز غدیر خم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی وصیت كا پاس ركھتے ھیں كہ آپ نے فرمایاتھا:
”میں تم كو اپنے اھل بیت كی یاد دلاتا هوں“ اور اس جملہ كی كئی مرتبہ تكرار بھی فرمائی تھی۔ 402
اسی طرح ابن تیمیہ كھتے ھیں كہ اھل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے بھت سے حقوق ھیں جن كی رعایت كرنا واجب ھے، ان حقوق میں سے ایك حق یہ ھے كہ ان حضرات كو خمس اور غنیمت دیا جائے اور ان میں سے ایك حق یہ ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے بعد ان پر صلوٰت بھیجی جائے ،اور اسی طرح آل محمد(سلام اللہ علیھم)وہ ھیں جن پر صدقہ حرام ھے۔ 403
اور اھل بیت علیهم السلام كے بارے میں آلوسی صاحب كھتے ھیں كہ ھمارا عقیدہ وھی ھے جو قرآن اور حدیث میں آیا ھے اور ھم ان فضائل اھل بیتعلیهم السلامكو مانتے ھیں جو ان كی شان میں نازل هوئے ھیں، لیكن پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان كے اھل بیتعلیهم السلامكی شان میں مبالغہ كرنے والوں كی مخالفت كرتے ھیں، آل پیغمبر علیھم السلام سے محبت اور دوستی ایمان كو معین كرنے والی ھے اور یھی حضرات خدا كے نور ھیں اور ان پر صلوٰت بھیجنا نماز كے صحیح هونے كی شرط ھے۔
اس كے بعد جناب آلوسی صاحب كھتے ھیں كہ نجد كے علماء او رحكام نے ھمیشہ یہ كوشش كی ھے كہ عوام الناس كو اس بات سے روكےں كہ جو كچھ آل پیغمبر اور اصحاب كے بارے میںواقعات پیش آئے ھیں ان كے بارے میں بحث وگفتگو نہ كریں تاكہ وہ تعصب نہ پیدا هو جو حق وحقیقت سے دوری كا سبب نہ بنے، در حالیكہ وھابی حضرات اھل بیت علیهم السلامكی دوستی اور ان كی محبت میں غلو نھیں كرتے۔ 404
شیخ عبد العزیز، جو مدرسہٴ پیشواے دعوت وھابی(یعنی محمد بن عبد الوھاب) ریاض كے مدرس تھے، وہ كھتے ھیں: كہ اھل بیت پیغمبر وہ حضرات ھیں جن پر صدقہ حرام ھے اور ان میں سب سے افضل علی، فاطمہ، حسن اور حسینعلیهم السلامھیں ۔ اوراس كے بعد احمد بن حنبل كی روایت نقل كرتے ھیں جس كا خلاصہ یہ ھے كہ ” پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی چاد ر اپنے اھل بیت :علی ،فاطمہ، حسن اور حسینعلیهم السلام پر اڑھائی اور اس آیت كی تلاوت كی :
< اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْهب عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَكُمْ تَطْہِیْراً۔ >405
اور اس كے بعد پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”اَللّٰهم ہٰوٴُلاٰءِ اَہْلُ بَیْتِی وَاَہْلُ بَیْتِیْ اَحَقُّ“
(خدا وندا! یہ میرے اھل بیت ھیں اور میرے اھل بیت دوسر وں سے زیادہ اھل حق اور شائستہ تر ھیں۔ )
لہٰذا، اھل بیت سے دوستی اور ان سے محبت كرنا ھم پر واجب ھے، یہ حضرات ھی پیغمبر اكرم كے اقرباء اور رشتہ دار ھیں، اس كے علاوہ اسلام میں سابقہ بھی زیادہ ركھتے ھیں، اور انھوں نے دین كو پھیلانے میں بھت سے مصائب كو برداشت كیا ،وغیرہ وغیرہ، لہٰذا ان سے دوستی اور محبت كرنا، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا احترام اور قرآن وسنت كے احكامات كی پیروی كرنا ھے، جیسا كہ قرآن مجید میں ارشاد هوتا ھے:
< قُلْ لاٰ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلاّٰ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی۔ > 406
”(اے میرے رسول) آپ كہہ دیجئے كہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت كا كوئی اجر نھیں چاھتا علاوہ اس كہ میرے اقرباء سے محبت كرو“۔

13۔ اصول دین اورفروع دین
آلوسی كے بقول وھابیوں كی نظر میں اصول دین وھی ھیں جو مذھب اھل سنت والجماعت كے ھیں اور ان كا طریقہ وھی سَلَف صالح (اصحاب پیغمبر او رتابعین) كا طریقہ ھے۔ وہ آیات اوراحادیث كوظاھر پر حمل كرتے ھیں، اس كے حقیقی معنی كو خدا پر چھوڑدیتے ھیں، اور ان كا عقیدہ یہ بھی ھے كہ خیر وشر صرف خدا كے ارادہ پر منحصر ھے ۔ بندہ اپنے افعال كو خلق كرنے پر (بھی) قادر نھیں ھے۔ ثواب اور جزا ،خدا كے فضل وكرم كی بدولت ھے ۔ كیفر و عذاب اس كے عدل كے مطابق ھے، اور ھمارا اعتقاد یہ ھے كہ روز قیامت خدا كا دیدار هوگا۔ 407 لیكن فروع دین میں ،امام احمد ابن حنبل كے تابع ھیں، اور مذھب اربعہ میں سے كسی پر كوئی اعتراض نھیں كرتے، لیكن دوسرے مذھب مثلاً شیعہ اور زیدیہ كی سخت مخالفت كرتے ھیں۔
نیز اگر ان كے لئے یہ بات مسلّم هوجائے كہ كوئی مسئلہ اھل سنت كے كسی ایك مذھب كا (غیر از حنبلی) تائید شدہ ھے او راس كے بارے میں قرآن مجید یا غیر منسوخ سنت سے نص وارد هوئی ھے اور اس كے مقابلہ میں كوئی اس سے مضبوط معارض بھی نھیں ھے، تو اس مسئلہ میں اسی مذھب كی پیروی كریں گے اور اس میںاحمد ابن حنبل كے مذھب كی پیروی نھیں كریں گے۔
وھابی حضرات كسی كے مذھب كے بارے میںنہ تفتیش كرتے ھیں اور نہ ھی تحقیق كرتے ھیںمگر یہ كہ كسی مذھب كا كوئی كام مذاھب اربعہ كے بطور آشكار مخالف هو، اسی طرح بعض مسائل میں اجتھاد كو قبول كرتے ھیں،408 (یعنی بعض مسائل میں مقلد هو اور بعض مسائل میں مجتہد)، چنانچہ ابن سعود اصول دین اور فروع دین كے بارے میں كھتا ھے كہ ھم لوگ اصول دین میں قرآن كریم كے تابع ھیں اور فروع دین میں امام احمد ابن حنبل كے مذھب كے پیرو ھیں، اور كسی كو بھی دینی امور میں اپنی رائے پر عمل كرنے كا كوئی حق نھیں ھے۔ 409

14۔ قرآن و حدیث كے ظاھر پر عمل كرنااور تاویل كی مخالفت 410
ابن تیمیہ، جس كے نظریات اور فتووں پر وھابیوں كی بنیاد ركھی گئی ھے كھتے ھیں : تمام لوگوں پر خدا اور اس كے رسول كے كلام كو اصل قرار دینا اور اس كی پیروی كرنا واجب ھے، چاھے وہ ان كے معنی كو سمجھیں یا نہ سمجھیں۔
اسی طرح لوگوں كو چاہئے كہ قرآنی آیات اور كلام پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اعتقاد اور ایمان ركھیں، چاھے اس كے حقیقی معنی كو نہ سمجھتے هوں،اور خدا و رسول اللہ كے كلام كے علاوہ كسی دوسرے كے كلام كو اصل قرا ر دینا جائز نھیں ھے، اور جب تك غیر خدا ورسول كے كلام كے معنی معلوم نہ هوجائیں ان كی تصدیق كرنا واجب نھیں ھے، وہ كلام اگر پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے كلام سے موافق ھے تو قبول ورنہ باطل او رمردود ھے۔ 411
حافظ وھبہ اس سلسلہ میں كھتے ھیں:وھابیوں كا اعتقاد یہ ھے كہ اسلام كے صحیح عقائد جس طرح سے قرآن وسنت میں وارد هوئے ھیں انھیں اسی طرح سے باقی ركھا جائے، اور اس میں كسی طرح كی كوئی تاویل كرنا جائز نھیں ھے۔
علمائے نجد كی كتابیں ان لوگوں كے نظریات كی ردّ سے بھری هوئی ھیں جنھوں نے تاویل كا سھارا لیا ھے، یا جو لوگ دینی عقائد كو فلسفی نظریات سے مطابقت كرتے ھیں، 412
(مقصود علمائے علم كلام ھیں)۔ وھابیوں كے قرآن وحدیث كی تاویل كی مخالفت میں ھم نے پھلے آلوسی كا نظریہ بیان كیا كہ موصوف قرآن كی آیات اور احادیث كو ان كے ظاھر پر حمل كرتے ھیں، اور ان كے حقیقی معنی كو خداوندعالم پر چھوڑدیتے ھیں، نیز خدا كے دیدار كے مسئلہ میں ھم یہ بات عرض كر چكے ھیں كہ وھابی حضرات بعض آیات قرآنی كے ظاھر كی وجہ سے خدا كے دیدار كے قائل ھیں یھاں تك كہ خداوندعالم كے لئے اعضائے(بدن)كے قائل ھیں۔

15۔ اجتھاد اور تقلید
حافظ وھبہ، ابن تیمیہ كی دعوت كردہ چیزوں كے سلسلہ میں اس طرح كھتے ھیں: ابن تیمیہ كے عقیدہ كے مطابق اجتھاد كی دونوں قسمیں كھلی ھیں، اور انھوں نے متعصب مقلدوں كے لئے اعلان جنگ كیا ھے، اس كے بعد حافظ وھبہ كھتے ھیں كہ محمد بن عبد الوھاب كے نظریات كی بنیاد اور اساس ابن تیمیہ كا یھی نظریہ تھا۔ 413
اور جیسا كہ یہ بات معلوم ھے اور اسی بات كو آلوسی نے بھی نقل كیا ھے كہ وھابی حضرات خود كو اصول میں مذھب اھل سنت كے تابع اور فروع دین میں مذھب احمد ابن حنبل كے تابع سمجھتے ھیں، اور اھل سنت كے دوسرے مذاھب سے تقلید كو منع نھیں كرتے اور خود بھی بعض مسائل میں اھل سنت كے دوسرے مذاھب (حنبلی مذھب كے علاوہ) كی تقلید كرنے میں كوئی حرج نھیں مانتے، اسی طرح اجتھاد میں ”تبعیض“ كے قائل ھیں یعنی انسان بعض مسائل میں اجتھاد كرے اور بعض مسائل میں تقلید كرے۔ 414
حافظ وھبہ كھتے ھیں كہ نجدی علماء اپنی علمی حیات میں گذشتہ علماء كی تحریرں پر اعتماد كرتے ھیں، (یعنی اپنی طرف سے دخل وتصرف نھیں كرتے) اسی بناپر علماء كی كتابیں او ررسالے،منجملہ محمد بن عبد الوھاب اور اس كے بیٹوں كی كتابیں اسلوب و بیان كے اعتبار سے زیادہ علمی نھیں ھیں اور مصدرو مآخذكی حیثیت والی كتابیں بھی نایاب تھیں؟یہ لوگ مطلق اجتھاد كا دعویٰ نھیں كرتے بلكہ اپنے كو احمد ابن حنبل، ابن تیمیہ اور اس كے شاگرد ابن قیّم كا مقلد سمجھتے ھیں۔ 415
وھابی حضرات كا ایك عقیدہ یہ بھی ھے كہ اگر كسی چیز كے بارے میں كوئی نص (قرآنی آیات یا احادیث) موجود هو تو پھر وھاں تقلید جائز نھیں ھے، چاھے وہ تقلید احمد ابن حنبل كی هو یا ابوحنیفہ، شافعی یا امام مالك كی هولیكن اگر كسی مقام پر كوئی نص موجود نہ هو تو احمد ابن حنبل كی تقلید كو جائز جانتے ھیں، یعنی احمد ابن حنبل كا نظریہ ایك ایسی اصل ثابت ھے كہ جب كوئی دلیل نہ هو تو پھر ان كی طرف رجوع كیا جاتا ھے۔ یہ اصل اھل سنت كے نزدیك مثل قیاس ھے اور شیعوں كے نزدیك مثل عقل ھے، اس صورت میں وھابی ایك ھی زمانہ میں مجتہد بھی هوتے ھیں اور مقلد بھی۔
ملك عبد العزیز نے1355ھ میں مكہ معظمہ میں اپنی تقریر میں اس طرح كھا كہ ھمارا مذھب دلیل كا پیرو ھے جب تك دلیل موجود ھے، او راگر دلیل موجود نہ هو تو اجتھاد كی باری آتی ھے اور اس صورت میں ھم احمد ابن حنبل كے اجتھاد كی پیروی كرتے ھیں۔ 416

