دوسرا باب: ابن تیمیہ كے عقائد | |||||
ھم اس حصہ میں ابن تیمیہ كے ان عقائد كو مختصر طور پر بیان كریں گے جن كی وجہ سے مختلف فرقوں كے علماء اس كے مقابلہ كے لئے كھڑے هوئے ۔ 1۔ توحید ابن تیمیہ كی نظر میں ابن تیمیہ كھتا ھے :جس توحید كو پیغمبراكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لے كر آئے ھیں وہ صرف خداوندعالم كے لئے الوھیت كو ثابت كرتی ھے اور بس، اس طریقہ سے كہ انسان شھادت اور گواھی دے كہ اس خدا كے علاوہ كوئی خدا نھیں ھے، صرف اسی كی عبادت كرے اور اسی پر توكل اور بھروسہ كرے اور صرف اسی كی وجہ سے كسی كو دوست ركھے یا كسی كو دشمن قرار دے، خلاصہ یہ كہ انسان اپنے ھر كام كو خدا كی خوشنودی كے لئے انجام دے، یہ وہ توحید ھے جس كو خداوندعالم نے قرآن مجید میں اپنے لئے ثابت كیا ھے۔ لیكن خدا كو مجرد یگانہ جاننا یعنی یہ عقیدہ ركھنا كہ اس عالم كو خدائے واحد نے خلق فرمایا ھے یہ توحید نھیں ھے، اسی طرح اگر كوئی خدا كے صفات كا اقرار كرے اور اس كو تمام عیوب سے پاك ومنزہ مانے یا اقرار كرے كہ خداوندعالم تمام مخلوقات كا خالق ھے، ایسا شخص موحد (مسلمان بمعنی عام) نھیں ھے مگر یہ كہ شھادت دے كہ اس كے علاوہ كوئی خدا نھیں ھے اور اقرار كرے كہ صرف وھی عبادت كا مستحق ھے اور بس57 توحید الوھیت اور توحید ربوبیت
ابن تیمیہ نے توحید كی دوقسم كی ھیں :
1۔ توحید الوھیت ، 2۔ توحید ربوبیت، اور ان كے بارے میں كھا ھے : چونكہ تمام اسلامی فرقے توحید الوھیت سے جاھل ھیں، اسی وجہ سے غیر خدا كی عبادت كرتے ھیں، اور توحید سے صرف توحید ربوبیت كو پہچانتے ھیں، اور توحید ربوبیت سے اس كی مراد خدا كی ربوبیت كا اقرار كرنا ھے یعنی یہ اقرار كرنا كہ تمام چیزوں كا خالق خداوندعالم ھے ۔ وہ یہ كھتا ھے كہ مشركین بھی اسی معنی كو اعتراف كرتے ھیں۔ عنی تو حید سے اس كی خالقیت كے قائل ھیں (بلكہ ھمیں چاہئے كہ توحید الوھیت یعنی اس كی خالقیت كا اعتراف كئے بغیر خدا كی خدائی كو قبول كریں) یہ قول ابو حامد بن مرزوق سے نقل هوا ھے كہ اولاد آدم جب تك اپنی سالم فطرت پر باقی ھیں ان كی عقل میںیہ بات مسلم ھے كہ جس كی ربوبیت ثابت ھے وھی مستحق عبادت بھی ھے، لہٰذا كسی كے ربوبیت ثابت هوجانے كا ملازمہ یہ ھے كہ اس كی عبادت كی جائے۔ 58 ھم اسی كتاب میں یہ بات بیان كریں گے كہ ابن تیمیہ غیر خدا سے ھر قسم كا توسل اور استغاثہ، یا انبیاء واولیاء كو شفیع قرار دینا، اسی طرح قبور كی زیارت اور وھاں پر دعا كرنا، مثلاً یہ كہنا ”یا محمد“ اور پیغمبراكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صالحین كی قبور كے نزدیك نماز پڑھنا نیز ان كی قبور پر قربانی كرنا، یہ سب كچھ توحید كے مخالف و منافی اور باعث شرك جانتا ھے۔ لہٰذا اس بناپرابن تیمیہ كی نظر میں موحّد وہ شخص ھے جو اگر كوئی چیز طلب كرے توبراہ راست خدا سے طلب كرے اور كسی كو بھی واسطہ یا شفیع قرار نہ دے، اور كسی بھی عنوان سے غیر خدا كی طرف توجہ نہ كرے۔ 2۔ كفر وشرك كے معنی میں وسعت دینا بعض وہ اعمال جو تمام مسلمانوں كے درمیان جائز بلكہ مستحب بھی ھیں،ابن تیمیہ كی نظر میں شرك او ربے دینی كا سبب ھیں، مثلاً اگر كوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے لئے سفر كرے اور اس كے سفر كا اصل مقصد مسجد النبی میں جانا نہ هو، تو ایسا شخص سید مرسلینكی شریعت سے خارج ھے۔ 59 اور اگر كوئی شخص طلب حاجت كی غرض سے پیغمبریا كسی دوسرے كی قبر كی زیارت كرے ،اس كوخدا كاشریك قرار دے او ر اس سے كوئی چیز طلب كرے تو اس كا یہ عمل حرام اور شرك ھے۔ 60 اسی طرح اگر كوئی قبور سے نفع كا امیدوار هو اور ان كو بلا ومصیت دفع كرنے والا تصور كرے، تو اس كا حكم بت پرستوں كی طرح ھے جس طرح بت پرست،بتوں سے حصول نفع ونقصان كے قائل ھیں۔ 61 اسی طرح جو لوگ قبور كی زیارت كے لئے جاتے ھیں تو اس كا مقصد بھی مشركین كے قصد كی طرح هوتا ھے ،كہ وہ لوگ بتوں سے وھی چیز طلب كرتے ھیں جو ایك مسلمان خدا سے طلب كرتا ھے۔ 62 اسی طرح سے ابن تیمیہ كا كہنا ھے: اگر كوئی انسان غیر خدا كو پكارے اور غیر خدا كی طرف جائے (یعنی ان كی قبور كی زیارت كے لئے سفر كرے) اور مردوں كو پكارے چاھے وہ پیغمبر هوں یا غیر پیغمبر، تو گویا اس نے خدا كے ساتھ شرك كیا۔ 63 ابن تیمیہ كی نظر میں كفر اور شرك كا دائرہ اس سے كھیں زیادہ وسیع ھے جس كو ھم نے ذكر كیا، كیونكہ وہ جناب تو یھاں تك فرماتے ھیں كہ اگر كوئی مسجد كا پڑوسی هو ،اور اپنے كام وغیرہ كی وجہ سے نماز جماعت میں شریك نہ هوسكے، تو اس كو توبہ كرائی جائے گی اگر توبہ نہ كرے تو اس كا قتل واجب ھے۔ 64 گذشتہ مطلب كی وضاحت
شوكانی صاحب جو ابن تیمیہ كے طرفداروں او ر وھابیوںكے موافقین میں سے ھیں، كھتے ھیں:صاحب نجد كے ذریعہ ھم تك پهونچنے والی چیزوں میں سے ایك یہ ھے كہ ”جو كوئی شخص نماز جماعت میں شریك نہ هو اس كا خون حلال ھے“جبكہ یہ بات قانون شریعت كے برخلاف ھے۔ 65
اھل سنت كے سلف صالح اور ائمہ اربعہ اور عام اسلامی مذاھب كے پیشوا نماز كو گھر یا مسجد كے علاوہ كسی دوسری جگہ پڑھتے تھے، مثلاً امام مالك ،شروع میں نماز كے لئے مسجد میں جایا كرتے تھے لیكن بعض وجوھات كی بناپر مسجد میں جانا ترك كردیا، اور گھر ھی میں نماز پڑھنے لگے، لیكن جب اس بارے میں لوگوں نے ان پر اعتراضات كرنے شروع كردئے تو كھتے تھے: میں اس كی وجہ او ردلیل نھیں بتاسكتا۔ 66 احمد ابن حنبل پر بھی جب خلیفہ وقت كا غضب اور قھر پڑنے لگا تو انھوں نے بھی مسجد جانا ترك كردیا، یھاں تك كہ نماز یا دوسرے كام كے لئے بھی مسجد میں نھیں جاتے تھے۔ 67 مصر كے سابق مفتی اور الازھر یونیورسٹی كے سابق صدر شیخ محمود شلتوت صاحب كھتے ھیں: مسلمانوں كو اختیار ھے كہ جھاں بھی نماز پڑھنا چاھیں پڑھیں،چاھے مسجد هو یا گھر جنگل هو یا كارخانہ یا كتابخانہ، خلاصہ یہ كہ جھاں بھی نماز كا وقت هوجائے، وھیں پر نماز ادا كرلےں، نیز انھیں اختیار ھے كہ چاھے نماز كو فرادیٰ پڑھیں، البتہ جماعت كے ساتھ نماز ادا كرنا نماز كا بھترین طریقہ ھے۔ اس كے بعد جناب شلتوت صاحب نماز جماعت كے فوائد بیان كرتے ھیں۔ 68 ابن تیمیہ كی باقی گفتگو
ابن تیمیہ اس شخص كے بارے میں كھتا ھے كہ جو نماز ظھر كو مغرب تك اور نماز مغرب كو آدھی رات تك تاخیر سے پڑھے گویا وہ كافر ھے، اور اگر كوئی اس كام كو كفر نہ مانے، تو اس كی بھی گردن اڑادی جائے۔ 69
نیزاسی طرح كھتا ھے: اگر كوئی شخص چاھے وہ مرد هو یا عورت نماز نہ پڑھے تو اس كو نماز پڑھنے كے لئے كھا جائے اور اگر قبول نہ كرے تو اكثر علماء اس بات كو واجب جانتے ھیں كہ اس سے توبہ كرائی جائے اور اگر توبہ نہ كرے تو اس كو قتل كردیا جائے چاھے وہ شخص نماز كے وجوب كا اقرار كرتا هو۔ 70 اسی طرح وہ بالغ جو نماز پنجگانہ میں سے كسی ایك نماز كو ادا كرنے سے پرھیز كرے یا نماز كے كسی ایك مسلّم واجب كو ترك كرے تو ایسے شخص سے توبہ كرائی جائے اوراگر توبہ نہ كرے تو اس كو قتل كردیا جائے۔ 71 ابن تیمیہ مخلوقات میں سے كسی چیز كی قسم كھانے یا غیرخدا كے لئے نذر كرنے كو بھی شرك 72 جانتا تھا،جس كی تفصیل انشاء اللہ بعد میں ذكر هوگی۔ 3۔ خدا كے دیدار اور اس كے لئے جھت كا ثابت كرنا ابن تیمیہ كی معروفترین كتاب منھاج السنہ ھے، ابن تیمیہ نے اس كتاب كو منھاج الكرامة فی اثبات الامامة 73 تالیف مرحوم علامہ حلّی(متوفی 726) كی ردّ میں لكھا ھے، اس نے پھلے علامہ حلی كے اعتقادات كو ایك ایك كركے نقل كیا ھے او راس كے بعد ان كو ردّ كرنے كی كوشش كی ھے، منجملہعلامہ حلی كے اس نظریہ كو نقل كیا كہ خدا كو دیكھا نھیں جاسكتا او رحواس خمسہ كے ذریعہ درك نھیں كیا جاسكتا، كیونكہ وہ خود فرماتا ھے: لاٰتُدْرِكُہُ الاَبْصَاْرُ وَهو یُدْرِكُ الاَبْصَاْرَ۔ >74 ”نگاھیں اس كودرك نھیں كرسكتیں اور وہ نگاهوں كا ادراك ركھتا ھے“۔ وہ علامہ حلّی مرحوم كا یہ قول نقل كرنے كے بعد كہ خداوندعالم جھت و مكان نھیں ركھتا، اس طرح كھتا ھے: اھل سنت سے منسوب تمام افراد خدا كے دیدار كے اثبات پر اتفاق ركھتے ھیں، اور سلف(علمائے قدیم) كا اس بات پر اجماع ھے كہ روز قیامت خدا كو ان ھی سر كی آنكھوں سے دیكھا جاسكتا ھے، لیكن دنیا میں اس كو نھیں دیكھا جاسكتا، ھاں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے بارے میں اختلاف ھے كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس دنیا میں خدا كا دیدار كیا ھے یا نھیں، او رمذكورہ آیہٴ شریفہ كے بارے میں كھتا ھے كہ ادراك كے بغیر خدا كا دیدار هونا ممكن ھے۔ ابن تیمیہ نے خداوندعالم كے دیدار اور جھت وسمت كو ثابت كرنے كے لئے تفصیلی بحث كی ھے اور ظاھر آیات واحادیث سے استدلال كیا ھے۔ 75 چنانچہ ابن تیمیہ نے اس مسئلہ كو ثابت كرنے كے لئے رسالہ حمویہ لكھا ھے، ابن تیمیہ اس مسئلہ كے بارے میں مذكورہ رسالہ میں كھتا ھے: تمام نصوص (قرآنی آیات واحادیث) اس مسئلہ پر دلالت كرتی ھیں كہ خداوندعالم عرش اور آسمان كے اوپر رھتا ھے، اور اس كی طرف انگلی سے اشارہ كیا جاسكتا ھے، روز قیامت خداوندعالم كو دیكھا جاسكتا ھے، اور یہ كہ خداوندعالم مسكراتا ھے، اور اگر كوئی شخص خدا كے آسمان میں هونے كا اعتقاد نہ ركھے، تو اس سے توبہ كرانی چاہئے اگر توبہ قبول كرلی تو ٹھیك ورنہ اس كی گردن اڑادینی چاہئے۔ اسی طرح وہ كھتا ھے: قرآن مجید كی ظاھری آیات كے مطابق خداوندعالم اعضاء وجوارح ركھتا ھے، لیكن خدا وندعالم كی فوقیت اور اس كے اعضاء وجوارح كو مخلوق (انسان) كے اعضاء وجوارح سے مقایسہ نھیں كیا جاسكتا، چنانچہ اسی مسئلہ كے ضمن میں كھتا ھے: بعض لوگوں نے آیہ ذیل اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ 76 (وہ رحمن عرش پر اختیار واقتدار ركھنے والا ھے) میں استویٰ كے معنی ”استویٰ” (بلندی) كے كئے ھیں جو باطل اور بے بنیاد ھیں، اور اس طرح كی تاویلات دوسری زبانوں كی كتب ضلال (گمراہ كن كتابوں) سے ترجمہ هوكر علماء علم كلام كے ذریعہ عربی زبان میں داخل هوگئی ھیں۔ 77 رویت خدا كے بارے میں ابن قیّم كا نظریہ
ابن تیمیہ كے شاگرد اور ھم فكرابن قیّم نے اس سلسلہ میں ایك طویل قصیدہ كھا ھے، جس كا نام كافیة الشافیہ ھے جس كی شرح حنبلی علماء میں سے احمد بن ابراھیم نے دوجلدوں میں توضیح المقاصد كے نام سے لكھی ھے، ابن قیّم لكھتا ھے كہ اھل بہشت خداوندعالم كا دیدار كریں گے اور اس كے چھرہٴ مبارك پر نظر كریں گے، اس نے اسی موضوع كو اپنے اشعار میں بیان كیا:
”وَیَرَوْنَہُ سُبْحَانَہُ مِنْ فوَقِهم رُوْیَا الْعِبَادِ كَمَاْ یُریَ الْقَمَرَانِ ہٰذَا تَوَاتَرَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَمْ ُنْكِرہُ اِلاّٰ فَاْسِدُ الاِیْمَانِ“ ”اھل بہشت خداوندعالم كو اپنے سر كے اوپر سے دیكھیں گے، جس طرح چاندوسورج كو دیكھتے ھیں،یہ بات حضرت رسول اكر م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بطور تواتر نقل هوئی ھے، اور اس بات كا انكار وھی كرتا ھے جن كا ایمان فاسد ھے“ شارح (صاحب توضیح المقاصد) كھتا ھے كہ تمام انبیاء و مرسلین،صحابہ وتابعین اور ائمہ اسلام كااس بات(كہ اھل بہشت خدا كا دیدار كریں گے) پر اتفاق ھے، لیكن بعض اھل بدعت فرقے مثلاً جُھمَیہ، معتزلہ، باطنیہ اور رافضیہ خدا كے دیدار كے منكر ھیں۔ خدا كے دیدا ر كا مسئلہ قرآن مجید میں بطور واضح اور بطور اشارہ دونوں طریقوں سے بیان هوا ھے مثال كے طور پر درج ذیل آیات: <وُجُوْہٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ اِلیٰ رَبِّها نَاظِرَةٌ۔ > 78 <واتَّقُوْا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّكُمْ مُلاٰقُوْہُ۔ > 79 <تَحِیَّتهم یَوْمَ یَلْقَوْنَہُ سَلاٰمٌ۔ > 80 < فَمَنْ كَانَ یَرْجُو لِقَاءَ رَبِّہ۔ > 81 ”لہٰذا جو بھی اس كی ملاقات كا امیدوار ھے اسے چاہئے كہ عمل صالح كرے“۔ ابن قیّم اپنے مذكورہ قصیدہ میں كھتا ھے: بَیْنَاهم فِیْ عَیْشِهم وَسُرُوْرِهم ْ وَنَعِیْمِهم فِی لَذَّةٍ وَتَہٰانٍ وَاِذَا بنُوْرٍ سَاطِعٍ قَدْ اُشْرِقَتْ مِنْہُ الْجِنَانُ قَصِیُّھا وَالدَّان. ی رَفَعُوْا اِلَیْہِ رُوٴُسَهم فَرَاوْہُ نُوْ رَالرَّبِّ لاٰیَخْفٰی عَلَی اِنْسَانٍ وَاِذَا بِرَبِّهم تَعَالیٰ فَوْقَهم قَدْ جَاءَ لِلتَّسْلِیْمِ بِالاِحْسٰانِ قَالَ اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ فَیَرَوْنَہُ جَہْراً تَعٰالَی الرَّبُ ذُوْالسُّلْطَانِ 82 ترجمہ اشعار: ”جس وقت اھل بہشت جنت میں عیش وآرام اور بہشتی نعمتوں میں غرق هوں گے اور ایك دوسرے كو مبارك باد دے رھے هوں گے،اچانك ایك نور چمكے گا جو تمام جنت كو روشن ومنو ر كردے گا، اس وقت تمام لوگ اوپر كی طرف اپنا سر اٹھائیں گے، تو پتہ چلے گا كہ یہ تو خدا كا نور ھے جو كسی پر بھی مخفی وپوشیدہ نھیں ھے، اسی حالت میں وہ خدا كو اپنے سروں كے اوپر دیكھیں گے،جو اھل بہشت كو سلام كرنے كے لئے حاضر هوا ھے، اس وقت خداوندعالم ان سے خطاب كرے گا: السلام علیكم، اس موقع پر اھل بہشت خدا كو واضح طور پر دیكھیں گے“۔ ابن قیم نے اس سلسلہ میں ابن ماجہ سے ایك روایت كو سند كے طور پر نقل كیا ھے،اس كے بعد ابن قیم كھتا ھے: وكذاك یسمعھم لذیذ خطابہ سبحانہ بتلاوة الفرقان فكانّھم لم یسمعوہ قبل ذا ہذا رواہ الحافظ الطبرانی ہذا سماع مطلق وسماعنا القرآن فی الدنیا قنوع ثانی 83 ”خداوندعالم اھل بہشت كے لئے مترنم اور دلكش آواز میں ایك طریقہ سے قرآن پڑھے گاكہ ایسی تلاوت كو اھل بہشت نے اس سے پھلے كبھی نھیں سنا هوگا، اور اس كی روایت طبرانی نے بھی كی ھے، قرآن كو بطور مطلق اور بطور حقیقی سننا یھی ھے اور جو كچھ ھم نے دنیا میں سنا ھے وہ كوئی دوسری قسم تھی“۔ شارح نے طبرانی كی روایت كو نقل كیا ھے، جس كے مطابق اھل بہشت ھر روز دوبار خدا كی بارگاہ میں پهونچےں گے، اور خداوندعالم ان كے لئے قرآن پڑھے گا، درحالیكہ كہ اھل بہشت اپنی مخصوص جگہ (یاقوت وزبرجد اور زمرّد جیسے قیمتی پتھروں كے منبروں پر)تشریف فرماهوں گے،ان كی آنكھوں نے اس سے بھتر كوئی چیز نھیں دیكھی هوگی اور نہ ھی اس سے زیادہ دلنشین آواز سنی هوگی، چنانچہ اس واقعہ كے بعد اپنے اپنے حجروں میں چلے جائیں گے اور دوسری صبح هونے كا انتظار كریں گے تاكہ پھر اسی طرح كا واقعہ پیش آئے او ردوبارہ خدا كی اسی طرح آواز سنیں ۔ شیخ عبد العزیز محمد السلمان مدرّس مدرسہ پیشواے دعوت وھابیت ریاض (مراد محمد بن عبد الوھاب كا مدرسہ ھے جو اسی كے نام سے ھے) سے ابن تیمیہ كے رسالہ عقیدہ واسطیہ كے بارے میں سوال هوا توشیخ عبد العزیز محمد السلمان نے جواب دیا: اس بات پر ھمارا پورا یقین ھے كہ روز قیامت اھل بہشت خدا كو واضح طور پر اپنی انھی آنكھوں كے ذریعہ دیكھیں گے، اور اس كی زیارت كریں گے، خداوندعالم ان سے گفتگو كرے گا اور اھل بہشت بھی اس سے گفتگو كریں گے، جس كی طرف قرآن مجید میں یہ آیت اشارہ كرتی ھے: وُجُوْہٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ اِلیٰ رَبِّها نَاظِرَةٌ۔ > (”اس دن بعض چھرے شاداب هوں گے، اپنے پرور دگار كودیكھ رھے هوں گے“۔ ) حدیث كا مضمون كچھ اس طرح ھے: جلد ھی تم اپنے پروردگار كا دیدار كروگے جس طرح چودھویں كے چاند كو دیكھتے هو۔ شیخ عبد العزیز اس كے بعد كھتے ھیں: آیہ مباركہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ھے كہ روز قیامت مخلص مومنین درحالیكہ ان كے چھرے نورانی اور نعمت خدا كی وجہ سے خوش وخرم هونگے اوراپنے خدا كا واضح اور آشكار طورسے دیدار كریں گے۔ 84 یاد دھانی
ابن تیمیہ اور ابن قیّم جوزی كی باتوں سے یہ نتیجہ نكلتاھے كہ خداوندعالم صاحب جسم ومكان ھے اور اعضاء وجوارح ركھتا ھے، جیسا كہ ابن تیمیہ معتقد ھے كہ خداوندعالم آسمان كے اوپر اور عرش پر تشریف فرما ھے، اور اپنی مخلوق سے جدا ھے، او ریہ معنی حق ھیں كہ چاھے اس كو مكان (جگہ) كا نام دیا جائے یامكان كا نام نہ دیا جائے۔ 85
اور جیسا كہ یہ بھی معلوم ھے كہ ان باتوں كانتیجہ خداوندعالم كے لئے مكان او رجگہ ثابت هونا ھے، كیونكہ اس نے یہ بھی كھا ھے كہ اس كی طرف انگلی سے بھی اشارہ كیا جاسكتا ھے، اور یہ بات مسلّم ھے كہ جس كے لئے ایك معین مكان او رجگہ هو اور اس كی طرف انگلی سے اشارہ كیا جاسكتاهو،اس كے لئے ھاتھ پیر آنكھ اور چھرہ اور دوسرے اعضاء بھی هونا چاہئے، جس كا نتیجہ یہ هوگا كہ خداوندعالم كو جسم وجسمانیت والا فرض كریں۔ 86 اس سلسلہ میں مرحوم علامہ حلی كا بیان اس طرح ھے: شیعوں كا اعتقاد یہ ھے كہ صرف خداوندعالم كی ذات گرامی ھے جو صفت ازلی اور قدیم سے مخصوص ھے، اور اس كے علاوہ ھر چیز حادث ھے (یعنی پھلے وجود نھیں تھی بعد میں پیدا هوئی ھے)، اسی طرح شیعوں كا عقیدہ یہ ھے كہ خداوندعالم جسم وجوھر نھیں ھے، كیونكہ ھر مركب اپنے جزء كا محتاج هوتا ھے اور چونكہ مركب كا جزء خود اس كے علاوہ ھے، نیز خداوندعالم عَرَض بھی نھیں ھے اور اس كے لئے كوئی خاص مكان اور جگہ بھی نھیں ھے، كیونكہ اگر اس كے لئے مكان هوگا تو پھر خداوندعالم حادث هوجائے گا، اس كے علاوہ یہ كہ خداوندعالم اپنی مخلوق میں كسی كی شبیہ یا كوئی مخلوق خدا كی شبیہ نھیں ھے او رخدا ھر طرح كی شباھت سے پاك ومنزہ ھے۔ خداوندعالم كے بارے میں شیعوں كا اعتقاد یہ بھی ھے كہ خداوندعالم كو دیكھانھیںجاسكتا، اور یھی نھیں بلكہ اس كو كسی بھی حواس كے ذریعہ درك نھیں كیا جاسكتا، كیونكہ خود خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے: <لاٰتُدْرِكُہُ الاَبْصَاْرُ وَهو یُدْرِكُ الاَبْصَاْرَ۔ >87 ”نگاھیں اس كو پانھیں سكتیں اور وہ نگاهوں كا برابر ادراك ركھتا ھے“۔ مرحوم علامہ حلّی خواجہ نصیر الدین طوسیۺ كی كتاب” تجرید الاعتقاد“ كی شرح میں اس طرح فرماتے ھیں: خداوندعالم كا واجب الوجود هونا اس بات كا تقاضا كرتا ھے كہ اس كی ذات گرامی كو دیكھا نھیں جاسكتا، چنانچہ اكثر عقلاء نے اسی بات كو قبول كیا ھے كہ خدا وندعالم كو دیكھنا ناممكن ھے، لیكن وہ لوگ جو خداوندعالم كو جسم وجسمانیت والا مانتے ھیں وہ كھتے ھیں كہ خداوندعالم كو دیكھنا ممكن ھے، جبكہ اگر خداوندعالم كو مجرد مانا جائے تو اس كو دیكھنا محال ھے. فرقہ اشاعرہ نے تمام عقلاء كی مخالفت كرتے هوئے كھا ھے كہ خداوندعالم كا دكھائی دینا اس كے مجرد الوجود هونے سے كوئی منافات اور مخالفت نھیں ركھتا، البتہ خدا كے نہ دكھائی دینے پر ان كی دلیل یہ ھے كہ خداوندعالم كے واجب الوجود هونے كا تقاضا یہ ھے كہ اس كی ذات گرامی مجرد هو، اور اس سے جھت وسمت اور مكان كی نفی كی جائے، جس كی بناپر ضروری ھے كہ اس كے دیكھنے كی نفی كی جائے، كیونكہ جس چیز كو دیكھنا ممكن ھے اس كے لئے جھت اور سمت كا هونا ضروری هو اور اس كی طرف اشارہ كیا جائے كہ وہ وھاں ھے یا یھاں ھے، اور ایسی چیز انسان كے مقابلہ میں هو، یا انسان كے مقابلہ كی مثل هو، جبكہ ایسا نھیں ھے لہٰذا خداوندعالم كو نھیں دیكھا جاسكتا۔ 88 روٴیت خدا كے سلسلہ میں شیعوں كے اعتقادات اور ان كے دلائل اور برھان نیز مخالفین كے اعتراضات كے جوابوں كے لئے علامہ حلّی كی مذكورہ دو كتابوں اور شیعوں كی دوسری كلامی كتابوں كی طرف رجوع كیا جائے، اور اس بات پر توجہ ركھنا چاہئے كہ وہ چیزیں جو بھت سی ملل ونحل كی كتابوں مثلاً كتاب الفِصَل ابن حزم،اور ملل ونحل شھرستانی میں شیعوں كی طرف بھت سی باتوں كی نسبت دی گئی ھے، وہ كسی بھی صورت میں صحیح نھیں ھیں، اور لكھنے والوں كے تعصب اور خود غرضی كا نتیجہ ھے ۔ امام الحرمین جُوَینی كا نظریہ
امام الحرمین عبد الملك جوینی پانچویں صدی كے مشهور اور بھت بڑے شافعی علماء میں سے تھے، وہ خداوندعالم كی صفات سلبیہ كو بیان كرتے وقت كھتے ھیں: خداوندعالم كسی بھی جھت وسمت سے مخصوص هونے، یا كسی محاذات (یعنی كسی چیز كے مقابلہ میں واقع هونا) كی صفت سے متصف هونے سے پاك ومنزہ ھے، كیونكہ ھر وہ چیز جو جھت ركھتی ھے وہ كسی ایك جگہ اور مكان میں هوتی ھے اور جوچیز كسی مكان یا جگہ میں هو تو وہ اس كی قابلیت ركھتی ھے كہ كوئی جوھر اس سے ملاقات كرے یا كوئی چیز اس سے جدا هوجائے اور جو چیزیں اس طرح سے هوتی ھیںوہ ان دونوں(اجتماع وافتراق) سے خالی نھیں هوسكتیں، اور جو چیز اجتماع اور افتراق سے خالی نہ هو (یعنی كسی جوھر كے ساتھ جمع هویا اس سے جدا هوجائے) تو وہ بھی اس جوھر كی مانند حادث ھے، لہٰذا ثابت یہ هوتا ھے كہ خداوندعالم ھر طرح كے مكان وجھت سے پاك ومنزہ ھے اور كسی جسم سے ملاقات نھیں كرسكتا۔