16۔ جوچیزیں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب كے زمانہ میں نھیں تھیں۔ ۔ ۔
حافظ وھبہ كھتے ھیں:جو چیزیں قدیم زمانہ سے نجدی علماء كے پاس موجود ھیں وہ ان كی بھت زیادہ پابندی كرتے ھیں، خصوصاً وہ چیزیں جو دین سے متعلق ھیں، چنانچہ ان كا عقیدہ یہ ھے كہ عقائد جس طرح سے قرآن وحدیث میں بیان هوئے ھیں ان كو اسی حالت پر باقی ركھنا چاہئے اور ان میں كسی طرح كی كوئی تبدیلی كرنا جائز نھیں ھے۔
وھابی حضرات كھتے ھیں كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے زمانہ(جو بھترین زمانہ تھا) میں جو چیزیں موجود تھیں وھی سب كے لئے كافی ھیں اسی طرح ھمارے لئے بھی كافی ھیں، قارئین كرام ملاحظہ فرمائیں كہ وھابی علماء كی كتابوں میں سے وہ كتابیں بھی ھیں جو ان فرقوں كی ردّ میں لكھی گئی ھیں جو تاویل كا سھارا لیتے ھیں یا اپنے دینی عقائد كو فلاسفہ كے نظریات سے تطبیق دیتے ھیں۔
وھابی لوگ تصویر لینے كو بھی حرام كھتے ھیں (اور ظاھراً تصویر كی دونوں قسموں كو حرام جانتے ھیں كہ چاھے وہ ھاتھ كے ذریعہ بنائی جائے یا كیمرے كے ذریعہ فوٹو لیا جائے)((فِیلبی كھتا ھے كہ جب ایك بھت بڑے عالم دین نے قاھرہ جانا چاھاتو مصر كی حكومت سے بھت زیادہ اصرار كیا كہ ان كو پاسپورٹ پر فوٹو لگانے سے معاف كرے۔ 417
یہ لوگ فلسفہ اور منطق پڑھنے كو بھی حرام قرار دیتے ھیں، اسی لئے نجدی علماء میں منطق اور فلسفہ سے آشنائی ركھنے والے بھت كم ملےں گے۔
ھاں تك كہ لغت عرب اور ادبیات عرب میں ماھر افراد بھی بھت كم ھیں اسی طرح علوم بیان ،اشتقاق اور بلاغت كے جاننے والے بھی بھت ھی كم ملیں گے، ان كی معلومات تو صرف تاریخی (تاریخ سیرہ پیغمبراكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سیرہ خلفاء راشدین تك محدود)هوتی ھے، اور تاریخ میں بھی دوسری تاریخو ںسے كوئی مطلب نھیں هوتا، چاھے وہ قدیمی تاریخ هوں یا تاریخ اسلام۔ جزیرة العرب میں كوئی نئی چیز كشف نھیں هوئی ھے فقط بادشاهوں اور شاہزادوں كے خاندان اس فكر میں رھتے ھیں كہ آج كل كی كتابیں نئے انداز كی هوں تاكہ ان كو پڑھا جائے وہ یہ چاھتے ھیں كہ نئی كتابوں كے ذریعہ تاریخ اور قانون اسی طرح لغت عرب كے آداب وغیرہ سے آگاہ هوں۔ 418
1349ھ میں علماء نجدنے فریاد وفغاں بلند كی اور مكہ معظمہ میں ایك جلسہ ركھا گیا جس میں ”ادارہ معارف“(محكمہٴ تعلیم)مكہ پر اعتراض كیا گیا اور اس كے خلاف قرار داد پاس كی، ان سب كاموں كی وجہ یہ تھی كہ مذكورہ ادارے نے مدارسكے ”كورس“ میںانگریزی اور جغرافیہ كو شامل كر لیا تھا جس میں زمین كے گھومنے او راس كے كرویت هونے كی باتیں ھیں۔ 419
جس وقت” شریف غالب “1221ھ میں (جیسا كہ بعدكی تفصیل سے معلوم هوگا)وھابیوں كے مقابلہ میں تسلیم هوا،او راس پر یہ شرط ركھی گئی كہ جو كچھ بھی تیسری صدی كے بعد سے مسلمانوں میں پیدا هوا، ان سب كو چھوڑدے، جن میں سے بعض چیزیں یہ ھیں :
اپنی مشكلات كے دوركرنے كے لئے غیر خدا كی طرف متوجہ هونا، چاھے وہ زندہ هوں یا مردہ، اسی طرح قبروں پر گنبد بنانا، قبروں كو بوسہ دینا یا قبروں كے سامنے خشوع وخضوع كرنا اورقبر میں سوئے مردوں كو پكارنا، قبروں كے اطراف طواف كرنا، اسی طرح قبروں كے لئے نذر اور قربانی كرنا، قبور پر اجتماعات كرنا یا عورتوں اور مردوں كا ایك ساتھ زیارت كرنا۔ 420
وھابی حضرات صرف اسی چیز كو قبول كرتے ھیں جو سنت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے مطابق هو، اسی طرح جو چیزیں خلفائے راشدین اور صحابہ وتابعین یا وہ لوگ جو اجتھاد كے درجہ تك پهونچ گئے ھیں (یعنی تیسری صدی كے آخر تك) ان كے موافق هو، ان ھی كو قبول كرتے ھیں، اسی بناپر ان كا عقیدہ یہ ھے كہ جو چیزیں تیسری صدی كے بعد وجود میں آئی ھیں وہ سب بدعتیں اور حرام ھیں او ران سب كوختم اور نیست ونابود كرنا واجب ھے۔
آلوسی كی تحریر سے یہ بات معلوم هوتی ھے كہ وھابی حضرات دوسرے فرقوں كی كتابوں كو باطل جانتے تھے اسی وجہ سے ان كو نابود كردیتے تھے۔ آلوسی اس سلسلہ میں كھتے ھیں :
یہ كام ”عرب كے بدو اور جاھل لوگ“كیا كرتے تھے، جن كو ایسے كاموں سے روكا جاتا تھا۔ 421

تمباكو نوشی حرام ھے
جس وقت وھابیوںنے حجاز پر غلبہ حاصل كیا اس سے پھلے مكہ میںتمباكو نوشی رائج تھی، صاحب تاریخ مكہ كھتے ھیں كہ1112ھ میںتمباكو مصر سے مكہ لایا گیا اور اسی وقت سے تمباكو نوشی كا آغاز هوگیا، اور كچھ ھی مدت میںمكہ میں كُھلے عام تمباكو نوشی هونے لگی۔
1149ھ میں شریف مسعود (شریف مكہ) نے تمباكو نوشی كی شدید مخالفت كی اور حكم دیا كہ مكہ معظمہ كے بازاروں اور قهوہ خانوں میں كوئی تمباكو نوشی نہ كرے، اور شھر كے حاكم كو بھی حكم دیا كہ اگر كوئی شخص كھلے عام تمباكو نوشی كرتا هوا پایا جائے تو اس كو سزا دی جائے، حاكم نے تمام گلی كوچوں میں پھرہ لگادیا كہ كوئی تمباكو نوشی نہ كرے، لیكن وہ سب اپنے گھروں میں جمع هوكر تمباكو نوشی كیا كرتے تھے تاكہ حاكم ان كو نہ دیكھ سكے۔
شریف مسعود نے تمباكو نوشی سے كیوں منع كیا اس كی دو وجھیں تھیں، ایك تو یہ كہ ان كا خود كا عقیدہ یہ تھا كہ تمباكو نوشی حرام ھے، او ردوسری وجہ لوگوں نے یہ بتائی ھے كہ علماء او ربزرگان دین كے سامنے تمباكو نوشی ایك طرح سے بے احترامی ھے، لہٰذا اس نے تمباكو نوشی كو حرام قرار دیدیا۔
بھر حال مكہ كے شریف غالب نے بھی1221ھ میں تمباكو نوشی كو ممنوع قرار دیا۔ 422 شاید مكہ كے شریفوں نے تمباكو نوشی كو مذھبی پھلو كی بنا پر ممنوع قرار نہ دیاهو، لیكن وھابیوں نے جب حجاز پر قبضہ كرلیا تو تمباكو نوشی كو اس غرض سے ممنوع قرار دیا كہ تمباكو نوشی شروع كی تین صدیوں میں نھیں تھی لہٰذا تمباكو نوشی حرام ھے۔ اسی وجہ سے نجد كے حكّام تمباكو نوشی سے روكنے كا حكم دیتے تھے، مثلاً سعود بن عبد العزیز نے1222ھ میں پانچویں سفر حجمیںیہ اعلان كرادیا كہ مكہ كے بازاروں میں تمباكو نوشی ممنوع ھے، اسی طرح سعود نے یہ حكم بھی دیا كہ مكہ كے بازاروں میں كچھ لوگ نماز كے وقت یہ كھتے پھریں،”الصلوٰة، الصلوٰة“423
اسی طرح تركی بن عبد اللہ (سعودی حاكم) نے نجد كے لوگوں كو ایك نصیحت آمیز خط لكھا جس میں گھٹیا زندگی اور تمباكو نوشی كے لئے ایك جگہ جمع هونے سے منع كیا گیا تھا۔ 424
علامہ امین عامِلی اس طرح فرماتے ھیں :حجاز میں تمباكو نوشی كو برا سمجھا جاتا تھا یھاں تك كہ تمباكو نوشی كرنے و الے كی پٹائی بھی كی جاتی تھی اور بعض اوقات تو قید خانہ میں بھی جانا پڑتا تھا، اسی موقع پر حجاز كے كسٹم آفس نے تمباكو كے لئے ٹیكس مقرر كر دیا تھا۔ 425
عبد العزیز كے زمانہ میں نجد كا سفر كرنے والا ”امین ریحانی“ اس طرح كھتا ھے كہ نجد میں بلكہ ابن سعود كی تمام حدود میں تمباكو نوشی ممنوع ھے، كوئی بھی ”اَحساء“، ”عارِض“ اور”قصِیم“ كے بازاروں میں كھلے عام تمباكو نوشی او رسیگریٹ وغیرہ نھیں پی سكتاتھا، لیكن احساء اور قصیم میں گھروں كے اندر تمباكو نوشی هوتی ھے۔
لیكن وھاں كے شیوخ لاپرواھی كرتے ھیں میں نے خود ریاض میں دیكھا ھے كہ بعض لوگوں نے بادشاہ كے نزدیكی لوگوں كے سامنے مخفی طور پرسگریٹ پی، جس كی وجہ یہ ھے كہ یہ لوگ متعصب علماء كی طرح تمباكو نوشی كی ممانعتكے قائل نھیں ھیں۔ 426
ابن سعود، غیروں كے سیگریٹ وغیرہ پینے كے سلسلہ میں تجاھل كرتا تھا اور ان كی كوئی مخالفت نھیں كرتا تھا۔ 427
اس كے بعد سے سعودی عرب كے اخبارات بھی تمباكو نوشی كی حرمت كے بجائے اس كے نقصانات كو بیان كرتے تھے اور یہ لكھتے تھے كہ لوگوں كو سگریٹ وغیرہ بالكل نھیں پینا چاہئے یا كم سے كم پینا چاہئے۔ 428

ان كے نزدیك كچھ اور بدعتیں
محمد بن عبد الوھاب كا پوتا اپنی كتاب ”ہدیہ السنیہ“میں كھتا ھے كہ ھر وہ چیز جو پیغمبر اكرم كے زمانہ میں نھیں تھی اور تیسری صدی ہجری كے بعد پیدا هوئی ھے بدعت او رناپسند ھے،429 مثلاً چاروں مذھبوںكے اماموںكے لئے مسجدوں میںچار محراب بنانا، اورماذنہ سے شب جمعہ او رروز جمعہ نیز شب دوشنبہ میںمُردوں كو یادكرنا، اور ان كے لئے دعائے مغفرت كرنا، اور گلدستہ اذان پر قرآن كی تلاوت كرنا اور پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوٰت بھیجنا، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے روز ولادت پر آپ كی سیرت كا جلسہ كرنا، نیز آپ كے ولادت كے موقع پرمترنم لہجہ میں صلوٰت اور قصیدہ پڑھنا، اور مردو ں كے لئے نماز كے بعد فاتحہ پڑھنا، یا جنازوں كو لے جاتے وقت فاتحہ پڑھنا، اسی طرح قبروں پر پانی چھڑكنا، اور ذكر خدا میں اپنی آواز بلند كرنا، عبادتگاهوں اور تكیوں میں اسلحہ اور علم وغیرہ لٹكانا، ان تمام چیزوں كو وھابی حضرات حرام جانتے ھیں۔
”فتنة الوھابیة“ نامی كتاب میں اس طرح موجود ھے كہ وھابی لوگ اذان كے بعد پیغمبر اكرم پر صلوٰت بھیجنے سے منع كرتے ھیں، چنانچہ ایك نابینا شخص نے اس ممانعت كے بعد بھی اذان كے بعد پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوٰت بھیجی تو اس كو محمد بن عبد الوھاب كے پاس لے گئے اس نے اس شخص كو قتل كرنے كا حكم دیدیا۔ 430
كٹّر وھابیوں كے نزدیك دوسری حرام چیزیں یہ ھیں :لمبی موچھیں ركھنا، كپڑوں كوقدیم زمانہ كے معمولی اندازہ سے لمبا پہننا، یہ لوگ سب سے پھلے لمبی مونچھوں والے اور لمبے لباس والے كو تذكر دیتے تھے اور اس كے بعد جس مقدار میں بھی مونچھیں یا اس كا لباس لمبا دكھائی دیتاتھا اس كو كاٹ دیا كرتے تھے۔ 431
ھم انشاء اللہ فرقہ اخوان كی بحث كے ضمن میں بیان كرےں گے كہ یہ لوگ سروں پر عقال (وہ ریسمان جو عرب اپنے سر پر چادر وغیرہ كو باندھنے كے لئے باندھتے ھیں) باندھنے كو جائز نھیں جانتے، اسی طرح نئی ٹكنالوجی كے استعمال كو بھی ممنوع قرار دیتے ھیں جیسے ٹیلی فون یا ٹیلی گراف وغیرہ۔

كسی چیز میں ”اصل“ حرمت ھے یا اباحت
وھابیوں اور دوسرے فرقوں میں ایك اھم فرق یہ ھے كہ دوسرے فرقے اصل اباحت پر عمل كرتے ھیں یعنی ھر اس چیز كو حلال او رمباح جانتے ھیں جس كے بارے میں قرآن مجید یا سنت نبوی میں اس كی حرمت پر كوئی دلیل نہ هو، لہٰذا چائے یا قهوہ كا پینا، یا انگریزی ٹماٹر اور آلو كا كھانا جائز ھے اسی طرح وہ جدید چیزیں جو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا اصحاب كے زمانہ میں موجود نھیں تھی یا ان سے استفادہ نھیں كیا جاتا تھا ان سب كا استعمال جائز ھے كیونكہ ان كی حرمت كے بارے میں كوئی دلیل نھیں ھے۔
لیكن وھابی حضرات مذكورہ چیزوں میں اصل حرمت كو معتبر جانتے ھیں اور كھتے ھیں كہ ھر وہ چیزحرام ھے جس كے بارے میں حلال اور مباح هونا معلوم نہ هو، لہٰذا ان چیزوں كا انجام دیناجائز نھیں ھے۔
چنانچہ اسی اصل كی بناپر ھر نئی چیز كی مخالفت كیا كرتے تھے یھاں تك كہ بادشاہ كے گھر كے ٹیلی فون كے تار وغیرہ بھی كاٹ ڈالے، اور مدارس میں جغرافیہ كی تعلیم كی مخالفت كی، اور اسی طرح كے دوسرے مسائل جن كے بارے میں اس كتاب كے آٹھویں باب ”جمعیة الاخوان“ میں توضیح دی گئی ھے۔
گلد زیھر كے قول كے مطابق، وھابی لوگ ان چیزوں كو بھی حرام جانتے ھیں، جن كو مذاھب اربعہ كے پیروكاروں نے مباح اور مستحب جانا ھے، لہٰذا یہ لوگ اھل سنت كے حدود سے خارج هوگئے اور ان كے كارنامے صدر اسلام كے خوارج كی طرح ھیں۔
گلد زیھر، جو خود وھابیوں كا طرفدار ھے وھابیوں كی اھل سنت سے جدائی كو ثابت هونے كے سلسلہ میں اپنی گذشتہ باتوں كو اس طرح آگے بڑھاتا ھے:بارهویں عیسوی صدی (چھٹی ہجری صدی) سے تمام اھل سنت غزالی كی بات كو آخری بات او رسنی مذھب كا آخری فیصلہ سمجھتے ھیں لیكن وھابی حضرات اپنی فقھی اور كلامی بحثوں میں غزالی كی باتو ںكی مخالفت كرتے ھیں، اور یہ مخالفت ابھی بھی(گلد زیھر كا زمانہ بیسوی صدی كے شروع كا زمانہ) جاری ھے۔ 432

چند ملاحظات
وھابیوں كے عقائد كی بحث كے اختتام پر چند نكتوں كی طرف اشارہ كرنا ضروری ھے، تین ملاحظات خلاصةً پیش خدمت ھیں:
ھر وہ چیز جو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب كے زمانہ میں (پھلی تین ہجری صدیوںمیں) نھیں تھی اور بعد میں پیدا هوئی وہ سب حرام اور بدعت ھے،۔ واقعاً اگر ایسا ھی عقیدہ هو تو یہ چیز دین اسلام میں انجماد كا سبب ھے جو دین مبین اسلام كی حقیقت اور اس كے جاودانی هونے سے ھم آہنگ نھیں ھے۔
وہ دین جو جدید علم اور ٹكنالوجی اور نئی نئی ایجادات سے ھم آہنگ نہ هو كس طرح عالمی اور جاودانی هوسكتا ھے؟!
یہ وہ مطالب ھیں جن پر وھابی مذھب كے بارے میں تحقیق كرنے والوںنے اپنی اپنی كتابوں میں اشارہ كیا ھے۔
اس سلسلہ میں اور اسی طرح كے دوسرے مسائل میں وھابیت كی طرف مائل هونے والے افراد نے ان چیزوں پر اعتراضات كئے ھیں، ھم یھاں پر ان میں سے چند چیزوں كی طرف اشارہ كرتے ھیں:
آلوسی جو مذھب وھابی كے پكے طرفداروں میں ھیں، وہ حكومت سعود بن عبد العزیز كی شرح كرتے هوئے اس طرح كھتے ھیں:
سعود نے اگرچہ عرب كی بڑی بڑی شخصیتوں كو اپنی اطاعت پر مجبور كرلیا تھا، لیكن اس نے لوگوں كو حج بیت اللہ الحرام سے روكا، اور سلطان (سلطان عثمانی) پر خروج كیا اور فرقہ وھابی كے علاوہ دوسرے اسلامی فرقہ كو كافر كہنے میں غلو كیا، اور بھت سے اسلامی احكام میں بھت شدت اور سخت گیری كی، چنانچہ اس كے زمانہ میں نجدی علماء اكثر امور كو ظاھر پر حمل كرتے تھے۔
اگر كوئی شخص انصاف سے كام لے تو نجدی علماء اورعوام الناس كا مسلمانوں سے جنگ وجدال كو جھاد كا نام دینے اور مسلمانوں كو حج سے روكنے سے قطع نظر، عراق اور سوریہ كو لوگوں كی غیر خدا كی قسم كھانے، اور صالحین كی قبروں كو سونے اور چاندی سے زینت كرنے، نیزوھاں پر نذر كرنے، یا اس طرح كی اور دوسری چیزیں جن كو شارع مقدس نے ممنوع قرار دیا ھے ان سب كو چھوڑكر اسے درمیانی راستہ اختیار كرنا چاہئے۔
خلاصہ یہ كہ مسلمانوں كے لئے دین میں افراط وتفریط (كمی اور زیادتی كرنا) جائز نھیں ھے، گذشتہ صالحین كی پیروی كرنا ضروری اور بھتر ھے، اور ایك دوسرے كو كفر كی نسبت دینے سے پر ھیز كرنا چاہئے جو خدا وندعالم كے خشم وغضب كا باعث ھے۔
ھی آلوسی صاحب عبد اللہ بن سعود كے حالات زندگی میں اس طرح كھتے ھیں: عبداللہ نے اپنے ماسبق كی طرح عرب كے قبیلوں كو دین اسلام كی تعلیمات سے آگاہ كیا اور پانچوں وقت كی نمازِجماعت میں شركت كرنے پر آمادہ كیا، لیكن سلطان (سلطان عثمانی) كے ساتھ جو جسارت كی اس میں اس نے خطا اور غلطی كی، وہ اگر نجد او راس كے تابع علاقوں پر اكتفاء كرتا تو اس كے لئے بھتر تھا اور اس سے زیادہ ترقی كرتا، خصوصاً ان قبیلوں كی تعلیم وتربیت میں ثواب عظیم كا مالك هوتا جو حیوانوں كی طرح یا اس سے بھی پست تر تھے۔ 433
امریكن رائٹر ”لوٹروپ سٹوڈارڈ“ وھابیوں كی طرفداری كرتا هوا ان كی بھت زیادہ تعریف وتمجید كرتا ھے اور وھابیوں كے وجود كو مسلمانوں میں بیداری كا سبب مانتا ھے اور اس طرح كھتا ھے كہ وھابیوں كی دعوت خالص اصلاح كی دعوت تھی، جس میں شك وھم اور شبھات كو دور كرنا مقصود تھا۔ درمیانی صدیوں میں دین كی جو مختلف تفسیریں او رمختلف حاشیہ پیدا هوگئے تھے ان كو ختم كیا اور بدعتوں اور اولیاء اللہ كی پرستش كو نابود كیا، خلاصہ یہ كہ یہ لوگ اس پرانے دین كی طرف پلٹنا چاھتے تھے جو شروع میں تھا، اور وہ اسلام كی حقیقت اور اس كے جوھر كو پیش كرنا چاھتے تھے یعنی اس توحید كو لوگوں كے سامنے بیان كرناچاھتے تھے جس كو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لے كر آئے تھے ۔ انھوں نے اس قرآن كو اپنا رھبراور پیشوا قرار دیا جو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل هوا، لیكن اس شرط كے ساتھ كہ قرآن كی تاویل اور تفسیر نہ كی جائے، (چنانچہ محمد بن عبد الوھاب كھتا تھا كہ) اس كے علاوہ تمام چیزیں باطل ھیں اور ان كا اسلام سے كوئی تعلق نھیں، دین كے اركان اور واجبات اور قواعد مثلاً نماز وروزہ وغیرہ كی پابندی كرنے كو مناسب سمجھتا تھا، یہ لوگ (وھابی حضرات) اپنی زندگی میں غیر معمولی سادگی ركھتے تھے، ابریشمی كپڑے اور مختلف قسم كے كھانوں، شراب نوشی اور قهوہ پینا اورافیون اور تمباكو نوشی یا ھر وہ چیز جو اسراف كا سبب هو یا عقل كے لئے نقصان دہ هو، ان سب چیزوں كو حرام جانتے تھے۔
”لوٹروپ سٹوڈارڈ“ اس كے بعد كھتا ھے: میں نے جو كچھ كھا وہ ا ن كی ساری باتیں نھیں ھیں بلكہ یہ لوگ ان دینی عمارتوں كو جو مختلف چیزوں سے زینت كی جاتی ھیں ان كو بھی حرام جانتے ھیں، اور اسی وجہ سے انھوں نے مرقد مطھر پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بنے گنبد كو ویران كردیا اور مسجد نبوی پر بنے گلدستوں كو گرادیا، (قارئین كرام! اگر چہ اس كی یہ بات غلط ھے، كیونكہ انھوں نے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے گنبد اور مسجد كے گلدستوں كو نھیں گرایا اور اس كی وجہ ھم وھابیوں كی تاریخ میں بیان كریں گے)۔
چنانچہ انھوں نے دینی واجبات اور قواعد وآداب سے شدید لگاؤ كی وجہ سے ان چیزوں كی نسبت افراط كا راستہ انتخاب كیا یعنی ان چیزوں میں زیادہ روی كی اور انھیں چیزوں كے اثر كی بنا پر بعض اھل دقت لوگوں نے وھابیوں كے راستہ كو دلیل اور برھان قرار دیا كہ اسلام در حقیقت آج كے تقاضوں سے ھم آہنگ نھیں ھے اورمعاشرہ كی موجودہ ترقی و تبدیلی كے موافق اور زمانہ كے ساتھ سازگار نھیںھے۔ 434
اسی طرح چودھویں صدی كے عثمانی موٴلفین میں سے ”سلیمان فائق بك“ وھابیوں كے بارے میں اس طرح كھتے ھیں كہ اگرچہ وھابیوں كے مذھبی اعتقادات اھل سنت والجماعت، سلف صالح اور وہ لوگ جو احتیاط كی طرفمائل ھیں ان كے اعتقادات سے كوئی اختلاف نھیں ركھتے لیكن ان كے مذھبی كٹّر پن نے ان كو راہ راست سے منحرف كردیا یھاں تك كہ اپنی مرضی سے حلال یا حرام كا فتویٰ دیتے ھیں، مثلاً انھوں نے صالحین كی قبر كی زیارت اور ان كی روحانیت سے متبرك هونے كو بھی حرام قرار دیا ھے، اور جو لوگ تمباكو نوشی كرتے ھیں ان كے كفر كا بھی فتویٰ دیا، اور ان كا تعصب اور كٹّرپن اس درجے پر پهونچاكہ اپنے علاوہ دوسرے تمام اسلامی فرقوں كے كفر كا فتویٰ صادر كردیا، العیاذ باللہ۔ 435
ھاںعرب كے مشهور ومعروف موٴلف”احمد امین“ كی اس بات كو نقل كرنا مناسب ھے، وہ كھتے ھیں كہ اس وقت محمد بن عبد الوھاب كے زمانہ كو دسیوں سال گذر چكے ھیں اور بھت سے بھادروں اور جنگجو جوانوں نے اس سے مقابلہ میں جنگیں لڑیں ھیں لیكن ان كا كیا نتیجہ هوا؟ مسلمانوں كے تمام فرقے قبروں اور ضریحوں سے توسل كرنے اور ان سے حاجت طلب كرنے كے سلسلہ میں اسی پرانی حالت پر باقی ھیں جس طرح كے محمد بن عبد الوھاب كے زمانہ سے پھلے تھے اور اسی زمانہ كی طرح پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دوسری ولادتوں پر جشن محفلیں كرتے ھیں، (اگرچہ اس طرح كی محفلوں كی رونق كم هوگئی ھے) صرف بعض خاص الخاص لوگوں میں اس كی دعوت كا اثر هوا ھے، اسی طرح آج كل كے پڑھے لكھے جوان، بزرگوں كی قبور اور ان كے مزار وں كی پناہ حاصل نھیں كرتے اور اپنے آباء واجداد كی طرح قبروں سے متوسل نھیں هوتے، لیكن یہ جوان ایسے ھیں جو اپنے آباء واجداد كی طرح خدا سے بھی متوسل نھیں هوتے اور اس سے بھی التجا نھیں كرتے۔ 436
اس بحث كے اختتام پر اس بات كی طرف اشارہ كرنا ضروری ھے كہ امریكن رائٹروں كی كتابوں كو پڑھ كر كوئی یہ خیال نہ كرلے كہ اسلام ایك جامد دین ھے اور ترقی یافتہ زمانہ سے ھم آہنگ نھیں ھے ،ضروری ھے كہ دیگر اسلامی فرقوں كے نزدیك اصل اباحہ اور مسئلہ اجتھاد كو بھی پیش نظر ركھیں:مثلاً شیعہ مذھب میں ھر چیز میں ”اصل اباحت“ ھے، یعنی ھر وہ چیز جس كے بارے میں حرمت پر دلیل موجود نہ هو، جائز اور مباح ھے، اور اس كے انجام دینے میں كوئی ممانعت نھیں ھے، اسی طرح دوسرے فرقے بھی (وھابی كے علاوہ) اصل اباحہ كو قبول كرتے ھیں،دوسری بات یہ ھے كہ شیعہ مذھب كے مجتہدین ھر نئی چیز كا حكم چاروں دلیلوں (قرآن، سنت، اجماع اور عقل) كے ذریعہ استنباط كرتے ھیں، لہٰذا دین اسلام جو خود فكر وعلم اور عقل كا دین ھے ھر زمانہ اور ھر جگہ سے ھم آہنگ ھے اور دنیا كا كوئی بھی مسئلہ ایسا نھیں ھے اور نہ هوگا جس میں شیعہ مجتہدین مسئلہ كا حكم شرعی استنباط نہ كرسكیں۔