اگر كوئی سوال كرے كہ آیہ مباركہ ”اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ“ سے كیا مراد ھے؟ توھمارا جواب یہ هوگا كہ استویٰ سے مراد خداوندعالم كا قھر وغلبہ اور اس كی عظیم عظمت ھے، اور جس وقت عرب كھتے ھیں: استوی فلان علی المملكة یعنی فلاں شخص تمام مملكت پر غلبہ پاگیا، یہ بھی اسی طرح ھے چنانچہ عربی شاعر كھتا ھے: قَدْاِسْتَویٰ بِشْرٌ عَلَی الْعِراقِ مِنْ غَیْرِ سَیْفٍ وَدَمٍ مُہْرَاقِ89 (بشر(بشر ابن مروان)بغیر خوں ریزی كے عراق پر غلبہ پاگیا۔ ) یہ بات معلوم هونا چاہئے كہ پھلے آخرت میںخدا كے دیدار كا نظریہ موجود تھا، چنانچہ ”مرجئہ“نامی فرقہ كے بعض افراد اس طرح كا اعتقاد ركھتے تھے، اسی طرح بعض لوگ خدا كو صاحب جسم یھاں تك كہ اعضاء وجوارح والا تصور كرتے تھے90 تعالی اللّٰہ عما یقولون علواً كبیراً۔ 4۔ خدا كا آسمانِ دنیا سے زمین پر اترنے كا عقیدہ ابن بَطُوطہ (مشهور تاریخ نویس) دمشق كی توصیف بیان كرتے هوئے كھتا ھے: دمشق كے حنبلی عظیم فقھاء میں سے ایك تقی الدین ابن تیمیہ تھا جو مختلف فنون میں مھارت ركھتا تھا، اور اھل دمشق كو منبر سے وعظ ونصیحت كرتا تھا، ایك مرتبہ اس نے ایك بات ایسی كھی، جس كو اس وقت كے علماء نے قبول نھیں كیا، اور اس كو برا سمجھا، اور اس وقت كے مصری بادشاہ ملك ناصركو خبر دی كہ ابن تیمیہ ایسی ایسی باتیں كہہ رھاھے، ملك ناصر نے حكم دیا كہ اس كو قاھرہ روانہ كردیا جائے، اور جب ابن تیمیہ قاھرہ لایا گیا تو اس وقت ملك ناصر نے قضات وفقھاء كو بلایا، جس میں سب سے پھلے شرف الدین زاوی مالكی نے آغاز سخن كیا، اور ابن تیمیہ كے عقائد كو شمار كرنا شروع كیا، (بحث وگفتگو كے بعد) ملك ناصر نے حكم سنایا كہ ابن تیمیہ كو زندان میں ڈال دیا جائے، چنانچہ چند سال ابن تیمیہ كو زندان میں رہنا پڑا، لیكن اس نے وھاں رہكر تفسیر میں ایك كتاب بنام”البحر المحیط“ لكھی جو تقریباً چالیس جلدوں پر مشتمل تھی،اور جب زندان سے آزاد هوا تو پھر وھی اپنا پرانا عقیدہ لوگوں كے سامنے بیان كرنا شروع كیا جس كی پھر علماء نے مخالفت كی، میں(ابن بطوطہ) اس وقت شام میں تھا جب ابن تیمیہ نے جمعہ كے دن جامع مسجد كے منبر پر تقریر كی اور لوگوں كو وعظ ونصیحت كی ،تو میں بھی اس وقت مسجد میں تھا، اس نے اپنی گفتگو كے دوران كھا كہ خداوندعالم آسمان دنیا(پھلے آسمان) پر اسی طرح نا زل هوتا ھے جس طرح میں نیچے آتا هوں، یہ كہہ كر ابن تیمیہ منبر كے ایك زینے سے نیچےاتر آیا۔ 91 جب اس نے یہ كلمات زبان پر جاری كئے تو ایك مالكی عالم بنام ابن الزھراء اس كی مخالفت كے لئے كھڑا هوگیا اور اس كی باتوں سے انكار كرنے لگا، یہ دیكھكر لوگوں نے ابن تیمیہ پر حملہ شروع كردیا اور اس پر جوتوں كی بارش هونے لگی، یھاں تك كہ اس كا عمامہ بھی گرپڑا، جب عمامہ گرا تو اس كے نیچے سے حریر كی ایك ٹوپی نكلی، جس كو دیكھ كر لوگ مزید برھم هوگئے كہ ایك فقیہ اور حریر كی ٹوپی پہنے هوئے ھے، اس كے بعد اس كو عزالدین ابن مسلم (حنبلی قاضی) كے پاس لے گئے، مذكورہ قاضی نے اس كی باتوں كو سن كر اس كوتعزیر (شرعی تنبیہ)كرنے كے بعد اس كو زندان كے لئے روانہ كردیا، مالكی اور شافعی قاضیوں كو اس حنبلی قاضی كا یہ حكم ناگوار گذرا انھوں نے اس بات كی خبر ملك الامراء سیف الدین تنكیز تك پهونچائی، سیف الدین نے اس موضوع اور ابن تیمیہ كی دوسری باتوں كو تحریر كر كے اس پر چند گواهوں اور قاضیوں كے دستخط لے كر ملك ناصر كو بھیج دیا، ملك ناصر نے حكم دیا كہ ابن تیمیہ كو زندان میں بھیج دیا جائے ،چنانچہ وہ قید میں رھا یھاں تك كہ اس دنیا سے چل بسا۔ 92 ابن تیمیہ نے رسالہ عقیدہ واسطیہ میں ایك حدیث ذكر كی ھے جس میں تحریر ھے كہ خداوندعالم ھر شب آسمان دنیا (آسمان اول) پر نازل هوتا ھے۔ 93 5۔ انبیاء علیهم السلام كا بعثت سے قبل معصوم هونا ضروری نھیں ابن تیمیہ، علامہ حلّی ۺ كے اس نظریہ كو كہ انبیاء كا اول عمر سے آخر عمر تك گناہ كبیرہ وصغیرہ سے معصوم هونا ضروری ھے اور اگر معصوم نہ هوںتو ان پر اعتماد اور بھروسہ نھیں كیا جاسكتا، كا جواب دیتے هوئے كھتا ھے : انبیاء علیهم السلامكا بعثت سے قبل گناهوں سے معصوم هونا ضروری نھیں ھے، اور اپنی اس بات كو ثابت كرنے كے لئے دلیلیں بھی لاتا ھے۔ 94 ابن تیمیہ كا اعتقاد یہ تھا كہ انبیاء علیهم السلامكی عصمت فقط امور تبلیغ میں هوتی ھے، اوراس نے اس سلسلہ میں ایك رسالہ بھی لكھاھے۔ 95 6۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی وفات كے بعد ابن تیمیہ اپنے عقائد او رنظریات كے مخالف احادیث كو ضعیف اور غیر صحیح بتاتاھے، مثلاً اس نے اس حدیث شریف ”مَنْ حَجَّ فَزَارَ قَبْرِی بَعْدَ مَوْتِی كَاْنَ كَمَنْ زَاْرَنِی فِی حَیَاتِي“ (جس نے میری رحلت كے بعد حج كیا اور میری قبر كی زیارت كی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت كی) كو ضعیف بتاتے هوئے كھا ھے كہ چونكہ اس حدیث كا راوی حَفص بن سلیمان موثق نھیں ھے، لہٰذا اس حدیث كو قبول نھیں كیا جاسكتا۔ اسی طرح یہ حدیث شریف: ”مَنْ حَجَّ وَلَمْ یَزُرْنِی فَقَدْ جَفَانی“ (جو شخصحج بجالائے اور میری قبر كی زیارت نہ كرے گویا اس نے مجھ پر جفا كی) اور یہ حدیث شریف ”مَنْ زَارَ قَبْری. وَجَبَتْ لَہُ شفَاعَتی. “ (جو شخص میری زیارت كرے، مجھ پر اس كی شفاعت كرنا واجب ھے)اس نے ان دونوں احادیث كے راویوں كو بھی قبول نھیں كیا ھے۔ 96 ابن تیمیہ اس طرح كی احادیث كے مضامین كو رد كرتے هوئے كھتا ھے: جو كوئی شخص حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی حیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كرے وہ (آنحضرت (ص)كی طرف) ہجرت كرنے والوں میں شمار هوتا ھے،اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی وفات كے بعد آپ كی زیارت كرے اور تمام واجبات كو انجام بھی دے تو بھی اصحاب پیغمبر كے مانند نھیں هوسكتا، چہ جائیكہ ان كاموں كو انجام دے جونافلہ ھیں یا سرے سے قربت اوراستحباب بھی نھیں ركھتیں۔ 97 (اس كا مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبرِ مطھر كی زیارت كرنا ھے) اسی طرح ابن تیمیہ كھتا ھے كہ بعض لوگ رسول اكرمكی وفات كے بعد یہ دعویٰ كرتے ھیں كہ ھم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كی ھے اور ان سے احادیث اور فتووںكے بارے میں سوال كیا اور ھمیں جواب بھی ملا ھے، اور بعض لوگوں كو یہ وھم هوا كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كھلی اور حضرت رسول خداظاھر هوئے یا ایسے ھی دوسرے واقعات، میں(ابن تیمیہ)نے بھت سے ایسے لوگوں كو دیكھا جن كے لئے ایسے واقعات رونما هوئے یا انھوں نے راستگو افراد سے ایسے واقعات سنے، بعض لوگ ان واقعات كو صحیح سمجھتے ھیں اور ان كو آیات الٰھی جانتے ھیںاور یہ اعتقاد ركھتے ھیں كہ ایسے واقعات دیندار اورصالح افراد كے لئے رونما هوتے ھیں، جبكہ یہ نھیں جانتے كہ یہ سب شیطانی كام ھیں، اور جب كسی كے پاس كافی علم نھیں هوتا تو اس كو شیطان گمراہ كردیتا ھے۔ 98 ابن تیمیہ ایك دوسرے مقام پر اس طرح كھتا ھے: جو كوئی شخص حضرت رسول اكرمكے مرنے كے بعد ان كے وجود كو ان كی زندگی كے جیسا مانے، تو اس نے بھت بڑی غلطی كی ھے،99 7۔ روضہٴ رسول دعا اور نماز كی حرمت كے بارے میں ابن تیمیہ كا نظریہ ابن تیمیہ صاحب كھتے ھیں: ایسی كوئی حدیث نھیں ھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كی زیارت كے مستحب هونے پر دلالت كرے۔ 100 اسی وجہ سے خلفاء (ظاھراً خلفائے راشدین مراد ھیں) كے زمانہ میں كوئی شخص بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے نزدیك نھیں جاتا تھا، بلكہ مسجد النبیمیں داخل هوتے وقت اور وھاں سے نكلتے وقت فقط آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كو سلام كیا كرتے تھے، اس كے بعد ابن تیمیہ كھتے ھیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كے نزدیك هوجانا بدعت ھے 101 نیز آنحضرت كی قبر منور كی طرف رخ كر كے بلند آواز میں سلام كرنا بھی جائز نھیں ھے۔ ابن تیمیہ، ان باتوں كو نقل كرنے كے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كے بارے میں اس طرح كھتے ھیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا جسد حضرت عائشہ كے حجرہ میں دفن هوا ھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی ازواج كے حجرے مسجد كے مشرق میں قبلہ كی طرف تھے اور حضرت عائشہ كے مرنے كے بعد ولید بن عبد الملك بن مروان كی خلافت كے زمانہ تك ان كے حجرے میں تالا لگا هوا تھا، ولید نے عمر بن عبد العزیز (مدینہ میںولید كا نائب)كو خط لكھا كہ پیغمبر (ص)كی ازواج كے تمام حجرے ان كے وارثوں سے خرید لئے جائےں اور ان كو گراكر مسجد النبی كا حصہ قرار دیدیا جائے۔ اس كے بعد ابن تیمیہ كھتے ھیں: جب تك عائشہ زندہ تھیں لوگ ان كے پاس احادیث سننے كے لئےجاتے تھے لیكن كوئی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے نزدیك نھیں جاتا تھا، نہ نماز كے لئے اور نہ دعا كے لئے، اس وقت قبر پر كوئی پتھر وغیرہ نھیں تھا بلكہ موٹی ریت كا فرش تھا۔ 102 اور آپ (حضرت عائشہ) كسی كو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر والے حجرے میں نھیں جانے دیتی تھیں،اور كسی كو بھی یہ حق حاصل نھیں تھا كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے پاس جاكر دعا كرے یا نماز پڑھے،103 لیكن بعض جاھل او رنادان افراد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی طرف رخ كركے نماز پڑھتے تھے اور نالہ وفریاد كرتے تھے اور ایسی باتیں كھتے تھے جن كے بارے میں منع كیا گیاھے، البتہ یہ تمام چیزیں حجرے كے باھر هوتی تھیں، او ركسی كوبھی اتنی جراٴت نھیں هوتی تھی كہ وہ قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نزدیك هو، او روھاں نماز پڑھے یا دعا كرے، كیونكہ جناب عائشہ كسی كو بھی اتنی اجازت نھیں دیتی تھیں كہ كوئی قبر كے نزدیك جاكر نماز پڑھے یا دعا كرے، جناب عائشہ كے بعد تك اس حجرے كے دروازہ پر تالا تھا یھاں تك كہ ولید بن عبد الملك نے اس حجرہ كو مسجد النبیمیں شامل كروادیا، اور اس كے دروازے كو بند ركھا اور اس كے چاروں طرف ایك دیوار بنادی گئی۔ 104 حجرے كے اندر قبر مطھر پر نہ تو كوئی پتھر ھے اور نہ ھی كوئی تختی اور نہ ھی كوئی گل اندود(ایسا مادّہ جس كو درودیوار پر ملا جاتا ھے تاكہ خراب نہ هوں)تھا بلكہ قبر مطھرموٹی ریت سے چھپی هوئی تھی۔ 105 ان مطالب كے ذكر كرنے سے ابن تیمیہ كا مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كے پاس نماز پڑھنا اور دعا كرنا بت پرستی كی مانند اور شرك كے حكم میں تھا، ابن تیمیہ نے ان باتوں كو ثابت كرنے كے لئے چند احادیث كا سھار ا بھی لیا ھے۔ روضہ رسول اكرم كے بارے میں وضاحت
طبری، قاسم ابن محمد سے روایت كرتے ھیں كہ میں جناب عائشہ كے پاس گیا، اور عرض كی اے اماں جان! پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان كے پاس جو دو لوگ دفن ھیں، مجھے ان كی زیارت كرائےے، جناب عائشہ نے مجھے ان تینوں قبروںكو دكھایا، جو نہ زمین سے اونچی تھیں اور نہ ھی زمین كے برابر(یعنی تھوڑی سی بلند تھیں) اور ان پر لال رنگ كے سنگریزے یا لال رنگ كا ریت (بالو) بچھا هوا تھا، اور میں نے دیكھا كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مبارك سب سے آگے تھی اور ابوبكر كی قبر ان كے پیچھےتھی اورعمر كی قبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے پیروں كی طرف تھی۔ 106
فاسی كھتے ھیں كہ جس وقت عمر بن عبد العزیز نے مسجد كی وسعت كے لئے حجرہ كو گرایا، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مبارك زمین سے چار انگشت بلند تھی اور اس كے اوپر ھلكے لال رنگ كے سنگریزوں كا فرش تھا۔ 107 اسی طرح فاسی نے عبد اللہ بن محمد عقیل سے روایت كی ھے كہ وہ قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے پاس گیا اور كچھ دیر تك وھاں رھا،اور اس نے دیكھا كہ ابوبكر كی قبر رسول اكرم كے قدموں كے پاس ھے اور عمر كی قبر ابوبكر كے پیروں كی طرف ھے۔ 108 اس بحث كے دوران یہ بات بھی قابل ذكر ھے كہ سمهودی كی نقل كے مطابق جناب فاطمہ بنت امام حسن مجتبیٰں اور ان كے شوھر حسن (حسن مثنیٰ)، حضرت فاطمہ دختر پیغمبر (ص)كے حجرے میں رھتے تھے، (جس وقت ولید نے حكم دیا كہ مسجد میں توسیع كی جائے) اس وقت ان دونوں كو مذكورہ حجرے سے نكالا گیا، اور اس حجرے كو گرادیا گیا۔ حسن بن حسن (یعنی حسن مثنیٰ) نے اپنے بڑے بیٹے جعفر كو حكم دیا كہ مسجدمیں جاكر بیٹھ جاؤ اور وھاں سے نہ اٹھنایھاں تك كہ یہ دیكھ لو كہ وہ پتھر جس كے اوصاف انھوں نے بتائے تھے قبرپر ركھتے ھیں یا نھیں؟جناب جعفر نے اپنے باپ كے كہنے پر عمل كیا توكیا دیكھاكہ ستون كو اونچاكردیا گیا اور پتھر كو باھر لایا گیا،انھوں نے جب یہ خبر جب اپنے والد محترم كو پهونچائی، تو وہ فوراً سجدے میں گئے اور كھا كہ یہ وہ پتھر تھا جس پر رسول اكرمنماز پڑھتے تھے، حضرت امام رضاںفرماتے ھیں كہ حضرت فاطمہ زھرا = كے دونوں بچوں حضرت امام حسن وامام حسین +كی ولادت اسی پتھر پر هوئی، اور حسین بن عبد اللہ بن عبد اللہ بن الحسین جو آل علی (ع) میں بھتبلند علمی مقام ركھتے تھے، جب ان كے بدن كے كسی حصّے میں درد هوتا تھا تو اس پتھر سے سنگریزوں كو ہٹا كر اپنے بدن كو مس كرتے تھے، (اور ان كے اعضاء بدن كا درد ختم هوجاتا تھا) یہ پتھر حضرت رسول اكرمكی قبر كی دیوار سے متصل تھا۔ 109 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے صندوق كے بارے میں
اسی طرح سمهودی تحریر كرتے ھیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كے صندوق كی ابتداء كے بارے میں صرف یہ جانتا هوں كہ مسجد میں پھلی بار آگ لگنے110 سے پھلے(یعنی654ھ) صندوق موجود تھا، كیونكہ جس وقت تعمیر مسجد كے متولی نے اس كو اس كی جگہ سے نكالا، اس كے نیچے صندوق عتیق كے ستون ظاھر هوئے تھے جس پر آگ كے نشان موجود تھے، گویا مسجد كی تجدید كے وقت اس عتیق كے صندوق كو نئے صندوق كے اندر ركھا گیا تھا، ابن سمهودی كی بات تائید چھٹی صدی كے مشهور ومعروف سیاّح ابن جبیر كے بیان سے هوتی ھے جیساكہ لكھتا ھے:
”وہ آبنوس كا صندوق (Apnus) جس پر صندل كی لكڑی كا كام تھااور چاندی كے ورق سے سجایا گیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے سرھانے موجود ھے، جس كی لمبائی پانچ بالشت، عرض تین بالشت اور اونچائی چار بالشت ھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے سامنے چاندی كی ایك میخ (كیل) ھے، جس كے سامنے كھڑے هوكر لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كو سلام كیا كرتے ھیں۔ دروازے كے نزدیك تقریباً بیس عدد قندیل چھت میں لگی هوئی تھیں، جس میں سے دوعدد سونے كی اور باقی چاندی كی ھیں۔ روضہ مقدس كے اندر كا ایك حصہ پرسنگ مرمركا فرش ھے، اور قبلہ كی طرف ایك محراب نما جگہ ھے جس كو بعض لوگ حضرت فاطمہ زھر ا = كا گھر اور بعض لوگ اس كوحضرت فاطمہ زھرا= كی قبر مطھر كھتے ھیں، اسی طرح روضہ رسولكے سامنے ایك بڑا صندوق شمع اور چراغ جلانے كے لئے ھے اورھر شب میں اس میں چراغ جلائے جاتے ھیں۔ 111 ابن بطوطہ، جس نے تقریباً ابن جبیر سے دوصدی بعد اورسمهودی سے دوصدی قبل مدینہ منورہ اورمسجد رسول كودیكھا ھے، وہ بھی تقریباً ابن جبیر ھی كی طرح روضہ رسول اسلام كی توصیف كرتا ھے ۔ قبر مطھر كی چادر كو معطر كرنا قبر كے اطراف قندیلیں لٹكانا اور قیمتی اشیاء ہدیہ كرنا سمهودی حضرت رسول خداكے روضہ مطھر اور قبر منور چادراور اس كو معطّر كرنے كی بحث كے دوران چند روایت ذكركرنے كے بعد اس طرح رقمطراز ھیں كہ ھارون الرشید كے زمانہ میں خیزران (ھارون كی ماں) نے حكم دیا كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كو زعفران اور دوسرے بھترین عطریات سے معطّر كیا جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر پر حریر كے جالی داركپڑوں كی چادرڈا لی جائے ۔ 112 سمهودی ایك دوسری جگہ لكھتے ھیں:پھلے رسول اكرمكی دو سوم قبر كو زعفران اور عطر لگایا جاتا تھا لیكن170ھ میں خیزران كے حكم سے پوری قبر كو معطّر كیا جانے لگا۔ سمهودی كی باتوں سے یہ اندازہ لگایا جاسكتا ھے كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كو ڈھكنے كے بارے میں علماء كے درمیان اختلاف تھا، لیكن اس پر چادرڈالنے كا معمول تھا۔ 760ھ میں یعنی سلطان اسماعیل بن ملك ناصر قَلاوُون كے زمانہ میں مصر میں بیت المال كے ذریعہ ایك دیھات خریدا گیا تاكہ اس كی آمدنی سے ھر پچاس سال كے بعد خانہ كعبہ كا غلاف اور حضرت رسول خدا كی قبر مطھر اور منبر كی چادر بدلی جاسكے۔ اس كے بعد سمهودی كھتے ھیں: ” آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كو سونے چاندی كی قندیلوں اور فانوسوں اور شیشہ كی بھت قیمتی اشیاء سے زینت كی گئی تھی، جن كا حكم خانہ كعبہ كی قیمتی اشیاء كی طرح ھے۔ 113 سُبْكی نے آنحضرت (ص)كی قبر مطھر اور روضہ اقدس كی قیمتی قندیلوں كے بارے میں ایك كتاب بنام ”تَنْزِلُ الْسَكِیْنَة عَلیٰ قَنَادِیْلِ الْمَدِیْنَة لكھی ھے۔ 114 سمهودی حرم مطھر اور روضہ رسولپرلگی قندیلوں كے ذكر كے بعد كھتے ھیں كہ آنحضرت كے حجرہ شریف پر قندیلوں كا لگایا جانا ایك معمول كام تھا، اور یھاں پر اس طرح زینت كرنا دوسرے مقامات پر مقدم اوربھتر ھے۔ ھمیشہ بھت سے علمائے كرام اور زاہد حضرات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے لئے آئے ھیں لیكن ھم نے نھیں سنا كہ كسی نے اس كام سے منع كیا هو، اور علماء كا منع نہ كرنا خود اس بات كی دلیل ھے كہ یہ كام جائز ھے۔ 115 حرم مطھر اور روضہ رسول كی قندیلیں كبھی كبھی اتنی زیادہ هوجاتی تھیں كہ جو قدیم هوجاتی تھیں ان كو فروخت كردیا جاتا تھا اور ان كی قیمت كو حرم كی تعمیرات میں صرف كردیا جاتا تھا، چنانچہ705ھ میں روضہ رسول (ص)كے خادمین كے رئیس نے بادشاہ سے اجازت مانگی كہ بعض قندیلوں كو بیچ دیا جائے اور ان كی درآمد سے باب السلام میں كچھ تعمیر كرا دی جائے، اور جب اس وقت كے بادشاہ نے اجازت دی تو ان قندیلوں كو فروخت كردیاگیا،ان میں سے دو عدد سونے كی قندیلیں تھیں وہ ایك ہزار درھم كی فروخت هوئیں۔ 116 حجرے كے اوپر گنبد كے بارے میں
سمهودی جس كی كتاب تاریخ مدینہ اور مسجد النبی میں بھترین اور معتبر ترین كتاب مانی جاتی ھے گنبد روضہ نبوی كے بارے میں اس طرح رقمطراز ھے: مسجد النبی میںلگنے والی پھلی آگ سے پھلے یعنی654ھ سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے حجرے پر كوئی گنبد یا قبّہ نھیں تھا بلكہ چھت كے اوپر قبر كے سیدھ میں نصف قد آدم اینٹوں كی دیوار تھی تاكہ اس حجرے كی چھت مسجد النبی كی دوسری عمارت سے الگ دكھائی دے، لیكن678ھ میں ملك منصور قلاوون صالحی نے اس حجرے كے اوپر ایك قبّہ بنوایاجس كا نیچے والا حصہ مربع اور اوپر آٹھ گوشے تھے۔ 117
حرم مطھر كے دروازے كس زمانہ میں بند كئے گئے؟ جس وقت822ھ میں نجم الدین حجی شام كے قاضی نے اپنے كاروان كے ساتھ فریضہ حج انجام دیا اور روضہ رسول اكرم (ص)كی زیارت كی، اس وقت روضہ رسولكے اندر لوگوں كی بھیڑ دیكھی تو فتویٰ صادر كردیا كہ روضہ رسول كے دروازے بند كردئے جائیں،828ھ میں مذكورہ قاضی نے اپنے فتوے كے بارے میں اس وقت كے سلطان سے حمایت چاھی چنانچہ اس نے بھی اس كی حمایت میں حكم صادر كردیا ،جس كی وجہ سے حرم كے دروازے بند هوگئے۔ میں (سمهودی)نے قول مجد پرحافظ جمال الدین بن الخیاط یمنی كے ھاتھ كا حاشیہ دیكھا، جس میں اس طرح لكھا تھا كہ ملك اشرف بَر سْبای،جوكہ مصر وشام كا حاكم تھا اس كے زمانہ میں حرم اور روضہ مطھركے اطراف میں جالیوں والے درلگائے گئے، اور830ھ كے بعد سے لوگ ان جالیوں كے پیچھے سے كھڑے هوكر زیارت رسول اكرمكیا كرتے تھے، اور كوئی بھی اندر داخل نھیں هوتا تھا۔ اس موقع پر سمهودی اپنی رائے كا اظھار كرتے هوئے كھتے ھیں كہ بھتر تو یہ تھا كہ حرم مطھر كے بعض دروازوں كو كھلا ركھتے اور بعض جاھل اور بے ادب لوگوں كے لئے دروازوں پر نگھبان كھڑا كردیتے، تاكہ وہ بے ادب اور جاھل لوگوں كو حرم مطھر میں داخل نہ هونے دیں، نہ یہ كہ بالكل ھی دروازے بند كردئے جائیں،اور دوسرے لوگوں كو بھی زیارت سے محروم كردیا جائے، جبكہ آنحضرتكی زیارت سے لوگوں كو روكنا یعنی تمام مسجد كی تعطیل كرنا ھے۔ 118 لیكن شوكانی قبر رسولكے اطراف كے دروازہ بند هونے كے سلسلہ میں یوں رقمطراز ھیں كہ اصحاب اور تابعین نے جب یہ دیكھا كہ مسلمانوں كی تعداد میں اضافہ هوتا جا رھا ھے تو مسجد النبی میں توسیع كی ضرورت كو محسوس كیا اور مسجد میں توسیع كی گئی، ا ور اس توسیع میں امھات المومنین (ازواج رسول (ص))كے حجرے یھاں تك كہ جناب عائشہ كا وہ حجرہ جس میں رسول اللہدفن تھے، وہ بھی شامل هوگیا، قبر مطھر كے چاروں طرف اونچی اونچی دیواریں ھیں تاكہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر منور دكھائی نہ دے، اس وجہ سے كہ كھیں ایسا نہ هو كہ عوام الناس آپ كی قبر كی طرف نماز پڑھنے لگیں، اور ممنوعہ كام (غیر خدا كی عبادت) نہ هوجائے۔ 119 مسجد النبی كے فرش كے سنگریزوں كے بارے میں
اس بحث كے اختتام پر بھتر ھے كہ اس بات كی طرف بھی اشارہ كیا جائے كہ مسجد النبیكا لال رنگ كے سنگریزوں سے فرش حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے زمانہ سے ھے اور اب بھی اسی رنگ كا ھے، ابوداود نے اپنی سنن میں ابو ولید سے روایت كی ھے كہ ابن ولید نے ابن عمر سے سوال كیا كہ مسجد النبی كے فرش كی جگہ سنگریزے ڈالنے كی وجہ كیا ھے؟ تو ابن عمر نے اس طرح جواب دیا كہ ایك رات جب بارش آئی تو دوسرے روز صبح كو زمین گیلی تھی، چنانچہ جو شخص بھی مسجد میں آتا تھا اپنے ساتھ ایك مقدار سنگریزے لاتا تھا اور ان كو مسجد میں ڈال كر پھیلادیا كرتا تھا اور انھیں كے ا وپر نماز پڑھا كرتا تھا، نماز كے تمام هونے كے بعد حضرت رسول اكر م (ص)نے فرمایا كہ یہ كام كتنا اچھا ھے، اور اب كسی كو اپنے لائے هوئے سنگریزوں كو مسجد سے باھر لے جانے كا كوئی حق نھیں ھے۔ 120
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كی زیارت اور بوسہ لینے كے سلسلے میں ایك اور وضاحت جناب سمهودی جن پر تمام اھل سنت اور وھابی حضرات بھی اعتماد كرتے ھیں، انھوں نے بھت سے ایسے موارد ذكر كئے ھیں كہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے نزدیك جاتے تھے اور قبر مطھر كے اوپر ھاتھ ركھتے تھے، یھاں تك كہ لوگ (تبرك كے لئے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی مٹی اٹھالیتے تھے اور جب سے جناب عائشہ كے حكم سے دیوار بنادی گئی اس كے بعد بھی لوگ دیوار میں موجود سوراخوں كے ذریعہ قبر مطھر كی مٹی اٹھالیا كرتے تھے۔ 121 سمهودی انس بن مالك سے روایت كرتے ھیں كہ ایك شخص جو قبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ھاتھ ركھے هوئے تھا میں نے اس كو منع كیا، اس كے بعد بعض علماء كا قول نقل كرتے ھیں كہ اگر صاحب قبر سے مصافحہ كرنے كے قصد سے قبر پر ھاتھ ركھا جائے تو كوئی حرج نھیں ھے۔ اسی طرح سمهودی ”تحفہٴ ابن عساكر“ سے نقل كرتے ھیں كہ مقدس قبور كو مس كرنا یا ان كو بوسہ دینا اور ان كاطواف كرنا جیسے جاھل ونابلد لوگ ان كا طواف كرتے ھیں، ان سب كا سنت نبوی سے كوئی تعلق نھیں ھے بلكہ مكروھات میں سے ھے۔ اس كے بعد وہ ابی نُعیم سے روایت كرتے ھیںكہ ابن عمر قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ھاتھ ركھنے كو مكروہ جانتے تھے، اس كے بعد كھتے ھیں كہ عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے اپنے باپ سے سوال كیا كہ لوگ رسول اسلام كے منبر پر ھاتھ پھیر تے ھیں، اس كو چومتے ھیں اور اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كو مس كرتے ھیں اور بوسہ دیتے ھیں، اس سوال كے جواب میں احمد نے كھا كہ كوئی حرج نھیں ھے، اسی طرح جناب سُبكی نے ابن تیمیہ كی ردّ كرتے هوئے كھا ھے كہ رسول اكرم كی قبر مطھر كو مس نہ كرنے كا مسئلہ اجماعی نھیں ھے كیونكہ مطلّب بن عبد اللہ سے مروی ھے كہ مروان بن الحكم نے جب ایك شخص كو دیكھا كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر سے چمٹا هواھے، تو مروان نے اس شخص كی گردن كو پكڑكر كھا كہ معلوم ھے توكیا كر رھا ھے؟ اس شخص نے اس كی طرف اپنا رخ كركے كھا: میں لكڑی اور پتھر كے پاس نھیں آیا هوں بلكہ پیغمبر اكرم (ص)كے پاس آیا هوں، اس وقت دین پر ماتم كیا جانا چایئے جب دین كی باگ ڈور نااھلوں كے ھاتھ میں هو، یہ مذكورہ شخص ابوایوب انصاری تھے، اس موقع پر سُبكی كھتے ھیں كہ اگر اس روایت كی سند كو صحیح مان لیا جائے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كو مس كرنا مكروہ بھی نھیں ھے۔ ایك دوسری روایت كے مطابق جناب بلال جب شام سے آنحضرت (ص)كی زیارت كے لئے مدینہ تشریف لائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر منور كے نزدیك روتے هوئے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر پر اپنے رخساروں كو مَل رھے تھے، اور ایك دوسری روایت كے مطابق جب حضرت علیںنے رسول اكرم (ص)كو دفن كیا توجناب فاطمہ زھرا = تشریف لائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كے سامنے كھڑی هوئیں اور قبر سے ایك مٹھی خاك اٹھائی اور اپنی آنكھوں سے مس كركے رونا شروع كیا، اور ایك دوسری روایت كے مطابق ابن عمر اپناداہنے ھاتھ قبر منور پر ركھتے تھے اور اسی طرح جناب بلال اپنے رخساروں كو قبر مطھر پر ركھتے تھے، عبد اللہ ابن احمد حنبل نے كھا كہ یہ سب چیزیں بھر پور محبت كا ثبوت ھیں اور یہ تمام چیزیں ایك طرح سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا احترام اور تعظیم ھیں۔ 122 قبر اورروضہ مقدسہ كے بارے میں ابن تیمیہ كی باقی گفتگو
ابن تیمیہ كے دلیلوں میں سے سَلَف صالح (اصحاب پیغمبر) اور تابعین كا عمل بھی ھے، لیكن عجیب بات یہ ھے كہ یھی ابن تیمیہ زیارت كے بارے میں سلف صالح كے عمل كو قبول نھیں كرتے، اور كھتے ھیں كہ سلف صالح كا عمل كافی نھیں ھے بلكہ كسی دوسری دلیل كا هونا بھی ضروری ھے۔ 123 یھاں تك كہ ابن تیمیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كو دیكھنا بھی ممنوع قرار دیا۔ 124
وہ قبر مطھر اور روضہ مبارك كے بارے میں اس طرح كھتا ھے كہ كوئی بھی زائر كسی بھی طریقہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت نھیں كرسكتا، اور قبر كے چاروں طرف بھی اتنی گنجائش نھیں ھے كہ تمام زائرین وھاں جمع هوسكیں، اور جس حجرے میں حضرت رسول اللہ كی قبر مبارك ھے اس میں كوئی جالی وغیرہ نھیں ھے كہ اس سے آپ كی قبر كو دیكھا جاسكے، اور لوگوں كو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كو دیكھنے سے ممانعت كی گئی ھے،خداوندعالم نے جن چیزوں كے ذریعہ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر منّت ركھی ھے ان میں سے سب سے بڑی چیز یہ ھے كہ آپ كو آپ كے حجرے میں دفن كیا گیا جو مسجد النبیكے قریب ھے اور جو شخص نماز پڑھنا چاھتا ھے اس كو چاہئے كہ مسجد میں نماز ادا كرے جھاں نماز پڑھناجائز ھے۔ 125 اس كے بعد ابن تیمیہ صاحب كھتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے نزدیك نہ كوئی قندیل لٹكی هوئی ھے اور نہ ھی كوئی پردہ ھے، اور نہ ھی كسی شخص كے لئے یہ ممكن ھے كہ آپ كی قبر كو زعفران یا عطر كے ذریعہ معطر كرے یا كوئی شخص نذر كے لئے شمع یا چادر وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مبارك پر چڑھائے، 126 یھی ابن تیمیہ ایك دوسری جگہ كھتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر اوردوسری قبروں میں كوئی فرق نھیں ھے، صرف آپ كی مسجد دوسری مسجدوں سے افضل ھے۔ 127 8۔ قبروں كی زیارت كے لئے سفر كرنا حرام ھے ابن تیمیہ كا كہنا ھے كہ اس حدیث شریف كے پیش نظر”لاٰ تُشدُّ الرِّحَالُ اِلاّٰ اِلٰی ثَلاٰثَةِ مَسٰاجِدَ، اَلْمَسْجِدُ الْحَرَامُ وَمَسْجِدی ھٰذَا وَالْمَسْجِدُ الاَقْصیٰ“(تین مسجدوں كی زیارت كے لئے سفركرنا جائز ھے : 1۔ مسجد الحرام (خانہ كعبہ)،2۔ میری یہ مسجد ،اور 3۔ مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)اور دوسری مساجد یا انبیاء یا اولیاء اللہ اور صالحین كی قبروں كی زیارت كے لئے سفر كرنا بدعت اور ناجائز ھے)۔ اسی طرح ابن تیمیہ كاكہنا ھے كہ قبور كی زیارت كی غرض سے سفر كرنا اور عبادت كے قصد سے زیارت كرنا، چونكہ عبادت یا واجب هوتی ھے یا مستحب اور سبھی علماء كا اتفاق ھے كہ قبور كی زیارت كے لئے سفر كرنا نہ واجب ھے اور نہ ھی مستحب، تو زیارت كے لئے سفر كرنا بدعت هوگا۔ اس كے بعد كھتے ھیں: خلفائے اربعہ كے زمانہ تك بلكہ جب تك ایك بھی صحابی رسول زندہ رھا كوئی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دوسرے انبیاء، اولیاء اور صالحین كی قبروں كی زیارت كے لئے نھیں جاتا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے صحابی بیت المقدس كی زیارت كے لئے تشریف لے جاتے تھے لیكن وھیں پر موجود جناب ابراھیم خلیل اللہ كی قبر كی زیارت نھیں كرتے تھے اور كوئی بھی اپنی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے لئے نھیں جاتا تھا، ابن تیمیہ اس بحث كے ذریعہ شیعوں پر سخت حملہ كرتے هوئے كھتے ھیں كہ رافضی لوگوں نے صالحین كی قبور كو مسجد بنالیا ھے اور وھاں نمازیں پڑھا كرتے ھیں، اور قبروں كے لئے نذر كرتے ھیں اور بعنوان حج ان كی زیارت كے لئے جاتے ھیں، اورخانہٴ مخلوق كے سفر كو بیت الحرام (خانہ كعبہ) كے حج سے افضل سمجھتے ھیں اور اس (زیارت)كو حج اكبر كھتے ھیں اور ان كے علماء نے اس سلسلہ میں بھت سی كتابیں بھی لكھیں ھیں،ان میں ایك شیخ مفید (چوتھی او رپانچویں صدی كے مشهور ومعروف عالم) ھیں جنھوں نے ”مناسك حج المشاہد“ نامیكتاب لكھی ھے۔ 128 چنانچہ ابن تیمیہ ایك دوسری جگہ كھتے ھیں: ”اگر كوئی یہ اعتقاد ركھے كہ انبیاء اور صالحین كی قبروں كی زیارت كرنا، خداوندعالم كی رضا اور خوشنودی كا سبب ھے، تو اس كا یہ اعتقاد اجماع كے بر خلاف ھے۔ 129 اور حقیقت تو یہ ھے كہ اسلام میں قبور كی زیارتكے مسئلہ كا كوئی وجود نھیں۔ 130 یھاں تك كہ اس مسئلہ میں یہ بھی كھا جاسكتا ھے كہ زیارتوں كے لئے سفر كرنے(ابن تیمیہ كے بقول حج قبور) كا گناہ كسی كو ناحق قتل كرنے سے بھی زیادہ ھے، كیونكہ كبھی كبھی یہ عمل اور یہ زیارت باعث شرك اور ملت اسلامی سے خارج هونے كا سبب بنتی ھے۔ 131 اور اگر كوئی شخص یہ نذر كرے كہ مثلاً میں خلیل الرحمن یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی یا كوہ طوریا غارِ حراء یا اس طرح كی دوسری جگهوں كی زیارت كے لئے جاؤں گا، تو ایسی نذر پر عمل كرنا ضروری نھیں ھے۔ 132 زیارت قبور كے سلسلے میں اجماع اور اتفاق كی وضاحت
خود ابن تیمیہ كے زمانہ سے اور اس كے بعد مختلف فرقوں كے علماء نے ابن تیمیہ كے عقائد بالخصوص زیارت قبور كے سلسلہ میں سفر كی حرمت كے بارے میں ابن تیمیہ كے نظریات كے جوابات اور اس كی ردّ تفصیل كے ساتھ لكھی ھیں مثلاً مالكی فرقہ كے قاضی اِخنائی (جوكہ ابن تیمیہ كے معاصرین میں سے تھے) نے ابن تیمیہ كے عقائد كی ردّ لكھی ھے جس كا نام ”المقالة المرضیّہ“ جو حرمت سفر زیارت قبور كے سلسلہ میں ابن تیمیہ كے عقائد كی ردّ ھے، یہ كتاب جس وقت ابن تیمیہ كے ھاتھوں میں پهونچی تو اس نے اس كاجواب لكھا جس كا نام ”كتاب الردّ علی الاخنائی“ ركھا جو اس وقت بھیموجود ھے۔
قاضی اخنائی نے جیسا كہ ابن تیمیہ نے ان سے نقل كیا كہ ابن تیمیہ كا نظریہ مسلمانوں كے اجماع كے خلاف ھے اور انبیاء اولیاء اور صالحین كی قبروں كی زیارت كے لئے سفر كرنا مستحب سفر ھے، اس لحاظ سے یہ سفر مسجد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی طرح ھے اور اگر كوئی یہ كھے كہ مذكورہ تین مسجدوں كے علاوہ سفر كرنا صحیح نھیں ھے تو اس كی یہ بات اجماع كے خلاف ھے، اور گویا اس شخص نے كھلے عام خدا اور پیغمبروں سے دشمنی كے لئے قیام كیا ھے۔ ایك دوسری جگہ پر اخنائی كھتے ھیں كہ بعض علمائے كرام نے پیغمبر اكرم(ص) كی قبر كی زیارت كو واجب قرار دیا ھے، خلاصہ یہ كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے مستحب هونے میں كسی كو بھی شك وشبہ نھیں ھے، چنانچہ مسند ابی شَیبہ میں یہ حدیث شریف وارد هوئی ھے: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ: ”مَنْ صَلّٰی عَلَیّٰ عِنْدَ قَبْرِیْ سَمِعْتُہُ وَمَنْ صَلّٰی نَاِئیاً سَمِعْتُہُ“133 حضرت رسول اكرمنے ارشاد فرمایا: جو شخص میری قبر كے نزدیك مجھ پر صلوات بھیجے تو میں اس كو سنتا هوں اور اگر كوئی دور سے بھی مجھ پر صلوات بھیجے تو میں اس كی صلوات بھی سنتا هوں۔ قارئین كرام!یھاں پر دو باتوں كی طرف توجہ كرنا ضروری ھے: پھلی بات یہ ھے كہ یہ دونوں (ابن تیمیہ اور اخنائی) ایك دوسرے كے عقیدے كو مسلمین كے اجماع كے بر خلاف جانتے ھیں ۔ 134 اور دوسری بات یہ ھے كہ ابن تیمیہ كی بھت سی چیزوں كا مدرك اور سند امام مالك اور اس كے پیروكار حضرات كی تحریریں ھیں، لیكن اس كے باجود اكثر وہ لوگ جو ابن تیمیہ كی مخالفت كے لئے اٹھے، وھی علماء ھیں جن كا تعلق مالكی مذھب سے تھا اورجنھوں نے دمشق اور قاھرہ میںابن تیمیہ سے بحث وگفتگو اور مناظرے كئے اور ابن تیمیہ كو زندان میں بھجواءے ۔ آئےے اپنی بحث كی طرف پلٹتے ھیں:ابن شاكر كھتے ھیں كہ شدِّ رِحال (مذكورہ مساجد كے علاوہ سفر كرنے كی حرمت) كا موضوع ان اھم مسائل میں سے ھے جن كی وجہ سے اس زمانہ كے علمائے كرام كو مخالفت كے لئے كھڑا هونا پڑا۔ 135 مرحوم علامہ عبد الحسین امینی رحمة اللہ علیہ زیارت قبور كے بارے میں بحث كرتے هوئے اھل سنت كی كتابوں سے بھت سی ا حادیث كو نقل كرتے ھیں اور انھوں نے ایسی باون (52) قبروں كا شمار كرایا ھے جو گذشتہ زمانہ سے آج تك اھل سنت كی زیارت گاہ بنی هوئی ھیں، اور اس بات پر خود ان كی كتابوں سے حوالے بھی بیان كئے ھیں۔ 136 شیعوں كی طرف دی گئی نسبتوں كی وضاحت
قدیم زمانہ سے شیعوں كی طرف ایك جھوٹی نسبت یہ دی گئی ھے كہ شیعہ حضرات اپنے اماموں اور رھبروں كی قبروں كی زیارت كو حج بیت اللہ كی طرح مانتے ھیں، یہ تھمت اور دوسری تھمتیں جو مختلف بھانوں سے شیعوں پرلگائی گئی ھیں، یہ سب ”سلجوقیوں“كے زمانہ میں زیادہ رائج هوئی ھیں، اس طرح كہ جب” نظام الملك“ اسماعیلہ فدائیوں كے ھاتھوں قتل هوا، اس دور میں حسن صباح اور اس كے ساتھیوں نے قدرت حاصل كرلی، اس وقت سلجوقی بادشاهوں كو بھت زیادہ نگرانی وپریشانی تھی اور خوف ووحشت كی وجہ سے ان كی راتوں كی نیند یں حرام هوچكی تھیں، اس موقع پر شیعوں كے دشمنوں نے موقع پایااور سلجوقی بادشاہ كے كانوں میں یہ بات بھر دی كہ شیعہ (یا ان كے بقول رافضی) تمھارے سخت دشمن ھیں، چنانچہ سلجوقی بادشاهوں كو شیعوں كے قتل عام اور ان كے شھروں كو تباہ وبرباد نیز شھروں میں آگ لگانے پر اُكسایا گیا، (اور اس نے ایسا ھی كیا) جس كے نمونے نظم اور نثر كی كتابوں میں كثرت سے دیكھے جاسكتے ھی، چنانچہ كتاب تاریخ مذھبی قم میں اس طرح كے بعض واقعات موجود ھیں یھاں تك كہ اس وقت كے مشهور ومعروف شیعہ علماء كو بھی قتل كیا گیا۔
خلاصہ یہ كہ شیعوں كے دشمنوں نے ان پر باطنی (یعنی اسماعیلی اور حسن صباح كے تابع هونے) جیسی تھمت لگاكر سلجوقی بادشاهوں كو شیعوں كے قتل وغارت پر مجبور كردیا تاكہ وہ شیعوں كے قتل وغارت میں ذرہ برابر بھی كوئی كمی نہ چھوڑےں، نیز شیعوں سے مزید دشمنی پیدا كرنے كے لئے شیعوں كے خلاف بھت سی دوسری تھمتیں بھی لگائیںجن میں سے ایك زیارت قبور بھی ھے، جس كے بارے میں یہ كھا كہ شیعہ زیارت قبور (ائمہ) كو حج كی طرح سمجھتے ھیں، سلجوقی زمانہ میں جس شخص نے آشكارا طور پر شیعوں كی طرف یہ نسبت دی ھے اس كا نام ابوبكر محمد راوندی (چھٹی صدی كا مورخ) ھے جو شیعوں سے اپنی دشمنی كو ثابت كرتے هوئے ان پر بھت سی ناجائز تھمتیں لگاتے هوئے اس طرح كھتا ھے كہ بھت سے كاشی (یعنی كاشان كے) لوگوں كو حاجی كھا جاتا ھے جنھوں نے نہ تو خانہ كعبہ كو دیكھا ھے اور نہ ھی بغداد، كو صرف ان لوگوں نے طوس كی طرف سفر كیا ھے۔ 137 طوس كی طرف سفر كرنے سے اس كا مقصد حضرت امام علی رضاںكی زیارت ھے۔ اس كے بعد سے یہ عظیم تھمتیں ان لوگوں كی كتابوں میں كم وزیاد پائی جانے لگیں جو تعصب یاشیعوں كے عقائد سے ناآشنائی كی وجہ سے دشمنی كرتے تھے، منجملہ ان كے عرب كا ایك مورخ اور سیّاح بنام محمد ثابت جس نے تقریباً چالیس سال پھلے ایران كا سفر كیا اور خصوصاً مشہد مقدس گیا،اس طرح لكھتا ھے كہ شاہ عباس كبیر (مشهور صفوی بادشاہ) چونكہ اس كو عرب اچھے نھیں لگتے تھے اسی وجہ سے اس نے ایرانیوں كو حج سے روكا اور لوگوں كو امام رضاںكی زیارت كی ترغیب دلائی اور كھا كہ وہ اسی كو اپنا كعبہ قرار دیں، اور وہ خود بھی پاپیادہ حضرت امام رضاںكی زیارت كے لئے گیا، اسی وجہ سے یہ لوگ آج كل بھت كم حج كے لئے جاتے ھیں، اور مشہدی (امام رضاںكی زیارت كرنے والے) كو حاجی پر ترجیح دیتے ھیں، وغیرہ وغیرہ ۔ 138 قارئین كرام!جیسا كہ معلوم ھے كہ یہ سیّاح مورخ، ایران آنے سے پھلے بعض كتابوں كے پڑھنے كے بعد اپنے ذہن میں شیعوں كے خلاف بعض تھمتیں لئے بیٹھا تھا، اسی وجہ سے اپنے مشاہدات كو تعصب كی نظر سے دیكھتا تھااوربغیر كسی غور وفكر كے ان كو انھیں تھمتوں پر حمل كرتا تھا، چنانچہ بغیر غور وفكر كے اپنے سفر نامے میں لكھتا تھا، اسی وجہ سے اس كے سفر نامے میں بھت سی چیزیں حقیقت كے خلاف موجود ھیں۔ اگر وہ ذرا بھی انصاف سے كام لیتا تو اس كو معلوم هوجاتا كہ عربوں سے شاہ عباس كی دشمنی كی كوئی دلیل نھیں ھے اور شاہ عباس عربوں كا دشمن كیوںهوتا؟! كیونكہ بھت سے تاریخی مدارك اس كے خلاف موجود تھے، اسی طرح شاہ عباس كی ایرانیوں كو حج سے روكنے پر بھی كوئی دلیل نھیں ھے، اور اس كے مشہد مقدس كا پاپیادہ سفر كرنے كی وجہ اس كی نذر تھی، اس كے علاوہ كسی بھی تاریخی سند میں كوئی بات بیان نھیں هوئی، اور یہ بات كس طرح ممكن ھے كہ ایك دیندار بادشاہ شاہ عباس جس نے بھت سے كار خیر انجام دئے پانی كے لئے كنویں كھدوائے بھت سی مسجدیں بنوائیں، ایسا شخص حج جیسے اھم واحب سے اور اگر محمد ثابت صاحب تھوڑی سی بھی تحقیق كرتے اور لوگوں كے ساتھ كچھ دن زندگی بسر كرتے تو انھیں ایرانیوںكے بارے میں معلوم هوجاتا كہ ایرانی اس شخص كا جو مكّہ معظمہ كی زیارت اور حج سے مشرف هوتا ھے كس قدر احترام كرتے ھیں اور صرف حاجی ایك ایسا لقب ھے جو تمام ایرانیوں میں احترام كے لئے كھا جاتا ھے، بڑے بڑے اور جید علماء كرام كے لئے بھی شروع میں حاجی لگایا جاتا ھے اور عام لوگوں كو بھی احترام كی وجہ سے حاجی كھا جاتا ھے۔ اسی طرح اس كو معلوم هوجاتا كہ ھر ایرانی كی یہ دلی تمنا هوتی ھے كہ وہ مكہ ومدینہ كی زیارت سے مشرف هو، اور اس بات كو سبھی حضرات جانتے ھیں كہ كسی بھی زمانہ میں ایرانی حاجیوں كی تعداد كسی بھی اسلامی ملك سے كم نھیں رھی، اور حاجیوں كی بڑھتی هوئی تعداد كی وجہ سے ایران میں امیر الحاج معین كیا جاتا ھے، اور سعودی عرب كی رپورٹ كے مطابق ایرانی حجاج كی تعداد پھلے نمبر پر هوتی ھے، اور امكانات اور دیگر وسائل سفر وغیرہ كے لحاظ سے بھی پھلا درجہ هوتا ھے۔ مذكورہ مورخ كی بے توجھی كو مد نظر ركھتے هوئے اس بات كی طرف اشارہ كرنا مناسب ھے كہ موصوف روضہ امام رضاںمیں صحن عتیق كے ایوان میں لگے فیروزوں كی باتیں كرتے هوئے اس طرح كھتے ھیں كہ فیروزوں كی كان فارس كے علاقہ فیروزآباد میں ھے وھاں ایك پھاڑ ھے جس كے ایك اھم حصہ میں فیروزے پائے جاتے ھیں۔ جب كہ یہ بات سب كو معلوم ھے كہ ایران میں فیروزہ كی كان نیشاپور میں ھے اور فارس كے علاقہ فیروز آباد میں كبھی كوئی فیروزہ كی كان نھیں تھی، ظاھراً اس مورخ كو فیروزآباد كے پھلے جز فیروز نے اس غلطی میں پھنسادیا ھے۔ اس سلسلہ میں ابن تیمیہ كی بات كتنی تعجب خیز ھے جبكہ وہ شیعوں كی فقہ سے كافی معلومات ركھتا ھے اور اپنے بعض مسائل میں شیعوں كے نظریہ كو اختیار كرتا تھا، اس كے باوجود كس طرح دوسروں سے متاثر هوگیا اور وہ تھمتیں جو لوگوں نے چند صدی قبل شیعوں پر لگائی گئی تھیں،اور ائمہ اور بزرگا ن دین كی زیارتوں كو جنھیںشیعہ متفق علیہ (سنی شیعہ) روایتوں كے مطابق مستحب مانتے اور ان پر تاكید كرتے ھیں ابن تیمیہ نے یہ كیسے گمان كر لیا كہ شیعہ ان كو خانہ كعبہ كے حج كے برابرقرار دیتے ھیں۔ 139 عجیب بات تو یہ ھے كہ اس نے اس عقیدہ كو شیخ مفید ۺ (جو خود سنی موٴلفوں كے مطابق شیعوں كے عظیم فقھاء اور متكلمین میں سے ھیں)كی طرف نسبت دی ھے۔ كیا یہ ممكن ھے كہ شیخ مفیدۺ زیارت كو جو كہ ایك مستحب كام ھے حج بیت اللہ كے برابر قرار دے دیںجو ھر مستطیع پر واجب ھے، یا اس سے بڑی بات كھیں كہ زیارت حج اكبر ھے۔ ؟! شیخ مفید ۺ اور دوسرے عظیم علماء كی تو اور بات ھے یہ بات تو عوام الناس اور جاھل شیعہ بھی نھیں كہہ سكتا،اور نہ صرف یہ كہ كوئی ایسا عقیدہ نھیں ركھتا بلكہ یہ بات تو ان كے كانوں میں بھی نھیں پڑی ھے۔ اس بحث كے آخر میں یہ بات عرض كرنا ضروری ھے كہ كسی بھی كتاب میں چاھے وہ رجالی هو یا تاریخی یا بیو گرافی مذكورہ كتاب ”مناسك حج المشاہد“كا كوئی ذكر موجود نھیں ھے جوطرف منسوب هوئی ھے، نہ معلوم ابن تیمیہ نے اس كتاب كو كس خواب میں دیكھا ھے جس كی نسبت شیخ مفید كی طرف دیدی۔ 140 ایك یاد دھانی
ھم نے بار بار اس بات كی طرف توجہ دلائی ھے كہ ابن تیمیہ چونكہ شیعوں سے بھت زیادہ دشمنی اور عناد ركھتا تھا اسی وجہ سے اس نے ان باطل عقیدوں كی نسبت شیعوں كی طرف دی ھے جبكہ وہ خود اچھی طرح جانتا تھا كہ شیعہ جو كچھ بھی كھتے ھیںیا جس چیزپر اعتقاد ركھتے ھیں ان سب كو انھوں نے اپنے ائمہعلیهم السلام كے ذریعہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حاصل كیا ھے ،ابن تیمیہ تقریباً اكثر مقامات پر شیعوں كو رافضی كھتا ھے اور جیسا كہ معلوم ھے كہ یہ نام شیعوں كے دشمن بدنام كرنے اور طعنہ كے طور پر استعمال كرتے ھیں۔
ھم یھاں پر رافضی كے بارے میںكتاب ”الاسلام بین السنة والشیعہ“ سے كچھ چیزیں خلاصہ كے طور پر بیان كرنا مناسب سمجھتے ھیں: رافضی كون لوگ ھیں؟
بھت سے لوگوں كے ذہنوں میں یہ بات آتی ھے كہ رافضی فرقہ، شیعوں اور اھل سنت سے الگ ایك فرقہ ھے، یھاں تك كہ بعض موٴلفین نے اس مسئلہ میں غلط فھمی كی ھے اور وہ یہ نہ سمجھ سكے كہ یہ فرقہ سنیوں كا ھے یا شیعوں كا،بعض شیعہ عوام اس كو اھل سنت كا فرقہ تصور كرتے ھیں (جبكہ حقیقت یہ ھے كہ رافضی نہ سنی فرقہ ھے نہ شیعہ)، لہٰذا ھم یھاں پر اس بارے میں علمی اور تاریخی گفتگو كرتے ھیں:
”رفض“كے معنی ھر اس چیز كو چھوڑنے كے ھیں جو وحی كے ذریعہ نازل هوئی هو، یا بت پرستی اور قدیم افسانوں كی طرف پلٹنے كو بھی رفض كھا جاتا ھے اور یہ بھی وحی كو ترك كرنے كے معنی میں سے ھے۔ 141 اور یہ بات مسلمانوں سے مخصوص نھیں ھے بلكہ تمام الٰھی ادیان میں ایسی بیماریاں تھی جن كی وجہ سے وہ انحراف اور تباھی میں مبتلا هوئے ۔ (اس جگہ بعض موٴلفین نے مثالیں پیش كی ھیں مثال كے طور پر جناب موسیٰ ں، جناب عیسیٰں كے دین كے ماننے والوں نے وحی كی تعلیمات كو چھوڑكر انحراف اور شرك اختیار كیا) اسلام میں اس طرح كا انحراف سب سے پھلے عبد اللہ ابن سبا جو كہ حِیری یمانی یهودی تھا، اس كے ذریعہ ایجاد هوا یہ شخص صدر اول میں اسلام لایا تھا. 142 یہ شخص (عبد اللہ ابن سبا) خود اسرائیلی فكر ركھتا تھا چنانچہ اس نے اسلام قبول كرنے كے بعد اس طرح كے كارنامے شروع كئے،اور حضرت علی ںكے بارے میں اس طرح غلو كیا كہ پھلے تو آپ كو پیغمبر كھا اور اس كے بعد آپ كو خدا كہنے لگا۔ عبد اللہ ابن سبا اور اس كے مرید اسلام اور اس كی تعلیمات اور خود امام ںسے بھت دور تھے ان كا كہنا تھا كہ حضرت علیںپیغمبر تھے لیكن جبرئیل نے غلطی كی كہ حضرت علیں كو پیغمبری دینے كے بجائے حضرت محمد (ص)كو دیدی۔ ھی لوگ وہ ھیں جو جناب جبرئیل كے دشمن ھیں، اور یھی كام یعنی جبرئیل كے ساتھ دشمنی اور جبرئیل پر غلطی كی تھمت لگانا وغیرہ،اس طرح كے عقائد گذشتہ مذھبوں مثلاً یونانی ستارہ پرست اور برھمنی عقائد ھیں یہ وہ مذاھب ھیں جو وحی كا انكار كرتے ھیںاور كھتے ھیں كہ خدا اور بندوں كے درمیان كوئی وحی نھیں ھے، اسی وجہ سے خداوندعالم نے اس خطرناك بیماری كی طرف اشارہ كیا ھے: < قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوّاً لِجِبْرِیْلَ فَاِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلٰی قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقاً لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَہُدیً وَبُشْریٰ لِلْمُوٴمِنِیْنَ۔ >143 ”اے رسول كہہ دیجئے كہ جو شخص بھی جبرئیل كا دشمن ھے اسے معلوم هونا چاہئے كہ جبرئیل نے خدا كے حكم سے آپ كے دل پر قرآن اتارا ھے جو سابق كتابوں كی تصدیق كرنے والا، ہدایت اور صاحبان ایمان كے لئے بشارت ھے“۔ حضرت علی علیه السلام كے بارے میں عبد اللہ ابن سبا كی باتیں اور اس كے غلونے حضرت كو ناراض كردیا، چنانچہ آپ كو بھت تكلیف پهونچی جس كی بناپرحضرت نے ارشاد فرمایا جس كو سید رضیۺ نے نہج البلاغہ میں بیان كیا ھے كہ آپ نے فرمایا: دو گروہ میری دوستی اور دشمنی كی وجہ سے ھلاك هوئے، پھلا گروہ وہ جس نے میری محبت میں غلو كیا اور دوسرا وہ جس نے میرے ساتھ سخت دشمنی كی (مراد ناصبی ھیں جنھوں نے حضرت علی ںپر كفر كی نسبت لگائی)۔ 144 اور الحمد اللہ ان دونوں فرقوں میں سے آج كوئی بھی باقی نھیں ھے جیسا كہ علامہ سید محسن امین ۺ نے اس چیز كی طرف اشارہ كیا ھے۔ عبد اللہ ابن سبا اور اس كے تابعین كا عقیدہ یہ بھی تھا كہ حضرت علیں نھیں مرے، ور آپ كی شان اس سے كھیں بلند وبالا ھے كہ آپ كو موت آئے، آپ بادلوں كے اوپر رھتے ھیں اور بجلی كی چمك كے وقت جو آواز نكلتی ھے وہ آپ ھی كی آواز هوتی ھے، اور یھی نھیں بلكہ عبد اللہ ابن سبا اور اس كے مطیع حضرت علیںكو خدا بھی كھتے ھیں۔ عبد اللہ ابن سبا مسلمانوں كے درمیان وہ پھلا شخص ھے جس نے انسانی الوھیت كا حكم كیا ھے اور اس كے بعد اس كے مریدوں نے اس كام كو آگے بڑھایا، یہ لوگ در حقیقت ان عظیم ہستیوں كو خدا كی طرح نھیں كھتے تھے بلكہ ان كے بارے میں یہ كھتے تھے كہ یہ حضرات قدرت الہٰی كے مظھر ھیں۔ 145 شیعہ روایات كے مطابق حضرت علی ںنے عبد اللہ ابن سبا اور اس كے مریدوں كو توبہ كرائی اور چونكہ اس نے توبہ نھیں كی لہٰذا اس كے قتل كا حكم صادر كردیا۔ واقعاً ان تمام باتوں كے پیش نظر بھی ابن تیمیہ سے تعجب ھے كہ اس نے ان فاسد اور كفر آمیز عقائدكی (جو بغدادی اور شھرستانی وغیرہ نے نقل كئے ھیں) شیعوں كی طرف نسبت دیدی، اور بعض عقائد تو ایسے ھیں كہ شاید ان كے پیرو بھی نہ هوں او راگر هوں بھی تو شیعہ اثنا عشری ان سے ھمیشہ بیزار رھے ھیں، لیكن پھر بھی ابن تیمیہ نے ان تمام كو شیعوں كی طرف نسبت دیتے هوئے ان پر حملہ كیا ھے۔ 146 ابن تیمیہ نے شیعوں پر تھمتیں لگانے میں جن كتابوں سے استفادہ كیا ھے وہ سب سے پھلے كتاب العثمانیہ جاحظ اور اس كے بعد الفرق بین الفِرق تالیف بغدادی ھے، كیونكہ اس نے اپنی كتاب منھاج السنة میں جو باتیں بیان كیں ھیں وہ بالكل وھی ھیں جو كتاب العثمانیہ میں بیان كی گئی ھیں۔ 9۔ ابن تیمیہ كی نظر میں حضرت رسول اكرم (ص) اور دوسروں كی زیارت كرنا ابن تیمیہ نے اپنے فتووں میں كھا ھے كہ اگر قبور پر نماز اور دعا كی جائے تو یہ كام ائمہ مسلمین كے اجماع اور دین اسلام كے خلاف ھے اور اگر كوئی شخص یہ گمان كرے كہ مشاہد اور قبور پر نمازپڑھنا اور دعاكرنا مسجدوں سے افضل ھے توایسا شخص كافر ھے۔ 