محمد بن عبد الوھاب كے عقائد كے بارے میں
جب سے محمد بن عبد الوھاب نے اپنے عقائد كا اظھار كیا اور لوگوں كو ان كے قبول كرنے كی دعوت دی، اسی وقت سے بڑے بڑے علماء نے اس كے عقائد كی پر زور مخالفت كی، شدید مخالفت كرنے والوں میں سب سے پھلے خود اس كے پدر محترم عبد الوھاب تھے اور اس كے بعد ان كے بھائی جناب شیخ سلیمان بن عبد الوھاب تھے اور یہ دونوں حنبلی علماء میں سے تھے، شیخ سلیمان نے تو محمد بن عبد الوھاب كی رد میں كتاب ”الصواعق الا لٰھیة فی الرد علی الوھابیة“تالیف كی، اور اس كے عقائد كو باقاعدہ دلیلوں كے ذریعہ ردّ كیا ھے۔
زینی دحلان كھتے ھیں كہ شیخ محمد بن عبد الوھاب كے پدر گرامی ایك صالح عالم دین تھے، اور اس كے بھائی شیخ سلیمان نے شروع ھی سے یعنی جب سے محمد بن عبدالوھاب تحصیل علم میں مشغول تھا اور اس كی باتوں اور اس كے كاموں سے یہ اندازہ لگایا لیا تھا كہ یہ اس طرح كا خیال اورنظریہ ركھتا ھے اسی وقت سے اس پر لعن وملامت كیا كرتے تھے اور اس كو ھمیشہ اس كام سے روكتے رھتے تھے۔ 437
شیخ محمد بن عبد الوھاب كے سب سے بڑے مخالف اس كے بھائی شیخ سلیمان صاحب كتاب”الصواعق الالٰھیة فی الرد علی الوھابیة“ تھے، چنانچہ شیخ سلیمان اپنے بھائی كی باتوں كو ردّ كرتے هوئے كھتے ھیں :یہ كام (جن كو وھابی لوگ شرك او ركفر كا باعث سمجھتے ھیں) احمد ابن حنبل اور ائمہ اسلام كے زمانہ سے پھلے موجود تھے، جبكہ بعض لوگ اس وقت بھی ان كے منكر تھے اور ان سب كو ائمہ اسلام نے سنا لیكن كسی ایك روایت میں یہ نھیں آیا ھے كہ انھوں نے ان اعمال كو بجالانے والوں كو مرتدّ یا كافر كھا هو یا ان سے جھاد كرنے كا حكم دیا هو، یا مسلمانوں كے ملك كو جس طرح تم كھتے هو بلاد شرك یا دار ا لكفر كھا هو، اسی طرح ائمہ438 كے زمانہ كو 800 سال كی مدت گذر رھی ھے، كسی بھی عالم دین سے كوئی روایت نھیں ھے كہ ان كاموں كو كفر اور شرك جاتا هو، 439
خدا كی قسم تمھاری باتوں كا نتیجہ یہ هوگا كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی تمام امت احمد ابن حنبل كے زمانہ سے چاھے عالم هوں یا عوام الناس، چاھے حاكم هوں یا عام لوگ، سب كے سب كافر اور مرتدّ ھیں، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، شیخ سلیمان بھت افسوس كرتے هوئے كھتے ھیں :” اللہ كی پناہ“،!كیا تم سے پھلے كسی نے دین اسلام كو نھیں سمجھا تھا،440
صواعق الالٰھیہ كے علاوہ اور د وسری كتابیں محمد بن عبد الوھاب كے عقائد كی ردّ میں لكھی گئی ھیں جنھوں نے محمد بن عبد الوھاب كے عقائد كو ایك ایك كركے نقل كیا اور ان كو باقاعدہ دلیلوں كے ساتھ ردّ كیا ھے، ان میں سے صاحب اعیان الشیعہ علامہ سید محسن حسینی عامِلی كیكتاب ”كشف الارتیاب فی اتباع محمد ابن عبد الوھاب“ ھے، یہ كتاب اپنی صنف میں بھترین كتاب ھے۔
وھابیت كے طرفداروں میں سے عبد اللہ قصِیمی مصری نے كتاب ”كشف الارتیاب“ كی ردّ ”الصّراع بین الوثنیة والاسلام“ لكھی، اور اس كتاب كے جواب میں محمد خُنیزی نجفی نے ”الدعوة الاسلامیہ“ نامی كتاب لكھی جس كی چند جلدیں چھپ بھی چكی ھیں۔
اسی طرح وھابیوں كی ردّ میں لكھی جانے والی كتاب ”منہج الرشاد“ تالیف علامہ شیخ محمد حسین كاشف الغطاء ھے۔
وھابیوں كی ردّ میں لكھی جانے والی ایك اور كتاب ”شواھد الحق فی الاستغاثة بسید الخلق“ تالیف شیخ یوسف نبھانی ھے، یہ كتاب ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوھاب دونوں كی ردّ میں لكھی گئی ھے۔
اسی طرح وھابیوں كی ردّ میں لكھی جانے والی كتابوں میں سے ”مصباح الانام وجلاء الظلّام“ تالیف سید علوی بن احمدبھی ھے، بنابر نقل ابی حامد بن مَرزوق كتاب”التوسل بالنبی وجھلة الوھابیین“ھے۔
اسی طرح علماء ازھر میں سے شیخ محمد نجیت مطیعی صاحب كی كتاب ”تطھیر الفواد من دنس الاعتقاد“ ھے۔
اسی طرح وھابیوں كی ردّ میں لكھی جانے والی كتابوں میں علامہ عراق جمیل افندی صِدقی زِھاوی كی كتاب ”الفجر الصادق فی الردّ علیٰ منكری التوسل والكرامات والخوارق“ بھی ھے۔
انھیں كتابوں میں ”ضیاء الصدور لمنكر التوسل باھل القبور“ تالیف ظاھر شاہ میان بن عبد العظیم بھی ھے۔
كتاب ”المنحة الوھبیة فی الردّ علی الوھابیة“ تالیف داوٴد بن سلیمان نقشبندی بغدادی بھی وھابیوں كی ردّ میں لكھی گئی ھے۔
اسی طرح كتاب ”اشد الجھاد فی ابطال دعویٰ الاجتھاد“ تالیف شیخ داوٴد موسوی بغدادی بھی ھے جو كتاب ”منحة الوھبیة“ كے ساتھ چھپ چكی ھے۔
اسی طرح ایك رسالہ ”كشف النور عن اصحاب القبور“ تالیف عبد الغنی افندی نابُلِسی وھابیت كی ردّ میں چھپ چكا ھے۔
كتاب ”الاصول الاربعة فی تردید الوھابیة“ تالیف خواجہ محمد حسن جان صاحب سرہندی (فارسی زبان میں)چھپ چكی ھے۔
اسی طرح كتاب ”سیف الابرار علی الفجار“ تالیف محمد عبد الرحمن حنفی (فارسی زبان میں چھپ چكی ھے)، (جو وھابیوں كے طرفدار نذیر حسین كے فتووں كی ردّ ھے۔ )
اسی طرح ایك رسالہ ”سیف الجبار المسلول علی الاعداء الابرار“ تالیف شاہ فضل رسول قادری ھے (جو عربی اور فارسی زبانوں میں ھے۔
كتاب ”مدارج السنیة فی ردّ علی الوھابیة“ بھی وھابیوں كی ردّ میں لكھی گئی ھے جس كو عامر قادری معلم دار العلوم كراچی، نے تالیف كیا ھے (یہ كتاب عربی زبان میں اردو ترجمہ كے ساتھ چھپ چكی ھے)
اسی طرح وھابیوں كی ردّ میں لكھی گئی كتابوں میں ایك كتاب ”تھَكُّم المقلدین بمن ادّعی تجدید الدین“ تالیف محمد بن عبد الرحمن بن عفالق ھے جس میں وھابیوں كی تمام باتوں كا جواب دیا گیا ھے اور اس میں علوم شرعی اور ادبی سوال كئے گئے ھیں۔ (زینی دحلان كے قول كے مطابق)
اسی طرح كتاب ”البراھین الجلیة“ تالیف سید محمد حسن قزوینی ھے جو وھابیوں كی ردّ میں لكھی گئی ھے۔
وھابیوں كی ردّ میں لكھی جانے والی كتابو ں میں ایك ”كشف النقاب عن عقائدابن عبد الوھاب“ تالیف سید علی نقی(نقّن صاحب) ہندی بھی ھے ۔
اسی طرح كتاب ”ازھاق الباطل فی ردّ الفرقة الوھابیة“ تالیف امام الحرمین محمد بن داوٴد ھمدانی تیرهویں صدی كے علماء میں سے۔ 441
اسی طرح ”لمعات الفریدة فی المسائل المفیدة“ نامی كتاب تالیف سید ابراھیم رفاعی ھے۔
”ھذی ھی الوھابیة“ نامی كتاب تالیف شیخ جواد مغنیہ بھی ان كتابوں میں سے ایك بھترین كتاب ھے۔
اسی فھرست میں ”الدولة المكیة بالمادة الغیبیة“ تالیف احمد رضا خانصاحب قادری بھی ھے۔
رسالہ ”الاوراق البغدادیة فی الحوادث النجدیة“ تالیف سید ابراھیم راوی رفاعی ھے۔
انھیں كتابوں میں مشهور ومعروف كتاب ”الغدیر“ تالیف مرحوم علامہ شیخ امینی كی كتاب كا ایك حصہ وھابیوں كی ردّ میں لكھا گیا ھے۔
محمد بن عبد الوھاب كے عقائد كو ردّ كرنے والی كتابوں میں سید احمد زینی دحلان مفتی مكّہ معظمہ كی كتاب ”الفتوحات الاسلامیہ“ بھی ھے جس میں محمد بن عبد الوھاب پر شدید حملہ كیا ھے۔
اس مذكورہ كتاب میں زینی دحلان نے محمد بن سلیمان كردی كی بعض ان باتوں كا بھی ذكر كیا ھے جن كو موصوف نے محمد بن عبد الوھاب كی ردّ میں بیان كیا ھے۔ 442
زینی دحلان كے وھابیت كی ردّ میں لكھے گئے چندمستقل كتابیں اب بھی باقی ھیں جن میں سے ”فتنة الوھابیة“ اور ”الدرر السنیة فی الردّ علی الوھابیة“ ھیں۔
ھاں پر یہ بات قابل توجہ ھے كہ آخری سالوں میں جو كتابیں وھابیوں كی ردّمیں لكھی گئی ھیں ان میں سے اكثرتركی،ہندوستان اور پاكستان كے حنفی علماء كی ھیں،اور اس سلسلہ میں آج كل تركی(استامبول) سے بھت زیادہ كتابیں اور رسالے چھپے ھیں، اور شاید اس كی وجہ یہ رھی هو كہ وھابیوں كے سب سے زیادہ حملے ابوحنیفہ كے عقائد اور ان كے نظریات پر هوئے ھیں۔

ایك یاد دھانی
مختلف علماء كی طرف سے محمد بن عبد الوھاب كی ردّ یا اس كو نصیحت كے طور پر لكھی جانے والی كتابیں ان سے كھیں زیادہ ھیں جن كو ھم نے بیان كیا ھے، ان تمام كا ذكر كرنا مشكل تھا، ان كتابوں كا ذكر محمد بن عبد الوھاب كی ردّ میں لكھی گئی مذكورہ بالا كتابوں میں موجودھے منجملہ: ان كے كتاب ”التوسل الی النبی“ تالیف ابی حامد بن مرزوق میں 42ایسی كتابو ںكا ذكر كیا ھے جو وھابیت كی ردّ میں لكھی گئی ھیں، ھم یھاں پر ان میں سے بعض كی طرف اشارہ كرتے ھیں:
1۔ مقالہٴ شیخ محمد ابن سلیمان كُردی، جو محمد بن عبد الوھاب كے استاد، رسالہ شیخ سلیمان بن عبد الوھاب برادر محمد بن عبد الوھاب (ظاھراً رسالہ سے مراد ”الصواعق الالٰھیہ“ ھے)
2۔ كتاب ”تجرید سیف الجھاد لمدعی الاجتھاد“ تالیف عبد اللہ ابن عبد اللطیف شافعی ،(یہ بھی محمد بن عبد الوھاب كے استاد ھیں)
3۔ ”الصواعق والرعود“ تالیف عفیف الدین عبد اللہ بن داوٴد حنبلی، اس كتاب پر بصرہ، بغداد، حلب، احساء اور دیگر ملكوں كے مشهور ومعروف علماء نے تقریظ لكھی ھے اور اس كتاب كی تائید كی ھے۔
4۔ رسالہ احمد ابن علی بصری شافعی۔
5۔ رسالہٴ عبد الوھاب بن احمد بركات شافعی مكّی۔
6۔ رسالہٴ”الصّارم الہندی فی عنق النجدی“ تالیف شیخ عطای مكی۔
7۔ رسالہٴ ”السیوف الصقال فی اعناق من انكر علی الاولیاء بعد الانتقال“ بیت المقدس كے ایك عالم دین كی تالیف۔
8۔ ”تحریض الاغنیاء علی الاستغاثة بالانبیاء والاولیاء“ تالیف عبد اللہ ابن ابراھیم مقیم طائف۔
9۔ ”الانتصار للاولیاء الابرار“ تالیف طاھر حنفی، اھل طائف، (بقول سید علوی ابن احمد حداد)
10۔ سید علوی بن احمد حدّاد كھتے ھیں كہ حرمین شریفین كے عظیم علماء، نیز بغداد، بصرہ، احساء، حلب، یمن اور دیگر اسلامی شھروں كے علماء نے وھابیت كی ردّ میں نظم اور نثر دونوں میں بھت سی كتابیں لكھیں، ان سب كو میں نے بحرین كے قبیلہ آل عبد الرزّاق كے ایك حنبلی شخص كے پاس دیكھا اور چونكہ میں سفر میں تھا اس وجہ سے ان كو لكھنا ممكن نھیں تھا لیكن میں نے ان سب كا مطالعہ كیا۔
11۔ كتاب ”سعادة الدارین“ تالیف شیخ ابراھیم سمنودی۔
12۔ ”غوث العباد ببیان الرشاد“ تالیف شیخ مصطفی حمامی مصری۔
13۔ ”النُّقول الشرعیہ فی الردّ علی الوھابیہ“تالیف شیخ حسن شطّی حنبلی دمشقی ۔
14۔ رسالہ ”توسل بالانبیاء والاولیاء“تالیف شیخ محمد حسنین مخلوف۔
15۔ ”المقالات الوافیة فی الردّ علی الوھابیة“ تالیف حسن خزبك۔
16۔ ”الاقوال المرضیة فی الرد علی الوھابیہ“ تالیف شیخ عَطا الكَسَم دمشقی۔ 443

بعض مذكورہ كتابوں سے كچھ اقتباسات
وھابیوں كی ردّ میں لكھی جانے والی كتابوں سے ھم نے پھلے كچھ چیزیں بیان كی ھیں یھاں پركچھ دیگر كتابوں سے بعض اقتباسات نقل كرتے ھیں:
دار العلوم كراچی كے مدرس عامر قادری صاحب كھتے ھیں :
ھم نے وھابیوں كا یہ عقیدہ سنا كہ غیر خدا كو پكارنا شرك ھے، ھم یہ كھتے ھیں كہ پیغمبر اكرم اور دیگر اولیاء كرام كو پكارنا جائز ھے، اب رھا دلیل كا مسئلہ تو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے استغاثہ كرنے كی دلیل عبد الرحمن بن سعد كی وہ روایت ھے كہ جب عبد اللہ ابن عمر كا پیر”بے حِس“هوگیا تو ان سے كسی نے كھا كہ جس كو تم سب سے زیادہ دوست ركھتے هو اس كو پكارو! تو انھوں نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كو پكارا، (اور ان كا پیر صحیح وسالم هوگیا) اور ایك روایت كے مطابق ابن عباس كا پیر بے حس هوا، اور جب انھوں نے پكارا ”یامحمداہ“ (تو ان كا پیر صحیح وسالم هوگیا) اب رھا ولی اللہ كو پكارنے كا مسئلہ تو ولی اللہ نبی كے تابع ھیں۔ (یعنی جس دلیل كے ذریعہ پیغمبر اور نبی سے استغاثہ كرنا صحیح ھے اسی طرح اس كے ولی سے استغاثہ كرنا صحیح اور جائز ھے) 444
پیغمبر اور اولیاء اللہ سے توسل كرنا مستحكم دلیلوں كے ذریعہ ثابت ھے، كیونكہ خداوندعالم نے فرمایا ھے: <وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَةَ> 445 (خدا تك پهونچنے كے لئے وسیلہ تلاش كرو)۔
وھابی كھتے ھیں كہ كسی كو بھی حق شفاعت حاصل نھیں،چاھے پیغمبر هو یا ولی، اور اگر كوئی ان كے لئے شفاعت كا قائل هو تو وہ مشرك اور ابوجھل كی طرح ھے۔
ھم كھتے ھیں كہ شفاعت كے بارے میں قرآن مجید كی یہ آیت دلالت كرتی ھے كہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:
<وَلاٰ تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَہُ اِلاّٰ لِمَنْ اَذِنَ لَہُ> 446 ۔
”اس كے یھاں كسی كی سفارش كام آنے والی نھیں ھے مگر وہ جس كو خود اجازت دیدے“۔
نیز ارشاد رب العزت ھے<مَاْ مِنْ شَفِیْعٍ اِلاّٰ مِنْ بَعْدِ اِذْنِہ. > 447
”كوئی اس كی اجازت كے بغیر شفاعت كرنے والا نھیں ھے“۔
قرآن كریم كی دلیلوں كے بعد احادیث نبوی كے ذریعہ شفاعت پر دلیل موجود ھے، مثلاً جناب عفان كی وہ روایت جس میں تین گروہ شفاعت كرنے والے ھیں: پھلے انبیاء ان كے بعد علماء اور ان كے بعد شہداء، (جامع الصغیر ج 2 ص 207)
اسی طرح یہ حدیث شریف: كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”شَفَاعَتِیْ لِاٴہْلِ الْكَبَائِرِ مِنْ اُمَّتی“(مشكوٰة ص 494)
میں اپنی امت كے گناہ گاروں كی شفاعت كروں گا۔
نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”وَشَفَاعَتِی لِاٴہْلِ الذُّنُوْبِ مِنْ اُمَّتی“(جامع الصغیر ج2 ص33)
میں اپنی امت كے اھل ذنوب (گناھگاروں) كی شفاعت كرونگا۔
لہٰذا ثابت یہ هوا كہ انبیاء كرام اور اولیاء اللہ قیامت كے دن گناھگاروں كی شفاعت كریں گے، اور جو لوگ وھابیوں كی طرح شفاعت كے منكر هوں گے ان كو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی شفاعت نصیب نھیں هوگی، كیونكہ ”فتح الباری“ میں یہ حدیث موجود ھے كہ ”مَنْ كَذَّبَ بِالشَّفَاعَةِ فَلاٰ نَصِیْبَ لَہُ فِیْها“ (جو شخص شفاعت كا انكار كرے اس كو شفاعت نصیب نھیں هوگی۔ 448
اسی طرح خواجہ محمد حسن خان صاحب ہندی حنفی اپنی كتاب ”رسالہ الاصول الاربعة فی تردید الوھابیة“ میں جو فارسی زبان میں ھے ہندوستان میں وھابیت كے طرفدار لوگوں كی كتابوں اور رسالوں اور دوسرے لوگوں كی كتابوں سے نقل كرتے هوئے كھتے ھیں:
” وھابیوں كے عقائد كی فھرست تقریباً 250 تك پہنچی ھے اور ان میں سے موصوف نے بعض كو بیان كیا ھے،449 ان میں سے كچھ یہ ھیں كہ یہ فرقہ توحید كو اپنے سے مخصوص كرتا ھے اور دوسرے تمام فرقوں كو مشرك فی التوحید جانتا ھے، اور ان كا عقیدہ یہ ھے كہ خداوندعالم كو جھت اور مكان سے پاك ومنزّہ جاننا ایك بدعت او رگمراھی ھے، اسی طرح ان كا یہ بھی عقیدہ ھے كہ تمام انبیاء احكام كی تبلیغ میں معصوم نھیں ھیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی تعظیم صرف اپنے بڑے بھائی كی تعظیم كے برابر هونی چاہئے، اور یہ كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبر میں حیات نھیں ركھتے، اسی طرح انبیاء اور اولیاء اللہ كچھ بھی قدرت نھیں ركھتے، اور وہ سنتے بھی نھیں ھیں۔ ان كا عقیدہ یہ بھی ھے كہ فقہ كی رائج كتابیں پڑھنے سے انسان كافر هوجاتا ھے لہٰذا ان كتابوں كا جلانا ضروری ھے،(مشكلات كے وقت پیغمبروں، شھیدوں اور فرشتوں كو پكارنا شرك ھے، لہٰذا اس زمانہ كے تمام لوگ كافر ھیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے روضہ مقدس كے سامنے بطور تعظیم كھڑا هونا شرك ھے۔ 450
اس كے بعد موصوف وھابیوں كے عقائد كی ردّ كرتے ھیں، اور قبور كی زیارت كے سلسلہ میںامام محمد بن ادریس شافعی كا قول نقل كرتے ھیں كہ حضرت امام موسیٰ ابن جعفرںكی قبر دعا كے قبول هونے میں مجرّب ھے، اور ذھبی كی كتاب” تذكرة الحفاظ“ سے نقل كرتے ھیں كہ اھل سنت كے بزرگ حضرات جب خراسان میں حضرت امام رضاںكی قبرپر زیارت كے لئے جاتے ھیں تو كس قدر خضوع، خشوع اور تضرع كرتے ھیں، حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی كتاب ”تہذیب التہذیب“ (جلد 7 ص388) میں اس طرح لكھتے ھیں:
”قَالَ (اِیِ الْحَاكِم) وَسَمِعْتُ اَبَابَكْرٍ مُحَمَّدِ بِنْ المُوٴمِّل یِقُوْلُ خَرَجْنَا مَعَ اِمَاِم الْحَدِیْثِ اَبِی بَكْرِ بْنِ خُزِیْمَة وَعَدِیْلِہِ اَبِی عَلِیٍّ الثَّقَفِی مَعْ جَمَاعَةٍ مِنْ مَشَایِخنَا وَهم اِذْ ذَاكَ مُتَوَافِرُوْنَ اِلٰی قَبْرِ عَلِیِّ ابْن مُوسٰی الرِّضَا ں بِطُوْس، قَالَ فَرَایْتُ مِنْ تَعْظِیْمِہِ یِعْنی اِبْنَ خُزِیْمَةِ لِتِلْكَ الْبُقْعَةِ وَتَوَاضِعِہ لَها وَتَضَرّعِہِ عِنْدَها مَاتَحَیَّرنَا“
(حاكم نیشاپوری) كھتے ھیں كہ میں نے محمد بن موٴمّل كو یہ كھتے سنا ھے : میں علم حدیث كے ماھر ابوبكر بن خزیمہ اور ابو علی ثقفی (ان كا علم بھی انھیں كی طرح ھے) اور ان كے بھت سے استاد كے ساتھ تھا جو حضرت امام رضا ں كی طوس میں زیارت كے لئے جارھے تھے اس وقت میں نے ابن خزیمہ كو اس قدر تعظیم، تواضع اور تضرع كرتے دیكھا كہ مجھے تعجب هونے لگا۔
مشهور ومعروف محدث ابو حاتم بن حبان حضرت امام علی الرضا ں كے زندگی نامہ میں اس طرح لكھتے ھیں :
” مَا حَلَّتْ بی شِدَّةٌ فی وَقْتِ مَقَامی بِطُوْسْ وَزُرْتُ قَبْرَ عَلِیِّ ابْنِ مُوْسٰی الرِّضَا(ع) صَلَٰواتُ اللّٰہِ عَلٰی جَدِّہِ وَعَلَیْہِ وَدَعُوْتُ اللّٰہَ تَعٰالیٰ اِزَالَتَها عَنِّی اِلاّٰ اَسْتُجِیْبَ لِی وَزَالَتْ عَنِّی تِلْكَ الشِّدَّةُ وَہَذَا شَئْيٌ جَرَّبتُہُ مِرَاراً۔ “
”جس وقت میں طوس میں تھا كبھی كوئی ایسا واقعہ پیش نہ آیا كہ میں پریشان رھا، كیونكہ میں حضرت امام علی ابن موسی الرضا+ كی قبر كی زیارت كرتا تھا اور خدا سے رفع مشكل كے لئے دعا كرتا تھا تو میری دعا قبول هوجاتی تھی اور میری مشكل بھی دور هوجاتی تھی اور میں نے اس چیز كا بار بار تجربہ كیا ھے“۔
مذكورہ كتاب كے موٴلف نے قبروں كی زیارت كے سلسلہ میں اور بھی دوسری چیزیں نقل كی ھیں مثلاً ابوحنیفہ اور معروف كرخی كی قبروں كی زیارت كے بارے میں بیان كیا ھے۔ 451
اسی طرح عراق كے مشهور ومعروف موٴلف اور شاعر جمیل صدقی زھاوی بھی ھیں، چنانچہ موصوف كھتے ھیں :
” محمد بن عبد الوھاب اپنے ان عقائد كو پیش كرنے سے پھلے ان لوگوں كے بارے میں جنھوں نے نبوت كا دعویٰ كیا مطالعہ كا بے حد شوقین تھامثل مسیلمہ كذاب، سجاح، اسود عنسی اور طُلیحہ اسدی وغیرہ جیسا كہ بعض مشهور ومعروف موٴلفین نے اس بات كو لكھا ھے كہ، ظاھراً وہ پیغمبری كا دعویٰ كرنا چاھتا تھالیكن اتنی جراٴت نہ كرسكا۔ اس كا طریقہ یہ تھا كہ اپنے شھر كے لوگوں كو انصار او رجو دوسرے شھروں سے اس كے پاس آتے تھے ان كو مھاجر ین كھتا تھا، اور جو شخص اس كے عقائد كو قبول كرلیتا تھا اگر اس نے اپنا واجب حج كرلیا ھے تو اس كو دوبارہ حج كرنے كا حكم دیتا تھا، كیونكہ اس نے پھلا حج اس صورت میں انجام دیا تھا جب وہ مشرك تھا، اور اسی طرح جو شخص اس كے مذھب میں وارد هوتا تھا اس كے لئے یہ شھادت دےنا ضروری تھا كہ میں پھلے كافر تھا اور اس كے ماں باپ بھی كافر مرے اور گذشتہ علماء بھی كافر تھے، اور اگر وہ ان باتوں كی شھادت نھیں دیتا تھا تو اس كو قتل كردیا جاتا تھا۔
پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی امت میں اپنے سے چھ سو سال پھلے والے تما م لوگوں كو كافر سمجھتا تھا، چاھے كوئی كتنا بھی بڑا متقی اور پرھیزگار ھی كیوں نہ هو، لیكن اگر اس كی پیروی نھیں كرتا تھا تو اس كو كافر اور مشرك شمار كیا جاتا تھا اور اس كی جان ومال سب حلال تھا، اور اگر كوئی اس كی پیروی كا دم بھرلیتا تھا تو چاھے كتنا بھی فاسق وفاجر هو اس كو مومن حساب كیا جاتا تھا۔
اسی طرح محمد بن عبد الوھاب كوشش كرتا تھا كہ كسی طرح پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی عظمت كو كم رنگ كرے، اس كے بعض اصحاب نے یہ بات نقل كی ھے كہ وہ كھتا تھاكہ میرا یہ عصا پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھتر ھے كیونكہ پیغمبر اس وقت دنیا میں نھیں ھیں اور كسی كو كوئی فائدہ نھیں پهونچاسكتے (نعوذ باللہ) جبكہ یہ بات مذاھب اربعہ كے نزدیك كفر ھے۔
وہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر شب جمعہ اور گلدستہ اذان پر صلوات بھیجنے كو منع كرتا تھا اور اگر كوئی آنحضرت پر صلوات بھیجتا تھا تو اس كو سخت سے سخت سزا دی جاتی تھی، اور اس كی دلیل یہ تھی كہ یہ سب كچھ توحید كے منافی اور مخالف ھے۔
اسی نظریہ كے تحت اس نے ان كتابوں كو جلا ڈالا جن میں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوات كے جائز هونے پر دلیل دی گئی تھی، مثلاً ”دلائل الخیرات“ تالیف محمد بن سلیمان جزولی۔
اسی طرح فقہ وتفسیر اور احادیث كی ان كتابوں كو بھی جلا ڈالا جو اس كے عقیدہ كے خلاف تھیں، اور اپنے اصحاب كو اپنی سمجھ كے مطابق قرآن كی تفسیر كرنے كی اجازت دیدیتا تھا۔ 452 (جبكہ تفسیر بالرائے سبھی فرقوں كے نزدیك ناقابل قبول ھے)
اس كے بعد زھاوی نے وھابیوں كے عقائد كی ردّ میں ان كے عقل وقیاس اور اجماع (جس كو ابوحنیفہ اور دوسرے لوگوں نے تسلیم كیا ھے) سے انكار، كسی مجتہد كی تقلید كرنے والوں دوسرے مسلمانوں كو كافر كہنے اور پیغمبروں اور اولیاء اللہ سے توسل كی مخالفت اور ان كے دوسرے عقیدوں كا تفصیل كے ساتھ مدلل جواب دیا ھے۔
سید احمد زینی دحلان مفتی مكہ معظمہ نے اپنی كتاب ”الدرر السنیہ“ میں محمد بن عبد الوھاب كے عقائد كو ردّ كرتے هوئے اس سے هوئی بحث وگفتگو كو ذكر كیا ھے، مثلاً:
شیخ محمد بن عبد الوھاب مسجد درعیہ میں خطبہ دیتا ھے اور ھر خطبہ میں كھتا ھے كہ پیغمبر اكرم سے توسل كرنا كفر ھے۔
خود محمد بن عبد الوھاب كے بھائی شیخ سلیمان نے بھی اس كے نظریات كی شدت سے مخالفت كی ھے، ایك دن شیخ سلیمان نے محمد بن عبد الوھاب سے اسلام كے اركان كے بارے میں سوال كیا، اور جب اس نے جواب دیا كہ پانچ ھیں تو شیخ سلیمان نے كھا تو پھر تو نے اركان اسلام كو چھ كیوں قرار دیا؟! چھٹا ركن تو نے یہ كھاھے كہ اگر كوئی تیری پیروی نہ كرے تو وہ كافر ھے۔ (1)
ایك روز كسی شخص نے اس(محمد بن عبد الوھاب) سے سوال كیا:ماہ رمضان المبارك كی ھر رات میں كتنے لوگ آتش جہنم سے آزاد هوتے ھیں؟ تو اس نے كھا : ایك لاكھ انسان، اور ماہ رمضان كی آخری تاریخ میں اتنی تعداد میں آزاد هوتے ھیں جتنے پورے مھینہ میں آزاد هوئے ھیں، یہ سنكر اس شخص نے كھا كہ تیری پیروی كرنے والے تو ان كے یك صدم 453 بھی نھیں ھیں، پھر یہ جہنم كی آگ سے آزادهونے والے كون لوگ ھیں ؟ تو تو صرف اپنے پیروكاروں كو مسلمان سمجھتا ھے؟۔
ایك قبیلہ كے سردار نے جو شیخ محمد بن عبد الوھاب كو پریشان كرنے كی طاقت نھیں ركھتا تھا، اس سے سوال كیا كہ كوئی تیرا قابل اعتماد شخص جس كو تو سچّا مانتا ھے ،اگر وہ تجھے خبر دے كہ فلاں پھاڑ كے پیچھے تیری جان كے دشمن چھپے هوئے ھیں اور وہ تجھ كو قتل كرنا چاھتے ھیں، او رتو ایك ہزار لوگوں كو ان سے لڑنے كے لئے بھیجے، لیكن وہ واپس آكر یہ كھیں كہ وھاں تو كوئی بھی نھیں ھے، تو تو كس كی بات كو صحیح مانے گا اس ایك شخص كی خبر كو، یا ان ہزار لوگوں كی خبر كو؟!
اس وقت محمد بن عبد الوھاب نے كھا میں ان ہزار لوگوں كی بات كو مانوں گا، اس وقت اس شخص نے كھا كہ تمام كے تمام علمائے نجد چاھے وہ زندہ هوں یا مردہ، سبھی نے اپنی اپنی كتابوں میں تیری باتوں كی تكذیب اور ردّ كی ھے، لہٰذا تجھے ان كی باتوں كو ماننا چاہئے، اس بات كو سن كر محمد بن عبد الوھاب لاجواب هوگیا اور كچھ جواب نہ بنا۔
ایك شخص نے اس سے سوال كیا كہ جس دین كی تم دعوت دیتے هو، یہ متصل ھے یا منفصل؟اس وقت محمد بن عبد الوھاب نے جواب دیا كہ میرے استاد اور دوسرے تمام استاد آج سے چھ سو سال پھلے سے مشرك تھے، اس وقت اس شخص نے جواب میں كھا تو گویا تیرا یہ دین منفصل (جدا) هوا، نہ كہ متصل، تم نے یہ دین كس سے حاصل كیا؟ 454
زینی دحلان اپنی كتاب میں ایك دوسری جگہ لكھتے ھیں كہ اس (محمد بن عبد الوھاب) كے برے كاموں میں سے ایك یہ تھا كہ اس نے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كو ممنوع قرار دیا لیكن اس كے باوجود ”احساء“ كے لوگ قبر رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے لئے گئے اور جب شیخ محمد بن عبد الوھاب كو اس بات كی خبر پهونچی تو چونكہ ان لوگوں كا واپسی كا راستہ شھر ”درعییہ“ (جھاں پر محمد بن عبد الوھاب رھتا تھا) سے ھی تھا اس نے حكم دیا كہ ان زائرین كی داڑھی مونڈ دی جائے (چنانچہ ان سب كی داڑھی مونڈ دی گئی) اور ان لوگوں كوان كی سواری پر الٹا بٹھا كر درعیہ سے احساء تك پہنچایا گیا۔
محمد بن عبد الوھاب نے سنا كہ ایك گروہ جو اس كی پیروی نھیں كرتا، بھت دور دراز علاقہ سے زیارت او رحج كے لئے روانہ هواھے، اور اس كا راستہ درعیہ شھر سے ھی ھے،جب وہ گروہ درعیہ شھر كے قریب پہنچا تو انھوں نے سنا كہ شیخ محمد بن عبد الوھاب اپنے ایك مرید سے كہہ رھاتھاھے كہ مشركین (زائرین قبر رسول) كو مدینہ جانے دو، اور مسلمانوں (وھابیوں) كو ھمارے ھی پاس رہنے دو۔
وہ (محمد بن عبد الوھاب) پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوات بھیجنے سے منع كرتا تھا، اور اگر كوئی شخص آنحضرت پر صلوات بھیجتا تھا اور اس كی آواز اس كے كانوں میں پهونچ جاتی تھی تو بھت ناراض هوتا تھا، اور اس كو بھت سخت سزا دیتا تھا، یھاں تك كہ ایك نابیناشخص جو بھت ھی دیندار موٴذن تھا اور اس كی آواز بھی بھت اچھی تھی اس نے اس كی باتوں كو نھیں مانا اور پیغمبر اكرم پر صلوات بھیجی تو اس كو قتل كردیا گیا۔ 455