147 ابن تیمیہ مسجد النبی اور آنحضرت (ص)كی قبر كے بارے میں كھتا ھے كہ مسجد النبی اور آنحضرت كی قبر كی زیارت بذات خود ایك نیك اور مستحب عمل ھے اور اس طرح كے سفر میں نمازیں قصر پڑھی جائیں گی(یعنی اس كا یہ سفر، سفر معصیت نھیں ھے كہ اگر سفر معصیت هوتو نماز پوری پڑھنا ضروری ھے) اور اس طرح كی زیارت (جو مسجد النبی كی زیارت كے ضمن میں هو) بھترین اعمال میں سے ھے اور اسی طرح قبور كی زیارت كرنا مستحب ھے جیسا كہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بقیع اور شہدائے اُحد كی زیارتوں كے لئے جایا كرتے تھے اور اپنے اصحاب كو بھی اس عمل كی ترغیب دلاتے تھے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایاكہ جس وقت زیارت كے لئے جایا كرو تو اس طرح كھا كرو: ”اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ اَہْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُوٴمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَاءَ اللّٰہُ بِكُمْ لاٰحِقُوْنَ وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَمِنْكُمْ وَالْمُسْتَاخِرِیْنَ وَنَسْئَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِیَةَ، اَللّٰهم لاٰتَحْرِمْنَا اَجْرَهم وَلاٰ تَفِتْنَا بَعْدَهم وَاغْفِرْ لَنَاوَلَهم“ ”سلام هو تم پر اے مسلمین ومومنین، اور انشاء اللہ ھم بھی تم سے ملحق هونے والے ھیں، خدا رحمت كرے ان لوگوں پر جو اس دیار میں ھم سے پھلے آئے یا بعد میں آئیں گے ،میں اپنے لئے اور تمھارے لئے خداوندعالم سے عافیت كا طلبگار هو ں، بارالہٰا! ھم پر اجر ثواب كو حرام نہ كر، اور ھمیں اور ان لوگوں كو بخش دے“۔ قارئین كرام! جب عام مومنین كی قبروں كی زیارت جائز هو تو پھر انبیاء، پیغمبروں اور صالحین كی قبور كی زیارت كا ثواب تو اور بھی زیادہ هوگا، لیكن اس سلسلہ میں ھمارے نبی حضرت محمد مصطفی كا دوسرے انبیاء سے یہ فرق ھے كہ آپ كے اوپر ھر نماز میں صلوات او رسلام بھیجنا ضروری ھے، اسی طرح اذان اور مسجد میں داخل هوتے وقت كی دعا یھاں تك كہ كسی بھی مسجد میں داخل هونے كی دعا اور مسجد سے باھر نكلتے وقت آپ پر سلام بھیجا جاتا ھے، اسی وجہ سے امام مالك نے كھا كہ اگر كوئی شخص یہ كھے كہ میں نے حضرت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كی ھے تو اس كا یہ كہنا مكروہ ھے، اور قبور كی زیارت سے مراد صاحب قبر پر سلام ودعا ھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر یہ سلام و دعا ،كامل ترین انداز میں،نمازاذان او ردعا كے وقت درود وسلام بھیجنا ھے،148 اور اسی لئے كبھی یہ اتفاق نھیں هوا كہ اصحاب پیغمبرآنحضرت (ص)كی قبر مطھر كے نزدیك نھیں گئے ،اور كبھی انھوں نے حجرے كے اندر سے یا حجرے كے باھر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت نھیں كی، لہٰذا اگر كوئی شخص فقط آنحضرت كی قبر كی زیارت كی وجہ سے سفر كرے اور اس كا قصد مسجد النبیمیں نماز پڑھنا نہ هو، تو ایسا شخص بدعتی اورگمراہ ھے۔ 149 ابن تیمیہ نے اس سلسلہ میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے لئے سفر كرنے والوں كے لئے، چند قول نقل كئے ھیںكہ چونكہ یہ سفر، سفر معصیت ھے لہٰذا كیا نماز پوری هوگی یا قصر۔ 150 ابن بطوطہ كے قول كے مطابق ابن تیمیہ قائل تھا كہ چونكہ یہ سفر، سفر معصیت ھے لہٰذاكیا نماز پوری پڑھنا ضروری ھے؟151 اسی طرح ابن تیمیہ كھتا ھے: مسلمانوں كے ائمہ اربعہ نے خلیل خدا جناب ابراھیم كی قبراور دیگر انبیاء كی قبروں كی صرف زیارتوں كے لئے سفر كرنے كو مستحب نھیں جانا ھے، لہٰذا اگر كوئی شخص ایسے سفر كے لئے نذر كرے تو اس نذر پر عمل كرنا واجب نھیں ھے۔ 152 اس كے بعد زیارت كے طریقہ كے بارے میں كھتا ھے كہ اگر زیارت سے كسی كا مقصد صاحب قبر كے لئے دعا كرنا هو تو اس كی یہ زیارت صحیح ھے لیكن اگر كوئی كام حرام هو جیسے (صاحب قبر كو) خدا كا شریك قرار دینا، (گویا ابن تیمیہ كی نظر میں صاحب قبر سے استغاثہ كرنا اور اس كو شفیع قرار دینا شرك كا باعث ھے) یا اگر كوئی كسی كی قبر پر جاكر روئے، نوحہ خوانی كرے یا بے هودہ باتیں كھے تو اس كی یہ زیارت باتفاق علماء حرام ھے، لیكن اگر كوئی شخص كسی رشتہ دار اور دوستوں كی قبر پر جاكر ازروئے غم آنسو بھائے تو اس كا یہ كام مباح ھے البتہ اس شرط كے ساتھ كہ اس گریہ كے ساتھ ندبہ او رنوحہ خوانی نہ هو۔ 153 اسی طرح مَردوں كے لئے زیارت كرنا مباح ھے، البتہ عورتو ںكے بارے میں اختلاف ھے كہ وہ قبور كی زیارت كرسكتی ھیں یا نھیں؟ 154 البتہ ابن تیمیہ صاحب كفار كی قبور كی زیارت كے بارے میں فرماتے ھیں كہ ان كی زیارت كرنا جائز ھے تاكہ انسان كو آخرت كی یاد آئے، لیكن جب كفار كی قبور كو دیكھنے كے لئے جائے تو ان كے لئے خدا سے استغفار كرنا جائز نھیں ھے۔ 155 اسی طرح ابن تیمیہ صاحب كا عقیدہ یہ بھی ھے كہ قبور كے نزدیك نماز پڑھنا یا قبروں پر بیٹھنا (یا ان كے برابر بیٹھنا) اور قبروں كی زیارت كو عید قرار دینا یعنی كئی لوگوں كا ایك ساتھ مل كر زیارت كے لئے جانا جائز نھیں ھے،156چنانچہ وہ كھتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے پاس آنحضرت پر صلوات اور سلام بھیجنا ناجائز ھے كیونكہ یہ كام گویا آنحضرت كی قبر پر عید منانا ھے۔ 157 ھی نھیں بلكہ جناب كا عقیدہ تو یہ بھی ھے كہ وہ احادیث جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے بارے میں وارد هوئی ھیں وہ تمام علمائے حدیث كی نظر میں ضعیف بلكہ جعلی ھیں، اسی طرح موصوف فرماتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مبارك پر ھاتھ ركھنا یا قبر كو بوسہ دینا جائز نھیں ھے اور مخالف توحید ھے، 158 اور اسلامی نظریہ كے مطابق كوئی ایسی قبر یا روضہ نھیں ھے جس كی زیارت كے لئے جایا جائے، اور قبور كی زیارت كا مسئلہ تیسری صدی كے بعد پیدا هوا ھے یعنی اس سے قبل زیارت قبور كا مسئلہ موجود نھیں تھا۔ 159 سب سے پھلے جن لوگوں نے زیارت كے مسئلہ كو پیش كیا اور اس سلسلہ میں حدیثیں گڑھیں، وہ اھل بدعت اور رافضی لوگ ھیں جنھوں نے مسجدوں كو بند كركے روضوں كی تعظیم كرنا شروع كردی، چنانچہ روضوں پر شرك، جھوٹ اور بدعت كے مرتكب هوتے ھیں۔ 160 جب ابن تیمیہ سے زیارت كے بارے میں سوال كیا گیا اور اس كے جواب كو شام كے قاضی شافعی نے دیكھا تو اس نے اسی جواب كے نیچے لكھا كہ میں نے ابن تیمیہ كے جواب اور سوال میں مقابلہ كیا اور وہ چیز جو ابن تیمیہ اور ھمارے درمیان اختلاف كا باعث بنتی ھے وہ یہ ھے كہ اس نے انبیاء كرام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبور كی زیارت كو معصیت او رگناہ كھا ھے۔ لیكن ابن كثیر نے اس مطلب كو ذكر كرنے كے بعد كھا كہ ابن تیمیہ كی طرف اس مذكورہ بات كی نسبت دینا صحیح نھیں ھے (یعنی اس نے زیارت كو معصیت قرار نھیں دیا)، ابن كثیر صاحب جو ابن تیمیہ كے مشهور ومعروف طرفدار مانے جاتے ھیں مسئلہ زیارت میں ابن تیمیہ كے نظریہ كی توجیہ اور تصحیح كرتے ھیں۔ 161 پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ علیهم السلام كی قبروں كی زیارت كے بارے میں وضاحت ابن تیمیہ اپنے نظریات میں عام طور پر تمام قبور او رخاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے مسئلہ میں بھت زیادہ ہٹ دھرمی سے كام لیتا ھے، اسی وجہ سے اپنی دو كتابوں”الجواب الباھر“ اور ”الرد علی الاخنائی“ میں جب بھی اس طرح كے مسئلہ كو بیان كرتا ھے اور كسی مدرك اور سند كو ذكر كرتا ھے تو اس كو كئی كئی بار اور مختلف انداز سے تكرار كرنے كی كوشش كرتا ھے، اور وہ احادیث جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كو مستحب قرار دیتی ھیں ان كو ضعیف اور جعلی بتاتا ھے، ان احادیث میں سے جن كو اھل سنت نے مختلف طریقوں سے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل كیا ھے منجملہ وہ حدیث جس میں آنحضرت نے فرمایا: ”مَنْ زَارَ قَبْرِی وَجَبَتْ لَہُ شَفَاعَتِی“ (جس شخص نے میری قبر كی زیارت كی اس كی شفاعت مجھ پر واجب ھے)، اس حدیث كو صحیح نھیں مانتا، جبكہ زیارت سے متعلق احادیث صحاح ستہ اور اھل سنت كی معتبر كتابوں میں موجود ھیں او رمختلف طریقوںسے نقل كی گئی ھیں اور بھت سے علماء نے ان كو صحیح شمار كیا ھے اور ان احادیث كے مضامین پر عمل بھی كیا ھے 162 ھم یھاں پر ان احادیث كے چند نمونے بیان كرنا مناسب سمجھتے ھیں: امام مالك (مالكی مذھب كے امام) اپنی كتاب ”موطاء“ میں عبد اللہ ابن دینار سے روایت كرتے ھیں كہ ابن عمر جب بھی كسی سفر پر جاتے تھے یا سفر سے واپس آتے تھے تو آنحضرت (ص)كی قبر پر حاضر هوتے تھے اور وھاں نماز پڑھتے تھے اور آپ پر درود وسلام بھیجتے تھے اور دعا كرتے تھے، اسی طرح محمد (ابن عمر) نے كھا:اگر كوئی مدینہ میں آتا ھے تو اس كے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے پاس حاضر هوناضروری ھے۔ 163 ابو ھریرہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت نقل كرتے ھیں كہ آپ نے فرمایا كہ خدا نے مجھے اپنی والدہٴ گرامی كی قبر كی زیارت كرنے كی اجازت عطا فرمائی ھے،164 اسی طرح ابوبكر نے حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت كی ھے جو شخص جمعہ كے دن اپنے ماں باپ یا ان میں سے كسی ایك كی زیارت كرے اور ان كی قبر كے پاس سورہ یٰس پڑھے تو خدا اس كو بخش دیتا ھے۔ 165 اسی طرح عبد اللہ بن ابی ملیكہ كی روایت ھے كہ اس نے كھا:میں نے دیكھا كہ ایك روز جناب عائشہ قبرستان سے واپس آرھی ھیں تو میں نے ان سے عرض كیا اے ام الموٴمنین ! كیا پیغمبر اكرم نے قبور كی زیارت سے منع نھیں فرمایا تھا؟! تو انھوں نے جواب دیا كہ ٹھیك ھے پھلے ایسا ھی حكم كیا تھا لیكن بعد میں خود انھوں نے حكم فرمایا كہ قبروں كی زیارت كے لئے جایا كرو۔ 166 اسی طرح پیغمبر اكرم (ص)كی ایك دوسری حدیث جس میں آپ نے فرمایا : جو شخص میری زیارت كے لئے آئے اور اس كے علاوہ اور كوئی دوسرا قصد نہ ركھتا هو، تو مجھ پر لازم ھے كہ میں روز قیامت اس كی شفاعت كروں۔ 167 جناب سمهودی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے بارے میں 17 حدیثیں سند كے ساتھ ذكر كی ھیں، جن میں سے بعض كوھم زیارت كے بارے میں وھابیوں كےعقیدہ كے بیان كریں گے۔ اسی طرح سمهودی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے آداب كو تفصیل سے بیان كرتے ھیں جس كا خلاصہ یہ ھے: ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن الحسین السامری حنبلی نے، اپنی كتاب ”المُستَوعِب“ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے سلسلہ میں آداب زیارت كے باب میں لكھا ھے كہ جب زائر قبر كی دیوار كی طرف آئے تو گوشہ میں كھڑا هوجائے اور قبر كی طرف رخ یعنی پشت بقبلہ اس طرح كھڑا هو كہ منبر اس كی بائیں طرف هو، اور اس كے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سلام ودعا كی كیفیت بیان كی ھے، اور اس دعا كو ذكر كیا ھے: ”اَللّٰهم اِنَّكَ قُلْتَ فِی كِتَابِكَ لِنَبِیِّكَ عَلَیْہِ السَّلاٰمُ: < وَلَوْاَنَّهم اِذْظَلَمُوْا اَنْفُسَهم جَاْوٴُكَ فَسَتَغْفرُوْا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَهم الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللّٰہَ تَوَّاباً رَحِیْماً۔ > وَاِنِّی قَدْ اَتَیْتُ نَبِیّكَ مُسْتَغْفِراً وَاَسْاٴلُكَ اَنْ تُوْجِبَ لِیَ الْمَغْفِرَةَ كَمَا اَوْجَبْتَها لِمَنْ اَتَاہُ فِی حَیَاتِہِ، اَللّٰهم اِنِّي اَتَوَجَّہَ اِلَیْكَ بِنَبِیِّكَ“۔ ”خداوندا !تو نے اپنی كتاب میں اپنے پیغمبر (ص)كے لئے فرمایاھے:<اے كاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم كیا تھا تو آپ كے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناهوں سے استغفار كرتے اور رسول بھی ان كے حق میں استغفار كرتے، تو یہ خدا كو بڑا ھی توبہ قبول كرنے والا اور مھربان پاتے>، میں اپنے گناهوں كی بخشش كے لئے تیرے نبی كی خدمت عالیہ میں حاضر هوا هوں، اور تجھ سے اپنے گناهوں كی مغفرت چاھتا هوں اور امید ھے كہ تو مجھے معاف كردے گا ،جس طرح لوگ تیرے نبی كی حیات میں ان كے پاس آتے تھے اور تو ان كو معاف كردیتا تھا، اے خدائے مھربان میں تیرے نبی كے وسیلہ سے تیری بارگاہ میں ملتمس هوتا هوں“۔ حنفی عالم دین ابومنصور كرمانی كھتے ھیں كہ اگر كوئی تم سے آكر یہ كھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تك میرا سلام پهونچادینا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی بارگاہ میں حاضر هوكر اس طرح كہنا كہ آپ پر سلام هو فلاں فلاں شخص كا، اور انھوںنے آپ كو خدا كی بارگاہ میں شفیع قرار دیا ھے تاكہ آپ كے ذریعہ خداوندعالم كی مغفرت اور رحمت ان كے شامل حال هو، اور آپ ان كی شفاعت فرمائیں۔ سمهودی مذاھب اسلامی كے معتبر اور قابل اعتماد علماء میں سے ھیں، انھوں نے اپنی كتاب كے تقریباً 50 صفحے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كی زیارت اور اس كے آداب اور قبر مطھر سے توسل سے مخصوص كئے ھیں، اور متعدد ایسے واقعات بیان كئے ھیں كہ لوگ مشكلات اور بلا میں گرفتارهوئے اور آپ كی قبر مطھر پر جاكر نجات مل گئی ۔ 168 مرحوم علامہ امینیۺ نے زیارت قبر پیغمبر (ص)كی فضیلت اور استحباب كے بارے میں جھاں اھل سنت سے بھت سی روایات نقل كی ھیں وھیں تقریباً چالیس سے زیادہ مذاھب اربعہ كے بزرگوں كے قول بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے بارے میں نقل كئے ھیں۔ 169 قارئین كرام!یھاں پر مناسب ھے كہ محمد ابوزَھرَہ عصر جدید كے مصری موٴلف كا قول نقل كیا جائے، وہ كھتے ھیں: ابن تیمیہ نے اس سلسلہ (زیارت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں تمام مسلمانوں سے مخالفت كی ھے بلكہ جنگ كی ھے۔ روضہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت،دراصل پیغمبر كی عظمت، آپ كے جھاد، مقام توحید كی عظمت كو بلند كرنے میں كوشش اور شرك اور بت پرستی كی نابودی كی كوششوں كی یاد دلاتی ھے، خود ابن تیمیہ روایت كرتے ھیں كہ سَلفِ صالح جب آپ كے روضہ كے قریب سے گذرتے تھے تو آپ كو سلام كرتے نافع، غلام اور راوی عبد اللہ ابن عمر سے مروی ھے كہ عبد اللہ ابن عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر پر سلام كرتے تھے اور میں نے سیكڑوں بار ان كو قبر منور پر آتے دیكھا اور میں نے یہ بھی دیكھا كہ اپنے ھاتھ كو منبر رسول سے مس كرتے ھیں، وہ منبر جس پر آنحضرت (ص)بیٹھا كرتے تھے ،پھر وہ اپنے ھاتھ كو اپنے منھ پر پھیرلیا كرتے تھے ،اسی طرح ائمہ اربعہ جب بھی مدینہ آتے تھے تو آنحضرت كی قبر كی زیارت كیا كرتے تھے۔ 170 عمومی طور پر دوسری قبروں كی زیارت كے بارے میں ابن ماجہ نے روایت نقل كی ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”زُوْرُوْا الْقُبُوْرَ فَاِنَّها تُذَكِّرُكُمُ الآخِرَةَ“۔ ”قبروں كی زیارت كے لئے جایا كرو كیونكہ قبروں كی زیارت تمھیں آخرت كی یاددلائے گی“۔ اسی طرح جناب عائشہ كی روایت كے مطابق پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبروں كی زیارت كی اجازت عطا فرمائی ھے۔ 171 ابن مسعود سے منقول ایك اورروایت میں ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”كُنْتُ نَہَیْتُكُمْ عَنْ زِیَارَةِ القُبُوْرِ، فَزُوْرُوْها فَاِنَّها تُزَہِّدُ فِی الدُّنْیَا وَتُذَكِّرُ الٓاخِرَةَ“۔ ”پھلے میں نے تم كو قبروں كی زیارت سے منع كیا تھا لیكن (اب اجازت دیتا هوں كہ) قبروں كی زیارت كیا كرو كیونكہ قبروں كی زیارت دنیا میں زہد پیدا كرے گی اور آخرت كی یاد دلائے گی“۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایك اور روایت ھے جس میں آپ نے فرمایا كہ قبروں كی زیارت كیا كرو كیونكہ قبروں كی زیارت تمھیں موت كی یاد دلاتی ھے۔ 172 سخاوی كھتے ھیں كہ آنحضرت خود بھی زیارت قبور كے لئے جاتے تھے اور اپنی امت كے لئے بھی اجازت دی كہ وہ بھی زیارت كے لئے جایا كریں، جبكہ پھلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبور كی زیارت سے منع فرمایا تھا۔ قبروں كی زیارت كرنا ایك سنت ھے اور جو شخص بھی زیارت كرتا ھے اس كو ثواب ملتا ھے البتہ زائر كو حق بات كے علاوہ كوئی بات زبان پر جاری نھیں كرنا چاہئے، اور قبروں كے اوپر نھیں بیٹھنا چاہئے، اور ان كو بے اھمیت قرار نھیں دینا چاہئے اور ان كو اپنا قبلہ بھی قرار نھیں دینا چائے ۔ چنانچہ روایت میںوارد هوا ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی والدہ گرامی اور عثمان بن مظعون كی قبروں كی زیارت كی اور عثمان بن مظعون كی قبر پر ایك نشانی بنائی تاكہ دوسری قبروں سے مل نہ جائے۔ اس كے بعد سخاوی كھتے ھیں كہ َمردوں كے لئے قبور كی زیارت كے مستحب هونے پر دلیل اجماع ھے جس كو عَبدرَی نے نقل كیا ھے اور نُوو ی شارح صحیح مسلم نے كھا ھے كہ یہ قول تمام علمائے كرام كا ھے۔ ابن عبد البِرّ اپنی كتاب ”استذكار“ میں ابوھریرہ كی حدیث پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل كرتے هوئے اس طرح كھتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس وقت قبرستان میں جاتے تھے ،تو اس طرح فرماتے تھے: ”اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ دَارَ قومٍ مُوٴْمِنِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَاءَ اللّٰہ بِكُم لاحقُونَ، نَسْاٴَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِیَةِ“۔ اس حدیث كے مضمون كے مطابق قبروں پر جانے اوران كی زیارت كرنے كے سلسلہ میںعلما كا اجماع واتفاق ھے كہ مَردوں كے لئے جائز ھے اوراس سلسلہ میں متعدد احادیث موجود ھیں۔ لیكن عورتوں كے سلسلہ میں خصوصی طور پر صحیح بخاری میں نقل هوا ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایك عورت كو دیكھا كہ ایك قبر كے پاس بیٹھی گریہ كر رھی ھے تو آپ نے اس سے فرمایا كہ اے كنیز خداپرھیزگار رهواور صبر كرو، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس عورت كو منع نھیں كیا كیونكہ اگر عورتوں كا قبور كی زیارت كرنا اور وھاں پرگریہ كرنا حرام هوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس كو منع فرماتے۔ 173 اسی طرح زیارت كے بارے میں ایك حدیث جلال الدین سیوطی نے بیہقی سے نقل كی اور انھوں نے ابوھریرہ سے نقل كی ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شہدائے احد كے بارے میں خاص طور پر فرمایا : ”اَشْہَدُاَنَّ ہٰوٴُلاٰءِ شُہْدَاٌ عِنْدَ اللّٰہِ فَاتُوهم وَزُوْرُوْهم وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ. لاٰیُسَلِّمُ عَلَیْهم اَحَدٌ اِلٰی یَومَ القِیَامَةِ اِلاّٰ رَدُّوْا عَلَیْہِ“ ”میں گواھی دیتا هوں كہ یہ حضرات خدا كی بارگاہ میں شھید ھیں ،ان كی قبروں پر جاؤ اور ان كی زیارت كرو، قسم اس خدا كی جس كے قبضہٴ قدرت میں میری جان ھے، تا روز قیامت اگر كوئی شخص ان كو سلام كرے گا تو یہ ضرور اس كا جواب دیں گے“ اسی طرح وہ روایت جس كو حاكم نے صحیح مانا ھے اور اس كو بیہقی نے بھی نقل كیاھے كہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہدائے احد كی قبور كی زیارت كے لئے جاتے تھے تو كھتے تھے: ”اَللّٰهم اِنَّ عَبْدَكَ وَنَبِیَّكَ یَشْہَدُ اَنَّ ہٰوٴُلاٰءِ شُہَدَاءٌ وَاِنَّہُ مَنْ زَارَهم اَوْ سَلِّمْ عَلَیْهم اِلٰی یَومَ الْقَیَامَةِ رَدُّوْا عَلَیْہِ“ ”خداوندا !تیرا بندہ اور تیرا نبی گواھی دیتا ھے كہ یہ شہداء راہ حق ھیں ،اوراگر كوئی ان كی زیارت كرے یا (آج سے) قیامت تك ان پر سلام بھیجے تویہ حضرات اس كے سلام كا جواب دیں گے۔ 174 واقدی كھتے ھیں: پیغمبر اكرم:صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ھر سال شہداء احد كی زیارت كے لئے جایا كرتے تھے اور جب اس وادی میں پهونچتے تھے تو بلند آواز میں فرماتے تھے: ”اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ “۔ ”سلام هو تم پر اس چیز كے بدلے جس پر تم نے صبر كیا اورتمھاری كیا بھترین آخرت ھے“۔ ابوبكر، عمر اورعثمان بھی سال میں ایك مرتبہ شہداء احد كی زیارت كے لئے جایا كرتے تھے، اورجناب فاطمہ دختر نبی اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوتین دن میں ایك دفعہ احد جایا كرتی تھیںاور وھاں جاكر گریہ وزاری اور دعا كرتی تھیں۔ اسی طرح سعد بن ابی وقّاص بھی قبرستان میں پیچھے كی طرف سے دا خل هوتے اور تین بار سلام كرتے تھے۔ واقدی كھتے ھیں كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مُصْعَب بن عُمَیر جو كہ شہداء احد میں سے ھیں، كے پاس سے گذرے تو ٹھھرگئے ان كے لئے دعا كی اور یہ آیہٴ شریفہ پڑھی: < رِجَالٌ صَدَقُوْا مَاعَاہَدُوْا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْهم مَنْ قَضٰی نَحْبَہُ وَمِنْهم مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَابَدَّلُوا تَبْدِیلاً ۔ >۔ 175 ”مومنین میں سے ایسے بھی مرد میدان ھیں جنھوں نے اللہ سے كئے وعدہ كو سچ كردكھایا، ان میں سے بعض اپنا وقت پورا كرچكے ھیں اور بعض اپنے وقت كا انتظار كررھے ھیں، اور ان لوگوں نے اپنی بات میں كوئی تبدیلی نھیں كی ھے“۔ اس كے بعد فرمایا: میں خدا كے حضور میں گواھی دیتا هوں كہ یہ لوگ خدا كی بارگاہ میں شھید ھیں،ان كی قبور كی زیارت كے لئے جایا كرو اور ان پر درود وسلام بھیجا كرو، كیونكہ وہ (بھی) سلام كا جواب دیتے ھیں۔ اس كے بعد واقدی نے ان اصحاب كے نام شمار كئے ھیں جو شہداء احد كی زیارت كے لئے جایا كرتے تھے نیزان كی زیارت كی كیفیت اور طریقہ بھی بیان كیا ھے۔ 176 اب رھا شیعوں كے یھاں مسجدوں كو تعطیل كرنے كا مسئلہ تو ھم اس سلسلہ میں یہ كھیں گے كہ یہ بھی ان تھمتوں میں سے ھے جو قدیم زمانہ سے چلی آرھی ھے اور اس كی اصل وجہ بھی شیعوں سے دشمنی اور بغض وعناد ھے، چنانچہ بعض موٴلفین نے اپنی اپنی كتابوں میں اسے بغیر كسی تحقیق كے بیان كردیا، اور شیعوں سے بد ظنی كی بناپر اس نظریہ كو اپنی كتابوں میں بھی داخل كردیا ،جبكہ حقیقت یہ ھے كہ شروع ھی سے شیعوں كی مساجد سب سے زیادہ آباد اور پررونق رھی ھیں جیسا كہ كتاب تاریخ مذھبی قم كے موٴلف نے بھی بیان كیا ھے، آج بھی دنیا كی سب سے بھترین ،خوبصورت اور قدیمی ترین مساجد كو ایران میں دیكھا جاسكتا ھے،جو گذشتہ صدیوں سے اسی طرح باعظمت باقی ھیں۔ اور یہ مسجدیںجونماز جماعت كے وقت بھر جاتی ھیں اس كی داستانیں زبان زد خاص وعام ھیں، اس وقت شھروں ،قصبوں اور دیھاتوں میں ایسی ہزاروں مسجدیں ھیں جن میں بھترین فرش وغیرہ موجود ھیں ۔ جب بھی كوئی مسافرایران آتا ھے تو وہ ایران كے پایہٴ تخت” تھران“ میں ضرور جاتا هوگا تھران میں سیكڑوں مسجد یں ھیں جن میں بھترین وسائل اور كتابخانے ھیں ۔ یہ مسجدیںكسی بھی وقت نمازیوں سے خالی نھیں هوتیں اور ان سب میں وقت پر نماز جماعت قائم هوتی ھے، اور تھران كے علاوہ بھی دوسرے شھروں مثلاً مشہد، قم، اصفھان، شیراز وغیرہ میں كسی بھی جگہ دیكھ لیں كھیں پر بھی مسجدیںمعطّل نھیں هوئی ھیں بلكہ اپنی پوری شان وشوكت كے ساتھ بھری هوئی ھیں،اور تمام مساجد میں نماز جماعت قائم هوتی ھے۔ خلاصہ یہ كہ چاھے ایران میں جو شیعت كا مركز ھے یا دوسرے علاقوں میں كوئی بھی زمانہ ایسا نھیں گذرا جھاں پر مسجد غیر آباد هو، اور شیعہ مسجدوں كی رونق دوسر ے فرقوں سے كم رھی هو۔ قبور كے نزدیك نماز پڑھنا