شیخ سلیمان (برادر محمد بن عبد الوھاب) كی چند باتیں
جیسا كہ ھم نے پھلے عرض كیاكہ محمد بن عبد الوھاب كے بھائی اور اس كے باپ اس كی بھت زیادہ مخالفت او راس سے مقابلہ كیا كرتے تھے، اسی وجہ سے شیخ سلیمان كو درعیہ سے مدینہ كی طرف ہجرت كرنا پڑی كیونكہ جب ان كے اختلافات زیادہ بڑھے تو شیخ سلیمان كو اپنی جان كا خطرہ پیداهوگیا تھا،چنانچہ وھاں سے مدینہ منورہ چلے گئے، اور مدینہ جاكر شیخ سلیمان نے ”الصواعق الالہٰیہ“ لكھی اور شیخ محمد بن عبد الوھاب كے پاس بھیجی، شیخ سلیمان كی بعض باتیں ھم نے گذشتہ مطالب میں بیان كیں ھیںیھاں پرموصوف كی چند دیگر باتیں ذكر كرتے ھیں:
1۔ ھر مذھب كے علماء نے ان اقوال اور افعال كو بیان كیا ھے جن كے ذریعہ ایك مسلمان مرتدّ هوجاتا ھے، لیكن كسی نے بھی یہ نھیں كھا كہ جس نے غیر خدا كے لئے نذر كی یا غیر خدا سے حاجت طلب كی وہ مرتد هوجائے گا، اسی طرح كسی نے بھی ایسے شخص كے مرتد هونے كا حكم نھیں لگایا جس نے غیر خدا كے لئے قربانی كی هو، یا كسی كی قبر كو مس كیا یا قبر كی مٹّی كو (بعنوان تبرك) اٹھایاهو، اور جس طرح تم كھتے هو اگر ایساھی ھے تو دلیل لاؤ اور بیان كرو، كیونكہ علم كو چھپانا جائز نھیں ھے، لیكن تم نے اپنے گمان كی بناپر عمل كیا ھے اور مسلمانوں كے اجماع سے خارج هوگئے هو، اور تم نے اپنے اس قول سے كہ جو شخص بھی مذكورہ اعمال بجالائے وہ كافر ھے اور اگر كوئی ان اعمال كو بجالانے والے كو كافر نہ جانے وہ بھی كافر ھے، تو اس طرح تو تم نے تمام امت محمدی كو كافر قرار دیدیا، جبكہ تمام خاص وعام جانتے ھیں كہ یہ اعمال (نذر، قربانی اور زیارت وغیرہ) سات سو سال سے تمام اسلامی ممالك میں رائج ھیں چاھے اھل علم ان كاموں كو انجام نہ دیتے هوں لیكن اس طرح كے اعمال بجالانے والوں كو كافر نھیں كھتے، اور ان پر مرتد كے احكام جاری نھیں كرتے، بلكہ ان پر مسلمانوں كے احكام جاری كرتے ھیں۔
تمھارے قول كے مطابق تمام اسلامی شھر بلاد كفر اور مرتدین كا شھر ھے، یھاں تك كہ تم نے حرمین شریفین كو بھی بلاد كفر كا نام دیدیاھے۔ جبكہ صحیح احادیث كے مطابق جس میں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے واضح طور پر ارشاد فرمایا كہ یہ دو (مكہ معظمہ اور مدینہ منورہ) شھر ھمیشہ اسلامی شھر ھیں، اور ان شھروں میں بتوں كی پوجا نھیں هوگی، اور آخر الزمان میں جب دجّال تمام شھروں پر قبضہ كرلے گا وہ بھی ان دونوں شھروں میں داخل نھیں هوسكتا، لیكن تمھاری نظر میں تمام شھر دار الحرب (جن سے جنگ كرنا جائزھے) ھیں، او ران كے رہنے والے كافر ھیں اور تم سب كو بت پرست جانتے هو او رتمام امت اسلامی كو مشرك اوردین اسلام سے خارج سمجھتے هو، ”فَاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ “456
2۔ ھر وہ خاص وعام جو كہ احادیث اور روایات سے تھوڑی بھت آشنائی ركھتا ھے اس كے لئے یہ بات واضح ھے كہ وہ كام جن كی وجہ سے تم اسلامی ممالك كو بلاد كفر اور ان كے رہنے والوں كو كافر سمجھتے هو،اگر یہ اعمال اسی طرح ھیں جس طرح تم كھتے هو، تو پھر یہ بھت بڑی بت پرستی هوئی،اور ان شھروں كے رہنے والے كافر هوگئے، اور تمھارا عقیدہ ھے جو شخص ان كو كافر نہ سمجھے وہ بھی كافر ھے، (تو پھر اس طریقہ سے كوئی مسلمان ھی نھیں بچا) جبكہ یہ بات معلوم ھے كہ علماء اور امراء نے كسی كو بھی كافر نھیں كھا اور ان پر مرتد كے احكام جاری نھیں كئے۔
جبكہ مذكورہ اعمال اكثر اسلامی ممالك میں بطور آشكار هوتے ھیں اور ایك كثیر تعداد نے اس راستہ كو اختیار كیا ھے اور تمام شھروں سے ان مقدس مقامات كاسفر كرتے ھیں، ان سب كے باوجود كوئی ایك عالم دین یا اھل شمشیرنے تمھاری طرح اپنی زبان نھیں كھولی، تمام علماء نے ان لوگوں پر اسلام كے احكام جاری كئے ھیں۔
لہٰذا اگر ان اعمال كے مرتكب تمھارے گمان كے مطابق كافر او ربت پرست هوں اور علماء اور حكام نے ان پر اسلام كے احكامات جاری كئے هوں، تو اس بات كا نتیجہ یہ ھے كہ وہ علماء كافر هوئے، كیونكہ جو شخص اھل شرك اور كافر لوگوں كو كافر نہ جانے وہ خود كافر ھے، اور اس صورت میں وہ امت محمدی میں شمار نھیں هوگا اور یہ بات حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے مخالف ھے۔ 457
3۔ شیخ سلیمان كی پوری كتاب میں اس بات پر زور دیا گیا ھے كہ شیخ محمد جو عام مسلمانوں كو (اپنے مریدوں كے علاوہ) كافر قرار دیتا ھے اس كو ردّ كریں چنانچہ اس سلسلہ میں 52 حدیثیں اس مضمون كی بیان كی ھیں جو اس بات كی طرف اشارہ كرتی ھیں كہ مسلمان هونے كا معیار زبان پر كلمہ شھادتین جاری كرنا اور ضروریات دین كو بجالانا ھے، اور اسی طرح ا ن حدیثوں میں مسلمانوں كو كافركہنے سے روكا اور ڈرایاگیا ھے اور اس سلسلہ میں صحاح ستہ اور دیگر مشهور كتابوں سے احادیث نقل كی ھیں۔ 458

وھابی مذھب اور حنبلی مذھب
یہ بات ظاھر ھے اور اس میںكسی قسم كا شك نھیں ھے كہ وھابی مذھب، حنبلی مذھب سے بنا ھے اور وھابی رھبر عام طور پر ان لوگوں میں سے تھے كہ جنھوں نے قبروں كی زیارت اور پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر اولیاء اللہ سے توسل او راستغاثہ كو ممنوع قرار دیا مثلاً ابو محمد بربَھاری، ابن بطّہ، ابن تیمیہ، اور اس كا مشهور ومعروف شاگر ابن قیم جوزی، محمد بن عبد الوھاب 459 یہ سب كے سب حنبلی علماء میں شمار هوتے تھے، اسی وجہ سے وھابی اپنے كو اھل سنت والجماعت اور حنبلی مذھب میں شمار كرتے ھیں، لیكن ڈاكٹر عبد الرحمن زكی كے نظریہ كے مطابق وھابی حضرات حنبلیوں سے دوطریقہ سے فرق ركھتے ھیں پھلا یہ كہ اھل سنت كے چاروں اماموں (امام مالك، ابوحنیفہ، شافعی اور احمد ابن حنبل) كے علاوہ كسی دوسرے كی تقلید كو ممنوع قرار دیتے ھیں اور دوسرے یہ كہ دیگر مذھب منجملہ شیعہ حضرات كے مذھب كو قبول نھیں كرتے۔
دوسری بات یہ كہ وھابی (جیسا كہ ھم نے پھلے بھی ذكر كیا ھے) بعض فرعی مسائل میں ھر اس رائے پر یقین كرتے ھیں اور اس پر عمل بھی كرتے ھیں جس میں قرآن وغیر منسوخ سنت سے دلیل موجود هو اور اس كے مقابلہ میں اس سے مضبوط كوئی مخصص اور معارض بھی نہ هو اور (احمد ابن حنبل كے علاوہ) كسی ایك امام سے صادر هو، تو اس مسئلہ میں احمد ابن حنبل كو چھوڑ دیتے ھیں۔
ڈاكٹر عبد الرحمن زكی مذكورہ بات كو آگے بڑھاتے هوئے كھتے ھیں كہ وھابی مذھب بھی دوسرے مذھبی، سیاسی، اجتماعی طریقوں سے متاٴثرهوا ھے ۔ متاٴثرهونے سے ان كی مراد مذھب میں اختلاف اور اس كی تعلیم كوسمجھنا اور اس كے نظریات كو جاری كرنا ھے۔
چنانچہ ھم دیكھتے ھیں كہ عبد العزیز آل سعود بادشاہ جو وھابیوں كا امام بھی تھا، 1934 ھ میں جب اس كی جنگ یمن كے امام یحيٰ (زیدی مذھب) سے هوئی، اور جنگ كے بعد دونوں نے آپس میں اخوت اور بھائی چارگی كا عہد نامہ كیا اور اس عہد نامہ كو قبول بھی كیا كہ یحيٰ بادشاہ یمن كا شرعی حاكم ھے، یہ اعتراف كرنا گویا زیدی مذھب كا اعتراف كرنا ھے۔
قارئین كرام !آپ نے ملاحظہ فرمایا كہ مذكورہ اعتراف وھابیوں كی اس بات كے برخلاف ھے كیونكہ یہ لوگ مذاھب اربعہ كے علاوہ كسی كو نھیں مانتے ۔ 460
البتہ وھابیوں میں گذشتہ دو فرق كے علاوہ اور بھی دوسرے فرق پائے جاتے ھیں، منجملہ یہ كہ احمد بن حنبل اور اس كے پیروكاربھی بعض ان چیزوں كی مخالفت كرتے ھیں جن كی وھابی مخالفت كرتے ھیں، لیكن كبھی كبھی حنبلیوںنے مثلاً بر بھاری كے زمانہ میں بھت زیادہ شدت عمل اختیار كی، لیكندوسرے اسلامی فرقوں كے كفر كا فتویٰ نھیں دیا، اور اسلامی شھروں كو بلاد كفر سے تعبیر نھیں كیا، اور كسی ایسے شخص كو كافر اور مشرك نھیں كھا جو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر یا دیگر اولیا ء اللہ كی قبروں كی زیارت كے لئے جائے۔ اسی طرح انھوں نے نماز جماعت كے ترك كرنے والوں كے قتل كا حكم صادر نھیں كیا۔
حُسن اتفاق یہ ھے كہ زمانہ كے ساتھ ساتھ ان كے یہ خطرناك نظریات(جس كے نتائج میں سے ایك یہ ھے كہ مسلمان ایك دوسرے سے جدا هوگئے اور دوسرے اسلامی ممالك كو دار الكفر شمار كرنے لگے) كم بیان هوتے ھیں، اور اس وقت سعودی عرب كے اخباروں میں دنیا بھر كے مسلمانوں كو چاھے وہ عرب هوں یا عجم، سفید هوں یا كالے، سب كو مسلمان بھائی كے نام سے یاد كیا جاتا ھے۔ 461 اور ان آخری چند سالوں میں حجاج بیت اللہ الحرام كے ساتھ جو برتاوٴ كیا جاتا ھے وہ ھماری بات كی تائید ھے ،(كہ ایك دوسرے كو مسلمان بھائی كہہ كر خطاب كیا جاتا ھے۔ )

محمد بن عبد الوھاب كی اولاد
محمد بن عبد الوھاب كے چار بیٹے تھے جن كے نام عبد اللہ، حسن، حسین اور علی تھے، جنھوں نے اس كے مرنے كے بعد اپنے باپ كے عقائد اور نظریات كو پھیلانے كے لئے قیام كیا، اور ان كو ”اولاد شیخ“ كھا جاتا تھا ان میں سب سے بڑا بیٹا عبد اللہ تھا اس كے بھی دو بیٹے باقی بچے، سلیمان اور عبد الرحمن، سلیمان كا كٹّر پن اپنے باپ سے بھی زیادہ تھا، آخر كار1233ھ میں جیسا كہ بعد میں تفصیل بیان هوگی ابراھیم پاشا كے ھاتھوں قتل كردیا گیا اور اس كے بھائی عبد الرحمن كو مصر سے شھر بدر كردیا گیا جو ایك مدت كے بعد انتقال كر گیا۔
حسین بن محمد بن عبد الوھاب سے عبد الرحمن باقی بچا وہ وھابیوں كی شروع كی حكومت میں ایك مدت تك مكہ كا قاضی رھا ۔ اس نے تقریباً سو سال كی عمر پائی ۔ شیخ كی اكثر نسل اسی حسین كے ذریعہ باقی ھے، جو اس وقت (یعنی زینی دحلان كے زمانہ میں تقریباً سو سال پھلے) درعیہ شھر میں مقیم ھیں جن كو اولاد شیخ كھا جاتا ھے۔ 462