صحیح مسلم میں قبور كے نزدیك آنحضرت (ص)كے نماز پڑھنے كے بارے میں بھت سی روایات بیان هوئی ھیں۔ 177
ابن اثیراس حدیث ”نَہٰی عَنِ الصَّلاٰةِ فِیْ الْمَقْبَرَةِ“كو نقل كرنے كے بعد كھتے ھیں كہ مقبروں میں نماز كو ممنوع قرار دینے كی وجہ یہ ھے كہ مقبروں كی مٹی، خون اور مردوں كی نجاست سے مخلوط هوتی ھے لیكن اگر كسی پاك قبرستان میں نماز پڑھی جائے تو صحیح ھے، اس كے بعد ابن اثیركھتے ھیں كہ ”لاتجعلوا بیوتكم مقابر“(یعنی اپنے گھروں كو قبرستان نہ بناؤ)گذشتہ حدیث كی ھی طرح ھے یعنی تمھارے گھر نماز نہ پڑھے جانے میں قبرستان كی طرح نہ هوجائیں، كیونكہ جو مرجاتا ھے وہ پھر نماز نھیں پڑھتا، چنانچہ مذكورہ معنی پر درج ذیل حدیث دلالت كرتی ھے: ”اِجْعَلُوا مِنْ صَلاٰتِكُمْ فِی بُیُوْتِكُمْ وَلاٰ تَتَّخِذُوْا قُبُوْراً“ (اپنے گھروں كو قبرستان كی طرح قرار نہ دو كہ كبھی اس میں نماز نہ پڑھو بلكہ كچھ نمازیں گھروں میں بھی پڑھا كرو)بعض لوگوں نے كھا ھے كہ اس حدیث كے معنی یہ ھیں كہ اپنے گھروں كو قبرستان قرار نہ دو كہ اس میں نماز پڑھنا جائز نھیں ھے ،لیكن پھلے والے معنی بھتر ھیں ۔ 178 شوكانی نے خطابی كی كتاب ”معالم السنن “ كے حوالہ سے مقبروں میں نماز پڑھنے كو جائز قراردیا ھے اسی طرح اس نے حسن (حسن بصری) سے نقل كیا ھے كہ انھوں نے مقبرہ میں نماز پڑھی، اوریہ بھی كھا كہ رافعی وثوری (سفیان ثوری) اور اوزاعی اور ابوحنیفہ قبرستان میں نماز پڑھنے كو مكروہ جانتے تھے لیكن امام مالك نے قبرستان میں نماز پڑھنے كو جائز قرار دیاھے۔ امام مالك كے بعض اصحاب نے یہ دلیل پیش كی كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایك سیاہ اور فقیر عورت كی قبر كے نزدیك نما ز پڑھی ھے، 179 `مالك كی روایت كاخلاصہ یہ ھے كہ ایك غریب عورت بیمار هوئی، اس وقت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جب یہ مرجائے تو مجھے خبر كرنا، لیكن چونكہ اس كو رات میں موت آئی توآپ كو خبر نھیں كی گئی اور اس عورت كو رات ھی میں دفن كردیا گیا، جب دوسرا روز هوا تو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس كی قبر پر گئے او راس پر نماز پڑھی اور چار تكبیریں كھیں ۔ 180 ندبہ اور نوحہ خوانی كے بارے میں وضاحت
ابن تیمیہ نے میت پر ،نوحہ خوانی اورگریہ كرنے كو ممنوع قرار دیا ھے، اور وھابی حضرات بھی اس طرح كے كاموں كو گناھان كبیرہ میں شمار كرتے ھیں۔ 181
جبكہ احمد ابن حنبل اور بخاری كی روایت كے مطابق جب عمر كو ضربت لگی تو صُھیب (غلام عمر) نے چلانا شروع كیا: ” وااخاہ، وا صاحباہ“اس وقت جناب عمر نے كھا كہ كیا تم نے نھیںسنا كہ حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ھے كہ اگر میت پر گریہ كیا جائے تو اس گریہ كی وجہ سے اس پر عذاب هوتا ھے؟! جناب ابن عباس كھتے ھیں كہ جب عمر كا انتقال هوا، تو میں نے اس بات كو جناب عائشہ كے سامنے پیش كیا تو انھوں نے فرمایا: بخدا جناب رسول خدا نے كبھی اس طرح كی كوئی بات نھیں كھی ھے بلكہ انھوں نے تو یہ فرمایا ھے كہ اگر كفار پر اس كے اھل خانہ گریہ كریں تو اس كے عذاب میں اضافہ هوتا ھے۔ 182 اسی طرح میت پر رونے اور گریہ كرنے كے جائز هونے پر صاحب ”منتقی الاخبار“ نے انس بن مالك سے یہ ورایت نقل كی ھے كہ جب رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا انتقال هوا تو حضرت فاطمہ زھرا(ع)نے فرمایا: ”یَا اَبَتَاہُ، اَجَابَ رَبّاً دَعَاہُ، یَا اَبَتَاہُ جَنَّةُ الْفِرْدُوْسِ مَاوَاہُ، یَا اَبَتَاہُ اِلٰی جِبْرِیْلَ نَنْعَاہُ“۔ ”اے میرے پدر محترم آپ نے دعوت حق پر لبیك كھی اور جنت الفردوس كو اپنا مقام بنالیا،اور جناب جبرئیل نے آپ كی وفات كی خبر سنائی“۔ اسی طرح انس سے ایك دوسری روایت كے مطابق جب جناب رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی روح جسم سے پرواز كر گئی تو جناب ابوبكر حجرے میں تشریف لائے اور اپنے منھ كو آنحضرت كی دونوں آنكھوں كے پیچ ركھا اور آنحضرت كے دونوں رخساروں پر اپنے دونوں ھاتھوں كو ركھا اور كھا: ”وانبیاہ وا خلیلاہ وا صفیاہ“ اس روایت كو احمد ابن حنبل نے بھی نقل كیا ھے۔ 183 ھی نھیں بلكہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی متعدد بار اپنے رشتہ داروں اور اصحاب كے انتقال پر گریہ فرمایا ھے، جیسا كہ انس بن مالك نے روایت كی ھے كہ جب آپ كی ایك بیٹی اس دنیا سے چلی گئی تو آپ اس كی قبر پر بیٹھ گئے درحالیكہ آپ كی چشم مبارك سے آنسوںبہہ رھے تھے، اور ایك مقام پر جب آپ كی بیٹی كا ایك بیٹامرنے كے نزدیك تھا تو آپ نے گریہ شروع كیا۔ 184 اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ احد میں اپنے چچا حمزہ كو شھید پایا تو گریہ كیا اور جب آپ كو یہ معلوم هوا كہ جناب حمزہ كو مُثلہ كردیاگیا (یعنی آپ كے ناك وكان اور دوسرے اعضاء كاٹ لئے گئے) تو آپ چیخیں مار مار كر روئے۔ 185 اور جب جناب حمزہ كی شھادت واقع هوئی اور جناب صفیہ دخترعبد المطلب نے جناب حمزہ كے لاشہ كو تلاش كرنا شروع كیا تو انصار نے آپ كو روكا، اس وقت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ان كو آزاد چھوڑدو، جب جناب صفیہ نے اپنے بھائی كی لاش پائی تو رونا شروع كیا، جس وقت آپ گریہ كرتی تھیں رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی گریہ كرتے تھے اور جب آپ چیخیں مارتی تھیں تو رسول گرامی بھی چیخیں مارتے تھے ۔ 186 جب جناب فاطمہ زھرا = جناب حمزہ كے اوپر گریہ كرتی تھیں توپیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی گریہ كرتے تھے، اسی طرح جب جناب جعفر بن ابی طالب جنگ موتہ میں شھید هوئے تو رسول گرامیجناب جعفر كی زوجہ اسماء بنت عمیس كے پاس گئے اور ان كو تعزیت پیش كی، اس موقع پر جناب فاطمہ زھرا= تشریف لائیں درحالیكہ آپ گریہ كررھی تھیں اور كھتی جاتی تھیں: ”واعماہ“ (ھائے میرے چچا) اس موقع پر حضرت پیغمبر اسلام نے فرمایا كہ جعفر جیسے مَرد پر گریہ كرنا چاہئے، 187 مزید یہ كہ نافع نے ابن عمرسے روایت كی ھے كہ جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنگ احد سے واپس هوئے تو انصار كی عورتیں اپنے شھید شوھروں پر گریہ كر رھی تھیں اس وقت پیغمبر نے فرمایا حمزہ پر كوئی گریہ كرنے والا نھیں ھے ،یہ كہہ كر آپ سوگئے،جب بیدار هوئے تو دیكھا كہ عورتیں یوں ھی گریہ كر رھی ھیں آپ نے فرمایا: ورتیں آج جو گریہ كریں تو حمزہ پر كریں۔ 188 ابن ہشام او رطبری نے اس سلسلہ میں كھا ھے كہ جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنی عبد الاشھل وظفر كے گھروں میں سے ایك گھر كی طرف گذرے تو وھاں سے جنگ احد میں هوئے شھیدوں پر رونے كی آوازیں سنائی دیں تو اس پر آنحضرت كی آنكھیں بھی آنسووں سے بھرآئیں اور آپ گریہ كرتے هوئے فرماتے تھے: جناب حمزہ پر كوئی رونے والا نھیں،یہ سن كر سعد بن مُعاذ واُسید بن حُضَیر بنی عبد الاشھل كے گھروں میں گئے اور اپنی اپنی عورتوں كو حكم دیا كہ جناب حمزہ پر بھی گریہ كریں۔ اسی طرح ابن اسحاق كا بیان ھے كہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنگ احد سے مدینہ واپس پهونچے، تو”حَمنَہ دختر جَحش“ راستہ میں ملی اور جب لوگوں نے اس كو اس كے بھائی عبد اللہ ابن جحش كی شھادت كی خبر سنائی تو اس نے كھا: <انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ > اور اس كے لئے خداوندكریم كی بارگاہ میں طلب مغفرت كی، اس بعد كے اس نے اپنے ماموں حمزہ ابن عبد المطلب كی شھادت كی خبر سنی، اس نے پھر وھی آیت پڑھی اور ان كے لئے بھی استغفار كیا، لیكن جب اس كو اس كے شوھر مصعب بن عمیر كی شھادت كی خبر سنائی گئی تو اس نے چیخیں ماریں ،اور جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حمنہ كو اپنے بھائی اور ماموں كی شھادت پر صبر اور اپنے شوھر كی شھادت پر نالہ وشیون كرتے دیكھا تو فرمایا: بیوی كی نظر میں شوھر كی اھمیت كچھ اور ھی هوتی ھے۔ 189 اور جب جناب ابوبكر اس دنیا سے گئے تو جناب عائشہ نے ابوبكر كے لئے نوحہ وگریہ كی مجلس ركھی جب جناب عمر نے عائشہ كو اس كام سے روكا، تو جناب عائشہ او ردیگر عورتوں نے اس بات كو نہ مانا،چنانچہ جناب عمر نے ابوبكر كی بہن ام فروہ كو چند تازیانے بھی مارے، اس كے بعد گریہ كرنے والیعورتیں وھاں سے مجبوراً اٹھ كر چلی گئیں۔ 190 حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی گفتگو اور عورتوں كا گریہ كرنا واقدی كھتے ھیں كہ جنگ احد میں سعد بن ربیع شھید هوگئے، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور وھاں سے ” حمراء الاسد“ گئے، جابر ابن عبد اللہ كھتے ھیں كہ ایك روز صبح كا وقت تھا میں آنحضرت كی خدمت میں بیٹھا هوا تھا، چنانچہ جنگ احد میں مسلمانوں كے قتل وشھادت كی باتیں هونے لگیں، منجملہ سعد بن ربیع كا ذكر آیا تو اس وقت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا كہ اٹھو ! سعد كے گھر چلتے ھیں، جابر كھتے ھیں كہ ھم بیس افراد هونگے جو آنحضرت كے ساتھ سعد كے گھر گئے وھاں پر بیٹھنے كے لئے كوئی فرش وغیرہ بھی نہ تھا چنانچہ سب لوگ زمین پر بیٹھ گئے اس وقت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سعد بن ربیع كا ذكر كیا اور ان كے لئے خدا سے طلب رحمت كی اور فرمایا كہ میں نے خود دیكھا ھے كہ اس روز سعد كے بدن كو نیزوں نے زخمی كرركھا تھا، یھاں تك كہ ان كو شھادت مل گئی، جیسے ھی عورتوں نے یہ كلام سنا تو رونا شروع كردیا، اس وقت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی آنكھوں سے بھی آنسوجاری هوگئے اور پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان عورتوں كو رونے سے منع نھیں فرمایا۔ 191 اس سلسلہ میں شافعی كا نظریہ
كتاب ”الاُم“ تالیف شافعی میں”بكاء الحیّ علی المیت“ (زندہ كا میت پر گریہ كرنا)كے تحت اس طرح بیان هوا ھے كہ جناب عبد اللہ ابن عمر كی طرف سے جناب عائشہ سے كھا گیا كہ كسی میت پر زندہ كا گریہ كرنا اس پر عذاب كا باعث هوتا ھے، تو جناب عائشہ نے كھا كہ ابن عمر نے جھوٹ نھیں كھا لیكن اس سے غلطی، یا بھول چوك هوئی ھے، (یعنی اصل حدیث یہ ھے كہ)پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے سامنے جب ایك یهودی عورت كا جنازہ آیا در حالیكہ اس كے رشتہ دار اس پر روتے جارھے تھے تو آپ نے فرمایا كہ یہ لوگ رو رھے ھیں جبكہ ان كے رونے كی وجہ سے یہ قبر میں عذاب میں مبتلا ھے۔
ابن عباس كھتے ھیں كہ جب جناب عمر كو ضربت لگی اور ان كا غلام صُھیب رونے لگا اور كہنے لگا:”وا اخیاہ وا صاحباہ“ تو عمر نے اس سے كھا تو روتا ھے جبكہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ھے میت پر اھل خانہ كا گریہ كرنا اس كے لئے عذاب كا باعث هوتا ھے، جناب ابن عباس كھتے ھیں كہ جب عمر اس دنیا سے چلے گئے تو میں نے اس بات كو جناب عائشہ سے دریافت كیا۔ عائشہ نے كھا خدا كی قسم پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس طرح نھیں فرمایا بلكہ آپ نے یہ فرمایا ھے كہ كفار كی میت پر اس كے اھل خانہ كا گریہ اس كے عذاب كو زیادہ كردیتا ھے، اس كے بعد جناب عائشہ نے فرمایا كہ تمھارے لئے قرآن كافی ھے كہ جس میں ارشاد هوتا ھے: <ولا تزر وازةوزر اخریٰ۔> 192 (اور كوئی نفس دوسرے كا بوجھ نھیں اٹھائے گا) س كے بعد جناب ابن عباس نے بھی كھا: <واللّٰہ اضحك وابكی۔> 193 شافعی نے مذكورہ مطالب كو ذكر كرنے كے بعد آیات وروایات كے ذریعہ مذكورہ روایت”ان المیت لیعذب“۔ كے صحیح نہ هونے كو ثابت كیا ھے۔ 194 10۔ غیر خدا كی قسم كھانا ابن تیمیہ كا كہنا یہ ھے كہ اس بات پر علماء كا اتفاق ھے كہ باعظمت مخلوق جیسے عرش وكرسی، كعبہ یا ملائكہ كی قسم كھانا جائز نھیں ھے، تمام علماء مثلاً امام مالك، ابوحنیفہ اور احمد ابن حنبل (اپنے دوقولوں میں سے ایك قول میں) اس بات پر اعتقاد ركھتے ھیں كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قسم كھانا بھی جائز نھیں ھے اور مخلوقات میں سے كسی كی قسم كھانا چاھے وہ پیغمبر كی هو یا كسی دوسرے كی جائز نھیں ھے اور منعقد بھی نھیں هوگی، (یعنی وہ قسم شرعی نھیں ھے اور اس كی مخالفت پر كفارہ بھی واجب نھیں ھے) كیونكہ صحیح روایات سے یہ بات ثابت هوتی ھے كہ پیغمبراكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: خدا كے علاوہ كسی دوسرے كی قسم نہ كھاؤ، ایك دوسری روایت كے مطابق اگر كسی كو قسم كھانا ھے تو اس كو چاہئے كہ یا تو وہ خدا كی قسم كھائے یا پھر خاموش رھے یعنی كسی غیر كی قسم نہ كھائے، اور ایك روایت كے مطابق خدا كی جھوٹی قسم، غیر خدا كی سچی قسم سے بھتر ھے، چنانچہ ابن تیمیہ كھتا ھے كہ غیر خدا كی قسم كھانا شرك ھے۔ 195 البتہ بعض علماء نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قسم كو استثناء كیا ھے اور آپ كی قسم كو جائز جانا ھے، احمد ابن حنبل كے دو قولوں میں سے ایك قول یھی ھے، اسی طرح احمد ابن حنبل كے بعض اصحاب نے بھی اسی قول كو اختیار كیا ھے۔ بعض دیگر علماء نے تمام انبیاء كرام كی قسم كو جائز جانا ھے، لیكن تمام علماء كا یہ قول كہ انھوں نے بلا استثنیٰ مخلوقات كی قسم كھانے سے منع كیا ھے صحیح ترین قول ھے۔ 196 ابن تیمیہ كا خاص شاگرد اور معاون ابن قیّم جوزی كھتا ھے : غیر خدا كی قسم كھانا گناھان كبیرہ میں سے ھے، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا كہ جو شخص بھی غیر خدا كی قسم كھاتا ھے وہ خدا كے ساتھ شرك كرتا ھے، لہٰذا غیر خدا كی قسم كھانا گناہ كبیرہ میں سر فھرست ھے۔ 197 غیر خدا كی قسم كے بارے میں وضاحت
مرحوم علامہ امین ۺ فرماتے ھیں كہ صاحب رسالہ (ابن تیمیہ) كا یہ قول كہ غیر خدا كی قسم كھانا ممنوع ھے، یہ ایك بكواس كے سوا كچھ نھیں ھے كیونكہ اس نے اپنی بات كو ثابت كرنے كے لئے صرف ابوحنیفہ، ابو یوسف، ابن عبد السلام اور قدوری كے اقوال كو نقل كئے ھیں، گویا تمام ممالك اور ھر زمانہ كے تمام علماء صرف انھیں چار لوگوں میں منحصر ھیں، اس نے شافعی، مالك اور احمد ابن حنبل كے اقوال كو كیوںبیان نھیں كیا اور اس نے عالم اسلام كے مشهور ومعروف بے شمار علماء جن كی تعداد خدا ھی جانتا ھے كے فتوے نقل كیوں نھیں كئے۔
حق بات تو یہ ھے كہ غیر خدا كی قسم كھانا نہ مكروہ ھے اور نہ حرام، بلكہ ایك مستحب كام ھے اور اس بارے میں بھت سی روایات بھی موجود ھیں، اس كے بعد مرحوم علامہ امین نے صحاح ستہ سے چند روایات نقل كی ھیں۔ 198 موصوف اس كے بعد فرماتے ھیں كہ غیر خدا كی قسم كھانا، رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب وتابعین كے زمانہ سے آج تك تمام مسلمانوں میں رائج ھے، خداوندعالم نے قرآن مجید میں اپنی مخلوقات میں سے بھت سی چیزوں كی قسم كھائی ھے، خود پیغمبراكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب رسول وتابعین میں ایسے بھت سے مواقع موجود ھیں جن میں انھوں نے اپنی جان یادوسری چیزوں كی قسم كھائی ھے، اور اس كے بعد مرحوم علامہ امین ۺنے ان بھت سے واقعات كو باقاعدہ سند كے ساتھ بیان كیا ھے جن میں مخلوق كی قسم كھائی گئی ھے۔ 199 ایك دوسری جگہ پر كھتے ھیں كہ وہ احادیث جو غیر خدا كی قسم سے منع كرتی ھیں یاتو ان كو كراھت پر حمل كیا جائے یا وہ احادیث اس بات پر دلالت كرتی ھیں كہ غیر خدا كی قسم منعقد نھیں هوتی اور اس میں نھی، نھی ارشادی ھے، اور اس طرح كی قسمیں مكروہ ھیں حرام نھیں، جبكہ وھابیوں كے امام احمد ابن حنبل نےپیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قسم كے جواز پر فتویٰ دیا ھے۔ شعرانی احمد بن حنبل كے قول كو نقل كرتے هوئے كھتے ھیں كہ اگر كسی نے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قسم كھائی تو اس كی وہ قسم منعقد ھے بلكہ پیغمبر كے علاوہ بھی دوسروںكی قسم كھانا اس قسم كے منعقد هونے كا سبب بنتا ھے۔ 200 11۔ مقدس مقامات كی طرف سفر كرنا ابن تیمیہ كاكہناھے: مقدس مقامات كی طرف سفر كرنا حج كے مانند ھے، ھر وہ امت جن كے یھاں حج كا تصور پایا جاتا ھے جیسے عرب كے مشركین لات وعزّیٰ ومنات اور دوسرے بتوں كی طرف حج كے لئے جایا كرتے تھے، لہٰذا اس طرح كے روضوں كی طرف سفر كرنا گویا حج كرنے كی طرح ھے جس طرح مشركین اپنے خداؤں كے پاس حج كے لئے جاتے تھے۔ 201 بدعتی لوگ انبیاء اور صالحین كی قبور كی طرف بعنوان حج جاتے ھیں، ان كی زیارت كرنا شرعی جواز نھیں ركھتا، جس سے ان كا مقصد صاحب قبر كے لئے دعا كرنا هو، بلكہ اس زیارت سے ان كا مقصد صاحب قبر كی اھمیت كو اجاگر كرنا هوتاھے كہ وہ حضرات خدا كے نزدیك عظیم مرتبہ اور بلند مقام ركھتے ھیں اور ان كا مقصد یہ هوتا ھے كہ صاحب قبر كو نصرت اور مدد كے لئے پكارےں، یا ان كی قبروں كے پاس خدا كو پكاریں، یا صاحب قبر سے اپنی حاجتیں طلب كریں۔ 202 جو لوگ قبور كی زیارت كے لئے جاتے ھیں (یا ابن تیمیہ كے بقول :قبروں پر حج كے لئے جاتے ھیں) تو ان كا قصد بھی مشركین كے قصد كی طرح (عبادت مخلوق، یعنی بتوں كی پوجا) هوتا ھے، اور وہ بتوں سے وھی طلب كرتے ھیں جو اھل توحید (مسلمان) خدا سے طلب كرتے ھیں۔ 12۔ شیعوں كے بارے میں ابن تیمیہ كا كہنا ھے: كفار ومشركین جو اپنے مقدس مقامات پر جانے كے لئے سفر كرتے ھیں، اور یھی ان كا حج ھے اور قبر كے نزدیك اسی طرح خضوع وتضرع كرتے ھیں جس طرح سے مسلمان خدا كے لئے كرتے ھیں، اھل بدعت اور مسلمانوں كے گمراہ لوگ بھی اسی طرح كرتے ھیں، چنانچہ ان گمراہ لوگوں میںرافضی بھی اسی طرح كرتے ھیںكہ اپنے اماموں او ربزرگوں كی قبور پر حج كے لئے جاتے ھیں، بعض لوگ ان سفروں كے لئے اعلان كرتے ھیںاور كھتے ھیںآئیے حج اكبر كے لئے چلتے ھیں، اور اس سفر كے لئے علمِ حج ساتھ لیتے ھیں اور ایك منادی كرنے والا حج كے لئے دعوت دیتا ھے اور اسی طرح كا علم اٹھاتے ھیں جس طرح مسلمان حج كے لئے ایك خاص علم اٹھاتے ھیں، یہ فرقہ مخلوق خدا كی قبور كو حج اكبر اور حج خانہ خدا كو حج اصغر كھتا ھے۔ 203 ابن تیمیہ ایك دوسری جگہ پر ان موارد كا ذكر كرتا ھے جن میں بعض افراد كچھ مقدس مقامات كے سفر كو سفر حج كی طرح مانتے ھیں، لیكن وھاں یہ ذكر نھیں كرتا كہ یہ لوگ كس مذھب كے پیرو ھیں اور كس فرقہ سے تعلق ركھتے ھیں، منجملہ ان كے ایك یہ ھے كہ وہ لوگ اس مقام پر جاتے ھیں جھاں پر كوئی ولی اللہ اس زمین پر نازل هوا ھے وھاں پر حج كے لئے جاتے ھیں اور حج كی طرح احرام باندھتے ھیں اور لبیك كھتے ھیں ،جیسا كہ مصر كے بعض شیوخ مسجد یوسف میں حج كے لئے جاتے ھیں، اور احرام كا لباس پہنتے ھیں، اوریھی شیخ زیارت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے لئے بعنوان حج جاتا ھے اور وھاں سے مكہ معظمہ بھی نھیں جاتا كہ اعمال حج بجالائے اور مصر واپس پلٹ جاتا ھے۔ 204 مذكورہ مطلب كے بارے میں وضاحت
بارھا یہ بات كھی جاچكی ھے كہ شیعوں كی نظر میں حج صرف خانہ خدا بیت اللہ الحرام كا حج ھے جو مكہ معظمہ میں هوتا ھے اور اس كے علاوہ كسی چیز كو حج كے برابر اور حج كی جگہ نھیں مانتے، اور یہ ان مسلم چیزوں میں سے ھے كہ اگر كوئی شخص ذرہ برابر بھی فقہ شیعہ سے باخبر هو، تو اس پریہ بات مخفی نھیں هوگی، اور دوسرے مقامات كو خانہ كعبہ كی جگہ قرار دینا اور وھاں حج كی طرح اعمال بجالانا ان لوگوں كے ذریعہ ایجاد هوا ھے جو شیعوں كے مخالف اور شیعوں كے دشمن شمار هوتے ھیں۔ ان میں سے تیسری صدی كے مشهور ومعروف مورخ یعقوبی كے مطابق عبد الملك بن مروان ھے كہ،جب عبد اللہ ابن زبیر كے ساتھ اس كی جنگ هوتی ھے تو وہ شام كے لوگوں كو حج سے منع كردیتا ھے كیونكہ عبد اللہ ابن زبیر شامی حجاج سے اپنے لئے بیعت لے رھے تھے، یہ سن كر لوگوں نے چلانا شروع كیا اور عبد الملك سے كھا كہ ھم لوگوں پر حج واجب ھے اور تو ھمیں حج سے روكتا ھے، ؟ تو اس وقت عبد الملك نے جواب دیا كہ یہ ابن شھاب زھری ھے جو آپ حضرات كے سامنے رسول اللہ كی حدیث سناتے ھیں:
” لاٰ تُشَدُّ الرِّحَالُ اِلاّٰ اِلیٰ ثَلاٰثَةِ مََسَاجِدَ: اَلْمَسْجِدُ الْحَرَامُ وَمَسْجِدِیْ وَمَسْجِدُ بَیْتُ الْمُقَدَّسْ (مسجد اقصیٰ)“ ”ان تین مسجدوں كے علاوہ كسی دوسری مسجد كے لئے رخت سفر نھیں باندھا جاسكتا: مسجد الحرام، مسجد النبی، مسجد اقصیٰ، لہٰذا مسجد اقصیٰ مسجد الحرام كی جگہ واقع هوگی، اور یہ صخرہ (بڑا اور سخت پتھر) جس پر پیغمبر اكرم (ص)نے معراج كے وقت اپنے پیر ركھے تھے خانہ كعبہ كی جگہ ھے۔ اس كے بعد اس نے حكم دیا كہ اس پتھر پر ریشمی پردہ لگایا جائے (خانہ كعبہ كے پردہ كی طرح) اور وھاں كے لئے خادم اور نگھبان (محافظ) معین كردئے گئے اور جس طرح خانہ كعبہ كا طواف كیا جاتا ھے اسی طرح اس پتھر كا بھی طواف هونے لگا، اور جب تك بنی امیہ كا دور رھا یہ رسم برقرار رھی۔ 205 اور جیسا كہ معلوم ھے كہ عبد الملك بن مروان كی یہ یادگار بنی امیہ كے ختم هونے كے بعد بھی صدیوں رائج رھی، چنانچہ ناصر خسرو پانچوی صدی كا مشهور ومعروف سیّاح شھر بیت المقدس كی اس طرح توصیف كرتا ھے: بیت المقدس كو اھل شام اور اس كے اطراف والے قدس كھتے ھیں اور اس علاقہ كے لوگ اگر حج كے لئے نھیں جاسكتے تو اُسی موقع پر قدس میں حاضر هوتے ھیںاور وھاں توقف كرتے ھیں اور عید كے روز قربانی كرتے ھیں، یھی ان كا وطیرہ ھے، ھر سال ماہ ذی الحجہ میںوھاں تقریباً بیس ہزار لوگ جمع هوتے ھیںاپنے بچوں كو لے جاتے ھیں اور ان كے ختنے كرتے ھیں۔ 206 ان ھی لوگوں میں متوكل عباسی بھی ھے (یہ وھی متوكل ھے جس نے روضہ امام حسین ں پر پانی چھوڑا تاكہ قبر كے تمام آثار ختم هوجائیں) اس نے شھر سامرہ (عراق) میں خانہ كعبہ بنوایا، اور لوگوں كو حكم دیا كہ اس كا طواف كریں اور وھیں دو مقامات كا ” منیٰ“ و”عرفات“ نام ركھا اس كا مقصد یہ تھا كہ فوج كے بڑے بڑے افسر حجپر جانے كے لئے اس سے جدانہ هوں۔ 207 یہ تھے دو نمو نے، اگر ان كے علاوہ كوئی ایسا مورد پایا جائے تو وہ بھی انھیں كی طرح ھے، اور كبھی كوئی ایسا واقعہ رونما نھیں هوا جس میں كسی شیعہ مذھب كے ماننے والے نے اس طرح كا كوئی كارنامہ انجام دیا هو۔ شیعوں كی نظر میںزیارت قبور، ایك اور وضاحت
پھلے بھی ذكر هوچكا ھے، یہ سب ناروا تھمتیں اور نادرست نسبتیں جو شیعوں كی طرف دی گئیں ھیں یہ اسی زمانہ كی ھیں جب گذشتہ صدیوں میں شیعوں سے دشمنی اور تعصب برتا جاتا تھا خصوصاً چوتھی، پانچوی اور چھٹی صدی میں كہ جب شیعہ اور سنی حكّام كے درمیان بھت زیادہ دشمنی اور تعصب پایا جاتا تھا، اسی وجہ سے بعض غرضی، كینہ پرور اور موقع پرست لوگوں نے موقع غنیمت جان كر شیعوں كے خلاف مزید تعصب اور دشمنی ایجاد كی اور متعصب حكّام كو مزیدبھڑكایا تاكہ شیعوں كے خلاف ان كی دشمنی اور زیادہ هوجائے۔