--------------------------------------------------------------------------------

272. رسالہ ہدیہٴ طیبہ ص 82، ورسالہ عقیدة الفرقة الناجیہ ص 19۔
273. اس كی یہ بات ظاھراً ابن تیمیہ كی بات سے ماخوذ ھے كہ ابن تیمیہ نے بھی اسی بات كو كتاب العبودیہ ص 155 میں كھا ھے۔
274. ثلاث رسائل ص 6، شیخ عبد الرحمن آل شیخ نے كھا ھے كہ اگر كوئی خدا كی محبت میں كسی دوسرے كو خدا كا شریك قرار دے، (یعنی كسی دوسرے سے بھی محبت كرے) تو گویا اس نے دوسرے كو خدا كی عبادت میں شریك قرار دیا ھے اور اس كو خدا كی طرح مانا ھے، اور یہ وہ شرك ھے جس كو خدا معاف نھیں كرے گا، اگر كوئی شخص صرف خدا كو چاھتا ھے یاكسی دوسرے كو خدا كے لئے چاھتا ھے تو ایسا شخص موحد ھے، لیكن اگر كوئی شخص كسی دوسرے كو خدا كے ساتھ دوست ركھتا ھے تو ایسا شخص مشرك ھے، (فتح المجید ص 114)
275. آلوسی ص 45۔
276. اس سلسلہ میںمرحوم علامہ حاج سید محسن امین ۺفرماتے ھیں كہ اس میں كوئی شك نھیں كہ مطلق طور پرغیر خدا سے طلب حاجت كرنا یا ان كو پكارنا، ان كی عبادت نھیں ھے اور اس میں كوئی ممانعت بھی نھیں ھے، اس بناپر اگر كوئی شخص كسی دوسرے كو پكارتا ھے تاكہ اس كے پاس جائے یا اس كی مدد كرے یا كوئی چیز اس كو دے یا اس كی كوئی ضرورت پوری كرے، اس طرح كے كام غیر خدا كی عبادت حساب نھیں هوتے، اور كسی طرح كا كوئی گناہ بھی نھیں ھے، اور آیہ شریفہ <فَلاٰ تَدْعُوامَعَ اللّٰہ اَحَداً ۔ > (جو وھابیوں كی دلیل ھے)كامقصد مطلق دعا نھیں ھے بلكہ جس چیز سے نھی كی گئی ھے وہ یہ ھے جس سے كوئی چیز طلب كررھے هو یا جس كو پكار رھے هو اس كو خدا كی طرح قادر اور مختار نہ مانو، (كشف الارتیاب ص 282)
277.
278. كشف الشبھات ص 40۔
279. تاریخ نجد ص 80۔
280. سورہ آل عمران آیت 75، امان نامہ كی عبارت تاریخ وھابیان میں بیان هوگی۔
281. حافظ وھبہ ص 346، شوكانی كی تحریر كے مطابق اھل مكہ بھی وھابیوں كو كافر كھتے تھے، (البدر الطالع ج2 ص7)
282. تاریخ المملكة العربیة السعودیة جلد اول ص 43۔
283. جزیرة العرب فی القرن العشرین ص 339، نجدی مورخ شیخ عثمان بن بشر اكثر مقامات پر وھابیوں كو مسلمانوں سے تعبیر كرتا ھے گویا فقط وھی لوگ مسلمان ھیں اور دوسرے مسلمان كافر یا مشرك ھیں، (عنوان المجد نامی كتاب میں رجوع فرمائیں) اسی طرح وہ كھتا ھے كہ 1267ھ میں قطر كے لوگوں كی فیصل بن تركی كے ھاتھوں پر بیعت اسلام اور جماعت میں داخل هونے كی بیعت تھی، (ج2 ص 132)
284. فتح المجید ص 110۔
285. جزیرة العرب فی القرن العشرین ص 339،”ابن وردی“ كھتا ھے كہ جس وقت مصر كے بادشاہ نے مغلوں كی كثرت سپاہ كو دیكھا تو اپنی زبان سے یہ جملہ كھا ”یا خالد بن ولید“، اس وقت ابن تیمیہ صاحب بھی تشریف ركھتے تھے انھوں نے اس كام سے روكا او ركھا كہ یہ نہ كہہ، بلكہ ”یامالك یوم الدین“ كہہ۔ (جلد 2ص 411)
286. جزیر ة العرب ص 341۔
287. تاریخ المملكة العربیہ، جلد اول ص 51۔
288. البد ر الطالع ج 2 ص 5،6۔
289. كتاب التوحید ص 121۔
290. كتاب التوحید ص 425، غیر خدا كی قسم كے بارے میں ابن تیمیہ كے عقائد كے ذیل میں وضاحت كی گئی ھے۔
291. فتح المجید ص 436۔
292. فتح المجید ص 464، یہ حدیث مسند احمد، مسند ابوھریرہ جلد دوم ص 243 میں اس طرح ھے: ”اِذَا دَعَا اَحَدُكُمْ فَلاٰیَقُلْ:اللھم اِغْفِرْ لِی اِنْ شِئْتَ وَلٰكِنْ لِیَعْزَمْ بِالْمَسْئَالَةِ فَاِنَّہُ لاٰ مُكْرِہ لَہُ“
293. فتح المجید ص 466۔
294. فتح المجید ص 475۔
295. ھٰذی ھی الوھابیہ ص 74،مطبوعہ بیروت۔
296. كتاب تطھیر الاعتقاد تالیف شیخ محمد بن عبد الوھاب، ص 36، اور اس كے نو رسائل، ص 45، پر بھی یہ بات بیان كی گئی ھے۔
297. بنقل از تطھیر الاعتقاد ص 30، 41۔
298. نقل از منشور سلطان عبد العزیز، بتاریخ1323ھ، شیخ محمد بن عبد الوھاب كھتا ھے كہ مسلمان كو چاہئے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی شفاعت كو خدا سے طلب كرے، مثلاً اس طرح كھے:” اَللّٰهم لاٰ تَحْرِمْنِی شَفَاعَتَہُ، اَللّٰهم شَّفِعہُ لِی“۔ (كشف الشبھات ص 44)
299. نوعدد رسائل عملیہ سے منقول ص 110،114۔
300. نقل از فتح المجید ص 414۔
301. كتاب التوحید ص 141،142۔
302. فتح المجید، شرح كتاب توحید محمد بن عبد الوھاب ص 106۔
303. جزیرة العرب فی القرن العشرین ص 341۔
304. اصحاب كے گذشتہ عمل سے مراد ابوبكر كی عرب كے قبیلوں سے جنگ ھے كہ جب بعض لوگ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی وفات كے بعد زكوٰة دینے سے انكار كردیا تو جناب ابوبكر نے ان كو مرتد كھا، اور ان سے جنگ كی۔
305. منجملہ ثلاث رسائل، مخصوصاً كشف الشبھات ص 50اوراس كے بعد تك۔
306. مسند احمد ابن حنبل جلد اول ص 19، 35 مسند عمر۔
307. الاسلام عقیدة وشریعة ص 30۔
308. منقول از امام باقر .
309. قول ابوحنیفہ۔
310. قول ابو الحسن اشعری۔
311. قول ابن تیمیہ۔
312. قول اوزاعی۔
313. قول ابن عینیہ۔
314. قول ابو الحسن رویانی۔
315. قول سفیان ثوری۔
316. ”مَنْ مَاتَ وَهو یَعْلَمُ اَنْ لاٰ اِلَہَ اِلاّٰ اللّٰہ، دَخَلَ الْجَنَّةَ“ نقل از مختار صحیح مسلم وشرح نووی طبع مصر، ناشر سعادت۔
317. كتاب الاسلام بین السنة والشیعہ جلد اول ص 33 تا 36 كا خلاصہ، بنقل از مختار صحیح مسلم اور شرح نووی ص84، 88، 47، 51، كی روایات۔
318. الصواعق الا لٰھیہ ص 55، تا 63۔
319. سورہ فجر آیت 23۔
320. سورہ ق، آیت 15، اس سلسلہ میں ابن تیمیہ كی كتابوں اور رسالوں خصوصاً رسالہ العقیدة الحمویہ كی طرف رجوع فرمائیں۔
321. تاریخ نجد ص 90،91۔
322. تاریخ نجد ص 48، معلوم نھیں خداوندعالم كو كس طرح بغیر كیفیت اور احاطہ كے دیكھا جاسكتا ھے؟
323. سورہ مائدہ آیت 64۔
324. سورہ هود آیت 37۔
325. سورہ بقرہ آیت 109۔
326. كتاب التوحید فتح المجید كے ساتھ ص 520،521۔
327. سورہ شوریٰ آیت 11۔
328. فرقہ جھمیہ، جُهم بن صفوان (دوسری صدی كے نصف اول)كے پیروكار ھیں، جو جبر، ایمان اور صفات خدا كے بارے میں مخصوص عقائد ركھتے ھیں
329. الفتاوی الكبریٰ، ج 2ص 296، 298 ۔
330. سورہ نساء آیت 163،ثلاث رسائل ص 22، مختصر سیرة الرسول ص 6، عقیدة الفرقة الناجیہ ص 33، البتہ وھابیوں كے علاوہ بعض دوسرے فرقے بھی اس طرح كا عقیدہ ركھتے ھیں۔
331. ثلاث رسائل ص 8۔
332. جزیرة العرب فی القرن العشرین ص 339،340۔
333. فتح المجد ص 173۔
334. ”اُمُّ القریٰ“ اخبار، مطبوعہ مكہ، بتاریخ 11 ذی الحجہ1362ھ، شیخ محمد بن عبد الوھاب كھتا ھے كہ اصحاب پیغمبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے زمانہ میں آپ كے وسیلہ سے دعا طلب كرتے تھے لیكن آپ كی وفات كے بعد بالكل كسی نے یہ كام نھیں كیا، مثلاً كسی نے بھی آپ كی قبر كے پاس دعا نھیں كی، یھاں تك كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے پاس خدا كو پكارنے سے بھی انكار كیا ھے۔ (كشف الشبھات ص 59)
335. فتح المجید ص 175۔
336. سورہ زمر آیت 3۔
337. كشف الشبھات ص 47،48۔
338. الفتوحات الاسلامیہ ج2 ص 258۔
339. كشف الارتیاب ص 300۔
340. صحیح بخاری ج8 ص 82،83۔
341. فتح المجید، ص 215۔
342. زمان جاھلیت كے عرب كے دوبتوں كا نام۔
343. كشف الشبھات ص 34۔
344. كشف الارتیاب ص 343۔
345. سورہ آل عمران آیت 34۔
346. سورہ یوسف آیت 25۔
347. كشف الارتیاب ص 344۔
348. الفتاوی الكبریٰ، ج 2ص 296، 298 ۔
349. شرح جامع صغیر ج 2 ص 57،58۔
350. بتاریخ 11ذی الحجہ 1362ھ، اسی طرح ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوھاب كی كتابوں میں متعدد مقامات پر سید المرسلین اور سیدة نساء العالمین استعمال هوا ھے۔
351. فتح المجید ص 257۔
352. جزیرة العرب فی القرن العشرین، ص 340، ھم انشاء اللہ وھابیوں كی تاریخ كے ضمن میں یہ بات بیان كریں گے كہ تقریباً ڈیڑھ صدی پھلے چونكہ وہ لوگ مكہ او رمدینہ پر قابض تھے اسی وقت انھوں نے بعض قبروں كی كی عمارتیں مسمار كردیں۔
353. فتح المجید ص 227۔
354. كتاب التوحید ص 246،فتح المجید كے ساتھ۔
355. كشف الارتیاب ص 66۔
356. كشف الارتیاب ص 424۔
357. ہدیہٴ طیبہ، ص 83۔
358. مسائل الجاھلیہ ص 50۔
359. فتح المجید شرح كتاب توحید محمد بن عبد الوھاب، ص 145، 163، 164۔
360. بخاری صاحب نے اپنی صحیح (ج2ص 122)میں یوں تحریر كیا كہ ولید بن عبد الملك كے زمانہ میں جب روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی دیواریں گر گئیں تو اس نے اس كو دوبارہ بنوایا۔
361. الفتاوی الكبریٰج4 ص449۔
362. كشف الارتیاب، ص 358، بقیع میں موجود قبریں جو قدیم الایام سے موجود تھیں، اور مسمار هونے پھلےائمہ علیهم السلام كی قبروںكی وضعیت ”وھابیوں كی تاریخ“ كے تحت بیان هوگی، انشاء اللہ۔
363. مروج الذھب، ج2 ص 285، 287،332ھ كی تالیف۔
364. رحلہٴ ابن جبیر ص 154، 228،229۔
365. وفاء الوفاء ج 3 ص 912، ام حبیبہ بنت ابوسفیان، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی بیوی تھیں، اور صخر ابوسفیان كا نام ھے۔
366. سنن ابن ماجہ جلد اول ص 498۔
367. سنن ابن ماجہ جلد اول ص 498۔
368. استیعاب ،ابن عبد البر، جلد اول ص 26۔
369. صاحب فتح المجید (محمد بن عبد الوھاب كی كتاب توحید كی شرح میں) اس طرح كھتا ھے: ”لَوْذُبِحَ لِغَیْرِ اللّٰہِ مُتَقَرِّباًاِلَیْہِ یَحْرُمُ“ (اگر كسی غیر خدا كے لئے قربانی كیا جائے اور اس قربانی سے اس غیر خدا كا تقرب مقصود هو تو وہ قربانی حرام هوجائے گی)اور اس كتاب كے حاشیے میں كھتا ھے كہ یہ شرك بھی شرك اكبر ھے، جبكہ یہ بات معلوم ھے كہ وہ قربانی جو مسلمان قبور كے نزدیك كرتے ھیں اس سے ان كا قصد صرف خوشنودی خدا هوتی ھے، صاحب قبر كا تقرب مقصود نھیں هوتا۔
370.كشف الارتیاب ص 346، 424۔
371. ائمہعلیهم السلام كی قبروں كی زیارت شیعوں كے نزدیك كیا ھے، ابن تیمیہ كے عقائد كے عنوان كے تحت بیان هوچكی ھے۔
372. رحلہ ابن جبیر ص 180۔
373. ابن خلكان كھتے ھیںامام احمد ابن حنبل كی قبر مشهور ھے اور زائرین ان كی زیارت كے لئے جاتے ھیں۔ (جلد اول ص 48)
374. وفیات الاعیان ج5 ص 46، 47۔
375. استیعاب جلد اول ص 404، عجیب بات تو یہ ھے كہ علمائے اھل سنت نے قبور كے لئے كرامات بھی ذكر كی ھیں، جیسا كہ ذھبی نے725ھ كے واقعات میں بیان كیا ھے كہ قبر احمد ابن حنبل كو سیلاب نے چاروں طرف سے گھیر لیا لیكن جس حجرے میں ضریح تھی اس كے اندر داخل نھیں هوا، جبكہ پانی حجرے كے دورازے سے ایك ھاتھ اونچا تھا۔ (دول الاسلام ج 4 ص 178)
376. المنتظم ج7 ص 206۔
377. رحلہٴ ابن جبیر ص 153، ابن بطوطہ نے بقیع كی قبروں كا ذكركرتے هوئے عثمان كی قبر كے گنبد كی بزر گی كی بھی توصیف كی ھے، (جلد اول ص76)
378. المنتظم ج7 ص 187۔
379. رحلہٴ ابن بطوطہ جلد اول ص 116۔
380. خطط ج 2 ص 284۔
381. ابن خلكان ج2 ص 209۔
382. خطط، ج 2 ص 284۔ لیكن ابوبكر دواداری نے كنز الدّرر ج6، ص549، میںحضرت امام حسینںكا سر دفن هونے كی تاریخ544ھ بیان كی ھے اور اس سلسلہ میں اس طرح لكھتا ھے: حضرت امام حسین (ع) كا سر یزید كے زمانہ میں مختلف شھروں میں گھمایا گیا، اور پھر عسقلان میں دفن كردیا گیا، اور جب عسقلان پر (صلیبی جنگ میں) غیروں كا قبضہ هوا، عباس وزیر ظافر فاطمی اس بات سے آگاہ هوا، اور جب اس كے لئے یہ ثابت هوگیا كہ امام حسینںكا سر عسقلان میں دفن هوا ھے تو اس نے انگریزوں سے خط وكتابت كی كہ امام حسینںكا سر ان كے حوالے كردیں، اور عسقلان شھر ان ھی كے قبضے میں رھے، چنانچہ انھوں نے سر لے لا كر قاھرہ میں دفن كردیا۔
383. خطط ج 2 ص285۔
384. شفاء السقام ص 3، 34۔
385. وفاء الوفاء ج2 ص 1336 ۔
386. شرح جامع صغیر ص 297، باب سوم كتاب شِفاء الِسقام تالیف سُبكی سے اصحاب ا ور دوسرے ان افراد كا ذكر كیا ھے جو لوگ صرف آنحضرت كی زیارت كے لئے مدینہ منورہ مشرف هوئے اور زیارت كے علاوہ ان كاكوئی دوسرا قصدنہ تھا ان میں سے جناب بلال (رسول خدا كے موذن) جو شام سے مدینہ زیارت رسول كے لئے تشریف لائے، (شفاء السقام ص 143)
387. عمدة الاخبار شیخ احمد عباسی دسویں صدی كے علماء میں سے ھیں ۔ انھوںنے ص 22، 26، زیارت قبور سے متعلق حدیث كو احمد ابن حنبل سے چند طریقوں سے نقل كیا ھے، (مسند احمد ج3، ص 237اور 250،وج5 ص 350، 355، 356، 357، 359) وسنن ابی داود، ج3 ص 212، بخاری ج2 ص 122، وجامع الصغیر سیوطی جلد اول ص 162۔
388. سمهودی ج 4 ص 1349، وكتاب مجموعة التوحید ص 522۔
389. سمهودی ج4ص 1352، موصوف نے اس سلسلہ میں تفصیل سے بیان كیا ھے اور اس بات كو ثابت كرنے كے لئے مختلف طریقوں سے احادیث نقل كی ھیں۔
390. تاریخ نجد وحجاز ص 50، سورہ آل عمران آیت 169۔
391. الفتاوی الكبریٰ ج2 ص 217، توجہ فرمائیں كہ جب معمولی انسان اس طرح ھے تو پھر پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی ذات گرامی كی شان كیا هوگی۔
392. ابو عبد اللہ شرف الدین محمد ابن سعید بو صیری، جو ساتویں صدی كے مشهور ومعروف شعراء كرام میں سے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی شان مبارك میں ”بُردہ “نامی ایك بھت عظیم الشان قصیدہ كھا جو عربی زبان كے مشهور قصیدوں میں سے ھے جس كا پھلا شعر اس طرح ھے:
393. جزیرة العرب فی القرن العشرین ص 343، 344، عصا كا موضوع اور وھابیوں كی اس سے بھی لمبی لمبی باتیں سننے كے لئے كشف الارتیاب تالیف علامہ امین ۺص139،،كی طرف رجوع فرمائیں۔
394. مكہ معظمہ سے نشر هونے والا”ام القریٰ“ نامی اخبار، شمارہ نمبر 989۔
395. اھل سنت كی روایت كے مطابق پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مھاجرین اور قریش كے دس افراد كو بہشت كی بشارت دی، جن میں سے چاروں خلیفہ، او رباقی افراد اس طرح ھیں: طلحہ، زبیر، عبد الرحمن بن عوف ،سعد بن ابی وقّاص، ابو عبیدہ جرّاح اور سعید بن زید۔
396. بیعت شجرہ جو بیعت رضوان بھی كھی جاتی ھے اس سے مراد یہ ھے كہ ہجرت كے چھٹے سال پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے اصحاب كے ساتھ مكہ معظمہ كی طرف عمرہ كے لئے جارھے تھے اور جس وقت مكہ كے نزدیك ”حُدیبیہ“ پہنچے تو مشركین مكہ نے اجازت نھیں دی، اس موقع پر آپ كے اصحاب نے جن كی تعداد تقریباً ایك ہزار تھی حضرت كے ھاتھوں پر بیعت كی كہ اگر مشركین سے جنگ لڑنی پڑی تو اس سے منھ نھیں پھیریں گے اور ڈٹ كر جنگ كریں گے۔
397. ھذٰہ ھی الوھابیة ص 100۔
398. كتاب التوحید محمد بن عبد الوھاب (رسا لہ دھم) ص 131۔
399. الفتاوی الكبری جلد اول ص 370۔
400. فتح المجیدص 95۔
401. الفتاوی الكبریٰ جلد اول ص 262۔
402. عقائد الواسطیہ ابن تیمیہ (رسالہ نھم از مجموعة الرسائل جلد اول ص 408۔
403. رسالہ الوصیة الكبریٰ (رسالہ ہفتم مجموعة الرسائل الكبریٰ جلد اول ص 303)۔
404. تاریخ نجدص 47۔
405. سورہ شوریٰ 23۔
406. الاسئلة والاجوبة فی العقیدة الواسطیہ ص 257۔ ،
407. ظاھراً آیہ مباركہ: <وُجُوْہٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ اِلیٰ رَبِّها نَاظِرَةٌ۔ >(اس دن بعض چھرے شاداب هوں گے، اپنے پرور دگار كی(نعمتوںكی طرف)دیكھ رھے هوں گے“۔ (سورہ قیامة آیت 22،23)سے استدلال كرتے ھیں جس كے بارے میں ”ابن تیمیہ كی نظر میں خدا كے دیدار“ كے عنوان سے پھلے بحث هوچكی ھے۔
408. تاریخ نجد ص 48۔
409. وہ خط جو ابن سعود نے ذیقعدہ 1332ھ كو فرقہ ”اخوان“ كے لئے لكھا اس خط كی عبارت كتاب ”تاریخ المملكة العربیة السعودیہ“ (ج 2 ص 155) اور جیسا كہ آپ نے ملاحظہ فرمایاكہ یہ بات آلوسی كی گذشتہ بات سے تھوڑی مختلف ھے ۔
410. سب سے پھلے جس فرقہ نے قرآن وحدیث كے ظواھر سے تمسك كرنے كا نعرہ لگایا وہ ھے فرقہ ”ظاھریہ“ ھے۔ یہ لوگ داود ظاھری اصفھانی (تیسری صدی) كے پیروكارھیں، (فقھاء كے طبقات كے بارے میں، شیخ ابواسحاق شیرازی كی كتاب طبقات الفقھاء كی طرف رجوع فرمائیں)
411. الفتاویٰ الكبریٰ ج5 ص 17، ابن تیمیہ كی نظر میں قرآن مجید كی بعض آیتوں كی تاویل، اور محكم ومتشابہ آیات كے بارے میں اس كے نظریات كو ”رسالة الا كلیل“ میں ملاحظہ فرمائیں۔
412. جزیرة العرب فی القرن العشرین ص 145۔
413. جزیرة العرب فی القرن العشرین ص 231۔ اجتھاد اور تقلید، ابن تیمیہ كی نظر میں، اس سلسلہ میں كتاب ”رفع الملام“ (ص141، اور اس كے بعد) رجوع فرمائیں۔
414. تاریخ نجد ص 48 ملاحظہ فرمائیں۔
415. جزیرة العرب ص 148۔
416. ھذہ ھی الوھابیة ص 103،لیكن وھابیوں كے مخالف كھتے ھیں كہ وھابی حضرات اجتھادِ مطلق كو مانتے ھیں، اور اپنے كو مذاھب اربعہ كی پیروی كے محتاج نھیں مانتے، اور قرآن كریم اور سنت نبوی كو اپنے لئے كافی سمجھتے ھیں۔ وھابیوں كے مخالفوں نے ان باتوں كی ردّ میں دلیلیں بھی قائم كی ھیں، چنانچہ اس سلسلہ میںمستقل كتابیں بھی لكھیں گئی ھیں، جن میں سے بعض كی طرف اس كتاب كی عبارت میں اشارہ كیا گیا ھے۔
417. تاریخ نجد ص 356۔
418. جزیرة العرب فی القرن العشرین ص150، اور یہ كتاب تقربیاً چالیس سال پھلے تالیف هوئی ھے(یعنی اب سے تقریباً ساٹھ سال پھلے) اور اس مدت میں سعودی عرب اور جزیرہ عربستان بھت بدل گیا ھے خصوصا عصر حاضر كا كلچر نافذ هوگیا ھے۔
419. جزیزةالعرب فی القرن العشرین ص 145۔
421. تاریخ نجد ص 49۔
422. تاریخ مكہ ج2 ص 52، 76، 135۔
423. ابن بشر جلد اول ص 143۔
424. خط كی عبارت ”تاریخ نجد“ ص 105 میں موجود ھے۔
425. كشف الارتیاب ص 66، لیكن آج كل حجاز میں حقہ اور سیگریٹ نوشی عام ھے او ر ان چیزوں پر كوئی ممانعت بھی نھیں ھے اور دنیا كے دوسرے علاقوں كی طرح كھلے عام بازراوں میں سیگریٹ بكتی ھیں، (عجیب بات تو یہ ھے كہ تمباكو نوشی كو حرام جانتے ھیں كیونكہ یہ چیز رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے زمانہ میں نھیں تھی، لیكن اس كے مقابلہ میں چائے اور قهوہ كو حرام نھیں كھتے جبكہ یہ بھی رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے زمانہ میں نھیں تھی، (كشف الارتیاب ص 146كی طرف رجوع فرمائیں)
426. ملوك العرب ج 2، ص74، گلدزیھر كھتا ھے كہ وھابیوں كے نزدیك سیگریٹ او رقهوہ (چائے) پیناگناھان كبیرہ میںشمار كیا جاتا ھے، (ص267)
427. ملوك العرب ج 2 ص 75۔
428. مجلہ قافلہ الزیت، شمارہ 9 سال 1954ء۔
429. ظاھراً ابو ھریرہ كی رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس حدیث كے ذریعہ استدلال كرتے ھیں كہ آپ نے فرمایا:
430. فتنة الوھابیة، تالیف سید احمد زینی دحلان، ھمراہ با كتاب الصواعق شیخ سلیمان ص 77۔
431. جزیرة العرب فی القرن العشرین ص 315، جبرتی1222ھ كے واقعات كے ضمن میں كھتا ھے كہ وھابی لوگوں نے حج كے اعمال بجالانے كے بعد یہ اعلان كرایا كہ اپنی داڑھی منڈانے والا شخص حرمین شریفین میں داخل نھیں هوسكتا، اور اعلان كرنے والا اعلان كے ضمن میں اس آیت كو بھی پڑھتا تھا: <یَا اَیُّها الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلاٰ یَقْرَبُوْا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهم ہٰذَا ۔ > (ایمان والو! مشركین صرف نجاست ھیں لہٰذا خبر دار اس سال كے بعد مسجد الحرام میں داخل نہ هونے پائیں)(تاریخ جبرتی ج3 ص 191) قارئین كرام! آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا كہ داڑھی منڈانے والوں كو مشرك كھا گیا۔ ظاھراً ٹھڈی كا منڈوانا حرام ھے اور دوسرے حصہ كا منڈوانا حرام نھیں ھے۔
432. العقیدة والشریعة فی الاسلام ص 269، معلوم یہ هوتا ھے كہ ابن تیمیہ اور وھابیوں كا غزالی اور اس جیسے افراد سے مقابلہ گویاتصوف اور عرفان سے مقابلہ ھے كیونكہ یہ لوگ تصوف اور عرفان كے علماء مانے جاتے تھے۔
433. تاریخ نجد ص 98، 99۔
434. حاضر العالم الاسلامی جلد اول ص 264۔
435. تاریخ بغداد ص 156۔
436. زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث ص 25۔
437. لفتوحات الاسلامیہ ج2ص357۔
438. ائمہ سے اس كی مراد اھل سنت كے چار امام، اور وہ لوگ ھیں جن كی باتوں كو اھل سنت حجت سمجھتے ھیں اور 800 سال سے اس كی مراد تیسری صدی كا آخر اور شیخ سلیمان كا زمانہ یعنی بارهویں صدی ہجری ھے۔
439. ”الصواعق الالہٰیة فی الرد علی الوھابیة“ ص 38
440. ”الصواعق الالہٰیة فی الرد علی الوھابیة“ ص 38۔
441. جس كا موٴلف كے ھاتھ كا لكھا هوا قلمی نسخہ، كتابخانہ جناب آقای سےد مہدی لاجوردی، قم میں موجود ھے۔
442. الفتوحات الاسلامیہ ج 2 ص 260۔
443. التوسل بالنبی ص 249تا 253۔
444. مدار ج السنیہ ص 15۔
445. سورہمائدہ آیت 35۔
447. سورہ یونس آیت 3
448. مدارج السنیہ ص 63۔
449. الاصول الاربعہ ص 6۔
450. الاصول الاربعہ ص 2 سے 5تك۔
451. الاصول الاربعہ ص 35، 36۔
452. الفجر الصادق ص 17، 18۔
453. اور جب شیخ سلیمان اور محمد بن عبد الوھاب میں كافی اختلافات هونے لگے تو چونكہ شیخ سلیمان كو اپنی جان كا خطرہ هوگیا تھا اس وجہ سے انھوں نے مدینہ منورہ جاكر پناہ لے لی، اور اس كے خلاف ایك كتاب لكھی (ظاھراً كتاب الصواعق مراد ھے) اور اس كے لئے بھیجی، اسی طرح بھت سے حنبلی علماء نے اس كے عقائد كی رد میں كتابیں لكھیں اور اس كے پاس بھیجیں، لیكن كوئی بھی كتاب اس كے لئے مفید واقع نھیں هوئی، (الدرر السنیہ، ص 40)
454. الدرر السنیہ، ص 39، 40۔
455. الدرر السنیہ، ص 41، ابوحامد بن مرزوق كھتے ھیں كہ 1343ھ میں جب سعودی لوگ مكہ معظمہ میں وارد هوئے، میں صبح كے وقت قبرستان معلّا كی طرف جارھا تھا،میں نے ایك مكّی شخص كو دیكھا كہ مقام سعی كی طرف جارھا ھے اور كہہ رھا ھے:”اَللّٰهم صَلِّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّد“
456. الصواعق الالہٰیہ ص 7۔
457. الصواعق، ص 39، ظاھراً حدیث نبوی سے مراد وہ حدیث پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم هو جو صحیح مسلم میں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وارد هوئی ھے، كہ آپ نے فرمایا: ”اِنَّ اللّٰہَ زَوَیٰ لِیَ الاٴَرْضَ فَرَاَیْتُ مَشَارِقَها وَمَغَارِبها وَاِنَّ اُمَّتِی لَیَبْلُغ مُلْكَها مَازُوِیَ لِی مِنْها …الی آخر۔ “
458. الصواعق ص 55 تا 63۔
460. المسلمون فی العالم الیوم ج 3 ص 63، 64۔ جیسا كہ معلوم هوتا ھے كہ وھابی تقلید كے مسئلہ (جیسا كہ دوسرے اسلامی فرقوں میں رائج ھے) كے مخالف ھیں، اور یہ لوگ خود كو اتنی اجازت دیتے ھیں كہ مسائل میں اجتھاد كریں، اور قرآنی آیات كی بھی اپنی رائے كے مطابق تفسیر كریں۔
461. ”البلاد“ نامی اخبار چاپ جدہ، بتاریخ 16 ذی الحجہ1386ھ كے ایك مضمون میں اسی طرح موجود ھے۔
462. الدرر السنیہ ص 53۔