اگر كوئی شخص شیعوں كی فقہ اور اسی طرح زیارت مشاہد مقدسہ كے اعمال كے بارے میں جو قدیم زمانہ سے معمول اور رائج ھیں باخبر هو تو اس كو بخوبی معلوم هوجائے گا كہ كسی بھی زمانہ میں شیعوں كے نزدیك بزرگان دین كی قبور كی زیارت حج نھیں سمجھی گئی اور ان كا عقیدہ صرف یہ ھے كہ زیارت ایك مستحب عمل ھے، اس كے علاوہ اور كوئی تصور نھیں پایا جاتا، وہ قبور كے پاس دعا اور سلام كے علاوہ كوئی دوسری چیز نھیں كھتے، اور اس طرح كی زیارت كو اھل سنت بھی جائز جانتے ھیں۔ شیعوں كی فقھی اور حدیثی كتابیں بھت زیادہ ھیں اور ھر انسان ان كا مطالعہ كرسكتا ھے، اور یہ محال اور ناممكن ھے كہ كسی شیعہ عالم نے زیارت كے سفر كو حج كے برابر جانا هو، اگر كوئی شخص شیعہ فقھی كتابوں كا بغور مطالعہ كرے تو اس كو معلوم هوجائے گاكہ شیعوں كی نظر میں حج بیت اللہ كی كتنی عظمت اور اھمیت ھے، اور حج كے صحیح هونے كے لئے كہ حج سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے مطابق انجام پائے كتنی دقت اور احتیاط كی جاتی ھے، اور یہ بات حج كے زمانہ میںاچھی طرح سے واضح و روشن هوجاتی ھے جب ایران اور دوسرے ممالك سے لاكھوں شیعہ حاجی حج كے لئے جاتے ھیں۔ ھاں پر ایك اھم نكتہ جس پر شیعہ مخالفین نے قدیم زمانہ سے توجہ نھیں كی وہ یہ ھے كہ شیعہ كون ھیں؟ ظاھراً ابن تیمیہ اور اس كے پیروكاروھابیوں نے غُلات (غلو كرنے والے) اور دوسرے فرقوں جن كو شیعہ بھی كافر سمجھتے ھیں ان سب كو شیعہ سمجھ لیا ھے اور افسوس كے ساتھ كھا جاتا ھے كہ بعض مذاھب اربعہ كے ماننے والے بھی اس غلطی كے مرتكب هوئے ھیں اور شیعوں كی حقیقت سے باخبر هوئے بغیر اپنے ذہن میں موجود نا درست افكار و خیالات كی بنا پر انھوں نے شیعوں پر مزید تھمتیں لگائیں، جبكہ حق وانصاف كا تقاضا یہ ھے كہ ان جیسے افراد كو اس مسئلہ پر توجہ كرنا چاہئے تھی كہ شیعوں نے اپنے تمام عقائد، احادیث اور وسیع فقہ كو ائمہعلیهم السلام كے ذریعہ خود رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حاصل كیا ھے۔ دوسری بات یہ ھے كہ اھل سنت كے چاروں فرقوں كے امام، شیعوں كے ائمہ كے علم وكمال اور صدق وتقویٰ اور دوسرے بلند مراتب پر یقین ركھتے ھیں اور ان كو اپنے سے زیادہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے كسب علم میں نزدیك سمجھتے ھیں، یھاں تك كہ خود ابن تیمیہ نے بعض اوقات اپنے نظریات كو شیعوں كے ائمہ كے قول سے مستند كیا ھے اور شیعہ فقہ سے مدد لی ھے، جیسا كہ ھم نے پھلے بھی اس چیز كا ذكر كیا ھے ،ان تمام چیزوں كے پیش نظر ایك حق پسند اور بے غرض انسان پر حقیقت واضح اور روشن ھے كہ كس طرح ممكن ھے كہ ایسے مذھب كے تابع لوگ جن كے ائمہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سب سے زیادہ قریب هوںاور دینی حقائق كو اچھی طرح جانتے هوں، كوئی ایسا عقیدہ ركھتے هوں جو اسلام كے مسلمات كے برخلاف اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی تعلیمات سے دور هو؟اور وہ بھی حج بیت اللہ الحرام كا ترك كرنا كہ شیعہ عقیدہ كے مطابق اگر كوئی حج بیت اللہ الحرام كے واجب هونے پر اعتقاد نہ ركھے تو وہ كافر ھے!! بھر حال جیسا كہ معلوم هوتا ھے اسی زمانہ سے كہ جب شیعہ اور سنی حاكموں كے درمیان سخت عناد اور دشمنی اپنے اوج پر تھی، اس بحرانی دور میں اگر كوئی شخص دین كے خلاف كوئی كام كرتا تھا تو اھل غرض افراد اس كو شیعہ كہنے لگتے تھے، اس طرح لوگوں كے ذہن شیعوں كی طرف سے بھر دئے گئے، چنانچہ شیعوں كے معمولی كاموں كو بھی الٹا كركے پیش كرنے لگے مثلاً اسی موضوع كولے لیں جسے ابن تیمیہ نے نقل كیا ھے كہ رافضی زیارت كے سفر كے لئے حج كی طرح علم بلند كرتے ھیں اور لوگوں كو حج كی طرف دعوت دیتے ھیں، اس بات كو تقریباً یقین سے كھا جاسكتا ھے كہ اس كی وجہ شاید وھی رسم تھی جو زمانہٴ قدیم میں رائج تھی كہ جب كوئی كاروان زیارت كے لئے جاتا تھاتوایك منادی كے ذریعہ اعلان كرایا جاتا تھاكہ جو سفر كا ارادہ ركھتا هو چاھے تجارت كے لئے هو یا زیارت كے لئے یا كسی اور كسی كام كے لئے وہ تیار هوجائے، اور یہ رسم موٹر گاڑیاں وغیرہ چلنے سے پھلے شاید تمام ھی دنیا میں رائج تھی، اور اس كی وجہ بھی معلوم ھے كہ اس زمانہ میں اكیلے سفر كرنا بھت خطرناك هوتا تھا۔ اسی معمولی اور سادہ كام كو شیعہ دشمنوں نے اس طریقہ سے بیان كیا كہ جو لوگ شیعہ علاقوں سے دور زندگی بسر كرتے ھیں اور شیعوں سے اختلاف نظر ركھتے ھیں اس كو حقیقت اور صحیح سمجھ لیں۔ حق بات یہ ھے كہ اگر كسی مذھب كو پہچاننا ھے تو اس مذھب كی صحیح اور مستند كتابوں سے یا ان كے ساتھ زندگی كرنے یا اس فرقہ كے علماء اور بابصیرت لوگوں سے سوال وجواب كے ذریعہ پہچانے، نہ كہ ان تھمتوں اور ذہنی تصورات كے ذریعہ جو خود غرض یا بے اطلاع لوگوں كے ذریعہ لگائی گئی ھیں۔ یہ بات مسلم ھے كہ شیعوں كے نزدیك بزرگان دین كی قبور كی زیارت ایك مستحب عمل ھے اور ان زیارتوں میں دعائیں هوتی ھیں جن كا مضمون توحید خداوندعالم اور صاحب قبر پر سلام اور اس كے فضائل هوتے ھیں، ھم یھاں پر زیارت كے چند نمونے پیش كرتے ھیں تاكہ ان لوگوں پر حقیقت واضح هوجائے جو شیعوں كے بارے میں زیارت سے متعلق بدگمانیاں ركھتے ھیں،ھم یھاں پر زیارت كے موقع پرجو دعا یا ذكر زبان پر جاری كرتے ھیں بیان كرتے ھیں، جب زائرین كرام امام علی ابن موسی الرضاںكی زیارت كے لئے مشہد مقدس جاتے ھیں اور روضہ مبارك میں وارد هوتے ھیں تو یہ دعا پڑھنا مستحب ھے: ”بِسْمِ اللّٰہِ وَبِاللّٰہِ وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّةِرَسُوْلِ اللّٰہِ (ص) اَشْہَدُ اَنْ لاٰ اِلٰہَ اِلاّٰاللّٰہُ وَحْدَہُ لاٰ شَرِیْكَ لَہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ اَللّٰهم صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمّدٍ۔ “ ”شروع كرتا هوں اللہ كے نام اور اسی كی مددسے نیزاسی كے راستہ اور ملت رسول اللہ میں قدم بڑھاتا هوں، اور گواھی دیتا هوں كہ اللہ كے علاوہ كوئی خدا نھیں، وہ وحدہ لا شریك ھے، اورشھادت دیتا هوں كہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدا كے بندے اور رسول ھیں، بار الہٰا ! محمد وآل محمد پر اپنی رحمت نازل فرما“۔ اور وھاں پڑھی جانے والی دعاؤں میں سے زیارت اھل قبور بھی اس طرح سے ھے: ”اَلسَّلاٰمُ عَلٰی اَھْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُوٴمِنِیْنَ مِنْ اَہْلِ لاٰ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ رَحِمَ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَاخِرِیْنَ وَاِنَّا اِنْشَاءَ اللّٰہُ بَكُمْ لاٰحِقُوْنَ اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَكَاتُہُ“۔ ”سلام هو مسلمانوں اور لا الہ الا اللہ پر ایمان لانے والوں كے شھر (خموشاں) پر، خدا رحمت كرے اس دیار میں ھم سے پھلے آنے والوں اور بعد میںآنے والوں پر، انشاء اللہ ھم بھی اسی دیار سے ملحق هونے والے ھیں، تم پر سلام اور خدا كی رحمت وبركات هو“۔ اسی طرح وھاں پڑھی جانی والی دعائے استغفار اس طرح ھے: ”اَسَتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِیْ لاٰ اِلٰہَ اِلاَّ هو الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ اَلرَّحْمٰنُ الرَّحِیْم ذُوْالْجَلاَلِ وَالاِكْرَام وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ وَاَسْئَلُہُ اَنْ یُصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاَنْ یَتُوْبَ عَلَیَّ تَوْبَةَ عَبْدٍ ذَلِیْلٍ خَاضِعٍ خَاشِعٍ فَقِیْرٍ مِسْكِیْنٍ مُسْتَكِیْنٍ، لاٰیَمْلِكُ لِنَفْسِہِ نَفْعاً وَلاٰ ضَراً وَلاٰ مَوْتاً وَلاٰ حَیٰوةً وَلاٰنُشُوْراً۔ “ ”میں توبہ او راستغفار كرتا هوں اس اللہ سے جس كے علاوہ كوئی معبود نھیں جو حیّ وقیّوم، رحمن و رحیم اور صاحب عظمت و جلالت ھے، اور میں اسی كی بارگاہ میں تو بہ كرتا هوں، اور اسی سے سوال كرتا هوں كہ محمد و آل محمد پر درود وسلام بھیج، او راپنے اس خاضع، خاشع، فقیر، مسكین بندے كی توبہ قبول كر، جو خود اپنے نفس كے لئے كسی نفع ونقصان اور موت وحیات نیز حشر ونشر كا مالك نھیں ھے“۔ قارئین كرام !آپ نے ملاحظہ فرمایا كہ شیعہ حضرات قبور كی زیارت كے موقع پر اس طرح كی دعائیں پڑھتے ھیں، شیعہ حضرات كی دعاؤں او ر اذكار كی كتابوں میں سب سے اھم كتاب صحیفہ سجادیہ ھے كہ اگر كوئی شخص اس كتاب میں موجود ہ دعاؤں میں صحیح غور وفكر كرے تو اس كو معلوم هوجائے گا كہ حقیقت توحید كیا ھے ؟ خدا كے سامنے حقیقی خضوع وخشوع كیسے كیا جاتا ھے اس كتاب میں ایسے مطالب موجود ھیں جو دوسری كتابوں میں بمشكل تمام پائے جاتے ھیں، شیعہ حضرات خصوصاً علمائے كرام مقدس روضوں پر صحیفہ سجادیہ سے اس طرح كی دعائیں پڑھتے ھیں: ”اِلٰہِیْ مَنْ حَاوَلَ سَدَّ حَاجَتِہ. مِنْ عِنْدَكَ فَقَدْ طَلَبَ حَاجَتَہُ فِیْ مَظَاٴنِّها وَاِنِّیْ طَلَبْتُہُ مِنْ جِہَتِها وَمَنْ تَوَجَّہَ بِحَاجَتِہ. اَلیٰ اَحَدٍ مِنْ خَلْقِكَ اَوْ جَعَلَ سَبَبَ نَجْحِها دُوْنَكَ فَقَدْ تَعَرَّضَ لِلْحِرْمَانِ وَاسْتَحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَوَاتَ الإحْسَاْنِ“۔ ” بار الٰھا ! جس نے تجھ سے اپنی حاجت طلب كرنے كا ارادہ كیا اس نے اپنی حاجت كو صحیح جگہ سے طلب كیا لہٰذا میں تیرے در كا سوالی هوں اور جس نے اپنی حاجت كو كسی غیر سے طلب كیا یا كامیابی كو تیرے علاوہ كسی غیر كے در پر تلاش كیا وہ محروم رھا اور تیرے احسان كے فوت هونے كا سبب بنا“۔ اسی طرح صحیفہ سجادیہ كی ایك دوسری دعا: ”اِلٰہِیْ خَابَ الوَافِدُوْنَ عَلٰی غَیْرِكَ وَخَسِرَ الْمُتَعَرِّضُوْنَ اِلاَّ لَكَ وَضَاعَ الْمُلِمُّوْنَ اِلاَّ بِكَ وَاَجْدَبَ الْمُنْتَجِعُوْنَ اِلاَّ مَنِ انْتَجَعَ فَضْلَكَ“۔ ”پالنے والے تیرے علاوہ دوسرے سے رغبت ركھنے والا انسان ذلیل ھے اور تیرے علاوہ دوسروں كی طرف توجہ كرنے والا خسارہ میں ھے، نیز تیرے علاوہ كسی دوسرے سے لَو لگانے والا نقصان میں ھے، اور تیرے علاوہ كسی كی ذات سے امید ركھنے والادھوكے میں ھے“ صحیفہ سجادیہ كی ایك اور دعا: ”تَبَارَكْتَ وَتَعَالَیْتَ لاٰ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ، صَدَّقْتُ رُسُلَكَ وَآمَنْتُ بِكِتَابِكَ وَكَفَرْتُ لِكُلِّ مَعْبُوْدٍ سِوَاكَ وَبَرِئْتُ مِمَّنْ عَبَدَ غَیْرَكَ“ ”خداوندا!تیری ذات، گرامی اور بابركت ھے، اور ھر برائی سے پاك و پاكیزہ ھے تیرے علاوہ كوئی معبود نھیں میں تیرے انبیاء كی تصدیق كرتا هوں، ان پر ایمان ركھتا هوں نیز تیری كتاب (قرآن) پر بھی ایمان ركھتا هوں، اور تیرے علاوہ دوسرے تمام معبودوں كا انكار كرتا هوں، نیز تیرے علاوہ كسی غیر كی عبادت كرنے والوں سے برائت اور دوری كا اعلان كرتا هوں“۔ شیعوں كے نزدیك مقدس روضوں پر قرآن پڑھنا مستحب ھے كھاور اس كا ثواب صاحب قبر كو ہدیہ كرنا مستحب ھے اور اگر زیارت كرتے وقت نماز كا وقت هوجائے اور قریب كی مسجد میں نماز جماعت هورھی ھے تو اس زیارت كو روك كر نماز جماعت میں حاضر هونا مستحب ھے، اور اسی طرح یہ بھی مستحب ھے كہ روضوں كے اندر بے هودہ الفاظ اور ناشائستہ كلمات زبان پر جاری نہ كرے اور دنیاوی امور كے بارے میں باتیں نہ هوں، اور زائر كو چاہئے كہ فقیروں كو صدقہ دے او ر محتاجوں كی مدد اور نصرت كرے، اور وھاں پر زیادہ نہ ٹھھرے۔ روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كی كیفیت، شیعوں كی نظر میں مستحب ھے جب انسان مسجد النبی میں وارد هو تو دوركعت نماز تحیت مسجد بجالائے اور داہنی طرف كے ستون كے نزدیك اس طرح روبقبلہ كھڑا هوكہ بایاں شانہ قبر مطھر كی طرف هو اور داہنا شانہ منبر كی طرف كركےاس طرح كھے: ”اَشْہَدُ اَنْ لاٰ اِلٓہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُلاٰ شَرِیْكَ لَہْ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مَُحَمّداً عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ وَاَشہَدُ اَنّكَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وانَّكَ مُحَمّدُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ وَاَ شْہَدُ اَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ رِسَالاٰ تِ رَبِّكَ وَنَصَحْتَ لِاٴمَّتِكَ وَجَاہَدْتَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَعَبَدْتَ اللّٰہَ حَتّٰی اَتیٰكَ الْیَقِیْنُ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَادَّیْتَ الَّذِیْ عَلَیْكَ مِنَ الْحَقِّ وَاَنَّكَ قَدْ رَوٴُفْتَ بِالْمُوٴْمِنِیْنَ وَغِظْتَ عَلٰی الْكٰافِرِیْنَفَبَلَّغَ اللّٰہُ بِكَ اَفْضَلَ شَرَفِ مَحَلِّ الْمُكّرَ مِیْنَ،اَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اِسْتَنْقَذْ نَا بِكَ مِنَ الشِّرْ كِ وَالضَّلاٰ لَةِ۔ اَللّٰھُمَّ فَاجْعَلْ صَلَوَاتكَ وَصَلَوَاتِ مَلاٰئِكَتِكَ الْمُقَرَّ بِیْنَ وَاَنْبِیَائِكَ الْمُرْسَلِیْنَ وَعِبَادِكَ الصَّا لِحِیْنَ وَاَھْلَ السَّمٰوٰتِ وَالاٴرْضِیْنَ وَمَنْ سَبَّحَ لَكَ یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ مِنَ الاٴوَّلِیْنَ وَالآٰخِرِیْنَ عَلیّٰ مُحَمَّدٍعَبْدِكَ وَرَسُوْلِكَ وَنَبِیْكَ وَاَمِیْنِكَ وَنَجِیِّكَ وَحَبِیْبِكَ وَصَفِیِّكَ وَخَاصَّتِكَوَصَفْوَتِكَ وَخَیْرَتِكَ مِنْ خَلْقِكَ۔ اَللّٰھُمَّ اَعْطِہِ الدَّرَجَةَ الرَّفِیْعَةَ،وَآتِہِ الْوَسِیْلَةَ مِنَ الْجَنَّةِ وَابْعَثْہُ مُقَاماً مَحْمُوْداً یَغْبِطُہُ بِہِ الاٴوَّلُوْنَ وَالآخِرُوْنَ۔ اَللّٰهم اِنَّكَ قُلْتَ: وَلَوْاَنَّهم اِذْظَلَمُوْا اَنْفُسَهم جَاْءُ وكَ فَسَتَغْفرُوْا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَهم الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللّٰہَ تَوَّاباً رَحِیْماً۔ > (سورہ نساء 64) وَاِنِّیْ اَتَیْتُكَ مُسْتَغْفِراً تٰائِباً مِنْ ذُنُوْبِیْ، وَاِنِّیْْ اَتَوَجَّہُ بِكَ اِلٰی اللّٰہِ رَبِّی وَ رَبِّكَ لِیَغْفِرلی ذُنُوْبی“۔ ترجمہ زیارت: ”میں گواھی دیتا هوں كہ اس اللہ كے علاوہ كوئی معبود نھیں، وہ وحدہ لا شریك ھے، اور شھادت دیتا هوں كہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس كے بندے اور رسول ھیں، میں گواھی دیتا هوں كہ آپ اللہ كے رسول اور جناب عبد اللہ كے فرزند ھیں۔ میں گواھی دیتا هوں كہ آپ نے اپنے پرور دگار كے تمام احكام كو كما حقہ پهونچایا، اپنی امت كی اصلاح فرمائی، خدا كی راہ میں جھاد كیااور خدا كی عبادت كی یھاں تك كہ حكمت وموعظہ حسنہ كے ذریعہ یقین كے بلند درجات تك پهونچ گئے، آپ نے اپنے تمام حقوق ادا كردئے، آپ مومنین پر بڑے مھربان اور رحم دل ھیں جس طرح كفار اور مشركین پر غضب ناك اور سخت دل ھیں، تمام تعریفیں اس اللہ كے لئے ھیں جس نے آپ كی بدولت ھمیں شرك وگمراھی سے نجات دی۔ بار الہٰا!ان پر درود و رحمت نازل فرما، نیز تمام ملائكہ مقربین، انبیاء مرسلین، بندگان صالحین، اھل سماوات وزمین، اور تیری تسبیح كرنے والی تمام مخلوق كا دردو وسلام هو تیرے بندہ اور تیرے رسول پر، تیرے ھم راز اور امین پر، تیرے حبیب وصفی پر، تیرے خاص اور منتخب پراور مخلوقات میں سب سے بلندوبھتر پر۔ بار الہٰا!اپنے رسول كو بلند وبالا درجات عنایت فرما، اور آپ كوھمارے لئے جنت تك پہنچنے كا وسیلہ قرار دے، نیز آپ كو اس مقام محمود پر فائز فرماجس پر تمام مخلوقات رشك اور ناز كریں، خداوندا! تو نے فرمایا ھے : وَلَوْاَنَّهم اِذْظَلَمُوْا اَنْفُسَهم جَاْءُ وكَ فَسَتَغْفرُوْا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَهم الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللّٰہَ تَوَّاباً رَحِیْماً ۔ > ”اے كاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم كیا تھا تو آپ كے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناهوں سے استغفار كرتے اور رسول بھی ان كے حق میں استغفار كرتے، تو یہ خدا كو بڑا ھی توبہ قبول كرنے والا اور مھربان پاتے“۔ بتحقیق میں آپ كی بارگاہ میں اپنے گناهوں سے توبہ اور استغفار كے لئے آیا هوں، اور آپ كے ذریعہ خدا كی بارگاہ میں متوجہ هوتا هوں تاكہ میرا اور آپ كاپرور دگار میرے گناهوں كو بخش دے“۔ شیعوں كی دوسری زیارتیں بھی اسی طرح كی ھیں، جو دعاؤں او راذكار كی كتابوں میں تفصیلی طور پر بیان كی گئی ھیں ،اور جن میں سے چند جملے ھم پھلے بھی ذكر كرچكے ھیں۔ 13۔ صالحین كی قبور كے بارے میں ابن تیمیہ كاكہنا ھے: بعض لوگ گمان كرتے ھیں كہ جن شھروں میں انبیاء وصالحین كی قبور ھیں وہ اس زمین سے بلاء اور خطرات كو دور كرتے ھیں مثلاً اھل بغداد قبر احمد ابن حنبل، بشر حافی اور منصور بن عماركی وجہ سے، اھل شام قبور انبیاء (منجملہ خلیل خداجناب ابراھیم ں) 208، اسی طرح اھل مصر قبر نفیسہ اور دیگر چند قبر وں كے ذریعہ، نیز اھل حجاز مرقد پیغمبراكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اور اھل بقیع كی وجہ سے بلاء اور مصیبتوں سے محفوظ ھیں، جبكہ یہ تمام غلط اور اسلام وقرآن، سنت اور اجماع كے خلاف ھے، كسی جگہ كسی كی قبر هوناكسی حادثہ سے امان میں رہنے كے لئے كوئی تاثیر نھیں ركھتا، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا وجود مقدس آپ كی زندگی میں امان كا سبب تھا، آپ كی وفات كے بعدنھیںھے۔ 209 جو لوگ یہ عقیدہ ركھتے ھیں كہ ھمیں قبور سے فائدہ پہنچتا ھے اور شھر میں قبور كا هونا دفع بلا كا سبب بنتا ھے، ایسے لوگ گویا قبور كو بتوں كی جگہ مانتے ھیں، ان كا قبور كی طرف سے نفع ونقصان كا عقیدہ بالكل كفار كے عقیدہ كی طرح ھے جو بتوں كو نفع ونقصان پہنچانے والا مانتے ھیں۔ 210 14۔ قبروں پراوران كے اطراف عمارت بنانا، اور ان كو مسمار كرنے كی ضرورت ابن تیمیہ كا كہنا ھے:مسجد، صرف خدا كی عبادت كے لئے بنائی جاتی ھے، اور مخلوق كی قبروں كے اطراف میں مسجد بنانا صحیح نھیں ھے، اسی طرح ان مخلوقین كے لئے مسجد بنانا یا مخلوق كے گھروں (یعنی ان كی قبروں) كی طرف سفر كرنا جائز نھیں ھے۔ 211 چنانچہ بقیع اور دیگر قبور كے بارے میں ابن تیمیہ كھتا ھے كہ اگر وھاں دعا، تضرع، طلب حاجت، استغاثہ اور اس طرح كی دوسری چیزیں انجام دی جائیں تو ان كاموں سے روكنا ضروری ھے، اور جو عمارتیں ان قبور كے اطراف میں بنائی گئی ھیں ان كو ویران او رمسمار كرنا ضروری ھے، اور اگر پھر بھی وھاں مذكورہ كام انجام دئے جائیں تو قبروں كو اس طرح سے مسمار كردیا جائے كہ نام ونشان تك باقی نہ رھے۔ 212 15۔ نماز كے لئے مصلّیٰ بچھانا ابن تیمیہ كا كہنا ھے:اگر نماز پڑھنے والے كا قصد یہ هو كہ مصلّے كے اوپر نماز پڑھی جائے تو یہ سَلَف مھاجرین، انصاراور تابعین كی سنت كے خلاف ھے كیونكہ وہ سب لوگ زمین پر نماز پڑھتے تھے اور كسی كے پاس بھی نماز كے لئے مخصوص مصلّیٰ نھیں هوتا تھا، جیسا كہ امام مالك نے بھی كھا ھے كہ نماز كے لئے مصلّیٰ بچھانا بدعت ھے۔ 213 اسی طرح موصوف كاكہنا ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی نماز پڑھنے كے لئے مصلّیٰ نھیں بچھاتے تھے اور صحابہ بھی یا ننگے پیر یا جوتے پہن كرنماز پڑھتے تھے اور ان كی نماز زمین پر یا چٹائی یا اسی طرح كی چیزوں پر هوتی تھی۔ 214 16۔ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل كرنا، ان سے حاجت طلب كرنا اور ان كو شفیع قرار دینا ابن تیمیہ كامذكورہ امور كے بارے میں كہنا ھے كہ اگر كوئی زیارت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے لئے جاتا ھے لیكن اگر اس كا قصد دعا اور سلام نھیں ھے بلكہ اس كا مقصد پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حاجت طلب كرنا ھے اور ا س كے لئے وھاں پر اپنی آواز بلند كرناھے تو ایسے شخص نے گویا رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كو اذیت دی ھے اور خود اپنے اوپر ظلم وستم كیا ھے۔ اس بحث كے ضمن میں ابن تیمیہ نے ان احادیث پیغمبر كو بھی بیان كیا ھے جن كا مضمون یہ ھے كہ جس شخص نے میری وفات كے بعد میری زیارت كی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت كیاور انھوں نے ان تمام احادیث كو باطل، جعلی اور ضعیف شمار كیا ھے۔ 215 كسی اھل قبر سے توسل (اس كے وسیلہ سے دعا) كرنے كے بارے میں ابن تیمیہ كا كہنا ھے كہ بعض زائرین قبور ایسے هوتے ھیں جن كا قصد یہ هوتا ھے كہ ان كی حاجت پوری هو، كیونكہ وہ صاحب قبر كو خدا كی بارگاہ میں صاحب عظمت سمجھتے ھیں اور اس كو بارگاہ خداوندی میں واسطہ قرار دیتے ھیں اور اس كے لئے نذر اور قربانی كرتے ھیں اور ان كو صاحب قبر كے لئے ہدیہ كرتے ھیں اور بعض زائرین اپنے مال كا ایك حصہ صاحب قبر كے لئے معین كرتے ھیں، اسی طرح بعض گروہ صاحب قبر سے محبت اور اس كے دیدار كے شوق میں اس كی زیارت كے لئے جاتے ھیں اور اس كی قبر كی طرف سفر كوایسا سمجھتے ھیں جیسے صاحب قبركی زندگی میں اس كی طرف سفر كیا هو، اور جب اس صاحب قبر كی زیارت كرلیتے ھیں جس سے وہ محبت ركھتے ھیں تو اپنے دل میں سكون وآرام اور اطمینان محسوس كرتے ھیں، اس طرح كے لوگ ایسے بت پرست ھیں جو بتوں كو خدا كی طرح مانتے ھیں۔ 216 رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل كے بارے میں وضاحت
سمهودی سُبكی كے قول كو نقل كرتے هوئے كھتے ھیں كہ محبوب كا ذكر كرنا دعا كی قبولی كا سبب بنتا ھے، چنانچہ اسی كام كو توسل كھا جاتا ھے، اوراستغاثہ، شفیع قرار دینا اور توجہ كرنا بھی۔
توسل كا یہ مسئلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زندگی میں متعدد بار رونما هوا ھے چنانچہ نسائی اور ترمذی نے عثمان بن حُنیف سے روایت نقل كی ھے كہ جب ایك نابینا شخص رسول اسلام (ص)كی خدمت میں اپنی شفا كے لئے حاضر هوا تو رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس نابینا كو حكم دیا كہ یہ دعا پڑھو: ”اَللّٰهم اِنِّیْ اَسْئَلُكَ وَ اَتَوَجَّہُ اِلَیْكَ بِنَبِیِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرِّحْمَةِ،یَا مُحَمَّدُ اِنِّیْ تَوَجَّہْتُ بِكَ اِلٰی رَبِّیْ فِی حَاجَتِیْ لِتَقْضِیَ لِیْ، اَللّٰهم شَفِّعْہُ لِیْ“ ”خدا وندا!میں تجھ سے سوال كرتا هوں تیرے پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے واسطہ سے جو نبی رحمت ھیں، او رمیں تیری طرف متوجہ هوتا هوں، اے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میںاپنی حاجت كی قبولی میں آپ كے وسیلہ سے خدا كی بارگاہ میں متوجہ هوتا هوں تاكہ میری حاجت روا هو، اے خدائے مھربان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كو میرا شفیع قرار دے“۔ طبرانی نے بھی اسی طرح كی حدیث ایسے مرد كے بارے میں نقل كی ھے جو وفات پیغمبراكرمكے بعد عثمان بن عفان كے زمانہ میں ایك حاجت ركھتا تھا او رعثمان بن حنیف نے اس كو مذكورہ دعا پڑھنے كے لئے كھا، (اور جب اس نے بھی مذكورہ دعا كو پڑھا تو اس كی حاجت پوری هوگئی) اسی طرح بیہقی نے ایك روایت نقل كی ھے كہ جب جناب عمر كے زمانہ میں قحط پڑاتوسب لوگوں نے مل كر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر سے توسل كیا اور ان میں سے ایك شخص نے پیغمبر اكرم كی قبر كے سامنے كھڑے هوكر كھا: ”یَاْ رَسُوْلَ اللّٰہِ اِسْتَسْقِ لِاٴُمَّتِكَ فَاِنَّهم قَدْ ہَلَكُوْا“ ”اے پیغمبر اكرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی امت كے لئے خدا سے بارش طلب كریں كیونكہ آپ كی امت پانی نہ هونے كی وجہ سے ھلاك هوئی جاتی ھے“ اسی طرح امام مالك كا مسجد النبی میںابوجعفر كے ساتھ ایك مناظرہ هوا، اس میںانھوں كھا) كہ قبر پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی طرف رخ كركے كھڑے هو اور ان كو اپنا شفیع قرار دو۔ 217 اسی طرح جناب عمر خشك سالی اور قحط كے زمانہ میں حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے چچا جناب عباس سے توسل كرتے ھیں اور اس طرح بارگاہ خداوندی میں عرض كرتے ھیں: ”اَللّٰهم كُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْكَ بِنَبِیِّنَا فَتُسْقِیْنَا، وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْكَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا“218 ”خدا وندا! ھم قحط كے زمانہ میں تیرے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل كرتے تھے اور تو ھمیں سیراب كردیتا تھا ،اور اب پیغمبر كے چچا سے توسل كرتے ھیں، بارِ الہٰا تو ھمیں سیراب فرما“ ایك دوسری روایت كے مطابق، عمر نے لوگوں سے كھا كہ جناب عباس كو خدا كی بارگاہ میں وسیلہ قرار دو، خود ابن تیمیہ كھتے ھیں كہ اصحاب پیغمبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے زمانہ میں آپ سے توسل كرتے تھے اور آپ كی وفات كے بعد جس طرح آپ سے متوسل هوتے تھے اسی طرح آپ كے چچاجناب عباس سے بھی توسل كرتے تھے،ابن تیمیہ كا كہنا ھے كہ امام احمد ابن حنبل اپنی دعاؤں میں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متوسل هوتے تھے، اور امام احمد ابن حنبل كا بھی (ان كے دو نظریوں میں ایك) یھی نظریہ تھاكہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قسم كھانا اور ان سے توسل كرنا، جائز ھے۔ 219 یہ اور اس طرح كی بھت سی مثالیں جو اھل سنت كے چار مذاھب كی صحاح ستہ اور دوسری معتبر كتابوں میں موجودھیں ان سے معلوم هوتا ھے كہ پیغمبر اكرم (ص)سے توسل كرنا ان سے شفاعت كرنا اورپیغمبر كے علاوہ دوسروں مثلاً آنحضرتكے چچا سے توسل كرنا بھی سلف كی سیرت رھی ھے۔ توسل اور استغاثہ كے بارے میں نَبھانی كا نظریہ
شیخ یوسف نبھانی، سُبكی كا قول نقل كرتے هوئے كھتے ھیں كہ پیغمبر اكرمسے توسل اور استغاثہ كرنا اور آپ كو شفیع قرار دینا جائز بلكہ بھتر ھے اور یہ چیز ھر دیندار كو معلوم ھے، اور انبیاء ومرسلین بھی اس پر عمل كیا كرتے تھے، اور اسی طرح سَلف صالح، علمائے كرام اور عوام الناس كی بھی یھی سیرت رھی ھے۔
پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل كرنا ھر حال میں جائز ھے، چاھے آپ كی خلقت سے پھلے هو، یا آپ كی خلقت كے بعد چاھے آپ كی زندگی میں هو یا آپ كی وفات كے بعد، عالم برزخ میں هو یا قیامت كے روز۔ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل یہ ھے كہ انسان خداوندعالم سے اپنی حاجت روائی كے لئے اس كی بارگاہ میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كو یا ان كی عظمت اور بزرگی كو وسیلہ قرار دے، یہ تینوں قسم كا توسل جائز ھے اور ان كے بارے میں صحیح احادیث بیان هوئی ھیں، اور ان میں كوئی فرق نھیں ھے كہ لفظ توسل استعمال هو یا لفظ شفاعت یا استغاثہ۔ اس كے بعد نبھانی خود اس سلسلے میں كھتے ھیں كہ وہ تمام مسلمان جو قبور كی زیارت كے لئے جاتے ھیں، اور خدا كے صالح بندوں مخصوصاً انبیائے الٰھی، بالخصوص سردار انبیاء حضرت محمد مصطفی سے استغاثہ كرتے ھیں اگر چہ زیارت اور استغاثہ كرتے وقت ان كی عظمت كو مدنظر ركھنے كی كوشش كرتے ھیں اس كے باوجود یہ جانتے ھیں كہ وہ خدا كے بندے ھیںجو خود اپنے لئے یا دوسروں كے لئے نفع ونقصان كے مالك نھیں ھیں، لیكن خدا كے سب سے محبوب اور مقرب بندے ھیں جن كو خداوندعالم نے اپنے دین اور شریعت كی تبلیغ كے لئے اپنے او راپنے بندوں كے درمیان واسطہ قرار دیا ھے، او رخدا كے بندے بھی ان كی نبوت اور ان كی عظمت پر ایمان و عقیدہ ركھتے ھیں اور ان حضرات كوتمام مخلوق میں خدا كا مقرب ترین بندہ تصور كرتے هوئے ان كو اپنے گناهوں كی بخشش، حاجت كی برآوری كے لئے بارگاہ خداوندی میں وسیلہ اور واسطہ قرار دیتے ھیں۔ زیارت قبر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے لئے سفر كرنا یا آنحضرت سے استغاثہ كرنا تمام علمائے اسلام اور عوام الناس كے نزدیك ضروریات دین میں سے ھے، یھاں تك كہ بعض مالكی علماء كے نزدیك جیسا كہ ابن حجر اور سُبكی سے نقل هوا ھے كہ جو لوگ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كرنے میں مانع هوتے تھے ان كو كافر جانتے تھے۔ اور یہ بات كسی پر مخفی نھیں ھے كہ امت محمدی كے تمام علماء (فقھاء، محدثین، متكلمین اور صوفی حضرات)، تمام مذاھب كے خاص وعام قول وفعل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل، استغاثہ، شفاعت اور طلب حاجت كرنے پر اتفاق ركھتے ھیں، چاھے دنیاوی امور میں هوں یا اخروی امور میں، اسی طرح آپ كی زیارت كے سفر كو چاھے نزدیك سے هو یا دور ترین علاقہ سے ایك مستحب كام سمجھنے پر اتفاق ركھتے ھیں، اور وہ بھی اس طرح كہ ان كی نظر میں زیارت كا مسئلہ ایك ایسی چیز ھے جس كی دین میں ضرورت كو سبھی جانتے ھیں اور كسی پر بھی یہ بات مخفی نھیں ھے، یھاں تك كہ اس كے خلاف هونے كو تصور تك بھی نھیں كرتے، اورانھوں نے ان سب چیزوں كو قدیم علماء اوربزرگوں سے حاصل كیا ھے اور اس كو افضل ترین عبادتوں میں سے شمار كرتے ھیں، اور اگر كچھ لوگ اس مسئلہ میں مخالفت كرتے ھیں تو ان میں سب سے پھلے ابن تیمیہ اور اس كے چند شاگرد ھیں ،جبكہ ان میں ھر ایك كے مقابلہ میں علماء كی ایك كثیر تعداد موجود ھے جنھوں نے ان كے نظریہ كو باطل اور ردّ كیا ھے، اور صرف یھی كہنا كافی ھے كہ حق اكثر علماء كے ساتھ ھے جس كی پیروی كرنا واجب ھے۔ اگر توسل (جس طرح كہ ابن تیمیہ اور اس كے شاگرد كھتے ھیں) شرك هوتا تو پھر سَلف صالح اور خَلف امت سے یہ كام صادر نہ هوتا، جبكہ تمام اصحاب اور سلف صالح آنحضرت سے توسل كرتے تھے، ان میں سے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی دعائیں اس طرح ھیں: ”اَللّٰهم اِنِّی اَسْاٴَلُكَ بِحَقِّ السَّائِلِیْنَ عَلَیْكَ۔ “ اور یہ دعا آشكار اور واضح طور پر توسل كا ایك نمونہ ھے، او رپیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ دعا اپنے اصحاب كو تعلیم دی، اوراس كے پڑھنے كا حكم صادر فرمایا۔ ابن ماجَہ نے صحیح سند كے ساتھ ابو سعید خُدْری سے روایت كی ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا كہ اگر كوئی شخص گھر سے نماز كے لئے نكلے تو اس دعا كو پڑھے: ”اَللّٰهم اِنِّی اَسْاٴَلُكَ بِحَقِّ السَّائِلِیْنَ عَلَیْكَ، وَاَسْاٴَلُكَ بِحَقِّ مَمْشَایَ ہٰذَا اِلَیْكَ فَاِنِّی لَمْ اَخْرُجْ اَشِراً وَلاٰ بَطَراً وَلاٰ رِیَاءً وَلاٰسُمْعَةً، خَرَجْتُ اِتَّقَاءَ سَخَطِكَ وَابْتِغَاءَ رِضَائِكَ فَاٴَسْاٴَلُكَ اَنْ تُعِیْذَنی مِنَ النَّارِ، وَاَنْ تَغْفِرَ لی ذُنُوْبی فَاِنَّہُ لاٰ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلاّٰ اَنْتَ“۔ ترجمہ دعا ”بار الہٰا!میں تجھ سے سوال كرنے والوں كے وسیلہ سے سوال كرتا هوں، اور تیری راہ میں اٹھنے والے قدموں كو وسیلہ قرارد دیتا هوں، میں كسی فتنہ وفساد كے لئے نھیں نكلا هوں بلكہ تیرے غضب سے بچنے كے لئے اور تیری رضا كو حاصل كرنے كے لئے نكلا هوں، بار الہٰا!تو مجھے آتش جہنم سے محفوظ ركھ اور میرے گناهوں كو بخش دے، كیونكہ تیرے علاوہ میرے گناهوں كو كوئی نھیں بخش سكتا“۔ خداوندعالم اس دعا كے پڑھنے والے پر توجہ كرتا ھے اور اس كے لئے ستر ہزار فرشتے طلب بخشش كرتے ھیں۔ جلال الدین سیوطی نے جامع كبیر میں اور بعض دوسرے علماء كرام نے نقل كیا ھے كہ تمام سَلف صالح جس وقت مسجد میں نماز پڑھنے كے لئے جایا كرتے تھے تو مذكورہ حدیث كو پڑھا كرتے تھے، او راس حدیث میں رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا یہ جملہ” بِحَقِّ السَّائِلِیْنَ عَلَیْكَ“ ھر سوال كرنے والے بندہ مومن سے توسل كیا ھے، اس حدیث كو ابن السنّی نے بھی صحیح سند كے ساتھ جناب بلال، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے موذن سے نقل كیا ھے اور حافظ ابو نعیم اور بیہقی نے اپنی كتاب ” دَعَوات“ میں (تھوڑے اختلاف كے ساتھ) بیان كیا ھے۔ توسل كے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی ایك حدیث كو طبرانی نے (جامع)كبیر واوسط میں اور ابن حنّان او رحاكم نے بھی نقل كیاھے، جس كابعض حصہ اس طرح ھے كہ جب فاطمہ بنت اسد (حضرت علی ں)كی مادر گرامی كی وفات هوئی تو حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان كے لئے اس طرح دعا فرمائی: ”اِغْفِرْ لِاٴُمِّی220 فَاطِمَةَ بِنْتِ اَسَدٍ وَ وَسِّعَ عَلَیْها مَدْخَلَها بِحَقِّ نَبِیِّكَ وَالاٴنْبِیَاءِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِی“ ”خداوندا!، میری ماں فاطمہ بنت اسد سے در گذر فرما، اور ان كے لئے قبر كو وسیع فرما،تجھے تیرے پیغمبر كا واسطہ اور ان انبیاء كا واسطہ جو مجھ سے پھلے گذر چكے ھیں۔ 221 جب ابن تیمیہ سے یہ سوال كیا گیا كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوات ودرود آہستہ بھیجنا بھتر ھے یا بلند آواز میں؟ اور یہ جو جناب ابن عباس سے مروی ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بلند آواز میںصلوات بھیجی جائے، تو كیا یہ حدیث صحیح ھے ؟ تو اس كے جواب میں ابن تیمیہ نے كھا: مذكورہ حدیث علماء كے نزدیك جھوٹی اور جعلی ھے اور اس سلسلہ میں كوئی بھی حدیث هو جھوٹی ھے، كیونكہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوات بھیجنا دعا اور ذكر كی منزل میں ھے اور دعا و ذكر آہستہ اور خفی آواز میں هونا چاہئے۔ 222 18۔ قبور كے پاس مسجد بنانا او ر قرآن مجید ركھنا ابن تیمیہ كے فتووں میں سے ایك فتویٰ یہ بھی ھے كہ جھاں قبر هو وھاں پر مسجد بنانا جائز نھیں ھے، اسی طرح مسجد میں كسی میت كو دفن كرنا بھی جائز نھیں ھے، اور اگر پھلے سے كسی مسجد میں میت دفن هوئی هو تو اس قبر كو توڑ كر زمین كے برابر كردینا چاہئے (تاكہ اس كا نام ونشان باقی نہ رھے) اور اگر مسجد میں كوئی تازہ میت دفن هو تو اس قبر كو كھول كر اس میت كو نكال لیا جائے، نیز اگر كوئی مسجد میت دفن هونے كے بعد بنائی جائے تو یا تو مسجد كو گراكر ختم كردیا جائے یا قبر كی شكل كو ختم كردیا جائے، اسی طرح اگر قبر كے نزدیك كوئی مسجد بنائی جائے تو نہ اس میں واجب نماز پڑھی جاسكتی ھے اور نہ ھی مستحب نماز223 قبور كے نزدیك تلاوت كی غرض سے قرآن ركھنا ایك بری بدعت ھے، كیونكہ سلف صالح كے درمیان ایسی كوئی بات نھیں ملتی، اور یہ بھی قبور كے نزدیك مسجد بنانے كے حكم میں ھے ۔ 224 19۔ ھر نئی چیز بدعت ھے ابن تیمیہ اس حدیث سے تمسك كرتے ھیں جس كا مضمون یہ ھے كہ ھر نئی چیز سے پرھیز كرو كیونكہ ھر نئی چیز بدعت ھے، او رھر بدعت گمراھی ھے، چنانچہ اس حدیث كے ضمن میں كھتا ھے كہ سلف صالح دینی امور میں كہ یہ عمل واجب ھے یا مستحب یا مباح، اس وقت تك كچھ نھیں كھتے تھے جب تك قرآن وسنت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے كوئی دلیل شرعی نہ مل جائے۔ 225 خلاصہ یہ كہ ابن تیمیہ كے فتووٴں میںكسی چیز كے بدعت هونے كی دلیل یہ ھے كہ وہ كام پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے زمانہ میں نھیں تھا یا اس پر سلف صالح نے عمل نھیں كیا ھے مثلاً نماز كے لئے مصلّیٰ بچھانا، یا نماز كے بعد امام او رماموم كا باھم دعا كرنا، 226 اور اسی طرح كی دوسری بھت سی چیزیں ھیںجن سے اس كی كتاب الفتاوی الكبری كی پانچ جلد یںبھری پڑی ھیں۔ ابن تیمیہ كی نظر میںھر اس چیزكہ جس پر پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے زمانہ میں عمل نھیں هوابدعت هونے كی ایك دوسری دلیل یہ ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس دنیا سے نھیں گئے مگر یہ اپنی امت كے لئے اپنے دین كو مكمل طور پر بیان كردیا اور سب كام كو عملی كركے دكھادیا، 227 20۔ ابن تیمیہ كے عقائد پر ایك كلی نظر وھابیوں كے مشهور ومعروف موٴلف حافظ وَھبہ نے ابن تیمیہ كے عقائد كا چارا مور میں خلاصہ كیا ھے: 1۔ كتاب خدا اور سنت نبوی كی طرف رجوع، اورصفات خدا سے متعلق آیات اور احادیث كو سمجھنے كے لئے سلف صالح (صحابہٴ پیغمبر اور تابعین)كی پیروی، اور فلاسفہ، متكلمین اور صوفیوں كے راستہ پر نہ چلنا، كیونكہ ان كا راستہ سلف صالح كے موافق نھیں ھے۔ 2۔ منكرات اور بدعتوں سے مقابلہ اور جنگ، خصوصاً ان چیزوں سے جو موجب شرك بنتی ھیں، مثلاً قبر پر ھاتھ ركھنا، یا قبور كے نزدیك نماز پڑھنا، اسی طرح مردوں سے حاحت طلب كرنا اور غیر خدا سے مدد طلب كرنا ،یا بعض درختوں او رپتھروں كو متبرك سمجھنا جن سے بعض لوگ خیر وشر كی امید ركھتے ھیں۔ 3۔ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی شان میں مبالغہ اورغلو نہ كرنا، اور صرف آنحضرت كی راہنمائیوں كی پیروی كرنا۔ 4۔ اس كااعتقاد ركھناكہ اجتھاد كے دروازے كھلے هوئے ھیں، اور متعصب مقلدوں سے اعلان جنگ كرنا۔ یہ چند چیزیں ابن تیمیہ كے عقائد كو تشكیل دیتی ھیں، جن كے تحقق كے لئے وہ زندگی بھر كوشش میں رھا، یہ ابن تیمیہ كے وھی عقائد ھیں جن كی طرف محمد بن عبد الوھاب نے نجد میں دعوت دینا شروع كی۔ 228 جن لوگوں نے ابن تیمیہ كے راستہ كو اپنایا ھے
خود ابن تیمیہ كے زمانہ میں بعض لوگ اس كی طرفداری كیاكرتے تھے، جن میں سے چند علماء (خصوصاً حنبلی علماء) اس كے ھم عقیدہ تھے اور ابن تیمیہ كی مدح وستائش كیا كرتے تھے ان میں سے بعض اس كے شاگرد بھی تھے جنھوں نے اس كی زندگی اور اس كی موت كے بعد اس كے عقائد كو نشر كرنے كی كوشش كی، اور اپنے استاد كے نظریات اور افكار كو اپنی كتابوں اور رسالوں میں لكھا، جن میں سب سے مشهور ومعروف شمس الدین محمد ابن ابوبكر حنبلی، مشهور بہ ابن قیّم جوزی (متوفی751ھ) تھا،كہ اس كتاب میں ابن تیمیہ كے عقائد كے نقل كے ضمن میں مكرر ان كی كتابوںكی طرف استناد كیا گیا ھے،ان ھی شاگردوں میں سے ایك دوسرے شمس الدین محمد معروف بہ عماد (متوفی744ھ)بھی ھے۔
متاخرین میں دو لوگوں نے سب سے زیادہ اس كے عقائد اور افكار كو پھیلانے كی كوشش كی ھے، جن میں سے پھلے محمد بن عبد الوھاب، فرقہ وھابی كا بانی ھے جس كے بارے میں ھم اسی كتاب كے آئندہ صفحات میں گفتگو كریں گے۔ دوسرے محمد بن علی شَوكانی ھے ،اس كے حالات ونظریات كو اسی جگہ مختصر طور پر بیان كردینا مناسب ھے: محمد بن علی شوكانی صَنعانی
شوكانی نے اپنی اور اپنے باپ كی سوانح حیات ”البدر الطالع“229 نامی كتاب میں لكھی ھے كتاب ”نیل الاوطار“ میں بھی ان كے حالات زندگی بیان كئے گئے ھیں، ھم یھاں پر دونوں كتابوں سے اقتباس كرتے هوئے ان كی زندگی كے حالات مختصر طور پربیان كرتے ھیں، اور نیل الاوطار ،اورارشاد الفُحول كتابوں سے اس كے عقائد كے چند نمونے پیش كرتے ھیں:
شوكانی، شوكان نامی دیھات كی طرف منسوب ھے جو یمن كے پایہٴ تخت ”صنعاء “كے نزدیك ھے، اس كی پیدائش ذیقعدہ1173ھ میں هوئی، صنعا شھر میں چند اساتید كے پاس قرآن كی تعلیم حاصل كی اس كے بعد چند كتابوں منجملہ كافیہ وشافیہ ابن حاجب، اور تہذیب وتلخیص تفتازانی وغیرہ حفظ كرنے میں مشغول هوا۔ 230 شوكانی جس وقت سے مكتب میں تھا اسی وقت سے تاریخی و ادبی كتابیںپڑھنے كا بھت شوقین تھا،چنانچہ اس نے ابتدائی تعلیم حاصل كرنے كے بعد مزید علم حاصل كرنے كی ٹھان لی، اور یمن كے چند مشهور اساتید منجملہ اپنے باپ كے سامنے زانوئے ادب تہ كیا اوران سے اصول وفقہ، نحو اور دوسرے علوم حاصل كرنے میں مشغول هوا، (چنانچہ اس نے اپنے استادوں كے نام اور جن سے جو جو كتابیں پڑھی ھیں كاایك ایك كركے ذكر كیا ھے) وہ جس وقت مختلف علوم كو حاصل كرنے میں مشغول تھا انھیں كتابوں كو دوسرے طلباء كو پڑھاتا بھی تھا، جس كی بناپربھت جلد ھی فتوی دینا شروع كردیا، اور صنعاء اور دوسرے شھروں سے جو استفتاء ات هوتے تھے ان كے جوابات دیتا تھا، اس وقت اس كی عمر بیس سال تھی۔ اورجب تیس سال كی عمر هوگئی تو دوسروں كی تقلید كرنا بالكل چھوڑ دی كیونكہ وہ مكمل طور پر مجتہد هوگیا تھا۔ چند سال تك شھر صنعاء كے قاضی شھر بھی رھا اور بھت سے كتابیں بھی لكھی ھیںجن كو خود موصوف نے البد ر الطالع میں ذكر كیا ھے، آخر كار اس نے ایك قول كے مطابق1250ھ اور ایك قول كے مطابق1255ھ میں انتقال كیا۔ 231 شوكانی كا مذھب اور اس كا عقیدہ
شوكانی نے سب سے پھلے فقہ كی تعلیم زیدیہ مذھب كے مطابق حاصل كی اور اسی كے مطابق كتاب بھی تالیف كی، اور فتوے بھی دئےے، یھاں تك رھبری كی منزل تك پهونچ گئے، اور حدیث میں اپنے زمانہ كے علماء پر برتری اور افضلیت حاصل كی، یھاں تك كہ تقلید كی قید سے رھائی حاصل كی، یعنی درجہ اجتھاد تك پہنچے، لیكن ان كے جو فتوے هوتے تھے اس زمانہ كے علماء ان كی مخالفت كرتے تھے، ان كا عقیدہ سلف صالح كا عقیدہ تھا، یعنی خدا وندعالم كے قرآن او راحادیث میں وارد هونے والے صفات كوظاھر پر حمل كرتے تھے، اور (ان كی) تاویل كی مخالفت كرتے تھے، انھوں نے سلف صالح كے سلسلہ میں ایك رسالہ ”اَلتُّحْف بِمَذْھبِ السَّلَفَ“ نام سے بھی لكھا، جو چھپ بھی چكا ھے۔ 232
شوكانی كے تفصیلی فتوے اس كی مشهور ومعروف كتاب نیل الاوطار میں بیان هوئے ھیں، ان میں سے ایك فتویٰ یہ ھے كہ تارك الصلوٰة ،چاھے ترك صلوٰة كو مباح جانے یا نہ جانے، كافر ھے اور اس كو قتل كرنا واجب ھے۔ 233 شوكانی كے عقائد كے چند نمونے
1۔ قرآن واحادیث میں مجاز: جمهور كا یہ نظریہ ھے كہ عربی زبان میں مجاز(یعنی وہ لفظ جس كا استعمال غیرحقیقی معنی میں هوتا ھے اور قرینہ كے بغیر اس كے معنی سمجھ میں نھیں آتے) كا استعمال هوتا ھےاسی طرح یہ قرآن مجید میں بھی موجود ھے، اور جس طرح قرآن مجید میں مجاز كا استعمال بھت زیادہ هواھے اسی طرح احادیث میں بھی مجاز كافی استعمال هوا ھے۔ 234
2۔ تاویل :اكثر فروع میں تاویل كا وجود پایا جاتا ھے، لیكن اصول عقائد اور صفات خدا میں تاویل كے سلسلہ میں تین قول ھیں: پھلا قول: یہ ھے كہ ان چیزوں میں تاویل ممكن نھیں ھے اور بغیر كسی تاویل كے ظاھر پر حمل كیا جائے، یہ قول ”مُشَبِّہَہ“ كا ھے 235 دوسرا قول :یہ ھے كہ یہ چیزیں تاویل ركھتی ھیں لیكن ھمیں چاہئے كہ ان تاویلوں سے پرھیز كریں، تشبیہ یا تعطیل كا عقیدہ ركھے بغیر، كیونكہ خداوندعالم نے فرمایا ھے : <وَمَا یَعْلَمُ تَاوِیْلَہُ اِلاّٰ اللّٰہُ ۔ >236 یعنی خدا كے علاوہ كوئی دوسرا تاویل نھیں جانتا۔ ابن برھان نے كھا كہ یھی قول سلف صالح كا بھی ھے، چنانچہ شوكانی نے اپنا نظریہ ذكر كیا اور سلف صالح كے راستہ كو اپنایا، یعنی تاویل كا وجود ھے لیكن ھم اس سے پرھیز كرتے ھیں۔ 237 شوكانی كا مطلب یہ ھے كہ ظاھر آیات كی بناپر خدا كو دیكھا جاسكتا ھے، یا چند دوسری آیات كے پیش نظر خدا كو آنكھ، كان،ھاتھ او رچھرے والا مانا جاسكتاھے۔ تیسرا قول:یہ ھے كہ مذكورہ امور میں تاویل هوسكتی ھے، ابن برھان كے قول كے مطابق ان تینوں اقوال میں سے پھلا قول باطل ھے اور دوسرے دو قول اصحاب سے نقل هوئے ھیں، اور تیسرا قول (تاویل كو قبول كرنا) حضرت علی، ابن عباس اور ابن مسعود اور ام سلمیٰ سے نقل هوا ھے۔ 3۔ اباحت كی اصل: 238 شوكانی صاحب نے بعض شافعی علماء اورمحمد ابن عبد اللہ بن عبد حكم نیزبعض متاخرین سے اصل اباحت كو نقل كیا ھے، اور علمائے جمهور سے اصل منع كو نقل كیا ھے، لیكن خوداپنے استدلال كے ذریعہ اصل اباحت كو قبول كیا ھے۔ 4۔ قبور كے بارے میں:شوكانی نے ابن تیمیہ كے دادا مَجْد الدین عبد السلام بن عبد اللہ حرانی معروف بہ ابن تیمیہ كی ”منتقی الاخبار “ نامی كتاب كی شرح ”نیل الاوطار“ میں قبور كے بارے میں وھی سب كچھ كھا ھے جو ابن تیمیہ نے اس سے پھلے كھا تھا، لیكن اس سے بھی زیادہ شدت كے ساتھ، اور اپنے زمانہ كے علماء پر اعتراض كرتے هوئے كہ یہ لوگ زیارت قبور سے منع كیوں نھیں كرتے اور بے توجھی كا شكار ھیں؟! موصوف كا زیارت قبور كے سلسلہ میں كہنا ھے كہ جاھل عوام قبور كے بارے میں وھی عقیدہ ركھتے ھیں جو بت پرست لوگ بتوں كے بارے میں ركھتے ھیں، اور ان كو بتوں كی طرح نفع ونقصان پہنچانے والا مانتے ھیں، ان لوگوں نے قبور كو اپنا مقصد اور اپنی حاجات روائی كا مركز بناركھا ھے۔ یہ لوگ قبور سے وھی طلب كرتے ھیں جو خدا كے بندے خدا سے طلب كرتے ھیں، یہ لوگ قبور كی زیارت كے لئے سفر كرتے ھیں اور قبور كی مٹی تبرك كے طور پر لے جاتے ھیں اور ان سے استغاثہ كرتے ھیں۔ اس موقع پر شوكانی صاحب افسوس كے ساتھ كھتے ھیں كہ كوئی نھیں جو خدا كے لئے ان لوگوںكوڈرائے اور دینی غیرت كو كام میں لائے كہ ان كو ان برے اور كفر آمیز اعمال سے روكے، نہ كوئی عالم ھے نہ كوئی استاد، نہ كوئی شاگردھے، نہ كوئی حاكم اور امیر، نہ كوئی سلطان ھے او رنہ كوئی وزیر! بعض مطمئن لوگوں نے ھم كو خبر دی ھے كہ بعض قبور كی زیارت كرنے والے افراد اگر ان كو كسی جگہ قسم كھانی پڑے تو خدا كی جھوٹی قسم كھالیتے ھیں لیكن اگر ان سے كھا جائے كہ تم اپنے پیر او رمرشد یا جس پر اعتقاد ركھتے هو ان كی قسم كھاؤ تو ان كی قسم كھانے كے لئے تیار نھیں هوتے، اور مجبوراً حق بات كا اعتراف كرلیتے ھیں ۔ اوریہ اس بات كی واضح و روشن دلیل ھے كہ ان كا شرك ان مشركین سے بھی زیادہ ھے جو خدا كو”ثانی اثنین یا ثالث ثلاثہ “239 (دو میں سے دوسرا یا تین میں سے تیسرا)مانتے ھیں۔ اس كے بعد شوكانی جی! علماء او رمسلم بادشاهوں سے خطاب فرماتے ھیں: دین كے لئے كفر سے زیادہ بڑی مصیبت اور كیا هوگی اور غیر خدا كی پوجا سے بڑھ كر آفت كیا هوگی،؟ ممكن ھے بعض مسلمان ان مصیبتوں میں پھنس جائیں تو پھریہ عالم اسلام پر سب سے بڑی مصیبت كا وقت هوگا، اس موقع پر شوكانی صاحب اپنے آپ سے خطاب كرتے هوئے ان اشعار كو پڑھتے ھیں: ”لَقَدْ اَسْمَعْتَ لَوْ نَادَیْتَ حَیًّا وَلٰكِنْ لاٰحَیَاةَ لِمَنْ تُنَادِی. وَلَوْ نَاراً نَفَخْتَ بِها اَضَاٴتْ وَلٰكِنْ اَنْتَ تَنْفَخُ فِی رَمَادٍ“240 ”اگر تم اپنی آواز زندہ تك پهونچانے كی كوشش كرتے تو وہ آواز سن لیتے، لیكن تم جن كو پكار رھے هو، وہ زندہ نھیں ھیں“ ”جس وقت آگ كو پھونكتے ھیںتووہ نور اورروشنی دیتی ھے، لیكن تم تو مٹی اور خاكستر میں پھونك مار رھے هو، (تو نور اور روشنی كیسے ملے گی؟!) “ قارئین كرام! یہ تھے شوكانی صاحب كے نظریات جن كو آپ نے ملاحظہ فرمایا،لیكن افسوس كہ شوكانی صاحب نے یہ وضاحت نھیں كی كہ جو لوگ خدا كی جھوٹی قسم كھاتے ھیں اور جس پر وہ اعتقاد ركھتے ھیں ان كی جھوٹی قسم نھیں كھاتے، یا وہ جو بتوں كی طرح قبور كی پوجا كرتے ھیں اور خدا كی طرف توجہ كرنے كے بجائے قبور سے طلب حاجت كرتے ھیںاور ان كو نفع ونقصان پهونچانے میں مستقل تصور كرتے ھیں، یہ لوگ كون ھیں اور كھاں رھتے ھیں؟۔ -------------------------------------------------------------------------------- 57. فتح المجید ص 15،16۔ 58. التوسل بالنبی ص 20 ۔ 59. كتاب الرد علی الاخنائی تالیف ابن تیمیہ ص 18،21۔ 60. كتاب الرد علی الاخنائی تالیف ابن تیمیہ ص 52۔ 61. كتاب الرد علی الاخنائی تالیف ابن تیمیہ ص 56۔ 62. كتاب الرد علی الاخنائی تالیف ابن تیمیہ ص 59۔ 63. كتاب الرد علی الاخنائی تالیف ابن تیمیہ ص 61،67۔ 64. فتاویٰ الكبریٰ جلد اول ص 366، سعود بن عبد العزیز نجد كے مشهور بادشاہ (متوفی1229) نے ھر علاوہ میں امام جماعت مقرر كئے تھے، البتہ یہ امام جماعت دوم تھے یعنی اگر كوئی كسی عذر كی وجہ سے پھلی جماعت میں شریك نہ هوسكے تو اس دوسرے امام كی اقتداء كرے، یعنی ھر حال میں نماز جماعت میں شركت كرے، (ابن بشر جلد اول ص 169) اسی طرح آل سعودمیں سے تركی نامی حاكم نے بھی ھر مسجد میں دو امام جماعت مقرر كئے تھے جن میں سے پھلا عام نماز جماعت كے لئے هوتا تھا اور دوسرا ان لوگوں كے لئے جو كام وغیرہ كی وجہ سے اول وقت نماز جماعت میں شریك نہ هوسكیں، اس كا مطلب یہ تھا كہ كوئی انسان بھی نماز كو فرادیٰ نہ پڑھے اور سب كے سب نماز با جماعت پڑھیں۔ 65. البد رالطالع ج2 ص 6۔ 66. ابن الندیم ص 280،ابن خلكان ج3 ص258۔ 67. صفدی ج 6 ص 368۔ 68. الاسلام عقیدة وشریعة ص 94۔ 69. كتاب الایمان ص 293۔ 70. السیاسة الشرعیہ ص 129۔ 71. مجموعة الرسائل (الوصیة الكبریٰ) جلد اول ص 321۔ 72. فتح المجید ص 163۔ 73. حاج خلیفہ نے كتاب كا نام ”منھاج الاستقامہ“ لكھا ھے، (كشف الظنون ج2 ص1870) لیكن حقیقت یہ ھے كہ منھاج الكرامہ صحیح ھے، او رخود علامہ حلی نے مقدمہ میں فرمایا ھے : ”سمیتھا منھاجالكرامة فی معرفة الامامة“ حاج خلیفہ نے ابن تیمیہ كی كتاب منھاج السنة كی گفتگو كرتے هوئے اس كتاب كا نام ”منھاج الكرامة“ بیان كیا ھے۔ 74. سورہ انعام آیت 103۔ 75. منھاج السنہ ج2 ص 240تا278،او رالفتاوی الكبری ج5 ص 54۔ 76. سورہ طٰہ آیت5۔ 77. رسالة العقیدة الحمویہ، مجموعة الرسائل كے ضمن میں جلد اول ص 429 اوراس كے بعد۔ 78. سورہ قیامة آیت 22،23۔ 79. سورہ بقرہ آیت 223۔ 80. سورہ احزاب آیت 44۔ 81. سورہ كہف آیت 110۔ 82. توضیح المقاصد ج2 ص 573۔ 83. توضیح المقاصد ج2 ص 582۔ 84. الاسئلة والاجوبة الاصولیة علی العقیدة الواسطیہ، ص 198۔ 85. منھاج السنة ج2 ص 106۔ 86. جس سے اس كا مركب هونا لازم آتا ھے اور مركب اپنے اجزاء كا محتاج هوتا ھے، لہٰذا خداوندعالم جسم ركھنے میں اپنے دوسرے اعضاء كا محتاج هوا، اور جو محتاج هو وہ خدا نھیں هوسكتا، كیونكہ محتاج هونا بندہ كی صفت ھے خدا كی نھیں، اس كی صفت تو بے نیاز ی ھے،مترجم) 87. سورہ انعام آیت 103۔ منھاج الكرامہ ص 82(درمقدمہ جلد اول منھاج السنہ) 88. شرح تجریدالا عتقاد ص 281 89. لمع الادلہ فی عقائد اھل السنة والجماعة، تالیف امام الحرمین ص 94، 95، امام الحرمین كی بات تمام علماء كے لئے حجت ھے۔ 90. مقالات الاسلامین ابو الحسن اشعری ص233،271،290،340۔ ابن تیمیہ نے خدا كے دیدار كے بارے میں چند رسالے بھی لكھے ھیں،(ابن شاكر جلد اول ص 79 91. ابن تیمیہ كا بیان ھے كہ خداوندعالم آسمانوں كے اوپر رھتا ھے ،(العقیدة الحمویة الكبریٰ درضمن مجموعة الرسائل جلد اول ص 429)اور آسمان دنیا (آسمان اول پر) نیچے آتا ھے ۔ وہ اس بات كو ثابت كرنے كے لئے كہ خداوند عالم آسمانوں پر رھتا ھے اور عرش پر مستقر ھے (بطور حقیقی اوربغیر كسی تاویل وتفسیر كے) اور اس چیز كا جواب دیتے هوئے كہ خدا كے صفات كو كس طرح ظاھر پر حمل كیا جاسكتا ھے، جبكہ وہ تشبیہ كا بھی منكر ھے اور اس كا بھی قائل ھے كہ عورتیں بھی بہشت میں خداوندعالم كا دیدار كریں گی، اس نے اسی طرح كے مسائل پر چند رسالے تحریر كئے ھیں۔ (صفدی ج7ص25) 92. رحلہٴ ابن بطوطہ جلد اول ص 57،یہ تھی ابن بطوطہ كی باتیں، لیكن شیخ محمد بہجت البیطار ابن بطوطہ كی ان باتوں كا انكار كرتے هوئے كھتے ھیں كہ جس وقت ابن بطوطہ دمشق میں تھا ابن تیمیہ زندان میں تھا(حیاة ابن تیمیہ ص 36)لیكن یہ بات مسلم ھے كہ ابن بطوطہ 726ھ میں دمشق میں وارد هوا ھے اور ابن تیمیہ اسی سال قید هواھے اور ممكن ھے كہ ابن بطوطہ نے جو باتیں نقل كی ھیں ابن تیمیہ كے قید هونے كے بعد كی هوں۔ 93. العقیدة الواسطیہ، مجموعہ الرسائل الكبریٰ جلد اول ص 398۔ 94. منھاج السنہ ج2 ص 308،311۔ 95. ابن شاكر جلد اول ص 79، اس موقع پر ابن تیمیہ كی اس بات كو نقل كر ضروری ھے كہ، موصوف فرماتے ھیں كہ وہ جناب خضر جن كو حضرت موسیٰ ںكی مصاحبت ملی وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی بعثت سے قبل وفات پاچكے تھے،كیونكہ اگر زندہ هوتے تو ان كو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی خدمت میں حاضر هونا ضروری تھا، (مجموعہ الرسائل ج2ص66)،جبكہ صفدی كے مطابق جناب خضر نے احمد ابن حنبل (تیسری صدی كا درمیانی زمانہ) كے پاس ایك شخص كے ذریعہ پیغام پهونچایاتھا۔ (الوافی بالوفیات ج6ص 364) 96. كتاب الرد علی الاخنائی ص 27،28۔ 97. الجواب الباھر، تالیف ابن تیمیہ ،ص50۔ 98. الجواب الباھر ص 54،55۔ 99. الرد علی الاخنائی ص 54۔ یھاں پر اس نكتہ كی طرف اشارہ كرنا ضروری ھے كہ وھابیوں كے عقائد كی شرح كرتے هوئے ان احادیث كا ذكر آئے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر منور كی زیارت اور آپ كی وفات كے بعد آپ كی حیات طیبہ اور آپ كے علم سے متعلق ھیں ۔ 100. كتاب الرد علی الاخنائی ص 77۔ 101. درحالیكہ اھل سنت كے نزدیك احادیث كی صحیح ترین كتاب صحیح بخاری كے موٴلف نے خود فرمایا ھے كہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كے پاس بیٹھ كر تاریخ لكھی ھے۔ (ابو الفداء جلد 2ص 61) 102. فاسی، شفاء الغرام(ج2 ص 391) میں تحریر ھے: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبركا فرش لال سنگریزوںسے تھا۔ شوكانی كھتے ھیں: علماء كھتے ھیں كہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس وجہ سے كہ كھیں ان كی یا كسی دوسرے كی قبر كو مسجد كانہ قرار نہ دیں لوگوں كو منع فرمایا ھے كہ كھیں لوگ آپ كی تعظیم میں مبالغہ كی وجہ سے كفر میں مبتلا نہ هوجائیں، اور كھیں یہ تعظیم گذشتہ امتوں كی طرح باعث گمراھی و ضلالت نہ هوجائے۔ (نیل الاوطار ج2 ص 139) 103. فاسی، اسی طرح كھتے ھیں كہ حضرت عائشہ كے زمانہ میں لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی مٹی تبرك كے طور پر اٹھالیتے تھے، (شفاء الغرام ج2ص 391) 104. دروازے كے بند هونے كی علت كے بارے میں سمهودی كھتے ھیں: امام حسن ابن علی ں نے چونكہ وصیت كی تھی كہ ان كے جنازے كو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے پاس دفن كریںاور جب امام حسنں كا انتقال هوا، اور امام حسینں نےاپنے بھائی كی وصیت كے مطابق عمل كرنا چاھا تو ایك گروہ اس كام میں مانع هوا، اور امام حسینں سے جنگ كی، اسی وجہ سے عبد الملك بن مروان (یا كسی دوسرے خلیفہ) كے حكم سے اس حجرہ كو چاروں طرف سے بند كردیا گیا، (وفاء الوفاء جلد اول ص 388) لیكن امام حسنں كی شھادت اور خلافت عبد الملك كے درمیان جو فاصلہ ھے اس كے پیش نظر دروازہ كے بند هونے كی یہ وجہ معلوم نھیں كہ صحیح بھی هو، مگر یہ كہ دروازہ كو معاویہ كے حكم سے بند كیا گیا هو۔ 105. الجواب الباھر فی زوّار المقابر تالیف ابن تیمیہ ص 10- 13. 106. تاریخ طبری ج4 ص 2131(حلقہٴ اول) 107. شفاء الغرام ج2 ص391۔ 108. شفاء الغرام ج2 ص393۔ 109. وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ ج1ص 408۔ 110. آگ لگنے كی تفصیل وفاء الوفا جلد اول ص 427 میں موجود ھے۔ 111. رحلہٴ ابن جبیر ص 148 اوراس كے بعد۔ 112. وفاء الوفاء جلد اول ص 415۔ 113. وفاء الوفا ء بہ اخبار دار المصطفیٰ جلد اول ص 416۔ 114. وفاء الوفاء جلد اول ص 422۔ 115. وفاء الوفاء جلد اول ص 424، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كی پوشش كے بارے میں یہ كھا قابل ذكرھے كہ اس وقت بھی آپ كی قبر مطھر پر ایك ضخیم (بھاری)كپڑا پڑا هوا ھے، جس كو ضریح مبارك كی جالیوں سے دیكھا جاسكتا ھے ،گویا ملك سعود كے زمانہ سے دس پندرہ سال پھلے سے ھی یہ چادرپڑی هوئی تھی 116. ابن كثیر البدایة والنھایہ 38۔ ج14 ص 117. وفاء الوفاء جلد اول ص 435۔ 118. وفاء الوفاء جلد اول ص 441، اس وقت بھی روضہ مطھر كے دروازے بند ھیں اور صرف روضہ مبارك كی جالی نما چاروں طرف كی دیواروں كے ذریعہ اندر دیكھا جاسكتا ھے، لیكن چونكہ اندر اندھیرا ھے لہٰذا بھت ھی كم دكھائی پڑتا ھے۔ 119. نیل الاوطار ج2ص140۔ 120. وفاء الوفاء جلد اول ص 472، فتاوی الكبریٰ ج2 ص 33۔ 121. وفاء الوفاء جلد اول ص 385۔ 122. وفاء الوفاء ج2 ص 1402 سے۔ 124. كتاب الرد علی الاخنائی ص 99۔ 125. ابن قیم جوزی ،(ابن تیمیہ كا مشهور ومعروف شاگرد) كھتا ھے:قبور كے پاس نماز میت كے علاوہ دوسری نمازیں پڑھنا ممنوع ھے اور جائز نھیں ھے۔ (اعلام الموقعین ج2ص 347) 127. الرد علی الاخنائی ص 145 128. كتاب الجواب الباھر ابن تیمیہ كا ص 14 سے 19 تك كا خلاصہ۔ 129. كتاب الرد علی الاخنائی ص 13۔ 131. كتاب الرد علی الاخنائی ص 155۔ بعد میں زیارت كے سلسلہ میں مسند احمد حنبل میں ذكر شدہ روایات كی طرف اشارہ كیا جائے گا۔ 132. مجموعة الرسائل الكبریٰ ج2 ص59۔ 133. كتاب الردّ علی الاخنائی، ص 8، 34، 131۔ 134. ابن تیمیہ كھتے ھیں كہ اجماع سے میری مراد مخالف پر علم نہ هونا ھے نہ یہ كہ مخالف كی بالكل نفی كرنا۔ (الرد علی الاخنائی ص 195) 135. فوات الوفیات جلد اول ص 74۔ 136. الغدیر، ج5 ص 184 137. راحة الصدور ص 394، غزنویوں اور سلجوقیوں كے زمانہ میں شیعوں كو دشمنی كی وجہ سے عدالتی محكمہ میں نھیں ركھا جاتا تھا اور ان كو آل بویہ كی حكومت میں كسی عہدہ پر ركھنا گناہ سمجھا جاتا تھا، اس سلسلے میں كتاب آل بویہ اور تاریخ مذھبی قم میں تفصیل كے ساتھ واقعات موجود ھیں۔ 138. جولة فی ربوع شرق الادنی (مذكورہ مورخ كے سفر ناموں میں سے ایك سفر نامہ) ص 161۔ 139. ممكن ھے كہ ابن تیمیہ كی شیعوں سے شدید دشمنی كی ایك وجہ یہ بھی هو كہ ابن تیمیہ چونكہ ”دروزیوں“ (اسماعیلیوں كا ایك غلو كرنے والا فرقہ)كا سخت دشمن تھا، اور اس فرقہ كو شیعہ فرقوں میں شمار كرتا تھا، اور ”قلقشندی“(صبح الاعشی ج13 ص248) كے كہنے كے مطابق دروزیوں اور نصیروں سے جنگ كرنا ”اَرْمنیوں“ سے جنگ كرنے سے بھی زیادہ واجب ھے،ابن تیمیہ اور اس كے مریدوں كا گمان یہ تھا كہ دروزیوں نے شام ومصر پر مغلوں كے حملوں میں ان كا ساتھ دیا ھے لہٰذا وہ مغلوں كے ھمراہ و ھمراز ھیں۔ ابن تیمیہ نے نصیروں سے جنگ كے بارے میں تفصیلی فتویٰ صادر كیا ھے(الفتاوی الكبریٰ جلد اول ص358)، اور جیسا كہ معلوم ھے كہ ابن تیمیہ كے زمانہ میں نصیریوں نے قدرت حاصل كرلی تھی اور اپنے عقائد ونظریات كو كھلے عام لوگوں كے سامنے بیان كرتے تھے، چنانچہ مشهور مورخ ذھبی نے717ھ كے واقعات میں اس طرح لكھا كہ ایك جبلی شخص (حلب كے علاقہ جَبَلہ كی طرف منسوب) ظاھر هوا جو كبھی یہ كھتا تھا كہ میں محمد مصطفی هوں، اور كبھی یہ كھتا تھا كہ میں علی هوں، یھاں تك كہ كبھی یہ دعویٰ كرتا تھا كہ میں امام منتظرهوں، اور وہ تمام لوگوں كو كافر سمجھتا تھا، اور اس كے مرید كھتے تھے ”لا الہ الا علی“ اور لوگوں كا خون بھانا حلال سمجھتے تھے،نیز اسی طرح كی دوسری چیزیں اس سے صادر هوتی تھیں، (ذیل العبر ص 91) چنانچہابن تیمیہ نے ان تمام كاموں كو شیعوں كے كھاتے میں شمار كیاھے۔ 140. یھاں پر یہ كہناچاہئے كہ ابن تیمیہ چونكہ شیعوں سے بھت دشمنی اور عناد ركھتا تھااسی وجہ اس نے اپنی كتابوں میں شیعوں كے اصولی عقائد(حقیقی معنی میں) كو بیان كرنے كے بجائے ھر ان باطل عقائد اور كفر آور باتوں كو ان ملل ونحل كی كتابوں سے نقل كركے جو مختلف فرقوں كی طرف سے لكھی گئی تھیں، اور شاید جن كا اس وقت كوئی نام ونشان بھی باقی نہ هو، (البتہ مذكورہ كتابوں كے بارے میں بھی اختلاف موجود ھے) ان كو شیعوں كے عقائد كا حصہ بنا كر ذكر كیا ھے، اور اگر كسی نے اپنے شیخ یا پیر كے بارے میں چاھے وہ زندہ هویا مردہ كسی بھی طرح كی غلوكی بات كھی تو اس كو شیعوں كے عقائد میں شمار كرلیا، (اس سلسلہ میں منھاج السنة جلد اول كا پھلا حصہ اور جلد دوم كے آخری حصہ كی طرف رجوع فرمائیں)، جبكہ حق وانصاف كا تقاضا یہ تھا كہ شیعوں كے عقائد كو ان كی كلامی كتابوں منجملہ شرح تجرید عقائد ومنھاج الكرامة علامہ حلّی ۺ سے نقل كیا جاتا، (جبكہ ابن تیمیہ نے منھاج الكرامة كی رد كرتے هوئے شیعو ں پر حملوں میں كوئی كسر باقی نہ ركھی) چنانچہ اگر ان كتابوں میں اس طرح كی كوئی بات یا غلو هوتا توپھر اس كو یہ حق تھا كہ ان كو شیعہ كے حساب میں ركھتا۔ 141. جیسا كہ مشهور ھے كہ كلمہ رافضی جناب زید بن علی كے قیام كے وقت سے شیعوں پر اطلاق هوا ھے، معلوم نھیں كہ صحیح ھے بھی یانھیں،كیونكہ اس سے پھلے بھی یہ كلمہ شیعہ مخالفوں كی طرف سے شیعوں كے لئے كھا جاتا تھا۔ 142. بعض شیعہ محققین نے داستان عبد اللہ ابن سبا كو صرف ایك افسانہ او رمن گھڑت كھانی بتایا ھے اور خود اس كے وجود كو بھی جعلی كھاھے یعنی اس طرح كا كوئی آدمی تھا ھی نھیں، اس سلسلہ میں علامہ سید مرتضیٰ عسكری صاحب نے ایك تفصیلی كتاب تالیف كی ھے مزید آگاھی كے لئے مذكورہ كتاب كی طرف رجوع فرمائیں۔ 143. سورہ بقرہ آیت 97۔ 144. ”ہَلَكَ فِیَّ رَجُلانِ: مُحِبٌّ غَالْ، وَمُبْغِضٌ قَالْ“ (نہج البلاغہ كلمات قصار حضرت امیر الموٴمنین(ع) 145. كتاب ”الاسلام بین السنة والشیعہ جلد اول ص 98سے 112تك كاخلاصہ ،مذكورہ كتاب میں رفض اور رافضی كے بارے میں ایك تازہ بیان ھے لہٰذا ضروری ھے كہ اس سلسلے میںكافی دقت اور تحقیق هونا چاہئے۔ 146. عبد اللہ ابن سبا اور اس كے مریدوں سے مزید آگاھی كے لئے اور دوسرے غلو كرنے والے فرقوں كے بارے میں معلومات حاصل كرنے كے لئے ”الفَرقُ بین الفِرق“ ص 333، تالیف بغدادی كی طرف رجوع فرمائیں، اور عبد اللہ ابن سبا كا وجود ھی خیالی ھے اس بات كی تحقیق كے لئے علامہ عسكری دامت بركاتہ كی كتاب عبد اللہ ابن سبا نامی كتاب كی طرف رجوع كریں۔ 147. الفتاوی الكبری ج2ص 431۔ 148. الجواب الباھر ص 14،15، 22،25۔ 149. الجواب الباھر ص 14،15، 22،25۔ 150. الجواب الباھر ص 14،15، 22،25۔ 151. رحلہٴ ابن بطوطہ جلد اول ص 58۔ 152. الفتاوی الكبریٰ ج 2 ص 219۔ 153. الجواب الباھر، ص 45۔ 154. الرد علی الاخنائی ص 23، شاید یھی وجہ رھی هو كہ آج كل بقیع اور دوسرے قبرستانوں میں عورتوں كو جانے سے روكا جاتا ھے، صاحب فتح المجید كھتے ھیں (ص225) كہ عورتوں كے لئے قبور كی زیارت مستحب نھیں ھے محمد بن عبد الوھاب نے اپنی توحید نامی كتاب میں جناب ابن عباس ۻ سے یہ روایت نقل كی ھے جو عورتیں قبور كی زیارت كے لئے جاتی ھیں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان پر لعنت كی ھے۔ 155. الجواب الباھر ص 44،47،51۔ 156. الجواب الباھر ص 44،47،51۔ 157. الجواب الباھر ص 44،47،51۔ 158. كتاب الرد علی الاخنائی ص 30،31۔ 159. كتاب الرد علی الاخنائی ص 66۔ 160. كتاب الرد علی الاخنائی ص32۔ 161. البدایہ والنھایہ ج 14 ص 124۔ 162. ان میں سے احمد ابن حنبل كی پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ھے كہ آنحضرت نے فرمایا: ”نھیتكم عن زیارة القبور فزوروھا فان فی زیارتھا عظة وعبرة“(میں پھلے تم كو زیارت سے منع كرتا تھا لیكن اس وقت كھتا هوں كہ قبروں كی زیارت كے لئے جایا كرو كیونكہ قبور كی زیارت سے انسان كو پند او رنصیحت حاصل هوتی ھے) احمد ابن حنبل نے اس حدیث كو چند طریقوں سے نقل كیا، (مسند احمد ابن حنبل ج5 ص356، 357،359، اور ددوسرے چند مقامات پریہ حدیث نقل ھے) 163. موطاء ص 334، طبع دوم، مصر۔ 164. صحیح مسلم ج3 ص 65، سنن ابی داود ج3 ص 212۔ 165. شرح جامع صغیر، سیوطی ص 298۔ 166. فتح المجید ص 255۔ 167. شفاء الغرام ج 2 ص 397۔ 168. وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ ج4 ص1371 سے 1422تك۔ 169. الغدیر ج 5 ص109 ۔ اوراس كے بعد ۔ 170. المذاھب الاسلامیہ ص 343۔ 171. سنن ابن ماجہ جلد اول ص 500۔ 172. سنن ابن ماجہ جلد اول ص 501۔ 173. سخاوی حنفی ،كتاب ”تحفة الاحباب“ ص 4،5۔ 174. الخصائص الكبریٰ جلد اول ص 546،547۔ 175. سورہ احزاب آیت 24۔ 176. كتاب المغازی جلد اول ص 313،31 177. صحیح مسلم ج 3 ص 55، منجملہ یہ حدیث كہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایك میت كی قبر پر دفن هونے كے بعد نماز پڑھی اور چار تكبیریں كھیں اور دوسری روایت كے مطابق: آنحضرت (ص)ایك تازہ قبر كے پاس پهونچے اور اس پر نماز پڑھی اور اصحاب نے بھی آپ كے پیچھے صف باندھ لی ۔ 178. النھایہ ج 4 ص4 ۔ 179. نیل الاوطار جلد اول ص 136۔ 180. موطاء ابن مالك ص 112،113۔ اس حدیث كو بخاری نے بھی نقل كیا ھے ۔ 181. فتح المجید ص 373۔ 182. مسند احمد، جلد اول ص41،42، مسند عمر، وصحیح بخاری ج2 ص 79۔ 183. منتقی الاخبار، تالیف ابن تیمیہ حنبلی (ابن تیمیہ كے دادا) ھمراہ نیل الاوطار، شوكانی ج4 ص 161۔ 184. صحیح بخاری ج2 ص 96۔ 185. ابن عبد البر، كتاب استیعاب جلد اول ص 274۔ 186. مغازی واقدی جلد اول ص 290،” اِذَا بَكَتْ صَفِیِّةُ یَبْكٰی، وَاِذَا نَشَجَتْ یَنْشَجْ“ 187. استیعاب جلد اول ص212۔ 188. مسند احمد ابن حنبل ج2 ص 40، نُویری كھتے ھیں كہ جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انصار كو اپنے شھیدوں پر روتے دیكھا تو آپ نے بھی گریہ كیا اور كھا كہ جناب حمزہ پر كوئی رونے والی نھیں ھے (نھایة الارب ج 17 ص 110) 189. سیرة النبی ج 3 ص 50، تاریخ طبری جلد 3 ص 1425، حدیث 1۔ 190. تاریخ طبری ج4 ص 2131، 2132،(حلقہ اول) 191. المغازی جلد اول ص 329،330،دیار بكری كابیان ھے كہ جناب حمزہ پر نوحہ وگریہ كے بعد سے پیغمبر اكرمنے رونے سے منع كردیا، دوسرے روز انصار كی عورتیں آپ كی خدمت میں آئیں اور كھا كہ ھم نے سنا ھے كہ آپ نے رونے سے منع فرمایا ھے جبكہ ھمیں اپنے مردوں پر رونے سے سكون وآرام كا احساس هوتا ھے، تب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جب تم نوحہ وگریہ كرو تو اپنے چھروں پر طمانچہ نہ مارو اور اپنے چھروں كو نہ نوچو اور اپنے سروں كو نہ منڈواؤ او راپنے گریبان چاك نہ كرو، (تاریخ الخمیس جلد اول ص 444) 192. سورہ انعام آیت 164۔ 193. جملہ سورہ والنجم آیت 44 سے اقتباس ھے۔ <وانّہ ھُوَاضحك واٴبٰكی>،اور یہ كہ اس نے ہنسایا بھی ھے اور رلایا بھی ھے) 194. كتاب الاُمّ شافعی ج8 ص 537۔ 195. الجواب الباھر ص 22۔ 196. الرد علی الاخنائی ص 164، والفتاویٰ الكبریٰ جلد اول ص 351۔ 197. اعلام الموقعین ج4 ص 403۔ 198. كشف الارتیاب ص 330۔ 199. كشف الارتیاب ص 336۔ 200. كشف الارتیاب ص 342۔ 201. الرد علی الاخنائی ص 57۔ 202. الرد علی الاخنائی 59۔ 203. الجواب الباھر فی زوار المقابر ص 37، 38۔ 204. كتاب الرد علی الاخنائی ص 159، صاحب فتح المجید كھتے ھیں (ص 499) بعض لوگ جو قبور كا حج كرتے ھیں اپنے حج كو كامل كرنے كے لئے تقصیر كرتے ھیں اور اپنا سر منڈواتے ھیں، لیكن موصوف نے بھی یہ نھیں بیان كیا كہ یہ كون لوگ ھیں كس فرقہ سے تعلق ركھتے ھیں اور كھاں كے رہنے والے ھیں۔ 205. تاریخ یعقوبی ج2 ص 261۔ 206. سفر نامہ ناصرخسرو، ص 24۔ 207. احسن التقاسیم ص 122۔ 208. ھلی جنگ عظیم تك شام كا علاقہ میں سوریہ لبنان اور فلسطین بھی شامل تھے، یہ تینوں ملك پھلی جنگ عظیم كے بعد الگ الگ هوئے ھیں۔ 209. الجواب الباھر ص 83۔ 210. الرد علی الاخنائی ص 56۔ 211. الجواب الباھر ص 38، 39۔ 212.الرد علی الاخنائی ص 99۔ 213. الفتاویٰ الكبریٰ ج 2 ص 33۔ 214. الفتاویٰ الكبریٰ جلد اول ص 131۔ 215. الجواب الباھر ص 50۔ 216. الرد علی الاخنائی ص 59، ابن تیمیہ نے ایك دوسری جگہ كھا ھے كہ اگر كوئی شخص كسی مُردے كو پكارے تو پھلے اس كو توبہ كرائی جائے اوراگر توبہ قبول نہ كرے تو اس كی گردن اڑادی جائے، (مجموعة الرسائل جلد اول ص 315) 217. وفاء الوفاء ج4 ص 1371۔ 218. صحیح بخاری ج2 ص 33۔ 220. چونكہ جناب فاطمہ بنت اسد نے بچپن میں پیغمبر اكرمكوپالا تھا اور ان كی دیكھ بھال كی تھی لہٰذا آنحضرت آپ كو ماں كہہ كر پكارتے تھے۔ 221. اقتباس از كتاب شواہد الحق فی الاستغاثہ بسید الخلق، تالیف شیخ یوسف نبھانی،بیروت میں حقوق كے محكمہٴ عالی كے سابق رئیس، ص 139تا 154۔ 222. الفتاوی الكبریٰ جلد اول ص 197۔ 223. الفتاوی الكبریٰ جلد 2 ص 227۔ 224. لفتاوی الكبریٰ جلد اول ص 208۔ 225. الجواب الباھر ص 41۔ 226. الفتاوی الكبریٰ جلد اول ص 219،اس سلسلہ میں مزید وضاحت ”وھابیوں كے عقائد“ كے بارے میں بیان هوگی، انشاء اللہ۔ 227. الفتاوی الكبریٰ جلد اول ص 219،اس سلسلہ میں مزید وضاحت ”وھابیوں كے عقائد“ كے بارے میں بیان هوگی، انشاء اللہ۔ 228. جزیرة العرب فی القرن العشرین، ص 231، 232۔ 229. البدرالطالع جلد اول ص 479و ج2 ص 214۔ 230. اس زمانہ كا دستور یہ تھا كہ بچوں كے لئے اس طرح كی كتابوں كو حفظ كرنا ضروری تھا ،چاھے اس كے معنی سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ 231. شوكانی كا اپنے باپ كے بارے میں كہناھے كہ وہ اپنی زندگی كے تمام حالات میں سلف صالح كے راستہ پر چلے ھیں۔ 232. شوكانی كی سوانح حیات نیل الاوطار كی نویں جلد كے آخر میں موجود ھے۔ 233. نیل الاوطار جلد اول ص 370۔ 234. ارشاد الفحول ص 22،23۔ 234 235. مُشَبِّہَہ“اس گروہ كو كھتے ھیں كہ جنھوں نے خدا كو انسان كی مانند اور شبیہ مانا ھے، صاحب ”بیان الادیان“ نے اس فرقہ كی دس قسمیں بیان كی ھیں. 237. ارشاد الفحول ص 176، ابن تیمیہ اور وھابیوں كا نظریہ بھی یھی ھے۔ 238. ارشاد الفحول ص 284، وھابیوں او رایك دوسرے گروہ كے علاوہ تمام ھی فرقے اصل اباحت كو قبول كرتے ھیں، اصل اباحت كا مطلب یہ ھے كہ اگر كسی چیز كے منع كے بارے میں كوئی آیت یا حدیث نہ هو تو وہ كام مباح اور جائز ھے، اور اصل منع یہ ھے كہ جب تك كسی چیز كے بارے میں جواز ثابت نہ هوجائے اس وقت تك وہ ممنوع ھے۔ 239. یھاں سورہ نحل كی آیت 51،اور سورہ مائدہ كی آیت نمبر 73 كی طرف اشارہ ھے۔ 240. نیل الاوطار ج4 ص 131،132۔ |